Chinese New Year Celebrations in Pictures

23:51 Unknown 0 Comments













Chinese New Year Celebrations in Pictures
Enhanced by Zemanta

0 comments:

Peace Talks with Taliban by Saleem Safi

23:03 Unknown 0 Comments


 Peace Talks with Taliban by Saleem Safi

Enhanced by Zemanta

0 comments:

The Role of the Mosque by Dr. Safdar Mehmood

22:58 Unknown 0 Comments

 Value of Mosque by Dr. Safdar Mehmood

0 comments:

فسانے کیا کیا

03:44 Unknown 0 Comments


امریکہ اور مغربی طاقتوں کے حکمران اپنے عوام سے جھوٹ بولنے اور اُنہیں فریب دینے کی جرأت نہیں کرتے ٗ کیونکہ اِن جرائم کی سزائیں بڑی سخت ہیں۔امریکی صدر نکسن کے بارے میں جب تفتیش کے دوران یہ راز کھلتا گیا کہ واٹر گیٹ کی عمارت میں اُس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس کی کارروائی کی خفیہ رپورٹ حاصل کرنے کا حکم دیا تھا ٗ تو اِس دانشور صدر کو عزت بچانے کیلئے استعفیٰ دینا پڑا۔ اِسی طرح صدر بل کلنٹن جنسی اسکینڈل میں جھوٹ بولنے پر سینیٹ میں مواخذے سے بال بال بچے تھے ٗ لیکن اِس کڑے احتساب کی روایت صرف داخلی سیاست اور حکمرانی تک محدود ہے جبکہ دوسری قوموں کیساتھ اِن حکمرانوں کا طرزِ عمل بالعموم جھوٹ ٗ فریب اور زہریلے پروپیگنڈے پر مبنی ہوتا ہے۔

جب امریکہ نے عراق پر حملہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا ٗ تو صدر صدام حسین کیخلاف پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اُس نے انسانیت کی خوفناک تباہی کے کیمیائی ہتھیار بنا رکھے ہیں۔ اِس ضمن میں برطانوی سراغ رسانوں کی ایک رپورٹ بھی سیکورٹی کونسل میں پیش کی گئی۔ اتحادی فوجوں نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ٗ مگر اُنہیں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کہیں نہ ملے۔ بعد میں اعتراف بھی کر لیا گیا کہ رپورٹ بے بنیاد اور غلط مفروضوں پر مشتمل تھی۔ مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کا یہ معمول بن گیا ہے کہ جس ریاست کے خلاف طاقت استعمال کرنا مقصود ہو ٗ پہلے اُس کے خلاف منفی مہم چلتی ہے اور ایک خاص فضا پیدا کرنے کے بعد فوجیں اُتار دی جاتی ہیں۔ افغانستان میں بھی یہی کچھ ہوا۔

نائن الیون میں جن بلند و بالا عمارتوں سے طیارے ٹکرائے ٗ اُن کو اُڑانے والوں میں افغانستان اور پاکستان کے باشندے شامل نہیں تھے ٗ مگر سب سے زیادہ سزا اِن دو ملکوں ہی کو دی گئی ہے۔ پاکستان کو دھمکی ملی تھی کہ اگر اُس نے امریکی مطالبات مان لینے سے انکار کیا ٗ تو اُسے پتھر کے زمانے میں بھیج دیا جائے گا۔امریکی قیادت کے ذہنوں میں وقفے وقفے سے عجیب و غریب لہریں اُٹھتی رہتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ اِس پر این پی ٹی کا بھوت سوار تھا کہ ایٹمی پھیلائو روکنے کے معاہدے پر سب ممالک دستخط کریں۔بعدازاں سی ٹی بی ٹی کا بڑا چرچا ہوا۔ پاکستان میں بھی کچھ عناصر سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کیلئے اپنی حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ اِس موقع پر لاہور کے ایک تھنک ٹینک پائنا کے تحت قومی سیمینار منعقد ہوا جس میں اتفاقِ رائے سے یہ قرارداد منظور کی گئی کہ پہلے امریکہ اِس معاہدے پر دستخط کرے ٗ تب پاکستان اِس کے مضمرات پر غور کرے گا۔

اِس قرارداد کے بعد امریکی دباؤ میں کمی آتی گئی اور آج وہ معاہدہ قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ دراصل اُس نے یہ روش اپنائے رکھی ہے کہ جو ملک اُسے پسند نہ ہو ٗ اُس کے خلاف یہ الزام لگا دیا جائے کہ وہ ایٹمی آلودگی پھیلانے کا ذمے دار ہے۔ ایک زمانے میں یہ الزام شمالی کوریا اور لیبیا پر بھی لگایا جاتا رہا۔ اِس کی پالیسی یہ ہے کہ کوئی اسلامی ملک ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کر سکے اور اگر وہ اِس راستے پر چلنے کی کوشش کرے ٗ تو اُس پر اقتصادی پابندیاں لگا دی جائیں اور اُسے سیاسی طور پر تنہا کر دیا جائے۔ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے بڑی جاں گسل آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے اور آج اُسے ایک اور زہریلے پروپیگنڈے کا سامنا ہے۔ حال ہی میں مائیکل کوگل مین تواتر سے اِس خیال کا پرچار کر رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کا بڑا امکان ہے جو پاکستان کے حساس ایئر بیس پر حملے کر سکیں گے۔ اصل حقائق سے آنکھیں چرانے والے یہ صاحب اِس نوعیت کا پروپیگنڈا بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان بھارت کے خلاف میدانِ جنگ میں استعمال کرنے کے لیے چھوٹے سائز کے ٹیکنیکل نیو کلیئر ہتھیار تیار کر رہا ہے جن سے خوفناک حادثات کا شدید خطرہ ہے۔ یہ پروپیگنڈا روزبروز تیز ہوتا جا رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر جو کور ایشو کی حیثیت رکھتا ہے ٗ اِس پر ایٹمی تصادم کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مائیکل کوگل مین کو ’’ایٹمی تصادم‘‘ کے زہریلے پروپیگنڈے کو ہوا دینے کے بجائے مثبت انداز میں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پُرامن طریقے سے حل ہو جاتا ہے ٗ تو ایٹمی تصادم کا امکان یکسر ختم ہو جائے گا۔ اِس دیرینہ مسئلے کے منصفانہ حل کے لیے بھارتی اور مغربی میڈیا کے علاوہ سیاست دانوں کو بھی سنجیدہ کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔

بھارت اور پاکستان مئی 1998ء میں ایٹمی طاقت بنے تھے ٗ اُس وقت سے برصغیر میں امن قائم چلا آ رہا ہے۔ بھارت نے 2001ء میں پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کے حملے کو جواز بنا کر پاکستان کی سرحدوں پر اپنی فوجیں جدید اسلحے کے ساتھ دس ماہ تک لگائے رکھیں ٗ مگر اُسے جنگ آزمائی کا حوصلہ نہ ہوا۔ اِسی طرح ممبئی پر دہشت گردوں کے خوفناک حملوں کے بعدوہ پاکستان پر فضائی حملوں کی تیاری کر چکا تھا ٗ مگر اُسے ایٹمی جنگ چھڑ جانے کے خوف سے اپنے قدم پیچھے لے جانا پڑے۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ اِن دونوں حملوں میں بھارتی باشندے اور سی آئی اے کے کارپرداز ایجنٹ ملوث تھے۔ اِن واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت امن کی محافظ اور اچھے تعلقات کی ضامن ہے۔ اِس کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور اِس کا کنٹرول اور کمانڈ سسٹم نہایت عرق ریزی اور سالہا سال کے تجربات کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ غیر جانب دار ماہرین کی نظر میں وہ بھارت کے سسٹم سے بہت بہتر اور قابلِ اعتماد ہے۔ اِن حقائق کی روشنی میں پاکستان کے عوام و خواص امریکی پروپیگنڈے کو یکسر مسترد کرتے ہیں جو بدنیتی ٗ مذموم عزائم اور مغرب کے حکمرانوں کی اسلام دشمنی پر مبنی ہے۔ پاکستان کم سے کم ڈیٹرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ایک ذمے دار اور دنیا کی برادری میں ایک اہم ریاست کی حیثیت سے اپنی ذمے داریوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ اِس نے آج تک ایٹمی پھیلاؤ کی کسی سرگرمی اور کوشش میں حصہ نہیں لیا اور بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی پوری پوری پاسداری کی ہے۔

مغرب پاکستان میں طالبان کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اِس اندیشے کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ وہ ایٹمی اثاثوں پر قابض ہو جائیں گے ٗ مگر ایسا ممکن نہیں ٗ کیونکہ اُن کی حفاظت کے انتظامات بڑے پختہ اور ناقابلِ تسخیر ہیں ٗ البتہ وہ ایٹم بم جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے ٗ وہ مسئلہ کشمیر ہے ٗ کیونکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں چھ لاکھ فوج 66برسوں سے تعینات کر رکھی ہے جو انسانی آزادیوں کو پامال کرتی اور کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو کچلتی رہتی ہے۔ اکیسویں صدی میں اور دنیا کی نام نہاد عظیم جمہوریت کے دامن میںجس بربریت کے مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں ٗ اُن کے ردِعمل میں اہلِ کشمیر بھارت کے یومِ جمہوریہ کو سیاہ دن کے طور پر مناتے اور اپنی برحق جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں۔ پوری دنیا کو اِس نازک ترین مسئلے کے پُرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا اور ایٹمی تصادم کے گرد ایک حصار کھینچنا ہو گا۔ پاکستان تو بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کرنا چاہتا ہے ٗ مگر اِس کے رویے پر تکبر اور بالادستی کی ہوس حاوی ہے اور وہ سرحد پار دہشت گردی کے افسانے تراشتا رہتا ہے جو بلبلوں کی طرح تحلیل ہو رہے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

0 comments:

برما کے واقعات کی تحقیق ضروری ہے

03:36 Unknown 0 Comments


برما (میانمار) میں ایک عرصے سے بدھوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان خونریز فسادات کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس سلسلے کے فسادات کا نیا سلسلہ جنوری کے تیسرے ہفتے میں شروع ہوا ہے۔ برما کی ریاست رخائین میں دونوں گروہوں کے درمیان فسادات میں 30 مسلمان شہید ہونے کی خبریں شایع ہوئی ہیں، ان ہی تازہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ برما کی ریاست رخائین میں پولیس اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی، یہ جھڑپ اس وقت ہوئی جب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، اس جھڑپ کے بعد بدھ شدت پسندوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کیے، جن میں 30 مسلمانوں کے قتل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم کے مطابق پچھلے دو سال میں بدھ انتہا پسندوں نے 25 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا، بے شمار خواتین کی عصمت برباد کی اور عبادت گاہوں کو نذرآتش کیا۔ رپورٹ کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ مسلمان برما سے، بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا ہجرت کر چکے ہیں۔ اس خبر میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا ملکوں نے ان روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

ہمارے قدامت پسند اکابرین کو یہ شکایت رہی ہے کہ روشن خیال لکھاری پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہونیوالے مظالم پر تو قلم اٹھاتے ہیں لیکن برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم انھیں نظر نہیں آتے۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری دائیں بازوں کی قیادت کو جن لکھاریوں سے شکایت ہے ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بلا امتیاز مذہب و ملت ہر اس مظلوم کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں جو زیادتیوں کا شکار ہوتا ہے، وہ مظلوم کو صرف اس کے عقائد کے حوالے سے ہی نہیں دیکھتے بلکہ اسے اشرف المخلوقات یعنی انسان ہونے کے حوالے سے بھی دیکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی مظلوم کو اگر محض اس کے عقائد کے حوالے سے دیکھ کر اس کی حمایت یا مخالفت کی جائے تو اس سے دانستہ یا نادانستہ طور پر نفرتوں اور تعصبات میں اضافہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے اور روشن خیال لکھاری اپنی فطرت میں نفرتوں، تعصبات کا دشمن محبت اور بھائی چارے کا دوست اور پرچارک ہوتا ہے، یہی اس کی پہچان اور خصوصیت ہے۔ برما میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات اگرچہ لگاتار ہو رہے ہیں لیکن اس حوالے سے اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا انکشاف جس امریکی تنظیم نے کیا ہے ہو سکتا ہے وہ اپنی رپورٹ میں حق بجانب ہو لیکن اسے ایک وسیع تر تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ امریکی سامراج کے معروف خفیہ ادارے جب بھی ضرورت سمجھتے ہیں تشدد پسندوں کی خدمات اپنے مکروہ مقاصد کے لیے حاصل کر لیتے ہیں اور ان خدمات کے حصول کے لیے ڈالروں کو پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ عراق میں جب تک صدام حسین کی حکومت قائم تھی عراق فرقہ وارانہ قتل و غارت گری سے محفوظ تھا، جب امریکا نے عراق پر قبضہ کیا تو عراق فرقہ وارانہ قتل و غارت کا مرکز بن گیا۔ آج پورا عراق قتل و غارت میں گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت امریکا اور اس کے حواریوں کو پسند نہ تھی کیونکہ شام ایران کا ایک قریبی اور قابل اعتماد دوست تھا، اس لیے شام میں جھگڑوں کو ہوا دی گئی۔ اب جب امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں تو شام میں بھی حالات کچھ بہتر ہو رہے ہیں۔

ان حقائق کے پس منظر میں برما میں ہونے والے فسادات کا تحقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر بدھ جیسی امن پسند قوم تشدد پر کیوں اتر آئی ہے؟ بدھا کی تعلیمات امن اور بھائی چارے پر مشتمل ہیں، بدھ بھکشو گھر گھر امن و آشتی کا پیغام پھیلانے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، گھر گھر بھیک مانگ کر گزارہ کرنے والی یہ قوم آخر اس قدر متشدد کیوں ہو گئی ہے؟ایسا لگتا ہے کہ یہاں بھی امریکا کا کار فرما ہے اور اس نے بودھوں میں اپنے ایجنٹ شامل کر دیے ہیں۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ برما کے بعض علاقے سخت تشدد کی زد میں ہیں اور تشدد کے یہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف خونریز لڑائیاں بھی لڑتے ہیں اور روایت کے مطابق کمزور فریق کو زیادہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے، لیکن اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اس تشدد کے محرکات کیا ہیں؟ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم محض اس خوف سے کہ کسی فریق کی حمایت سے تشدد کی آگ اور بھڑکے گی سچ اور مظلوم کی حمایت سے دست کش ہو جائیں۔

بات صرف نیت کی ہے، اگر ہم ان متحارب فریقین میں اعتماد کی بحالی، نفرتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمارا رویہ غیر جانبدارانہ اور آگ بجھانے والا ہونا چاہیے۔ اس کے برخلاف اگر ہم آنکھ بند کر کے ظالموں کے خلاف لڑائی کی تلقین کرتے ہیں تو پھر خون خرابے میں اضافہ تو ہو سکتا ہے کمی نہیں ہو سکتی۔ رجعت پسندی اور ترقی پسندی میں یہی بنیادی فرق ہے کہ رجعت پسندی دانستہ یا نادانستہ آگ بھڑکانے کا سبب بنتی ہے اور ترقی پسندی آگ بجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہندوستان میں بدھ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں، اگر برما کے واقعات کو نمک مرچ لگا کر ہندوستان میں پھیلایا جاتا ہے تو کیا اس امکان کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں اور بدھوں کے درمیان محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو جائے؟ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو جو کچھ برما میں ہو رہا ہے ہندوستان میں اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا؟

یہ ایسی نازک اور حساس باتیں ہیں جن پر غور کرنے کی عموماً ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی لیکن یہ چنگاریاں عموماً شعلوں میں بدل جاتی ہیں اور ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔امریکا میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی جس تنظیم نے فسادات کے حوالے سے جو اعداد و شمار میڈیا کو فراہم کیے ہیں کیا یہ اعداد و شمار نہ صرف علاقائی مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پھیلانے کا سبب نہیں بن سکتے۔ حقائق کو نہ جھٹلایا جا سکتا ہے نہ انھیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن بعض حقائق اس قدر نازک اور حساس ہوتے ہیں کہ انھیں طشت ازبام کرنے کا مطلب آگ کو ہوا دینا ہوتا ہے۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش وغیرہ مسلم ملک ہیں۔ اسی انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ان مسلم ملکوں نے روہنگیا برمی مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کیا ہے۔ ظاہر ہے اس خبر کو پڑھنے کے بعد افسوس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مسلم ملکوں نے ان مظلوم مسلمانوں کو پناہ دینے سے کیوں انکار کیا ہے؟ سوال یہ نہیں ہے کہ مظلوم کی حمایت صرف اس لیے ترک کی جائے کہ اس سے فساد خلق کا اندیشہ ہے بلکہ سوال حقیقت حال کے پوری طرح ادراک کا ہے کہ آخر بدھوں اور مسلمانوں میں اس خونریزی کا اصل سبب کیا ہے؟ او آئی سی اور اقوام متحدہ کو ایک مشترکہ وفد برما بھیج کر حقیقت حال کی پوری تخلیق کرانا چاہیے اور اگر ان واقعات میں صرف بدھ قصور وار ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ یہی ایک بہتر اور مثبت راستہ ہے۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

0 comments:

ICC's controversial Test cricket proposal "Big Three" and Pakistan

00:18 Unknown 0 Comments


ICC's controversial Test cricket proposal "Big Three" and Pakistan
Enhanced by Zemanta

0 comments:

Irfan Siddiqui

23:00 Unknown 0 Comments


Irfan Siddiqui is the Urdu columnist, known to be the great supporter of former prime minister of Pakistan, Nawaz Sharif. He started writing his columns on Nawaiwaqt[1]. In July 2008, Irfan Siddiqui left Nawaiwaqt and joined Jang[2]. He has been found criticizing Pervez Musharraf and his regime in Pakistan, very bluntly. He was also unhappy with the late Benazir Bhutto and her Pakistan Peoples Party, and wrote the same in the columns. He is currently serving the Jang group of newspapers.
Enhanced by Zemanta

0 comments:

Rustam Shah Mohmand

22:39 Unknown 0 Comments


Rustam Shah Mohmand is senior Pakistani diplomat, political scientist and a politician who specialises in Afghanistan and Central Asian affairs. He has served as Pakistan's Ambassador to Afghanistan, Interior Secretary of Pakistan and has held position of Chief Commissioner Refugees for around ten years. He is also the central leader of Pakistan Tehreek-e-Insaf and member of the Khyber Pakhtunkhwa Advisory committee headed by Imran Khan which advises the provincial government on development and planning.[1] [2] He graduated in civil engineering and humanities and then joined the civil service of Pakistan.[3][4][5]
Enhanced by Zemanta

0 comments:

Protection of Pakistan Ordinance and Balochistan

22:35 Unknown 0 Comments



جاسوسی ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ اپنے پیاروں کی تلاش اور ان کی رہائی کیلئے دنیا کی تاریخ میں ایک بڑا لانگ مارچ کوئٹہ سے اسلام آباد دو ہزار میل مسافت پا پیادہ طے کرنے والے ماما قدیر اور ان کے ساتھی مرد و خواتین کے منہ پر موجودہ نواز شریف حکومت کی طرف سے متعارف کردہ پی پی او یعنی پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس (ترمیم شدہ) ایک طمانچہ ہے۔ اس آرڈیننس یا انتہائی ظالمانہ قانون میں لاپتہ لوگوں کی غیر قانونی و غیر آئینی نظربندی کو قانونی و آئینی بنانے اور اب تک ہونے والی ماورائے آئین و قانون بلکہ ماورائے عالمی قوانین و خلاف انسانیت جرم کے زمرے میں آنے والی گمشدگيوں اور ان کے ذمہ دار اداروں، اہلکاروں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ماورائے پاکستانی آئین و قوانین خواہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں اور خلاف انسانیت جرائم کے زمرے میں آنے والا یہ نام نہاد تحفظ پاکستان آرڈیننس ان گمشدہ پاکستانی شہریوں اور ان کی گمشدگی پر ان کی مائوں بہنوں کے آنسوئوں، مردہ جسموں اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں واپس ہونے والے بلوچوں و دیگر لاپتہ لوگوں پر ریاست کی سفاکی کا فسطائی قہقہہ ہے۔

ایک آمر کے پروردہ حکمرانوں سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں پاکستان کے لوگو! کیا آپ واقعی سنجیدگی اور یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ ظالمانہ قانون واقعی پاکستان کا تحفظ کر سکے گا یا اس کے شکار لوگوں کو پاکستان سے اور زیادہ بیزار و دور کردے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائرڈ ہونے کی دیر تھی اور خود کو اسپتال میں دل کے درد میں داخل کرانے والا ایف سی کا ڈی جی بھی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اٹھ آیا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل آئین و قانون کی حدود میں نہیں ماورائے ائین و قانون ریاستی رٹ میں ہے۔ایف سی کے سربراہ کے ایسے بیان کے چوبیس گھنٹوں بعد ایوان صدر سے ریاستی و سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں لوگوں کی گمشدگيوں کے تحفظ کا آرڈیننس نافذ کردیا گیا۔ پاکستان کے شہریوں کو قانون و ریاست کے رکھوالوں کے ہاتھوں ڈاکوئوں کی طرح اغوا اور اغواکاروں کے تحفظ کو بدقسمتی سے پاکستان کے تحفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ملک کے بانی کے اصولوں اور افکار سے بھی مذاق ہے جنہوں نے کہا تھا ’’پاکستان کے اندر کسی بھی شخص کو عدالت قانون سے رجوع کئے بغیر ایک سیکنڈ کیلئے بھی نظربند یا قید نہیں رکھا جا سکتا‘‘۔

نیز یہاں تحفظ پاکستان کے نام پر کسی بھی شخص کو ریاستی و سیکورٹی ادارے تین ماہ تک کسی بھی عدالت سے رجوع کئے بغیر قید رکھ سکتے ہیں اور اٹھائے جانے والے شخص کی قید کی جگہ خفیہ ہو گی۔ جیسے اب تک ہزاروں گمشدہ لوگوں کی برسوں سے گمشدگیوں کے مقامات اور گم کردہ ادارے معلوم ہوتے ہوئے بھی نامعلوم بتائےجاتے ہیں۔راتوں کو ان کی چیخیں کہیں چڑیا گھروں کے جانور بھی سنتے ہیں۔تحفظ پاکستان آرڈیننس ایسے بدنام زمانہ قوانین کا تسلسل ہے جب پاکستان ڈیفنس رولز یا ڈی پی ار ذوالفقار علی بھٹو سمیت پاکستان میں اس کے پیشروئوں اور اس سے قبل غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی استعماری حکومت نے نافذ کئے تھے جن کے تحت خان عبدالغفار اور جی ایم سید سمیت وقت کی حکومتوں کے ہزاروں سیاسی مخالفین قید کئے جاتے رہے تھے۔

حبیب جالب کی نظمیں شوق کے ساتھ لیکن غلط انداز میں پڑھنے والے حکمران کبھی حبیب جالب کی ان سطروں کو بھی اپنے ضمیر کے ترازو میں تول لیتے:

تم سے پہلے جو یہاں ایک شخص تخت نشیں تھا

اس کو بھی خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا

اس سے قبل جب سے ملک بنا تو حکمرانوں نے چوراچکوں، غنڈوں، بدمعاشوں کو کم اور اپنے سیاسی مخالفین کو کبھی پبلک سیفٹی ایکٹ، تو کبھی کرائم کنٹرول ایکٹ، تو کبھی فرنٹیئر ایکٹ، تو کبھی کرمنل ٹرائبز ایکٹ، تو کبھی ڈیفنس آف پاکستان میں قید رکھا۔ برسبیل تذکرہ آزادی کے ابتدائی سالوں میں ہزاروں سالوں سے سندھ کے جم پل سیکڑوں معزز ہندو شہریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند رکھ کر ان کی آزادی فقط بھارت نقل مکانی کرنے پر عمل میں لائی گئی تھی۔ وہ درویش منش سادھو واسوانی بھی جس نے جناح صاحب کے فوت ہونے پر برت یعنی روزہ رکھا تھا اور قرآن کی تلاوت کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اسّی سال کی عمر سے زائد کے بزرگ ہندو شہری اور حیدرآباد دیال داس کلب کے صدر کو کسی ذاتی رنجش اور غلط سی آئی ڈی رپورٹوں پر ڈیفنس اف پاکستان رولز کے تحت نظربند رکھا۔ آپ فوجی آمر ضیاء کو کچھ بھی کہیں لیکن اس نے بغض معاویہ میں ہی سہی ڈیفنس آف پاکستان رولز ختم کرتے ہوئے سیکڑوں سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ آج اس کی باقیات نے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں بلوچوں سمیت دیکر گمشدگان کو غائب رکھا ہوا ہے۔ حال ہی میں مستونگ کے قریب دہشت گرد حملوں میں نیویارک میں رہنے والی نوجوان ہزارہ خاتون سماجی ورکر شازیہ کا پولیس والا بھائی بھی شامل تھا جو اپنے دوسرے ساتھی پولیس والوں کے ساتھ حملہ آور کے خلاف زائرین کی حفاظت کرتے قتل ہوا۔ یہ دکھی بہن کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی نسل کشی سے بھاگ کر ترک وطن پر مجبور ہوئی۔

ان قاتل جتھوں پر تحفظ پاکستان آرڈیننس کا اطلاق کیا ہوا۔

یہ تو وہ حکمران ہیں جنہوں نے سندھ میں ٹنڈو بہاول میں وردی والوں کے ہاتھوں ہلاک کئے جانے والے نو ہاریوں کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا تھا- اب اغوا کئے جانے والوں میں جب اغوا ہوئے تو مائوں کے ساتھ شیر خوار بچوں کو بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نام پر غیر معینہ مدت تک زیر قید و تشدد رکھا جائے گا۔ ابھی پی پی او یا تحفظ پاکستان آرڈیننس جیسے قانون پر صدر ممنون حسین کے دستخطوں کی سیاہی ہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بلوچستان کے خضدار علاقے توتک جہاں اسٹیبلشمنٹ حامی مسلح جتھوں بمشمول شفیق مینگل گروپ کی دہشت قائم ہے وہاں سے اجتماعی قبر برآمد ہوئی ہے جہاں پندرہ کے قریب تاحال گمنام مسخ شدہ لاشوں کو ایک جگہ دفن کردیا گیا تھا۔ زیادہ تر قیاس آرائی یہ کی جارہی ہے کہ یہ اجتماعی قبر میں دفن کی گئی لاشیں گمشدہ بلوچ قوم پرستوں یا علیحدگی پسندوں کی ہوسکتی ہيں۔ اگرچہ آزاد ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے لیکن سرکاری یا غیر سرکاری طور ، علاقے کے صحافی ( وہ علاقہ جہاں صحافی رپورٹنگ پر قتل کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ہوں کہ شدت پسند مسلح علیحدگی پسندوں یا اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ قاتل جتھوں کے ہاتھوں) اجتماعی قبر اور اس میں دفن کی گئی پندرہ لاشوں کی دریافت کے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کے حوالے سے بھی تصدیق کرتے ہیں۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز والے ان برآمد ہونے والی پندرہ لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ اقوام متحدہ کے زیر انتظام کرانے کا مطالبہ کرتے سنے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوا ہے جب بلوچستان میں بے بس ڈاکٹر مالک کی حکومت شورش زدہ صوبے میں اسٹیبلشمنٹ نواز مسلح جتھوں کو غیر مسلح کرنے کی باتیں کر رہی تھی۔

ظاہر ہے کہ اجتماعی قبروں میں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں سے پاکستان کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ایسا ماضی میں کبھی ممکن ہوسکا نہ افغانستان میں ، نہ عراق و شام میں نہ ہی کشمیر اور کمبوڈیا میں جہاں بھی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔بلوچوں کی مسخ شدہ اجتماعی قبروں کی برآمدگی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو معاملے کی تحقیقات اور اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے مداخلت کے مطالبے کی پٹیشن پر پاکستان کے دیگر صوبوں میں روشن خیال اور امن دوست لوگوں نے بھی دستخط کئے ہیں جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی اور زبانوں و خیالات سے ہے۔

’’جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان گیا‘‘ اگر حبیب جالب آج ہوتے تو پنجاب میں ماما قدیر کے پیدل مارچ میں ہمقدم ہوکر اپنی ایسی نظمیں پڑھ رہے ہوتے۔

لیکن تخت لاہور کی بےرحم اکثریت والی حکومت سے نام نہاد چھوٹے صوبوں اور قومیتوں کو انصاف کی توقع تاحال حسب ماضی عبث ثابت ہوئی ہے۔ وہ صرف زرداری کے ساتھ میوزیکل چیئر میں واری وٹے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کتنے سندھی اور شیعہ عقیدے کے لوگ حکمران پارٹی کی قیادت میں شامل رہ گئے ہیں؟ کتنے ہزارے ہیں۔بلوچ اپنی سرزمین پر جلاوطن ہیں۔ جس کی ایک مثال ڈیرہ موڑ کشمور کے قریب بگٹی قبائل کے مرد عورتیں اور بچے سردی میں ٹھٹھرتے اپنے گھروں کو ڈیرہ بگٹی جانے کو بیتابی سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ یہاں کوئی طاہر القادری نہیں تو میڈیا کی بھی کوئی کوریج نہیں۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ

 Protection of Pakistan Ordinance and Balochistan

Enhanced by Zemanta

0 comments:

ایک کتاب جس کی تقریب رونمائی نہ ہو سکی

22:19 Unknown 0 Comments


ملالہ کی کتاب ــ’’I Am Malala‘‘کچھ ماہ پہلے شائع ہو چکی۔ اُس کتاب میں کیا کچھ اسلام اور پاکستان کے خلاف لکھا گیا وہ بھی سب کے سامنے آچکا۔ سب سے اہم یہ کہ اس کتاب میں سلمان رشدی جیسے ملعون کی انتہائی شر انگیز اور اسلام دشمن کتاب (Satanic verses)کوآزادی رائے کے حق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ ایسی کتاب کی پاکستان میں تقریب رونمائی کرنا اور وہ بھی پشاور جیسے علاقہ میں میری نظر میں کسی شرارت سے کم نہ تھی۔

صوبہ خیبر پختون خوا تو پہلے ہی سنگین دہشتگردی کا شکار ہے۔ ’’I Am Malala‘‘ جیسی متنازعہ کتاب کے لیے تقریب رونمائی منعقد کرنا اور وہ بھی ایک سرکاری تعلیمی ادارہ میں وہ کسی خطرہ سے کم نہ تھا۔اس تقریب کو سیکیورٹی فراہم کر کے محفوظ تو بنایا جا سکتا تھا مگریہ عمل اشتعال انگیز تھا کیوں کہ اس کی وجہ سے دہشتگردی میں بھی اضافہ ہو سکتا تھا۔

سوچنے کی بات تو یہ تھی کہ کیا ایسی کتاب کی پاکستان کے کسی بھی حصہ میں تقریب رونمائی کی جاسکتی تھی مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے اس کام کے لیے پشاور کو چن لیا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے معاملہ کی نذاکت کو دیکھتے ہوئے اس تقریب کے انعقاد کو روک کر بہت اچھا فیصلہ کیا مگر میڈیا اس پر لال پیلا ہو گیا۔ ہر طرف شور شرابہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ سب نے تحریک انصاف کی حکومت کو خوب کوسا اور انہیں بُرا بھلا کہا۔ میڈیا کا یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ عمران خان کو بھی معذرت خوانہ رویہ اختیار ادا کرنا پڑا۔ وہ ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت سے نالاں نظر آئے۔

مجھے نہیں معلوم کہ عمران خان نے ملالہ کی کتاب پڑھی بھی ہے یا نہیں مگر میڈیا میں شور شرابا کرنے والوں میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ دیکھنے اور سننے والوں کو یہ بتائے کہ اس کتاب میں کیا کچھ لکھا گیا، کس انداز میں ملعون سلمان رشدی کی کتاب آزادی رائے کے حق کے طور پر برداشت کرنے کاسبق پڑھایا گیا، کیا کچھ ناموس رسالت کے قانون کے بارے میں کہا گیا، عورتوں کی گواہی کے بارے میں کیا رائے زنی کی گئی، پاکستان کو کس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے تو بہت افسوس ہوا کہ ملالہ یوسف زئی کو اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کر لیا گیا۔میں تو اس کتاب اور اس سے منسلک تنازعات پر پہلے ہی کچھ کالم لکھ چکا۔ مجھے تو اس بات کا یقین ہے یہ کتاب تو لکھی ہی مغرب کے لیے گئی تھی جس کا مقصد ہی مغرب کو خوش کرنا اور پاکستان اور اسلام کے بارے میں منفی پیغام دینا تھا۔

اس کتاب میں تو بار ہا پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کا ذکر کیا گیا مگر ایک بار بھی Prophet یا Holy Prophet کے ساتھ PBUH یا SAW نہیں لکھا گیا۔ ایسی کتاب کا ہمارے سے کیا تعلق۔ اس کتاب سے منسلک تنازعات جب چند ماہ قبل سامنے لائے گئے تو ملالہ کے والد نے حامد میر صاحب کو فون کر کے بتایا کہ وہ اس کتاب کے متنازعہ حصوں کو حدف کر دیں گے۔ اگر ایسا ہو تو بہت اچھا مگر جس کتاب کو میں نے پڑھا اور جس کو پاکستان مخالف کرسٹینا لیمب نے لکھا وہ اس قابل نہیں کہ اُسے ہمارے بچے پڑھیں۔ مگر میڈیا نے ویسے تو کتاب کے متنازعہ حصوں کے بارے میں عمومی طور پر عوام کواندھیرے میں رکھا مگر اس بات پر خوب شور مچایا کہ کتاب کی تقریب رونمائی کی خیبر پختونخوا حکومت نے اجازت کیوں نہ دی۔ میڈیا نے جس انداز میں اس معاملہ کو اٹھایا اور جیسے سیاستدانوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دیا گیا اُس سے یہ ممکن ہے کہ اب کچھ اور لوگ، کچھ اور تنظیمیں اور کچھ اور این جی اوز ملالہ کی کتاب کی رونمائی کی لیے پشاور اور کچھ دوسرے شہروں میں منعقد کرانے کی کوشش کریں۔ شرارت کے لیے یہ اچھا تماشہ ہو گا اور اس نوعیت کی تقاریب منعقد کرنے والوں کو بھی خوب مفت کی پبلسٹی ملے گی۔ ایسے میں ڈالرز اور امریکا و یورپ کے ویزے بھی ملنے کا خوب موقع ملے گا۔ باقی رہا عقیدہ، ایمان، اسلام اور پاکستان، اُس کی کسی کو کیا فکر۔ فکر ہے تو اُس نام نہاد حق آزادی رائے کی جس کو بنیاد بنا کر آئے دن مغرب اسلام دشمن مواد شائع کرتا ہے تا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو زبردست ٹھیس پہنچائی جائے۔ اور اس کے رد عمل میں اگر مسلمان احتجاج کریں تو انہیں شدت پسند اور عدم برداشت ہونے کے طعنہ دیے جائیں۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

0 comments:

Rising poverty in Cholistan

05:57 Unknown 0 Comments


Rising poverty in Cholistan 
Enhanced by Zemanta

0 comments:

Muslim Achievements by Shahnawaz Farooqi

05:41 Unknown 0 Comments

Muslim Achievements by Shahnawaz Farooqi
Enhanced by Zemanta

0 comments:

Smart Phones in Pakistan

03:39 Unknown 0 Comments


Smart Phones in Pakistan
Enhanced by Zemanta

0 comments: