اردو بمقابلہ انگریزی.......Urdu vs English

01:08 Unknown 0 Comments


اگر آپ کسی بھی زبان کی ساخت کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کی پیدائش ایسی ہے جو صدیوں پر محیط ہے شکل بدلتی رہتی ہے اس کی تراش، خراش ہوتی رہتی ہے جس کو قدرت نہیں کرتی بلکہ انسان کرتے ہیں جب کہ قدرتی ذی حیات کی تعمیر اور ترقی میں محض قدرت کا ہی دخل ہے۔ آدمؑ میں اللہ نے روح پھونکی شیطان کو ادراک نہ تھا اس لیے انسان کی ترقی باکمال ہے ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اسی طرح زبان بھی ایک کمال ہے۔ ایک نوعمر بچہ بغیر گرامر کے اصول جانے صحیح زبان بولتا ہے تذکیروتانیث کا برمحل استعمال مگر یہ زبان صدیوں کا سرمایہ ہے۔ زبان تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہے اس کی ارتقا آواز بہ آواز ہوئی اس لیے صوت در صوت اس کی ہر آواز کا وزن کیا گیا۔

یعنی آواز کی موجوں کے ارتعاش سماعت دماغ میں پیدا کیے ہوئے ان سروں کو خوبصورت، کومل یا بوجھل کیسا محسوس کرتی ہے اسی اعتبار سے لفظ کا چناؤ کیا گیا ورنہ شروع میں انسان گونگا ہی تھا۔ بس شور اور اشاروں پر اکتفا کرتا تھا مگر صاحبان فہم نے اشارے کو شور یا پکار سے ملادیا اس موقعے پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بی بی حوا اور بابا آدمؑ کون سی زبان بولتے تھے۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب براعظم نہ بنے تھے خلیجی ریاستیں بھارت اور سری لنکا سے جڑی تھیں اسی لیے اب تک بابا آدمؑ کا مزار سری لنکا میں ہے۔ اس بات کا پتہ یوں بھی چلتا ہے کہ سنسکرت اور عربی بھاشا میں اکثر جگہ پر اشتراک ہے آواز اور شور کو انسان نے قید کرنا سیکھا اور ماں کو ایک ہی طرح پکارا گیا کہیں مدر Mother، مادر، ماتا تو کہیں ماں غرض شروع میں ’’م‘‘ میم کی آواز مشترک ہے۔ جب زمین کئی لخت ہوئی دریاؤں جھرنوں اور موسموں کے حصے میں آئی تو بولی بھی الگ الگ ہوتی گئی۔ بولیوں اور فاصلوں نے ہر علاقے کے حکمران بھی پیدا کیے جو ان علاقوں پر اپنی حکمرانی کریں یہ حکمران اپنے وسائل اور مادی قوت کے ذریعے اپنے حدود کے مالک بنتے رہے جس حکمران کی جتنی مادی قوت تھی وہ اسی قدر علاقے پر قابض ہوتا جاتا۔

اب اس حکمران کو حدود و قیود میں رکھنے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے اوتار، نبی اور پیغمبران بھی آتے رہے مگر ہر آن زبان ایک دوسرے سے ملتی رہی زبان کی آواز دیکھیں اور معنی دیکھیں کیسے بدلتے رہے اور آواز ایک ہی رہی۔ مثلاً بیسن۔ تلچھٹ یا دریا کا زمینی پھیلاؤ یعنی Indus Basin انڈس بیسن جب کہ اردو زبان میں بیسن چنے کا آٹا، دیکھیں انگریزی زبان میں جنگل Jungle جب کہ اردو زبان میں بھی ہم معنی، اردو زبان میں ڈکیت Dacoit ایک نہیں سیکڑوں الفاظ اردو زبان میں انگریزی زبان میں مل جائیں گے۔ یہ موازنہ تو تھا انگریزی کا جو ہندوستان پر قابض ہونے سے پہلے عام طور پر ہاف پینٹ (Half Pent) زیب تین کرتی تھی اور جب رقم ہاتھ آئی تو اس کے ہنرمندوں اور سائنسدانوں نے ہینڈلومز کو برقی لومز میں تبدیل کردیا اور کپڑے کی صنعت کو برق رفتار بنادیا ۔جس کو صنعتی انقلاب کا نام دیا گیا اور زبان نے بھی ترقی کی ہر نئے آلے اور مشین کا انگریزی نام تو خود بہ خود ہونا تھا زبان نہایت کمزور مگر اس کو بولنے اور برتنے والے نہایت ہوشیار زبان کی کمزوری کے عالم کی ادنیٰ سی مثال اور ’’د‘‘ اور ’’ڈ‘‘ کا فرق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ میرے نزدیک ’’ڈ‘‘ D یعنی ڈی پر نقطہ ڈال کی آواز نکال سکتا ہے جیساکہ جرمن زبان کی نکتہ دانی ہے۔ اردو زبان دنیا کی واحد خوش قسمت ترین زبان ہے جو تمام مشرقی زبانوں اور انگریزی حکمرانوں کی زیر نگرانی سانچوں میں ڈھل رہی تھی۔

فورٹ ولیم کالج اردو زبان کا کارخانہ اور سب سے بڑھ کر جب یہ زبان ڈھل رہی تھی اس کا سکہ چمک رہا تھا اس وقت، غالب، آتش، حالی، ذوق اردو کے اعزازی ملازم تھے اس زبان کو انیس دبیر، نظیر اور میر تقی میر کی بھٹی نے صیقل کیا یہ وہ عہد تھا جب دنیا میں شاید ہی کہیں یہ یک وقت عہد بہ عہد اتنے عظیم شعرا مسند زبان پہ بیٹھے ہوں جیساکہ مسند اردو پہ جلوہ افروز تھے اسی لیے داغ دہلوی نے یہ نعرہ لگایا۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اردو زبان تقسیم ہند کے بعد تو مسلمان کی زبان بھارت میں قرار دے دی گئی تھی رہی سہی کسر پاکستان نے قائد اعظم کے قول کی نفی کرکے اس کو دفتری زبان بننے سے روک دیا گوکہ اس زبان کے پاس سائنسی تراجم کا ذخیرہ موجود تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے پاس ایم بی بی ایس کے تراجم موجود تھے ۔ میر عثمان علی خان جو نواب دکن تھے انھوں نے سہل، نرم تراجم کرائے تھے اور ثقیل الفاظ کو بے دخل کردیا تھا یہ نہیں کہ انگریزی زبان جہاں زبان میں فنی خرابیاں موجود ہیں مثلاً متضاد معنی آسان سی بات ویل (Well) اچھا، بھلا، کنواں کہاں اچھا بھلا اور کہاں کنواں بالکل متضاد معنی دوسرا لفظ کین (Can) ممکن ہے، ہوسکتا ہے دوسرا معنی کنستر اور ایسے سیکڑوں الفاظ جب کہ اردو زبان اس سقم سے پاک ہے جب کہ اردو زبان کی ایک اور برتری نون غناں یعنی ن میں نقطہ موجود نہیں یہ آواز سر کے لیے اور شاعری کے حسن کو دوبالا کرنے میں اکثیر ہے زبان کے اس حسن کو کیا کہیے گا غالب نے نون غنہ کو دیکھیں کیسے استعمال کیا ہے:

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو

جب کہ انگریزی زبان حروف کی کمزوری کی بنا پر آزاد شاعری پر اس کا انحصار ہے انگریزی زبان میں نصف این یعنی نون غنہ کا کوئی جواب نہیں مگر پھر بھی وہ زبان اردو زبان سے برتر کہلاتی ہے اور ہم اس سے چمٹے پڑے ہیں آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ انگریزی قوم نے اپنے سامراجی عزائم اور آزادی خیال کو الگ الگ استعمال کیا اور اپنی سائنسی ایجادات پر سواری کرکے تمام دنیا میں اپنا لوہا منوالیا ۔چھوٹی سی چیز پریشر کوکر Pressure ، اوون، انجکشن، ٹیسٹ ٹیوب، تھرمامیٹر، بلڈپریشر اور اب کمپیوٹر، سیٹلائٹ، موبائل فون، چپ chip، ڈرون طیارے وغیرہ وغیرہ ۔گزشتہ 500 برسوں سے فرنگی ترقی نے دنیا کی زبانوں میں وہ وار کیا ہے جو غیر ملکی گھس بیٹھیے کرتے ہیں یہاں تک کہ چین کو ایک نئی زبان چنگلش بنانے کا سوچنا پڑا اور ایک کمزور اور بے ترتیب زبان آج دنیا کی بلند پایہ زبان بن گئی ہے۔ ذرا غور کیجیے انگریزی کے حرف “V” وی کو دیکھیے 250 یا 300 الفاظ بنانے کے قابل ہے حرف “W”تقریباً 400 حروف بنانے کی حد سے حد قابلیت رکھتا ہے اور آخری حروف “X” ایکس، “Y” وائی اور “Z” ۔۔۔۔100 الفاظ بنانے سے عاری ہیں اسی طریقے سے درمیانی حروف کے اوزان کیے جائیں تو کوئی ہزاروں پر ہوں گے چند سو سے کم کیونکہ زبان نے بہت سست روی اور بے قاعدگی سے ترقی کی ہے اور قواعد بھی کمزور ہے مگر قوم 13 ویں اور 15 ویں صدی سے اپنے سامراجی ہنر کو استعمال کرنے لگی اور آج وہ نہایت تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ اقوام میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ کم ازکم انھوں نے اپنی قوم کا پیٹ کاٹ کے اپنا گھر نہیں بھرا اپنے عوام سے انصاف کیا، جانفشانی سے کام کیا عالموں کی عزت اور تکریم کی مگر افسوس کہ پاکستان کے کچھ شاعر اور نام نہاد ادیب اکثر ادبی کانفرنسوں میں رومن رسم الخط کے گیت گاتے نظر آتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اب ایس ایم ایس (SMS) کی اکثریت چونکہ رومن میں ہوتی ہے لہٰذا مستقبل قریب میں اردو کا بوریا بستر گول ہونے کو ہے ۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کا تر نوالہ اردو زبان کے ذریعے ہیں ان کا نام دینا مناسب نہیں ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ بھارت کی فلم انڈسٹری آج بھی اردو زبان کی مرہون منت ہے۔ تقریباً 25 فیصد زرکثیر پیدا کر رہی ہے اردو زبان کے شعرا اور ادبا اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں کہاں کی بے تکی باتیں کرتے ہیں یہ لوگ ابھی اس ملک کے 50 فیصد لوگ ترتیب سے اردو کے حروف تہجی نہیں جانتے، رومن ایس ایم ایس کی باتیں کرتے ہیں۔ ترکی میں رومن نے جگہ لی تو ترکی کی تہذیب، تمدن اور ادب کا کیا ہوا ترک زبان اپنے قدیم اثاثے سے محروم ہوگئی اور یورپی یونین نے ہزار کوششوں کے بعد بھی یورپی یونین میں شامل نہ کیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ قومیں لباس، زبان تہذیب چھوڑ کر ترقی کرسکتی ہیں نہ اپنی ثقافت چھوڑ کے اسی لیے جرمن چانسلر جرمن زبان، روسی صدر روسی زبان اور چینی صدر اور کابینہ چینی زبان بولتی ہے ۔کیونکہ وہ اپنا اعزاز سمجھتی ہیں لہٰذا پاکستانی قوم اگر اپنی خودی نہیں پہچانے گی تو ترقی ممکن نہیں اس کا تجربہ ہم 68 برس میں کرچکے مزید کیا تجربات کرنا چاہتے ہیں۔

Urdu vs English

Enhanced by Zemanta

0 comments: