پاکستان میں فیس بک کے غلط استعمال کی شرح میں خطرناک اضافہ..........

07:25 Unknown 0 Comments


سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خصوصاً فیس بک موجودہ عہد میں مفید اطلاعات کے پھیلاﺅ، تفریح اور علم کے حصول کے لیے موثر ذریعہ بن چکی ہے، مگر ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے،تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کررہے ہیں۔

چند سال قبل جب فیس بک صارفین کی تعداد محدود تھی تو اسے تاریخی، کارآمد اور دلچسپ اطلاعات اور تصاویر کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا مگر اب صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
فیس بک صارفین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور متعدد افراد کے مختلف ناموں کے ساتھ ایک سے زیادہ اکاﺅنٹس ہیں، یہ فرضی فیس بک اکاﺅنٹس اکثر منفی سرگرمیوں جیسے بلیک میلنگ اور پروپگینڈہ وغیرہ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ماہرین کے خیال میں بیشتر نوجوانوں کے لیے فرضی ناموں کا استعمال کشش رکھتا ہے جبکہ لڑکیوں کی فرضی تصاویر کے ذریعے انہیں تیز اور بہت زیادہ توجہ ملتی ہے۔
فیس بک ہر ایک کے لیے ہائیڈ پارک بن چکا ہے جہاں کوئی بھی اپنی پسند کی زبان استعمال کرسکتا ہے، کئی بار کوئی صارف معروف شخصیات جن میں زیادہ تر سیاستدان ہوتے ہیں، کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرتا ہے، یہاں تصاویر اپ لوڈ کرنے، تحریر اور کمنٹس پوسٹ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔

سیاسی ورکرز فیس بک پر بہت زیادہ متحرک نظر آتے ہیں جو اس سائٹ کو عام طور پر پروپگینڈہ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس صورتحال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ لوگوں کی جانب سے سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں کی بے عزتی کے لیے مضحکہ خیز فرضی تصاویر کو اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
ان رہنماﺅں کی تصاویر کو لڑکیوں کے ساتھ مختلف پوز میں ایڈٹ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی شخصیت پر دھبہ لگانے کے لیے انہیں عوام کے لیے اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔

سیاسی ورکرز خاص طور پر خواتین کی تصاویر کو فوٹو شاپ میں جسمانی ساخت کو تبدیل کرکے عجیب کیپشنز کے ساتھ پوسٹ کی جاتی ہیں، فیس بک کے بیشتر صارفین اب اس پورے عمل سے کافی واقف ہوچکے ہیں اور وہ جاننے لگے ہین کہ لوگ اس سائٹ کو پروپگینڈہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

فیس بک کے صارفین تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں، مگر وہ منفی سرگرمیوں میں بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور نہ صرف اس طاقتور پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں بھی کوئی اچھائی نہیں پھیلا رہے۔
طاقتور سوشل میڈیا کا غلط استعمال انتشار کا سبب بنتا ہے کیونکہ فرضی اکاﺅنٹس کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔

متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور یہاں تک کہ ججز نے فیس بک اکاﺅنٹس ہونے کی تردید کی ہے مگر ان کے نام کی آئی ڈیز سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ قابل اعتراض مواد سامنے آنے کے بعد بیشتر شخصیات کو اپنی صفائی پیش کرنا پڑ جاتی ہے۔
دیگر افراد کی ٹائم لائن پر تصاویر ٹیگ کرنا ایک اور سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ کئی بار کوئی صارف قابل نفرت فوٹوز اور مواد دیگر شخص کی مرضی کے بغیر ٹیگ کردیتا ہے۔

غیرمصدقہ اور غیر مستند قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شیئر کرنا بہت عام ہے اور لوگ انہیں ڈاﺅن لوڈ کرکے ان کے پرنٹ نکال کر استعمال بھی کرتے ہیں مگر کوئی بھی اس چیز کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ اس کی تصدیق کسی مذہبی عالم سے کرالے۔

ایک سرکاری کالج کی طالبہ ماہ نور علی کا کہنا ہے" مجھے نہ صرف فیس بک بلکہ اخبارات اور ٹیلیویژن پر تشدد سے متاثرہ افراد کی خونریز تصاویر دیکھنے سے نفرت ہے،میڈیا کو اس طرح کے مواد کو دکھانے پر پابندی لگادینی چاہئے، جو معاشرے کو دہشت زدہ کردیتا ہے"۔

اسی طرح اسلامیہ کالج پشاور کے طالبعلم محمد اظہار علی شاہ بھی کہتے ہیں لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کی فرضی تصاویر کا استعمال عام معمول بن چکا ہے، جو کسی مہذب اور باشعور شخص کو زیب نہیں دیتا۔

اس کا اصرار ہے کہ طالبعلموں کو اس قابل قدر پلیٹ فارم کو مذموم مقاصد کی بجائے ایسی عام معلومات، تدریسی اور تاریخی مواد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔

محمد اظہار نے سوشل میڈیا پر غیراخلاقی مواد کو ٹیگ کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر فیس بک صارفین نوجوان طالبعلم ہیں، جنھیں اسے لوگوں کو بہکانے کے لےے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

اس کا کہنا تھا"ہر صارف کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کو خاندان بھی استعمال کرتے ہیں اور غیرمعیاری مواد کو اپ لوڈ کرنا غیراخلاقی کام ہے، جس پر حکومت کے متعلقہ اداروں کو نظر رکھنی چاہئے۔
ایک آئی ٹی ماہر نے بتایا کہ بے کار مواد کے استعمال پر پابندی لگائی جانی چاہئے جو عام صارف کو بہکانے کا سبب بنتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال نے لوگوں کی زندگیوں کو غیرضروری ویڈیوز اور تصاویر کی بدولت قابل رحم بنادیا ہے۔
اس نے کہا"کسی کو بھی عام صورتحال میں دیگر افراد کی پرائیویسی میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ کسی شخص کی زندگی کے کسی غیرمعمولی لمحے کی تصویر کو سوشل میڈیا تک پہنچنے میں کوئی وقت نہیں لگتا"۔
اس ماہر کا مزید کہنا تھا کہ فیس بک کے بیشتر صارفین کے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ دوست ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ضرورت کے وقت کام نہیں آتا" وہ صرف سالگراﺅںپر پیغامات بھیجتے ہیں اور نئے مواد اپ لوڈ کرنے پر کمنٹس ہی کرتے ہیں"۔

آئی ٹی ماہر کے مطابق نوجوانوں نے اپنی زندگیاں فیس بک اور ٹوئیٹر کے لیے صرف کردی ہیں اور رات کو سونے کی بجائے اس طرح کی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
اس نے کہا کہ طالبعلموں کے اندر کلاس رومز میں ویڈیو بنانے اور اسے اپ لوڈ کرنے کی عادت والدین اور اساتذہ کے لیے حیرت کا باعث بنتی ہے، ہر تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو موبائل فونز اور ڈیجیٹیل کیمروں کے غلط استعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔

ماہر کا کہنا تھا کہ فرضی آئی ڈی بنانے والے صارفین کے مقامات کو ڈھونڈا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز یونٹس کو بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔ اس نے آئی ڈیز کی حقیقت پر نظر رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر نظر نہ رکھی جائے تو یہ لوگوں کے قتل کا باعث بھی سکتا ہے۔
آئی ٹی ماہر کے مطابق" یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا کو اپنے قابل نفرت مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ لڑکیوں کو چیٹ کے ذریعے ورغلاتے ہیں، ان کے فون نمبرز لے کر اپنے ذہن میں موجود بیمار ذہنیت کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں"۔

ایک اسپورٹس صحافی عظمت اللہ خان نے اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ فیس بک علم کے خزانے کی طرح ہے مگر نوجوانوں کی جانب سے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں سیکھائے کہ کس طرح سوشل میڈیا کو علم کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ایک اور صحافی انیلہ شاہین نے فیس بک کو ہر ایک تک اطلاعات کی رسائی کے لیے مفید ذریعے قرار دیا، جہاں ہر اس فرد کو اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کا موقع ملتا ہے جو ٹیلیویژن اور اخبارات میں ایسا نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مفت اور موثر پلیٹ فارم ہے" پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے توہین آمیز اور بدنام کرنے والے بیانات کو جگہ نہیں ملتی مگر فیس بک پر ہر کوئی اپنے جذبات کے اظہار کے لیے آسانی سے سخت الفاظ کو پوسٹ کردیتا ہے"۔

انیلہ شاہین نے کہا کہ کئی بار تعلیم یافتہ افراد بھی فیس بک کو انتہائی غیرمعیاری وماد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ قابل اعتراض مواد کو اپ لوڈ کرنے پر کچھ پابندیاں عائد ہونی چاہئے کیونکہ اس سے معاشرے میں معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ایک اور آئی ماہر سگتین علی کا کہنا تھا" میں سوشل میڈیا کا استعمال اکثر گیمز کھیلنے کے لیے کرتا ہوں"۔

اس نے بتایا کہ جو لوگ اس سائٹ کے استعمال کو روزانہ کی بنیاد پراس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے انہیں اس پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہو اور وہ پیسے دیئے جارہے ہوں۔
ایف آئی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر عمران شاہد نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ سائبر کرائمز یونٹ اس طرح کے پلیٹ فارمز کے استعمال پر نظر رکھنے کے لیے کام کررہا ہے اور عوامی شکایات پر اقدام بھی کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا"ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کے حوالے سے بیشتر افراد کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، جو کہ انٹرنیٹ اور فیس بک پر موثر طریقے سے غیرمطلوب اور تضحیک آمیز مواد کی روک تھام کے لیے کام کررہا ہے، یہ یونٹ کسی بھی آئی ڈی کے حامل فرد کو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے"۔
عمران شاہد نے بتایا کہ شعور نہ ہونے کے باعث لوگ اپنی شکایات پولیس کے پاس درج کراتے ہیں مگر یہ پولیس کی ذمہ داری نہیں، کیونکہ صرف ایف آئی اے کے پاس ہی غیرضروری مواد پر نظراور بلاک کرنے کی سہولت موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی سمیت متعلقہ اداروں یہاں تک کہ یاہو اور گوگل تک سے بھی مدد لی جاتی ہے۔

0 comments:

When failure is victory

00:20 Unknown 0 Comments


TO understand them, there’s just two dates you need to know: 1971 and 1977. In 1971, the Pakistan Army contrived to lose half of Pakistan. In 1977, the Pakistan Army was back running Pakistan. Six years was all it took. And if 1971-1977 happened, what’s 2008-2014? Nawaz didn’t stand a chance. But Nawaz has also helped write his political obituary. Twice now he’s been called a liar. First, it was the Musharraf promise: the boys let it be known that Nawaz had reneged on his government’s promise to indict and then allow Musharraf to leave the country.

Maybe the Musharraf promise had been made or maybe it hadn’t. What was alarming was that the boys were quietly letting it be known that they thought they had a deal and the PM double-crossed them. In essence, the boys were accusing the PM of being a dishonourable man. That’s a perception — correct or incorrect, right or wrong — that you don’t want the boys to have. It explains what came this week. Briefly, Nawaz himself tried to shift perceptions, to collar Imran and Qadri and stick them in next to the boys.

Immediately, the boys hit back. This time there were no leaks, no background chatter, no carefully sown doubts. Sorry, Prime Minister, you’re a liar — it was direct, it was blunt and it’s devastating. You have to wonder if a third time will be necessary. Why would Nawaz do it? Even if he’s right — he hasn’t lied — and they’re wrong, why would he so casually let such poison flow so freely in so vital a relationship?

Take your pick. He doesn’t care. He doesn’t know better. Or he thinks it will work. None of them really make sense. It also doesn’t matter. The mandate was already dead. Now, Nawaz will survive on sufferance — their sufferance. You don’t make them out to be liars and stay in control of your destiny. The other thing you don’t do is call them out on their lies.

Nawaz knows plenty of their lies. As does anyone who’s dealt with the boys and dealt with people who’ve had to suffer the boys. Stories, apocryphal and true, suffice. Just this term, Nawaz has caught them twice. Once, he was told the Taliban were lying, that there were no non-combatant captives. Then the Achakzai line to Karzai was opened to get the real story from the other side. Nawaz knew he was being dissembled with.

How strong are they? Nawaz knows. He once told the story of the other Pakistan, the one they contrived to lose in 1971. Nawaz went there, some years ago, and met all the big guns, the fearsome political rivals and the boys in charge there. Each one of them complained about interference and those three letters: I.S.I.
Isn’t it extraordinary? Bitter rivals they are over there, opposing camps, fiercely divided — and yet all speak about our boys and all say the same thing.

Playing all sides against each other in faraway Bangladesh? You’d think everyone has forgotten about Bangladesh, or would like to forget. But that’s our boys: they never forget. It doesn’t take much to figure out what they can do with home advantage. So many sides, so many angles, so many games, so many Qadris and Imrans — always one bottom line: they stay strong; everyone else stays weak.

But Nawaz keeps quiet. As did Zardari. As do all the civilians. Because to call them out is to invoke a wrath that can bring all your skeletons tumbling out. And you don’t want your skeletons to come tumbling out.
Where to now? The transition has ruptured. If that wasn’t dismal enough, there’s no one on the horizon who can help put it back on track. So now we have to go big, to look at epochs and what makes them. There’s two that matter so far.

The boys and their system were forged in the first decade of this country’s existence. Ayesha Jalal in The State of Martial Rule has explained it more convincingly and eloquently than anyone else: in the shadow of the Cold War and in combination with regional and domestic factors, the structure of the Pakistani state was forged. That’s the edifice, that’s the system, that’s the boys and what makes the boys the boys. But the boys are in denial. There is a second epoch. Fast forward to the late 1970s. Three events in quick succession, the meaning and combined effects of which the country has yet to figure out: Zia and his Islamisation; the Shia-Sunni schism reignited by revolution just when petro-dollars were coming into their own; and the Soviets wading into Afghanistan.

The civilians haven’t been allowed to grow, but events — blessed, cursed, events — have grown. Everything the boys are contending with, the big changes they have been forced into stem from those events. See, one hundred and seventy five thousand troops in Fata fighting Islamist militants. So change is here, we’re already living it and the boys are struggling to cope. Which means, eventually, either they’ll have to make choices or events will make the choice for them. When the rupture does come though — when things break apart — it may not be the civilians who will get to collect the pieces and put Pakistan back together; it could be something far uglier.

But that’s the risk. Because Zardari failed, Nawaz is failing and Imran is a failure. But, most of all, because the boys think failure is victory. That’s what got them from 1971 to 1977. And that’s what’s got them from 2008 to 2014.

By Cyril Almeida

0 comments:

اسلام آباد میدان جنگ بن گیا

23:43 Unknown 0 Comments

 



 







0 comments:

Clashes as PTI 'Azadi' March Advances on Islamabad ...

12:06 Unknown 0 Comments

Pakistani opposition supporters carry a wounded protester following clashes with security forces near the prime minister's residence in Islamabad. Police in Pakistan's capital Islamabad fired tear gas on anti-government protesters attempting to storm Prime Minister Nawaz Sharif's official residence in a bid to force his resignation. — AFP PHOTO



0 comments:

Three steps to achieve a lasting truce in Israel and Gaza

01:04 Unknown 0 Comments


We have seen, over and over again ceasefires dissipate in the dust of renewed bombings. Here are three basic human rights which must not be neglected if there is to be any hope for a just and sustainable peace. The newly brokered truce between Israel and the Palestinians will be meaningless if it is not built solidly upon human rights, which must be at the heart of any attempt to stop the cycle of war crimes and other gross violations recurring incessantly. Without such a foundation, Palestinians and Israelis will continue to suffer. 

The right to life 

In 50 days of conflict, more than 2,100 Palestinians have been killed, most of them civilians. Nearly 500 of them were children. Many, perhaps most, of them were killed unlawfully, in attacks that violated international humanitarian law (the laws of war). Israel has levelled houses and bombed and shelled built up residential areas, apparently targeting militants, as though civilian lives and homes were irrelevant. At the same time, of the 70 killed on the Israeli side, six have been civilians, including one child. These civilians were killed by Palestinian armed groups firing indiscriminate rockets and other weapons into civilian areas, in violation of the laws of war.

The right to freedom of movement and an adequate standard of living 

If we want to understand this conflict we have to look at its background. For years Israel has imposed a blockade on Gaza, controlling the goods allowed to enter or leave the strip. After 2007 when Hamas gained control the Israeli blockade tightened to the point that it amounted to collective punishment. Enough has been allowed through for the Gazans to survive - but only just. 

The 1.8 million Palestinians trapped in Gaza suffer shortages in fuel and electricity; at least a third are without clean water because Israel has blocked entry of sufficient fuel and the spare parts to repair damaged sewage works. Fishermen are restricted to a three-mile zone (widening it is one of the measures mentioned in the terms of the ceasefire) and there have been heavy restrictions on the import of raw materials and cement. There are also bans on the export of farming produce. 

Israeli restrictions on movement have meant that even Palestinians needing urgent medical treatment outside the Gaza Strip have often been prevented from leaving. Some 80 percent of the population is now dependant on barely sufficient humanitarian aid. The blockade MUST be lifted and the passage of necessities and people allowed.

Justice for war crimes committed by both sides during the conflict 

This is not only important for Gaza and Israel but also for the world. In this age of conflict, where the principle that civilians must be spared is at best callously disregarded and all too often deliberately flouted, we cannot allow the perpetrators of war crimes and crimes against humanity to go unpunished. During the latest conflict Israel did not allow Amnesty International or Human Rights Watch into Gaza; let us see if delegations from international human rights organisations are allowed to enter now that a truce is underway.

In July, the UN Human Rights Council set up a Commission of Inquiry to investigate all violations of international humanitarian law and human rights law. The purpose of this commission's investigation is to end impunity and ensure that those responsible are brought to justice. The commissioners should have the resources of experts, including military ones, and be allowed to go everywhere and see everything. 

If they had been implemented, the recommendations of the UN Fact-Finding Mission set up in the wake of the 2009 Gaza conflict might have prevented further unlawful killings and destruction in Gaza. When will international leaders learn sidelining human rights cannot bring about a just, sustainable peace? 

Let the words of the Universal Declaration of Human Rights, adopted in 1948 after the horrors and genocide of the Second World War, still move us. In its preamble it said: "Disregard and contempt for human rights have resulted in barbarous acts which have outraged the conscience of mankind."

The whole system of international justice set up in the decades after World War II will become a dead letter if people's consciences are no longer outraged by the crimes committed in wartime as in peace. If violations of the laws of war are accepted by an international community which prefers to sweep the past under the carpet, in every war civilians will remain the first target and the next war in Gaza/Israel may well come soon and be even more deadly. It is now the time to put human rights at the heart of any peacemaking process. 

Philip Luther is Director of the Middle East and North Africa Programme at Amnesty International. 




0 comments:

What are major problems in Pakistan

00:49 Unknown 0 Comments



The survey by the Pew Research Centre, which was partly released earlier this week, also shows that the price-hike has replaced energy shortage as the country’s number one problem. As many as 97 per cent of Pakistanis see rising prices as their number one problem while 90pc people still say it is the shortage of electricity.
The public opinion poll, taken in April and May this year, found that the United States and India, while wildly unpopular in Pakistan, earned higher favourability ratings than either Al Qaeda or the Taliban. Just 12pc of Pakistanis view Al Qaeda favourably while only 8pc say the same thing about the Taliban. Fourteen per cent Pakistani view the United States favourably and 13pc like India. The favourable view of the United States, although low, marks a 3pce increase from 2013, when only 11pc held a favourable view of the US.

The surveyors also discovered that unfavourable view of the United States had declined sharply in recent years, from a high of 80pc in 2012 to 59pc this year. This was 72pc in 2013. India too remains unpopular in Pakistan, with 71pc of respondents expressing an unfavourable view of it compared with 13pc holding a positive view. While extremely low, this 13pc rating still ranks India higher than either Al Qaeda or the Taliban. Still, Pakistanis continue to view India as a greater threat to their nation than either the Taliban or Al Qaeda. When asked which of the three groups posed the greatest threat to Pakistan, a slight majority (51pc) said that India did, compared with 25pc who answered with the Taliban and 2pc who said Al Qaeda.

In a separate survey of national priorities in Pakistan, 90pc also identified lack of jobs as the problem number one confronting Pakistan while 87pc saw the rising crime rate as their major concern. An overwhelming majority – 76pc – described the increasing rich-poor gap as the country’s number one problem. For 62pc, it is lack of health facilities and for 59pc it is the country’s corrupt leadership. Public debt is the most pressing problem for 58pc and for 57pc; it’s poor quality schooling.

Food safety comes after schooling with 52pc, followed by bad traffic, 52pc. Air pollution is a major problem for 40pc and water pollution is for 39pc. Thirty-nine per cent Pakistanis are concerned about Shia-Sunni tensions and 28pc about the situation in Afghanistan. The Indian influence in Afghanistan is a concern for 26pc.

Published in Dawn, August 30th, 2014

0 comments:

’جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو روکا جائے‘.....End enforced disappearances in Pakistan..

00:25 Unknown 0 Comments


انٹرنیشنل کمشین آف جیورسٹس، ایمنسٹی انٹریشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ ملک بھر میں ریاستی اداروں کے ذریعے اغوا ہونے والے افراد کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کے ناپسندیدہ عمل کو روکنے کے اقدامات کرے۔

ان اداروں کی جانب سے یہ اپیل ایسے وقت کی گئی ہے جب دنیا میں جبری طور 
پر لاپتہ ہونے والوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے سنہ 2013 میں جبری طور پر لاپتہ ہونے 
افراد سے انصاف کرنے کے بارے میں دی جانے والی واضح ہدایات اور اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیوں کی سنہ 2012 میں دی جانے والی سفارشات کے باوجود پاکستان کی حکومت نے بین لاقوامی قانون اور آئینِ پاکستان کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بہت کم کام کیا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق ان تین بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے، ان جرائم کو مرتکب کرنے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی تلافی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ان تین اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے تحفظِ پاکستان بِل سنہ 2014 پاس کیا جو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کی نامعلوم مقامات پر حراست کو درست اور اس میں ملوث سرکاری ایجنٹوں کو استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔
 
حکومتِ پاکستان نے تحفظِ پاکستان بِل سنہ 2014 پاس کیا جو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کی نامعلوم مقامات پر حراست کو درست اور اس میں ملوث سرکاری ایجنٹوں کو استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔"

بین الاقوامی تنظیمیں

ان تین اداروں کے مطابق یہ اقدامات انصاف کو یقینی بنانے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی پر شدید شکوک و شبہات ڈالتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں جبری گمشدگیوں کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان میں سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو جبری طور پر اغوا کرنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اکثر افراد کو مار دیا جاتا ہے اور ان کے جسموں پر تشدد اور گولیوں کے نشانات پائے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے شروع میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک عینی شاہد زاہد بلوچ کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے میبنہ طور پر اغوا کیا تھا جو جبری گمشدگیوں کے ان واقعات پر مبینہ طور پر ملوث ہے۔
گمشدہ افراد کے رشتہ داروں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان افراد کی رہائی کے لیے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے احتجاج اور اپیلوں کے باوجود، حکام ان کے اغوا کی شفاف تحقیقات کرنے اور ان جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹرے میں لانے کے لیے میں ناکام رہے ہیں۔

End enforced disappearances in Pakistan

0 comments:

Netanyahu's miscalculation: Bullish or foolish

11:15 Unknown 0 Comments



Israeli and Palestinian claims of victory after 50 days of fighting in Gaza are part politics, part populist. Putting a brave face on an ugly war is necessary to cover up the terrible losses both sides have incurred. But these losses are not the same for both sides. In fact, it's the contrast between their losses that in essence defines the war and its results. On the one hand, Israel has seen its most precious strategic achievement since independence - its military deterrence - diminish during this war. And clearly, it was shocked by Hamas' tenacity and the creativity of its rather limited means.

Simply put, Israel cannot scare the Palestinians into submission through the threat of devastating use of force or massive retaliation, nor can it stop them from retaliating deep inside Israel. This is the closest thing to a "balance of terror" that's achievable under military occupation. Despite its superior firepower and its sophisticated missile defence system, rockets lobbed from Gaza paralysed Israel's southern communities, and its central and coastal plains were targeted for the first time from the strip. Likewise, when Israel attempted a limited invasion of Gaza, the better-prepared Hamas fighters outmanoeuvred its highly trained army and killed scores of them.

On the other side, Palestinians suffered great human, civic and economic losses; more than 2,000 casualties, mostly civilian, tens of thousands of houses and businesses were destroyed, and over 100,000 rendered homeless yet again. One wonders how many times a Palestinian refugee will be displaced. Behind the images of defiance coming out of Gaza, plenty of tears and blood have been shed and will most probably continue to be shed. As the Palestinians begin to take stock of the death and destruction, they are likely to be as angry as they are hurting.

Civic vs strategic

The contrast here is paramount, because at the end of the day, for Israel, the loss is primarily strategic, while for the Palestinians it's mostly civic and humane. The terror of Israel's so-called "war on terror" has surpassed anything we've seen in previous wars. It flies in the face of any and all Israeli claims of a "clean fight". Of course, Israel was careful to blame Hamas for the human suffering in Gaza, accusing the Palestinian movement of using civilians as human shields. But not only has this been proven largely false and unsubstantiated, the intensification of bombardment over the last few days of fighting revealed the true aim of Israel's strategy: causing great damage and suffering to the people in order to exact concessions from their leaders. These are war crimes by any standard.

While this does not excuse or justify Hamas' random or not so random lobbing of rockets on Israeli towns, Israel couldn't expect any less considering its offensive firepower. Unconventional fighting between occupier and occupied cannot be judged by conventional standards of war. Nor should its results. It's meaningless for Israel to boast of winning another war against Gaza - a third in six years; or of triumphing, yet again, against Hamas, when the latter seems to grow stronger and more popular with every war.

How many victories has Israel achieved since 1948 on the long path of more conquest; how many more will it fight until it realises it can't win if Palestine refuses to lose or to go away! Clearly, Israel has not learnt the primary lesson of asymmetrical wars. Namely, the strong is bound to become weak when fighting the weak for long. States make wars to achieve favourable peace. But Israel, which has already been recognised over 78 percent of historic Palestine, continues to fight wars as a way of crisis management; a way to gain time when time is anything but on its side. Take the newly introduced rockets for example. If Palestinians can produce them at a mechanics garage in Gaza, what will stop them from producing more in the West Bank? Won't that expose the whole of Israel to new threats and render its separation wall, or "security fence" as they like to call it, superfluous?

Now what?

Benjamin Netanyahu, who's known to be more cautious in waging war and negotiating peace than his predecessors, has tried to take advantage of the strategic chaos in the region, and more favourable conditions in Egypt, in order to defeat Hamas, corner Abbas, and get Obama's attention. Alas, he has achieved none of his main objectives. Hamas has grown more popular, Abbas' national unity government with Hamas ever more indispensable to maintain any ceasefire, and Obama no less indifferent. Worse, Israel's impunity is down a notch or more as its image is tarnished with more Palestinian blood.

Asymmetry

And if the Palestinians go the International Criminal Court, a potential indictment of Israel for war crimes would be a major diplomatic and perhaps economic blow. Meanwhile, the diplomatic wrangling has begun around the talks of an open-ended ceasefire. Expect the two sides to negotiate with no less vigour than they fought on the battlefield. Whether the Egyptian regime will act fairly to ensure the lifting the siege on Gaza, or will act in complicity with the Israeli occupation to tighten the siege in order to weaken Hamas, remains to be seen. What's clear, for the time, being is that after so much death and destruction, we're back to square one - just as we were after the last war, and will be following the next. It's rather foolish to go at it again and again hoping for a different result. As they say in Jerusalem: If you beat water again and again, it'll remain just that, water.

Marwan Bishara is the senior political analyst at Al Jazeera.


0 comments:

اسرائيل --- شاہنواز فاروقی......

09:55 Unknown 0 Comments


0 comments:

پاکستان کا سیاسی عدم استحکام اور جرنیلوں کا کھیل – - شاہنواز فاروقی......

09:46 Unknown 0 Comments


پاکستان کی سیاست کی حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ قومی تاریخ کے آدھے حصے میں جرنیلوں نے براہِ راست حکومت کی ہے اور باقی عرصے میں وہ پردے کے پیچھے کھڑے ہوکر ڈوریاں ہلاتے رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ڈوریاں ہلانے کا کام کبھی غلام اسحق خان نے انجام دیا ہے، کبھی فاروق احمد خان لغاری نے۔ عام خیال یہ ہے کہ اِن دنوں یہ کام عمران خان اور طاہر القادری نے سنبھالا ہوا ہے۔ لیکن اس دعوے کی شہادت کیا ہے؟

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میاں نوازشریف نے گزشتہ سوا سال میں اس طرح حکومت کی ہے کہ لفظ ’’حکومت‘‘ منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ میاں صاحب کے پاس بھاری مینڈیٹ ہے اور بھاری مینڈیٹ میاں صاحب پر بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے، مگر اس بھاری مینڈیٹ نے میاں صاحب کو ذمے دار بنانے کے بجائے غیر ذمے دار بنادیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ اس طرح معاملات کرنے کی کوشش کی جیسے پاک بھارت تعلقات میاں صاحب کا گھریلو مسئلہ ہو۔ ان کے نزدیک پارلیمنٹ کی یہ قدروقیمت ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس طرح آتے ہیں جیسے نئی نویلی دلہن منہ دکھانے کے لیے حاضر ہو۔ انہوں نے اقتدار میں اپنے عزیزوں، رشتے داروں کو اتنا دخیل کرلیا ہے کہ ملک میں خاندانی حکومت کا تاثر گہرا ہوگیا ہے۔ لوگ شکایت کررہے ہیں کہ اگرچہ میاں صاحب پورے ملک کے وزیراعظم ہیں مگر ان کی توجہ پنجاب پر مرکوز ہے۔ میاں صاحب نے قرضوں سے قوم کی جان چھڑانے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے ملک و قوم پر قرضوں کا نیا بوجھ لاد دیا ہے۔ کراچی اور بلوچستان کی بدامنی جوں کی توں ہے۔ میاں صاحب نے فوجی آپریشن کی پہلے مزاحمت کی اور پھر اس طرح ہتھیار ڈال دیے جیسے کرنے کا اصل کام فوجی آپریشن ہی تھا۔ انہوں نے عمران خان کے انتخابی دھاندلی سے متعلق اعتراضات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور قیمتی وقت ضائع کرتے چلے گئے۔

 لیکن اس کے باوجود میاں صاحب کی حکومت اور ملک کا جمہوری نظام اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کے خلاف سازش کی جائے اور ملک و قوم کو تماشا بنایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کے سیاسی عدم استحکام کی پشت پر جرنیلوں کا کھیل پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آگیا ہے۔ اس کھیل کی شہادتیں قومی اخبارات کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق عمران خان کے آزادی اور طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کے دوران پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے تین چار ملاقاتیں کی ہیں۔ اگرچہ ملاقاتوں کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن ان ملاقاتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اس بحران میں آرمی چیف اور فوج ایک فریق بن کر ابھرے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو سیاسی معاملات میں جنرل راحیل سے کسی حکومتی اہلکار کی ملاقات کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مگر اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ اگر فوج حکومت سے بڑی قوت کے طور پر موجود نہ ہوتی تو شہبازشریف اور چودھری نثار آرمی چیف سے ملاقات نہ کرتے… اور اگر آرمی چیف غیر سیاسی ہوتے تو وہ خود حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیتے۔ اس سلسلے میں 20 اگست کے روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے جنرل راحیل کے ساتھ ملاقات میں شکایت کی ہے کہ ہم تو پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر یہ دونوں جماعتیں حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہیں۔ میاں نوازشریف کی بات غلط نہیں، مگر اُن کے بیان میں کم ازکم تین نکات ایسے ہیں جنہیں شرمناک کہا جاسکتا ہے۔ میاں صاحب کے بیان سے ایک بات تو یہ ظاہر ہے کہ وہ جنرل راحیل کو خود سے بالاتر تسلیم کررہے ہیں۔

 میاں صاحب کے بیان کا دوسرا شرمناک نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے جنرل راحیل سے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی شکایت اس طرح کی ہے جیسے یہ دونوں جنرل راحیل کی جماعتیں ہوں۔ میاں نوازشریف کے بیان کا تیسرا شرمناک نکتہ یہ ہے کہ ملک کے انتظامی سربراہ یا چیف ایگزیکٹو نے آرمی چیف کے سامنے خود کو غیر مؤثر تسلیم کرلیا اور گویا اس بات کی غیر اعلان شدہ خواہش کی کہ آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں تو کریں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ ہر اعتبار سے ایک شرمناک اعلان ہے اور اس اعلان میں بھاری مینڈیٹ بھاری بوٹوں کو چومتا نظرآرہا ہے۔ 20 اگست کے اخبارات میں وزیرداخلہ چودھری نثار کا بیان بھی شائع ہوا ہے، اس بیان میں چودھری نثار نے یہ کہنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ دھرنوں کے کھیل میں فوج شریک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کھیل کے پیچھے ’’کوئی اور‘‘ تو ہوسکتا ہے مگر فوج نہیں۔ لیکن چودھری نثار نے ’’کوئی اور‘‘ کا تشخص واضح نہیں کیا۔ یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر اس کھیل کی پشت پر فوج نہیں ہے تو چودھری نثار کو یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ لیکن یہ تماشا صرف میاں نوازشریف اور چودھری نثار کے بیانات تک محدود نہیں۔

فوج کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ریڈ زون میں موجود عمارتیں ریاست کی علامت ہیں اور پاک فوج ان کا دفاع کررہی ہے۔ فوج کے ترجمان نے دوسری بات یہ کہی کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مسئلے کے حل کے لیے معنی خیز مذاکرات کریں۔ یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ عمران خان اور طاہرالقاردی کے دھرنے ایک سیاسی معاملہ ہیں اور فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے، مگر اس کے باوجود پاک فوج کے ترجمان نے سیاسی معاملے میں مداخلت کی ہے۔ اس مداخلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ فوج کے ترجمان نے دھرنوں کے شرکا کو یاد دلایا ہے کہ فوج جن عمارتوں کی حفاظت کررہی ہے ان کی طرف آنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں فوج کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا اور اگر فوج کچھ نہیں کرے گی تو اس کا کچھ اور مطلب لیا جائے گا۔ فوج کے ترجمان نے اپنے بیان کے اس نکتے کے ذریعے یہ بھی بتادیا کہ ریاست کی علامتوں کی حفاظت صرف فوج کرسکتی ہے۔ لیکن میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے بیان کا زیادہ قابل اعتراض نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے غیر سیاسی ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تلقین کی ہے۔

 سوال یہ ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ انہیں یہ کہنے کا حق کہاں سے حاصل ہوا؟ ملک کا آئین تو انہیں ہرگز بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ جرنیلوں کے پاس طاقت ہے اور انہیں سیاسی عمل میں مداخلت کے لیے کسی آئینی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے متحارب سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تلقین کردی ہے تو وہ مذاکرات کی شرائط کا اعلان بھی کردیں۔ یہ مذاکرات اگر جی ایچ کیو میں ہوجائیں تو یقینا ان کی قدروقیمت بڑھ جائے گی۔ اتفاق سے 19 اگست کی رات کو جب پاک فوج کے ترجمان کا مذکورہ بیان جاری ہوا تو ایک ٹیلی ویژن چینل کے نمائندے نے طاہرالقادری کے ساتھ گفتگو میں اس بیان کا ذکر کیا۔ طاہرالقادری نے بیان کا پہلا نکتہ سنا تو کہا کہ یہ نکتہ Positiveہے۔ انہیں بیان کے دوسرے نکتے سے مطلع کیا گیا تو اسے بھی قادری صاحب نے Positive قرار دیا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آیا کہ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ لیکن ملک کے سیاسی عدم استحکام کی پشت پر جرنیلوں کے کھیل کا قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔20 اگست کے روزنامہ جنگ میں سابقہ فوجیوں کی تنظیم ایکس سروس مین کے لیگل فورم کی جانب سے ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ ناکام ہوچکی ہیں چنانچہ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔

 بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے ریڈ زون کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ ایکس سروس مین سوسائٹی سابقہ فوجیوں کی تنظیم ہے اور اسے خود کو ریٹائرڈ فوجیوں کے معاملات تک محدود رکھنا چاہیے، لیکن ایک سیاسی بحران میں سابق فوجیوں کی تنظیم کا قانونی حصہ بھی پوری قوت سے بولا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نے صرف حکومت کو ناکام قرار نہیں دیا بلکہ پارلیمنٹ کو بھی ناکام باور کرایا ہے۔ عمران خان کے بعد سابقہ فوجیوں کی تنظیم کا لیگل فورم مڈٹرم انتخابات کے حق میں بلند ہونے والی دوسری آواز ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ عمران خان اور ایکس سروس مین سوسائٹی کا لیگل فورم ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جامعہ حفصہ نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو جنرل پرویزمشرف نے جامعہ میں سینکڑوں طلبہ و طالبات کو خون میں نہلا دیا، حالانکہ غازی برادران مذاکرات پر آمادہ تھے۔ وزیرستان میں ریاست کی رٹ چیلنج ہوئی تو طالبان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرایا گیا حالانکہ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔ لیکن لاہور اور اسلام آباد میں دس روز سے ریاست کی رٹ کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور فوج کا ترجمان کہہ رہا ہے کہ ہم اسلام آباد میں عمارتوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم یہ منظر بھی دیکھ رہی ہے کہ ملک کا وزیراعظم آرمی چیف سے شکایت کررہا ہے کہ ہم مذاکرات چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ معلوم نہیں آرمی چیف نے اس کے جواب میں وزیراعظم سے کیا کہا۔

 تاہم فوج کے ترجمان نے سیاسی قوتوں کو مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ اس صورت حال کا لب لباب عیاں ہے، میاں نوازشریف کی حکومت جاتی ہے تو بھی فوج کی بالادستی یقینی ہے اور اگر ان کی حکومت نہیں جاتی تو بھی فوج کی بالادستی کو دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورت حال نے یقینی بنادیا ہے۔ البتہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو اس سے کوئی ’’اتاترک‘‘ برآمد ہوتا ہے یا نہیں؟

شاہنواز فاروقی

0 comments:

غزہ جنگ کا حقیقی فاتح کون ؟ حماس یا اسرائیل ؟......

03:40 Unknown 0 Comments


حماس اور اسرائیل کے درمیان مصر کی ثالثی کے نتیجے میں غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی کے سمجھوتے پر منگل کی شب سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔اگر فریقین کے درمیان یہ جنگ بندی برقرار رہتی ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے کہ پچاس روز تک جاری رہنے والی اس غزہ جنگ کا حقیقی فاتح کون ہے؟
اسلامی تحریک مزاحمت اور اسرائیل دونوں ہی اپنی اپنی فتح کے دعوے کررہے ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان پال ہیرچسن نے العربیہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''اگر حماس جنگ بندی کے سمجھوتے میں طے پائے اپنے وعدوں کی پاسداری کرتی ہے اور اسرائِیل کے خلاف حملے روک دیتی ہے تو پھر اسرائیلی اور فلسطینی عوام دونوں ہی فاتح ہوں گے مگر یہ بات وقت ہی بتائے گا  
اسرائیل نے آپریشن دفاعی کنارہ کے نام سے 8 جولائی کو غزہ کی پٹی پر فضائی حملوں کا آغاز کیا تھا اور اس فوجی جارحیت کا مقصد یہ بتایا تھا کہ وہ حماس کی حربی صلاحیت کی کمر توڑنا،اس کے ہتھیاروں کے خاتمہ اور اس کا غزہ کی پٹی میں اثرورسوخ ختم کرنا چاہتا ہے لیکن اس کو پچاس روزہ جنگ میں ان میں سے ایک بھی مقصد حاصل نہیں ہوسکا ہے۔

حماس نے مستقل جنگ بندی سے قبل اسرائیل سے غزہ کی ناکا بندی ختم کرنے اور سرحدی گذرگاہیں کھولنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسرائیل نے اس کے اس مطالبے کو مکمل طور پر نہیں مانا ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ وہ سرحدی گذرگاہوں کی ناکا بندی میں نرمی کردے گا اور فلسطینیوں کو امدادی اور تعمیراتی سامان لے جانے کی اجازت ہوگی۔

کارنیگی مڈل ایسٹ سنٹر کی ڈائریکٹر لینا خطیب نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل المیعاد جنگ بندی کے لیے سمجھوتا طرفین میں سے کسی کی بھی شکست یا فتح کا غماز نہیں ہے''۔
انھوں نے کہا کہ ''اسرائیلی ،فلسطینی تنازعے پر لڑی جانے والی تمام جنگوں کا حقیقی فاتح نہیں رہا ہے کیونکہ ان جنگوں میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے اور یہ فریقین کی عسکری کامیابیوں کے دعووں کی نفی ہے''۔

لیکن جنگ بندی سمجھوتے کی تمام شرائط پوری ہونے سے قبل ہی غزہ کی پٹی کے مکینوں نے اسرائیلی جارحیت رکتے ہی جشن منانا شروع کر دیا تھا۔حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے ایک بیان میں کہا کہ ''آج ہم مزاحمت کی فتح کا اعلان کرتے ہیں اور غزہ کی جیت کا اعلان کرتے ہیں''۔

دوسری جانب اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی میں براہ راست اپنی فتح کا اعلان نہیں کیا۔البتہ اسرائِیلی میڈیا نے یہ ضرور اطلاع دی ہے کہ اسرائیل کس طرح کچھوے کی چال چل کر جنگ بندی تک پہنچا ہے۔
  
مشرق وسطیٰ کےایک اور تجزیہ کار جیمز ڈورسی کا کہنا ہے کہ اس نقطہ نظر میں دوسرے نکات کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔میں یہ کَہ سکتا ہوں کہ حماس نے اسرائیل سے زیادہ پوائنٹس جیتے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اسرائیل میں انٹیلی جنس اور فوجی صلاحیت کے بارے میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور ان سے متعلق سوال بھی اٹھائے جارہے ہیں۔

جمیز ڈورسی نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی بین الاقوامی سطح پر سفارتی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے۔اس کے دو اہم اتحادی ممالک امریکا اور برطانیہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں فرق آیا ہے۔اس کے برعکس فلسطینیوں نے اپنا باہمی اتحاد برقرار رکھا ہے اور اسی اتحاد کی بدولت انھوں نے مذاکرات کے لیے اسرائیلی شرائط کو بھی مسترد کردیا تھا''۔

جنگ بندی کی شرائط

  جنگ بندی کے سمجھوتے کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں 
 ۔ حماس اور غزہ میں دوسرے مزاحمتی گروپوں نے اسرائیل کی جانب راکٹ اور مارٹر گولے فائر نہ کرنے سے اتفاق کیا ہے۔
 ۔ اسرائیل فوری طور پر فضائی حملوں سمیت تمام فوجی کارروائیاں روک دے گا۔
 ۔ اسرائیل نے غزہ کے ساتھ واقع سرحدی گذرگاہیں کھولنے سے اتفاق کیا ہے۔ان کے ذریعے محصور فلسطینی امدادی اور تعمیراتی سامان اس ساحلی علاقے میں لے جاسکیں گے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان 2012ء میں طے پائے جنگ بندی کے سمجھوتے میں بھی یہ شق موجود تھی لیکن اسرائیل نے اس پر کبھی مکمل عمل درآمد نہیں کیا ہے۔
 ۔ ایک اور دوطرفہ سمجھوتے کے تحت مصر نے غزہ کے ساتھ رفح کے مقام پر اپنی چودہ کلومیٹر طویل سرحد کھولنے سے اتفاق کیا ہے۔
 ۔ صدر محمود عباس کے زیرقیادت فلسطینی اتھارٹی حماس سے غزہ کی سرحدی گذرگاہوں کا کنٹرول سنبھال لے گی۔اسرائیل اور مصر یہ توقع کرتے ہیں کہ ہتھیار ،گولہ بارود اور دہرے استعمال کی حامل کسی بھی چیز کو ان سرحدی گذرگاہوں سے غزہ میں لے جانے سے روکا جائے گا۔دونوں ممالک یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ غزہ میں لائے جانے والے سیمنٹ اور سریّے کا استعمال سرنگوں کی تعمیر میں نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کو غزہ میں مکانوں اور دوسری عمارتوں کی تعمیر کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا۔

فلسطینی حکام کے مطابق جنگ بندی کے دوسرے مرحلے میں ایک ماہ کے بعد اسرائیل اور فلسطینی حکام غزہ میں بندرگاہ کی تعمیر اور اسرائیلی جیلوں میں قید حماس کے ہزاروں کارکنوں کی رہائی پر بات چیت کریں گے۔ان فلسطینیوں کو اسرائیلی فورسز نے حالیہ مہینوں کے دوران مغربی کنارے سے کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا ہے۔

0 comments:

No victory for Israel despite weeks of devastation by Robert Fisk

03:25 Unknown 0 Comments


Twas not a famous victory — but that’s what the Palestinians of Gaza are celebrating. There was much shaking of heads in the international media when the fireworks burst over that shattered land on Tuesday night. After more than 2,100 dead — about 1,700 of them civilians — and 100,000 wounded, what did they have to crow about? An end to the killing? Peace? Well, no. In fact, Hamas — the vicious, horrible, terrorist Hamas with whom “we” (as in “the West”, Tony Blair, Israel, the US and all honourable men and women) cannot talk — has indeed won a victory.

Israel said it must be disarmed. It has not been disarmed. Israel said it must be smashed/destroyed/rooted out. It hasn’t been smashed/ destroyed/rooted out. The tunnels must all be destroyed, Israel proclaimed. But they haven’t been. All the rockets must be seized. But they haven’t been. So 65 Israeli soldiers died — for what? And from under the ground, quite literally, clambered on Tuesday the political leadership of Hamas (and Islamic Jihad) whose brothers were participating - much against the wishes of Israel, the US and Egypt - in the Cairo “peace” talks.

In Israel, significantly, there were no celebrations. The ever-so-right-wing government of Benjamin Netanyahu had once more over-egged its victory demands and ended up with another ceasefire as strong and as weak as the equally febrile truce that followed the 2009 Gaza war and the 2012 Gaza war. Physically, the Israelis had won; all those broken lives and all those smashed buildings and all that destroyed infrastructure do not suggest that the Palestinians have “prevailed” (to use a “Bushite” word). But strategically, the Palestinians have won. They are still in Gaza, Hamas is still in Gaza, and the coalition government of the Palestinian Authority and Hamas appears still to be a reality.

Many times has it been said that the founders of the Israeli state faced a problem: a land called Palestine. They dealt with that problem coldly, ruthlessly and efficiently. But now their problem is the Palestinians. Their land may have been taken for Israel, their surviving land may be eaten up by Israeli colonies; but the wretched Palestinians simply won’t go away. And killing them in large numbers — especially in front of the world’s television cameras — is getting to be a bit much, even for those who still shake in their boots at the mere whisper of the calumny “anti-Semitism”.

Israeli spokesmen even ended up comparing their actions to bloody Second World War RAF air raids, hardly a propaganda strike in the 21st century. But the world will reflect unhappily on other things. The Hamas spokesmen, for example, raving about the destruction of Israel and Zionism, their exaggerations as preposterous as the Israeli excuses. The greatest victory the world has ever seen, indeed! Hamas has achieved “more than any Arab army has ever achieved against Israel”. Indeed! Hezbollah drove the entire Israeli army out of Lebanon after an 18-year guerrilla war — with far more casualties on both sides than Hamas could ever imagine.

And then how quickly we have forgotten the Hamas killer squads who dispatched at least 21 “spies”, two of them women, in cold blood against the walls of Gaza over the past seven days. I notice that they do not appear in the total list of Palestinian dead. And I wonder why not. Were they to be treated by the Palestinians as even less human than the Israelis? Of course, they were. In a week in which Isis returned to its execution pit, Hamas showed that its old killer touch is also still intact. After three of its top military leaders were liquidated by the Israelis, what did we expect? But it’s interesting that not one Palestinian protested at this no-court-no-jury-no-human-rights “justice”. Nor did they protest at the execution of 17 “spies” in 2008-9 - forgotten today - and another six “spies” (also forgotten) in 2012.

And then we have the “military” casualties. Around 500 were Hamas fighters; back in the 2008-9 Gaza war, perhaps 200 fighters were killed. But in that earlier war, only six Israeli soldiers were killed. In this operation, however, 10 times as many Israeli soldiers died. In other words, Hamas — and, I suppose, Islamic Jihad — have learned how to fight. Hezbollah, the most efficient guerrilla army in the Middle East, certainly noticed this. And the Gaza rockets stretched across thousands of square miles of Israel, notwithstanding the “Iron Dome”. Once you had to live in Sderot to be in danger. Now you can find your flight cancelled at Ben Gurion airport.

Mahmoud Abbas, needless to say, is grovelling to the Egyptians and Americans in thankfulness for the truce. But in the new “joint” Palestinian government, Hamas is going to be telling Abbas how many “concessions” he can make. Far from isolating the Muslim Brotherhood in Egypt and sidelining Hamas by producing his own made-in-Cairo peace agreement for the Israelis and Americans — swiftly rejected by Hamas during the conflict — President Field Marshal al- Sisi of Egypt has been forced to acknowledge Hamas as the major Arab participant in the truce agreement. An odd thing, though. Right now, Egypt is bombing the Islamists of Libya, and the US is preparing to bomb the Islamists of Syria after bombing the Islamists of Iraq. But in Gaza, the Islamists have just won. This surely cannot last.

By arrangement with The Independent
Published in Dawn, August 28th, 2014

0 comments:

Results of Current Political Crisis in Pakistan by Ishtiaq Baig

01:52 Unknown 0 Comments

 

Results of Current Political Crisis in Pakistan by Ishtiaq Baig

0 comments:

Three Questions for United States of America

01:47 Unknown 0 Comments

 Three Questions for United States of America

0 comments:

Gaza residents celebrate Hamas 'victory' over Israel

12:10 Unknown 0 Comments





Gaza residents celebrate Hamas 'victory' over Israel

0 comments:

Michael Brown Funeral Filled With Cries For Justice

02:17 Unknown 0 Comments

The casket of Michael Brown is seen at Friendly Temple Missionary Baptist Church in St. Louis , before his funeral. Brown, who is black, was unarmed when he was shot in Ferguson, Mo., Aug. 9 by Officer Darren Wilson, who is white. Protesters took to the streets of the St. Louis suburb night after night, calling for change and drawing national attention to issues surrounding race and policing.

0 comments:

پاکستان میں میکسیکو طرز کا سیاسی ٹاکرا......

00:42 Unknown 0 Comments


پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ان دنوں میکسیکو کے اس روائتی سیاسی ٹکراو کا ماحول ہے جس میں کوئی فریق بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما عمران خان، جن کے نامزد کردہ سیاسی رہنما شریف حکومت کی مذکراتی ٹیم کے ساتھ ایک سے زائد بار بات چیت کر چکے ہیں لیکن عملا مذاکراتی عمل معلق ہے۔ ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد ہو سکا نہ کوئی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ دے سکا ہے.

تحریک انصاف کے عمران خان کے علاوہ شعلہ بیان مقرر ڈاکٹر طاہر القادری ہیں۔ وہ بھی پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے براجمان ہیں۔ دونوں نے وزیراعظم نواز شریف پر الزامات کا ایک طرح سے طومار باندھ دیا ہے۔ طرح طرح کے الزامات لگانے والے یہ احتجاجی رہنما مئی 2013 کے عام انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل کرکے بر سر اقتدار آنے والے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ آزاد عالمی انتخابی مبصرین نے مئی 2013 کے عام انتخابات کے حوالے سے ایک طرح سے کلین چٹ دے دی تھی کہ پاکستان کے یہ انتخابات ہر طرح سے شفاف اور غیر جانبدارانہ ماحول میں ہوئے ہوئے تھے۔
لیکن دونوں احتجاجی رہنما بضد ہیں کہ وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا استعفا دلوا کر ہی اسلام آباد سے واپس جائیں گے۔ دونوں نواز شریف پر نہ صرف انتخابی دھاندلیوں کے بلکہ اقربا پروری اور کرپشن کے الزامات بھی عائد کرتے ہیں۔

بھاری ووٹوں سے جیت کر آنے والے وزیر اعظم کا استعفا لیے بغیر واپس نہ جانے کا کھلا اعلان کرنے والے عمران خان دوسرے احتجاجی طاہر القادری سے زیادہ سخت موقف رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کا کا لہجہ بیک وقت نیم خوشامدانہ اور دھمکی آمیز ہوتا ہے ان کا کہنا ہے اگر مظاہرین پر پولیس نے حملہ کیا گیا تو سخت ردعمل ہو گا۔ عمران خان نے اسلام آباد کے نئے پولیس چیف کو بھی اس حوالے سے بطور خاص خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاون نہیں ہونا چاہیے۔

جب یہ ڈرامہ جاری ہے نواز شریف کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے لیے موجود آپشنز اور اپنے ممکنہ جواب کی تیاری کریں۔ وہ بہرحال ایک منتخب وزیر اعظم ہیں۔ یہ ایک آسان معاملہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں ریلیوں سے نمٹا جائے، ایم کیو ایم کے کراچی میں ٹارگٹ کلرز کے ساتھ نرمی اختیار کی جائے، بلوچستان میں بدامنی کے چیلنج سے نمٹا جائے۔ اس صورت حال میں میاں نواز شریف عملا تنہا کھڑے ہیں۔ لیکن پاکستان کے تحفظ کے لیے انہیں اس طرح کے خوف پر حاوی ہونا ہو گا اور فیصلہ نہ کر سکنے والی کیفیت سے نکلتے ہوئے انہیں دانش مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

میاں نواز شریف کو جن حالات کا سامنا ہے 1952 میں اسی سے ملتی جلتی صورت حال کا سامنا مغربی دنیا کے مارشل ول کین کو گیری کوپر سے تھا۔ امریکی فلم ہائی نون کے اس ہیرو نے بھی تنہا حزب اختلاف کا مقابلہ کیا تھا کہ اس کے شہر کے لوگ بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس لیے اس صورت حال کا قوم کے مستقبل پر مثبت اثر ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب عمران اور قادری دونوں ''تیسرے فریق'' کے بھی منتظر ہیں جبکہ پاکستان کی فوج اس منظر نامے کو بڑے اضطراب کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ بہت سارے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ فوج بیچ میں آنے یا مداخلت کرنے سے بچ رہی ہے کیونکہ فوج پہلے ہی ملکی سحدوں کی حفاظت کرے کے لیے دشت گردوں کے خلاف جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔ اس ناطے بہت کچھ خطرات کی زد میں ہے۔ ملکی معیشت افراتفری اور بے یقینی کی وجہ سے نیچے کی طرف ہے۔ اس لیے پاکستان کا بہترین مفاد اس بات میں ہے کہ بامعنی مذاکرات کیے جائیں۔

عمران خان کی جماعت جو کہ عوامی شکایات اور مسائل کی بات کرتی ہے اسے چاہیے کہ وہ عوام کی حقیقی مشکلات اور مسائل کا نوٹس لیتے ہوئے بتدریج اصلاحات کی طرف بڑھنا ہو گا۔ حکومت کو عوام کو شفافیت کا یقین دلانا ہوئے کرپٹ عناصر کا سرکاری اداروں سے قلع قمع کرنا ہو گا۔ طاہرالقادری کو واپس کینیڈا آنا ہو گا۔ میرے خیال میں طاہرالقادری کی شہرت ہے کہ وہ شہرت کی ہوس کا شکار ہیں۔ ان کی ''بغاوت'' شہرت کی خواہش کے ساتھ عبارت سمجھی جاتی ہے۔ جس کا مقصد صرف افراتفری پھیلانا ہو سکتا ہے۔

لیکن پاکستان ان حالات میں کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ دونوں محب وطن رہنماوں کو کچھ زیادہ بہتر پیش کش کریں تاکہ وہ ملک و قوم کی زیادہ خدمت کر سکیں۔ ہمیں امید اور دعا کرنی چاہیے کہ وہ اس صورتحال سے اوپر کو اٹھیں گے اور بچ نکلیں 
گے، نیز اپنے ملکی مفادات کو ہر چیز پر مقدم رکھیں گے۔

خالد المعینا

Imran Khan and Tahirul Qadri 

0 comments: