Pakistan's military operations in Pakistan

01:38 Unknown 0 Comments


ایسا تو تاریخ میں کم ہی ہوا ہوگا کہ کسی قوم کی پوری قیادت اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے آمادہ ہوجائے اور انہیں ایسا کرنے سے روکنے والوں کو نشانۂ تنقید و استہزا بنادیا جائے۔ آج پاکستان کی پوری سیاسی قیادت شمالی وزیرستان پر فوجی حملے کی حامی ہے۔ مسلم لیگ ن تو صاحبِ اقتدار ہے اور فوجی آپریشن کا فیصلہ اسی کا ہے۔ لیکن دیگر تمام سیاسی قوتیں بھی فوجی آپریشن کے نکتے پر حکومت ہی کی صف میں کھڑی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والے آخر امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سید منورحسن کے سوالوں کے جوابات کیوں نہیں دیتے؟

  آپریشن کا فیصلہ کرنے والوں سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے آج تک آخر کیا حاصل کیا گیا ہے؟ دور نہ جائیں صرف 1971ء کے مشرقی پاکستان کے آپریشن سے بات شروع کرلی جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا ان تمام فوجی آپریشنوں سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرلیے گئے؟ 1971ء کا فوجی آپریشن پاکستان کے سقوط پر منتج ہوا۔ بلاشبہ سقوط مشرقی پاکستان کے دیگر عوامل بھی رہے ہوں گے، لیکن اُس وقت فوجی آپریشن کا فیصلہ حالات کو سدھارنے کے لیے ایک اہم حکمت عملی تھی۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بڑھنے والی بغاوت کی تحریک نے پاک فوج کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے سامنے ہزیمت سے دوچار کیا اور ملک کا مشرقی بازو ہم سے کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔ آج کے حالات میں فوجی آپریشن کا کوئی بھی حامی، مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن سے برآمد ہونے والے ہولناک نتیجے کو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں شمار نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ مشرقی پاکستان میں کیا گیا فوجی آپریشن اپنے نتائج کے حصول (یعنی پاکستان کو ایک اکائی رکھنے) میں ناکام رہا۔ اور وہ ایک ناکام فوجی آپریشن تھا۔

بھٹو صاحب نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 1971ء کے مشرقی پاکستان کے ناکام فوجی آپریشن کے فقط دو سال بعد بھٹو صاحب نے بلوچستان کی حکومت تحلیل کرتے ہوئے بلوچستان پر فوج کشی کا اعلان کردیا۔ چار سال جاری رہنے والا آپریشن بھٹو صاحب کی حکومت کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔ لیکن اس آپریشن کے نتیجے میں وفاق پاکستان کے خلاف پیدا ہونے والی بداعتمادی کی تلخی آج تک مری اور مینگل قبائل کے رویوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔

2006ء میں بلوچستان میں شروع ہونے والا فوجی آپریشن جنرل پرویزمشرف کے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں آج کا بلوچستان ایک ایسا رستا ہوا ناسور بن چکا ہے جس کا علاج نہ تو سول حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی آپریشن کرنے والوں کے پاس۔ آپریشن میں ملک دشمن قوتوں نے کھل کر کھیل کھیلا ہے اور بقول سربراہ فرنٹیئر کانسٹیبلری بیس سے زائد غیرملکی خفیہ ایجنسیاں صوبے میں موجود ہیں اور صورت حال کے بگاڑ کی ذمہ دار ہیں۔ فوجی آپریشن پر پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کا تجزیہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’جنرل مشرف کا بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ایک بھیانک غلطی تھی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’نواب اکبر بگٹی بلوچستان میں وفاق کی علامت کے طور پر موجود تھے، ان کے دل میں پاکستان آرمی کے لیے احترام موجود تھا اور وہ بلوچستان اور وفاق کے درمیان ربط کا ذریعہ تھے۔ نواب اکبر بگٹی کا قتل پاکستان کے خلاف جرم ہے۔‘‘

پھر سوات آپریشن بھی جس کی کامیابی کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا گیا، سب کے سامنے موجود ہے۔ 2009ء میں شروع ہونے والا یہ آپریشن کہنے کو ختم ہوچکا ہے، لیکن تاحال آزاد میڈیا کا داخلہ وہاں ممنوع ہے۔ فوجی آپریشن کی کامیابی کے بعد علاقہ کا انتظام سول انتظامیہ کے حوالے ہوجانا چاہیے تھا، لیکن آخری اطلاعات یہ ہیں کہ وہاں سے فوج کی واپسی کی فی الحال کوئی تیاری نہیں بلکہ نوازشریف صاحب نے اپنے دورۂ سوات کے دوران وہاں مستقل فوجی چھائونی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔

کراچی کے دو آپریشن بھی ہمارے سامنے ہیں۔ پہلے آپریشن کا نتیجہ یہ ہے کہ آپریشن میں شریک تمام ہی پولیس آفیسر ایک ایک کرکے قتل کیے جا چکے ہیں اور شہر میں پچھلے پانچ برسوں میں 7000 سے زائد لوگ قتل کیے گئے ہیں۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیاں عام ہیں اور عوام کاجینا دوبھر ہے۔ اس پس منظر میں کراچی کی تاریخ کا دوسرا آپریشن کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں اہم کردار رینجرز کا ہے۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی کے مسلح گروپوں کی شہر میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو روکنے کے لیے شروع کیا جانے والا یہ آپریشن آج اس حال میں ہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے یہ لکھا ہے کہ ایک تہائی کراچی طالبان کے کنٹرول میں ہے جہاں ان ہی کا سکہ چلتا ہے اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ بھی اس خبر پر یقین رکھتے ہیں۔ کراچی کے شہریوں سے پوچھیے تو پتا چلے گا کہ نہ تو ٹارگٹ کلنگ کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری بند ہوئی ہے اور نہ ہی بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار میں کوئی فرق پڑا ہے۔ سیاسی تنظیموں کے مسلح جتھے آج بھی موجود ہیں اور آپریشن بھی جاری ہے۔ عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ رینجرز کی طرف سے ہر روز ٹارگٹ کلرز پکڑے جانے کے دعووں میں کیا صداقت ہے اور آخر اس آپریشن کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے!

ملک کی سیاسی قیادت کے ذمہ سید منور حسن کے اس سوال کا جواب قرض ہے کہ ناکام فوجی آپریشنوں کی تاریخ رکھنے والا پاکستان کیا ایک اور ناکام فوجی آپریشن کا متحمل ہوسکتا ہے؟

سید منور حسن نے ملک کی سیاسی قیادت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی ہے کہ پاکستان کی پختون آبادی اور اس سے ملحقہ افغانستان کی آبادی تاریخی طور پر استعمار دشمن رہی ہے۔ برطانوی سامراج یہاں اپنا قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔ روس نے افغانستان میں اگر ہزیمت اٹھائی تو اس کی وجہ افغانوں اور پاکستان کے غیرت مند پختون عوام کی اسلام دوستی اور حریت پسندی تھی۔ اور اب اگر پچھلے گیارہ برسوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے سر پھوڑ رہے ہیں اور دنیا بھر کے تجزیہ کار اسے امریکی شکست سے تعبیر کررہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ بھی پاکستان و افغانستان کے غیرت مند پختون عوام کا جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔ تاریخی طور پر افغانستان اور پاکستان کے یہ غیور مسلمان کبھی بھی اسلام دشمن قوتوں کے آلۂ کار نہیں بنے۔ غوری و غزنوی سے لے کر سیاف، گلبدین حکمت یار اور اب ملا عمر تک کوئی بھی مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف کبھی کھڑا نہیں ہوا۔ بلکہ ان سب کی موجودگی اسلام کی سربلندی اور افتخار کا سبب رہی ہے۔ ایسے میں کچھ ناراض عناصر اور کچھ شرپسند گروہوں کی موجودگی کو بنیاد بناکر فوجی آپریشن شروع کردینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ ایسا آپریشن جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو برے حالوں میں نقل مکانی کرنا پڑے گی، ناحق لوگوں کا خون ہوگا، بے گناہ افراد بھی لپیٹ میں لیے جائیں گے جہاں وہ پوچھ گچھ کے تکلیف دہ مراحل سے گزریں گے، اور یوں ملک اور پاک فوج سے ناراض لوگوں کی فہرست میں لاکھوں پاکستانیوں کا مزید اضافہ ہوجائے گا۔

سید منورحسن کا کہنا یہی ہے کہ ان کی فوجی آپریشن کی مخالفت دراصل فوج کی حمایت ہے، کیونکہ اس طرح وہ فوج کو ملک کے ایک اور علاقہ میں غیر مقبولیت سے بچانا چاہتے ہیں۔

امریکہ اپنی ہاری ہوئی جنگ پاکستان کے سر ڈال کر جانا چاہتا ہے۔ یعنی امریکہ کی موجودگی ہی میں استعمار دشمن افغانی اور پاکستانی پختون عوام پاکستان دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جائیں کہ امریکہ کے جانے کے بعد پاکستانی فوج امریکہ کی جگہ اُن سے ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی لڑتی رہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کے خلاف افغانستان سے ملحقہ پاکستانی پختون آبادی میں جس نفرت کی ضرورت ہے وہ فی الحال موجود نہیں۔ چنانچہ اس کا حل وہی ڈھونڈا گیا ہے جو مشرقی پاکستان میں آزمایا جا چکا ہے، یعنی فوجی آپریشن۔ عوام اور فوجی جوانوں کی جانیں بلاشبہ قیمتی ہیں لیکن جذبۂ جہاد سے معمور لاکھوں فرزندانِ توحید کو پاکستان سے دشمنی کی طرف دھکیل دینا انتہائی ناعاقبت اندیشی ہوگی۔

خبریں کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں۔ میر علی میں گزشتہ ہفتہ ہونے والے قبائلی جرگہ کی تفصیلات اخبارات میں آگئی ہیں جس میں عثمان زئی اور دیگر قبائل نے یہ طے کیا ہے کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں اگر وہاں کے عوام کو ہجرت کرنا پڑی تو وہ اِس دفعہ افغانستان کی طرف ہجرت کریں گے جہاں کی حکومت کم از کم ڈرون سے تو اپنے عوام کو بچاتی ہے۔

سید منور حسن کو اپنوں اور غیروں سے گاہے بگاہے یہ بھی سننے کو ملتا رہا ہے کہ طالبان اور جماعت کے طریقہ انقلاب میں بڑا فرق ہے۔ طالبان دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ جماعت اسلامی امت کے تصور کو لے کر زندہ ہے۔ ایسے میں طالبان کی حمایت میں سید منورحسن کا مستقل اصرار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مفاداتی سیاست اور امریکی زور اور زبردستی کے اِس دور میں لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص یا گروہ فقط سچ کے لیے پوری دنیا کے سامنے تنہا بھی کھڑا ہوسکتا ہے، خاص طور پر ایسے میں کہ جب سچ کی یہ گواہی بظاہر رائیگاں ہی جاتی نظر آرہی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ سچ کی مار کہاں تک پہنچتی اور اثر دکھاتی ہے۔ سید منور حسن کا کام دنیا کے سامنے سچ کو آشکار کرنا اور اس کے اوپر استقامت کے ساتھ جم جانا ہے۔

Pakistan's military operations in Pakistan

Enhanced by Zemanta

0 comments: