تشدد کی فضا، رائے عامہ اور لائحہ عمل

01:35 Unknown 0 Comments


آج پاکستان میں یہ بحث عروج پر ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کیے جائیں یا فوجی آپریشن کا راستہ اختیار کیا جائے؟ کیا مذاکرات کامیاب ہوں گے یا ناکام؟ہم یہاں پر ائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

گیلپ نے ۰۸۹۱ء سے ۰۱۰۲ء تک کا ۰۳ برس کا ایک جائزہ پاکستان میں جرائم اور خصوصیت سے دہشت گردی کے بارے میں پیش کیا ہے۔


جس میں عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی ذمہ داری بھارتی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں پر ہے، یعنی ۲۳ فی صد اور ۱۳ فی صد۔ گویا ۳۶فی صد کی نگاہ میں اس بدامنی، تشدد اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ سب سے بڑا محرک ہے۔ دہشت گردوں کو براہِ راست ذمہ دار ٹھیرانے والے ۶۲ فی صد ہیں۔ ۹۰۰۲ء میں طالبان کا نام لینے والے صرف ایک فی صد تھے۔ بعد کے متعدد جائزوں میں ’گیلپ‘ اور ’پیو‘ (PEW) دونوں ہی کے جائزوں میں طالبان کی تائید میں نمایاں کمی آئی ہے اور طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ’پیو‘ کے ۱۱۰۲ء کے سروے میں ۳۲ فی صد نے طالبان سے خطرہ محسوس کیا اور اور گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دسمبر ۹۰۰۲ء میں طالبان کے حوالے سے منفی تصور ۲۷ فی صد تک بڑھ گیا۔ عام انسانوں کی ہلاکت اور مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، اسکولوں اور مدرسوں پر حملوں کے ردعمل میں طالبان کے بارے میں منفی رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ گیلپ کے سروے کی روشنی میں دہشت گردی کے متعین واقعات کے بارے میں، طالبان یا ان کے نام پر ذمہ داری قبول کیے جانے کے اعلانات کے باوجو د عوام کا تصور بڑا حیران کن ہے۔ مثلاً پشاور/بنوں کے ۹۰۰۲ء کے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری کے سلسلے میں عوام کا ردعمل یہ تھا:

۱۔ یہ واقعات انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہیں ۴۴ فی صد

۲۔ ان واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۲۴ فی صد

۳۔ معلوم نہیں۴۱ فی صد

واضح رہے یہ دونوں واقعات خودکش حملوں کا نتیجہ تھے۔

اسی طرح ۹۰۰۲ء میں راولپنڈی جی ایچ کیو (پاکستانی مسلح افواج کے مرکز) پر کیے جانے والے حملے کے بارے میں کہ: ’’ذمہ دار کون ہے؟‘‘ عوامی راے یہ تھی:

بھارت: ۹۱ فی صد طالبان: ۵۲ فی صد امریکا: ۶۱ فی صد

فارن ایجنسی: ۷۲ فی صد لوکل ایجنسی: ۲ فی صد سیاسی جماعتیں: ایک فی صد

ہم نے یہ چند مثالیں عوامی جذبات، احساسات اور ان کی سوچ کے رُخ کو سمجھنے کے لیے دی ہیں۔ عوام کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ایک سروے کی طرف مزید اشارہ کرنا ضروری ہے۔ یہ گیلپ کا سروے دسمبر ۳۱۰۲ء میں امیرجماعت سیّدمنور حسن صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی جانب سے بیت اللہ محسود کے امریکی ڈرون کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے پر ردعمل سے متعلق تھا۔

سوال: ’’حال ہی میں سیّدمنورحسن اور مولانا فضل الرحمن نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا ہے۔ آپ اس بیان کی کس حد تک حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟‘‘

بہت زیادہ حمایت: ۴۱ فی صد بہت زیادہ مخالفت: ۹۲ فی صد

کسی حد تک حمایت: ۵۲’’کسی حد تک مخالفت: ۹۲‘‘

مجموعی حمایت: ۹۳ ’’مجموعی مخالفت: ۸۵ ‘‘

معلوم نہیں: ۰۱

قابلِ غور بات یہ ہے کہ مئی ۳۱۰۲ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام (ف) کو مجموعی طور پر ۵ فی صد ووٹ ملے اور دونوں قا ئدین کے بیانات کے بعد میڈیا پر ان کی مخالفت میں ایک طوفان برپا تھا، لیکن آبادی کے تقریباً ۰۴ فی صد نے ان کی راے سے اتفاق کا اظہار کیا۔ (گیلپ انٹرنیشنل، ۹دسمبر ۳۱۰۲ء)

یہاں پر ہمارا مقصد کسی قانونی، فقہی یا سیاسی پہلو کو زیربحث لانا نہیں ہے، صرف توجہ کو اس طرف مبذول کرانا ہے کہ ملک کے عوام طالبان اور طالبان کے نام پر جو کچھ کیا یا کہا جارہا ہے اسے اس کے ظاہری خدوخال پر نہیں لیتے، بلکہ پورے مسئلے، یعنی دہشت گردی اور اس میں امریکا کے کردار کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان دو عالمی جائزوں سے مختلف پہلوؤں کو سامنے لانے سے ہمارا مقصد اصل مسئلے کے جملہ پہلوؤں کی طرف توجہ کو مبذول کرانا ہے۔ ان معروضات کی روشنی میں، پالیسی سازی کے لیے چند نہایت اہم پہلو سامنے آتے ہیں، جن کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں:

۱۔ پالیسی سازی میں اصل اہمیت ملک اور قوم کے مقاصد، اس کے مفادات اور اس کے عوام کی سوچ، خواہش اور عزائم کی ہونی چاہیے۔ جو پالیسی بیرونی دباؤ، عصبیت یا جذبات کی روشنی میں بنائی جائے گی، وہ مفید اور مناسب نہیں ہوگی۔

۲۔ اصل مسئلہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ‘ ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہہ دوسری انواع کی دہشت گردیاں بھی ہیں اور ان کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اور پروگرام درکار ہیں، لیکن مرکزی اہمیت بہرحال امریکا کی اس جنگ اور اس میں ہمارے کردار سے منسوب ہے۔

پاکستانی عوام، پاکستان کو امریکا کی اس جنگ سے نکالنے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔ مئی ۳۱۰۲ء کے انتخابات میں انھوں نے اُن جماعتوں پر اعتماد نہیں کیا، جو اس جنگ میں پاکستان کی شرکت کی ذمہ دار تھیں اور ان جماعتوں کو اعتماد کا ووٹ دیا جو آزاد خارجہ پالیسی کی داعی اور اس جنگ سے نکلنے اور سیاسی حل کی خواہش مند تھیں۔ عوام کا یہ موقف ۱۰۰۲ء سے واضح تسلسل رکھتا ہے۔ اصل مسئلہ پالیسی کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں ابہام کا نہیں ہے، حکومت اور اس کے اداروں کی طرف سے قومی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا ہے۔

۳۔ پاکستان میں پائی جانے والی دہشت گردی کی کم از کم پانچ بڑی شکلیں ہیں جن میں ہر ایک کی نوعیت، اسباب اور اہداف کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانا ضروری ہے:

پہلی اور سب سے اہم شکل وہ ہے جس کا تعلق امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، افغانستان پر فوج کشی، افغانستان میں امریکی استعمار کی مزاحمت، اور پاکستان کے اس جنگ میں امریکا کے حلیف اور مددگار بننے سے رُونما ہوئی ہے۔ لیکن جب ہماری فوج کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا، تو افسوس ناک ردعمل بھی رُونما ہوا، جو بڑھتے بڑھتے خود ایک فتنہ بن گیا۔ باجوڑ اور اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ بھی اس خونیں سلسلے کے سنگ میل بن گئے۔ پھر مسجد اور مدرسہ، سرکاری دفاتر اور افواج کے مورچے، حتیٰ کہ بازار اور گھربار سب نشانہ بننے لگے اور معصوم انسانوں کا لہو ارزاں ہوکر بہنے لگا۔ بچے، عورتیں، مسافر، مریض، کوئی بھی اس خون آشامی کی زد سے نہ بچ سکا۔

شریعت، قانون، اخلاق، روایات کون سی حد ہے جو اس میں پامال نہیں کی گئی اور بدقسمتی سے ہرفریق کی طرف سے یہ ظلم روا رکھا گیا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت اور قومی وسائل کی تباہی، جس کے ہاتھوں بھی ہوئی، قابلِ مذمت ہے۔ لیکن انتقام در انتقام مسئلے کا حل نہیں، بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہی اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ہے۔ امریکا خود افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی راہیں تلاش کررہا ہے اور اب تو اسی کے مقرر کردہ افغان صدر حامد کرزئی تک نے کہہ دیا ہے کہ: ’’امریکا طالبان سے مذاکرات کرے اور پاکستان اس کی معاونت کرے، اس کے بغیر افغانستان میں امن نہیں آسکتا‘‘، یعنی اس سلسلے میں سطحی جذباتیت حالات کو بگاڑ تو سکتی ہے، اصلاح کی طرف نہیں لاسکتی۔ (جاری ہے)


بشکریہ روزنامہ 'نئی بات'

Enhanced by Zemanta

0 comments: