لاپتہ افراد اور لانگ مارچ

22:46 Unknown 0 Comments


ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں 10 عورتوں اور بچوں نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک 5 ماہ پیدل مارچ کر کے لاپتہ افراد کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر دیا۔ یوں دنیا میں رائے عامہ کو آگاہ کرنے کے لیے ہونے والے لانگ مارچ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ تاریخ میں چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ اور مہاتما گاندھی کے لانگ مارچ مشہور ہیں۔ چیئرمین ماؤزے تنگ کی قیادت میں 16 اکتوبر 1934ء سے اکتوبر 1935ء تک سیکڑوں کمیونسٹوں کے ساتھ کئی ہزار میل تک مارچ کیا تھا۔ یہ مارچ دراصل چیئرمین ماؤ کی قیادت میں منظم ہونے والی پیپلز آرمی کا لانگ مارچ تھاجس میں جیپوں اور گاڑیوں کے ساتھ دشمن کو دھوکا دینے کی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو متحرک کیا گیا تھا ۔

مہاتما گاندھی نے نمک تحریک کے دوران لانگ مارچ کیا اور ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں آزادی کی تحریک پہنچ گئی۔ 72 سالہ قدیر بلوچ کوئٹہ میں ایک بینک کی ملازمت سے 2011ء میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک دن ان کا بیٹا جلیل ریکی لاپتہ ہوا، اس وقت جلیل ریکی کا ایک بیٹا 2 سال کا تھا جس کے دل میں سوراخ تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بیمار بیٹے کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کی جائے کہ اس کا دل متاثر ہو۔ قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد انھیں تقسیم ہونے والی جمہوری وطن پارٹی کے ایک دھڑے بلوچ ری پبلکن پارٹی کا سیکریٹری جنرل بننے کی پیشکش ہوئی تھی مگر جلیل ریکی کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اس بناء پر وہ پارٹی کا سیکریٹری اطلاعات بننے پر تیار ہوا۔

ایک دن دو پک اپ اور بغیر نمبر پلیٹ کی دو کاروں میں سوارسادہ پوش سرکاری اہلکار اس کو گرفتار کرنے پہنچ گئے۔ جلیل نماز جمعہ پڑھ کر لوٹ رہا تھا ایجنسیوں کے اہلکار اس کو پکڑنے آ گئے، جلیل نے فرار ہونے کی کوشش کی مگر اس کو گولی مارنے کی دھمکی دی گئی یوں جلیل لاپتہ قبیلے کا حصہ بن گیا۔ جلیل ایک سال تک لاپتہ رہا بس ایک بار ہی اپنے خاندان سے رابطہ ہوا یہ عید کا موقع تھا کہ جلیل کے گھر کے فون پر ایک کال آئی کہ ایک مخصوص نمبر پر ہزار روپے کا بیلنس ڈلوایا جائے پھر رات گئے جلیل کی کال آئی۔ جلیل نے کہا کہ یہ نمبر کسی کونہ بتایا جائے جلیل نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ کسی سے رہائی کی بھیک نہ مانگی جائے پھر قدیر بلوچ نے جلیل کی رہائی کے لیے کوششیں شروع کی اس نے مقدمات درج کرانے کے لیے درخواستیں دی، لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش ہوا، ایک موقع پر ایک افسر نے اس کے بڑھاپے کا احساس کرتے ہوئے کہا کہ جلیل صرف سیاسی کارکن ہے تو وہ رہا ہو جائے گا۔ یوں قدیر بلوچ نے میڈیا سے روابط بڑھائے اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو منظم کرنے کا کام شروع کر دیا پھر کسی نے بلوچی چینل وش ٹی وی پر نشر ہونے والی خبر کی اطلاع دی، اس خبر سے جلیل ریکی کی لاش تربت سے ملنے کی اطلاع ملی، تربت کے اسسٹنٹ کمشنر نے فون کیا اور لاش کی تدفین کے بارے میں پوچھا۔ قدیر بلوچ نے سرکاری افسر کو تدفین سے منع کیا یوں قدیر بلوچ نے ایک ایمبولینس کا انتظا م کیا جلیل کی لاش گھر لائی گئی اس کا ایک ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا اور دل کے قریب دو اور دل میں ایک گولی ماری گئی تھی۔

قدیر نے رشتے داروں کے منع کرنے کے باوجود اپنے پوتے کو اس کے باپ کی لاش دکھا دی پھر پوتے کو ہر بات بتا دی یوں قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کی۔ قدیر بلوچ کی قیادت میں پیدل مارچ کرنے والوں میں ایک نوجوان لڑکی فرزانہ مجید بلوچ سب سے زیادہ متحرک تھی۔ فرزانہ نے بلوچستان یونیورسٹی سے بائیوکیمسٹری میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ایم فل پروگرام میں داخلہ لے رکھا تھا۔ فرزانہ مجید کا بھائی ذاکر مجید ایم اے انگلش پروگرام کا طالب علم تھا وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا نائب صدر تھا۔ ذاکر اپنے چند دوستوں کے ساتھ مستونگ سے لوٹ رہا تھا کہ ایک ساتھ کئی گاڑیوں نے انھیں روک لیا۔ ذاکر مجید کے دوستوں نے اس کی بہن فرزانہ کو بتایا تھا کہ ذاکر کو اٹھاتے ہی اس کے دوستوں کو رہا کر دیا گیا۔ فرزانہ اپنے بھائی کے لاپتہ ہونے کی خبر ٹی وی پر نشر کرائی پھر انسانی حقوق کمیشن کے خضدار کے نمایندے سے رابطہ کیا اور تھانے میں ایف آئی آر در ج کرائی مگر بیمار ماں کو کچھ نہیں بتایا مگر پھر ماں کو پتہ چل ہی گیا وہ دعاؤں میں لگ گئی۔ ذاکر سیاسی کارکن تھا اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھا اور کئی دفعہ گرفتار ہوا تھا مگر ہمیشہ عدالت رہا کر دیتی تھی پھر 2011ء میں بلوچستان میں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ فرزانہ مجید نے وائس فار مسنگ پرسنز کے رہنما قدیر بلوچ کے ساتھ مل کر لاپتہ افراد کے لواحقین کو منظم کرنا شروع کیا، سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت شروع کی، انھوں نے بہت سے خاندانوں سے وعدے کیے جو کبھی پورے نہیں ہوئے۔ فرزانہ نے پہلے اسلا م آباد میں احتجاجی کیمپ لگایا تھا پھر اسے دھمکی آمیز فون آنے لگے کہ اسلام آباد کا کیمپ بند کر دیں یا ذاکر مجید کو بھول جاؤ۔ وہ خوفزدہ نہیں ہوئی اور اسلام آباد کے بعد کراچی میں احتجاجی کیمپ لگایا مگر بھائی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔

اس احتجاجی مارچ میں 10سالہ حیدر بلوچ بھی شامل ہے اس کے والد ایک مزدور رمضان بلوچ عرصہ دراز سے لاپتہ ہیں۔ علی بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ اس مارچ میں شریک ہے۔ اس مارچ کے شرکاء نے سخت سردی کے باوجود پیدل لانگ مارچ کیا اس کو موسم کی سختیوں کے ساتھ پولیس خفیہ ایجنسیوں اور شدت پسند گروہوں کو برداشت کرنا پڑا ۔ کوئٹہ سے کراچی تک ہر شہر میں لوگوںنے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھرپور ساتھ دیا جب یہ لانگ مارچ خضدار پہنچا تو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے مارچ کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ حب کے قریب ماما قدیر بلوچ پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی، لانگ مارچ کے لیاری پہنچنے سے پہلے وہاں گینگ وار تیز کر دی گئی یوں لیاری کے عوام قدیر بلوچ اور ان کے ساتھیوں سے یکجہتی کے اظہار سے محروم رہے۔ پھر بھی چاکیواڑہ چوک پر لوگ جمع ہوئے اس طرح کراچی پریس کلب کے سامنے بہت بڑا جلسہ ہوا، اور لانگ مارچ کے شرکاء کئی دن تک احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہے۔ اندرون سندھ ہر شہر میں لوگوں نے لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ پنجاب میں بائیں بازو کے کارکنوں غیر سرکاری تنظیموں خاص طور پر انسانی حقوق کے کارکن ان کے استقبا ل کے لیے موجود رہے۔ کئی شہروں میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے جلوس کے شرکاء کو ہراساں کرنے کی کوشش کی مگر قدیر بلوچ اور ان کی ساتھی خواتین اور بچوں کے عزم میں کمی نہ آئی ان لوگوں نے اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے دھرنا دے کر لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ لاپتہ افراد کا معاملہ 14برس سے موضوع بحث ہے۔

پرویز مشرف کی حکومت نے سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تحریک چلانے والی انجمن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد 5 ہزار کے قریب ہے جب کہ بارہ سو افراد کی لاشیں مل چکی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے ہمیشہ لاپتہ افراد کی بازیابی پر زور دیا مگر اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے معاملے میں غیر متحرک ہو گئے ہیں ان کی حکومت نے تحفظ پاکستان قانون کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ میاں نواز شریف کے دور میں نوٹک کے مقام پر اجتماعی طور پر دفن کی جانے والی لاشیں برآمد ہوئی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے ملزمان کی نشاندہی کی مگر کچھ نہ ہوا، اور نہ ہی صوبائی حکومت کی پورے صوبے میں رٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے یوں لاپتہ افراد کا معاملہ ابھی تک حل نہ ہو سکا۔ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لانگ مارچ کے ذریعے عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، رائے عامہ کی تبدیلی سے بلوچستان کے عوام کا وفاق پر اعتماد قائم ہو گا ۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے اس لانگ مارچ کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو اس کا سارا فائدہ علیحدگی پسندوں کو ہو گا۔ بعض سینئر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ماما قدیر بلوچ کے لانگ مارچ کا اختتام اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے ہو رہا ہے اگر اب بھی اسٹیبلشمنٹ نے توجہ نہ دی تو ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں یہ مارچ نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے سامنے ہو۔ ماما قدیر بلوچ کی اس جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے وفاق کو بچایا جا سکتا ہے فیصلہ وفاقی حکومت اور بڑے صوبوں کو کرنا ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Pakistanis set new world records

22:38 Unknown 0 Comments

پاکستان میں ان دنوں عالمی ریکارڈ بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ علوم و فنون کو تو چونکہ یہاں سے عرصہ ہوا دیس نکالا مل چکا ہے، اس لیے اب ایسے میدان میں ریکارڈ ز بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جن کی جانب دنیا کی توجہ ہی نہیں، نہ ان کے پاس اس دردِ سر کے لیے کوئی وقت ہے۔ دنیا کا سب سے طویل انسانی پرچم بنانے کا ریکارڈ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے پاس تھا۔ ایک اور بھوکا ننگا ملک جس نے قوم پرستی کے نام پر علیحدگی اختیار کی لیکن آج بھی اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ہندوستان ہو، بنگلہ دیش یا پاکستان، اس خطے میں ان کا مقابلہ حب الوطنی کے میدان میں ہوتا ہے، جو ہمہ وقت خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ ان ملکوں نے کبھی علم کے میدان میں ریکارڈ بنانے کی کوشش نہ کی۔ اب آپ یہ مت بتائیے کہ پاکستانی طالب علموں نے آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے اداروں سے او لیول میں سب سے زیادہ اے پلس لینے کا ریکارڈ بھی بنا رکھا ہے، یا دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر بچی بھی یہیں پائی گئی تھی۔ بلاشبہ ایسے بیسیوں واقعات یہاں بکھرے پکڑے ہیں، کئی ایسے بھی ہوں گے جو ابھی تک میڈیا کی نظروں میں نہ آئے ہوں، لیکن یہ مت بھولیے کہ یہ سب انفرادی کاوشیں ہیں، ان میں کہیں بھی ریاست کی پشت پناہی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ اپنے میدانِ عمل میں نام کرنے والے یہ وہ گنے چنے افراد ہوں گے جنہوں نے موجودہ نظام سے ہٹ کر اپنی راہ چنی ہو گی۔ ورنہ ریاست نے جس طرح کا تعلیمی، معاشی اور سماجی نظام ترتیب دے رکھا ہے، وہاں صرف حب الوطنی کے نام پر خالی دماغ لوگ ہی پیدا ہو سکتے ہیں، عالی دماغ جوان نہیں۔

گنیز بک آف ریکارڈ کی ٹیم اگر ذرا بھی غیر جانبدار ہوتی تو پاکستان کو دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم بنانے والے ملک کا ریکارڈ قائم کرنے والے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ اس کا یہ اعزاز بھی اپنی ریکارڈ بک میں لکھ لیتی کہ دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم بنانے والے ملک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسی ملک کے ایک حصے میں یہی سبز ہلالی پرچم لہرانا جرم بن چکا ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک میں کہیں بھی یہ پرچم نہیں لہرایا جا سکتا۔ ساتھ ہی قومی ترانہ پڑھنے کا ریکارڈ بنانے والوں کو یہ بھی بتا دیجیے کہ اسی ملک کے ایک حصے میں جہاں دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم لہرایا نہیں جا سکتا، وہاں یہ قومی ترانہ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔ اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروا لیجیے۔ پاکستان کے نام ایک اور عالمی ریکارڈ میں اضافہ ہو جائے گا ۔

اور جب صرف گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اپنے نام کا اضافہ ہی مقصود ہے تو پھر لاپتہ افراد کے لواحقین کے لانگ مارچ کو بھی یاد رکھیے۔ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک پیدل چلنے والا چند افراد کا یہ لانگ مارچ اب دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ بن چکا ہے۔ فاصلے کے لحاظ سے اس نے چیئرمین ماؤ کے مشہورِ زمانہ لانگ مارچ کو بھی مات دے دی ہے۔ کیوں نہ لگے ہاتھوں اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرا لیں۔ ساتھ ہی ملک کے آزاد میڈیا نے جس طرح اس سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی ہے، وہ بھی کسی ورلڈ ریکارڈ سے کم نہیں۔ ملکی سلامتی کو درپیش ایک انتہائی حساس مسئلے پر جس طرح میڈیا نے خاموشی اختیار کی، اور چار ماہ تک ایک منٹ کی یا سنگل کالم خبر نہ چھاپی ہو، ایسا شاید ہی دنیا میں کہیں ہوا ہو۔ یہ اپنے تئیں ایک بہت بڑا ریکارڈ ہے ۔ بالخصوص ایک ایسے ملک میں جہاں میڈیا ہمہ وقت اپنی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہے۔ اور جب دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ پنجاب جیسی گنجان آبادی سے ہو کر گزرا ہو۔ اس ریکارڈ میں سیاسی جماعتوں کی خاموشی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ وہ جماعتیں جو آزادیِ اظہار کے لیے ہر وقت چیختی چلاتی رہتی ہیں، لیکن اس طویل ترین لانگ مارچ میں نہ صرف یہ کہ شامل نہ ہوئیں ، بلکہ بڑی مہارت سے کنی کترا گئیں اور خود کو اس سے دور رکھا۔

اسی طرح عالمی ریکارڈ کے خانے میں لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستان کے نام ایک اور اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے مطابق پچھلی ایک دہائی کے دوران بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے افراد کی تعداد سولہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں لاپتہ ہونے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کسی بھی ایمسرجینسی میں اتنی بڑی تعداد میں افراد لاپتہ نہیں ہوئے یا نہیں کیے گئے۔ گو کہ کہ حکومتی ذرایع اور خفیہ اداروں کے حکام اس تعداد کو ہمیشہ مسترد کرتے رہے ہیں، تاہم بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی یہ وہ تعداد ہے، جن کے تمام کوائف اور حقائق ان کے پاس موجود ہیں۔ جن تک وہ اب تک نہیں پہنچ پائے، ان کا قصہ الگ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے خود بلوچستان سے نو سو ایسے افراد کی گمشدگی تسلیم کی جنھیں خفیہ ادارے شک کی بنیاد پر لے گئے، اور پھر ان کا کوئی اتہ پتہ نہ رہا۔ جب کہ معاملہ تعداد کا نہیں، اس عمل کا ہے جو بنیادی طور پر غیرقانونی اور غیرآئینی ہے۔ ابھی حال ہی میں خضدار کے علاقے توتک سے مسخ شدہ لاشوں کی اجتماعی قبروں کی نشاندہی ہوئی، تو ایک بار پھر ہمیں اس بحث میں ڈال دیا گیا کہ برآمد ہونے والی لاشوں کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ تھی، سرکار نے اصل تعداد چھپا دی۔ حالانکہ سوال یہ نہیں کہ کتنے لوگ لاپتہ ہوئے یا کتنوں کی لاش مسخ کی گئی، سوال یہ ہے کہ اگر ایک بھی شہری غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، لاپتہ کیا گیا یا ماورائے عدالت قتل کیا گیا، تو ریاست مکمل طور پر اس کی ذمے دار ہے ۔ اس کا فرض بنتا ہے کہ ان اداروں اور اہلکاروں کو تلاش کرے، ان تک پہنچے اور ان سے باز پرس کرے۔ باقی کوئی شخص اگر ریاست کا باغی ہے، تو آئین میں اس سے نمٹنے کا طریقہ کار درج ہے۔ ایسے افراد کو گرفتار کر کے اعلیٰ عدالتوں میں پیش کیا جائے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ جیسے اگر ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں کوئی مارا جاتا ہے، تو اس کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا۔ لیکن محض شک کی بنیاد پر (یا خواہ ثبوت کی موجودگی میں بھی) کسی بھی شہری کو غیرآئینی و غیر قانونی طور پر لاپتہ کر دینا، ماورائے عدالت قتل کر کے اس کی لاش کو مسخ کر کے پھینکنا اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا کہ ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کا جرم ۔

اور اگر ان واقعات میں ملوث افراد کو سزا دینا ممکن نہیں تو پھر ذرا سی ہمت کر کے اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں لکھوا لیجیے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے، جہاں آئین و قانون کے ہوتے ہوئے محض شک کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو اٹھایا، لاپتہ کیا ، اور مار کے پھینکا جا سکتا ہے۔ جنگ تو ختم ہو نہیں رہی، ملک کے نام ایک اور عالمی ریکارڈ میں اضافہ سہی۔

عابد میر

Pakistanis set new world records

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Jamshed Dasti

21:58 Unknown 0 Comments


Jamshed Ahmad Khan Dasti   is a Pakistani politician who serves as the Member of National Assembly representing Muzaffargarh, Punjab.[1] Starting his political career from Pakistan People's Party he resigned from the party on 16 March 2013 and also from membership and National Assembly. He later announced contesting election as an independent candidate. He got overwhelming majority in NA-177 Muazaffargarh-II and NA-178 Muazaffargarh-III in 2013 election in which he defeated the influential family of Hina Rabbani Khar.[2] Popularly known for being the poorest parliamentarian in the country, Dasti declined offer to join the victories party Pakistan Muslim League after elections and decided to remain independent member. He voted for Nawaz Sharif for the slot of premier. [3] 

On 4th April 2013 Dasti was sentenced to 3 years in prison and 5000 Rupees fine for presenting a fake degree and breaching the public representation eligibility. Following the court verdict he was arrested from outside the courtroom. On foreseeing the court verdict he announced his decision of not contesting in the general elections of 2013 a day earlier the court announced the verdict. On 10 April 2013, the Multan bench of Lahore High Court heard Mr Dasti's appeal setting aside all laws, overturned his conviction of 3 years and 5000 Rs fine hence paving the way for him to contest the 2013 elections. Jamshed Dasti was elected in National Assembly for next five years. Dasti contested general 2013 elections as an independent candidate from two constituencies NA-177 (Muzaffargarh-II) and NA-178 (Muzaffargarh-III and won both seats,[4] defeating Ghulam Noor Rabbani Khar and Nawabzada Mansoor. Dasti however revolted against People's Party, and in the party's stronghold he won two seats, he has subsequently aligned with the Pakistan Tehreek-e-Insaf in the National Assembly and on national issues such as US drone strikes where he was present at Imran Khan's rally [5]
Enhanced by Zemanta

0 comments:

بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے

02:20 Unknown 0 Comments


سلطنت روما کے عروج و زوال کی داستان پڑھتا ہوں تو لرز جاتا ہوں اور گاہے یہ خیال آتا ہے کیا ہم اسی راستے پر تو نہیں چل پڑے جہاں تہذیب و ثقافت کے پجاریوں کی قبریں جا بجا پھیلی نظر آتی ہیں۔ روم کے بے تاج بادشاہوں کو جشن طرب برپا کرنے کے سب طریقے فرسودہ محسوس ہونے لگے اور اکتاہٹ ہونے لگی تو یکسانیت دور کرنے کے لئے ایک نئی طرح کا کلچر فروغ دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ مورخین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ منفرد نوعیت کے اس اسپورٹس فیسٹیول کا نادر تخیل کس درباری نے پیش کیا تاہم جولیو کلیڈین خاندان جس نے روم پر کئی سو سال بادشاہت کی، اس کے دور حکمرانی میں گلیڈیٹر کے نام سے ایک وحشیانہ کھیل شروع کیا گیا جس کا مقصد رومی تہذیب و ثقافت کا تحفظ تھا۔

گلیڈیٹرز وہ قیدی اور غلام ہوا کرتے تھے جنہیں پالتو کتوں کی طرح پالا پوسا جاتا، کھلایا پلایا جاتا اور سالانہ فیسٹیول کے لئے تیار کیا جاتا۔ کئی ماہ پہلے اس منفرد شو کی ٹکٹیں فروخت ہوتیں اور مقررہ دن ایک بڑے میدان میں تماش بینوں کا انبوہ جمع ہو جاتا۔ بادشاہ کے درباری، امراء، رئوسا اور دیگر اشراف کے لئے اسٹیج سجایا جاتا، بادشاہ سلامت تھرکتے اجسام اور موسیقی کی دلنواز دھنوں سے نغمہ بار فضا میں تشریف لاتے اور یوں اس کھیل کو شروع کرنے کا حکم دیا جاتا۔ گلیڈیٹر جنہیں عرصہ دراز سے سدھایا گیا ہوتا، انہیں ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آنے کا حکم ملتا۔ وہ نہایت سلیقے اور قرینے کے ساتھ منظم انداز میں بادشاہ سلامت کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے اور سلامی پیش کرتے۔ اس کے بعد میدان کے ایک حصے میں موجود ان کچھاروں کے جنگلے کھول دیئے جاتے جن میں وحشی درندوں کو کئی دن سے بھوکا رکھا گیا ہوتا۔

شیر، چیتے، ریچھ ان سے نکلتے ہی گلیڈیٹروں پر ٹوٹ پڑتے۔ گلیڈیٹرز اپنے ہتھیاروں کے ساتھ بھوکے درندوں کا مقابلہ کرتے۔ میدان انسانوں اور حیوانوں کے خون سے بھر جاتا۔ لڑائی تب ختم ہوتی جب ان درندوں یا انہی کی طرح سدھائے گئے انسانوں میں سے کوئی ایک گروہ غالب آ جاتا۔ مورخین کا محتاط اندازہ یہ ہے کہ اس کھیل میں ہر سال کم از کم 8000 گلیڈیٹر مارے جاتے۔ جو بچ جاتے ،انہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا مگر اس کھیل سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا اور وہ اگلے سال اسی میلے میں پھر کام آ جاتے۔ جب یہ وحشی جانور گلیڈیٹروں کی تکا بوٹی کر رہے ہوتے تو تماشایئوں کی ہذیانی چیخیں اور موسیقی کا شور مل کر سماں باندھ دیتا اور بادشاہ سلامت ان مناظر سے بیحد لطف اندوز ہوتے۔

روم میں گلیڈیٹروں کا یہ کھیل کئی سو سال تک جاری رہا اور اسے روم کی ثقافت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہاں تک کہ کلیڈین سلسلہ کے آخری چشم و چراغ نیرو نے اقتدار سنبھال لیا۔ نیرو کا برسراقتدار آنا بھی اقتدار کی رسہ کشی کے خود غرضانہ کھیل کا ایک عجیب موڑ تھا۔ نیرو موسیقی کا رسیا تھا،اسے کسی ناچنے والے گھر میں جنم لینا تھا مگر شاہی خاندان میں پیدا ہو گیا۔ اس لئے وہ تخت نشین ہونے کے بعد بھی باقاعدہ ناچتا گاتا اور اپنے درباریوں سے داد وصول کرتا۔ اس کی ماں ایپرپینا نے اپنے شوہر کو زہر دے دیا تاکہ نیرو بادشاہت کا حقدار بن سکے۔ اس کے چچا کلاڈیئس نے اپنے بھتیجے نیرو کو تخت و تاج کا وارث نامزد کر دیا لیکن یہ شخص ایسا احسان فراموش اور مطلبی نکلا کہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے انہیں ٹھکانے لگایا جن کی وجہ سے اسے اقتدار نصیب ہوا۔

پہلے اس نے اپنے محسن چچا کے بیٹے کو مروایا اور پھر ماں کو قتل کر دیا۔ اپنی ایک بیوی کو اس نے تب لات مار کر ہلاک کر دیا جب وہ حاملہ تھی۔اسے جب جو لڑکی پسند آتی، اس کے شوہر کو قید میں ڈال کر اپنے پاس رکھ لیتا۔ ناول نگار Gaius Suetonius کو رومی تاریخ کا سب سے معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول The twelve ceasre میں نیرو کی خباثت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب نیرو کا دل شادیوں سے بھر گیا تو اس نے جی بہلانے کے لئے ایک نئی ترکیب سوچی ، وہ اپنے سپاہیوں کے ذریعے انتہائی پاکباز و پاکدامن کنواری لڑکیوں کی کھوج لگواتا،انہیں اپنے کارندے بھیج کر زبردستی اٹھواتا اور اپنے جنسی درندوں کے حوالے کر دیتا تاکہ وہ اجتماعی آبروریزی کا شوق پورا کر سکیں۔ جب درندگی کا یہ کھیل شروع ہوتا اور مظلوم لڑکیوں کی دلدوز چیخوں سے زمین ہل رہی ہوتی تو یہ نفسیاتی مریض حظ اُٹھاتا اور اپنے جذبات کی تسکین کرتا۔ اقتدار کے آخری ایام میں اس نے ایک اور خباثت یہ کی کہ ایک انتہائی حسین و جمیل لڑکے کو عمل اخصاء کے ذریعے نا مرد کیا اور دلہن بنانے کے بعد زندگی بھر اپنے پاس رکھا۔ ایک مرتبہ جب نیرو کے دوست اور آرمینیا کے شہنشاہ ٹریدیٹس نے روم کی سیر کو آنا تھا تو نیرو نے گلیڈیٹرز کے کھیل میں جدت پیدا کرنے کے لئے اس میں گلیڈیٹر عورتوں کا اضافہ کر دیا اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی وحشی درندوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا۔


ایک جملہ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ 64 قبل مسیح روم میں شدید آگ لگی جس میں دارالسلطنت کے دوتہائی علاقے جل کر راکھ ہو گئے اور ہزاروں انسان زندہ جل گئے۔جب روم جل رہا تھا تو نیرو 53میل دور واقع اپنے محل کی ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ چونکہ نیرو عیاش اور اذیت پسند تھا لہٰذا یہ آگ اس نے خود لگوائی تاکہ جلتے مرتے لوگوں کی دلدوز چیخوں سے محظوظ ہو سکے۔ کسی شاعر نے ایسے حکمرانوں کی کیا خوب عکاسی کی ہے:

لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے کہا

اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت

جھکا کر سر سبھی شاہ پرست بولے حضور!

شوق سلامت رہے شہر اور بہت

جب سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے موئن جو دڑو میں ہنگامہ برپا تھا اور کسی نے آثار قدیمہ کو نقصان پہنچنے کی بات کی تو جیالے سیخ پا ہو گئے اور میں محولہ بالا اشعار گنگناتا رہ گیا۔ میلوں ٹھیلوں کے ذریعے عوام کو رام کرنے اور لبھانے کی ریت تو بہت پرانی ہے۔ سندھی ثقافت کے نام پر تو یہ ناٹک پہلی بار ہوا مگر پنجابی اور پختون ثقافت کے نام پر تو اس طرح کی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ اس تقریب کی خبر تو نمایاں طور پر شائع ہوئی مگر ایک چھوٹی سی خبر کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ خبر یہ تھی کہ اس تقریب سے واپس جانے والے انجیئنروں کو ڈاکوئوں نے لوٹ لیا...کیونکہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ جب بھوکے ننگے روم کے شہریوں نے نیرو کے خلاف بغاوت کی تو اس تہذیب و ثقافت کا بھی جنازہ نکل گیا۔ نیرو کو معلوم تھا کہ لوگ اس کی تکا بوٹی کر دیں گے اس لئے اس نے محض 31 سال کی عمر میں خودکشی کر لی۔

جس طرح ایک شہزادے نے ثقافت کے نام پر لوگوں کی غربت کا مذاق اُڑایا، ویسے ہی ایک اور شہزادے نے اسپورٹس فیسٹیول رچایا اور سب سے بڑا قومی پرچم بنانے کا اعزاز پایا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے والوں کو کیا معلوم کہ ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں بھی لکھا جا چکا۔شنید ہے کہ اب بسنت منانے کی تیاریاں بھی پورے زور شور سے جاری ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ثقافت کے نام پر میرے ہم وطنوں کی غربت کا مذاق اُڑایا جائے گا۔ نہ جانے کیوں ایسے میلوں ٹھیلوں اور فیسٹیولزکو منعقد ہوتا دیکھ کر مجھے سندھ اور پنجاب کے شہزادوں پر ترس آتا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔


بشکریہ روزنامہ ' جنگ '

0 comments:

The Reality of Altaf Hussain by Hamid Mir

23:47 Unknown 0 Comments


 The Reality of Altaf Hussain by Hamid Mir

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Pakistan Constitution & Shariah by Ansar Abbasi

23:40 Unknown 0 Comments


Pakistan Constitution & Shariah by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

0 comments:

وزیرستان کو صوبے کی حیثیت دی جائے!

01:35 Unknown 0 Comments


Waziristan
Enhanced by Zemanta

0 comments:

نواز شریف کا تیسرا دور حکومت اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات

00:00 Unknown 0 Comments


کسی زمانے میں میاں نواز شریف اور ان کی جماعت پا کستان پیپلز پارٹی کو اس وجہ سے غدار ِوطن قرار دیتی تھی کہ وہ ہندوستان نواز ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ہندوستان کے وزیر ِاعظم راجیو گاندھی کی آمد پر مسلم لیگ کے سرکردہ ممبران نے اس وجہ سے طوفان کھڑا کر دیا تھا کہ وفاقی حکومت نے سڑک کے ایک کنارے سے کشمیر کا بورڈ ہٹا دیا۔ اس مبینہ واقعے کو ایک کمپین میں تبدیل کیا گیا اور ایک طویل عرصے تک اس کو بطور تیراستعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پر تاک تاک کر نشانے لگائے گئے۔ کشمیر کو بزورِ شمشیر فتح کر نے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قربت کی وجہ سے مسلم لیگ ہندوستان کے بارے میں ایک خاص رویہ رکھتی تھی۔ مگر وہ زمانہ کوئی اورتھا۔ اب مسلم لیگ نواز ہندوستان کے ساتھ بھائی چارے اور ہر قیمت پر امن قائم کرنے کے فلسفے کی سب سے بڑی داعی ہے۔

شریف کیمپ میں یہ سوچ یک دم نہیں ابھری ۔ واجپائی کے ساتھ لاہور مذاکرات مسلم لیگ میں کاروباری حلقوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ایک ثبوت بھی ہے اور وہ عنصر بھی جس نے نوازلیگ کو ہندوستان کو مار لگاؤ کے راستے سے ہٹا کر ہندوستان سے پیار کرو کے راستے پرلا کھڑا کیا ہے۔ اس مرتبہ بہرحال معاملہ صرف کاروباری اور تجارتی مراسم بڑھانے کا ہی نہیں ہے۔ نواز لیگ میں یہ سوچ جڑیں پکڑ چکی ہیں کی ہندوستان کے ساتھ بغل گیر ہو کر وہ ایسا بڑا کام کر پائیں گے جسکی کامیابی کے توسط سے دنیا میں نام بھی پیدا کریں گے اور اندرونی طور پر دیرینہ معاشی مسائل میں کمی لانے کا انتظام بھی کر لیں گے ۔ سادہ الفاظ میں میاں نواز شریف اور ان کے قریبی حلقے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، معاشی کمزوری، توانائی کے بحران اور دہشت گردی جیسے درد سر کو حل کرنے کے لیے ایک ایسا رستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس میں وقت بھی کم صرف ہو اور نتائج بھی جلدی نکلیں۔ شریف برادران کو بتایا گیا کہ جس طرح جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑ لڑ کر کچھ حاصل نہ کر پائے اور آخر میں اکٹھے ہو کر نئے یورپ کی بنیاد بن گئے۔ ہندوستان اور پاکستان بھی ایسا ہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یورپی اکٹھ کی طرح جنوبی ایشیا کا یکجا ہو جانا اس قسم کے فوائد کا باعث بن جائے گا جن سے آج کل بین الاقوامی جنگوں کا میدان ترقی کے حیرت کدہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تمام معاملات کو بھائی چارے کے ساتھ طے کرنے کا ایک اور فائدہ فیصلہ سازی کے عمل پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کا کمزور ہونا بھی ہو گا۔

فوجیں جنگوں اور تنازعات میں ضرورت سے زیادہ طاقت والا کردار اپنا لیتی ہیں۔ امن کے ماحول میں سیاست دان حتمی اور کلی طور پر طاقت کی لگام اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں گارڈین اخبار نے وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق چھپنے والا انٹرویو اس تناظر میں پڑھنا چاہیے۔ گارڈین اخبار نے لکھا ’’شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان میں موجود ناقابل بھروسہ حساس ادارے آزاد تجارت کی راہ میں حائل دو رکاوٹوں میں سے ایک ہیں۔ دونوں ممالک کے حساس اداروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حفاظتی نکتہ نظر معاشی تحفظ کی بدولت ہوتا ہے۔ جب تک آپ معاشی طور پر محفوظ نہ ہوں اس وقت تک آپ کے پاس عمومی تحفظ بھی نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ کشمیر، سرحد پار پانی کے حقوق اور سیاچن جیسے مسائل صرف مذاکرات سے حل ہو سکتے ہیں۔ ہم تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ اور اس سے ہمیں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔‘‘

اگر یہ بیان وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے آیا ہوتا تو اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ شہباز شریف ظاہراً فوج کے قریب ترین ہیں۔ آرمی چیف کے ساتھ وہ اور چوہدری نثار سب سے زیادہ رابطے میں رہتے ہیں۔ فوج کو پنجاب کے فنڈز سے ترقیاتی کاموں میں سہولت جتنی شہباز شریف نے فراہم کی اس کا تصور بھی محال ہے۔ عام اور نجی ملاقاتوں میں بھی وہ خود سے اس تصور کو پروان چڑھاتے ہیں کہ بڑے بھائی تو فوج سے متعلق سخت رویہ رکھتے ہیں لیکن وہ غیر ضروری طور پر غیر لچک دار رویہ اپنانے کے قائل نہیں ہیں۔ مگر ہندوستان کے معاملے پر شہباز شریف جیسا نرم انداز رکھنے والا وزیر اعلی بھی ایسا بیان دینے سے گریز نہیں کر رہا جس کے نتائج سویلین اور اس کی قیادت کے تعلقات میں خرابی کا باعث بن سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے ان باتوں کی تردید کر دی ہے لیکن گارڈین کی خبر نے جو کام کرنا تھا‘ وہ کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی طرف ’’دروازہ کھول دو‘‘ پالیسی وہ معاملہ ہے جس پر نواز لیگ کی تمام قیادت ایک ہی آواز سے بولنا چاہتی ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کو کرنے کے لیے نواز لیگ کی حکومت ہر قسم کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہو گی ۔

وفاقی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد کرنے کے لیے اس وجہ سے بھی مائل ہے کہ اس کے اندازوں میں آج کل سے زیادہ موافق ماحول دوبارہ دستیاب نہ ہو۔ دہلی کے ساتھ تجارت، کاروبار اور ثقافت کے رابطوں کو گہرا کرنے کے خلاف کوئی سیاسی آواز میدان میں موجود نہیں ہے۔ حتی کہ ق لیگ اور پاکستان تحریک انصاف خود نواز لیگ سے زیادہ ہندوستان کے گلے کا ہار بننے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کی طرف سے مشترکہ جوہری توانائی کے منصوبے کی تجویز گواہی دیتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سرحد پار تعلقات گہرے کرنے کی خواہش پاکستان کی روایتی پالیسی پر مکمل طور پر غالب ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی ہندوستان یاترا پہلے سے ہی مشہور ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم دہلی کی زلفوں کی پرانی اسیر جماعتیں ہیں۔ باقی رہی جماعت اسلامی تو اس نے خود کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کھڑا کر کے اپنی ساکھ اس بری طرح خراب کر لی ہے کہ اس کا اعتراض بے وزن ہو گا، عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد نواز لیگ کے قریبی حلقوں میں یہ اعتماد کئی گنا بڑھ گیا ہے کہ اب وہ بڑا کام کرنے کا وقت آن پہنچا ہے جس کے ذریعے میاں محمد نواز شریف تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوانے کے ساتھ ساتھ ملک میں خود کو سیاسی طور پر ناقابل تسخیر بنا پائیں گے۔ سیاسی طور پر لازوال بننے کے اس لائحہ عمل کے دو پہلو باقی ہیں‘ ایک افغانستان اور دوسرا آرمی کے ساتھ تعلقات، ان کا احاطہ اگلے کالم میں تفصیل کے ساتھ کیا جائے گا۔

طلعت حسین


Enhanced by Zemanta

0 comments:

پولیس کا بڑھتا ہوا جانی نقصان

22:48 Unknown 0 Comments


کراچی پولیس ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پولیس بھی ایک عرصے سے پر تشدد وارداتوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور عام پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ ان تینوں صوبوں میں متعدد اعلیٰ پولیس افسران بھی مختلف حملوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ پولیس کے جو اعلیٰ افسران بدامنی میں نشانہ بنائے گئے ہیں ان میں اچھی شہرت کے حامل کے پی کے پولیس کے ڈی آئی جی صفت غیور اور لاہور سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ کے ڈی آئی جی پولیس فیاض احمد سنبل شامل تھے جن کی شہادت کو پولیس کا بڑا نقصان قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی میں پہلی بار ایس ایس پی سطح کے ایک افسر چوہدری اسلم کو گزشتہ ماہ نشانہ بنایا گیا تھا جو پولیس میں ایک دلیر اور بہادر افسر شمار ہوتے تھے مگر ان کی شہادت کے بعد سیاسی، عوامی اور پولیس کے حلقوں میں ان کا بڑا چرچا رہا اور اب ان کے چہلم کی رسم بھی ختم ہوگئی مگر کراچی پولیس کے بڑے بڑے دعوے کرنیوالے پولیس کے اعلیٰ افسران چوہدری اسلم کی شہادت کے اصل حقائق منظر عام پر لاسکے ہیں نہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ رات بھر جاگ کر اہم ملزموں کی گرفتاری کا صبح سویرے پریس کانفرنس میں اعلان کرنے والے چوہدری اسلم کو دوپہر کیوں اچانک طلب کیا گیا تھا؟


چوہدری اسلم کی شہادت کو کراچی پولیس کا بہت بڑا نقصان قرار دیا جاتا ہے جس کے بعد اعلیٰ افسران چوہدری اسلم کے قصیدے ضرور پڑھتے رہے مگر اب تک حقائق منظر عام پر لانے کی کوشش شاید اس لیے نہیں کی گئی کہ اس حملے کی ذمے داری قبول کرلی گئی تھی اور کراچی پولیس کو اس زحمت سے بچا لیا تھا جس کی حقیقی تفتیش ہونی چاہیے تھی حملہ آوروں نے چوہدری اسلم کو نشانہ بنانے کی کچھ وجوہات بھی بیان کی تھیں جن کی وجہ سے کراچی پولیس نے خود کو مزید تفتیش سے بری الذمہ سمجھ کر چوہدری اسلم کو اب بھلانا شروع کردیا ہے اور ایک تھانے میں چوہدری اسلم کے نام سے ایک سبیل قائم کیے جانے سے شاید پولیس کا فرض پورا ہوگیا ہے جس کے بعد سے پولیس کا جانی نقصان مسلسل بڑھ رہا ہے اور بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی ڈیوٹی پر جانے والے15 پولیس اہلکاروں کی جانیں ضایع کرائے جانے کے بعد محکمے کو یہ ضرور خیال آگیا ہے کہ پولیس کے پاس اپنی حفاظت کا معقول سامان خصوصاً حفاظتی جیکٹس، جدید اسلحہ اور تیز رفتار گاڑیاں موجود نہیں ہیں۔

کراچی میں پولیس کی نچلی سطح کے اہلکاروں کا سب سے زیادہ جانی نقصان ہوچکا ہے۔ ٹریفک پولیس کی چوکیوں کو حفاظت کے لیے قریبی تھانوں میں منتقل کرنے، تھانوں کے گیٹ بند کرکے محصور ہوجانے سے موبائلوں، موٹر سائیکلوں پر پٹرولنگ کرنیوالے پولیس اہلکاروں کی بہت بڑی تعداد اب بھی غیر محفوظ ہے۔ یہ اہلکار شاہراہوں پر چیکنگ بھی کرتے ہیں اور اپنی سرکاری گاڑیوں کے پٹرول، گاڑیوں کی مرمت، کھٹارا گاڑیوں کے ٹائروں کی تبدیلی کے علاوہ تھانہ محرروں کی طرف سے بیٹ وصولی کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔ انھیں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کرنیوالوں کو بھی ڈھونڈنا ہوتا ہے نئے گھروں کی چھت بھرائی کی مٹھائی وصولی، کباڑ خانوں پر حاضری کے لیے چھوٹی سڑکوں اور گلیوں میں بھی جانا ہوتا ہے اور اپنے افسروں سے ملنے والی بیگار بھی بھگتانا پڑتی ہے اور وہ یہ سب کچھ کان ہتھیلی پر لے کر کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے ساتھ اے ایس آئی سطح کا افسر ضرور نظر آتا ہے جب کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اپنے اپنے حفاظتی اسکواڈ میں سفر کرتے ہیں اور جن کو سرکاری گھر میسر نہیں وہ مختلف علاقوں میں رہتے ضرور ہیں مگر ان کی گھروں میں حفاظت کرنیوالے پولیس اہلکار ان کے گھروں کے باہر خیموں میں غیر محفوظ ڈیوٹی پر مجبور ہیں۔

پولیس میں 60 سال سے زائد عمر کے ایسے افسر اور اہلکار بھی موجود ہیں جو اب کچھ کر دکھانے کی صلاحیت تو نہیں رکھتے مگر مال بنانے کا ان کا شوق پورا نہیں ہو رہا اور انھوں نے اپنے صاحبزادوں کو بھی پولیس میں بھرتی کروا رکھا ہے مگر وہ محکمے کی جان نہیں چھوڑ رہے اور حکومت سندھ کا یہ فیصلہ بھی عجیب ہے کہ نئے خون اور نوجوانوں کو پولیس میں ملازمتیں دینے کی بجائے فوج کے ریٹائرڈ سپاہیوں کو محکمہ پولیس میں بھرتی کرلیا ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ ریٹائرڈ فوجیوں کے ذریعے کراچی کی بدامنی پر قابو پانے کے خواہاں ہیں حالانکہ فوج اور پولیس کے کام مختلف ہیں اگر ایسا کرنا ہی تھا تو پولیس کے ریٹائرڈ مگر اچھی شہرت اور ماضی میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کی خدمات سیاست اور خوشامد کے بغیر حاصل کی جاسکتی تھیں۔کراچی پولیس میں شکستہ دلی اور بددلی کی ایک وجہ ترقیوں میں ناانصافیاں بھی ہیں اور اسی لیے ترقی کے حقداروں نے عدالت عالیہ سے رجوع بھی کر رکھا ہے مگر جلد انھیں انصاف ملتا نظر نہیں آرہا کیونکہ غیر قانونی ترقی پانے والوں کے ہاتھ بڑے لمبے اور سیاسی سفارشیں مضبوط ہیں جب ہی تو وہ خوشامدی ترقیاں لے کر جونیئر ہونے کے باوجود اپنے سینئرز پر حکم چلا رہے ہیں اور سیاسی حکمران خوش ہیں ۔

تقریباً 11 ماہ تک سندھ کا آئی جی رہنے والے شاہد ندیم بلوچ عزت سے اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوگئے ہیں اور ان کے ریکارڈ میں صرف یہی ہے کہ انھوں نے دوسروں کی طرح اپنی ملازمت میں توسیع کی کوشش نہیں کی البتہ اپنے دور میں موٹر سائیکلوں پر ایک جیسی نمبر پلیٹیں ضرور لگوادیں اور وہ بھی سندھ کے حکمرانوں کے پسندیدہ افسروں کو آپریشن کے دوران من مانیوں سے نہ روک سکے۔

کراچی پولیس اپنے بے پناہ جانی نقصان کے بعد پریشان ہے اور خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے اسی لیے اعلیٰ افسران تک عام لوگوں کی رسائی ناممکن ہوچکی ہے اور کچھ حساس تھانوں کی حفاظت کے لیے خندقیں کھدوا کر یا اطراف میں بڑے بھاری سیمنٹ بلاک رکھوا کر پولیس اپنی حفاظت تو یقینی بنا رہی ہے اور عام لوگ حیران ہیں کہ ان کی حفاظت کیا اب پولیس کی بجائے ریٹائرڈ فوجی کریں گے۔پولیس کی بڑی تعداد وی آئی پیز اور اپنے افسروں کی حفاظت پر مامور ہے اور پولیس کے ساتھ عام لوگوں، افسروں، وکلا، ڈاکٹروں اور سیاسی رہنماؤں کی کلنگ بھی جاری ہے مگر پولیس مخدوش صورتحال پر قابو پانے میں ناکام اور عوام کی حفاظت کی بجائے اپنی حفاظت پر مجبور ہے تو آخر عوام کہاں جائیں کیا کریں؟ مگر اس سب کے باوجود پولیس کو ہر ممکن جدید سہولتوں سے لیس ہونا چاہیے کہ شہر اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری بہر حال پولیس فورس پر ہی عائد ہوتی ہے۔

محمد سعید آرائیں

 

0 comments:

اوباما انتظامیہ کا ہزاروں امریکی فوجیوں کو فارغ کرنے کا فیصلہ

22:39 Unknown 0 Comments



امریکہ نے دفاعی بجٹ میں کمی کے باعث 2017 تک 13 فیصد فوجیوں کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کا صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دفاعی بجٹ کے حجم میں کمی کے باعث فوجیوں کی تعداد کو 13 فیصد کم کر کے دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی تعداد پر لایا جائے گا، حاضر سروس فوجیوں کی تعداد کو 5 لاکھ 70 ہزار سے کم کر کے 4 لاکھ 40 ہزار اور 4 لاکھ 50 ہزار کے درمیان لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سرد جنگ کے دور کے امریکی فضائیہ کے جاسوس لڑاکا طیارے ‘اے10′ کا فلیٹ بھی مکمل طور پر ختم کرکے بغیر پائلٹ کے ڈرون طیارے ‘یو2′ جاسوسی کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، 2017 تک ملک میں کئی فوجی اڈوں کو بند کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

چک ہیگل کا کہنا تھا کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کے منصوبے میں بجٹ سے متعلق حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ فوج مستقبل میں بھی امریکی مفادات کا تحفظ کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ ہمارے مالی چیلجنز کے حجم کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے، ہمیں مستقبل میں بھی اس قسم کے مشکل فیصلے کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی وزیر دفاع نے فوجیوں کی رہائش کے معاوضے میں کمی اور تنخواہوں میں اضافے میں کمی کی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔

واضح رہے کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی اور دیگر اقدامات کے منصوبے کی کانگریس سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے جب کہ گزشتہ چند سالوں میں کانگریس اس طرح کے کئی منصوبے مسترد کر چکی ہے۔

0 comments:

یہ ہیں اصل مسلمان.........(Saylani Welfare Trust)

22:28 Unknown 0 Comments

سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کراچی کے تاجر طبقے کا ایک حیران کن منصوبہ ہے‘ یہ ٹرسٹ مولانا بشیر فاروقی نے 1999ء میں قائم کیا‘ مولانا میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ مسلک کے لحاظ سے حنفی ہیں‘ کراچی میں باردانے کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے‘ جوانی میں طبیعت مذہب کی طرف مائل ہوئی‘ دارالعلوم میں داخل ہوئے‘ مذہبی اور روحانی تعلیم حاصل کی‘ استخارے میں مہارت حاصل کی‘ لوگ ان کے دیوانہ وار مرید ہوئے‘ مذہبی چینل پر لائیو استخارہ شروع کیا‘ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا‘ کراچی کی بزنس مین کمیونٹی میں روحانی رسوخ بنا‘ یہ عملی شخصیت ہیں چنانچہ انھوں نے میمن کمیونٹی کے ساتھ مل کر پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھ دی‘ سیلانی ٹرسٹ کا نام انھیں خانقاہ ڈوگراں میں مدفن خواجہ محکوم الدین سیلانی سے ملا‘یہ بزرگ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہتے تھے‘ یہ اس معمول کی وجہ سے سیلانی کہلاتے تھے‘ یہ سیلانی تھے لیکن سمہ سٹہ ان کا مرکز تھا‘ یہ گھوم پھر کر واپس سمہ سٹہ اور خانقاہ ڈوگراں آجاتے تھے‘ دنیا کے تمام جینوئن بزرگ لنگر ضرور شروع کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ رازق ہے‘ یہ آگ اور پتھر کے کیڑوں کو بھی رزق پہنچاتا ہے چنانچہ یہ ہر اس شخص کو پسند کرتا ہے جو دوسروں کے رزق کا ذریعہ بنتا ہے۔

آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دنیا بھر کی سستی فوڈ چینز کی اسٹڈی کر لیں‘ دنیا کے کسی بھی کونے میں بننے والی سستی فوڈ چین دوسری مصنوعات کے مقابلے میں دس گنا تیزی سے ترقی کرتی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ چین لوگوں کو سستا رزق فراہم کرتی ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کی آمدنی میں برکت ڈال دیتا ہے‘ صوفیاء کرام کیونکہ اللہ کے اس نظام کو سمجھتے ہیں لہٰذا یہ اپنی درگاہ پر لنگر کا اہتمام ضرور کرتے ہیں‘ یہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور یوں ان کا آستانہ‘ ان کی درگاہ بادشاہوں کے دربار سے زیادہ اہمیت اختیارکر لیتی ہے‘ دہلی کے تمام مسلمان حکمران دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ان کے دربار اور محلات اجڑ گئے لیکن دہلی کے صوفیاء کرام کے دربار آج بھی قائم ہیں‘ ان درباروں کی رونق کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ ان کا لنگر بھی ہے‘ ان کا دستر خوان قائم ہے چنانچہ ان کی درگاہ بھی سلامت ہے‘ خانقاہ ڈوگراں کے سیلانی بابا بھی بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے‘ آپ کے اس روحانی ذوق کی وجہ سے آپ کے دربار میں بہت رونق تھی‘ یہ رونق آج بھی قائم ہے‘ سیلانی بابا آخری عمر میں سفر کے لیے نکلے‘ بھارت کے علاقے دھراجی میں قیام کیا اور وہاں ان کا وصال ہو گیا‘ دھراجی کے لوگوں نے آپ کو اپنے علاقے میں دفن کردیا‘ سمہ سٹہ کے لوگوں کو علم ہوا تو یہ دھراجی پہنچ گئے اور آپ کی میت کا مطالبہ کردیا۔

دھراجی کے لوگوں نے انکار کر دیا‘ نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی‘ اس دوران خواجہ محکوم الدین سیلانی دھراجی کے راجہ کے خواب میں آئے اور اس کو حکم دیا‘ آپ ان لوگوں کو میری لاش لے جانے دو‘ میں وہاں بھی رہوں گا اور آپ کے پاس بھی‘ راجہ نے اس حکم پر لبیک کہا‘ آپ کے مریدین آپ کا وجود اطہر لے کر سمہ سٹہ آ گئے اور خانقاہ شریف میں آپ کو دفن کر دیا‘ دھراجی کے راجہ نے تجسس سے مغلوب ہو کر ایک دن آپ کی خالی قبر کھول کر دیکھی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ حضرت صاحب قبر میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے‘ راجہ نے قبر بند کی اور اس پربھی مزار بنوا دیا‘ یوں دنیا میں خواجہ محکوم الدین سیلانی بابا کے دو مزار ہیں‘ بھارت کے علاقے دھراجی اور پاکستان کے شہر سمہ سٹہ کے مضافات میں ‘ مولانا بشیر فاروقی اور ان کے ساتھیوں نے جب 1999ء میں ویلفیئر ٹرسٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ لوگ نام تلاش کرنے لگے‘ آپ حسن اتفاق دیکھئے‘ یہ لوگ ٹرسٹ قائم کرنے کے لیے کراچی کی جس عمارت میں اکھٹے ہوئے وہ عمارت سیلانی چوک میں واقع تھی اور وہ علاقہ دھراجی کہلاتا تھا‘ ان لوگوں نے اسے قدرت کا اشارہ سمجھا اور اپنے ادارے کا نام سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ رکھ دیا۔

یہ ٹرسٹ پندرہ سال قبل بنا لیکن اس نے کراچی‘ حیدر آباد اور فیصل آباد میں کمال کر دیا‘ کراچی شہر میں اس کے 52 دستر خوان ہیں‘ ان دستر خوانوں پر روزانہ ایک لاکھ لوگ مفت کھانا کھاتے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ روزانہ 500 بکرے ذبح کرتا ہے‘ یہ ان کا سالن پکا کر غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور جو گوشت بچ جاتا ہے‘ یہ لوگ اسے غریبوں کی بستیوں میں بانٹ دیتے ہیں‘ یہ کراچی کے پانچ ہزار گھرانوں کی کفالت بھی کر رہے ہیں‘ یہ انھیں مہینے بھر کا راشن دیتے ہیں‘ ان کے گھروں کا کرایہ ادا کرتے ہیں‘ ان کے یوٹیلٹی بل ادا کرتے ہیں‘ ان کے بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرتے ہیں اور انھیں ادویات بھی فراہم کرتے ہیں‘ یہ پانچ ہزار خاندان وہ ہیں جن کے سربراہ ٹارگٹ کلنگ‘ ایکسیڈنٹ یا فساد میں مارے گئے اور ان کے خاندان کا کوئی کفیل نہیں‘ یہ لوگ اس مد میں ہر مہینے اڑھائی کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں‘ یہ انتہائی غریب لوگوں کو گھر اور فلیٹ بھی بنا کر دے رہے ہیں‘ یہ بیروزگاروں کو رکشے بھی خرید کر دیتے ہیں۔

کراچی شہر میں انھوں نے ساڑھے سات سو رکشے دیے‘ رکشہ مالکان سیلانی ٹرسٹ کو روزانہ اڑھائی سو روپے ادا کرتے ہیں اور اٹھارہ ماہ بعد رکشے کے مالک بن جاتے ہیں‘ یہ پاپ کارن اور چائے کی چھوٹی مشینیں بھی دیتے ہیں‘ کراچی میں انھوں نے ایک ڈسکاؤنٹ اسٹور بھی قائم کیا‘ اس اسٹور سے کوئی بھی شخص خریداری کر سکتا ہے‘ خریداروں کو اسٹور میں 30 فیصد رعایت ملتی ہے‘ یہ ہر مہینے ساڑھے چار سو بچیوں کو جہیز بھی دیتے ہیں‘ یہ دس ہزار طالب علموں کو وظائف بھی دے رہے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ نے ایک انتہائی دلچسپ چیز بھی ایجاد کی‘ انھوں نے فائر موٹر سائیکل بنوائے‘ یہ موٹر سائیکل آگ بجھاتے ہیں‘ موٹر سائیکلوں پر پانی کے چھوٹے ٹینک اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے سلینڈر لگے ہیں‘ یہ موٹر سائیکل چند منٹوں میں ان گلیوں میں گھس جاتے ہیں جہاں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں نہیں پہنچ پاتیں‘ یہ وہاں پہنچ کر فوراً آگ بجھا دیتے ہیں‘ میری چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے درخواست ہے‘ یہ سیلانی ٹرسٹ کی اس ایجاد سے فائدہ اٹھائیں‘ موٹر سائیکلوں کو بھی فائر بریگیڈ کا حصہ بنائیں‘ اس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ ہو گا‘ یہ لوگ کراچی کے لیے لمبی لمبی سیڑھیاں بھی درآمد کر رہے ہیں‘ یہ ایسے غبارے بھی لا رہے ہیں جو آگ لگنے کی صورت میں عمارتوں کے نیچے بچھا دیے جائیں گے اور لوگ ان پر کود کر جان بچا سکیں گے۔

سیلانی ٹرسٹ نے ڈسپنسریاں بھی بنا رکھی ہیں‘ یہ بنیادی صحت پر بھی کام کر رہے ہیں‘ یہ موبائل کلینک بھی بنا رہے ہیں‘ ان کے چھوٹے اسپتال بھی ہیں‘ یہ کمپیوٹر ٹریننگ کا پروگرام بھی چلا رہے ہیں‘ ان کی کمپیوٹر لیب میں پانچ سو طالب علم مفت ٹریننگ لیتے ہیں اور یہ ٹریننگ کے بعد مہینے میں تیس چالیس ہزار روپے کما لیتے ہیں اور یہ لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے انھیں مختلف قسم کے ہنر بھی سکھاتے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ 63 شعبوں میں کام کر رہاہے‘ یہ ویلفیئر پر سالانہ دو سو 15 کروڑ روپے (سودو ارب) خرچ کرتے ہیں‘ ان کے ڈونرز کراچی کے بڑے بزنس مین ہیں‘ یہ بزنس مین اس ادارے کے ٹرسٹی ہیں‘ یہ ادارے کو وقت بھی دیتے ہیں‘ توانائی بھی اور سرمایہ بھی چنانچہ یہ ادارہ صرف پندرہ برس میں پاکستان کا سب سے بڑا ٹرسٹ بن گیا‘ اس میں اس وقت رضا کاروں کے علاوہ تیرہ سو لوگ کام کرتے ہیں‘ ادارہ ان ملازمین کو دانت صاف کرنے‘ ناخن کانٹے‘ جوتے پالش کرنے‘ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے اور صاف لباس پہننے کا الاؤنس دیتا ہے‘ یہ ملازمین کو کتابیں بھی فراہم کرتا ہے۔

میں سیلانی فاؤنڈیشن کا کام دیکھنے کے لیے ہفتہ اور اتوار دو دن کراچی گیا‘ مجھے ان دو دنوں میں مولانا بشیر فاروقی (جنھیں یہ لوگ حضرت صاحب کہتے ہیں) سے تین ملاقاتوں کا موقع ملا‘ حضرت صاحب نے اپنی زندگی اور وقت سیلانی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دی ہے‘ یہ صبح سے رات تک سیلانی ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر میں رہتے ہیں‘ یہ ادارے کا کام بھی دیکھتے ہیں اور سیکڑوں لوگوں کے لیے استخارہ بھی کرتے ہیں‘ کراچی کے چند بڑے بزنس مینوں نے بھی خود کو سیلانی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دیا ہے‘ یہ لوگ کاروبار اپنے بچوں کو سونپ کر سیلانی ٹرسٹ کے ہو کر رہ گئے ہیں‘ یہ اپنے ہاتھ سے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں‘ انھیں راشن دیتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں‘ یہ لوگ ہڑتالوں اور فسادات کے دنوں میں کراچی کے محصورعلاقوں میں خوراک تقسیم کرتے ہیں‘ اتوار کے دن سیلانی ٹرسٹ نے پی اے ایف میوزیم میں دو ہزار دو سو طالب علموں کا ٹیسٹ لیا‘ یہ نوجوان کمپیوٹر کورس کرنا چاہتے ہیں۔

سیلانی ٹرسٹ نے ان بائیس سو طالب علموں میں سے ساڑھے چار سو طالب علم منتخب کیے‘ ٹرسٹ ان نوجوانوں کو مفت کمپیوٹر کورس کروائے گا‘ یہ کورس انتہائی جدید اور مفید ہے‘ یہ نوجوان اس کورس کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے‘ میں نے زندگی میں پہلی بار ایک وسیع ٹینٹ کے نیچے دو ہزار دو سو نوجوانوں کو ٹیسٹ دیتے دیکھا‘ ان نوجوانوں کے لیے کرسی اور میز دونوں کا بندوبست تھا‘ یہ انتظام بذات خود حیران کن تھا‘ میں ان لوگوں کے اخلاص‘ مستقل مزاجی‘ عاجزی اور خدمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا‘ یہ پانچ وقت نماز بھی پڑھتے ہیں‘ ان کا حلیہ بھی اسلامی ہے‘ یہ مولوی ہیں لیکن ان لوگوں نے یورپ اور امریکا کے ٹرسٹوں سے کہیں بہتر ادارہ بنایا‘ میں نے انھیں دیکھا‘ میں انھیں ملا تو بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو گیا‘ یہ ہیں اصل مسلمان اور یہ ہے اسلام کی اصلی اور سچی تصویر۔کاش ہم پر اعتراض کرنے والی قومیں ہماری یہ تصویر بھی دیکھ لیں‘ انھیں یقین آ جائے گا اسلام امن اور مسلمان امان ہیں‘ طالبان نہیں ہیں۔

جاوید چوہدری

 یہ ہیں اصل مسلمان.........(Saylani Welfare Trust)  

Enhanced by Zemanta

0 comments:

جیل کے ساتھی…

01:25 Unknown 0 Comments


قیدیوں کو سب سے زیادہ گلہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے ہوتا ہے جو انھیں کڑے وقت میں اکیلا اور حوادث زمانہ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عموماً ایسے ساتھی جیل میں ملاقات کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ اگر ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو انھیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوران ملاقات یا اس کے بعد جس ساتھی کے ملاقات کے لیے وہ آیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اٹھا کر نہ لے جائیں۔

عموماً ایسے قیدی اپنے دوست احباب اور ساتھیوں سے بڑی بڑی توقعات بھی اس لیے وابستہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اثر و رسوخ انھیں مصائب کی دنیا سے جلد نکال سکتا ہے۔ میں نے ایسے لاتعداد قیدی دیکھے ہیں جنھیں اپنے ساتھیوں کی بے وفائی اور بے رخی کا بڑا قلق تھا۔ ایک قیدی نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی عزت و ناموس سب کچھ اپنے ساتھیوں کے لیے قربان کردی، لیکن اس کے ایسے ساتھی بھی تھے جنھوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا اور اب اس کا ساتھ دینا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی شرمندگی پر معافی کے بجائے ایسے طریقے اختیار کرلیے کہ اسے جتنا ممکن ہو جیل میں ہی رکھا جاسکے۔ ایک قیدی نے اپنی داستان میں اپنے کچھ ایسے ساتھیوں کا ذکر کیا جنھوں نے اس سے ملاقات ہی چھوڑ دی۔کورٹ میں آنے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں اپنی مفلوک الحالی میں ان سے امداد نہ مانگ لوں۔ اس قیدی کا یہ کہنا تھا کہ دولت تو آنے جانے والی چیزیں ہیں۔ لیکن اپنے ساتھیوں کا رویہ بڑا دل شکن ہے جس نے تمام اعتماد کی دیوار کو چھلنی چھلنی کردیا ہے۔

ایک سیاست زدہ قیدی سے احوال دریافت کیا تو اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ جو جماعت اس کے چھوٹے مسئلے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی وہ کسی قوم کی تقدیر بدلنے اور انقلاب کے نعرے لگانے سے باز رہے۔ اسے بھی اپنے رشتوں داروں سے زیادہ اپنے احباب کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا اس قیدی کے جذبات میں زمانے سے شکوئوں سے زیادہ اپنی سیاسی جماعت کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا کہ اس نے دل فریب نعروں میں آکر کتنی قربانیاں دیں۔ اپنا سوشل بائیکاٹ کروایا۔ دشمنیاں مول لیں۔ لیکن اس کی جماعت کے بااثر ساتھی، اس کے بجائے منشیات فروشوں کا ساتھ اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ وہ غریب ہے۔ ان کے لیے جرائم کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا اور انھیں ناجائز کاموں سے حصہ نہیں دے سکتا۔

یہاں میری حیرانگی دیدنی تھی کہ اگر وہ یہ عمل نہیں کرسکتا تو پھر وہ جیل میں کیوں ہے تو اس نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ بھی ساتھیوں کا تحفہ ہے۔ ان کی نظر کرم اور بڑے بڑے دعوؤں کا نتیجہ ہے۔

ایک قیدی نے اپنے بال بچوں کے بے سہارا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے دل میں ہل چل پیدا کردی کہ اس کے گھر والے بے سہارا ہوچکے ہیں۔ مالک مکان نے اس کے گھر والوں کو گھر سے اس لیے نکال دیا کہ وہ کرایہ نہیں ادا کرسکے تھے، کیونکہ ان کے گھر کا واحد کفیل مہینوں سے قید ہے۔مالک مکان نے اس کے گھر والوں کا کوئی عذر اس لیے سننے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ ایک سال سے بغیر کرایہ ادا کیے رہ رہے تھے۔ اس قیدی نے بتایا کہ اس کے رشتے دار، بھائی وغیرہ بہت غریب ہیں۔ اس کے حالات بھی کبھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے فلیٹ، مکان، زمین اور اپنی گاڑی تھی بچے اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اچھا کھانا اور اچھا رہن سہن اس کا مقدر تھا۔ لیکن کچھ ساتھیوں کی صحبت نے اسے آہستہ آہستہ ان نعمتوں سے محروم کردیا اور وہ قلاش ہوگیا اور اسکول سے بچے نکال دیے گئے۔

اس قیدی کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے دوست، ساتھی اس کی مدد کریں گے اس کا ساتھ دیں گے۔ اس قیدی نے بتایا کہ ان کا ایک سماجی حیثیت سے وابستہ ایک فورم تھا جس میں صنعت کار، وڈیرے، سرکاری اعلیٰ افسران، سیاسی نمایندے، ایم پی اے، ایم این اے تک اس کے ساتھی تھے۔ لیکن انھوں نے اس تکلیف میں پلٹ کر اس کی خبر تک نہیں لی۔ اس قیدی کا گلہ اپنے ساتھیوں سے اس لیے زیادہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے اپنا سب کچھ ان کی خاطر تباہ کیا ہے اس لیے اگر وہ سب مل کر اس کا ساتھ دیتے تو آج وہ جیل میں نہ ہوتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا۔ اس کے گھر والے در بدر نہ ہوتے۔ فاقے نہ کاٹتے اور انھیں مصائب کا سامنا نہ ہوتا۔

جیل میں ایسے قیدیوں کے احوال بھی سنے جنھوں نے بتایا کہ وہ ایک اچھی زندگی کا خواب سجائے، غلط راستوں پر چلے، لیکن ساتھیوں کی غلط محفل کا انجام بھی غلط ہوا۔ انھوں نے ساتھیوں سے بدلہ لینے کی قسم کھائی۔ کچھ ایسے سیاسی قیدی بھی میری نشست میں گویا ہوئے کہ انھوں نے اپنے لیڈروں کے کہنے پر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا لیکن انھیں بے سہارا بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔کسی نے ان کی وجہ سے دبئی میں کاروبار سجا لیے تو کسی نے ملائیشیا میں اپنے خاندان کو سیٹ کرلیا۔ اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مفروضوں اور نظریوں کے تحت مقید یہ قیدی اپنے لیڈروں سے نالاں نظر آئے کہ انھیں معمولی سی قانونی معاونت بھی فراہم کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ یہاں ان قیدیوں کے ساتھیوں، احباب، رشتے داروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ جیل میں قید اپنے ساتھی، دوست، رشتے داروں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں ان کے لیے کچھ نہ کریں، لیکن انھیں دلاسا تو دے سکتے ہیں۔

جیل میں پڑے یہ قیدی اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سے بڑی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن بڑی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ جب قیدی اپنی داستان میں روتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ اسے یہ تکلیف دہ دن اپنے ساتھی کی بدولت ممکن ہو رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ہزاروں قیدی، لاکھوں داستانیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کا مختصراً تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن مخصوص قیدیوں کی مشترکہ داستانوں میں سب سے زیادہ تذکرہ ان کے ساتھیوں کی بے رخی سے متعلق تھا۔ ایک قیدی نے بطور خاص کہا کہ ’’یہ ضرور لکھنا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ’’بھول مت جانا‘‘دیکھ لو کہ ساتھی آپ سب بھول گئے، گول گپے بھی نہیں کھلائے‘‘۔

غیر مبہم سی فرمائش پر لکھ تو دیا لیکن دل مسوس ہوکر رہ گیا کہ جیسے یہ داستانیں یہ شکوے، شکایتیں کرنے والے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے دوست احباب، رشتے دار سے زیادہ اپنے ساتھی پر بھروسہ کرتے نظر آئے۔ کاش کوئی ساتھی ان کا بھروسہ قائم رکھ دے۔

قادر خان   

Enhanced by Zemanta

0 comments:

میاں نواز شریف کا تیسرا دور، انداز اور اہداف

22:45 Unknown 0 Comments


پچھلے دو ادوار حکومت کی نسبت اس مرتبہ وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کی ٹیم مدبر نظر آتی ہے۔ نہ ہی سیاسی مخالفین کے گلے پڑنے کی عادت اپنائی ہے اور نہ ابھی تک کسی بڑ ے بدعنوانی کے اسکینڈل کا سامنا ہوا ہے۔ پچھلے ادوار کے طریقۂ کار کے برعکس اداروں سے جھگڑے مول لینے سے اجتناب بڑھتا جا رہا ہے۔ جس عقل مندی کے ساتھ اس حکومت نے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو خوش کر کے رخصت کیا ہے وہ طاقت کی سیاست میں احتیاط کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ افتخار محمد چوہدری، وہ گبھرو چیف جسٹس، جن کا ذکر آج کل ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا اسی قسم کی احتیاط کی پالیسی کے تحت سنبھالے گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی حتی کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف دونوں جماعتوں کے ساتھ تعلقات اس حد تک خراب نہیں ہونے دیے گئے کہ خواہ مخواہ کا سیاسی مسئلہ کھڑا ہو اور احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور اُن کی ٹیم تیسرے دور حکومت میں بدل گئے ہیں۔

طریقہ کار بدل گیا ہے مقاصد ابھی تک پرانے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کی طرح بلکہ شاید اُن سے بڑھ کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت خود کو طاقت میں ہمیشہ برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے لٹھ بازی، لڑائی، نعرے اور واویلے مچا کر یہ کام کیا جاتا تھا‘ اب اس ترکیب کے اجزاء بدل گئے ہیں۔ آٹھ، نو ماہ گزارنے کے بعد نواز شریف کی تیسری حکومت کے چند ایک خدوخال واضح ہو چکے ہیں۔ اس مرتبہ نواز شریف چار سمتوں سے خود کو طاقت میں قائم اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ چار سمتیں امور خارجہ اور دفاعی پالیسی، جنوبی ایشیا میں یورپی یونین جیسے نظام کی بنیاد رکھنے کی کوشش، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو مختلف طریقوں سے اپنے نقطہ نظر کی طرف مائل کرنے یا اپنے تابع کرنے کے اقدامات اور سب سے بڑھ کر خود کو سیاسی نظام میں محفوظ بنانے کی کوششوں پر مبنی ہے۔ ان تمام زاویوں پر یکسو کام ہو رہا ہے‘ مکمل یکسوئی کے ساتھ۔ صرف دیکھنے میں یہ سب مختلف اقدامات محسوس ہوتے ہیں عملاً ان کا مقصد اپنی طاقت کو دوام دینا ہے۔

خارجہ اور دفاعی پالیسی میں امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ انتہائی پرامن اور تنازعے سے پاک تعلقات کا لائحہ عمل اپنایا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں متعین امریکی سفارت کار حیران کن حد تک واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی غیر موجودگی کے باوجود خوش اور مطمئن تھے۔ اُن کی اس طمانیت کی ایک بڑی وجہ وہائٹ ہائوس اور جاتی عمرہ کے درمیان براہ راست رابطے کی نئی سہولت تھی۔ امریکی، برطانیہ کی طرح ایک ملک میں ایک ہی شخص سے بات کرنے کے شائق ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں اُن کے لیے مشکل یہ تھی کہ کبھی صدر زرداری اور کبھی جنرل کیانی اور کبھی کبھار پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کرنی پڑتی تھی۔ اگرچہ تین مختلف طاقت کے مراکز پاکستان کے نقطہ نظر کو بسا اوقات شکست دینے میں بھی کارآمد ثابت ہوتے تھے۔ لیکن اول ترجیح امریکا کی ہمیشہ ایک وقت میں ایک ہی شخص رہا ہے۔

اِس مرتبہ میاں محمد نواز شریف اُس شخص کی صورت میں اُبھر کر سامنے آئے ہیں جو امر یکہ کی بہت سی باتیں ریکارڈ پر لائے بغیر سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ چاہے معاملہ امر یکہ کی فوجوں کے لیے انخلا ء کی سہولت فراہم کرنا ہو یا اس خطہ میں امریکا کے اثر و رسوخ کو محتاط مگر یقینی انداز سے تقویت دینا ہو۔ واشنگٹن کو اسلام آباد میں کسی مقام پر کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ واشنگٹن کے ساتھ گہری دوستی کے نتیجے میں معاشی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مدد تو ملے گی ہی، جمہوریت کے خلاف کسی ممکنہ کوشش کا قلع قمع کرنے میں بھی یہ دوستی انتہائی کارآمد ثابت ہو گی۔ میاں نواز شریف کی واشنگٹن سے جمہوریت کے حق میں بیان دلوانے کی روایت کافی پرانی ہے۔ کارگل ہویا جرنیلی منصوبہ امریکا کا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر نواز لیگ نے کبھی اپنا ردعمل ترتیب نہیں دیا۔ اس ضمن میں برطانیہ اگرچہ چھوٹا اور بین الاقوامی اثرورسوخ کے اعتبار سے نسبتاً کم اہم ملک ہے، بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کے دوسرے گوناگوں اوصاف کے علاوہ ایک خاص صفت سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ گہرا تعلق بھی ہے۔

اگر کسی نے نواز شریف کی حکومت کو غیر آئینی جھٹکا دینے کی کوشش کی تو آپ چوہدری سرور کو ایک نئے روپ میں دیکھیں گے۔ وہ برطانوی نظام کی ہر کل کو سمجھتے ہیں۔ اُن کو وہاں سے احتجاج کروانے کا فن آتا ہے۔ خارجہ اور دفاعی پالیسی کے اہم ترین معاملات وزیراعظم نے اپنے ہا تھ میں اسی وجہ سے رکھے ہوئے ہیں۔ خواجہ آصف، سرتاج عزیز اور طارق فاطمی، میاں صاحبان کے قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ قابل اعتبار ہیں۔ وہ اُس کچن کابینہ کا حصہ ہے جو پالیسی کی ہانڈی کا مرچ مصالحہ وزیر اعظم سے پوچھ کر ڈالتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے تجربے سے سیکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے دفاعی اور خارجہ پالیسی کی ڈش جرنیلوں کے ہاتھوں سے لے کر اپنی میز پر سجا دی ہے۔ امر یکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ پیپلز پارٹی کے دور میں جنرل کیانی چلا رہے تھے۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف خود سے پالیسی پیپر لکھ کرصدر اوباما کے حوالے کر رہے تھے۔

ظاہر ہے جو پالیسی بنائے گا امریکا اُسی کی طرف جھکے گا اور امریکا جس کی طرف جھکے گا وہ طاقت کی فہرست میں دوسروں کی نسبت اوپر ہوگا۔ یہ بھانپتے ہوئے میاں نواز شریف نے یہ تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ دلچسپ امریہ ہے کہ شوراب بھی یہی مچایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دفاع اور خارجہ امور سے متعلق کوئی فائل میاں نواز شریف کی جنبش آبرو کے بغیر نہیں ہلتی۔ بالخصوص وہ فائلیں جوامر یکہ کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہیں۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر میاں نواز شریف خود کو بین الاقوامی طور پر ایسے مقام پر فائز کرنا چاہتے ہیں جہاں پر اُن کے ہر قدم کی ستائش ہو اور وہ فیصلے جو اندرونی طور پر متنازع ہو سکتے ہیں بیرونی واہ واہ کے ذریعے پاکستان میں ہضم کروائے جا سکیں۔ اِن میں سے بہت سے فیصلوں کا تعلق ہندوستان اور افغانستان سے تعلقات سے ہے۔ تیسرے دور میں میاں نواز شریف کی پالیسی ان دونوں ممالک کے حوالے سے انتہائی دلچسپ اور منصوبہ بندی سے بھرپور ہے (اس پر اگلے کالم میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے

طلعت حسین   

0 comments:

طالبان نے کس کے ہاتھ مضبوط کیے؟؟؟

22:09 Unknown 0 Comments


طالبان آئین کو نہیں مانتے اس لیے ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ بہت اچھا ہے۔ مگر اُن کے بارے میں کیا خیال ہے جو آئین کی اسلامی شقوں کو نہیں مانتے۔ جو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوے کھلے عام پاکستان کی نظریاتی اساس کے خلاف بات کرتے ہیں۔ جو پاکستان کے آئین میں اسلامی شقوں کو اٹھارویں ترمیم میں قائم رکھنے پر پارلیمنٹ کے ممبران کو ’’الو کے پٹھے‘‘ کہتے ہیں۔ جو پاکستان کے آئین کا نام تو لیتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔ جو فراڈ اور دھوکہ کے لیے آئین کی اسلامی شقوں کو اپنے نعروں اور تقریروں میں استعمال کرتے ہیں۔ جو آئین کی پاسداری کی قسم تو اُٹھاتے ہیں مگر اس پر یقین نہیں رکھتے۔ جو قرارداد مقاصد اور اسلامی نظریہ پاکستان کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں۔ یہ لوگ انگریزی بولتے ہیں، سوٹ ٹائی پہنتے ہیں، اپنے آپ کو سیکولر کہلواتے ہیں، امریکا و یورپ سے بڑے بڑے ایوارڈ لیتے ہیں۔

ان کی درسگاہوں میں پڑھتے ہیں، ہندوستان میں بھنگڑے ڈالتے ہیں، ہندوستان میں جا کر پاکستان کے قیام پر نوحہ پڑھتے ہیں، حتی کہ پاکستان کے خلاف ہتھیار بھی اٹھاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے لیے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے دروازے بھی کھلے ہیں، ان کو وزیر، مشیر بھی بنایا جاتا ہے، ان کو گورنر اوروزیر اعلیٰ کے عہدے بھی دیے جاتے ہیں۔ ان کو بڑے بڑے سرکاری دفاتر میں بھی بٹھایا جاتا ہے۔ ان کو لیڈر مانا جاتا ہے۔ ان کو بڑے عزت و احترام کے ساتھ ٹی وی چینلز پر بٹھا کر ان کے وعظ اور نصیحتوں سے سننے والوں کو گمراہ بھی کیا جاتا ہے۔ طالبان چھریاں، گولیاں اور خودکش بم چلاتے ہیں تو یہ لوگ پاکستان کی بنیادوں کو اپنے زہریلے پراپیگنڈہ اور اسلام مخالف سوچ سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔

ایک طرف طالبان کا اسلام کے بارے میں تصور اُس اسلام سے بلکل جدا ہے جس کا نمونہ ہمیں رسول پاکﷺ کے اسوہ حسنہ کی صورت میں ملتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کو سیکولر بنانے کی خواہش رکھنے والوں کا ایک ٹولہ اسلام کی ایسی تشریح پیش کر رہا ہے جس کا ریاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو جہاں شراب کی ممانعت نہ ہو، جہاں بدکاری جائز ہو، جہاں سود کی اجازت ہو اور ہر قسم کا گانا بجانا تفریح کے بہانے جاری و ساری ہو۔ طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ایک بھی شق اسلامی نہیں مگر پاکستان پر مسلط ’’طالبان‘‘ کی یہ دوسری قسم آئین پاکستان کی کسی ایک بھی اسلامی شق پر عملدرآمد کے خلاف ہیں۔ انہی کے ڈر سے میاں نواز شریف جیسے لیڈر بھی آئین کی اسلامی شقوں کے نفاذ سے گھبراتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے نیک، صالح اور با عمل مسلمانوں کی بجائے چوروں، ڈاکوئوں، جعلی ڈگری والوں اور ایسے افراد کے لیے پارلیمنٹ کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ آئین تو کہتا ہے کہ مسلمان ممبران پارلیمنٹ کو اسلامی تعلیمات کاکافی علم ہونا چاہیے مگر یہاں تو ایسوں ایسوں کو اسمبلیوں میں بٹھا دیا جاتا ہے جن کو سورۃ اخلاص تک نہیں آتی، جو پانچ وقت کی نماز کیا نماز جمعہ تک ادا نہیں کرتے، جوعام محفلوں میں شراب پیتے ہیں، جن کے ناجائز تعلقات کے قصے عام ہوتے ہیں، جو جھوٹ بولنے کی شہرت رکھتے ہیں، جن کے لیے فراڈ اور دھوکہ معمول کی بات ہے، جو سودی نظام کا دفاع کرتے ہیں،کرپشن کرتے ہیں، جو اسمبلی میں کھڑے ہو کر اور اخباروں میں لکھ کر شراب نوشی کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ان کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتا۔

اس صورت حال کی بڑی ذمہ داری طالبان کے سر پر ہے کیوں کہ طالبان کی پر تشدد کاروائیوں اور حال میں 23 ایف سی جوانوں کو شہید کرنے کے اعلان نے پاکستان میں موجود سیکولر شدت پسندوں کے ہاتھوں کو خوب مضبوط کیا۔ طالبان نے سیکولر شدت پسندوں کو شریعت پر سوال اُٹھانے کا خوب موقع دیا۔ طالبان کی وجہ سے ہی ’’کون سی شریعت‘‘ اور ’’گلے کاٹنے والا اسلام‘‘ جیسے جملے تو اب عام بولے جا رہے ہیں۔ اب کوئی اسلام کے نفاذ کی بات کرے تو یہ شدت پسند اُسے گدھوں کی طرح نوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے اپنی کارروائیوں سے ان شدت پسندوں کو اس قدر تقویت دے دی ہے کہ وہ اب سینہ تان کر پاکستان کے اسلامی تشخص کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں اور اسلام پسندوں اور اسلامی جماعتوں اور تنظیموں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔طالبان کی کارروائیوں نے اس ملک کے بڑے بڑے علمائے کرام کو بھی پریشان کر دیا ہے۔

حرف آخر: ایف سی جوانوں کی شہادت پروفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جس طرح طالبان نے ہمارے ایف سی سپاہیوں کے گلے کاٹے، اس طرح تو ہندوستان نے بھی ہمارے ساتھ نہیں کیا۔ پرویز رشید صاحب کے اس بیان پر مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں کچھ اس طرح لکھا تھا: پرویز رشید صاحب انڈیا نے پاکستان کے ہی جسم اور شہہ رگ (کشمیر ) کو کاٹ دیا مگر آپ پھر بھی ان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور تجارت بھی کر رہے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ ' جنگ '

0 comments:

پاکستان، سعودی عرب تعلقات تاریخ کے نئے موڑ پر

22:36 Unknown 0 Comments


پاکستان کے برادر اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں، تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیوں میں آنے والے تغیرات خارجہ تعلقات پر اثر انداز ضرور ہوتے رہے ہیں ۔

پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔ تاریخ پاکستان کے چھ عشروں میں پاک سعودی تعلقات میں معمولی اتار چڑھاؤ کے کئی دور بھی آئے ہیں ۔ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان مرحوم اور سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے درمیان دوستانہ تعلقات نے دونوں ملکوں کو ایک ساتھ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ۔ عالم اسلام کے تنازعات کے حل میں پاکستان کے ثالثی کے کردار نے بھی سعودی حکمرانوں کی نظروں میں اسلام آباد کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔

قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل میں بھرپور مدد کی ۔ پاکستان کو جب بھی کسی قدرتی آفت نے آگھیرا سعودی عرب مصیبت زدہ پاکستانیوں کا پہلا سہارا ثابت ہوا۔ سنہ 1965ء کی پاک ، بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو 09 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں جب افغانستان پر روسی فوج نے یلغار کی تو اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔ سعودی عرب افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے امداد فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا، جس نے مختلف ادوار میں کم سے کم35 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ آج تک سعودی عرب کے کئی ادارے پاکستان کی سر زمین سے افغان مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں ۔

یاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا تاہم اس عرصے میں بننے والی بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ بھی ریاض کے تعلقات یکساں رہے۔ سعودی اخبار’’المدینہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا بالخصوص مغرب اور امریکا نے پاکستان پر سخت دباؤ ڈالا اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اسلام آباد کو دھماکوں سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ایسے میں سعودی عرب نے پاکستانی حکومت کے حوصلے بلند رکھے اور یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایٹمی تجربات سے پیچھے نہ ہٹے۔ اس پر سعودی عرب کے مغربی بہی خواہوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یوں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کی منشاء بھی شامل تھی‘‘۔

اکتوبر2005ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد سعودی عرب پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے ڈونر ممالک میں بھی پہلے نمبر رہا ۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سعودی حکومت کے براہ راست تعاون سے ہمہ وقت آج بھی کئی ادارے سرگرم ہیں جو سالانہ سیلاب سے متاثرین کی امداد پر ایک ملین ڈالر سے زائد کی رقم صرف کرتے ہیں ۔ یوں سعودی عرب پاکستان کا ہمیشہ مشکل کا ساتھی رہا۔

سابق فوجی صدر اور سعودی عرب کے درمیان آغاز میں تعلقات اچھے رہے۔ دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے متعدد مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔ تاہم مشرف کے آخری دور اور صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں سعودی عرب سے تعلق قدرے سرد مہری کا شکار رہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستانی حکومت کی داخلی معاشی پالیسیاں بالخصوص کرپشن نے سعودیوں کو ناراض کیے رکھا۔ گذشتہ برس مسلم لیگ نون کی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے مابین خوشگوا ر تعلقات کا از سر نو آغاز ہوا ہے۔ اس ضمن میں تازہ پیش رفت2013ء کے اختتام کے ساتھ ہوئی ۔ بعض مغربی اخبارا ت یہ الزام لگا چکے ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان افواہوں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ البتہ اس ضمن میں تازہ پیش رفت 2013ء کے اختتام پر صدر پاکستان ممنون حسین کے دورہ سعودی عرب سے شروع ہوئی ہے۔ اخباری ذرائع بتا تے ہیں کہ سعودیہ اور پاکستان نے 2014ء کے اوائل میں ایک نئی تزویراتی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کافیصلہ کیا ہے۔

اس حکمت عملی کے تحت دفاعی شعبے میں دونوں ملک ایک دوسرے کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بھرپور مدد فراہم کریں گے۔ آغاز کا ر کے طور پرسعودی عرب نے پاکستان اور چین کے تعاون سے تیار کردہJF17 تھنڈر طیاروں، آگسٹا آبدوزوں اور دیسی ساختہ الخالد ٹینک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔گو کہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت پائپ لائن میں ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی اس ضمن میں عملی معاہدہ طے پا نے والا ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاہم انہوں نے دفاعی منصوبے کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا اور اس دوران صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم میاں نواز شریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے بھی ملاقاتیں کیں اور دفاعی اوراقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا قریب ترین دوست اور حلیف ہے اور یہ تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ مزید مستحکم ہوں گے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستانی حکومت سعودی عرب کے ساتھ جامع سٹریجک تعاون کو مزید مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کے اس تین روزہ دورے کے دوران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور یوریا کھاد کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔

غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے چار فروری کو دورہ سعودی عرب، جنوری میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل اور نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان بن عبداللہ بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان سے اسلحہ کی خریداری سے متعلق تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ ریاض کے دوران دونوں ملکوں کی مسلح افواج کی مشقیں شروع کرنے پراتفاق کیا گیا ہے۔ یہ مشقیں بھی جلد شروع ہونے والی ہیں۔

ذرائع کے مطابق سعودی نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان نے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ اپنے تین روزہ دورے کے دوران پاکستان کے محکمہ دفاع سے متعلق اہم اداروں کا بھی ’’دورہ‘‘ کیا۔ سعودی وفد نے مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو)، ایئر ڈیفنس کمانڈ آف پاکستان ائیر فورس، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز اور پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ PAC کا بھی دور ہ کیا ۔ کامرہ کمپلیکس دورے کے دوران سعودی نائب وزیردفاع نے پاک، چین مشترکہ مساعی سے تیار ہونے والے’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ کا بھی معائنہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چار ماہ کے دوران صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے خلیجی ملک بھی پاکستان سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بات کر چکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سعودی وفد کی آمد سے قبل عراق ، یمن اور اردن کے وفود بھی کامرہ ایروناٹیکل کمپلیکس کا دورہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان سے نہ صرف تیار شدہ اسلحہ حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ ریاض کی اصل خواہش اپنی ڈیفنس انڈسٹری کے لیے پاکستانی ماہرین کی خدمات کا حصول ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک ہونے والی بات چیت میں پاکستانی ماہرین کی خدمات پربھی تبادلہ خیال ہوا ہے۔

پاکستان کے بعض اخبارات نے سعودی عرب کی جانب سے دو ڈویژن فوج کی فراہمی کی ضرورت سے متعلق بھی خبریں چھاپی ہیں، تاہم سعودی ذرائع ابلاغ ان خبروں کی تصدیق نہیں کر رہے۔ البتہ کچھ غیر ملکی بالخصوص پاکستان سے فی سبیل اللہ کی دشمنی رکھنے والے بھارتی اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری معاہدے پر ہونے والی ڈیل کے بعد سعودی عرب دفاعی پوزیشن میں آگیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جنگی طیاروں ، ٹینکوں ، آبدوزوں اور میزائل ٹیکنالوجی کے لیے ہونے والی بات چیت اسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان مشکل حالات میں پہلے بھی اپنی افواج کو سعودی عرب بھجوا چکا ہے۔1990میں خلیج جنگ کے دوران 15ہزار پاکستانی سپاہی سعودی عرب میں مقدس مقامات کی حفاظت کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے ریاض کی جانب سے اسلام آباد سے ہنگامی ضرورت کے لئے فوج کا تقاضا

گوکہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت جاری ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آیا سعودی عرب اسلحہ کی بڑی بڑی ڈیلیں کرنے میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس ضمن میں عرب ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ عرب ممالک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں سعودی عرب اندرونی اور بیرونی اثرات سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر کر رہا ہے۔

سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت

عرب خطے میں سعودی عرب بہترین ، پیشہ وارانہ طاقتور مسلح افواج کا حامل ملک ہے۔ مسلح افواج میں سعودی عریبین آرمی، سعودی رائل ایئر فورس، رائل سعودی نیوی ، رضاکار فورس اور سعودی عریبین نیشنل گارڈ(SANG) جیسے بڑے ادارے شامل ہیں جن کی مجموعی افرادی قوت چارلاکھ پر مشتمل ہے۔ مسلح افواج 400 اینٹی ایئر کرافٹ گنیں، پیشگی وارننگ پر فوری کارروائی کی صلاحیت کے حامل F 15 اسٹرائیک ایگل، جدید ترین یورو فائیٹر ٹائیفون، پا نیوا ٹو رنیڈو، جدید ترینF15 SA، جدید ترین راڈار سسٹمAESA ،جوائنٹ ہیلمٹ ماؤنٹڈ کیوننگ سسٹم جیسے دفاعی آلات سے لیس ہے، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل 500 الفارس آرمرڈ کیرئیر وہیکل۔ رائل سعودی اسٹریٹیجک میزائل فورس(RSSMF) کے پاس طاقت ور ترین میزائلوں میں چینی ساختہ ’’ڈونگ فنگSS4‘‘ میزائل ہے۔ گوکہ اس کی ہدف کو نشانہ بنانے کی رینج درمیانی ہے لیکن کارکردگی کے اعتبار سے یہ ایک مؤثر ہتھیار ہے۔

پاکستان کیلئے سعودی عرب کی دفاعی اہمیت

ہر چند کہ پاکستان دفاعی طور پر ایک ناقابل تسخیر اور کسی حد تک خود کفیل ملک بن چکا ہے تاہم سعودی عرب جیسے دیرینہ دوستوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حالات حاضرہ میں پاکستان اندرونی اور علاقائی طور پر ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات شروع کیے ہیں۔ ظاہر ہے مذاکرات کی یہ کوشش محض اتمام حجت کے لیے ہے۔ اگر فریق ثانی(طالبان) کی جانب سے عسکریت پسندی کا سلسلہ بند نہ ہوا یا انہوں نے اپنے مطالبات کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کے پاس طاقت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اسلام آباد نے اپنے سب سے قریبی اتحادی سعودی عرب کو اعتماد میں لیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مابعد انخلاء جو منظرنامہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔ افغان طالبان سعودی عرب پر کسی دوسرے مسلمان ملک کی نسبت زیادہ اعتبار کرتے ہیں ۔ اس لیے افغانستان کو ممکنہ خانہ جنگی کی آگ سے بچانے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کلیدی کردار اد ا کر سکتے ہیں ۔ افغان عوام بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں۔ بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستانی اور سعودی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں امریکیوں کی واپسی کے بعد کے افغانستان کے معاملات پر خاص طور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرح سعودی عرب بھی موجودہ افغان حکومت سے خوش نہیں ہے۔ ریاض کی خواہش ہے کہ افغانستان میں طالبان سمیت تمام نمائندہ دھڑوں پر مشتمل قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے کیونکہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کا صرف یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔ اگر کسی ایک گروپ کو بھی نظرانداز کیا گیا تو کشت و خون کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ شرو ع ہو سکتا ہے

کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

Pakistan and Saudi Arabia Relations


Enhanced by Zemanta

0 comments:

یہ استنبول ہے......Istanbul Turkey

22:19 Unknown 0 Comments


استنبول روانگی سے پہلے دوستوں نے مشورہ دیا کہ ماہ فروری میں لاہور کے مقابلے میں وہاں بہت ٹھنڈ ہو گی اس لیے اوور کوٹ ساتھ لے جانا نہ بھولنا اس کے علاوہ پیٹ اور گلے کی خرابی کی ادویات ضرور بیگ میں رکھ لینا کیونکہ سردی لگنے یا بد پرہیزی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ مشورہ مخلصانہ تھا لہٰذا اس پر عمل کیا۔ اوورکوٹ لیا، فل سلیوز سویٹر لیے، تھرمل خریدے اور گرم جرابوں کے علاوہ اون سے بنی ٹوپی سے بکس بھر کر اتاترک ایئرپورٹ پر اترے۔ فوری ردعمل تو ایئرپورٹ کی کشادگی، اس کا شاندار انٹریئر، اس کی صفائی، مسافروں کا ہجوم، اس کا شاپنگ ایریا، اس کے جہازوں کی آمد و رفت بتانے کے کمپیوٹرائزڈ بورڈ، اس کے WC ایریاز کی ڈائریکشن بتانے والے ایروز، اس کے ایکسلریٹر اور مسافروں کی رہنمائی والے بوتھ دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ ہاں یہ واقعی اتاترک ایئرپورٹ ہے۔ مصطفے کمال پاشا کے نام پر رکھا گیا اتا ترک ایئرپورٹ بلا شبہ اس شخص کی عظمت کی دلیل تھا اور اس کے نام اور مقام کے شایان شان تھا۔ اپنے یہاں تو سنا ہے ایک گلی کی نالی کے منہ پر ایک زندہ ممبر پارلیمنٹ کا نام لکھا پڑھ کر یہ ان کی عظیم کاوش سے معرض وجود میں آئی ہے، ہمارے ایک دوست کو ابکائی آ گئی تھی اور اس جیسے اکثر منصوبوں کے یادگاری پتھروں پر بہت سے نام لکھے ملتے ہیں جنھیں پڑھنے والے شرمندہ ہو ہو جاتے ہیں۔

دس روز تک استنبول میں گھومنے کے دوران موٹر سائیکل یا اسکوٹر کی کسی بھی جگہ زیارت نہ ہوئی تو حیرت ہوئی لیکن اس پُھرتیلی سواری پر پابندی کا علم ہوا تو غور کرنے پر جواز کی سمجھ بھی آ گئی کہ اگر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم تیز رفتار، محفوظ، ہر جگہ موجود، ارزں اور پابند وقت ہو اور پھر اس سسٹم میں منی بس، بڑی بس، میٹرو، ٹرام کے علاوہ مخصوص علاقوں میں چھوٹے بحری جہاز بھی ہوں تو موٹر بائیک کی پاکستان جیسے ترقی پذیر غربت و جہالت زدہ ملک میں تو ضرورت ہو لیکن ترکی جیسے خوشحال اور ترقی یافتہ ڈسپلن اور اصولوں کے پابند ملک کے لیے غیر ضروری اور خطرناک سواری ہو گی اسی لیے میری نظریں چھ سواریاں بٹھائے ہیوی ٹریفک کے بیچ میں سے ڈھائی فٹ رستہ نکال کر موٹروں کے بیک ویو شیشے توڑ کر گزرنے والی موٹر سائیکلوں کو دیکھنے کے لیے ترس گئیں۔

دس روز کی صبح سے شام تک کی سیاحت میں ہمیں دو جگہ نیم گداگر نظر آئے لیکن ایسا کہنا بھی شاید پیشۂ گداگری کی توہین ہو ہمارے ہاں تو ہٹے کٹے لوگ کندھوں پر کرائے کے اپاہج اٹھائے اور نوجوان صحت مند عورتیں چھ ماہ کا بچہ گود میں لیے اور دودھ کی خالی بوتل پکڑے آپ کی کار کے شیشے کو انگوٹھی سے ٹھونک کر پیسے کا تقاضا کرتے اور بھیک نہ ملنے پر بڑبڑاتے ہوئے شاید بددعا بھی دیتے ہیں لیکن استنبول میں ایک جگہ ایک نابینا شخص اپنے سامنے ترک زبان میں لکھا ہوا بورڈ رکھے فٹ پاتھ پر خاموش بیٹھا دیکھا اور دوسری جگہ سمندر کے کنارے جہاں لوگ جہاز سے اتر کر اپنی اپنی اگلی منزل کی طرف جا رہے تھے رستے میں دو بچوں کو زمین پر ساتھ ساتھ بیٹھے دو وائلن نما آلات سے موسیقی کی دھن بجاتے دیکھا۔ ان کے آگے رومال پڑا تھا ہم نے بھی ترک کرنسی کے دو چھوٹے سکے وہاں رکھ دیے تا کہ اتنا تو ثابت کر دیں کہ ہم عالمی گداگر ہی نہیں بھیک دیتے بھی ہیں۔

استنبول میں ہمیں ہر سڑک گلی اور عمارت کے پاس اشیائے ضروری کے بے تحاشہ بارونق اسٹور دیکھنے کو ملے جن میں خریداروں کی بھی کمی نہ تھی لیکن بیازت مسجد کے قرب میں گرینڈ بازار تو دیکھنے کی جگہ تھی جس میں قالین، پیتل، سلک اور لیدر کی حکومت تھی۔ گرینڈ بازار مکمل کورّڈ تھا۔ اس میں 22 اطراف سے داخلہ ہو سکتا تھا سج میں 64 گلیاں اور تین ہزار سے زیادہ دو کانیں تھیں۔ ادھر کوئی ساتھی بھیڑ کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوا تو سمجھئے گم ہو گیا۔ اس لیے دکانداروں کی اردو یا انگریزی سے قعطی لاعلمی کی وجہ سے موبائل فون ہی ملاپ کا ذریعہ تھا۔ جیسا کہ اس کے ترکی نام ہی سے ظاہر ہے یہ واقعی گرینڈ بازار تھا۔ اگر کسی نے لاہور کی اچھرہ کی مارکیٹ دیکھی ہے تو اسے سو سے ضرب دیں یہاں خریداری مطلوب ہے تو کھانے پینے، سجانے، پہننے، تحفے میں دینے، زیور کے طور پر استعمال کرنے غرضیکہ قسم قسم اور ہر قسم کی خریداری کے لیے اس بازار کو دیکھے بغیر استنبول کا سیاح واپس جا ہی نہیں سکتا۔ گرینڈ بازار اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے عقب میں 1506ء میں تعمیر ہونے والی شاندار مسجد بیازت ہے۔ اسی طرح ایمینونو میں نئی مسجد (News Mosqe) کے قریب ایک اور انوکھا بازار Spice Bazzar بھی دیکھنے کی چیز ہے جہاں دنیا کے پودوں اور پھلوں کے قہووں کی اقسام اور بیج ملتے ہیں۔ اکثر لوگوں نے تو پوری پوری زندگی ان مصالحوں اور کھانے کے بیجوں کو نہ تو دیکھا، چکھا یا ان کے بارے میں سنا ہو گا جو سپائس بازار کی سیکڑوں دکانوں میں موجود ہیں۔

باسفورس کے سمندر کے ذریعے جب بھی کیدی کویا سے جہاز لینے پہنچے ساحل کے ساتھ ساتھ دس بارہ جفت سازوں کے کھوکھوں پر اور سستی خوراک کی اس سے بھی زیادہ ریہڑیوں پر بزنس ہوتا دیکھا۔ امریکا میں ایسے جفت ساز زیادہ تر روسی ہوتے ہیں جن کا کام جوتے مرمت اور پالش کرنا ہوتا ہے لیکن بحیرہ باسفورس کے کنارے جفت ساز اور ریڑھی بان ترک ہیں لیکن بہت چھوٹے کاروباری ہونے کے باوجود اپنے کاروباری اصولوں میں بیحد پکے ہیں۔ بہت سے لوگ مہنگی جوتوں کی دکانوں پر نہیں جا سکتے اسی طرح کئی مسافر یا سیاح ریہڑھی کی سستی خوراک سے پیٹ بھرتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ایک جفت ساز سے اپنے بوٹوں کے لیے تسمے خریدے دوسرے روز اس نے اسی موچی سے کہا کہ وہ تسمے چھوٹے ہیں اس لیے وہ خریدے ہوئے تسمے لمبے تسموں سے ایکسچینج کرنا چاہتا ہے۔ موچی نے صاف انکار کرتے ہوئے ہمارے ساتھی کی خواہش رد کر دی اور اسے دوسرے لمبے تسمے خریدنے کے لیے کہا۔ ریڑھی بانوں کے پاس Chestnuts، گرما گرم بھٹے اور تِلوں والی گول رسہ نما روٹیاں برائے فروخت ہوتی ہیں جنھیں وہ SIMIT کہتے ہیں۔

ہمارے ساتھی نے Chestnut خریدیں لیکن ان میں سے چند تبدیل کرنے کی خواہش کی جس پر ریڑھی بان نے لفافہ واپس پکڑ کر اسے Chest Nut فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ساتھی نے وہی لفافہ لے لینے کی کوشش کی تو بھی ریڑھی بان نے انکار کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح وہاں سے چلے جانے کے لیے کہا جس کا واضح مطلب ’’دفع ہوجاؤ‘‘ جیسا تھا۔ استنبول میں بڑے بڑے کاروباری نہایت شائستہ اور اکاموڈیٹ کرنے والے ہیں لیکن ان دو یعنی موچی اور ریڑھی بان لیول کے کاروباریوں کا رویہ ہمارے ساتھی کے لیے ناقابل فہم تھا۔ کیا موچی اور ریڑھی بان صحیح کاروباری اصول پر چل رہے تھے۔ یہ اب تک ایک سوالیہ نشان ہے۔

حمید احمد سیٹھی  

Istanbul Turkey

 

Enhanced by Zemanta

0 comments: