لاپتہ افراد اور لانگ مارچ

22:46 Unknown 0 Comments


ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں 10 عورتوں اور بچوں نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک 5 ماہ پیدل مارچ کر کے لاپتہ افراد کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر دیا۔ یوں دنیا میں رائے عامہ کو آگاہ کرنے کے لیے ہونے والے لانگ مارچ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ تاریخ میں چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ اور مہاتما گاندھی کے لانگ مارچ مشہور ہیں۔ چیئرمین ماؤزے تنگ کی قیادت میں 16 اکتوبر 1934ء سے اکتوبر 1935ء تک سیکڑوں کمیونسٹوں کے ساتھ کئی ہزار میل تک مارچ کیا تھا۔ یہ مارچ دراصل چیئرمین ماؤ کی قیادت میں منظم ہونے والی پیپلز آرمی کا لانگ مارچ تھاجس میں جیپوں اور گاڑیوں کے ساتھ دشمن کو دھوکا دینے کی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو متحرک کیا گیا تھا ۔

مہاتما گاندھی نے نمک تحریک کے دوران لانگ مارچ کیا اور ہندوستان کے گاؤں گاؤں میں آزادی کی تحریک پہنچ گئی۔ 72 سالہ قدیر بلوچ کوئٹہ میں ایک بینک کی ملازمت سے 2011ء میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک دن ان کا بیٹا جلیل ریکی لاپتہ ہوا، اس وقت جلیل ریکی کا ایک بیٹا 2 سال کا تھا جس کے دل میں سوراخ تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بیمار بیٹے کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کی جائے کہ اس کا دل متاثر ہو۔ قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد انھیں تقسیم ہونے والی جمہوری وطن پارٹی کے ایک دھڑے بلوچ ری پبلکن پارٹی کا سیکریٹری جنرل بننے کی پیشکش ہوئی تھی مگر جلیل ریکی کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اس بناء پر وہ پارٹی کا سیکریٹری اطلاعات بننے پر تیار ہوا۔

ایک دن دو پک اپ اور بغیر نمبر پلیٹ کی دو کاروں میں سوارسادہ پوش سرکاری اہلکار اس کو گرفتار کرنے پہنچ گئے۔ جلیل نماز جمعہ پڑھ کر لوٹ رہا تھا ایجنسیوں کے اہلکار اس کو پکڑنے آ گئے، جلیل نے فرار ہونے کی کوشش کی مگر اس کو گولی مارنے کی دھمکی دی گئی یوں جلیل لاپتہ قبیلے کا حصہ بن گیا۔ جلیل ایک سال تک لاپتہ رہا بس ایک بار ہی اپنے خاندان سے رابطہ ہوا یہ عید کا موقع تھا کہ جلیل کے گھر کے فون پر ایک کال آئی کہ ایک مخصوص نمبر پر ہزار روپے کا بیلنس ڈلوایا جائے پھر رات گئے جلیل کی کال آئی۔ جلیل نے کہا کہ یہ نمبر کسی کونہ بتایا جائے جلیل نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ کسی سے رہائی کی بھیک نہ مانگی جائے پھر قدیر بلوچ نے جلیل کی رہائی کے لیے کوششیں شروع کی اس نے مقدمات درج کرانے کے لیے درخواستیں دی، لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش ہوا، ایک موقع پر ایک افسر نے اس کے بڑھاپے کا احساس کرتے ہوئے کہا کہ جلیل صرف سیاسی کارکن ہے تو وہ رہا ہو جائے گا۔ یوں قدیر بلوچ نے میڈیا سے روابط بڑھائے اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو منظم کرنے کا کام شروع کر دیا پھر کسی نے بلوچی چینل وش ٹی وی پر نشر ہونے والی خبر کی اطلاع دی، اس خبر سے جلیل ریکی کی لاش تربت سے ملنے کی اطلاع ملی، تربت کے اسسٹنٹ کمشنر نے فون کیا اور لاش کی تدفین کے بارے میں پوچھا۔ قدیر بلوچ نے سرکاری افسر کو تدفین سے منع کیا یوں قدیر بلوچ نے ایک ایمبولینس کا انتظا م کیا جلیل کی لاش گھر لائی گئی اس کا ایک ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا اور دل کے قریب دو اور دل میں ایک گولی ماری گئی تھی۔

قدیر نے رشتے داروں کے منع کرنے کے باوجود اپنے پوتے کو اس کے باپ کی لاش دکھا دی پھر پوتے کو ہر بات بتا دی یوں قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے باقاعدہ تحریک شروع کی۔ قدیر بلوچ کی قیادت میں پیدل مارچ کرنے والوں میں ایک نوجوان لڑکی فرزانہ مجید بلوچ سب سے زیادہ متحرک تھی۔ فرزانہ نے بلوچستان یونیورسٹی سے بائیوکیمسٹری میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ایم فل پروگرام میں داخلہ لے رکھا تھا۔ فرزانہ مجید کا بھائی ذاکر مجید ایم اے انگلش پروگرام کا طالب علم تھا وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا نائب صدر تھا۔ ذاکر اپنے چند دوستوں کے ساتھ مستونگ سے لوٹ رہا تھا کہ ایک ساتھ کئی گاڑیوں نے انھیں روک لیا۔ ذاکر مجید کے دوستوں نے اس کی بہن فرزانہ کو بتایا تھا کہ ذاکر کو اٹھاتے ہی اس کے دوستوں کو رہا کر دیا گیا۔ فرزانہ اپنے بھائی کے لاپتہ ہونے کی خبر ٹی وی پر نشر کرائی پھر انسانی حقوق کمیشن کے خضدار کے نمایندے سے رابطہ کیا اور تھانے میں ایف آئی آر در ج کرائی مگر بیمار ماں کو کچھ نہیں بتایا مگر پھر ماں کو پتہ چل ہی گیا وہ دعاؤں میں لگ گئی۔ ذاکر سیاسی کارکن تھا اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھا اور کئی دفعہ گرفتار ہوا تھا مگر ہمیشہ عدالت رہا کر دیتی تھی پھر 2011ء میں بلوچستان میں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ فرزانہ مجید نے وائس فار مسنگ پرسنز کے رہنما قدیر بلوچ کے ساتھ مل کر لاپتہ افراد کے لواحقین کو منظم کرنا شروع کیا، سپریم کورٹ کے جج جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت شروع کی، انھوں نے بہت سے خاندانوں سے وعدے کیے جو کبھی پورے نہیں ہوئے۔ فرزانہ نے پہلے اسلا م آباد میں احتجاجی کیمپ لگایا تھا پھر اسے دھمکی آمیز فون آنے لگے کہ اسلام آباد کا کیمپ بند کر دیں یا ذاکر مجید کو بھول جاؤ۔ وہ خوفزدہ نہیں ہوئی اور اسلام آباد کے بعد کراچی میں احتجاجی کیمپ لگایا مگر بھائی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔

اس احتجاجی مارچ میں 10سالہ حیدر بلوچ بھی شامل ہے اس کے والد ایک مزدور رمضان بلوچ عرصہ دراز سے لاپتہ ہیں۔ علی بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ اس مارچ میں شریک ہے۔ اس مارچ کے شرکاء نے سخت سردی کے باوجود پیدل لانگ مارچ کیا اس کو موسم کی سختیوں کے ساتھ پولیس خفیہ ایجنسیوں اور شدت پسند گروہوں کو برداشت کرنا پڑا ۔ کوئٹہ سے کراچی تک ہر شہر میں لوگوںنے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھرپور ساتھ دیا جب یہ لانگ مارچ خضدار پہنچا تو سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے مارچ کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ حب کے قریب ماما قدیر بلوچ پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی، لانگ مارچ کے لیاری پہنچنے سے پہلے وہاں گینگ وار تیز کر دی گئی یوں لیاری کے عوام قدیر بلوچ اور ان کے ساتھیوں سے یکجہتی کے اظہار سے محروم رہے۔ پھر بھی چاکیواڑہ چوک پر لوگ جمع ہوئے اس طرح کراچی پریس کلب کے سامنے بہت بڑا جلسہ ہوا، اور لانگ مارچ کے شرکاء کئی دن تک احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہے۔ اندرون سندھ ہر شہر میں لوگوں نے لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ پنجاب میں بائیں بازو کے کارکنوں غیر سرکاری تنظیموں خاص طور پر انسانی حقوق کے کارکن ان کے استقبا ل کے لیے موجود رہے۔ کئی شہروں میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے جلوس کے شرکاء کو ہراساں کرنے کی کوشش کی مگر قدیر بلوچ اور ان کی ساتھی خواتین اور بچوں کے عزم میں کمی نہ آئی ان لوگوں نے اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے دھرنا دے کر لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ لاپتہ افراد کا معاملہ 14برس سے موضوع بحث ہے۔

پرویز مشرف کی حکومت نے سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تحریک چلانے والی انجمن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد 5 ہزار کے قریب ہے جب کہ بارہ سو افراد کی لاشیں مل چکی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے ہمیشہ لاپتہ افراد کی بازیابی پر زور دیا مگر اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے معاملے میں غیر متحرک ہو گئے ہیں ان کی حکومت نے تحفظ پاکستان قانون کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ میاں نواز شریف کے دور میں نوٹک کے مقام پر اجتماعی طور پر دفن کی جانے والی لاشیں برآمد ہوئی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے ملزمان کی نشاندہی کی مگر کچھ نہ ہوا، اور نہ ہی صوبائی حکومت کی پورے صوبے میں رٹ قائم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے یوں لاپتہ افراد کا معاملہ ابھی تک حل نہ ہو سکا۔ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لانگ مارچ کے ذریعے عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، رائے عامہ کی تبدیلی سے بلوچستان کے عوام کا وفاق پر اعتماد قائم ہو گا ۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے اس لانگ مارچ کے مطالبات تسلیم نہیں کیے تو اس کا سارا فائدہ علیحدگی پسندوں کو ہو گا۔ بعض سینئر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ماما قدیر بلوچ کے لانگ مارچ کا اختتام اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے ہو رہا ہے اگر اب بھی اسٹیبلشمنٹ نے توجہ نہ دی تو ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں یہ مارچ نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے سامنے ہو۔ ماما قدیر بلوچ کی اس جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے وفاق کو بچایا جا سکتا ہے فیصلہ وفاقی حکومت اور بڑے صوبوں کو کرنا ہے۔

ڈاکٹر توصیف احمد خان

Enhanced by Zemanta

0 comments: