تب نیرو موٹر وے بنا رہا تھا.........

11:43 Unknown 0 Comments


پاکستان کو نائن الیون کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اقتصادی ، سماجی اور عسکری اعتبار سے لگ بھگ اسی ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ اس عرصے میں تقریباً دس لاکھ لوگ اندرونی طور پر در بدر ہو چکے ہیں۔ فاٹا ، کراچی اور بلوچستان کی شکل میں ریاست کو بیک وقت تین جنگوں کا سامنا ہے۔ان جنگوں اور ان کے اثرات نے ساٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو نگل لیا ہے۔

جوں جوں حفاظتی دیواریں اونچی ہو رہی ہیں توں توں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اگلے لمحے کس کے ساتھ کہاں ، کیسی واردات ہونے والی ہے۔جو جرنیل دو ہزار چار پانچ تک یہ کہتے رہے کہ دہشت گردوں کی تعداد چھ سو سے زیادہ نہیں وہ آج اس سوال سے ہی کنی کترا جاتے ہیں کہ اس وقت کتنے لوگ اور کتنی تنظیمیں ریاست سے برسرِ پیکار اور اینٹ سے اینٹ بجانے کے درپے ہیں۔

مگر ایسا بھی نہیں کہ ریاست چلانے والے اپنے قومی و منصبی فرائض سے غافل ہیں۔وہ ہر وقت ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں، راتوں کو اٹھ اٹھ کے ٹہلتے ہیں ، رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے رہتے ہیں ، گاہے ماہے آسمانوں کی طرف تکتے ہیں ، سرد آہ بھی بھر لیتے ہیں، باہمی غفلت اور غلطیوں کا نوٹس بھی لیتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھاتے بھی رہتے ہیں کہ کوئی ہور گل کرو ، اے تے روز دا سیاپا اے۔

زمہ دارانِ ریاست کو اچھے سے معلوم ہے کہ دہشت گردی ریاست کو آہستہ آہستہ چبا چبا کر نگل رہی ہے، مگر انہوں نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔

"فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔"

اگر وہ سالانہ پچاس لاکھ بچوں کو پہلی جماعت میں داخل نہیں کرسکتے تو پریشانی کیوں؟ کیا وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹیوں کے لیے سالانہ چونسٹھ ارب روپے مختص نہیں کر رہے؟

اگر وہ سالانہ بیس لاکھ نئے لڑکے لڑکیوں کو روزگار دینے میں بے بس ہیں تو کون سا ظلم ہورہا ہے؟ کیا وہ ساڑھے پانچ لاکھ نوجوانوں کو وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام کے تحت بزنس لون ، قرضِ حسنہ ، ہنر مندی کی تربیت اور فیسوں کی معافی کے لیے بیس ارب روپے کی امداد نہیں دے رہے؟

اگر وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ نفوس دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندگی کاٹ رہے ہیں تو اس کی بھی تو تعریف کیجیے کہ وہ تریپن لاکھ خاندانوں کو نیشنل انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ دے رہے ہیں تاکہ ان کے تیس دن سہولت سے کٹ جائیں۔

اگر آپ کو شکوہ ہے کہ کم از کم گیارہ ہزار روپے کی تنخواہ کی سرکاری حد میں کسی خاندان کا گذارہ نہیں ہوسکتا تو یہ بھی تو دیکھیے کہ اس وقت ہر پاکستانی کی فی کس آمدنی تیرہ سو چھیاسی ڈالر ہے۔اور یہ تیرہ سو چھیاسی ڈالر امانتاً حکومت کے پاس پڑے ہیں جنہیں مناسب وقت پر لوٹا دیا جائے گا۔

اور کون کہتا ہے کہ والیانِ ریاست انسدادِ دہشت گردی کی اہمیت سے غافل ہیں۔ان کی پہلی ترجیح تو یہی ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے کوئی حل نکل آئے۔اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے میڈیا کی گردن میں بھی پٹہ ڈال دیا گیا ہے۔اگر اب بھی دہشت گردوں نے عقل کے ناخن نہ لیے تو پھر متبادل حکمتِ عملی بھی تیار ہے۔

مثلاً ملک میں توانائی کے بحران پر تیزی سے قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہورہا ہے تا کہ دہشت گرد اندھیرے میں کسی سخت شے سے ٹھوکر نہ کھا جائیں۔گوادر تا سنکیانگ کاریڈور اور لاہور تا کراچی موٹر وے کی ڈیزائننگ شروع ہوچکی ہے تا کہ امارات ِاسلامی پاکستان کی ممکنہ قیادت کا فور وھیلر قافلہ ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ان موٹر ویز پر کروز کرسکے۔

 جب میاں صاحب پچھلے برس تیسری بار قصرِ وزیرِ اعظم تشریف لائے تو انہیں یہ دیکھ کے بہت رنج ہوا کہ جاتی حکومت سرکاری املاک کے دروازے، کھڑکیاں اور پنکھے بھی ساتھ لے گئی اور لان میں کچرے کے ڈھیر چھوڑ گئی۔اور تو اور وزیرِ اعظم کے زیرِ استعمال گاڑیوں کی سیٹوں کا چمڑا تک اترا ہوا تھا اور وزیرِ اعظم کی حفاظت کے لیے جو تربیت یافتہ کتے موجود تھے ناکافی غذائیت کے سبب کاٹنا تو رہا ایک طرف وہ تو اپنی بھونک تک سے محروم ہوچکے تھے۔ چنانچہ فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔

رہی بات کہ ہوائی اڈوں کی ٹوٹی خاردار تاروں کو کب بدلا جائےگا، پولیس تھانوں کے باتھ روم کب ٹھیک ہوں گے، ایئرپورٹ سیکورٹی فورس وغیرہ کے فرسودہ ہتھیاروں کا کیا بنےگا، ناقص کیمروں کی خرید کب بند ہوگی، جدید انٹیلی جینس نظام کی تشکیل کا خرچہ اور تربیت کا بار کون اور کب اٹھائےگا، انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک جدید، جامع قانونی و عسکری حکمتِ عملی تشکیل پاکر کب نافذ ہو کر نتائج سامنے لائے گی؟

تو اب ہر بات کا ٹھیکہ ریاست نے تو نہیں لے رکھا۔ کچھ وہ بھی تو سوچیں کہ جن کے سبب پاکستان اس دلدل میں پھنسا ہے۔اگر سارے وسائل اور پوری طاقت دہشت گردی کے خاتمے پر ہی لگا دی گئی تو شمسی توانائی سے بجلی تم پیدا کروگے، موٹر وے تمہارا باپ بنا کے دے گا، ایوانِ وزیرِ اعظم کی گھاس کاٹنے کیا تم آؤ گے ۔۔۔ واہ جی واہ ۔ چل دوڑ یہاں سے، ڈُو مور کا بچہ۔

0 comments: