کچھ احوال بھائی کی لندن میں گرفتاری کا!.........

01:42 Unknown 0 Comments


اپنا بھائی کیا پکڑا گیا ہے، ہر کوئی جو چاہتا ہے، لکھے جارہا ہے، جو منہ میں آتا ہے، بولے جارہا ہے۔ پر ''ٹیم ٹیم'' کی بات ہے۔ اللہ ان کو سمجھے۔ پر اپنا بھائی بھی روز روز نہیں پکڑا جاوے ہے۔ نمٹ لیویں گے ان سب سے، اب ایک بار باہر تو آ لینے دیویں۔ کوئی بولے ہے ''اللہ نے پاکستانیوں کی دعائیں سن لی ہیں''۔ ''اس کو اہلِ کراچی پر رحم آ گیا ہے''۔ پر ایک مرتبہ بھائی کو باہر آ لینے دیویں پھر پوچھ لیویں گے آپ سب سے۔۔۔۔

سب سے زیادہ تو ان ''فیس بُکیوں'' نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ انھوں نے پتا نہیں بھائی کے لندن والے گھر میں کیمرے فٹ کر رکھے تھے یا اسکاٹ لینڈ یارڈ والوں سے ان کی یاری ہے۔ موئے ایک ایک پل کی خبر سے آگاہ ہیں۔ کوئی لکھے ہے بھائی نے پولیس کے آتے ہی رونا دھونا شروع کر دیا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ والے بھائی کے رونے سے متاثر ہی نہیں ہوئے۔ وہ اپنے متحدہ کے بھائی اور رقیق القلب کارکنان تھوڑی تھے جو بھائی کے ساتھ ہی ٹسوے بہانا شروع کر دیتے۔ کوئی فیس بُکی لکھے ہے کہ بھائی کو چُپ کرانے میں لندنی پولیس کو کئی گھنٹے لگے تھے۔ کوئی اردو اور پنجابی کے محاورے بھائی کی تصویر لگا کر فٹ کر رہا ہے۔ ایک نے لکھا:''کھوتا مریا کھاریاں تے سوگ وزیر آباد وچ''۔ ''بھائی پھڑیا گیا لندن وچ تے ہڑتالاں کراچی تے حیدر آباد وچ''۔اب ان سے بندہ پوچھے ہم اور کہاں جا کر ہڑتالیں کریں۔ کیا مریخ پر جا کر لوگوں کی گاڑیاں جلائیں۔

اپنے نائن زیرو پر سوگ کی کیفیت ہے۔ہر کوئی لندن سے آنے والی خبروں پر پریشان ہو رہا ہے۔ سب کو بھائی کی فکر لاحق ہے۔ جب سے یہ خبر آئی ہے کہ لندن پولیس کے چالیس پینتالیس اہلکاروں نے بھائی کے گھر پر چھاپہ مارا تھا اور وہ وہاں سے سب کچھ بوریوں اور صندوقوں میں بند کر کے لے گئے ہیں۔ وہاں انھوں نے کچھ نہیں چھوڑا ہے تو سب کی گگھی بندھی ہوئی ہے۔ وہ یہ سوچ سوچ کر ہی نڈھال ہوئے جا رہے ہیں اگر ان پرچیوں، بھتے کی رسیدوں میں ان کے نام نامی اسم ہائے گرامی نکل آئے تو کیا بنے گا۔ سب دھر لیے جاویں گے اور پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے کی بانسری۔

اُدھر یہ افتاد آن پڑی ہے اور ادھر ڈاکٹر اور بعض دوسروں کو بڑی جلدی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں جلدی سے بھائی کے جانشین کا انتخاب کر لیا جائے۔ مبادا بھائی کو کچھ ہو جاوے اور ان کے کسی جانشین کے انتخاب سے پہلے ہی جماعت تتر بتر ہو جاوے۔ یہ بھائی کی جانشینی نہ ہو گئی مغلیہ سلطنت ہو گئی۔ ان کو کون سمجھائے بھائی ایسا کہاں سے لاویں گے اور کس کو تخت پر بٹھاویں گے۔ ہم پہلے ہی پشیمان ہیں اوپر سے ہمدردی کے پیغامات بھی زہر میں بجھے ہوئے تیروں سے کم نہیں۔ اب ہم تیر کھا کھا کر کمیں گاہ کی طرف دیکھ رہے ہیں تو اپنے ہی دیرینہ دوستوں سے ملاقات ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ غضب تو اپنے آصف علی زرداری بھائی نے ڈھایا ہے۔ بولے ہیں الطاف حسین کو مکمل انصاف فراہم کیا جائے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے یا رب۔ مکمل انصاف اور وہ بھی الطاف بھائی سے۔ ان کو کون سمجھائے مکمل انصاف ہوا تو کچھ نہیں بچے گا۔ بھائی چودہ سال کے لیے جیل چلا گیا تو جماعت بھی جائے گی۔بھائی بے چارہ بیمار ہے۔ وہ جب سے پکڑا گیا ہے رو رو کر بُرا حال کیا ہوا ہے۔ اسی لیے ہم نے پہلے بولا تھا بھائی زرداری کو چھوڑ دو اور نواز شریف سے معاملہ کر لو، اس کو فون لگاؤ۔ کراچی میں رینجرز اور پولیس والوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور آپ بھی واپس آ جاؤ گے۔

ادھر کیا ہے کوئی مقدمہ شدمہ بنا تو ہم ہڑتالوں سے وہ برا حشر کریں گے کہ لوگ بارہ مئی تک کو بھول جائیں گے۔ پر بھائی مان کے نہیں دیا۔ مان لیتا تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتے۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بن جاتا اور آج اپنا بھائی اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس نہیں ہمارے درمیان ہوتا۔ آصف زرداری سے تو اپنا عمران خان ہی اچھا نکلا۔ اس نے ہمدردی کے دو بول تو بول دیے ہیں۔ پر ہے بڑا سیانا کراچی پر نظر لگائے بیٹھا ہے۔ اب ہمیں مشورہ دے رہا تھا احتجاج کرنا ہے تو لندن جاؤ کراچی کے حالات مزید خراب نہ کرو۔

بھائی کو اب کون جا کر اطلاع کرے کہ تمھارے ایک فیصلے نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ بھائی نے ہمیں تو یہ تک نہیں بتایا کہ ان کے ایجوئر روڈ والے اڈے پر جولیان اسانج اور ایڈورڈ سنوڈن کون ہے جو نت نئی خبریں لیک کر رہا ہے۔ اب یہ پتا نہیں کس نے خبر چھوڑی تھی کہ جب پچھلی مرتبہ اسکاٹ لینڈ یارڈ والے آئے تھے تو بھائی کے بیڈ کے نیچے ڈالروں اور پونڈوں کی گڈیاں پڑی ہوئی تھیں۔ پولیس والے تو موئے عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے بیڈ کی چادر اٹھائی تو کیا دیکھتے ہیں کرنسی نوٹ ہی نوٹ پڑے ہوئے ہیں۔ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ انھوں نے تو اتنے نوٹ خواب میں بھی نہیں دیکھے ہوں گے۔

مگر اب یہ سب کچھ خواب ہو چکا۔ بھتے کا کاروبار تو ماند پڑ چکا۔ وہ جو میڈیا میں اپنے بندے بھرتی کرائے تھے ناں وہ بھی اب کسی کام نہیں آ رہے ہیں۔ ہمارے ہمدرد لاہوری دانشور شاید خمار سے ہی ابھی باہر نہیں نکلے۔ ویسے بھائی انھیں ہم نے دو تین مرتبہ ہی روٹیاں کھلائی تھیں، میرا مطلب ہے کھانا وغیرہ کھلایا تھا اور انھوں نے خوب خوب حق نمک ادا کیا ہے۔ بے چارے ہر جگہ ہمارا دفاع کرتے رہتے تھے۔اب کالم میں تو پتا نہیں کیا لکھ ماریں کیونکہ انھیں یاد نہیں رہتا ماضی میں وہ کس جماعت کی مدح سرائی میں کیا الفاظ لکھتے رہے ہیں۔ ویسے تو وہ ہر کسی کو دشنام ہی سے نوازتے ہیں لیکن ہمارے لیے ان کے قلم اور زبان سے ہمیشہ کلمہ خیر ہی نکلا۔اب ہم انھیں کیا دے سکتے ہیں۔ سب کاروبار ٹھپ ہیں۔

بھائی ادھر ڈاکٹر؛ کا بہت بُرا حال ہے۔جب سے آپ پکڑے گئے ہیں ایک ہی مصرع گنگنائے جا رہے ہیں۔

تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

ہم بہتیرا سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن موصوف ایک ہی بات کہے جارہے ہیں کہ میں نہ کہتا تھا برے دن آنے والے ہیں ہوشیار ہوجاؤ۔ہم سے ایک جی کم ہونے والا ہے۔بالکل اس جانگلی عورت کی طرح ان کا رویّہ ہے۔ وہی جس کی بیٹی بھاگ نکلی تو صبح تڑکے ہی افسوس کرنے والیوں کا تانتا بندھ گیا۔آس پاس کی پڑوسنیں آتیں اور کہتیں :''چنگا نئیں سُو کیتا''(اس نے اچھا نہیں کیا) لیکن وہ بھلی لوک سب سے ایک ہی بات کہتی۔''ٹر تے گئی اے پر تھی اللہ والی ۔مینوں شامی ویلے ای آکھن لگ پئی سی مائیں اج ساڈے گھروں اک جی گھٹ وینا''۔(چلی تو گئی ہے لیکن تھی اللہ والی۔شام سے ہی اس نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ہمارے گھر سے ایک فرد کم ہو جائے گا)۔ہم سب کا جی ایسے ہی کھسروں پھسروں کر رہا تھا اور لگ رہا تھا ''جی گھٹ وینا اے''۔

پر کیا کریں۔ یہ وقت بھی آنا تھا بانیانِ پاکستان کی اولادوں پر۔ان کی اتنی توہین۔اللہ کی پناہ ہے لوگوں میں کوئی خوفِ خدا ہی نہیں رہا ہے۔ایسے لکھ رہے ہیں جیسے بھائی اپنی گرفتاری کا ''لائیو'' شو چلا رہے ہیں لندن سے اور ان کو پل پل کی خبریں دے رہے ہیں۔کوئی تمیز،ادب ہی نہیں رہا ہے انھیں۔کوئی لکھ رہا ہے کہ پولیس والے دیکھتے ہی بھائی کا کچھ ساقط ہوگیا تھا۔بے ادبی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔بھائی سچ پوچھو تو ہم نے بہتیری کوشش کی کسی سے ہی سانڈ گانٹھ ہوجائے مگر کچھ پیش نہیں گئی۔اور تو اور ہم نے تو طالبان بھائیوں سے رابطے کی بھی کوشش کی۔انھیں سمجھایا بجھایا کہ ماضی کی غلطیاں معاف کردیں اور ہمارے ساتھ آن ملیں کیونکہ لوگ ہمیں ظالمان اور آپ کو طالبان کہتے ہیں۔ہمارا قافیہ ردیف ایک ہی ہے۔ پر نہیں مانے۔کہنے لگے تمھارے پاس ہمارے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے رہ ہی کیا گیا ہے۔بھتے کا کاروبار ہمارا اپنا چل نکلا ہے۔ ڈر خوف ہمیں کسی کا نہیں بس تم خود ہی اس مشکل وقت کا مقابلہ کرو۔

رہی سہی امید اس ٹی وی چینل سے تھی جہاں تھوک کے حساب سے اپنے بندے بھرتی کرائے تھے اور اپنے اس ڈراما گیر کو نائب صدارت تک پہنچا دیا تھا لیکن بھائی آپ بھی تو کسی کی نہیں مانتے تھے۔آخری وقت میں کیبل والوں سے بند کروا کے ان ٹی وی والوں کو بھی اپنے خلاف کر لیا۔وہ بھی کچھ سننے کے روادار نہیں اور وہ جعلی ڈاکٹر پتا ہے کیا کیا کہہ رہا ہے،اسی طرح خوش الحانی سے آپ کے پکڑے جانے کا قصہ اپنے جاننے والوں سے بیان کیے جارہا ہے۔آپ کی گرفتاری کے فضائل ومناقب ایسے انداز میں بیان کررہا ہے گویا آپ نے خود کو پولیس کے حوالے نہیں کیا بلکہ جان جانِ آفرین ہی کے سپرد کردی ہے۔اس کو کتنی مرتبہ ہم نے کہا تھا کہ ہر جگہ ایک ہی طرح کے الفاظ اور جملے نہ بولتے رہا کرو،اس طرح ایک روز تمھاری ساری جعلی علمیت اور دانشوری کا بھید کھل جائے گا۔نہیں مانا تھا۔اب ساری دانش آپ کی گرفتاری پر بگھار رہا ہے اور لوگ مذاق اڑا رہے ہیں۔

بھائی میں تو ایک اور خطرے کی بُو سونگھ رہا ہوں۔یہ جتنے سیکٹر انچارج ادھر بھرتی کرائے تھے ناں،کہیں وقت آنے پر سب کچھ بک ہی ناں دیں۔پھر بڑی مشکل ہوجاوے گی۔ہم پہلے ہی عبدالرحمان ملک کے ہاتھوں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے وقت سے بلیک میل ہوتے چلے آرہے ہیں۔وہ بس دو نام ہی لیتا ہے اور ہم سب کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔وہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے جن دو بندوں کی تصویریں شائع کی ہیں ناں، اگر ان ملک صاحب نے ان کے بارے میں کچھ بتا دیا تو بہت برا ہوگا مگر ہم سن رہے ہیں کہ ان کے بتانے سے پہلے ہی ان دونوں جوانوں کو لندن بھیجا جارہا ہے۔کیا کریں ہمیں تو اب خود بوریاں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔یہ سطور لکھ رہے ہیں تو لیپ ٹاپ پر لفظوں کے بجائے چھوٹی چھوٹی بوریاں نظر آرہی ہیں۔

یا اللہ خیر۔اب تیرا کیا بنے گا کالیا۔

0 comments: