خنجر کی خاموشی اور آستین کے لہو کی گواہی

22:17 Unknown 0 Comments



الظاف حسین ہمارا قومی سرمایہ ہیں۔ الطاف حسین اپنے گوناں گوں اوصاف کے اعتبار سے ایک نادۂِ روزگار شخصیت اور وکھری ٹائپ کے سیاست دان ہیں ۔قیامِ پاکستان کے بعد کراچی پاکستان کا دارالحکومت ہی نہیں تھا، بلکہ لاہور کے بعد اسے ملک کے دوسرے بڑے علمی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔ نامور شعراء، معروف ادیبوں، متبحّر دینی عُلماء، معتبر اور راست فکر محققین اور دانشوروں اور ماہرینِ تعلیم، بلند پایہ خطیبوں اور مقررین، فنونِ لطیفہ کے منفرد ماہرین، انتظامی اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال افراد،ہُنر مند اہلِ فن، متفرق نظریات کی معتدل مزاج سیاسی شخصیات کی ایک کہکشاں تھی جو کراچی کے آسماں پر جلوہ گر ہوئی۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات ہر زمانے میں رہے لیکن ان کی وجہ سے رواداری، مہر و مروّت اور وضع داری، سماجی رشتوں اور ذاتی تعلقات کی محکم فضا کبھی مسموم نہ ہوئی تھی۔ شائستگی، وقار، رکھ رکھاؤ، معقولیت اور دلیل اس تہذیب کے خاص نقوش تھے۔ علمی، ادبی اور فکری سرگرمیاں زوروں پررہیں۔ان سرگرمیوں میں مہاجر بزرگ سب سے نمایاں اور ان کا کردار سب سے زیادہ تابناک تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے اوپر پاکستانیت کا رنگ چڑھایا اور اسی کو اپنی پہچان بنایا۔ وہ یہ بھول ہی گئے تھے کہ وہ مہاجر بن کر اس سر زمین میں داخل ہوئے تھے۔آج بھی کئی سیاسی اور دینی جماعتوں کی قیادت اور اگلی صف کے رہنماؤں میں مہاجر پیش پیش ہیں۔وہ اپنا تعارف مہاجر کے طور پر کرانا اپنے ہجرت کر کے پاکستان کو اپنا وطن بنانے کے عمل کی توہین سمجھتے ہیں۔معاشی جدوجہد کرنے والوں کو کراچی نے بلا امتیازِ رنگ و نسل اور بلا تعصبِ شہر و دیہات اور صوبہ و علاقہ بڑے وافر مواقع دیے۔سندھی، پٹھان، پنجابی، بلوچ، کشمیری، ایرانی، بنگالی، غرض ہر جگہ کے لوگ یہاں امن اور آسودگی کے ماحول میں بے خطر رہتے تھے۔کہا جاتا تھا کہ کراچی کی مٹی میں ہاتھ ڈالا جائے تو سونا ہاتھ آتا ہے۔ یوں گویا کراچی میں ایک خاص مثبت اور صحت مند کلچر پروان چڑھا تھا۔ اس کلچر کو پہلا دھچکا پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کے آخری سالوں میں اس وقت لگا جب پیپلز پارٹی کے بانی لیڈر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں مخالفین کے تمسخر اور تحقیر و تذلیل اور اذیّت و ایذا رسانی کی منفی روایت ڈالی۔ اس روایت کے اثرات سندھ سے نکل کر سارے پاکستان میں پھیل گئے اور اس نے ان تعصبات کو انتہا تک پہنچا دیا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنے۔

بھٹو اگرچہ سیاست میں تو بہت پہلے سے تھے۔ ایّوب خان کے دورِ آمریت میں ان کے نمایاں ترین حامیوں اور کابینہ کے اہم وزراء میں سے تھے۔ لیکن جس منفی سیاسی روایت کا اوپر ذکر ہوا ہے اسے اصل فروغ اس وقت ملا جب انہوں نے ایوب خان سے راہیں جُدا کر کے اپنی الگ پارٹی بنائی اور ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ اس کے اثرات سیاست ہی پر نہیں زندگی کے ہر شعبے پر پڑے۔ مرحوم بھٹو کے اس سفر اور جناب الطاف حسین کے مطلعِ سیاست پر نمودار ہونے میں کم و بیش دس سال کی مسافت ہے۔دونوں کی اٹھان مارشل لاء کی فضاؤں میں ہوئی۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں نے کچھ تعصبات کا زہراپنی سیاست کی رگوں میں داخل کیا۔الطاف حسین ترقی پسند نظریات، جدید فکر اور روشن خیالات کے جدید طبع رہنما ہیں۔ شعلہ طبعی اور آتش بیانی ان کی نشانی ٹھہری۔غیض و غضب ان کا شعار اور قہر سامانی ان کا کردار۔ بولیں تو صاعقہ اور چپ ہوں تو ننگی تار میں دوڑتی برقی رو۔اٹھیں تو شعلہ اور بیٹھیں تودہکتا ہوا انگارا۔چلیں تو آندھی اور تھمیں تو غبار۔ان کا ہربیان ایک آتش فشاں اور ان کا مزاج تلوّن کی باہم ٹکراتی لہروں کاطوفان۔ کبھی ٹھنڈی آگ اور کبھی کھولتا پانی۔ ان کی دوستی وبال اور ان کی دشمنی عذاب۔سیاسی زندگی کا زیادہ عرصہ شریکِ اقتدار رہے مگر سدا اپنے حلیفوں سے شاکی اور بیزار۔ کبھی حکومت کے اندر، کبھی حکومت سے باہر۔ ا ن کے غدّار موت کے حقدار، ان کے وفادار بے اعتبار و شرمسار۔ ان کی پارٹی میں بڑے با صلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوان آئے مگر ان کی صلاحیتیں ایک اَنا کے ہاں رہن پڑ گئیں۔یہاں دوسری سوچ کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ان نوجوانوں کی ساری ذہانت و فطانت الطاف حسین کی سوچ کے دفاع اور ان کے موقف کو بر حق ثابت کرنے میں کھپ جاتی ہے ۔ان کوہر حال میں الطاف بھائی کے اطاعت گزار اور ہر بات میں ان سے متفق و مؤید ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہزاروں میل سے ٹیلی فونی خطاب کے دوران میں بھی زبان ہی بند نہیں، سانس بھی رکے ہوئے، ایسے جیسے لکڑی کے کندے اور پتھر کی مورتیاں ہیں کہ نہ معلوم کب فون کے تاروں میں جلال کے کوندے دوڑنے لگیں اور کب کسی کے سر پر سرِ عام جوتے برسانے کا حکم صادرہو جائے۔ اس مشق کا دنیا مشاہدہ کر چکی ہے۔

ہونے کو تو الطاف بھائی کی پارٹی ’متحدہ قومی موومنٹ‘ ہے لیکن وہ ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے خول سے نکل نہیں پاتے ۔ پھر ایک اور المیہ یہ ہے کہ کراچی میں لہو اور لاشے ایم کیو ایم کے جلو میں آئے اور ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔جناب الطاف حسین اور سندھ کے طویل المیعاد گورنر عشرت العباد سمیت اس کی اگلی صف کا شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جس پر خون کا کوئی دعویٰ نہ ہو۔ مہاجروں کے نام پر وجود میں آنے والی اس جماعت کی تشکیل کے بعد کراچی میں نہ مہاجروں نے امن دیکھا اور نہ دوسرے نسلی گروہوں نے سکھ کا سانس لیا۔مزید یہ کہ مہاجروں کی نئی نسل جتنی خوار اور مستقبل برباد اور بگاڑ اور فساد کا شکار ایم کیو ایم کے بننے کے بعد ہوئی اس سے قبل اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ نوجوانوں کے ہاتھ سے کتاب چھنی اور کلاشنکوف آ گئی۔علم کی برکات گئیں اور کراچی پر بارود کی نحوست چھاگئی۔ دانش و فکر کی کھیتی ویران ہوئی تو دہشت گردی کی خار دار جھاڑیاں اگ آئیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بن کر جتنے مہاجر خورد و کلاں رزقِ خاک بنے ،اب وہ شاید شمار سے بھی باہر ہیں۔ا ختلاف یہاں ایسا گناہ ہے جس کی سزا موت سے کم نہیں ہے۔اس تنظیم کے بانی چیئر مین عظیم احمد طارق کے قتل ہوئے ، اسی ’گناہ‘ کے اشارے ملے تھے۔الطاف بھائی اپنی جان کو خطرے میں محسوس کر کے لندن میں جا براجے اورعیش سے رہنے لگے۔اب اچانک واویلا شروع ہو گیاہے کہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف بہت بڑی سازش تیار کر رہی ہے۔ملکی اسٹیبلشمنٹ کی پہنچ سے وہ باہر ہیں۔ عالمی اشٹیبلشمنٹ دنیا میں لِبرلزم اور سیکولرزم کو غالب دیکھنا چاہی ہے ، الطاف بھائی میں یہ صفات بدرجۂِ اتم موجود۔وہ القاعدہ اور طالبان دشمن ، یہ اس دشمنی میں ان سے چار ہاتھ آگے۔ ہوا یہ کہ ایم کیو ایم کے سنگ چلنے والی لہو اور لاشوں کی لکیر دراز ہو کر لندن تک پھیل گئی ہے۔ تین سال قبل وہاں ان کا ایک اور جلاوطن ساتھی اور ایم کیو ایم کا ایک اور بانی رہنماڈاکٹر عمران فاروق پر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا تھا۔ تفتیش چیونٹی کی رفتار سے چلتی رہی۔ظالم کھوجی کھروں کے پیچھے چلتا ہوا آگے بڑھا توکھرے آخرالطاف بھائی کے دروازے پر جا رکے۔اب معاملہ ان دو نوجوانوں پر اٹکا ہوا ہے جو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے کچھ ہی عرصہ قبل تعلیم کے ویزے پر لندن گئے اور قتل کے بعد اچانک غائب ہو گئے تھے۔ جب رحمان ملک وزیرِ داخلہ تھے تب پاکستانی میڈیا میں ان نوجوانوں کے براستہ کولمبو واپس آنے اور کراچی ائر پورٹ پر گرفتار ہونے کی خبریں نشر ہوئی تھیں۔ ہماری حکومتِ پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ الطاف حسین کے ہمدردی کا تقاضا ہے کہ وہ نوجوان برطانیہ کے حوالے کر دیے جائیں۔ اس وقت الطاف بھائی کی سب سے بڑی مدد یہی ہے۔ کیا بعید کہ وہ نوجوان الطاف بھائی کے اس کیس میں ملوّث ہونے سے انکاری ہو جائیں ۔ہمارا قومی دامن بھی اس بد نما داغ سے بچ جائے کہ پاکستان کا اتنا مقبول لیڈر اتنا پست فکر ہو سکتا ہے کہ اپنے ہی ایک ساتھی کے قتل جیسی گھناؤنی سازش کرنے کی حرکت کر بیٹھے ۔ہاں چلیں زبانِ خنجر ابھی چپ سہی لیکن اگر آستین کا لہو ہی بول اٹھے تو ہم اس شرمساری سے کیسے بچ سکتے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ ' نئی بات'

0 comments: