گمشدہ افراد کی لاشیں

05:17 Unknown 0 Comments


نوٹک بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار کے نزدیک ایک غیر آباد علاقہ ہے۔16 جنوری کو اس علاقے میں جانے والے چرواہے کو زمین میں دبی ہوئی ایک لاش کے اعضاء نظر آئے۔ اس نے لوگوں کو اطلاع دی، معاملہ حکام تک پہنچ گیا، یہ افواہیں پھیل گئیں کہ گزشتہ چند سال کے دوران اغواء ہونے والے سیاسی کارکنوں کو قتل کر کے دفن کر دیا گیا ہے۔ فیس بک پر رائے دینے والے کارکنوں نے 130 لاشوں کی دستیابی کا دعویٰ کیا، بلوچستان کی حکومت نے 13 لاشوں کے ملنے کی تصدیق کی۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ان لاشوں کے ملنے کی خبریں شایع ہوئیں مگر وفاقی حکومت نے اس بارے میں توجہ نہیں دی۔ لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے تحریک چلانے والے ایک کارکن نصیر اﷲ بلوچ نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کر دی۔

چیف جسٹس تصدق جیلانی نے ازخود اختیار Suomoto کے تحت معاملے کی سنگینی کا نوٹس لیا تو ڈپٹی کمشنر خضدار کو سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑا اور سرکاری طور پر یہ بات تسلیم کی گئی کہ 17 جنوری کو چرواہوں کی اطلاع پر نوٹک کے علاقے میں کھدائی کے دوران 13 لاشیں برآمد کی گئیں۔ بلوچستان حکومت نے ان لاشوں کے بارے میں تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل ٹریبونل قائم کیا ہے۔ نصیر اﷲ بلوچ کا کہنا ہے کہ 3 لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے اور یہ وہ بدقسمت سیاسی کارکن ہیں جن کا تعلق آواران سے تھا اور وہ گزشتہ سال لاپتہ ہوئے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملات پر تحقیق کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ 2000ء سے ریاستی اہلکاروں نے سیاسی کارکنوں کو حراست میں لینا شروع کیا تھا، ان لوگوں کو خفیہ سیف ہاؤس میں برسوں قید رکھا جاتا تھا، ان میں سے کچھ لوگ رہا ہوئے، جن میں سے کچھ ذہنی طور پر مفلوج ہوئے، کچھ نے سیاست چھوڑ دی، کچھ ایجنسیوں کے مخبر بن گئے، باقی اغوا ہونے والے افراد کا پتہ نہیں چل سکا۔

2008ء میں پیپلز پارٹی کی وفاق اور بلوچستان میں حکومتوں کے بننے کے بعد بہت سے لاپتہ افراد رہا ہوئے۔ جب دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے اساتذہ، صحافیوں، انجینئروں، پولیس اور انتظامی افسروں، ڈاکٹروں، حجاموں، دکانداروں کو ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک کیا جانے لگا تو پھر لاپتہ ہونے والے افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔جنرل پرویز مشرف کے حامیوں میں شمار ہونے والے ایک سردار کے بیٹے کی سربراہی میں لشکر اسلام نامی تنظیم قائم کی گئی، اس تنظیم نے ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ دوسری طرف قوم پرست کارکنوں کو اغواء کر کے قتل کیا جانے لگا۔ نوٹک کے علاقے میں بھی اس تنظیم کا کیمپ تھا۔ گزشتہ مہینے جب مستونگ میں ہزارہ برادری کے زائرین کی بس کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا اور بہت سے زائرین شہید ہوئے تو ہزارہ برادری نے کوئٹہ میں دھرنا دیا۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم ہوئی، اس کمیٹی نے ان کیمپوں کی نشاندہی کی۔ کسی ذریعے نے نوٹک میں قائم کیمپ کے نگرانوں کو بتا دیا، یہ کیمپ منتقل ہوا مگر لاشیں چھوڑ گیا۔ سیاسی کارکنوں کا اغوا اور پھر ان کا قتل ایک بھیانک صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ جب اسلام آباد میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی تضادات کے خاتمے کا فیصلہ کیا، نیشنل پارٹی اور ملی یکجہتی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی، اس طرح تاریخ میں پہلی دفعہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک بلوچ وزیر اعلیٰ بنے۔

ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی واضح کیا کہ پورے بلوچستان پر صوبائی حکومت کی بالادستی سے ہی صوبے میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے اور سیاسی تنازعات حل ہو سکتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے قائد میر حاصل بزنجو نے یہ واضح اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت کی پہلی ترجیح لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا ہے، مگر ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت کو ہر طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال سیکیورٹی فورسزنے کالجوں اور کوچنگ سینٹروں پر چھاپے مارے اور ملک دشمن کتابوں کی برآمد کا دعویٰ کیا، ان میں سے بیشتر کتابیں مشہور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کی ہیں جو سماج کے ارتقاء، تاریخ کے مختلف ادوار اور روشن خیالی کی تحریکوں سے متعلق ہیں، اس طرح مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو، نیلسن منڈیلا وغیرہ کی سوانح عمری تھیں، یہ کتابیں ملک کی تمام جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ یہ ساری کارروائی صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر ہوئی، صوبائی حکومت کی منظوری کے بغیر نوجوانوں کو مطالعے کی سزا دینے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح لاپتہ افراد کے معاملے پر صوبائی حکومت کے احکامات کی پابندی کرنے پر کوئی وفاقی ادارہ تیار نہیں۔

دوسری طرف بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے بم دھماکوں اور ہتھیاروں کے استعمال سے صوبائی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سینیٹر حاصل بزنجو ایک مثبت سوچ رکھنے والے سیاستدان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے واضح احکامات جاری کیے ہیں کہ لاپتہ افراد کو ماورائے عدالت ہلاک نہیں کیا جائے گا، مگر جب تک تمام لاپتہ افراد رہا نہیں ہوجاتے اس وقت تک صورتحال معمول پر نہیں آئے گی۔ بلوچستان حکومت نے نوٹک میں ملنے والی لاشوں کے معاملات کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبونل کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری مسلسل لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کی کوشش کرتے رہے مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا، یوں ایک جج پر مشتمل ٹریبونل کو بااثر ادارے کسی صورت اہمیت نہیں دیں گے اور ایک دفعہ پھر امتحان وزیر اعظم نواز شریف کا ہے، وہ مقتدر حلقوں کو اس بات پر تیار کریں کہ تمام لاپتہ افراد حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں اور پورے بلوچستان پر صوبائی حکومت کی عملداری ہو تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ گمشدہ سیاسی کارکنوں کے قتل کے مستقبل میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔

0 comments: