Japan's new immigration law

00:51 Unknown 0 Comments


جاپان دنیا کے ان چند ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے جو تیسری دنیا کے ممالک میں بسنے والے افراد کے لئے انتہائی کشش رکھتا ہے، جس کی سالانہ فی کس آمدنی چالیس ہزار ڈالر سے زائد ہے جبکہ بہترین آب و ہوا، انسانی حقوق کی پاسداری، شریف النفس اور غیر ملکیوں سے محبت کرنے والے عوام ،جبکہ روزگار کے وافر ذرائع میسر ہونے کے سبب جاپان رہائش، ملازمت اور کاروبار کے لئے بہترین ملک ہے لیکن اتنی سب خصوصیات کے باوجود جاپان پہنچنا اور یہاں سیٹل ہونا ایک انتہائی مشکل أمر ہے تاہم اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق اس وقت جاپان میں بیس لاکھ غیر ملکی آباد ہیں، جو خوشحال زندگی گزار رہے ہیں تاہم اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کی میزبانی کرنا اور ان کو وہ تمام وسائل فراہم کرنا جو ایک عام جاپانی کو میسر ہیں کے لئے جاپانی حکومت نے بہترین انتظامات کیے ہیں، ان انتظامات میں سب سے اہم غیر ملکی شہریوں کا ریکارڈ مرتب کرنا، ان کے ویزوں اور رہائش کے مسائل حل کرنا اور بہت بڑی تعداد میں غیر ملکی شہریوں کو مستقل اقامت کا ویزہ فراہم کرنا اور ہزاروں کی تعداد میں جاپانی شہریت کے خواہشمند غیر ملکیوں کو میرٹ پر جاپانی شہریت فراہم کرنے کے لئے جاپانی حکومت نے ایک وزارت قائم کر رکھی ہے جسے منسٹر آف جسٹس کہا جاتا ہے جس کے کنٹرول میں امیگریشن کا محکمہ بھی آتا ہے ، جاپانی حکومت غیر ملکیوں کی سہولتیں کو مدنظر رکھتے ہوئے امیگریشن کے نظام میں گاہے بگاہے تبدیلیاں بھی کرتی رہتی ہے۔

حال ہی میں جاپان میں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کے ویزے اور ان کے حوالے سے تمام معلومات کو ایک مکمل ریکارڈ میں رکھنے کے لئے جاپانی حکومت نے امیگریشن قوانین میں کئی اہم تبدیلیاں بھی کی ہیں جن میں جاپان میں تین سال کے ویزے کی حتمی مدت میں اضافہ کر کے پانچ سال تک کر دیا گیا ہے جبکہ اب تک عارضی قیام کے ویزوں اور جاپان کا مستقل ویزہ رکھنے والوں کو ماضی میں ری انٹری پرمٹ کی ضرورت ہوتی تھی، تاہم نئے امیگریشن قوانین کے تحت اب ایک سال کی مدت تک جاپان سے باہر جانے والوں کو ری انٹری پرمٹ کی ضرورت نہیں رہی ہے، جبکہ تین سال اور پانچ سال کا ویزہ رکھنے والے افراد سمیت مستقل رہائش کا ویزہ رکھنے والے افراد کو اگر وہ چاہیں تو تین سال سے پانچ سال تک کی ری انٹری پرمٹ کی سہولت بھی فراہم کی جاسکے گی تاہم وہ لوگ جو تین ماہ سے کم مدت کیلئے سیاحتی مقاصد کے لئے جاپان آئے ہوں انہیں یہ سہولت میسر نہ ہو گی۔

جاپان کے امیگریشن نظام میں ایک اور اہم تبدیلی ماضی میں جاری ہونے والے ایلین کارڈ کو بھی اب تبدیل کر کے رہائشی کارڈ کا اجراء کیا گیا ہے۔ ماضی میں غیر ملکیوں کو فراہم کئے جانے والے ایلین رجسٹریشن کارڈ پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی کافی اعتراض اٹھائے گئے تھے جس میں حکومت جاپان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایلین کارڈ کا نام غیرملکیوں کو نسلی بنیاد پر کمتر ظاہر کرنے کے مترادف ہے جسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہئے لہٰذا جاپانی حکومت نے غیر ملکیوں کی آسانی کے لئے سابقہ ایلین کارڈ کا نظام جس کے نام سے انسان عجیب سا محسوس کرتا تھا اسے ختم کر کے رہائشی کارڈ کا اجراء شروع کر دیا ہے جو درمیانی اور طویل مدت کے رہائشیوں کے لئے مخصوص ہوں گے جس پر جاپان آمد کی تاریخ ، رہائشی درجہ، تاریخ تجدید ، رہائش کی مدت یعنی ویزے کا اندراج ، نام، تاریخ پیدائش، شہریت، پیشہ اور پتہ وغیرہ درج ہو گا۔ رہائشی کارڈ کو جعلسازی سے محفوظ رکھنے کے لئے اس میں IC چپ نسب کی جائے گی جس میں کارڈ پر درج تمام معلومات یا اندراج کے کچھ حصے مخفی طور پر ریکارڈ کئے جائیں گے۔ اس کارڈ کے لئے خصوصی تصویر درکار ہو گی، جس میں چہرہ تھوڑی تک واضح نظر آئے ، بغیر ٹوپی اور بغیر کسی پس منظر اور تین ماہ پرانی تصویر ہی قبول کی جائے گی ۔

جاپان میں مستقل رہائش کے حامل سولہ سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لئے مذکورہ کارڈ سات سال تک کارآمد ہو گا جبکہ سولہ سال سے کم عمر لوگوں کے لئے ان کی سولہویں سالگرہ تک کارآمد ہو گا۔

اب جب کہ نئے رہائشی کارڈ تقریباً تمام غیر ملکی شہریوں کے لئے جاری ہو چکے ہیں لہٰذا ماضی میں جاری کئے جانے والے ایلین کارڈ منسوخ کئے جا چکے ہیں ، نئے کارڈ کے اجراء کے لئے مقامی امیگریشن دفاتر سے رجوع کیا جا سکے گا تاہم نئے آنے والے وہ غیر ملکی جو درمیانی وطویل مدت کے ویزے کے زمرے میں آتے ہوں انہیں ایئرپورٹ پر ہی ان کے پاسپورٹ پر لگائی جانے والی آمد کی مہر لگاتے وقت ہی رہائشی کارڈ جاری کر دیا جائے گا ، یہ سہولتیں شروع میں صرف ٹوکیو ،ناریتا ، ٹوکیو ہانیدا ،چوب اور کھانسائی ہوائی اڈوں تک محدود ہوں گی۔ مذکورہ بالا ہوائی اڈوں کے علاوہ پہنچنے والے غیر ملکی اپنے پاسپورٹ پر ثبت کی گئی آمد کی مہر اپنے رہائشی شہر کے سٹی آفس میں دکھا کر رہائشی کارڈ حاصل کر سکیں گے۔

جاپان میں نافذ کئے جانے والے نئے نظام کے تحت جاپان میں رہائشی ویزے کی اقسام اور مدت میں تبدیلی کی جائے گی۔ موجود رہائشی ویزہ جس میں اعلی مہارت ، انسانیت کی بنیادوں پر، بین الاقوامی کاروبار اور ملازمت کے ویزے شامل ہیں (جن میں ثقافتی، سیاحتی فروغ اور تکینکی مہارت کی تربیت لینے والے اس زمرے میں نہیں آتے) کے لئے موجودہ مدت کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال ہے جسے نئے نظام کے تحت کم سے کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کر دیا گیا ہے جبکہ غیر ملکی طلباء و طالبات، جاپانی شہریوں اور غیر ملکی مستقل رہائشی ویزہ رکھنے والوں کے بیوی بچوں کیلئے غیر ملکی طلباء وطالبات کیلئے پانچ قسم کی مدتیں ہیں(چھ ماہ، ایک سال، ایک سال تین ماہ، دو سال، اور دوسال تین ماہ) جس میں کم سے کم مدت چھ ماہ ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ مدت دوسال تین ماہ ہے۔ نئے نظام کے تحت مدت کی اس اقسام میں مزید پانچ مدتوں کا اضافہ کیا جائے گا (تین ماہ، تین سال ، تین سال تین ماہ، چارسال اور چار سال تین ماہ)جس میں کم سے کم مدت تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ مدت چار سال تین ماہ کر دی جائے گی لہٰذا نئے نظام کے تحت غیر ملکی طلبہ کیلئے دس قسم کی مدتیں نافذالعمل ہون گی جبکہ ویزے کی تیسری قسم کے زمرے میں آنے والے وہ لوگ ہیں جو جاپانی شہریوں اور غیر ملکی مستقل رہائشی ویزہ رکھنے والوں کے بچے ، بیوی یا شوہر کی حیثیت رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے موجودہ ویزے کی کم سے کم مدت ایک سال اور تین سال ہے جبکہ نئے نظام کے بعد ان کے ویزے کی مدت کم سے کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کر دی جائے گی ، اس نئے نظام کے اطلاق کے بعد کسی بھی جاپانی شہری یا جاپان کے کسی مستقل رہائش کے حامل غیر ملکی کی بیوی یا شوہر خاص وجوہات کے بغیر اگر چھ ماہ سے زائد کا عرصہ ایک ساتھ رہتے ہوئے نہ پائے گئے تو ان کا ویزہ منسوخ کیا جاسکتا ہے ،جس سے جاپان میں ویزے کے حصول کے لئے پیپر میرج کے رحجان کی بھی حوصلہ شکنی ہو سکے گی۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ

Japan's new immigration law  

Enhanced by Zemanta

0 comments:

American Muslims, Islam and Pakistan?

00:46 Unknown 0 Comments


گزشتہ روز لاہور میں دارالعلوم جامعہ نعیمیہ میں منعقدہ مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی سیمینار کے سالانہ اجتماع میں مجھے پاکستان کی ممتاز میڈیا شخصیات، سیاسی قائدین اور مذہبی اسکالرز اور مقررین کے خیالات کو سننے کا موقع ملا۔ ایک ہی اسٹیج سے مختلف مکاتب فکر کے مقررین کے خیالات سے آگہی کا موقع ملا۔ افکار و خیالات کے اشتراک، اختلاف بلکہ بعض امور پر تضاد کے لحاظ سے اعتدال سے لیکر راسخ العقیدہ مذہبی اور بعض جوش و جذبے والے عقابی جذبات و خیالات بھی سننے کو ملے۔ صرف چار منٹ کی تخصیص کے ساتھ مجھے ’’امریکہ میں اسلام‘‘ کے بارے میں کچھ کہنے کا حکم ملا۔ پاکستان میں لفظ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے بارے میں ’’حساسیت‘‘ بلکہ جذبات کے ماحول میں امریکہ کے جمہوری، مذہبی رواداری ،برداشت اور ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجس معاشرے کے مثبت تجربات بیان کرنا قدرے مشکل نظر آرہا تھا مگر اس اجتماع کے شرکاء کی واضح اکثریت نے میری مختصر گزارشات کو تحمل سے سنا ۔وقت کی کمی کے باعث اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنے، اپنے مشاہدات و تجربات اور رائے کو مکمل انداز میں بیان کرنے کیلئے مزید گزارشات اس کالم کی شکل میں پیش کر رہا ہوں، تبصرہ، تنقید، تجزیہ و تجاویز سے قارئین آگاہ فرمائیں۔

اسلام کے بارے میں امریکہ کی پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں کوئی نظریہ اور رائے قائم کرنے سے قبل عصر حاضر کے زمینی حقائق، امریکہ کے معاشرت اور آبادی کی ساخت و ضروریات ،مسلم دنیا کے حکمرانوں کے رویّے اور اقتدار کو طول دینے کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ اس طرح ہیں امریکہ کی کل آبادی 315 ملین کے لگ بھگ ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی کا حتمی تعین ممکن نہیں کیونکہ امریکی مردم شماری میں مذہب کا کوئی خانہ موجود نہیں ہے۔

بعض عیسائی مذہبی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صرف دو ملین مسلمان آباد ہیں جبکہ مسلم تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں 8 تا 10 ملین مسلمان رہتے ہیں بعض حلقے مسلمانوں کی آبادی 6 تا 8 ملین بتاتے ہیں۔ اگر امریکہ کی مسلم آبادی کو 8 ملین بھی تسلیم کر لیں تو 315 ملین آبادی میں صرف 8 ملین آبادی کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے پھر بھی 8 ملین کی مسلم آبادی میں ایسے عقائد کے لوگ بھی شامل ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن اکثریت کے حامل مسلمان انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس آبادی میں دریائے نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کے پہاڑی علاقوں، انڈونیشیا اور آسٹریلیا سے لیکر افریقہ ،لاطینی امریکہ تک کے ممالک سے مختلف زبان و ثقافت، بودو باش ،روایات اور شہریت کے ساتھ امریکہ آ کر آباد ہونے والے مسلمان شامل ہیں لہٰذا امریکی معاشرے کی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوچ رویّے اور ردعمل کے بارے میں ان تمام عوامل اور امریکی آبادی میں مسلم آبادی کے تناسب کو پیش نظر رکھنا لازمی ضرورت ہے۔

امریکہ کی مساجد اور امام بارگاہیں اس حقیقت کا عملی نمونہ پیش کر رہی ہیں کہ مساجد میں نماز جمعہ اور دیگر نمازوں کی ادائیگی کے وقت سنی مساجد میں نماز ادا کرنے والے حنفی کے ساتھ شافعی، مالکی اور حنبلی اور ان کے ساتھ ہی شیعہ مسلک کا نمازی کھڑا ہو کر ایک ہی صف میں نماز ادا کرتے ہیں اور سلام پھیرنے کے بعد اکثر نمازی اپنے سیدھے ہاتھ بیٹھے نمازی کے ساتھ ہاتھ ملا کر سلامتی کی دعا دیکر مسکراہٹ کے ساتھ اٹھتے ہیں ، ہر نمازی ایک ہی مسجد میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق نماز ادا کرتا، ہاتھ پھیلا کر سر پر ہاتھ رکھ کر مختلف افریقی اور ایشیائی انداز میں دعا مانگتے نظر آتے ہیں۔ کیا پاکستان کی مساجد میں یہ مناظر اور یہ ہم آہنگی نظر آتی ہیں؟ کیا ہم اخوت اسلامی اور ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کے یہ نمونے اپنی عبادت گاہوں میں پیش کر پا رہے ہیں؟

امریکہ صرف نیویارک، شکاگو ،لاس اینجلس، میامی اور ہیوسٹن جیسے بڑے شہروں کا نام نہیں بلکہ الباما سے لیکر ویومنگ تک 50چھوٹی بڑی ریاستوں اور دیگر علاقوں کا نام ہے جس کی بیشتر آبادی چھوٹے شہروں، زرعی علاقوں میں آباد، عیسائیت کی پیروکار ہے متعدد ریاستوں میں آبادی پر مذہبی عقائد اور مذہبی رہنمائوں کا اثر خوب خوب ہے۔ آئینی طور پر سیکولر امریکہ کے بعض علاقوں کی سیاست میں وہاں کے چرچ رہنمائوں کا اثر ایک اٹل حقیقت ہے۔ امریکہ کی صدارتی انتخابی مہم سے لیکر سینٹ ایوان نمائندگان، ریاستی اسمبلیوں اور مقامی انتظامیہ کے انتخابات میں مقامی سطح سے لیکر قومی سطح تک کے انتخابات میں قیادت کا انتخاب ان علاقوں سے بھی ہوتا ہے۔ امریکہ میں موجود مسلمان قیادت نے نہ تو امریکہ کے ان اندرونی علاقوں میں مسلمانوں اور اسلام کی سافٹ اور مثبت امیج پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی اسلام اور عیسائیت کے دو الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کوئی بین العقائد ہم آہنگی اور مشترک اقدار کے ساتھ بقائے باہمی کے لئے کسی ڈائیلاگ کا آغاز کیا۔ اکثریتی آبادی سے اپنے حقوق کے تحفظ و احترام کیلئے ڈائیلاگ اقلیت کی ضرورت ہوتا ہے۔ کیا آج مسلم ممالک کے حکمرانوں اور امریکہ میں مسلم قیادت کے رہنمائوں نے امریکہ جیسی عالمی سپر پاور سے ایسے کسی ڈائیلاگ کا آغاز کیا؟ پاکستان جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے اس میں کتنے علماء اور اسکالر ایسے ہیں جو امریکہ میں مسلمان اقلیت کے مذہب اسلام اور اکثریتی مذہب عیسائیت کے درمیان مشترکہ اصولوں اور بقائے باہمی اور تعلقات میں بہتری کے لئے ڈائیلاگ اور کام سرانجام دے سکتے ہیں؟

امریکہ کی 315 ملین آبادی میں اکثریت کو اسلام کی تعلیمات اور اصولوں سے کوئی آگہی نہیں البتہ طالبان، دہشت گردی اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحہ کے حوالے سے ایک ہولناک امیج سے آگاہی ہے۔ امریکہ کی عیسائی اکثریت کو صلیبی جنگوں کے تناظر سے نکال کر دور حاضر کے تناظر میں غیر مسلموں کے سامنے اسلام کا وہ سافٹ اور اعلیٰ اخلاقی امیج پیش کرنے کی ضرورت ہے جو خلیفہ عمرؓ اور ان کے غلام کے درمیان مہربانی اور مساوات کا ثبوت دے۔ غیر مسلموں کی حفاظت نہ کرنے میں ان سے حاصل کردہ جزیہ بھی ٹیکس بھی واپس کرنے کا ریکارڈ پیش کرے۔ عورتوں کیلئے احترام اور عملی مساوات ،صلہ رحمی، غیر مسلموں سے لین دین اور معاشرتی رابطوں اور تعلقات کا احترام بیان کرے امریکہ کی مسلمان قیادت، مسلم ممالک کے اسکالروں اور حکمرانوں نے اس میدان میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق کسی عمل کا آغاز کیا ہے؟ یہ امریکہ کے مسلم دانشوروں اور کمزور ترقی یافتہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کا فریضہ ہے کہ وہ عالمی سپر پاور کی ملٹری مشین کے غضب اور غیر مسلموں کے شر سے بچنے کیلئے ڈائیلاگ اور تعلق کے ذریعہ سے کام کریں۔

موجودہ مسلم دنیا کے حکمران اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے تو ہر مطالبہ اور حکم مان کر غیر مسلم طاقتوں اور سرپرستوں کے آگے جھک جاتے ہیں مگر اپنے عوام کے حقیقی مفاد ،عقائد جذبات اور موقف کی ترجمانی کرنے کے بجائے انہیں پس پشت ڈال کر سودے بازی کر کے زندگی گزار رہے ہیں وہ امریکی عوام سے ڈائیلاگ کے بجائے امریکی حکومت اور اس کے اداروں سے رابطوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں جبکہ امریکی حکومت کی قیادت کی سوچ فکر اور اقدام کی جڑ بنیاد جمہوری اور عوامی انتخابات اور رائے عامہ میں پوشیدہ ہے۔ جب ہم نے موجودہ عہد کے حالات اور تقاضوں کے مطابق اپنے لئے کچھ نہیں کیا تو پھر یاد رکھئے کہ ہر دور اور علاقے کی برتر طاقت والی قوم نے کمزور اقوام سے اپنے مطالبے پورے کرانے کے لئے کام کیا ہے۔

سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد ردعمل میں امریکہ میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے لئے عوامی اور سرکاری سطح پر مشکلات اور امتیازی سلوک کا ضرور تلخ تجربہ ہوا۔ بعض مشتبہ مسلمانوں کی گرفتاریاں، مساجد کی نگرانی اور دیگر واقعات پیش آئے کیونکہ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں مسلمان ناموں اور وضع قطع والے افراد تھے۔ اسلام سے ناواقف امریکی اکثریت نے اسے اپنی تہذیب پر مسلم حملہ تصور کیا ۔ وقتی طور پر امریکہ میں داخلی سطح پر مسلمانوں کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا لیکن مسلمان آبادیوں اور شہریوں کو امریکی غیر مسلم پولیس نے ہی تحفظ فراہم کیا۔

آج بھی امریکہ بھر میں مسلمان ان کی عبادت گاہوں، رہائش گاہوں اور کاروبار کی حفاظت ،تسلسل غیر مسلم امریکی معاشرے اور اس کے حکومتی اداروں نے ہی فراہم کر رکھی ہے۔ مجھے امریکہ میں40سال کے قیام کے دوران اپنے مسلمان نام، پاکستانی رنگت اور دیگر غیر امریکی عوامل کے باوجود مقامی حکومت سے لیکر امریکی حکومت، سینٹ ایوان نمائندگان ، وہائٹ ہائوس ،پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی کوریج، امریکہ کی انتخابی سیاست ،پارٹیوں کے کنونشن اور گورے کالے اور دیگر نسل کے امریکی رہنمائوں کی بطور صحافی انٹرویوز اور کوریج کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ یا مشکل پیش نہیں آئی۔ نسلی اور مذہبی امتیاز کے کچھ واقعات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر جمہوری غیر مسلم امریکہ میں ہم امریکی مسلمان معاشی طور پر بہت سوں سے بہتر اور قانون کے تابع تحفظ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے میں کہ جب پاکستان، مسلم ممالک اور ان کے معاشرے انتشار ،تصادم اور عدم رواداری کا شکار ہو کر تشدد کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں تو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے امریکہ پر الزامات اور نفرت کے جذبات کا اظہار کرنا درست نہیں۔ غیر مسلم امریکہ میں آباد مسلمان بہتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ مسلم ممالک ان کے حکمران ، مذہبی و معاشرتی رہنما خود اسلام اور مسلمانوں کے سافٹ امیج ابھارنے اور اسلام کے نام پر تشدد و دہشت گردی کا تاثر زائل کرنے کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر غیر مسلم ممالک اور معاشروں سے کیسا گلہ؟


بشکریہ روزنامہ "جنگ

American Muslims, Islam and Pakistan

Enhanced by Zemanta

0 comments:

اتفاقاً انسان ہونے کا کتنا انتقام لیں گے

07:07 Unknown 0 Comments


جانور بھی اسی طرح پیدا ہوئے جیسے انسان۔ اسی نے پیدا کیا جس نے انسانوں کو۔ ابتدا میں جس کا جہاں بس چلتا دوسرے کو شکار کر لیتا یا خود ہو جاتا۔ لیکن انسان میں دیگر جانداروں کی نسبت خود کو ڈھالنے اور سیکھنے کی صلاحیت چونکہ زیادہ تھی لہذا وہ باقی جانداروں سے آگے نکل گیا اور اس نے لگ بھگ دس ہزار برس قبل کچھ جانداروں کو سدھانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ جیسے گھوڑا ، گدھا، مرغی ، گائے ، بکری ، کتا، بندر، کبوتر، طوطا، مینا وغیرہ اور پھر ہر ایک کی مخصوص صلاحتیوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جس میں بنیادی فوائد بار برداری ، خوراک اور چمڑے وغیرہ کا حصول تھا۔ پھر ان جانوروں کو سدھانے کا جواز بھی پیدا ہو گیا۔ مثلاً یہ کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے بجائے محض جبلت کے سہارے رہنے کے سبب جانور بھی درختوں ، پانی اور آگ کی طرح ایک قدرتی دولت ہوتے ہیں جو انسانوں کے فائدے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ سولہویں صدی کے مشہور فرانسسیی فلسفی رینے ڈیکارت کا بھی یہ خیال تھا کہ جانور بالکل گھڑی کی طرح مکینکیل ہوتے ہیں انھیں دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا۔

ہر مذہب نے کچھ جانوروں کے گوشت کے استعمال کی اجازت دی اور کچھ کا گوشت ممنوع قرار دیا۔ ہر مذہب نے ضرورت کے سوا جانوروں کو قید کرنے اور بغرضِ تفریح تکلیف و ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا اور پالتو جانوروں سے مہربانی کا سلوک اختیار کرنے کی تاکید کی اور اس مہربانی کے اجر کا مژدہ بھی سنایا اور پھر سائنسی طور پر یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ہر جاندار زندگی کے دائرے کا اہم اور لازمی جزو ہے۔ اگر کوئی ایک حیاتیاتی نسل خطرے میں پڑتی ہے تو پورا سرکل آف لائف کمزور ہو کر بالاخر ٹوٹ پھوٹ بھی سکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عیسائی یورپ میں تجارتی انقلاب آنے تک بلی کو شیطان کا روپ مان کر اسے جگہ جگہ بھوسے کے ساتھ باندھ کر زندہ جلادیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب بلیاں کم ہو گئیں تو چوہے بڑھ گئے اور چوہوں کے ذریعے چودھویں اور پندھرویں صدی میں جو طاعون پھیلا اس سے یورپ کی ایک تہائی آبادی لقمہِ اجل بن گئی۔اس کے بعد کسی نے بلی کو شیطان کی خالہ نہیں کہا۔

رومن بادشاہ تو عوام کی توجہ روزمرہ مسائل اور اپنی نااہلی سے ہٹانے کے لیے انھیں جانوروں کی لڑائی کے تماشے میں مصروف رکھتے تھے لیکن جدید ، روشن خیال، پڑھی لکھی خدا ترس دنیا میں آج جانوروں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے ہوتے ہوئے رومن دور فرشتوں کا زمانہ لگتا ہے۔ سن انیس سو اڑتیس میں امریکا میں فوڈ، ڈرگ اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ کے تحت مصنوعات کو انسانی استعمال سے قبل جانوروں پر آزمانے کا عمل لازمی قرار پایا۔ چنانچہ صرف امریکی لیبارٹریز میں سالانہ لگ بھگ ستر ملین چوہے ، کتے ، بلیاں ، خرگوش ، بندر ، پرندے وغیرہ تحقیق و ترقی کے نام پر اذیت ناکی اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ خرگوشوں کی آنکھوں میں متعدد کاسمیٹکس مصنوعات تجرباتی طور پر داخل کر کے انھیں اندھا کیا جاتا ہے۔ اسے ڈریز ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ اور پھر انھیں ناکارہ قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ چین فر کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے۔ فیشن انڈسٹری کی بھوک مٹانے کی خاطر سالانہ ساڑھے تین ملین جانور صرف اس لیے مار دیے جاتے ہیں کہ ان کے نرم بال فر کی مصنوعات میں استعمال ہوسکیں۔ مثلاً چالیس انچ کا ایک فر کوٹ بنانے میں اوسطاً پنتیس خرگوشوں ، یا بیس لومڑیوں یا آٹھ سیلز کی کھال درکار ہوتی ہے۔

قراقلی ٹوپی بنانے کے لیے جونرم فر مٹیریل چاہیے وہ بھیڑ کے اس بچے کی کھال سے ہی مل سکتا ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے ماں کا پیٹ چاک کر کے نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ فی زمانہ سنتھیٹک میٹیریل سے بھی اتنے ہی گرم کپڑے اور دیگر مصنوعات بن سکتی ہیں اور بن بھی رہی ہیں۔ فر کو تو جانے دیں جانوروں کی تو کھال بھی ان کے لیے مصیبت ہے۔صرف دو ہزار دو سے دو ہزار پانچ کے دوران جوتے ، پرس ، بیلٹس، جیکٹس وغیرہ بنانے کے لیے یورپی یونین میں چونتیس لاکھ بڑی چھپکلیوں ، تیس لاکھ مگرمچھوں اور چونتیس لاکھ سانپوں کی کھالیں امپورٹ کی گئیں۔اگر ہاتھی کے دانت اور گینڈے کے سینگ نہ ہوتے تو آج ان کی نسل اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ رہی ہوتی۔

گائے کا دودھ یقیناً اہم انسانی غذا ہے۔ لیکن اب سے تیس برس پہلے تک گائے کی اوسط عمر بیس سے پچیس برس ہوا کرتی تھی۔ اب اسے چار سے پانچ برس ہی زندہ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا دودھ بڑھانے کے لیے مسلسل ہارمونل انجکشن دیے جاتے ہیں اور مصنوعی طریقوں سے لگاتار حاملہ رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا ہوسکیں۔ یوں وہ کچھ ہی عرصے میں سوائے ہلاکت کے کسی کام کی نہیں رہتی۔ مگر بھارت جہاں گائے ہلاک کرنا جرم ہے وہاں صرف چند لاکھ گائیوں کے لیے گؤشالہ کی سہولت ہے۔ دیگر کروڑوں بھک مری یا آلودہ الم غلم کھا کے خود ہی سورگباشی ہو جاتی ہیں۔

مرغی عالمی سطح پر گوشت کی ساٹھ فیصد مانگ پوری کرتی ہے۔لیکن بیس فیصد مرغیاں گندگی اور پنجروں میں گنجائش سے زیادہ ٹھونسے جانے اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہی مرجاتی ہیں۔انڈے دینے والی مرغیوں کا گوشت عام طور سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ جب وہ بانجھ ہوجاتی ہیں تو انھیں ہزاروں کی تعداد میں زندہ دفن کردیا جاتا ہے۔شارک کے بازوؤں کا ( شارک فن) سوپ ایک مہنگی سوغات ہے اور ایک اچھے ریسٹورنٹ میں دو سو ڈالر فی باؤل تک قیمت وصول کی جاتی ہے۔لیکن شارک کے بازو کاٹ کر باقی شارک کو سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بغیر بازوں کے وہ تیرنے سے معذور ہوجاتی ہے اور سمندر کی تہہ میں اترتی چلی جاتی ہے۔شمالی بحر اوقیانوس میں جزائر فیرو میں ہر موسمِ گرما میں ایک ہزار پائلٹ وھیل مچھلیوں کو گھیر کر کنارے تک لایا جاتا ہے اور انھیں تیز دھار آلات سے ہلاک کیا جاتا ہے۔جس سے تا حدِ نظر پانی سرخ ہوجاتا ہے۔ مچھلیوں کے قتلِ عام کا یہ قدیم میلہ آج تک جاری ہے۔ لگ بھگ دو سو ٹن وزنی بلیو وھیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اب سے سو برس پہلے تک کرہِ ارض کے سمندروں میں دو لاکھ بلو وہیلز تھیں۔مگر آگ لگے ان کی چربی کو کہ آج دس ہزار سے بھی کم رہگئی ہیں۔

اکیزوکوری ایک خاص جاپانی ڈش ہے۔ باورچی شیشے کے واٹر ٹینک میں سے گاہک کی مرضی کے مطابق زندہ مچھلی نکال کر اس کی کھال اتارتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑے کچھ اس مہارت سے کرتا ہے کہ دل دھڑکتا رہے اور سر میں جان باقی رہے اور پھر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر قاب میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔منہ کھولتی بند کرتی مچھلی آہستہ آہستہ مرتی ہے۔تب تک اس کا گرم نرم گوشت چوپ سٹکس کے ذریعے گاہک کے معدے میں اتر چکا ہوتا ہے۔ین یانگ فش چینی ڈش ہے۔ زندہ مچھلی کو اس طرح تلا جاتا ہے کہ سر میں آخر تک جان باقی رہے۔ جیاؤ لو رو ( آبی گدھے کا گوشت ) بھی ایک مہنگی چینی ڈش ہے۔ زندہ گدھے کی تھوڑی سی کھال اتار کر کچے گوشت پر مسلسل ابلا ہوا پانی ڈالتے ہیں اور جب وہ پک جاتا ہے تو اتنا پارچہ اتار کر گاہک کو پیش کردیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا کے جزیرہ نارتھ سالویزی کی ٹومو ہون مارکیٹ میں بندر ، چمگادڑ ، بلی، کتے، سور، چوہے، اژدھے زندہ روسٹ کر کے لٹکا دیے جاتے ہیں۔اور ان کے ہم جولی دیگر جانور پنجروں میں بند سامنے سامنے اپنی باری گن رہے ہوتے ہیں۔

بل فائٹنگ کے کھیل میں ہر سال لگ بھگ چالیس ہزار بھینسے مر جاتے ہیں۔ ایک بھینسہ جس کے جسم میں بل فائٹر کے کئی فاتحانہ نیزے گڑے ہوں مرنے میں ایک گھنٹہ لگاتا ہے۔ اسپین کے مدینسیلی قصبے میں ہر سال نومبر میں ٹورو جبیلو ( جلتا ہوا بھینسا ) کا تہوار منایا جاتا ہے۔ جنگلی بھینسے کے نوکیلے سینگوں پر ڈامر کی تہہ لیپ کر اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔بھینسا شعلوں کی شدت سے بچنے کے لیے دیواروں سے ٹکریں مارتا ہوا گلیوں اور سڑکوں پر تماشائیوں کی تالیوں اور شور میں دیوانہ وار بھاگتا رہتا ہے اور جلتا ڈامر ٹپک ٹپک کر اسے گردن تک جھلسا دیتا ہے اور پھر وہ چار سے پانچ گھنٹے میں سسک سسک کے مرجاتا ہے۔ جب گرے ہاؤنڈز کتے دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے تو انھیں گولی ماردی جاتی ہے۔ یوں ہر سال لگ بھگ پچاس ہزار گرے ہاؤنڈز انسانی تفریح کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ یہی سلوک ناکارہ گھوڑوں کے ساتھ ہوتا ہے۔سن اسی کے عشرے میں ہیونزگیٹ نامی فلم میں ایک منظر فلمانے کی خاطر زندہ گھوڑا ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا گیا۔ جانوروں کو ان جنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی لینا دینا نہیں۔ مثلاً ڈولفنز سے سمندر میں بچھی بارودی سرنگیں تلاش کرائی جاتی ہیں۔ سی لائنز دشمن کے زیرِ آب غوطہ خور تلاش کرتے ہیں۔ کتے بم سونگھتے پھرتے ہیں۔ بارودی سرنگوں سے اٹے میدانوں پر سے پالتو جانور گذارے جاتے ہیں تاکہ وہ میدان انسانوں کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ کیمیاوی ہتھیاروں اور ان کے توڑ کے تجربات جانوروں پر کیے جاتے ہیں۔ دھماکوں کے اثرات اور چھوٹے ہتھیاروں کی فائر پاور جانوروں پر آزمائی جاتی ہے۔ جن جن ممالک میں بچوں کو مسلح تنازعات میں جھونکا جاتا ہے ان کی معصومیت اور قدرتی جھجک مٹانے کے لیے ان کے ہاتھوں جانوروں کی سفاکانہ طریقے سے ہلاکت سے عسکری تربیت شروع ہوتی ہے۔ جیسے مرغی پکڑ کر اس کی گردن ہاتھوں سے الگ کر دینا یا ٹانگیں پکڑ کر پھاڑ دینا وغیرہ۔

کہا جاتا ہے کہ جانور چونکہ بے زبان ہوتے ہیں لہذا ان کی ہلاکت سے انسانی نفسیات پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اور ایسے واقعات انسانی شعور میں زیادہ عرصے نہیں رہتے۔ لیکن ایف بی آئی کے مطابق چھتیس فیصد جنسی قاتلوں کے پروفائلز سے ظاہر ہوا کہ وہ بچپن میں جانوروں پر تشدد کے شوقین تھے اور اس شوق نے ان میں جو بے حسی پیدا کی وہ بڑھتے بڑھتے انسانوں کے متشدد شکار تک لے آئی۔ نہیں نہیں ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم تو اس خدا کے ماننے والے ہیں جو کہتا ہے کہ جانور بھی میری مخلوق ہیں اور اپنی اپنی زبان میں میری حمد و ثنا کرتے ہیں۔ جس نے اصحابِ کف کے کتے کے لیے بھی اجر کا اعلان کیا۔ جس نے غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی حرام قرار دیا۔ ہم تو اس نبی کے پیروکار ہیں جس کی بلی مغیرہ چادر پر سو جاتی تو آپ چادر چھوڑ کے آہستگی سے چلے جاتے تھے تاکہ نیند نہ ٹوٹے۔ آپ نے سختی سے منع کیا کہ جانور کو داغنا ، آپس میں لڑانا اور تفریحاً ان کی شکلیں مسخ کرنا قابلِ نفرین و لعنت ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ جس نے ایک چڑیا کو بلاوجہ مارا اسے یومِ قیامت جواب دینا ہے۔ آپ ایسے رقیق القلب کہ ایک پیاسے پلے کو کنوئیں سے پانی پلانے والی عورت کو اجرِ عظیم کی نوید سنائی۔ آپ ہی کے ایک خلیفہِ راشد سے منسوب ہے کہ فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کی ذمے داری خلیفہِ وقت پر ہے۔

احادیث کی بات ہو تو ہم حضرت ابو ہریرہ ( بلیوں کا باپ ) کا حوالہ دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کے نام بڑے فخر سے شاہین احمد ، باز محمد ، شیر علی ، کلبِ صادق وغیرہ رکھتے ہیں۔ مگر یہ بھی ہے کہ آنکھیں خود پھیرتے ہیں اور الزام طوطا چشمی کو دیتے ہیں۔مکار خود ہیں پر بدنام لومڑی ہے۔ سفاکی اندر موجود ہے مگر مثال بھیڑئیے کی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر احسان فراموشی آپ کریں اور بدنام ہو آستین کا سانپ۔نقالی کی داد خود وصول کریں اور نام لگائیں بندر کا۔ حرام خود کھائیں اور حوالہ دیں خنزیر کا۔۔

کیا ہمیں روزانہ لوہے کے پنجروں میں ٹھنسی مرغیاں ، موٹرسائیکل کے پیچھے دوہرے کرکے بندھے بکرے ، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے والے ٹرکوں میں معلق چارپائیوں میں ٹانگیں پھنسائے بکرے اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کھڑی بھینسیں، وزن کے زور پر ہوا میں معلق پیٹے جانے والے گدھے ، گلے میں رسی ڈال کر کھینچے جانے والے ڈنڈے کے خوف سے ناچتے بندر ، چڑیا گھر کے کنکریٹ سے پنجے کھرچ کر زخمی ہونے والے شیر ، نتھنوں میں نکیل ڈالے کرتب دکھانے پر مجبور ریچھ ، لاکھوں روپے کی شرط پر لہو لہان لڑائی کے منہ نچے کتے اور ایک دوسرے کی گردن نوچنے اور آنکھیں پھوڑنے والے مرغ دکھائی نہیں دیتے۔سوچئے اگر آپ ان میں سے کسی جانور کی شکل میں جنمے جاتے تو آپ کے ساتھ کیا ہوتا ؟ ایک ہی کرہِ ارض پر ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود اتفاقاً انسان ہونے کا آخر ہم ان بے زبانوں سے اور کتنا انتقام لیں گے ؟


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

0 comments:

انصاف کی صورتحال

00:55 Unknown 0 Comments



آمنہ کا تعلق مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے گاؤں لنڈی پتافی سے تھا‘ آمنہ کی عمر 22 سال تھی‘ اس کے تین جرم تھے‘ اس کا پہلا جرم سماجی کمزوری تھا‘ یہ کمزور خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور آپ اگر سماجی لحاظ سے کمزور ہیں تو اس ملک میں آپ کے 75 فیصد انسانی حقوق پیدا ہوتے ہی سلب ہو جاتے ہیں‘ اس کا دوسرا جرم خوبصورتی تھا‘ یہ جسمانی لحاظ سے خوبصورت بچی تھی اور آپ اگر خاتون ہیں اورخوبصورت بھی ہیں تو آپ جان لیں آپ اس ملک میں محفوظ نہیں ہیں‘ آپ بیری کا وہ درخت ہیں جس پر دن رات پتھر پڑیں گے‘ ہمارے ملک میں بچیاں اس وقت زیادہ غیر محفوظ ہو جاتی ہیں جب یہ خوبصورت بھی ہوں اور ان کا خاندان بھی کمزور ہو اور آمنہ میں یہ دونوں خامیاں موجود تھیں اور آمنہ کا تیسرا جرم اس کا پاکستان میں پیدا ہو نا بھی تھا‘ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے‘ نہیں ہے تو انصاف نہیں‘ ہم مانیں یا نہ مانیں ہمارے ملک میں آج بھی حکمران وقت چیف جسٹس ہوتے ہیں‘ فیصلہ بڑا ہو یا چھوٹا یہ فیصلہ بہرحال یہ لوگ ہی کرتے ہیں۔

خدا کی پناہ جس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا جائے کہ یہ عین اس دور میں ملک کے سب سے بڑے لیڈر تھے جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا تھا اور میاں نواز شریف کے پورے خاندان کو اس لیے جیلوں میں پھینک دیا جائے اور ملک سے زبردستی جلا وطن کر دیا جائے کہ تین جرنیلوں نے اقتدار پر قابض ہونے کا فیصلہ کر لیا تھااور یہ جرنیل جب اقتدار پر قابض ہو جائیں تو سپریم کورٹ نہ صرف ان کی انا کی توثیق کر دے بلکہ انھیں ملکی آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دے لہٰذا جس ملک میں انصاف کی صورتحال یہ ہو‘ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگا دیا جاتا ہوں‘ میاں نواز شریف کو خاندان سمیت جدہ پھینک دیا جاتا ہو اور جس میں ماتحت جنرل پرویز مشرف ایوان صدر آئے اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر رفیق احمد تارڑ کو کرائے کی گاڑی میں بٹھا کر لاہور روانہ کر دے اور اپنے آپ کو صدر ڈکلیر کر دے‘ اس ملک میں آمنہ جیسی بچیوں کا پیدا ہونا جرم نہیں تو کیا ہے؟ اور آمنہ اس جرم کی سزا وار بھی تھی‘ مجرم آمنہ علاقے کے بااثر خاندان کے ایک سپوت نادر حسین بھنڈ کوپسند آ گئی‘ اس نے رشتہ مانگا‘ آمنہ کے والدین نے انکار کر دیا‘ ہمارے ملک میں انکار سننے کی روایت موجود نہیں اور یہ انکار اگر کسی نوجوان بچی کے غریب والدین کی طرف سے ہو تو یہ ناقابل معافی جرم بھی ہوتا ہے‘ نادر بھنڈ مائینڈ کر گیا چنانچہ اس نے 5 جنوری 2014ء کو آمنہ کو اٹھا لیا‘ یہ پانچ لوگ تھے‘ ان پانچ لوگوں نے آمنہ کے ساتھ وہ کیا جو یہ لوگ کر سکتے تھے‘ آمنہ کو درندگی کا نشانہ بنا کر باہر پھینک دیا گیا۔

یہ بچی صرف ’’مجرم‘‘ نہیں تھی‘ یہ بے وقوف بھی تھی اور ظالم بھی۔ آپ اس کی بے وقوفی ملاحظہ کیجیے‘ یہ انصاف لینے کے لیے اپنی ماں کے ساتھ تھانے چلی گئی‘ ایسے مقدمے تھانوں کے لیے صرف مقدمے نہیں ہوتے‘ یہ سونے کی کان ہوتے ہیں‘ ایف آئی آر درج ہوتی ہے‘ ملزم گرفتار ہوتے ہیں‘ ملزموں سے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں‘ میڈیکل رپورٹ کے نام پر ڈاکٹروں کو بھی نوازا جاتا ہے‘ کیس عدالتوں میں جاتے ہیں تو وکیلوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے‘ مظلوم کو انصاف تک پہنچنے کے لیے وکیل کرنا پڑتا ہے‘ متاثرہ خاتون کو بار بار عدالت طلب کیا جاتا ہے‘ اس سے درجنوں لوگوں کی موجودگی میں پوچھا جاتا ہے‘ بی بی بتا‘ ان میں سے کون کون تھا‘ کس نے کیا کیا‘ تمہیں اچھا لگا یا برا‘ شروع میں برا لگا‘ پھر اچھا لگا اور آخر میں بہت برا‘ مقدمہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا ہے‘ ڈاکٹر‘ تفتیشی اور وکیل امیر ہوتے جاتے ہیں‘ انصاف کے اندھے عمل کے دوران متاثرہ خاتون عزت‘ توقیر‘ ذہنی توازن اور روحانی قوت تمام اثاثوں سے محروم ہو جاتی ہے‘ یہ کیس بھی تھانہ بیٹ میر ہزار خان کے عملے کے لیے رزق کا ذریعہ بن گیا‘ ملزم گرفتار ہوئے‘ ملزموں سے ستر ہزار روپے وصول کیے گئے‘ ’’جرم‘‘ کے آثار ختم کیے گئے‘ ’’مجرم آمنہ‘‘ کے بیانات میں سے تضادات تلاش کیے گئے اور آخر میں پولیس نے ملزمان کو بے گناہ قرار دے دیا‘ آمنہ اور اس کی ماں کو بلیک میلر کا ٹائیٹل دے دیا گیا۔

پولیس کی نظر میں آمنہ بلیک میلر تھی‘یہ ایک ایسی بلیک میلر بھی جو باعزت خاندانوں کی عزت اچھالنا چاہتی تھی‘ عدالت نے 13 مارچ کو باعزت نادر حسین بھنڈ کو باعزت بری کر دیا‘ نادر بھنڈ کے دوستوں نے عدالت کے سامنے مٹھائی تقسیم کی‘ ڈھول بجائے اور یہ لوگ نعرے لگاتے ہوئے واپس آ گئے‘ آمنہ اس عظیم اور بروقت انصاف کی تاب نہ لا سکی‘ یہ اپنی ماں کے ساتھ تھانے پہنچی‘ ایس ایچ او اور تفتیشی آفیسر کے بارے میں پوچھا‘ یہ دونوں تھانے میں موجود نہیں تھے‘ آمنہ تھانے سے باہر آئی‘ اس نے اپنے اوپر تیل چھڑکا اور خود کو آگ لگا لی‘ لوگوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن آگ اگر صرف باہر ہوتی تو یہ شاید بجھ بھی جاتی‘ آمنہ تو باہر اور اندر دونوں طرف سے جل رہی تھی چنانچہ آگ نہ بجھی‘ یہ بچی اگلے دن نشتر اسپتال ملتان میں انتقال کر گئی۔

میں نے عرض کیا ناں یہ بچی مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ بے وقوف بھی تھی اور ظالم بھی۔ یہ اگر بے وقوف نہ ہوتی تو یہ کبھی تھانے نہ جاتی‘ یہ اس ملک کے نظام کو اسی دن سمجھ جاتی جس دن یہ دن دھاڑے اغوا ہوئی تھی اور اس کے ساتھ جب پانچ لوگوں نے زیادتی کی‘ اسے معلوم ہو جانا چاہیے تھا‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ آمنہ کو چاہیے تھا‘ یہ اس ظلم کو چپ چاپ پی جاتی‘ یہ اپنی بے عزتی کے ساتھ سمجھوتہ کرتی اور چپ چاپ گھر بیٹھ جاتی لیکن یہ کیونکہ بے وقوف تھی اور یہ غباروں کے جوتے پہن کر کانٹوں پر چل پڑی تھی اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ایسے بے وقوفوں کے ساتھ ہوتا ہے‘ یہ بچی صرف بے وقوف ہوتی تو شاید مجھے کوئی پروا نہ ہوتی‘ ملک میں ایسی کروڑوں آمنائیں ہیں جو پیدا ہی دکھ سمیٹنے اور مرنے کے لیے ہوتی ہیں مگر یہ بچی ظالم بھی تھی اور مجھے اس کے ظالم ہونے پر اعتراض ہے۔

آمنہ نے خود کو تھانے کے سامنے آگ لگا کر ملک میں انصاف کا متبادل نظام متعارف کروا دیا‘ اس نے ملک کی تمام آمناؤں کو بتا دیا‘ آپ اگر انصاف چاہتی ہیں تو آپ کو اپنے جسم پر تیل چھڑکنا ہوگا‘ ماچس جلانی ہوگی اور سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے سامنے خود کو آگ لگانی ہو گی‘ تم اگر یہ کر لو گی تو میڈیا بھی تمہارے دروازے پر آ جائے گا‘ چیف جسٹس بھی سوموٹو ایکشن لے لیں گے‘ وزیراعلیٰ بھی تمہارے گھر پہنچے گا‘ آئی جی بھی لوگوں کے سامنے خفت اٹھائے گا‘ آر پی او بھی معطل ہو گا‘ ایس ایچ او اور تفتیشی بھی گرفتار ہو گا‘ ملزمان کو جیل میں بھی ڈالا جائے گا‘ فرانزک لیبارٹری بھی چل پڑے گی‘ گواہ بھی مل جائیں گے‘ ڈاکٹر بھی اصل رپورٹ لے کر حاضر ہو جائے گا‘ ماں کو پانچ لاکھ روپے اور بھائی کو نوکری بھی مل جائے گی اور ملک کے بڑے صحافی اور اینکر بھی تمہارا نام لیں گے‘ آمنہ ظالم تھی‘ یہ ملک کو انصاف کا متبادل نظام دے گئی‘ یہ 18 کروڑ مظلوم پاکستانیوں کو بتا گئی تم اگر انصاف چاہتے ہو‘ شہرت چاہتے ہو‘ ماں کی مالی امداد کرانا چاہتے ہو‘ پولیس کا احتساب کرانا چاہتے ہو‘ ڈاکٹر سے اصل میڈیکل سرٹیفکیٹ لینا چاہتے ہو‘ چیف جسٹس کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہو‘ چیف منسٹر کو مظلوم کے دروازے پر دیکھنا چاہتے ہو‘ بھائی کی نوکری کا بندوبست کرانا چاہتے ہو اور دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہو جتوئی بھی ایک تحصیل ہے اور اس تحصیل میں لنڈی پتافی نام کا ایک گاؤں بھی ہے تو پھر تمہیں ایک موم بتی‘ ایک شمع جلانا ہوگی‘ اپنے بدن کی موم بتی‘اپنے جسم کی شمع جلانا ہوگی‘ تم خود کو مشعل بنا لو‘ تم اپنی مظلومیت کے دھاگے کو آگ لگا ؤ اور انسانیت کی موم کو دنیا کے سامنے پگھل جانے دو‘ پورا ملک تمہاری طرف متوجہ ہو جائے گا‘ تمہارے بدن کی آگ نظام کی نیند اڑا دے گی اور آمنہ‘ ظالم آمنہ نے یہ کیا‘ اس نے سمجھوتوں کے کیچڑ میں لپٹے معاشرے کے ہاتھ میں بدن کی مشعل پکڑا دی اور اب میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اورعمران خان اور الطاف بھائی اور مولانا فضل الرحمن اور چوہدری شجاعت حسین اور جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور پارلیمنٹ شریف تمام ادارے تمام لوگ مشعلیں گننا شروع کردیں‘ ایک آمنہ کے بعد دوسری آمنہ اور دوسری آمنہ کے بعد سیکڑوں ہزاروں آمناؤں کے لیے چیک تیار کر لیں اور ہیلی کاپٹروں میں پٹرول ڈلوا لیں کیونکہ جسموں کی مشعلیں تیل سے تر ہو چکی ہیں‘ ہماری ہر گلی میں ایک آمنہ بیٹھی ہے اور اس آمنہ کے ہاتھ میں جتوئی کی آمنہ نے اپنے جسم کی مشعل پکڑا دی ہے۔

جاوید چوہدری

Enhanced by Zemanta

0 comments:

ملائیشیا کا لاپتہ طیارہ آخر گیا کہاں؟

00:43 Unknown 0 Comments

ٹیکنالوجی کے اس جدید ترین دور میں جہاں دنیا کو گلوبل ولیج سے تشبیہہ دی جاتی ہے وہاں ملائیشیا کے لاپتہ ہونے والے طیارے کا 10 دن گزر جانے کے باوجود کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ اطلاعات کے مطابق ملائیشین حکام نے طیارے کی تلاش کے لیے پاکستان سمیت 25 ممالک سے رابطہ کرکے ان سے ریڈار اور سیٹلائٹ پر موجود مواد شیئر کرنے کی درخواست کی ہے۔ ملائیشیا کے وزیر ٹرانسپورٹ حسام الدین کا کہنا تھا کہ ایم ایچ 370 کی تلاش کے لیے 25 ممالک سے رابطہ کیاگیا ہے جن میں پاکستان، قازقستان، ازبکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکا، چین اور فرانس سے مزید سیٹلائٹ ڈیٹا فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ ادھر ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ ملائیشیا نے صرف پاکستان سے نہیں دیگر ممالک سے بھی ریڈار کی معلومات لینے کی درخواست کی ہے، طیارے کے حوالے سے پاکستانی ریڈار پر کوئی مواد(ڈیٹا) موجود نہیں، اگر ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی اطلاع آئے گی تو ضرور شیئر کریں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ طیارے کے ساتھ ہونے والے ممکنہ حادثے کی افواہیں اور برمودا ٹرائی اینگل جیسی افسانوی کہانیاں جو مختلف پلیٹ فارم پر گردشیں کررہی تھیں اب دم توڑتی جارہی ہیں اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ بعض عناصر کی جانب سے طیارے کو اغوا کرلیا گیا ہے، تاہم اس سلسلے میں بھی تحفظات عیاں ہیں اور ممکنہ اغوا کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق بحث جاری ہے۔ ادھر طیارے کی تلاش کے لیے آپریشن بھی تاحال جاری ہے اور طیارے کا مواصلاتی نظام دانستہ بند کیے جانے کی تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہے۔

دوسری جانب ملائیشین طیارے کے دونوں پائلٹوں کے گھروں کی تلاشی لی گئی۔ ایک پائلٹ ظاہری احمد شاہ کے گھر سے ملنے والے سیمیلٹر کا معائنہ بھی کیا گیا، تاہم وزیر ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ اس تلاش و معائنے سے کوئی نتیجہ اخذ نہ کیا جائے۔ جاپان اور بھارت نے اپنے علاقوں میں طیارے کی تلاش ختم کردی ہے۔ بھارتی فوج کے ترجمان نے بتایا کہ ملائیشیا کی حکومت کی جانب سے تلاش کے لیے نئے علاقے کی معلومات سامنے آنے کے بعد یہ کارروائیاں ایک بار پھر شروع کردی جائیںگی، جب کہ چین نے لاپتہ مسافر طیارے کے معاملے پر ملائیشیا کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ملائیشین حکومت نے طیارے کی تلاش کے لیے قیمتی وقت اور وسائل کو ضایع کردیا۔ ملائیشین وزیراعظم نجیب رزاق کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے کہا کہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس قدر اہم معلومات اتنی دیر سے جاری کی گئیں، بیان میں کہا گیا ہے کہ ان معلومات کی عدم موجودگی کی وجہ سے شکوک و شبہات اور افواہوں میں اضافہ ہوا اور ان لوگوں کا غم اور بڑھ گیا جن کے اہلخانہ اس سانحے میں متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری طرف برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ القاعدہ کے برطانوی دہشت گرد کے مطابق طیارے کو اغوا کیا گیا۔ نائن الیون کی طرز پر کوالالمپور کے پیٹروناز ٹاورز کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طیارے کے ممکنہ اغوا کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم جہاز کا سراغ لگنے تک وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ 10 روز گزر جانے کے باوجود کسی حتمی اطلاع کا نہ ملنا طیارہ مسافروں کے لواحقین کے لیے بھی کرب کا باعث بن رہا ہے۔ ممکنہ حادثے یا اغوا کو زیر نظر رکھتے ہوئے ملائیشین حکومت کو طیارے کی تلاش پر مختلف جہتوں میں پیش رفت کرنی چاہیے اور دیگر ممالک کو بھی انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے ملائیشیا کا ساتھ دینا چاہیے۔بتایا جاتا ہے کہ فضائی تاریخ میں اب تک 160 مسافر طیارے پراسرار طور پر دوران پرواز لاپتا ہوچکے ہیں۔

Search zone for missing Malaysia Airlines flight

Enhanced by Zemanta

0 comments:

پاکستان کو بامِ عروج پر لے جانے کا راستہ

02:35 Unknown 0 Comments


وقت کا بالکل خاموش(noise less) دریا تیزی سے بہہ رہا ہے۔ دن ، مہینے سال اور حتیٰ کہ صدیاں برق رفتاری کے ساتھ گزرتی چلی جاتی ہیں۔ بچے پیدا ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے بلوغت کو پہنچتے ہیں بوڑھے ہوتے ہیں اور اس جہان فانی سے کوچ کرجاتے ہیں پیچھے ایک اور کھیپ تیزی سے اُن کا تعاقب کر رہی ہوتی ہے اس طرح اللہ کی تخلیق کی ہوئی ساری مخلوق کے چہرے پچھلے اربوں سال سے بدل رہے ہیں ۔اس نسل میں ہم جیسے زندہ انسانوں کا کردار واقعی پل دو پل کی کہانی ہے۔ آج کی دنیا میں تقریباً 70 سال پر محیط موجودہ انسانوں کی اوسط عمر مائیکرو سکینڈز سے بھی کم تر ہے۔فارس کی بین الاقوامی طاقت کا ایک وقت طوطی بولتا تھا۔ پھر سلطنت عثمانیہ پوری دنیا پر چھائی رہی ، انگریزوں کا تو گلوب کے اتنے بڑے حصے پر قبضہ تھا کہ اُن کی سلطنت میں سورج کو غروب ہونے کیلئے کوئی بھی حصہ میسر نہ تھا۔ اب امریکہ بادشاہ بپھر ہوئے ایک مست گھوڑے کی طرح دندنارہا ہے جس کی راسیں سویٹ یونین کی وفات کے بعد اچانک ٹوٹ گئیں لیکن اب چینی سائنس کافی گُڑ کھلا کر اس گھوڑے کو کچھ حد تک رام کرنے میں کامیاب ہورہا ہے، بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ اب ایشین صدی کی ابتدا ہوچکی ہے اگلے چار پانچ عشروں میں اب چین سب سے بڑی بین الاقوامی طاقت بن کر ابھرے گا اور چونکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر کمالِ راز والِ۔ اگلے دو یا تین سو سال میں صرف اللہ کی ذات ہی جانتی ہے کہ دنیا کا نقشہ کیا ہوگا۔

قارئین وقت کے اس تیز دھارے میں جو گھڑیاں ہماری زندگی سے منسوب ہیں،اُن کو ہمیں اپنے عقیدے کے مطابق بہت اچھی طرح گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اس میں اہم تو اللہ کے حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے اس کے بعد انسانوں کے حقوق ہیں جو اللہ کی نگاہ میں افضل ترین ہیں یہ سب اللہ کے احکامات اور اسلامی تعلیمات ہمیں بہتر انسان بنانے کیلئے ہیں۔ نبی کریم کا سیرت و کردار ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح کو جب کسی نے صلاح دی کہ آپ کیوں نہیں مغل بادشاہ اکبر کا وہ دین لاگو کرتے جس سے ہر مذہبی مکتب فکر خوش رہے تو قائداعظم نے فرمایا کہ میرے پاس جب تیرہ سو سالہ پرانی دینی رہنمائی موجود ہے تو میں اکبر بادشاہ کے چند سو سال پہلے کے دین الٰہی کو کیوں اپناﺅں۔ قائداعظم ساری انسانی خطاﺅں کے باوجود مضبوط ایمان والے پکے عقیدے کے مالک تھے۔1300 سال پہلے کے دین کا حوالہ میثاق مدینہ اور نبی کریم کے آخری خطبے کی طرف اشارہ تھا جس میں نبی کریم نے مسلمان، یہودی اور عیسائی سب کے ریاستی حقوق میں برابری کا نہ صرف درس دیا بلکہ کئی عدالتی فیصلے مسلمان مدعی کے خلاف اور یہودی مدعا علیہ کے حق میں دئیے چونکہ انصاف کا تقاضہ یہی تھا۔ نبی کریم نے اپنے آخری خطبے میں فرمایااے مومنو ں یا اے مسلمانوں نہیں کہا بلکہ نو دفعہ اے لوگوں کہہ کر مخاطب کیا۔ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا رب العالمین ہے اور دین اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ طرزِ حیات ہے جو ساری کائنات کیلئے ہے۔نبی کریم نے فرمایا کہ جس طرح آپ کے دل میں حج کے دن اس ماہ اور اس شہر کی فضلیت ہے بالکل اسی ایک مسلمان کی جان کا احترام لازم ہے اور قرآن کریم میں تو یہ بھی کہا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اس لئے لوگوں کو دھماکوں سے اڑانے والے ، گلے کاٹنے والے، بستیوں میں لوگوں کو جلانے والے اور ڈرون حملوں سے بے گناہ لوگوں کی جانیں لینے والے سب انسانیت کے قاتل ہیں۔ یہ سلسلہ اب 2014 میں بند ہوناچاہئے۔ملک کے اندر یا باہر چینیوں، ایرانیوں، ہندوﺅں، عیسائیوں یا ہم وطن مسلمانوں پر حملے کرنے والے اور فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت کو ہوا دینے والے نبی کریم کے آخری خطبے کے اس پیغام کو پڑھیں۔

” ساری انسانیت کی ابتدا حضرت آدم اور حوا سے ہوئی اس لئے عرب کی غیر عرب یا غیر عرب کی عرب پر اور کالے کی گورے اور گورے کی کالے پر کوئی فوقت نہیں۔ انسانوں میں فضلیت کا معیار صرف کردار کی پاکیزگی اور اعمال کی خوبصورتی ہے “۔

قارئین اپنے گریبان میں جب ہم دیکھتے ہیں تو بہت ساری کمزوریاں، ہمیں گھورتی ہیں انکو پہچاننا ان پر قابو ڈالنا یا پھر قابو ڈالنے کا مصمم ارادہ کرنا ہی ایک بہت بڑا جہاد ہے۔اس جہاد میں کامیابی صرف ہماری ذات کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی فلاح کیلئے بہتر ہوگی چونکہ اچھے افراد ہی اچھے معاشرے کی اصل روح ہوتے ہیں۔ذاتی اصلاح اللہ کی نگاہ میں بھی افضل ہے فرمایا جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔آئیے ہم عہد کریں کہ 2014ءمیں ہم گزرے ہوئے سالوں کی نسبت اپنے آپ کو بہتر انسان بنانے کی سعی کرینگے۔

2013 کے سال میں بھی بہت سارے بے گناہ لوگوں کا خون بہتا رہا۔ کراچی ہویا بلوچستان یا قبائلی پٹی، انسانوں کا انسانوں کے ہاتھ قتال ہوا۔2013 کی اچھی بات پُر امن قومی انتخابات تھے۔ افواج پاکستان سیاست سے دو ررہی، انتخابات میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرین کی مدد کی جس میں چھ فوجی شہید بھی کردئیے گئے۔فوج کی مدد سے گوادر میں انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کوئٹہ میں پچاس ڈاکٹر سالانہ تیار کرنے والا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور بلوچستان میں انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنسز چل رہے ہیں جس میں۔ کوئٹہ، کراچی، لاہور، پشاور، گوجرانوالہ اور بہاولپور میں فوج کے بلوچ طلبا کیلئے بورڈنگ ہاﺅسز تیار کئے ہیں جن میں 678 بلوچ طلبا رہ رہے ہیں ان کے کھانے پینے اور رہائش کے سارے اخراجات فوج اٹھاتی ہے یہ شاید بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت 4183 بلوچ طلبا کی پورے پاکستان میں مفت تعلیم کا بندوبست بھی افواج پاکستان نے کیا ہے اس میں Chama lang کوئلے کی کانوں کے متاثرین بھی شامل ہیں۔ جہاں تک FATA کا تعلق ہے پچھلے سال مرکزی وزیر خواجہ آصف نے گومل زیم ڈیم کے پاور ہاﺅس کا افتتاح کیا جو فوج کی مدد سے تیار ہوا۔ FWO نے انڈس ہائی وے کو افغانستان کی سرکولر روڈ سے ملانے والی 714 کلو میٹر لمبی سڑک بھی مکمل کرلی ہے۔اس کے علاوہ ٹانک مکین (108 کلو میٹر) ٹانک۔ وانا(101کلو میٹر) اور ٹانک۔ جنڈولہ سڑکوں پر فوج کی مدد سے کام جاری ہے۔اس کے علاوہ وانا اور گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج فوج کی مدد سے زیر تعمیر ہے۔ائیر فورس نے 2013 میں JF 17 تھنڈر کا پچاسواں جہاز تیار کرلیا۔ ہم ہر سال 16 سے 25 جہاز تیار کیا کرینگے نو ممالک ان کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈرون(براک) کی تیاری بھی ملکی سائنسدانوں کی بڑی کامیابی ہے۔

میاں نواز شریف کی حکومت نے پچھلے ماہ ملکی پالیسیوں کا قبلہ درست کرنے کیلئے جدوجہد میں صرف کئے جو ایک بہت بڑا کام ہے اب تیزی سے آگے کا سفر شروع ہوناچاہئے۔موجودہ حکومت کو 2014 میں جن چھ اہم معاملات پر توجہ دینی چاہئے ان میں معیشت، داخلی امن، خارجہ پالیسی، ملکی دفاع، جمہوری اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی شامل ہیں۔ کالم کی محدود آغوش میں ان سارے امور کی تفصیلات شامل کرنا ممکن نہیں لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ ان سب پر موجودہ حکومت کام شروع کرچکی ہے۔خارجہ امور میں علاقائی اتحاد کی بات چل رہی ہے۔ داخلی حالات کو بہتر کرنے کیلئے مسلح گروہوں سے مذاکرات کا عمل شروع ہوچکا ہے۔معیشت پر وزیر خزانہ کی مدلل پریس کانفرنس نے بہت سے قائدین کو چپ کروادیا ہے۔قومی سلامتی کے امور میں افواج پاکستان کی قیادت برابر کی شریک ہے۔جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے ہر چھوٹی بڑی پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ عدلیہ آزاد۔ اب قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے ماتحت عدلیہ میں بہت ساری اصلاحات متوقع ہیں ۔امید ہے حکومت 2014 میں عدل کے نظام کو بہتر کرنے اور تعلیم کے نظام کو موثر بنانے پر اپنی پوری قوت لگائے گی چونکہ پاکستان کو بام عروج پر لے جانے کا سب سے چھوٹا اور بہترین سیدھا راستہ قانون کی حکمرانی اور تعلیم کے فروغ میں پنہاں ہے۔

0 comments:

بے بس قوم

02:21 Unknown 0 Comments

 

ہم کیسی بے بس قوم ہیں جو آئین اور ملک سے غداری کے ملزمان کو سزا تو درکنار انہیں قانون کے کٹہرے میں بھی نہیں لا سکتی‘ ہمارے سیاسی قائدین غداری‘ کے ملزمان کا بے شرمی سے ساتھ دیتے ہیں اور اس کی وجہ قوم کا داغدار ماضی بتاتے ہیں اور اس داغدار ماضی کی وجہ ان کے اپنے ہی سیاسی آباؤ اجداد ہوتے ہیں‘ ہماری عدالتیں غیر مسلح وزراء اعظم کو تو پھانسی یا نااہلی کی سزا سنا دیتی ہیں مگر فوج کے سابق سربراہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے پہلے ملزم کی میڈیکل رپورٹیں طلب کرتیں ہیں ہم عوام اور سرکاری افسران جو ڈسپلن اور قواعد کے نام پر غداری کرنے والوں کے غیر آئینی احکامات پر عمل کرتے ہیں اور ایسی بغاوتوں کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے ‘ وہ کون سا دن ہوگا جب فوجی بغاوت کرنے والے جرنیل کو اس کا اپنا ہی ماتحت فوری گرفتار کرے گا۔

 ایسے صحافی اور کالم نویس بھی ہیں جن کی قلم اور زبانیں اچھی نوکری اور روشن مستقبل کی خواہشات کی غلام ہوتی ہیں اور انہیں ملک کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے یہ وہ اہل زبان ہیں جو اپنی چرب زبانی سے غداروں کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔اب ایسے قومی کرداروں کے ہوتے ہوئے بھلا کوئی غداری کا ملزم ’’انصاف‘‘ کیسے پائے گا‘ یہ وہ کردار ہیں جنہوں نے آپس میں مل کر 66 سال تک پاکستانیوں کو بیوقوف بنایا۔ملک ٹوٹ گیا مگر کسی غدار کا احتساب نہ ہوا‘ قوم کے مورال کا بیڑہ غرق کر دیا گیا مگر بظاہر چند اداروں کا مورال بلند رکھا گیا ‘ ہمارے نظم و ضبط کے ٹھیکیدار ادارے بھی آئین سے غداری کے واقعات کو روکنے میں ناکام رہے آخر یہ کیسا مورال ہے کہ جو آئین سے بغاوت کرکے ہی بلند رکھا جا سکتا ہے اور پھر آئین سے غداری کے مرتکب ملزم کو بچا کر ہی ملک و قوم سے وفاداری نبھائی جا سکتی ہے اگر ہماری اپنی حکومت اور عدالتیں آئین سے سنگین غداری کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لا سکتی تو پھر یہ کام کونسی حکومت اور عدالت کرے گی۔جو فوجی آمر اپنے ادارے اور ملکی آئین سے غداری کرتے ہوئے حکومت پر قبضہ کرتے رہے آج ان کے احتساب سے ہمارے اداروں کے مورال پر اثر پڑنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہ وہ ادارے ہیں جو بروقت کارروائی کرکے اپنے سربراہوں کو غداری سے روکتے بھی نہیں‘ ہمارا بطور قوم المیہ ہی یہ ہے کہ ہمارے چند سیاستدان‘ عدالتیں اور میڈیا کے کچھ مفتی وقت بغاوت پھولوں کے ہار لے کر استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں ‘ خوب موجیں کرتے ہیں اور دس سال بعد اپنے بیانات ‘ فیصلوں اور تجزیوں کے ذریعے نمک حلالی میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ یہ وہ کردار ہیں جو خدانخواستہ برے وقت میں سرحدوں پر بھی پھولوں کے ہار لے کر کھڑے ہوں گے اور مؤقف ہوگا کہ ہمارے سیاسی‘ عدالتی اور میڈیا کے ماضی کے تناظر میں یہاں پر سویلین کی بجائے جرنیل ہی تعینات کر دیا جائے (خدانخواستہ) یہ ڈنڈے کا ساتھ دینے والے تمام کردار کل بڑے ڈنڈے کا ساتھ دے رہے ہوں گے اور ملکی آزادی کی جنگ وہ لوگ لڑ رہے ہوں گے جو فوجی آمریت کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور مشکلات میں پڑے رہے‘ اگر ڈنڈے کی حکومت کی موجودہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار رہی تو پھر بڑے ڈنڈے سے لڑائی کے وقت جمہوریت پسند لوگ بھی ساتھ نہ ہوں گے۔نجانے کیوں میڈیا سے بندوق کی غیر مشروط حمایت کی توقع کی جاتی ہے اور اسے ملکی سلامتی سے جوڑا جاتا ہے مثال دی جاتی ہے ان امریکی صحافیوں کی جو افغانستان میں اپنی حکومت اور فوج کا ساتھ دیتے ہیں‘ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ اگر ہماری فوج بھی بیرون ملک میں کہیں قابض ہو اور ہمارے عوام مقبوضہ علاقے کے دہشت گردوں کے نشانے پر ہوں تو شاید ہم جیسے صحافی بھی امریکی صحافیوں جیسی رپورٹنگ کریں‘ مگر ایسا نہیں ہے بلکہ تاریخ میں تو ہمارے ساتھ الٹ ہی ہوتا آیا ہے ہم کیا کریں؟ 

امریکی صحافیوں کو اپنے ملک میں فوجی بغاوت کا سامنا نہیں اور نہ ہی ان کا ملک کبھی ٹوٹا ہے نہ ہی ان کی عدالتیں اور ادارے اپنی سرزمین پر ڈنڈے اور بندوق کے قانون کے آگے سر جھکاتی ہیں۔ ہاں ان کے صحافی اور میڈیا والے ہمارے فوجی آمروں کو وقت گزرنے کے ساتھ آمر اور ڈکٹیٹر لکھنا بھول جاتے ہیں اور انہیں بطور سیاست دان تسلیم کر لیتے ہیں یہ کوئی ایسی اچھی صحافتی روایت یا مثال نہیں جو پاکستانی صحافی بھی اپنائیں‘ مشرف کے ٹرائل میں میڈیا کے کردار پر بہت تنقید سامنے آئی ہے کہاں جاتا ہے کہ یہ ’’میڈیا ٹرائل‘‘ ہو رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ ایک آمر کا ٹرائل تو ہم کر نہیں پا رہے اوپر سے میڈیا ٹرائل بھی نہ کریں تو پھر کیا کریں‘ ویسے بھی دن دھاڑے آئین توڑنے والے غداری کے ملزم کے بارے میں میڈیا ایسا کیا رپورٹ کرے جس سے وہ معصوم ثابت ہو جائے‘ ایک ایسی خصوصی عدالت جسے قانون میں سزائے موت دینے کا اختیار ہے اگر وہ وارنٹ گرفتاری بھی جاری کرنے میں تاخیر کر رہی ہے تو پھر کیا سمجھا جائے؟ کیا ایسی عدالت جرم ثابت ہونے پر ’’سزائے موت‘‘ سنانے کی جسارت کر پائے گی؟ ایسی عدالتوں کے ہومیوپیتھک احکامات مریض کا علاج تو نہیں کرتے مگر قوم کا وقت اور پیسہ ضرور ضائع کرتے ہیں ان حالات میں ’’میڈیا ٹرائل‘‘ تو نہیں تاہم ’’میڈیا کے لئے ٹرائل‘‘ کا تاثر ضرور ملتا ہے یوں لگتا ہے کہ سب کچھ محض میڈیا کے لئے ہی کیا جا رہا ہے اور اس دوران ملزم کو دباؤ میں ڈال کر اس سے واپس نہ آنے کا وعدہ لیا جائے گا۔

اس تناظر میں خصوصی عدالت کی کارروائی بھی میموکمیشن کی کارروائی کا ایکشن ریپلے لگتی ہے جس کے کردار بھی وہی ہیں اور شاید انجام بھی وہی ہو‘ یعنی ایک طرف فوج دوسری طرف حکومت اور مرکزی ملزم عدالت کی اجازت سے ملک سے باہر ‘ اس کے بعد کوئی اور نیا ڈرامہ شروع ہوگا اور پھر سے ٹکٹ بکیں گے اور پھر مستقبل میں یہ دلیل سامنے آئے گی کہ اگر مشرف کا ٹرائل نہیں ہوا تو اب کیوں؟ اس وقت بلاول بھٹو ‘ حمزہ شہباز‘ مریم نواز‘ یا مونس الہٰی کچھ ایسے ہی بیانات دے رہے ہوں گے جیسے کہ ان کے آباؤ اجداد نے دیئے تھے ہم نہیں ہوں گے مگر ہماری بے بسی نسل در نسل چلے گی۔






0 comments:

World's worst air accidents

04:20 Unknown 0 Comments


 دنیا میں بڑے بڑے حادثے فضائی حادثوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں،جن میں کسی زی ہوش کا معجزے کی صورت میں بچ جانا بھی ناممکن ہی نظر آتا ہے۔ملائیشیا کا ایک مسافر طیارہ تاحال لاپتہ ہے۔ اس پر کْل 239 افراد سوار تھے۔جن کے بارے میں تاحال یہی کہا جارہا ہے کہ وہ سب اس حادثے کا شکار ہو چکے ہیں،جب تک ملبے کی نشاندہی نہیں ہو جاتی ان کے وارثین گرچہ تڑپتے اور سسکتے رہیں گے لیکن ایسے لواحقین یہ بھی جانتے ہیں کہ جب سے فضائی سفر شروع ہوئے ہیں ان جیسے کئی بدقسمت ہیں جو اپنوں کو آخری سفر کے لئے تیار بھی نہیں کرسکے۔آئیے دنیا کے بدترین فضائی حادثات پر ایک مختصر نظر ڈالی گئی ہے۔

 3جون 2012ء: دانا ایئر کا MD-83 جیٹ طیارہ نائیجیریا کے سب سے بڑے شہر لاگوس کے رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہوا، جس کے نتیجے میں اس پر سوار تمام 153 افراد مارے گئے۔ 20 اپریل 2012ء: بھوجا ایئر کا بوئنگ 737 طیارہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قریب خراب موسم کے دوران لینڈنگ کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہوا۔ اس پر سوار 127 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 9جنوری 2011ء: ایران ایئر کا بوئنگ 727 ملک کے شمال مغرب میں ٹوٹ کے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، جس کی وجہ سے 77 افراد ہلاک ہوئے۔ 12 مئی 2010ء : افریقہ ایئر ویز کا طیارہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کی طرف جاتے ہوئے جنوبی افریقہ کے صحرا میں تباہ ہوا۔ اس حادثے میں کْل 103 افراد مارے گئے۔ 10 اپریل 2010ء: پولینڈ کے صدر کا طیارہ روس کے ایک مغربی شہر کے قریب حادثے کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں اعلیٰ حکام سمیت 96 افراد ہلاک ہوئے۔ 30 جون 2009ء: یمنیہ ایئر بس 310 طیارہ بحر ہند میں گر کر تباہ ہو گیا اور اس پر سوار 153 افراد ہلاک ہوئے۔ یکم جون 2009ء: ایئر فرانس کا طیارہ اے330 خراب موسم اور طوفان کی وجہ سے بحر اوقیانوس میں گر کر تباہ ہوا اور اس پر سوار 228 افراد مارے گئے۔ 

19 فروری 2003ء: ایران کے پاسداران انقلاب کا ایک فوجی طیارہ پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہوا، جس کے نتیجے میں 275 افراد ہلاک ہوئے۔ 25 مئی 2002ء: چائنا ایئر لائن کا بوئنگ 747 طیارہ ہوا ہی میں کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا اور آبنائے تائیوان میں آ گرا۔ اس پر سوار 225 مسافر مارے گئے تھے۔ 12 نومبر 2001ء: امریکن ایئر لائن کا طیارہ اے 300 جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ سے ٹیک آف کرنے کے فوری بعد حادثے کا شکار ہوا اور اس حادثے کے نتیجے میں 265 افراد مارے گئے۔ 31 اکتوبر 1999ء: مصر ایئر لائنز کا بوئنگ طیارہ 767 حادثے کا شکار ہوا اور وجہ شریک پائلٹ کی غلطی قرار دی گئی۔ جہاز پر سوار 217 افراد ہلاک ہوئے۔ دو ستمبر 1998ء : سوئس ایئر کا جہاز ایم ڈی 11 حادثے کا شکار ہوا اور 229 افراد مارے گئے۔ 16 فروری 1998ء : چائنا ایئر لائن کا جہاز تائیوان کے تائی پے ایئر پورٹ پر لینڈنگ کے دوران تباہ ہو گیا اور 203 مسافر ہلاک ہوئے۔ 12 نومبر 1996ء: سعودی بوئنگ 747 نئی دہلی کے قریب قازقستان کے کارگو ہوائی جہاز کے ساتھ ٹکرایا اور اس حادثے میں 349 افراد مارے گئے۔ 12 اگست 1985ء: جاپان ایئر لائن کا بوئنگ 747 طیارہ فنی خرابی کے باعث پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا اور اس کے نتیجے میں 520 افراد ہلاک ہوئے۔ اسے آج بھی دنیا کا بدترین سنگل فضائی حادثہ قرار دیا جاتا ہے۔ 19

 اگست 1980ء: سعودی ٹری اسٹار نے ریاض میں ایمرجنسی لینڈنگ کی اور آگ کی لپیٹ میں آ گیا، جس کے نتیجے میں 301 افراد ہلاک ہوئے۔ یکم جنوری 1978ء: ایئر انڈیا کا طیارہ 747 ممبئی سے ٹیک آف کرنے کے بعد سمندر میں گر کر تباہ ہوا اور 213 مسافر مارے گئے۔ 27 مارچ 1977ء: جزائر کناری کے رن وے پر رائل ڈچ ایئر لائن کے 474 اور پین امریکن کے 747 طیاروں کے مابین ٹکر ہوئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں 583 افراد ہلاک ہوئے اور اسے دو جہازوں کا بدترین حادثہ قرار دیا جاتا ہے۔

World's worst air accidents

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Pakistan is beautiful — and it's mine

01:57 Unknown 0 Comments


کرہ ارض پر موجود آزاد ممالک اور ریاستوں کا شمار کیا جائے تو چھوٹے بڑے ممالک کو ملا کر یہ تعداد 200 کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان میں سے ایک ملک جو آبادی کے اعتبار سے چھٹے اور رقبے کے لحاظ سے 34ویں نمبر پر ہے، اسے دنیا بھر کے دانشور عجوبہ قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ ملک بیک وقت خوش قسمت بھی ہے اور بدقسمت بھی۔ خوش قسمت اس لئے کہ قدرت نے اسے بیشمار وسائل اور نعمتوں سے نوازا ہے۔یہ ملک روس سے دس گنا چھوٹا ہے لیکن اس کا نہری نظام اس کے مقابلے میں دس گنا بڑا ہے۔

بہترین موسم، گرم پانیوں، معتدل آب و ہوا اور زرخیز زمین کے باعث یہ خطہ کاشتکاری کے لئے انتہائی موزوں سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس ملک کی 40 فیصد زرعی اراضی اب بھی کاشتکاری کے لئے بروئے کار نہیں لائی گئی اور جدید سہولتوں کے فقدان کے باعث فی ایکڑ پیداوار بھی بہت کم ہے، مگر اس کے باوجود یہ ملک دنیا بھر میں دیسی گھی کی پیداوار کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ بھینس کے دودھ اور چنے کے مراکز کا جائزہ لینے لگیں تو یہ ملک دوسرے نمبر پر نظر آتا ہے۔ بھنڈی سمیت بہت سی سبزیوں کی پیداوار کے اعتبار سے عالمی ماہرین کے تخمینوں کے مطابق یہ ملک تیسرے نمبرہے۔ اگر خوبانی ،کپاس اور گنا پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست بنانے لگیں تو اس ملک کا شمار چوتھے بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ پیاز اور ٹماٹر کے ضمن میں اسے دنیا کا پانچواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ملک کھجور اور انواع و اقسام کی دالیں پیدا کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے اور پھلوں کے بادشاہ آم کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ہے۔ چاول اور گوبھی کی پیداوار کے حوالے سے یہ آٹھواں بڑا ملک ہے۔ ساگ، میتھی، پالک اور گندم کی فصل کا حساب لگایا جائے، تو یہ ان تمام ممالک پر سبقت لے جانے میں نویں نمبر پر ہے۔ اس طرح کینو اور مالٹے کی پیداوار کے لحاظ سے یہ دسواں بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں ہر سال 24 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جو براعظم افریقہ کے تمام ممالک کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہے۔ گندم کے بعد دوسری بڑی غذائی جنس چاول ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ہر سال 670 ملین میٹرک ٹن چاول اگاتے ہیں جس میں اس ملک کا حصہ تقریباً 7ملین میٹرک ٹن ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے معاملے میں یہ ملک نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ ہر سال 470000 ٹن فروٹ اور420000 ٹن سبزیاں بر آمد بھی کرتا ہے۔ یوں زرعی اجناس کی مجموعی پیداوار کے میدان میں اس ملک کا 25 واں نمبر ہے۔

یہ ملک صرف زرعی اعتبار سے ہی خوش قسمت نہیں بلکہ صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بھی 55ویں نمبر پر ہے۔ اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات یورپ تک فروخت ہوتی ہیں۔ معدنیات کے اعتبار سے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ ملک قسمت کا دھنی ہے۔ یہ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے، گیس کے ذخائر کے حوالے سے چھٹے جبکہ تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔ اس ملک میں سونے کا صرف ایک بڑا ذخیرہ جو دریافت تو ہو چکا مگر ابھی تک پہاڑوں کے نیچے ہی دفن ہے،اس کی مالیت کا تخمینہ 300ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ یہاں کوئلے کا صرف ایک ذخیرہ جو 9600 مربع کلومیٹر تک محیط ہے، یہاں 184بلین ٹن کوئلے کے ذخائر کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس کی مالیت کا تخمینہ 25000ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں کوئلے سے 10 کروڑ بیرل ڈیزل تیار کیا جا سکتا ہے، 500 سال تک بلاتعطل سالانہ 50 ہزار میگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے یا پھر لاکھوں ٹن کھاد تیارکی جا سکتی ہے۔ خوش قسمتی کی داستان یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس ملک میں74 ملین ٹن ایلومونئم دستیاب ہے، 500 ملین ٹن تانبا موجود ہے، 46 ملین ٹن جست دریافت ہو چکا، 350 ملین ٹن جپسیم ڈھونڈا جا چکا ہے، فاسفیٹ کے ذخائر کی مقدار 22ملین ٹن ہے جبکہ لوہے کے ذخائر کی مقدار 600 ملین ٹن بتائی جاتی ہے۔

اگر آپ کمزور دل کے مالک نہیں تو میں آپ کو بتا ہی دوں کہ یہ خوش قسمت ملک کوئی اور نہیں، آپ کا پیارا پاکستان ہے، جہاں غربت کا ننگا ناچ ہم برسہا برس سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ملک آٹھویں عالمی طاقت ہے،اس کے پاس دنیا کی چوتھی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی اور چھٹی طاقتور ترین فوج ہے مگر اس کے باوجود دہشت گرد کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور دہشت گردی نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر ان سب وسائل کے باوجود پاکستان میں گرمیاں شروع ہونے سے پہلے ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹے یومیہ ہو جائے تو مجھے اس بات سے کیا غرض کہ کہاں کتنے ٹن کوئلے کے ذخائر موجو د ہیں؟ میر پور خاص ڈویژن کی ایک چھوٹی سی تحصیل کُنری سے جھڈو تک کا علاقہ جسے ریڈ چلی کاریڈور کہتے ہیں، یہاں سالانہ 2لاکھ ٹن سرخ مرچ پیدا ہوتی ہے اور اسے ایشیاء کی سب سے بڑی آڑھت کا درجہ حاصل ہے تو سندھی اس فخر کا کیا کریں ؟ بچوں کو کھانے کے بجائے یہ ایوارڈ تو نہیں کھلایا جا سکتا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود تھر میں قحط سے بھوکوں مرتے انسانوں کو اس بات میں کیا دلچسپی کہ ریت کے نیچے دفن زمین میں بلیک گولڈ کی کتنی مقدار موجود ہے۔ دودھ کے لئے بلکتے اور ایڑیاں رگڑتے بچوں کو یہ لالی پاپ کیسے دیا جائے کہ ان کا ملک دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اولین دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جوہڑ سے جانوروں کے ساتھ پانی پیتے اور تعفن زدہ گوٹھوں کے کچے مکانوں میں سسک سسک کر جیتے سندھیوں کو اس سے کیا لینا دینا کہ موہنجودڑو میں تہذیب و ثقافت کے کیسے دفینے موجود ہیں۔ لاڑکانہ اور شہداد پور میں بنیادی سہولتوں سے محروم بدقسمت افراد کے اس بات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ ان کی دھرتی کس قدر خوش قسمت ہے۔ بلوچستان کے وہ دورافتادہ دیہات جہاں اس ترقی یافتہ دورمیں بھی کسی گھر میں سنگ و خشت کا عمل دخل نہیں، مٹی اور گارے سے ایستادہ گھروں میں مقیم ان پاکستانیوں کو میں کیسے سمجھائوں کہ یہاں کتنے ملین ٹن جپسم دریافت ہوئی ہے۔ جہاں زندگی کا کوئی مول نہیں،وہاں یہ بات کس قدر بے معنی لگتی ہے کہ تمہارے ہاں ریکوڈک کے علاقے میں سونے کے ذخائر کی مالیت بہت زیادہ ہے۔

میں جنوبی پنجاب میں پھٹے پُرانے کپڑوں میں کپاس چُنتی خواتین کو کیسے بتائوں کہ ریشم کے تار بُنتی ملوں کا کپڑا ان کی پہنچ سے کیوں دور ہے۔ جہاں بکرے کا گوشت کھانے کے لئے عیدالاضحی کا انتظار کیا جاتا ہو، وہاں یہ بات کس قدر کھوکھلی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان سالانہ کتنے ٹن گوشت برآمد کرتا ہے اور اس سے کس قدر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وہ غیور پاکستانی جو دس سے پندرہ روپے کی روٹی خریدتے ہیں ،انہیں اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار براعظم جنوبی امریکہ کے برابر ہے۔ یہ سوال ہم سب کے لئے سوہان روح ہے کہ ہماراملک بیک وقت خوش قسمت اور بدقسمت کیوں ہے؟کبھی اناج کا قحط، کبھی چینی کی قلت، کبھی پانی کی کمی سے سوکھتی فصلیں تو کبھی سیلاب میں ڈوبتے کھیت، کبھی پیٹرول اور گیس کی عدم دستیابی تو کبھی بجلی کی قلت۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو یہاں کسی شئے کی کوئی کمی نہیں،صرف قیادت کا شارٹ فال ہے۔ جس دن ہم اس شارٹ فال کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور رہزنوں کے روپ میں موجود رہبروں سے نجات مل گئی،سب الجھنیں سلجھ جائیں گی،سب دکھ ٹل جائیں گے اور ہم سب کے دن بدل جائیں گے۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ

Pakistan is beautiful — and it's mine "

Enhanced by Zemanta

0 comments:

سعودی عرب کی با برکت امداد

01:47 Unknown 0 Comments

شیخ سعدی کے کئی شعروں کی طرح یہ شعر بھی ہمارا ایک محاورہ بن گیا کہ

دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست

در پریشاں حالی و درماندگی

کہ دوست وہ ہوتا ہے جو کسی دوست کی اس کی پریشان حالی اور درماندگی میں مدد کرے۔ سعودی عرب ہمارا پرانا اور صحیح دوست ہے لیکن وہ ایک ایسی دنیا میں آباد ہے اور تیل کی وجہ سے اتنا امیر ہے کہ عالمی تعلقات سے الگ تھلک نہیں رہ سکتا خصوصاً امریکا کی بیرونی پالیسیاں اسے پریشان کرتی رہتی ہیں لیکن یہ ملک پاکستان کو نہیں بھولتا اپنی مجبوریوں کے باوجود اسے یاد رکھتا ہے، یہ ملک علاوہ جغرافیائی اہمیت کے مسلمانوں کے لیے اپنے مقدس مقامات کی وجہ سے ایک ایسا ملک ہے کہ اس کے دفاع کے لیے جان قربان کر دینا کسی مسلمان کا سب سے بڑا اعزاز اور خوش نصیبی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب سے کوئی طاقت یا ملک کتنا بھی ناراض رہے وہ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ناراض اور فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمان سعودی عرب کا دفاعی حصار ہیں اور کوئی ہمارے فوجیوں سے پوچھے تو ایک ایک سپاہی اس کی تصدیق کرے گا۔

اسلام جس قدر برصغیر میں ہے اتنا کسی دوسرے خطے میں نہیں ہے۔ پھر پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے۔ پیغمبروں کی سرزمینوں پر آباد عرب تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کو جس قدر برصغیر کے مسلمانوں نے سمجھا اتنا کسی دوسرے ملک میں نہیں سمجھا گیا۔ پاکستان کا وجود ہی اس کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ مسلمانوں نے یہ ملک اپنے وجود کے تحفظ کے لیے بنایا تا کہ اس میں ان کی تہذیب و ثقافت پھلے پھولے اور محفوظ رہے۔ سعودی عرب کو پاکستان اور اس خطے میں آباد مسلمانوں کے ان جذبات کا احساس ہے۔ آج پاکستان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک مضبوط ترین ملک ہے۔ عمر میں دنیا کے ہر مسلمان ملک سے چھوٹا مگر اسلامی شعور اور احساس میں سب سے بڑا ہے۔ ہمیں بے عمل اور گمراہ حکمرانوں نے بہت مارا ہے اور ہمارے اندر پوشیدہ اسلامی جوہر پر مسلسل ضربیں لگائی ہیں لیکن یہ جوہر ہمارے وجود کا حصہ ہے اسے نکال دیں تو پاکستان ایک غبارہ رہ جاتا ہے۔

بات مسلمانوں کے روحانی اور دنیاوی مرکز سعودی عرب اور پاکستان کے تعلق سے شروع ہوئی تھی جو جذبات میں ذرا دور نکل گئی۔ ہمارے پرلے درجے کے کرپٹ حکمرانوں نے جو کوئی نصف صدی سے ہمارے اوپر اپنی تمام تر بُری خواہشات کے مسلط ہیں ہمارے اس ملک کو اس کے لاتعداد وسائل کے باوجود ایک غریب ملک بنا دیا ہے۔ شہید حکیم سعید کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ رحمن میں جتنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے مسلمانوں کے اور پاکستانیوں کے پاس اس سے زیادہ ہیں، وہ گنتی بھی کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ کون کون سی نعمتیں زیادہ ہیں۔ تازہ مثال ہے تھر کے کوئلے کی جسے ہم اب نکال رہے ہیں اور جس سے ہم بجلی بنائیں گے۔ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے اس ملک میں کیا رکاوٹ تھی کہ بجلی کے لیے ہم نے اس سے پہلے یہ خزانہ نہیں کھولا یہ رکاوٹ ہمارے حکمران تھے جو جیسا بھی ہے اسے ایسا ہی چلنے دیں اور جو مال ہے وہ خود کھاتے رہیں۔ بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع یہ اربوں ڈالر کیا ہمارے حکمرانوں کو ورثے میں ملے تھے۔ انھوں نے ملک کو برملا کھایا اور ملی بھگت کے ساتھ اسے ہضم کیا۔ یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ہر پاکستانی ملک سے باہر جانے کو تیار ہے بلکہ بے چین ہے۔

ہماری اس غربت کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے ہر مالیاتی ادارے کے سامنے ہمارے ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ کسی دربار کے فقیر کی طرح ہم اپنا کشکول لیے پھرتے ہیں اور جب کوئی ہمیں قرض دے دیتا ہے تو ہم بے شرم اس کا جشن مناتے ہیں۔ ہمارا جو وزیر قرض لینے میں کامیاب ہوتا ہے وہ ہمارا کامیاب وزیر ہوتا ہے۔ جیسے ان دنوں کوئی ڈار صاحب ہیں۔ سعودی عرب سے ہماری یہ حالت دیکھی نہ گئی اور اس نے ہمیں اچھی طرح ٹٹول کر فی الحال کچھ رقم دے ڈالی جو اسے کسی نہ کسی صورت میں واپس مل جائے گی۔ اس برادرانہ قرض سے ہمارا کام چل گیا اور ہمارا ڈوبتا ہوا روپیہ سر باہر نکال کر تیرنے لگا البتہ ہمارے باغ و بہار شیخ رشید صاحب کو ڈبو گیا۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے دو چار ارب ڈالر کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ اتنی رقم تو ہمارا کوئی پاکستانی سیٹھ بھی دے سکتا ہے اور کوئی اچھی حکومت قومی وسائل کو صحیح استعمال کر کے سال دو سال میں ان قرضوں سے نجات بھی پا سکتی ہے۔

آج اگر ہم غربت میں غوطے کھا رہے ہیں تو کل ہم بحال ہو کر ایک معمول کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے اور یہ کچھ بعید نہیں ہے۔ ایک عالمی مالیاتی ادارے نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کبھی ختم نہیں ہو سکتا، یہ ناکام ریاست نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس کھانے کو اناج بہت ہے اور پاکستانی بھوکے نہیں مر سکتے۔ جو قوم اپنے گھر میں پیٹ بھر سکتی ہے وہ ناکام کیسے کہلا سکتی ہے لیکن اپنے لیڈروں کے بارے میں کیا کہیں اب تو یہ خود ہی اپنے پردے چاک کر رہے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی نے ان کی راتوں کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا ہے اور وہ بھی برملا۔ کیا پاکستان جیسے قرض دار ملک کے نمائندے اور حکمران ایسے ہونے چاہئیں جس دن ان کے دن اور راتیں ایک جیسی ہوں گی اس دن ہمارے دن روشن اور راتیں پر سکون ہو جائیں گی۔ سعودی عرب نے ہماری بر وقت مدد کی ہے شاید ہم نے بھی کسی شکل میں کچھ خدمت کی ہو لیکن ہم سر زمین حجاز کی خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے ان کی رحمت اور مغفرت کے طلب گار ہیں۔ ہمارا ہر سپاہی اور ہر پاکستانی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور سعودی عرب اس مدد کا شکریہ ادا کرتا ہے۔

ہمارا روپیہ بڑی حد تک بحال ہو گیا ہے۔ گویا اپنی زندگی پر ہمارا اعتماد بحال ہوا ہے۔ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں ہوں، میں تو اپنی تنخواہ کا حساب بھی نہیں رکھ سکتا لیکن اتنا دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے کاروباری لوگ قدرے اطمینان میں آ گئے ہیں۔ سعودی امداد اپنی مالیت سے زیادہ ہمارے لیے برکت میں بڑی ہے۔

عبدالقادر حسن

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Pakistan, 60 million unregistered mobile SIMs were blocked

01:42 Unknown 0 Comments

پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ہدایت پر ملک بھر میں 60 لاکھ سے زائد
غیر رجسٹر موبائل فون سمز کو بلاک کردیا گیا۔

  پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی ہدایت پر موبائل فون آپریٹرز کی جانب سے 60 لاکھ سے زائد موبائل فون سمز بلاک کردی گئی ہیں، بند کی جانے والی تمام موبائل فون سمز نادرا کے وضع کردہ نظام سے پہلے جاری کی گئیں تھیں جب کہ پی ٹی اے کی جانب سے موبائل آپریٹرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ غیر قانونی سمز بلاک کرنے کے عمل مزید تیز کیا جائے۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں تمام موبائل آپریٹرز کی جانب سے جاری کردہ 13 کروڑ سے زائد سمز استعمال کی جارہی ہیں تاہم غیر رجسٹرڈ سمز کے استعمال سے ملک میں جرائم اور دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

Pakistan, 60 million unregistered mobile SIMs were blocked

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Where is Missing Malaysia Airlines flight MH370?

23:39 Unknown 0 Comments


Where is Missing Malaysia Airlines flight MH370?
Enhanced by Zemanta

0 comments:

Women's Day and Dr. Aafia Siddqui

23:34 Unknown 0 Comments


دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے خواتین کے حقوق کی جد و جہد تیز کرنے، ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے، انھیں سماجی انصاف فراہم کرنے، سیاسی سماجی طور پر مستحکم بنانے، اہم ملکی امور میں شامل کرانے کی جد و جہد عزم کا اظہار کیا گیا۔ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں، امتیازی سلوک، عدم مساوات اور استحصال کو ختم کرنے اور ان کے حقوق و مسائل کو اجاگر کرنے کی باتیں اور وعدے ہوئے۔ ان سے متعلق گیت، رقص، ٹیبلو اور ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان تقریبات میں دہشت گردی کا شکار ہونے والی خاتون وکیل کی ہلاکت پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ کائنات سومرو، ملالہ یوسف زئی اور پروین بی بی کی زندگی کی مشکلات اور داستانیں سنائی گئیں۔ لیکن خواتین کے عالمی دن کے اس موقعے پر قومی اہمیت کے حامل سب سے اہم مسئلے کو پس پشت رکھا گیا۔ البتہ پاسبان خواتین کے سیمینار میں عافیہ صدیقی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ پریس کلب کے سامنے عافیہ کی رہائی کے لیے مظاہرے کے دوران علامتی طور پر ہتھکڑیوں میں جکڑی عافیہ اور امریکی صدر کو دکھایا گیا۔ خواتین اور بچوں کی کچھ تعداد اس مظاہرے میں شریک تھی۔

خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر انسانی حقوق کے سرگرم علمبردار معروف امریکی وکیل، شاعر اور اسکالر ‘ بھی پاکستان میں موجود تھے جو عالمی سطح پر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جد و جہد کررہے ہیں جن کا کہناہے کہ عالمی امن کے لیے عافیہ کی رہائی ضروری ہے۔ موری سلا ،ترکی، ملائیشیا، ساؤتھ افریقہ، مصر، برطانیہ، زیمبیا، فرانس، جرمنی سمیت درجنوں ممالک کا دورہ کرچکے ہیں جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں، طلبا، وکلا اور صحافیوں نے عافیہ کی رہائی کے لیے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر دنیا بھر کی 40 سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مشترکہ طور پر پاکستانی قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کے لیے عالمگیر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے پاکستانی حکومت کو کہا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرے اور عافیہ کی رہائی کے لیے اپنا بنیادی کردار ادا کرے۔ عافیہ کے خلاف فیصلہ سیاسی بنیادوں پر دیا گیا ہے۔ گرفتاری اور امریکی عدالت سے 86 سال کی سزا انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے جب کہ تمام ثبوت عافیہ کے حق میں تھے۔ ٹرائل کے موقع پر وہ خود کمرہ ٔ عدالت میں موجود تھے۔ عدالت نے جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ کونسل آف یورپ کی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے عافیہ رہائی کیس جنوری 2014 میں واپس لے لیا ہے ایک طرف حکومتی اراکین عافیہ کی واپسی کی تسلیاں دے رہے ہیں، دوسری جانب عافیہ رہائی موومنٹ ختم کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ وہ عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں تمام اکابرین کے دروازے کھٹکھٹا چکی ہیں سب جانب سے صرف تسلیاں دی جاتی ہیں۔ لیکن عمل نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ نگراں حکومت کو شامل کرلیا جائے تو 7 حکومتیں تبدیل ہوچکی ہیں تمام وزرائے اعظم نے وعدے کیے لیکن کسی جانب سے وعدوں پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ 11 سال سے امریکی قید میں پابند سلاسل ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ پچھلے ایک عشرے سے اپنی بہن کے ساتھ انصاف اور اس کی رہائی کے لیے جس طرح ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھوم رہی ہیں اقتدار کے ایوانوں، بار کونسلوں، پریس کلبوں میں انصاف کے لیے دہائی دے رہی ہیں۔ مختلف فورم اور عوامی اجتماعات سے خطاب کررہی ہیں۔ سیاسی و سماجی مذہبی اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور قومی اکابرین اور قوم کی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی اور ان کے خاندان کی استقامت اور قومی غیرت و حمیت کا جو رویہ سامنے آیا ہے وہ بلاشبہ انتہائی قابل رشک اور قابل تحسین ہے۔ دوسری جانب ارباب اقتدار و اختیار نے اس سلسلے میں بے حسی کا جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ اس سلسلے میں ملکی، انسانی اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں اور شخصیات کا رویہ بھی بڑا افسوس ناک اور دہرے معیار کا حامل نظر آتاہے۔

دنیا کے سامنے جوں جوں عافیہ صدیقی کے کیس کی حقیقت سامنے آتی جارہی ہے وہ اس کی رہائی کے لیے سرگرم اور منظم ہوتے جارہے ہیں، اس سلسلے میں دنیا کی انسانی حقوق سے متعلق 40 سے زائد تنظیموں نے عافیہ کی رہائی کے لیے بین الاقوامی طور پر جد وجہد کا اعلان کیا ہے۔ عافیہ کا قیدی نمبر 650 کا انکشاف کرکے اس کی رہائی کی جد وجہد کا آغاز کرنے والی ایوان مریم ریڈلے بھی ایک برطانوی صحافی ہیں۔ امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک اور سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلرک بھی اسے غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ رمزے کلرک تو باقاعدہ جدوجہد کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت اور عوام کی توجہ اس انسانی مسئلے پر مرکوز کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حکومت اور عدلیہ کے ارکان سے ملاقاتیں اور بارکونسلز سے خطاب کرکے حکومتی سطح پر کوششیں کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلے پاکستان کے ایک لیڈر (بھٹو) کو بچانے پاکستان آئے تھے۔ اس مرتبہ پاکستان کی بیٹی (عافیہ) کو بچانے پاکستان آئے ہیں۔ ان کے علاوہ امریکی سینیٹر اور صدارتی امیدوار مائیک گرپول بھی عافیہ کو معصوم شہری اور اس کو دی جانے والی ذہنی و جسمانی سزا اور قید کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر بھی عافیہ کو بے گناہ تسلیم کرکے اس کی رہائی کے لیے کوششوں کا آغاز کرچکی ہیں۔

انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق کی علمبردار تنظیموں، شخصیات اور ارباب اقتدار و اختیار، روشن خیالی اور لبرل ازم کے دعویداروں کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے 3 بچوں کے ساتھ ریاستی ظلم و جبر پر سرد مہری بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں ایک عورت بچوں سمیت اغوا کرکے بین الاقوامی زندانوں میں قید کرکے بد نیتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر 86 سال قید کی سزا وار قرار دے دی جاتی ہے، اس وقت ان لوگوں کی زبانیں قوت گویائی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ عافیہ کے معاملے میں بھی معاملہ فہمی کے بعد عافیہ کی رہائی کے لیے بھی عوامی دباؤ بڑھتا نظر آرہا ہے جس کے لیے باقاعدہ مہم شروع ہوچکی ہے جس میں سابقہ امریکی عہدیدار بھی شامل ہیں۔ اگر یہ سلسلہ پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے بروقت شروع کردیا جاتا تو حالات اس نہج تک نہ پہنچ پاتے۔ عوامی و سیاسی رد عمل سامنے نہ آنے کی وجہ سے حکومتیں عافیہ کے معاملے میں غفلت، مصلحت و منافقت کا شکار یا خود اس میں ملوث رہی ہیں۔ عافیہ کی رہائی کی واحد صورت یہی نظر آتی ہے کہ حکومت پر عوامی دباؤ بڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیمیں، فورم، بار کونسلز، ملکی و بین الاقوامی اداروں، حکومتوں کو یاد داشتیں ارسال کریں، قرار دادیں پاس کریں تاکہ حکومت اس بات پر مجبور ہوجائے اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر دو ٹوک موقف اختیار کرے اور مسئلے کے حل کی مخلصانہ کوششیں کرے اور خاص طورپر امریکا یہ بات محسوس کرلے کہ اب ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس عالمی اہمیت کے حامل انسانی مسئلے سے فرار ممکن نہیں ہے یہی خواتین کے عالمی دن کا تقاضا بھی ہے۔

  Women's Day and Dr. Aafia Siddqui

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Important Darbars in Pakistan

04:05 Unknown 0 Comments


Important Darbars

  • Darbar Hazrat Data Ganj Bakhsh, Lahore
  • Darbar Hazrat Pir Makki Sahib, Lahore 
  • Darbar Hazrat Baba Bulley Shah, Kasur 
  • Darbar Hazrat Mian Mir Qadri, Lahore 
  • Darbar Hazrat Mian Sher Muhammad, Shariqpur Sharif, District Sheikhupura 
  • Darbar Hazrat Shah Muhammad Ghous, Circular Road, Lahore 
  • Darbar Hazrat Aishan Sahib, Lahore 
  • Darbar Hazrat Madho Lal Hussain, Lahore 
  • Darbar Hazrat Shah Abual Muali, Lahore 
  • Darbar Hazrat Nau Lakh Hazari, Shah Kot 
  • Darbar Hazrat Shah Jamal Qadri, Lahore 
  • Darbar Hazrat Shah Chiragh near High Court, Lahore 
  • Darbar Hazrat Imam Ali-ul-Haq, Shah Sialkot 
  • Darbar Hazrat Nausha Gunj Bakhsh, Ranmal Sharif, Distt. Gujrat 
  • Darbat Hazrat Shah Daula, Gujrat 
  • Darbar Hazrat Bhiri Shah Rehman, Distt. Gujranwala 
  • Darbar Hazrat Jee Baba, Attock 
  • Darbar Hazrat Bibi Pak Daman, Lahore 
  • Darbar Hazrat Sakhi Sarwar, D.G. Khan 
  • Darbar Hazrat Khawaja Ghulam Farid, Kot Mithan Sharif, Distt. Rajanpur 
  • Darbar Hazrat Baba Farid-ud-Din Ganj Shakhar, Pakpattan 
  • Darbar Hazrat Hai Sher Dewan Chawali Mashaikh, Burewala, District Vehari 
  • Darbar Hazrat Dawood Bandgi, Shergarh, Distt. Okarak 
  • Darbar Hazrat Badshahan, Khushab 
  • Darbar Hazrat Kh. Noor Muhammad Moharvi, Chishtian, Distt. Bahawalnagar 
  • Darbar Hazrat Muhammad Panah Kamir, Distt. Sahiwal 
  • Darbar Hazrat Mahboob-e-Subhani, Uch Sharif, Distt. Bahawalpur 
  • Darbar Hazrat Dars Mian Wadda, Lahore 
  • Darbar Hazrat Miran Husain Zanjani, Chah Miran, Lahore 
  • Darbar Hazrat Shah Inayat Qadri, Fatima Jinnah Road, Lahore 
  • Darbar Hazrat Haq Bahoo, Kalar Kahar 
  • Darbar Hazrat Abdul Qadir Jillani, Kot Sadhan District Jhang 
  • Darbar Hazrat Baha-ud-Din Zakriya, Multan
  • Darbar Hazrat Darbar Hazrat Shah Rukn-e-Alam , Multan
  • Darbar Hazrat Musa Pak Shaheed, Multan 36. 
  • Darbar Hazrat Shah Shams Sabzwari, Multan
  • Darbar Hazrat Kh. Khuda Bukhsh, Khairpur Tameali, District Bahawalpur

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Primary Education in Pakistan

01:37 Unknown 0 Comments


بلاشبہ ملک کی ترقی و تنزل میں نوجوان طبقہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور اس وقت امن کے متلاشی طبقے نوجوان نسل سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ’’ملک میں امن کے لیے نوجوان ہی کچھ کر سکتے ہیں‘‘۔ جناب! امن نام ہے سکون کا، چین کا، اطمینان کا، آرام کا، آشتی اور پناہ کا۔ اب آپ ہی بتائیں ’’ایام گردش‘‘ میں مغرب سے جنوب اور شمال سے مشرق تک نوجوانوں کو یہ نعمتیں کہاں نصیب ہیں؟ اس لیے میری طرح آپ کو بھی اس عنوان سے یقیناً اختلاف ہو گا۔

امن کے متلاشی یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’امن، غربت، بے روزگاری اور تعلیم‘‘ باہم مشترک ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ غربت کی وجہ سے ناخواندگی ہے اور ناخواندگی کی وجہ سے غربت ہے۔ جب تعلیم غریبوں کے دسترس میں ہو گی تو غریب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی اور جب غریب معاشرے میں تعلیم ہو گی تو ایک مستحکم معاشرہ جنم لے گا اور جب مثبت معاشرہ پروان چڑھے گا تو وہاں پر ہر سو خوشحالی ہو گی اور امن و آشتی کا بول بالا ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’تعلیم‘‘ کون عام کرے گا؟

بدقسمتی سے تعلیم عام کرنے کے دعویداروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے، نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہ 90 فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ سرکاری درس گاہوں کی حالت یہ ہے کہ کہیں اسکول آباد ہیں تو کہیں ویران ہیں۔ کہیں اساتذہ زیادہ ہیں تو بچے کم ہیں، کہیں طالب علم زیادہ ہیں تو استاد کم ہیں، کہیں تعلیم دی جا رہی ہے تو کہیں گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کی جا رہی ہیں۔

نوجوانوں کو حیلے بہانوں اور طفل تسلیوں کے گرداب میں جکڑ لیا گیا ہے۔ جو چیز یعنی ’’تعلیم‘‘ انھیں آگے لے جا سکتی ہے اسے اس سے دور کر دیا گیا ہے ایسے میں امن کا خواب عبث ہے۔ جہاں تعلیم کی راہیں مسدود کر دی گئی ہوں، جہاں نوجوانوں کے لیے روزگار کے راستے بند کر دیے گئے ہوں، جہاں غربت اژدھا کا روپ دھار چکی ہو۔ وہاں غربت کے بیچ سے کیسے خوشحالی آ سکتی ہے؟ اگر امن کے خواہاں ہو تو تعلیم کو غریبوں کے لیے عام کرو، ویران درس گاہوں کو آباد کرو۔

اب ذرا ملک میں تعلیم کی صورت حال ملاحظہ کریں! اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری سطح پر بچوں کے مقابلے میں اساتذہ کی شرح خطے میں سب سے کم ہے، اسکول نہ جانے والے بچوں میں دو تہائی تعداد لڑکیوں کی ہے، پرائمری سطح پر لڑکیوں کی انرولمنٹ شرح 54 فیصد جب کہ سیکنڈری سطح پر صرف 12 فیصد ہے۔ پاکستان میں 7 سے 15 سال تک کی 62 فیصد غریب لڑکیوں نے آج تک کلاس روم کی شکل نہیں دیکھی، خواتین کی شرح خواندگی 47 فیصد اور مردوں کی شرح خواندگی 70 فیصد ہے۔ خواتین کی صرف 49 فیصد آبادی نے تعلیم حاصل کی اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں صرف 38 فیصد خواتین اسکولز میں پڑھی ہیں۔ اسرائیل جس سے ہم نفرت کرتے ہیں اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سالانہ عالمی ایجوکیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی 46 فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، 25 سال سے 64 سال کی عمر کے لوگوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا تناسب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا یہ نتیجہ 2008ء میں نافذ ہونے والی تعلیمی اصلاحات کا سبب ہے جن میں اساتذہ کی تنخواہیں تعلیمی ڈھانچہ اور روزگار کی شرائط میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اسرائیل میں 2003ء میں گریجویشن کرنے والے طلبا کی شرح 89 فیصد تھی جو 2010ء میں بڑھ کر 92 فیصد ہو گئی۔

یہ رپورٹ 34 ممبر ملکوں کے سروے سے تیار کر کے جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کینیڈا اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لحاظ سے دنیا کا نمبر ون ملک ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسکول جانے کی عمر کے تمام بچوں خصوصاً بچیوں میں سے 23 فیصد اسکولوں سے باہر ہیں، سرکاری اسکولوں کے 6 اور نجی اسکولوں کے 25 فیصد طالب علم ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت کے 68 اور نجی اسکولوں کے 43 فیصد طالب علم گنتی کی پہچان نہیں کرسکتے، تیسری جماعت کے سرکاری اسکولوں کے 57 اور نجی اسکولوں کے 31 فیصد طالب علم انگریزی الفاظ پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جب کہ 5 ویں جماعت کے سرکاری اسکولوں کے 57 اور نجی اسکولوں کے 36 فیصد طالب علم اردو کے جملے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے ذریعہ تعلیم کے حوالے سے 46 فیصد کی پہلی ترجیح اردو، 37 کی گھروں میں بولی جانے والی اور 17 فیصد کی انگریزی زبان ہے۔ دیہات میں غریب ترین طبقے کے 54، غریبوں کے 67 امیروں کے 73 اور امیر ترین طبقے کے 81 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں۔

ماضی میں صوبہ سندھ کا تعلیمی معیار دیگر صوبوں سے بہتر تھا مگر اس وقت سندھ دیگر صوبوں سے پیچھے ہے۔ سندھ میں 60 لاکھ بچے ابھی بھی اسکولوں سے دور ہیں۔ سندھ کے 40 ہزار میں سے 38 ہزار اسکول فعال ہیں یعنی 11 ہزار اسکول غیر فعال ہیں۔ جمعرات 20 فروری 2014 کو سندھ اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ’’سیاسی چارٹر‘‘ کی منظوری دی جس میں عہد کیا گیا ہے کہ سندھ میں اسکولوں کی 100 فیصد داخلے یقینی بنا کر تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ یہ قرارداد سینئر وزیر برائے تعلیم و خواندگی نثار احمد کھوڑو نے پیش کی تھی۔ یہ چارٹر کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں منظور کیا گیا تھا اور اس عہد کی سندھ اسمبلی سے بھی منظوری لے لی گئی ہے یہ عہد 2 نکات پر مشتمل ہے یعنی سندھ میں 100 فیصد داخلے ہوں اور معیار تعلیم بہتر ہو۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ 132 ارب روپے ہے ان میں سے 110 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں باقی 22 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہے۔ حکومت سندھ کے کل 15 لاکھ ملازمین ہیں جن میں سے ڈھائی لاکھ ملازمین صرف محکمہ تعلیم میں ہیں۔

ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے محکمہ تعلیم میں بدانتظامی اور مبینہ کرپشن افسوس ناک ہے، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا بجٹ ملتا ہے لیکن وہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کے بچوں کو بروقت کتابیں مہیا نہیں کرسکتا ۔ ہر دفعہ جب نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے تو پورے سندھ میں درسی کتب نہ ملنے پر چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے ٹھیکے دینے پر اب تک سندھ میں کئی کئی اسکینڈلز منظر عام پر آچکے ہیں لیکن اب تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ صرف سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ہی نہیں بلکہ پورے محکمہ تعلیم میں بدانتظامی اور کرپشن کے سوا کوئی اچھی بات سننے کو نہیں ملتی۔ صرف موجودہ حکومت میں ہی یہ صورت حال نہیں ہے بلکہ سابقہ حکومتوں میں بھی محکمہ تعلیم کے حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے مزید بگاڑا گیا ہے اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ واحد نہیں ہے جو تباہ حالی کا شکار ہو۔ صوبے میں گڈ گورننس بھی ایک بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سال بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی لیکن گورننس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان پانچ سالوں کے دوران بھی ہزاروں غیر فعال اسکولوں کو فعال نہیں کیا جا سکا۔ گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی۔ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ معیار تعلیم کے مسلسل انحطاط کو نہیں روکا جا سکا۔ عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے سندھ میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے امداد اور قرضے کی مد میں جو رقم فراہم کی تھی، وہ ضایع کر دی گئی اور جتنے بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔ اس پورے عرصے میں سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کیا جا سکا۔

مذکورہ بالا صورت حال کے پیش نظر آپ خود فیصلہ کریں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں یا کہ تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں؟ الغرض یہ کہ دہشت گردی جیسے مسائل کے حل میں تعلیم اسی وقت اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہے جب آپ پڑھے لکھے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کا بھی بندوبست کریں۔ نوجوانوں کو قومی مفاد میں استعمال کرنے کی حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر تعلیم دہشت گردی، اخلاقی انحطاط اور غربت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

Primary Education in Pakistan

Enhanced by Zemanta

0 comments: