مغربی طاقتیں، عراق اور ہم........

01:34 Unknown 0 Comments


امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے بہت عمدہ بات کہی تھی کہ "اخبارات میں حقائق اگر کہیں ملتے ہیں تو صرف اشتہارات میں۔" یہ قابل حیرت ہے کہ ایک ایسے شخص نے جو ہمارے زمانے سے تقریبا دو صدی قبل اس دنیا میں رہا ہو، صحافت اور ’’پیڈ نیوز‘‘ کی حقیقت کو اتنی گہرائی سے سمجھ لیا تھا۔ آج ہمارے سامنے خبروں اور معلومات کا ایک سیلاب ہے اور ہم اطلاعات کی ترسیل کے انتہائی اہم اور جدید دور میں جی رہے ہیں۔ کمپیوٹر، ٹیبلٹ اور نت نئے قسم کے موبائل فون کی شکل میں ہمارے سامنے اطلاعات کا گویا دھماکا ہو چکا ہے۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر کسی کے بھی تعلق سے اعداد و شمار اور حقائق تک پہنچنا اب انگلیوں کا کھیل ہو گیا ہے۔ اسکے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اب بھی کئی حقیقتوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ نیویارک ٹائمز سے وابستہ مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے نامور صحافی اور کالم نگار تھامس ایل فریڈ مین، جارج بش کے مشرقی وسطیٰ کی آزادی کے مشن کے بڑے حامی رہے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بس جنگ کے میدان میں اترے نہیں، اس کے علاوہ اس جنگ کی حمایت میں انہوں نے سب کچھ کیا اور عراق پر فوج کشی کیلئے امریکا اور اسکے اتحادیوں کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔ عراق پر حملے کرنے کیلئے فریڈمین نے ہی اپنی تحریروں کے ذریعے امریکا اور اسکے اتحادیوں کو اکسایا حتیٰ کہ اس مقصد کیلئے مغربی ممالک کے صحافیوں کی قیادت کا بھی بیڑا اٹھایا۔ انہی کی سربراہی میں مغرب نواز صحافیوں نے اپنے مضامین کے ذریعے مغربی طاقتوں کو عراق کی تاراجی کی داستان لکھنے کی ترغیب دی۔
عام تباہی کے ہتھیار رکھنے سے لے کر نائن الیون کی سازش میں ملوث ہونے تک صدام حسین کو مغربی طاقتوں نے ہر ہر جرم کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کی۔ اسکے بعد عراقیوں کی آزادی کا بہانہ بنایا گیا اور وہاں لوگوں کو جمہوریت کے قیام کے خواب دکھائے گئے۔ یعنی کہ حالات یک بہ یک پیدا نہیں ہو گئے بلکہ انہیں پورے منصوبہ بند طریقے سے پیدا کیا گیا اور قابل ذکر ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے میں تھامس فریڈمین اور ان جیسے دیگر مغرب نواز صحافیوں کا ہی عمل دخل تھا۔ پھر اس کے جو نتائج برآمد ہوئے وہ آج کسی سے بھی پوشیدہ 
نہیں ہیں۔

عراق کبھی دنیا کے امیر ترین اور قدیم ترین ممالک میں سے ایک تھا لیکن آج
 اسے پوری طرح برباد کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں سیاسی اور معاشی سطح پر بھی اس ملک کو ایسا زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے جو فی الحال تو ناقابل تلافی نظر آتا ہے۔ انتہا پسندی سر ابھار رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد عروج پر ہے۔ نیز اس ملک کے دگرگوں حالات پورے مشرق وسطیٰ کے استحکام کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ عراق جنگ کو 11 سال ہو گئے ہیں۔ یہ امریکا کا نئی صدی کا ایک منصوبہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے یہ سب کچھ کیا۔ بہرحال عراق جنگ کے نتائج نے امریکا کے تمام دعوئوں اور وعدوں کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ سب کچھ جھوٹ نکلا، بالکل سفید جھوٹ۔

اس کے باوجود حد درجہ افسوس کا مقام ہے کہ امریکا کے سابق صدر جارج بش، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور تھامس فریڈ مین جیسے ان حامیوں نے کبھی پچھتاوے یا معافی کے طور پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ عراق کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس پر پچھتانے یا معافی مانگنے کی بجائے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے دریدہ دہنی کا ثبوت دیتے ہوئے عراق کی طرز پر دیگر مسلم ممالک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی حمایت ظاہر کی ہے جبکہ تھامس فریڈمین نے نیویارک ٹائمز میں 10 جون کو شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون بعنوان 'دی رئیل وار آف آئیڈیاز' میں جو باتیں کہی ہیں ان سے ایک اشارہ ملتا ہے کہ عراق کی موجودہ صورتحال پر انہیں کچھ افسوس ہوا ہے۔

تھامس فریڈمین کو عراق جنگ سے تباہ ہونے والے کھیت کھلیانوں اور زرخیز علاقوں پر افسوس ہے۔ انہیں افسوس ہے کہ اس جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے کردستان کے جنگلاتی خطے کو بڑی حد تک متاثر کیا نیز یہاں کی حیوانی اور نباتی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ مختصراً یہ کہ اپنے اس مضمون میں انہوں نے مذہبی شدت پسندوں اور کارکنان تحفظ ماحولیات کے درمیان جنگ کو نظریات کی اصل جنگ قرار دیا ہے اور عراق کی ماحولیاتی تباہی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

فریڈمین کے مطابق 'عراق میں اگر شدت پسندوں کو جیت حاصل ہوتی ہے (حالات بتا رہے ہیں وہ جیتنے کے قریب ہیں) تو یہ خطہ انسانی اور ماحولیاتی تباہی کا خطہ بن جائے گا۔ اگر ماحولیات کے تحفظ کیلئے سرگرم گروپ فاتح رہتے ہیں تو اسکا سبب یہ ہو گا کہ کافی لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر انہوں نے ماحول اور اپنی زمینوں کی حفاظر کرنا نہیں سیکھا تو وہ یا تو خود ایک دوسرے کو تباہ کر دیں گے یا قدرت کا قہر انہیں برباد کر دے گا۔ عراق اور اس کے ماحول کے تئیں فریڈمین کی یہ تشویش کچھ کچھ دل کو چھونے والی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دریائے دجلہ اور فرات سے سیراب ہونے والی اس سر زمین کا خاتمہ یہی ہے؟ کیا ہزاروں سال پرانی عراقق تہذیب وثقافت کا انجام یہی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ عراق صرف ماحولیاتی سطح پر برباد نہیں ہوا ہے بلکہ تمام پہلوٗوں سے یہ تباہی کی طرف گامزن ہے۔ ہلاکتوں کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو عراق کیلئے 2014ء سب سے زیادہ درد ناک ثابت ہوا۔ عراق دن بہ دن خون آلود ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں تھامس فریڈمین کا صرف ماحولیاتی تباہی پر اظہار افسوس کرنا اس منافقت کا غماز ہے جو ہمیشہ سے ہی مغرب اور مغرب کے حامیوں کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ان کا یہ خیال منافقت سے کچھ زیادہ اپنے اندر مجرمانہ پہلو بھی لئے ہوئے ہے۔ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ عراق کی اس صورتحال کیلئے جو طاقتیں ذمہ دار ہیں وہ اس طرز کے مزید منصوبوں کی وکالت کر رہی ہیں؟َ مشرق وسطیٰ کے موضوع پر اپریل میں ٹونی بلئیر نے اپنے ایک خطاب میں واضح طور پر اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔
انہوں نے مسلم دنیا کے ہنگاموں کو ناقابل فہم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لوگ ہماری حمایت کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ٹونی بلئیر کا یہ خطاب اشتعال انگیز اور سخت تھا اور کہا جاسکتا ہے کہ کافی طویل وقت کے بعد کسی مغربی لیڈر نے اس طرح کی تقریر کی تھی۔ بہرحال اس خطاب کے ذریعے جنہیں نشانہ بنایا گیا تھا یعنی مسلم ممالک، انہوں نے اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی۔ ٹونی بلئیر نے اپنی منفی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکسویں صدی میں عالمی سلامتی کیلئے اسلامی شدت پسندی ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ خطرہ کم نہیں ہو رہا ہے بلکہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس خطرے سے طبقات بلکہ قومیں تک متزلزل ہو رہی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں یہ خطرہ باہمی امن و امان کے ساتھ رہنے کے امکان کو بھی کم کر رہا ہے اور ہم اس کا سامنہ کرنے کیلئے کمزور پڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔'

یہ ہے اس لیڈر کی تقریر جسے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں کیلئے متعین کیا ہے۔ کوئی مسلم لیڈر اگر اس طرح عیسائیت اور صہیونیت کے خلاف بیان دے تو ہنگامہ مچ جائے۔ مختلف جنگوں کے ذریعہ انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان کس نے پہنچایا، مسلمانوں نے یا مغربی طاقتوں نے؟ کچھ صدیوں پہلے تک دنیا پر استعماری اور استبدادی نظام کے ذریعے حکمرانی کس نے کی، مسلمانوں نے یا مغربی طاقتوں نے؟ دنیا کے مختلف حصوں میں کن طاقتوں نے فوجی اڈے اور اسلحہ کے کارخانے بنا رکھے ہیں؟ افسوس کہ ہم مسلامان بھی خاموش ہیں۔ کیا ہم ٹونی بلئیر جیسے لیڈروں کو مذید جارحیت کا موقع نہیں دے رہے ہیں؟

اعجاز ذکاء سید
بشکریہ روزنامہ ’’انقلاب 

0 comments: