یوکرین میں روس اور مغرب کی رسہ کشی

01:26 Unknown 0 Comments


یوکرین میں سابق صدر وکٹریانوکووچ کی جانب سے 21 نومبر کو یوکرین کے ساتھ وابستگی کے معاہدے کی یورپی یونین کی پیشکش ردکیے جانے کے بعد مغربی یوکرین میں حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کی لہر نے شدت اختیار کرلی اور دارالحکومت خیف میں مشتعل ہجوم نے سرکاری عمارتوں اور دفاتر پر قبضہ کرلیا جس سے حکومت کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ صدر یانوکووچ نے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے دبائو پر ایسا اقدام کیا جس کے خلاف مغربی یوکرین کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہرچند کہ صدر پیوٹن نے یوکرین کی خستہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اس سے 15 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا، تاہم مغربی یوکرین کے عوام مطمئن نہ ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ روس کے مقابلے میں یورپی یونین کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی پیشکش کو انہوں نے اس تنظیم میں شمولیت کا پیش خیمہ تصور کرلیا جو قرین قیاس بھی ہے۔ جو بات ذرائع ابلاغ نیچھپائی وہ یہ تھی کہ مشرقی یوکرین کے عوام جو روسی نژاد ہیں وہ روس سے قربت محسوس کرتے ہیں، چنانچہ وہاں کی رائے عامہ نے احتجاج میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ الٹا وہ مغربی یوکرین کے عوام کے احتجاج کو ریاست سے غداری پر محمول کرتے تھے، لیکن چونکہ چھیالیس لاکھ آبادی والی اس ریاست میں یوکرین نژاد باشندوں کی تعداد کل آبادی کا 73 فیصد ہے، جبکہ مشرقی یوکرین کی روسی نژاد آبادی صرف 22 فیصد ہے، اس لیے وہ اقلیت میں ہیں، لیکن چونکہ یوکرین روس کی قائم کردہ تنظیم Eurasian Union کا رکن ہے لہٰذا اگر وہ اس تنظیم کو چھوڑ کر یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے اندرون ملک روسی آبادی کی مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف روس بھی مزاحمت کرے گا جیسا کہ صدر پیوٹن کے یوکرین سے روس کی فراہم کردہ گیس کی واجب الادا تین ارب ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے مطالبے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یوکرین ہی پر کیا منحصر ہے جرمنی سمیت یورپی یونین کے بیشتر ممالک کا روس کی فراہم کردہ گیس پر دارومدار ہے۔ یورپی یونین کی رکن ریاستیں تیل اور گیس سے یکسر محروم ہیں اس لیے اگر روس یوکرین کو ترسیل کرنے والی پائپ لائن کو منقطع کردے تو یوکرین کی معیشت میں بحران اٹھ کھڑا ہوگا۔ ویسے اقتصادی عوامل کے علاوہ تزویراتی حقائق بھی یوکرین کی روس سے علیحدگی کے خلاف ہیں، کیونکہ بحیرۂ اسود میں روس کا بحری بیڑا ہے جبکہ Sevaste pol روس کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ 1991ء میں روس سے علیحدگی کے بعد یوکرین نے روس کا بحری اڈہ خالی کرانے پر جب اصرارکیا تو دونوں ملکوں میں بڑی کشیدگی پیدا ہوگئی، بالآخر فریقین نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے 1997ء میں سمجھوتہ کرلیا اور دونوں نے معاہدۂ دوستی پر دستخط کردیے۔

اب اگر یوکرین Eurasian Union ترک کرکے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو کیا روس بحیرہ اسود میں اپنے بحری بیڑے کو برقرار رکھ سکے گا؟ کیونکہ یورپی یونین میں شمولیت کے بعد مغرب کا استعماری ٹولہ یوکرین کو گھسیٹ کر ناٹو میں لے جائے گا، اس طرح ناٹو کا جال روس کی سرحد تک پھیل جائے گا۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد گورباچوف کے جانشین نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور معاہدۂ وارسا کو تحلیل کردیا، کیونکہ جب اشتراکی اور سرمایہ دار ریاستوں میں نظریاتی تصادم ختم ہوگیا تو دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ یہ گورباچوف اور بورس یلسن کی سوچ تھی، جبکہ ناٹو کے عسکریت پسند اسے تزویراتی تناظر میں دیکھ رہے تھے، ان کا خیال تھا کہ روس سے کمیونزم ختم ہوگیا تو کیا ہوا، روس تو باقی ہے جو کمیونزم سے قبل زار کے زمانے میں بھی مغربی استعمار کا حریف تھا اور آج بھی ہے، لہٰذا ناٹو کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہیے بلکہ اس کا دائرۂ کار یورپ سے پھیلا کر سارے کرۂ ارض پر محیط کردیا جانا چاہیے۔ یہ محرکات عالمی نظام کی پشت پر کارفرما تھے۔

یوکرین میں آزادی کے بعد جو کچھ ہوا وہ انہی داخلی اور خارجی عوامل کے تصادم کی علامت تھا۔ یوکرین میں دو واضح قوتیں ابھریں۔ ایک یوکرین کو روس سے وابستہ رکھنا چاہتی ہے جبکہ دوسری اسے روس سے ماورا یورپی یونین کے حلقہ اثر میں لے جانا چاہتی ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح مشرقی یورپ کی سابق اشتراکی ریاستیں پولینڈ‘ ہنگری‘ رومانیہ‘ بلغاریہ‘ جارجیا‘ چیک اور سلوواک جمہوریائیں یورپی یونین اور ناٹو کی رکن ہیں۔

یہ تضاد 2004ء میں وکٹریانوکووچ کے صدارتی انتخاب کے وقت رونما ہوا۔ اُس وقت مغرب کی حمایت یافتہ پارٹیوں نے yulia Timoshenko کی قیادت میں انتخاب میں بے ایمانی کے خلاف احتجاج کیا اور بالآخر انہیں کامیابی ہوئی، لیکن 2004ء کے احتجاج میں امریکی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں کی فروغ جمہوریت سے متعلق کمیٹیوں نے مغرب نواز پارٹیوں کی مالی امداد کی جو کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کے مترادف ہے، اور اس بار بھی صدر وکٹریانوکووچ کے خلاف چار ماہ سے جاری احتجاج میں بھی امریکہ اور یورپی یونین نے مداخلت کی۔ اس کے ثبوت میں روس نے امریکی سفیر برائے یوکرین اور امریکی محکمہ خارجہ کی معاون سیکریٹری وکٹوریہ نولینڈ کی ٹیلی فون پر خفیہ گفتگو کا ریکارڈ نشر کردیا جس میں محترمہ امریکی سفیر کو ہدایت دے رہی تھیں کہ وہ فلاں فلاں مقامی سیاستدانوں کو ہرممکن امداد فراہم کریں۔ لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ یوکرین میں حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کی جو لہر دوڑی تھی وہ امریکی مداخلت کے نتیجے میں موجزن ہوئی۔ دراصل وکٹر یانوکووچ راشی‘ خائن‘ بددیانت حکمراں ثابت ہوا، جیسا کہ اس کے عالیشان مرمریں محل اور اس کی تزئین سے ظاہر ہوتا ہے جو ہرگز ایک لاکھ ڈالر تنخواہ دار عہدیدار کی بساط سے باہر ہے۔ اس طرح ان کی حریف یولیا ٹموشنکو جو Father Land Party کی سربراہ اور سابق وزیراعظم رہ چکی ہیں، محکمہ گیس میں خوردبرد اور بعد ازاں 2011ء میں اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں سات سال کی سزا پاچکی ہیں لیکن خوش قسمتی سے عوامی احتجاج کے دبائو پر پارلیمان کو انہیں باعزت بری کرنا پڑا اور اب ان کے حلیف Oleksandr Turchenov نہ صرف پارلیمان کے اسپیکر منتخب ہوگئے ہیں بلکہ عبوری حکومت کے صدر بھی بنادیے گئے۔

یہ تبدیلیاں اتنی جلد واقع ہوئیں کہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ آیا یہ ملک کی اکثریت کے دبائو پر ظہور پذیر ہوئیں یا صرف مغربی یوکرین کے عوام کی مرضی کے مطابق رونما ہوئیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب پولیس نے مظاہرین پر گولہ باری کی جس کے نتیجے میں 18 فروری سے لے کر 20 فروری تک خیف میں سو افراد ہلاک ہوگئے تو شہر کی آبادی مشتعل ہوگئی اور 21 فروری کو یورپی یونین کے وزراء کے دبائو پر وکٹریانوکووچ اور حزب اختلاف کے درمیان کئے ہوئے معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا، جس میں صدر نے اپنی کابینہ کو برخواست کرکے نئی کابینہ تشکیل دی اور احتجاج کے دوران گرفتار شدہ افراد کی رہائی اور دسمبر میں عام انتخابات کا حکم دے دیا تھا۔ (ڈان 22 فروری 2014ئ)

چنانچہ اب صدر مفرور اور روپوش ہوگیا ہے، اس کی جگہ پارلیمان کے اسپیکر نے عبوری مدت تک کے لیے صدارت کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ہے اور مئی میں عام انتخابات کا اعلان بھی کردیا ہے۔

ادھر سابق صدر وکٹریانوکووچ نے ان تبدیلیوں کو ماننے سے انکار کردیا اور عبوری حکومت کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوائیوں نے سرکاری محکموں پر قبضہ کرلیا اور نام نہاد حکومت بھی بنالی جو ناجائز ہے۔ مغربی ذرائع اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے بغلیں بجا رہے ہیں اور اسے مغرب کی سیاسی فتح اور روس کی شکست سے تعبیر کررہے ہیں۔ لیکن محض دعویٰ ثبوت نہیں ہوا کرتا۔ جیسا میں سطورِ بالا میں تحریر کرچکا ہوں کہ یوکرین کا مسئلہ اتنا سہل نہیں ہے کہ اسے انتخاب سلجھا سکے۔ دراصل قوم خود بٹی ہوئی ہے اور اس کا قبلہ ماسکو ہے یا برسلز یعنی واشنگٹن ڈی سی۔ اس ضمن میں تاریخ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوکرین کئی بار آزاد ہوا اور جلد ہی سوویت یونین کے زیرقبضہ آگیا۔ یہ 1922ء کی بات ہے۔ 1939ء میں اس نے دوبارہ آزادی حاصل کی اور نازی جرمنی اور سوویت روس دونوں سے جنگ کی، اور 30 جون 1941ء میں آزاد ہوگیا، لیکن 1944ء میں پھر سوویت یونین کے چنگل میں آگیا اور دسمبر1991ء میں اس کے تحلیل ہونے کے بعد پھر آزاد ہوگیا اور یورپی یونین اور وفاق روس دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اختیار کرکے اپنی آزادی برقرار رکھ سکتا ہے، لیکن جغرافیائی سیاسی عوامل ایسے ہیں کہ وہ کسی صورت روس سے مخاصمت کرکے اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لہٰذا مغرب کو چاہیے کہ وہ اپنی ملک گیری کی ہوس پر قابو رکھے اور یوکرین کو ایسی آزمائشوں میں نہ ڈالے جس کے باعث روس اس پر دوبارہ قبضہ کرلے، اور یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے جب یوکرین ناٹو میں رکنیت اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا یورپی استعمار کو اس ننھی سی جان پر رحم کرنا چاہیے۔


پروفیسر شمیم اختر

Enhanced by Zemanta

0 comments: