G.M.F ...پاکستان کے لئے نیا سنگین خطرہ؟

22:41 Unknown 0 Comments


ہر دور کی طاقتور قوتیں اپنی ٹیکنالوجی کی برتری کو دوسری اقوام پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہر دور کی ٹیکنالوجی اور طریقے آنے والے وقت کی ٹیکنالوجی اور انداز سے بالکل مختلف ہوں۔ کالے روٹری فون سے ٹیلی پرنٹر، فیکس، موبائل فون اور اسمارٹ فون، ای میل اور اسکائپ سے بھی کہیں آگے کی ٹیکنالوجی تو میری نسل کے لوگوں نے کسی حیرت کے بغیر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے ہاتھوں سے استعمال کرنا بھی سیکھ لیا ہے۔ فون کی طرح زندگی کے ہر شعبہ میں یہی صورتحال ہے کل تک جو کچھ محض خیالی اور جادوئی تصور تھا وہ آج کی سکڑی ہوئی دنیا میں عملی اور حقیقی ہے مگر انسانی فطرت اور دوسرے انسانوں پر کنٹرول کرنے کی خواہش کے اصول بدستور وہی ہیں۔

دنیا کے متعدد خطے آج بھی عصر حاضر کی سائنسی ترقی سے نابلد رہ کر روایتی زندگی گزار رہے ہیں مگر پاکستان کے 55 سالہ وزیر زراعت ایک پڑھے لکھے اور جدید دنیا سے آشنا وزیر ہیں جو امریکہ برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے چکر بھی لگا چکے ہیں اور بظاہر ان کا ذریعہ آمدنی بھی زمینداری ہے۔ سکندر حیات بوسن کی بطور وزیر زراعت سب سے بڑی ذمہ داری پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی زراعت کو تحفظ اور ترقی دینا ہی نہیں بلکہ مستقبل پر نظر رکھنا بھی لازمی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کو سب کچھ سمجھ کر صرف یہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہ (GENETICALLY MODIFIED) فوڈ کی پاکستان میں کاشت کے حق میں نظر آتے ہیں۔ بطور وزیر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بڑی بڑی غیر ملکی کمپنیوں سے مرعوب ہو کر پاکستانی عوام کی قسمت، صحت اور مستقبل کو رہن رکھنے کا فیصلہ کرنے سے قبل بھارت سمیت ان ممالک کی حالت اور مسائل پر نظرڈال لیں جنہوں نے زراعت کے میدان میں (G.M.O) کا استعمال کیا اور اس کے کیا نتائج بھگت رہے ہیں وہ امریکی ریاست ہوائی میں ایسی غذا کے اُگانے پر پابندی لگانے کی زور دار مہم پر نظر ڈال لیں۔امریکہ ک مختلف ریاستوں میں G.M.F یعنی ایسے بیج سے اُگائی ہوئی خوراک جس میں جنیاتی تبدیلی کرکے صرف ایک بار ہی اُگنے کی صلاحیت رکھی گئی ہو اس کے خلاف عوام، سائنسی ماہرین اور کاشتکار مزاحمت کررہے ہیں بلکہ اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔

دانشور اور ماہرین سماجیات تو اس طریقہ خوراک کو انسانوں پر کنٹرول کرنے کا طریقہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ آنے والے دور میں نیا سامراجی نظام غذا کے ذریعے کسی بھی ملک یا خطے کے انسانوں کو کنٹرول کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہوگا۔ کسی بھی خطے یا علاقے کے انسانوں میں بیماری کنٹرول کرنے، پھیلانے، عادات تبدیل کرنے کے علاوہ گندم، چاول، مکئی، سبزیوں اور دیگر فصلوں کے بیچ صرف ایک فصل اُگا سکیں گے اگر کسان روایتی طور پر پہلی فصل سے بیج حاصل کرکے اگلی فصل اُگانے کے لئے استعمال کرنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ ان بیجوں میں دوبارہ اُگنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوگی۔ گویا پاکستان کے کاشتکار کی زمین ہوگی اور اسے ہر مرتبہ فصل کیلئے نیا بیج اسی طرح خریدنا ہوگا جس طرح ٹریکٹر کے لئے ڈیزل یا پٹرول خریدنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے (G.M.O) یعنی ایسے بیج جن کی قدرتی جنیات میں تبدیلی لاکر ان کی ساخت، تاثیر اور اُگنے کی صلاحیت کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کردیا گیا ہے امریکہ میں اربوں ڈالرز کے خرچ سے اپنے حق میں لابنگ کرنے والی مٹھی بھر بیج کمپنیوں کی زبردست مخالفت جاری ہے۔ مخالفت کرنے والے ایسی سائنسی، فنی اور نسل انسانی پر مضر اثرات والی وجوہات بیان کرتے ہیں جنہیں جان کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

امریکی ریاست ہوائی میں اس انجینئرڈ عمل والے بیجوں سے اُگائی جانے والی فصلوں پر مکمل پابندی کا قانون بنانے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایسی فصلوں کی خوراک سے چوہوں میں کینسر، شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کا خاتمہ، بچوں میں مختلف قسم کی الرجی میں اضافہ، فصلوں میں گھاس اور ناکارہ پودوں میں بے تحاشا اضافہ، کیڑے مارنے والی زہریلی دوائوں کا زیادہ استعمال اور بیجوں کے D.N.A کو ہی تبدیل کر دینے کے دیگر مضر اثرات ایسی فصلوں میں پابندی کا جواز ہیں۔ ماضی میں سائنس دانوں نے انسانی نسل پر مہلک اثرات والی ادویات کو استعمال کے بعد نقصان دہ نتائج کے باعث ممنوع قرار دیا۔ ڈی ڈی ٹی کا کئی برس تک استعمال کے بعد اس کے انسانی زندگی پر مضر اثرات کے باعث ممنوع قرار دیا گیا۔

ریاست ہوائی میں ایسی فصلوں اور ڈی این اے تبدیل کردہ بیجوں پر پابندی لگانے کے مسودہ قانون کی محرک خاتون مارگریٹ ولی کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ کے کنٹرول میں بیج ہے تو آپ کو غذا پر کنٹرول حاصل ہے اور اگر غذا پر کنٹرول ہے تو پھر آپ انسانوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں‘‘۔ دوسرے ہم ڈی این اے تبدیل شدہ فصلوں اور دوائوں سے زہر آلود ماحول پیدا کرکے اپنی ریاست کی سیاحت کو برباد نہیں ہونے دیں گے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مونسانٹو، سنگیتاڈائو، کارگل وغیرہ دنیا بھر پر قبضہ کرنے کی غرض سے اربوں ڈالرز خرچ کرکے خوراک کے ذریعے کنٹرول کرنے کی اسٹرٹیجی پر عمل پیرا ہیں۔

تبدیل شدہ ڈی این اے والے بیجوں سے اگائی جانے والی فصلوں کے ذریعے نہ صرف دنیا میں انسانوں کو کنٹرول کیا جاسکے گا بلکہ اپنے بیجوں کے ڈی این اے میں مزید تبدیلیوں سے انسانوں کی سوچ، عادت اور عمل کو بھی کنٹرول کیا جاسکے گا۔ دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک ان فصلوں اور خوراک کی تجربہ گاہ ہوں گے جس طرح تھرڈ ورلڈ کے ممالک ادویات بنانے والی کمپنیوں کی تجربہ گاہ ہیں۔ ’’موسمیاتی تبدیلی یا کلائی میٹ چینج‘‘ کے عنوان سے عالمی طاقتیں جو کچھ ریسرچ ، تجربات اور نتائج اخذ کرچکی ہیں وہ بھی نئی دنیا کے نئے ہتھیار ہوں گے۔ ہم تو ابھی تک ڈرون حملوں کی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ دنیا بیجوں کے ڈی این اے تبدیل کرک اگائی جانے والی فصلیں اور خوراک کے ذریعے آپ کی سوچ اور زندگی کو کنٹرول کرنے، موسمیاتی تبدیلیوں کو انسانی قابو میں لاکر انہیں آنے والے وقتوں میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کا پروگرام ہے۔

وفاقی وزیر زراعت سکندر حیات بوسن ایک تعلیم یافتہ ذمہ دار وفاقی وزیر کے طور پر اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ جینز کی تبدیلی سے کی جانے والی زراعت کو پاکستان میں فروغ دینے سے قبل اس بارے میں تمام تر معلومات اور مواد حاصل کریں اور کچھ نہیں تو صرف گوگل پر سے (G.M.F) کے بارے میں عام معلومات کو ہی پڑھ لیں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ زراعت کے یہ نئے طریقے پاکستان کے لئے کیا نتائج لئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل اس سے کسی طرح اور کتنی متاثر ہوگی؟ جس طریقہ زراعت کے خلاف خود اس کے موجد ملک امریکہ میں شبہات اور احتجاج کی شدت اور جوابی سائنسی دلائل دیئے جارہے ہیں۔ جو طریقہ زراعت آپ کے کاشتکار اور زمیندار کو ہر فصل کے بعد نئی فصل کیلئے بیرونی دنیا کا محتاج بناکر رکھ دے گا۔ وہ طریقہ زراعت جس میں کاشتکار کی زمین صرف غیرملکیوں کے بیج اور نئی چھڑکنے والی ادویات کی محتاج ہوکر رہ جائے گی۔ گویا نئے نوآبادیاتی نظام میں بیج صرف ایک فصل اُگانے کے لئے غیرملکوں سے خریدنا ہوں گے اور کاشتکار کی زمین ایک طرح سے صرف کرایہ پر ہوگی اور غیرملکی زرمبادلہ خرچ کرکے فصل اُگانے کے ساتھ ساتھ اس فصل سے تیار کردہ غذا کے ذریعے آپ کی نئی نسلوں کی سوچ، عادات و خصائل، نفسیات، جذبات و خیالات کو بھی تبدیل کر ڈالنے کے تجربات کئے جاچکے ہیں۔

امریکہ کی صرف کچھ زراعتی کمپنیاں جینی ٹیکلی موڈی فائیڈ فوڈ کے ذریعے دنیا کی خوراک اور خوراک کے ذریعے انسانی عادات و خصائل اور انسانی جینز میں تبدیلی لانے اور کنٹرول کرنے کے منصوبے بنارہی ہیں۔ روایتی ہل کی زراعت سے ٹریکٹر اور مشینوں سے فصلوں کی کٹائی اور صفائی اور میکنائزڈ یعنی بیجوں کی جینز میں تبدیلی کے بغیر مشینی طریقوں سے پیداوار میں اضافہ کی ترقی تھی اب تو بیجوں کی فطری اصلیت، اس کی جینز اور اس میں دوبارہ اگنے کی صلاحیت کے ختم کرنے اور خوراک کے ذریعے انسانوں میں عادات اور سوچ کی تبدیلی، چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کی زرعی خود کفالت ختم کرکے ان کی زمینوں پر اپنا کنٹرول کرنے کی عالمی طاقتوں کی اسکیموں کو سوچے سمجھے بغیر لبیک کہنے والے وزیر زراعت ذرا بھارت اور دیگر ممالک میں اسی زراعتی طریقہ کے اثرات کو بھی اپنے سامنے رکھ کر فیصلہ کریں اس طریقہ زراعت کے بارے میں امریکی میڈیا کی کئی کئی ہزار الفاظ پر مشتمل حالیہ رپورٹوں کو ہی دیکھ کر اس کا اردو ترجمہ کرالیں اور عوام کی آگاہی کے لئے تقسیم کرکے رائے معلوم کرلیں۔ ورنہ اس حوالے سے پاکستان، پاکستان کی نسلوں اور مفادات کو پہنچنے والے نقصان کے ذمہ دار سکندر حیات بوسن اور ان کے معاونین ہوں گے۔

یہ مشرف کے مقدمہ سے بھی کہیں زیادہ مہلک، معاملہ ہے اور ملتان کی انتخابی شکست سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے امانت داروں کو محض ملٹی نیشنل زرعی کارپوریشنوں کی کاسہ لیسی کے بجائے زرعی معیشت والے پاکستان کے 18کروڑ عوام کی فکر کرکے فیصلے کرنا چاہئیں ورنہ بیجوں کی جینز اور صلاحیت تبدیل کرنے والے پاکستان اور پاکستانی نسلوں کی صلاحیت کو بھی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ ' جنگ '

0 comments: