Showing posts with label Wusat Ullah Khan. Show all posts
۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں.......
دھرنے پر رفتہ رفتہ یکسانیت نے دھرنا دے دیا ہے۔ہز ماسٹر وائس کے گھومنے والے ریکارڈجیسی تقاریر سن سن کے میری ٹی وی اسکرین تو جمائیاں لے رہی ہے۔ یہ حال ہوگیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بس کہتا ہوں دھرنا اور ٹی وی مجھے گھورتے ہوئے آن ہوجاتا ہے۔مجھے سب سے زیادہ فکر ان سیکڑوں دھرنا بچوں کی ہے جن کے اسکول کھل گئے ہیں مگر وہ پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھے ع سے عمران ، ط سے طاہر ، ن سے نواز ، گ سے گو اور د سے دھرنا پڑھ رہے ہیں۔سب منتظر ہیں کب نو من تیل جمع ہوگا کب رادھا ناچے گی۔
ہمارے دوست سلمان آصف کے فیس بک پیج پر لگی ایک تضمین کے مطابق ،
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجےریڈ زون میں دھرنا ہے اور ناچ کے جانا ہے
جو دھرنے سے باہر ہیں انھوں نے بیانات کے چھولوں، ٹاک شوز کے چپس، موقع پرستی کے کھلونوں ، بڑھکوں کے دہی بڑے ، مصالحانہ لہجوں کے جھمکوں ، دھمکیوں کے بن کباب اورگالم گلوچ کی کڑاہی کے اسٹال لگا لیے ہیں۔شاہراہوں پر جو کنٹینرز اب تک پکڑے نہیں جاسکے وہ پولیس سے ایسے چھپ رہے ہیں جیسے بلیک اینڈ وائٹ دور کی پنجابی فلموں کی مٹیار ولن سے بھاگتی ہے۔
اگر زندگی دھرنا فری ہوتی تو بہت سی ایسی خبریں بھی ریڈار پر چمک سکتی تھیں جن پر دھرنا پورے وزن کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔جیسے شمالی وزیرستان کا آپریشن اور اس سے متاثر ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی نہ ختم ہونے والی مصیبتیں میڈیا اور ناظرین و قارئین کے ذہن سے دم دبا کر بھاگ نکلی ہیں۔اب تو آئی ایس پی آر نے بھی فوجی آپریشن پر روزانہ کا مختصر سا پریس ریلیز جاری کرنا بند کردیا ہے۔جب نشر اور شایع ہی نہیں ہونا تو خامخواہ کاغذ ضایع کرنے کا فائدہ۔
بلوچستان کے ضلع خضدار میں نامعلوم افراد کی اجتماعی قبروں کی جانچ کرنے والے کمیشن کی رپورٹ میںذمے داروں کے تعین میں ناکامی کی خبر اگر عام دنوں میں سامنے آتی تو کم ازکم دو تین روز ضرور نشریاتی اور چائے خانی چہ میگوئیاں ہوتیں لیکن یہ خبر بھی ریٹنگ کی اجتماعی قبر میں دفن ہو کے رہ گئی۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور سیکیورٹی دستوں کے درمیان جھڑپیں اور آپریشن پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرچکے ہیں۔کوئٹہ ایئرپورٹ پر ناکام حملہ ہوچکا ہے۔لیکن ان میں سے کوئی خبر دھرنے سے بڑی نہیں۔
بھارت کی نریندر مودی حکومت نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی پاکستانی سفارت کاروں سے معمول کی ملاقات کو جواز بنا کر خارجہ سیکریٹریوں کا مجوزہ اجلاس یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا۔خود بھارت کے اندر مودی حکومت کے اس اقدام پر حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جب کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ حکمتِ عملی پر کام کررہی ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی تحفظات ختم کرکے کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں کی طرح ایک ریاست بنانے کی بھی تیاری جاری ہے۔عام دنوں میں یقیناً پاکستان میں سرکاری و نجی سطح پر اس پیش رفت کی بابت کچھ نہ کچھ بحث و مباحثہ ضرور ہوتا مگر دھرنا۔۔۔۔۔
انھی دنوں میں ہونے والے مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کے طے شدہ دورے بھی آگے بڑھا دیے گئے۔ چین کے اعلی سطح کے وفد نے بھی پہلے بستر بند باندھا پھر یہ کہتے ہوئے دوبارہ کھول دیا کہ تسی دھرنیاں تو نبڑ لوو ساڈی خیر اے۔
صرف ایک جماعتِ اسلامی ہے جو دھرنوں کے رعب میں آئے بغیرغزہ کے فلسطینوں کے حق میں کسی نہ کسی شہر میں احتجاجی ریلیاں نکالتی رہتی ہے۔لیکن کراچی میں ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی غزہ ریلی کو بھی دھرنا چبا گیا۔کیونکہ کراچی کے بیشتر کیمرے بھی ان دنوں ڈی چوک میں ہی فلمیا رہے ہیں۔لگتا ہے ڈی چوک کے باہر پورے پاکستان میں خیریت ہے۔کراچی میں مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ دو سطری خبر ہوگئی ہے۔جرائم کا گراف بری طرح منہ کے بل گرا ہے۔پولیو کی ٹیمیں ہنستے گاتے ویکسین بانٹ رہی ہیں۔طالبان چھٹی لے کر کسی پرفضا مقام پر آرام کررہے ہیں۔اسپتالوں کے خالی بستر مریضوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اسکولوں میں مسلسل چھ گھنٹے کلاسیں ہورہی ہیں۔ سڑک کے حادثات ماضی بن چکے ہیں۔تمام سرکاری ملازمین نو سے پانچ تک اپنی اپنی میزوں پر فائلوں میں گم ہیں۔دھاڑی مزدوروں کے پاس اچانک سے اتنا کام آگیا ہے کہ ان کے نخرے ہی نہیں سما رہے۔سچ ہے تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔
مجھے یہ اندازہ تو نہیں کہ حالات پکی سڑک کی جانب جارہے ہیں کہ کسی ایسی پگڈنڈی پر چڑھ چکے ہیں جو گھنے جنگل میں جا کر کہیں گم ہوجائے گی۔مگر اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب تک جو بھی کچھ ہوا اس میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہے۔گولیاں اگر چل بھی رہی ہیں تو منہ سے۔سینے چھلنی بھی ہو رہے ہیں تو طعنوں سے۔تصادم ہو بھی رہا ہے تو فیس بک اور ٹویٹر کے ہتھیاروں سے۔سیاسی جماعتوں کی اکثریت پرائی آگ پر ہاتھ تاپنے اور کیک میں سے اپنا حصہ لینے سے زیادہ کیک بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔چیخنے والے بھی مارشل لا کے خلاف ہیں اور ان کے منہ پر ہاتھ رکھنے والے بھی مارشل لا نہیں چاہتے۔خود مارشل لا والے بھی مارشل لا کی نوبت سے بچنا چاہتے ہیں۔مخالفین ایک دوسرے کو زخمی ضرور کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی کسی کو مارنا نہیں چاہتا۔دل میں البتہ یہ خواہش ہے کہ سامنے والے کو پھانسی لگ جائے لیکن رسے سے نہیں بلکہ خودکشی کے دوپٹے سے۔
اس سے بھی زیادہ مثبت پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی موجودہ پاکستان نہیں چاہتا۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں۔اگر بن گیا تو سینتالیس کے جناحی، اٹھاون کے ایوبی، اکہتر کے ذوالفقاری، ستتر کے ضیائی اور ننانوے کے مشرفی پاکستان کے بعد یہ چھٹا نیا پاکستان ہوگا۔لیکن اگر چھٹے پاکستان میں بھی گذشتہ پاکستانوں کی طرح بیڈ روم فوج ، ڈرائنگ روم پنجاب ، باورچی خانہ سندھ ، دالان خیبر پختون خواہ ، واش روم بلوچستان اور چھت گلگت بلتستان اور فاٹا کو الاٹ ہوئی تو پھر ساتویں پاکستان کا نقشہ بھی ابھی سے تیار رکھیں۔۔۔
وسعت اللہ خان
اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے........
معروف یہودی مورخ آئزک ڈوشر کہتے ہیں کہ جو لوگ اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہودی شوق سے نہیں آئے بلکہ زمانی جبر انھیں فلسطین کھینچ کے لایا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک یہودی نے جان بچانے کے لیے جلتی عمارت سے چھلانگ لگائی اور اتفاقاً نیچے کھڑے فلسطینی پہ جا گرا۔ یوں وہ فلسطینی بھی اچھا خاصا زخمی ہوگیا۔ایسے حالات میں آپ چھلانگ لگانے والے کو کتنا قصور وار ٹھہرائیں گے؟
آئزک ڈوشر کی دلیل میں خاصا وزن ہے مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی ، جب یورپ کی جلتی ہوئی عمارت سے جان بچانے کے لیے یہودی نے نیچے چھلانگ لگائی تو جو فلسطینی اس کے بوجھ تلے دب کر ہڈیاں تڑوا بیٹھا اس سے معذرت کرنے یا مرہم پٹی کے بجائے اسے مارنا کیوں شروع کردیا اور پھر اس گرنے والے یہودی کی چوتھی نسل اس فلسطینی کی چوتھی نسل کو کیوں مار رہی ہے ؟احساسِ جرم بھلے انفرادی ہو کہ اجتماعی اس سے دو طرح سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یا تو آپ یہ اعتراف کرکے دل ہلکا کرلیں کہ مجھ سے زیادتی ہوگئی اور اب میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایک احساسِ جرم کو دبانے کے لیے اس پر دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں جرم کا بوجھ رکھتے چلے جائیں اور آخر میں ایسے نفسیاتی مریض بن جائیں جو اس احساس سے ہی عاری ہو کہ کیا جرم ہے اور کیا جرم نہیں۔
پہلا گروہ جس نے نازی جرائم میں شرکت یا خاموش کردار ادا کرنے کا کھلا اقبال کرکے ذہنی کش مکش سے نجات حاصل کرلی، وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن قوم تھی۔مغربی جرمنی نے نہ صرف نازی نظریے کو کالعدم قرار دیا بلکہ ہٹلر کے ستم گزیدہ یہودیوں کو ان کی املاک لوٹائیں اور متاثرین کو اسرائیلی ریاست کی معرفت لگ بھگ پانچ ارب ڈالر معاوضہ بھی ادا کیا۔مگر کیا ستم ظریفی ہے کہ نازیوں کا نشانہ بننے والے یہودیوں نے کنسنٹریشن کیمپوں سے چھوٹنے کے تین برس کے اندر ہی اپنی مظلومیت خود غرضی اور ظلم کے ہاتھ فروخت کردی اور فلسطینیوں کو اپنی مجبوریاں سمجھانے کے بجائے انہی کے سینے پرچڑھ بیٹھے۔اپنی بحالی کی بنیاد فلسطینیوں کی بے گھری پر رکھی اور دور دور تک احساسِ ندامت بھی نہیں۔
صیہونی اسرائیلی کہتے ہیں کہ انھیں احساسِ جرم کیوں ستائے۔وہ تو اپنے آبا کی زمین پر دوبارہ آن بسے ہیں۔ یہ فلسطینی تھے جنہوں نے ساڑھے تین ہزار سال پہلے یہودیوں کی چھوڑی زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ہم نے تو بس انیس سو اڑتالیس میں قبضہ چھڑایا ہے۔کیا اپنی زمین واپس لینا اتنا ہی بڑا جرم ہے ؟اب میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ مورخ آئزک ڈوشر کا نظریہِ مجبوری مانوں یا صیہونیت کا نظریہِ سینہ زوری۔اگر بیک وقت دونوں نظریے بھی تسلیم کرلوں تب بھی دونوں نظریات میں معذرت یا افہام و تفہیم کی روح کا شائبہ تک نہیں۔کیا یہ کسی مبنی بر حق قوم کی ثابت قدمی ہے یا پھر احساسِ جرم کو دبانے کے لیے مسلسل کوشاں قوم کی اکڑ۔مجھے تو پیروں کے نشانات ثابت قدمی سے زیادہ احساسِ جرم کی پیداوار اکڑ کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔
کیا یہ احساسِ جرم سے نگاہیں چرانے کی کوشش نہیں کہ ہر اسرائیلی بچے کو ہوش سنبھالتے ہی گھر اور اسکول میں ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ یہودی تاریخی اعتبار سے دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے۔فلسطینی پیدائشی قاتل ہیں اور ان کی یہودیوں سے نفرت بلا جواز ہے۔فلسطینی ہماری طرح کے انسان بھی نہیں۔اب جب ایک بچہ اس طرح کی باتیں مسلسل سنتا سنتا جوان ہوگا تو اس کا رویہ فلسطینوں سے کس طرح کا ہوگا۔یہ جاننے کے لیے ارسطو ہونا بالکل ضروری نہیں۔ایک بوڑھے اسرائیلی کو تو خیر جانے دیجئے۔نفرت کی گھٹی پر پلنے والی نئی نسل کا کیا حال ہے اس کی ایک مثال خوبرو ایلت شاکید ہے جو اسرائیل بننے کے اٹھائیس برس بعد پیدا ہوئی۔ یونیورسٹی گریجویٹ اور کمپیوٹر انجینئر ہے۔اس وقت نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہابیت ہایہودی(یہودی مادرِ وطن)کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ (کنیسٹ)کی رکن ہے۔گذشتہ ہفتے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر یہ محترمہ رکنِ پارلیمان کیا لکھتی ہیں۔
’’ ہر دہشت گرد کے پیچھے بیسیوں ایسی عورتیں اور مرد ہیں جن کی مدد اور تائید کے بغیر وہ دہشت گرد نہیں بن سکتا۔چنانچہ یہ سب کے سب لوگ مسلح جنگجو کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ اور جو جو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنا اس کا خون ان سب کی گردن پر ہے۔ان میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو اپنے دہشتگرد بچوں کی لاشوں کو پھولوں اور بوسوں کے ساتھ جانبِ جہنم رخصت کرتی ہیں۔انصاف یہی ہے کہ ان ماؤں کو بھی ان کے بیٹوں کے ساتھ روانہ کردیا جائے۔اور ان کے گھر بھی مسمار کردیے جائیں جہاں رہتے ہوئے وہ سانپ پیدا کرتی ہیں۔بصورتِ دیگر یہ سنپولیے ہی پیدا کرتی رہیں گی‘‘۔(مذکورہ تحریر نازی کنسنٹریشن کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والوں کی نئی نسل کے جذبات سے زیادہ ہٹلر کی سوانح حیات ’’ مین کیمپف ’’ کا کوئی اقتباس لگتا ہے)۔ایلت شاکید کی اس تحریر کو دو گھنٹے کے اندر فیس بک پر ایک ہزار سے زائد اسرائیلیوں نے شئر اور پانچ ہزار سے زائد نے لائیک کیا۔سوچئے کہ ایک دن کنیسٹ کی یہ رکن ایلت شاکید وزیرِاعظم بن جائے تو پھر؟؟؟؟چلیے مان لیا کہ ایلت کی تحریر کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئیے کیونکہ یہ اس دن لکھی گئی جب تین اغوا شدہ اسرائیلی نو عمروں کی لاشیں غربِ اردن کے کسی ویرانے سے ملیں۔ لیکن اس سے اگلے روز ایک پندرہ سالہ فلسطینی بچے محمد خدیر کی جلی ہوئی لاش ملی۔ تب کیا کسی فیس بک یا ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کسی اسرائیلی نوجوان نے اظہارِ افسوس کیا؟ اگر کیا بھی ہوگا تو اسے اتنے لوگوں نے شئیر نہیں کیا ہوگا جتنی محمد خدیر کی وہ تصویر شئیر ہوئی جس کے نیچے لکھا تھا ’’نوعمر فلسطینی دہشت گرد‘‘۔اور جب اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں نے محمد خدیر کے امریکا سے چھٹیوں پر آئے ہوئے نو عمر کزن طارق ابو خدیر کو مار مار کے اس کا چہرہ اتنا بگاڑ دیا کہ ہونٹ سوجھ کے باہر کی طرف لٹک پڑے تو اسرائیلی ٹویٹر پر جو تصویر سب سے زیادہ شئیر ہوئی اس میں ایک طرف طارق ابو خدیر کا سوجھا ہوا چہرہ اور ساتھ ہی ایک خنزیر کی تھوتھنی بھی دکھائی گئی۔تین اسرائیلی نو عمروں کے قتل میں تو نیتن یاہو حکومت کو فوراً حماس کا ہاتھ نظر آگیا اور اس کے نتیجے میں غزہ کے لگ بھگ دو سو فلسطینی اب تک اپنی جانوں کی قیمت ادا کرچکے لیکن محمد خدیر کو زندہ جلانے کے شک میں جن چھ اسرائیلی نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے یہ اطمینان کیا جائے گا کہ کیا واقعی یہی قاتل ہیں؟ کیونکہ ایک مہذب معاشرے میں انصاف و قانون کے تمام بنیادی تقاضے پورے ہونے ضروری ہیں۔
اسرائیل تو ویسے بھی مشرقِ وسطیٰ کے بے ہنگم و وحشی سمندر میں جمہوریت کا جزیرہ مانا جاتا ہے۔ ایسی جمہوریت جس میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عربوں کو بھی ووٹ دینے اور اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تل ابیب میں کوئی اسرائیلی یہودی کسی اسرائیلی عرب کو اپنا اپارٹمنٹ کرائے پر دے دے گا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حکومت یہودیوں آبادکار بستیوں کی طرز پر اسرائیلی عربوں کو بھی بستیاں بنانے کی اجازت دے یا پھر انھیں آسان شرائط پر مکان بنانے کے لیے قرضے دیتی پھرے۔اسرائیل جو غربِ اردن میں انیس سو سڑسٹھ کے بعد سے اب تک سات لاکھ سے زائد یہودی بسا چکا ہے۔اس جمہوریت میں ایک بھی نئی عرب بستی بسانے کی اجازت نہیں۔اور اس جمہوریت کے زیرِ تسلط مقبوضہ فلسطینوں کے ساتھ جو رویہ ہے وہ کسی بھی جمہوری ملک کی تاریخ کی انہونی مثال ہے۔برطانوی زیرِ انتداب فلسطین میں ارگون جیسی صیہونی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ مینہم بیگن اسرائیل میں لیخود پارٹی بنا کر یا صابرہ اور شتیلا کے قتلِ عام کا ذمے دار شیرون اگر وزیرِ اعظم بن جائے تو یہ عین جمہوری عمل ہے۔لیکن حماس اگر شفاف انتخابات کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی میں برسرِ اقتدار آجائے تو یہ دہشت گردی ہے۔
غزہ پر اسرائیل اس لیے مسلسل ایک ہفتے سے پوری فوجی طاقت استعمال کررہا ہے کیونکہ حماس کے شرارتی لونڈے بچارے اسرائیلیوں پر ایک ہزار سے زائد راکٹ برسا چکے ہیں۔مگر یہ کیسے اللہ مارے راکٹ ہیں جن سے ایک اسرائیلی بھی نہیں مرا۔ ان ’’ریکٹوں’’ سے تو اسرائیل کے وہ بم اچھے جو پھٹتے ہیں تو پورا پورا خاندان اڑا لے جاتے ہیں۔البتہ حماس کی راکٹ باری کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ خطرے کے اسرائیلی سائرنوں پر بیٹھی گرد صاف ہوگئی۔ اسرائیل کی نئی پود کے لیے تو اتنی فلسطینی جارحیت بھی بہت ہے۔ایک نو عمر نے ٹویٹر پر لکھا
’’اے عربو تمہارے کرتوتوں کے نتیجے میں صبح ہی صبح بجنے والے سائرنوں سے میری نیند حرام ہوگئی ہے۔خدا تم سب کو غارت کرے‘‘۔تو رات میں لکھا ہے’’ آنکھ کے بدلے آنکھ ’’۔مگر جدید اسرائیل میں اس کی تشریح یوں ہے کہ’’ ایک پلک کے بدلے دوسرے کی کم از کم دونوں آنکھیں اور ہوسکے تو چہرہ بھی‘‘۔۔
نوم چومسکی نے ایک فلسطینی کو یوں نقل کیا ہے۔’’ تم نے میرا پانی لے لیا، زیتون جلا ڈالے، گھر مسمار کردیا، روزگار چھین لیا، زمین چرا لی، باپ قید کردیا، ماں مار ڈالی، میری دھرتی کو بموں سے کھود ڈالا، میرے راستے میں فاقے بچھا دیے، مجھے کہیں کا نہ رکھا اور اب یہ الزام بھی کہ میں نے تم سے پہلے راکٹ کیوں پھینک دیا‘‘۔

انقلاب سو روپے فی کلو.......
نورِ حق شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کونجس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون
ڈومینین کا گورنر جنرلی نظام ہو کہ سول ملٹری ٹیکنو کریٹک ماڈل کہ سیدھی سیدھی فوجی آمریت کہ سول ملٹری مشترکہ ڈکٹیٹر شپ کہ فوجی جمہوریت کہ عوامی جمہوریت کہ گائڈڈ ڈیموکریسی کہ اسلامک ملٹری ماڈل کہ خالص اسلامی جمہوریت کہ اسلامی سوشلزم کہ سعودی نیم شرعی ماڈل کہ ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام۔ ہم ہر قسم کے نئے، پرانے، سیکنڈ ہینڈ، تجرباتی، تصوراتی، آدھے، پورے، کچے، پکے، پختہ، نیم پختہ، دم پخت، کنڈیشنڈ، ری کنڈیشنڈ، نظام ہائے زندگی و حکومت اور ہر قسم کا انقلاب ’’جہاں ہے جیسا ہے ’’ کی بنیاد پر مناسب قیمت پر خریدتے ہیں۔ سودا نقد و نقد اور جھٹ پٹ۔ صرف سنجیدہ فروخت کنندگان رجوع کریں۔ دلالوں اور کمیشن ایجنٹوں سے معذرت۔ جلنے والے کا منہ کالا۔چھیاسٹھ برس سے آپ کے اعتماد و معیار کے ضامن۔پاکستان اینڈ برادرز ، بالمقابل مزارِ قائد ، نیو ایم اے جناح روڈ ، کراچی پوسٹ کوڈ 014847( نوٹ۔ ہماری کوئی برانچ نہیں )۔
کیا آپ میں سے کوئی اجمیر شریف گیا ہے۔ تو جوگئے ہیں وہ انھیں احوال بتا دیں جو نہیں گئے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے دربار میں دنیا کی دو سب سے بڑی دیگیں نصب ہیں۔ چھوٹی دیگ اکبر نے اور بڑی جہانگیر نے نذر کی تھی۔دونوں میں کل ملا کے ایک وقت میں سات ہزار دو سو کلو گرام کھانا پک سکتا ہے۔ ان دیگوں کی گہرائی اتنی ہے کہ خادم کو صفائی کے لیے سیڑھی لگا کے اترنا پڑتا ہے۔ ایسی دیگوں میں کھانا پکانے کے لیے بھی مخصوص مہارت والے کاریگر درکار ہیں۔ وہی طے کرتے ہیں کہ کون سی شے کس مقدار میں کب اور کیوں پڑے گی اور پکنے کے بعد ذائقہ کیسا ہوگا۔ یہ دیگیں لنگرِ عام کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں اور پیسے والے عقیدت مند یا وہ اشرافیہ جس کی کوئی من مراد پوری ہوجائے ہے اپنی خوشی سے ان میں کھانا پکوا کے تقسیم کرسکتے ہیں۔اگر ہم اس ملک کو درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی دیگ کی طرح کی کوئی چیز سمجھ لیں تو یہاں کے معاملات اور ذائقہ سمجھنے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔اس دیگ میں بھی کسی بھی آنچ پر کچھ بھی پک سکتا ہے یا پکوایا جا سکتا ہے۔لنگر لینے والے سلامت۔لنگر بانٹنے والے بہت۔۔۔
ویسٹ منسٹر والے سیکنڈ ہینڈ جمہوریت بیچ گئے۔یہاں اس کی وہ ایسی تیسی ہوئی کہ مار مار کے بنیادی جمہوریت کے بونے میں تبدیل کردیا گیا۔جب جب اس بونے نے قد نکالنے کی کوشش کی تب تب چھتر پے چھتر پڑے۔اسلام کہ جس کے معنی ہی مذہبِ امن ہے۔مگر یہ معنی بھی یہاں کسی سے ہضم نہ ہو پائے۔اس مفہوم کی قبا کا جوٹکڑا جس کے ہاتھ لگا لے اڑا بلکہ اسلام کو عفو ، درگزر ، وسیع القلبی ، عدم استحصالی ، صلہِ رحمی ، غریب نوازی ، علم کی کھوج ، عمل کی کسوٹی ، کل جہانوں کی رحمت ، نسلی ، سماجی ، اقتصادی پیغامِ مساوات سمجھنے اور اپنانے کے بجائے محض ایک تعزیراتی نظام جان کر ریاکاری و کاروباریت کے بے روح شو روم پر رکھ دیا گیا۔بلالی صلاصل توڑنے والے اس سیدھے سادے سے نظام کو بھانت بھانت کی ایسی وزنی وزنی تشریحی زنجیریں پہنا دی گئیں کہ ان کے بوجھ سے اپنا ہی اگلا قدم اٹھانا خود پے دوبھر ہوگیا۔
اب یہی کچھ ’’انقلاب’’ کے ساتھ بھی ہونے جا رہا ہے۔کسے پڑی کہ لمبے لمبے انقلابی بھاشن جھاڑنے سے پہلے کسی سے انقلاب کے معنی ہی پوچھ لے۔پوچھنے میں عزت گھٹتی ہے تو ڈکشنری میں ہی دیکھ لے۔اب تک دنیا میں انقلابِ مسیح سے انقلابِ ایران تک جتنے بھی سماج منقلب ہوئے ان ہی کا مطالعہ کرلے۔ مگر یہ سب کام محنت طلب ہیں اور آج کے سوشل میڈیائی ایئرکنڈیشنڈ انقلابی کو محنت سے بھلا کیا علاقہ ؟ چی گویرا کے بقول انقلاب کوئی سیب تو نہیں کہ خود ہی پک کے جھولی میں آن گرے گا ، اسے تو درخت سے توڑنا پڑتا ہے۔کاسترو کے بقول انقلاب ماضی کے تہہ خانے میں بند مستقبل کو آزاد کرانے کا نام ہے۔لینن کے بقول انقلابی نظریے کے بغیر انقلابی تحریک ممکن ہی نہیں۔ماؤزے تنگ کے بقول انقلاب کسی ضیافت کے کھانے، فن ِ مضمون نگاری یا کشیدہ کاری کے ہنر میں طاق ہونے جیسی دلچسپ ، گداز ، نفیس شے نہیں بلکہ ایک طبقے کے ہاتھوں دوسرا طبقہ کلی طور پر الٹائے جانے کا نام ہے اور یہ کام سو فیصد شائستگی و نفاست کے ساتھ ہونا بہت مشکل ہے۔
پھر بھی اگر کسی روسو ، لینن ، ماؤ ، چی گویرا ، کاسترو یا خمینی کو انقلاب بطور غریب کی جورو ریڑھے پر بیٹھا بھیک مانگتے دیکھنے کی چاہ ہو ، اگر کسی کو اپنے کانوں سننا ہو کہ میں چاہوں تو چوبیس گھنٹے میں انقلاب آ سکتا ہے مگر میں نے اپنے کارکنوں کو ملکی مفاد میں بہت مشکل سے روکا ہوا ہے ، یا حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو چودہ اگست کو انقلاب آوے ہی آوے ، یا میں نے ناسازی ِ طبع کے سبب انقلاب دو ہفتے کے لیے ملتوی کردیا ہے ، یا پولیس ایسے ہی تشدد کرتی رہی تو پھر ہم انقلاب کیسے لائیں گے، یا اگر تمہیں انقلاب نہیں چاہیے تو میں واپس جارہا ہوں یا میں انقلاب لائے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا یا ہمیں ہمارا انقلاب شرافت سے دے دو ورنہ ہم چھین لیں گے، یا ضلعی انتظامیہ کے انقلابی اقدامات سے رمضان میں اشیا کے نرخ کنٹرول کرلیے گئے، یا گوادر کاشغر کاریڈور کی تکمیل سے ملک میں انقلاب آجائے گا، یا حکومت بجلی کا بحران حل کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کررہی ہے یا سیکریٹری ایجوکیشن کان کھل کے سن لیں اگر اگلے اڑتالیس گھنٹے میں ایڈہاک ٹیچرز کو مستقل نہ کیا گیا تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا اور اس کے نتیجے میں خدانخواستہ انقلاب آگیا تو ہم ذمے دار نہ ہوں گے، یا ذرا تمیز سے بات کیجیے آپ کسی للو پنجو سے نہیں اصغر انقلابی سے مخاطب ہیں ، یا اظفر تیرے خون سے انقلاب آئے گا، یا حکیم قابل پسوڑی کی صرف ایک گولی گرم دودھ کے ساتھ استعمال کریں اور ایک رات میں انقلابی قوتِ مردانہ حاصل کرکے ازدواجی زندگی میں خوشگوار انقلاب لے آئیں (محدود عرصے کے لیے تعارفی قیمت فی کورس صرف پانچ صد روپے )۔اگر یہ سب تماشا اور تماش بین اپنی آنکھوں دیکھنے ، کانوں سننے اور پھر کپڑے پھاڑ کے جنگل کی جانب دوڑنے کی تمنا ہو تو ویلکم ٹو پاکستان ٹو تھاؤزنڈ فورٹین۔۔۔۔
بھاڑ میں جائے ٹینیسی ولیمز کہ جس نے بکواس کی کہ انقلاب کو ایسے خواب دیکھنے والے چاہئیں جو انھیں یاد بھی رکھ پائیں۔کیڑے پڑیں ارسلا گوئین جیسی انارکسٹ کی قبر میں کہ جس نے یہ جاہلانہ بات کی کہ تم انقلاب نہ کسی دکان سے خرید سکتے ہو نہ گھر میں بنا سکتے ہو، انقلاب یا تو تمہاری رگوں میں ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔یہ سب انقلابی اور ان کے افکار اور ان کی جدوجہد ، قربانیاں اور اخلاص تمہیں مبارک ۔
ہمیں تو اپنے سونامی انقلابی عمران خان ، ٹیلی فونک انقلابی الطاف حسین، موٹر وے انقلابی شریف برادرز ، ٹویٹری انقلابی بلاول بھٹو زرداری ، کنٹینری انقلابی طاہر القادری، سرخ ( حویلی ) انقلابی شیخ رشید ، مہمل انقلابی چوہدری شجاعت ، آرمڈ چئیر انقلابی حمید گل ، احتیاطی انقلابی سراج الحق اور سہولتی انقلابی فضل الرحمان ہی بہت۔۔۔۔۔۔اے روحِ ’’ انقلاب ’’ ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
ریاستی رٹ کو روتے رہیے.......
کیا کسی نے کبھی ریاستی اقتدارِ اعلیٰ کہ جسے اب اردو میں بھی اسٹیٹ رٹ کہنے کا رواج ہوگیا ہے) ٹھوس شکل میں دیکھا ؟ کس کس کی اسٹیٹ رٹ سے کتنی دیر کی ملاقات رہی؟ آخری دفعہ اسٹیٹ رٹ سے کب کب ہاتھ ملایا؟ بعد میں اپنی انگلیاں بھی گنیں کہ نہیں؟ چلیے آپ کی کسی سبب یا بلا سبب ملاقات نہیں ہوسکی کوئی بات نہیں۔لیکن آپ اس رٹ کے باپ یعنی آئین سے تو کسی نہ کتاب دوکان میں ضرور ملے ہوں گے۔یہی مشکل ہے، آپ سے تو اپنا آئین بھی پورا نہیں پڑھا جاتا ورنہ آدھے نفسیاتی مسئلے تو چٹکی بجاتے حل ہو چکے ہوتے۔۔آپ کے۔
یہ رونا آخر کب تک سنا جائے کہ پاکستان میں اسٹیٹ رٹ باقی نہیں رہی اور ریاست ہی چاہے تو اسے بحال کرسکتی ہے اور جب تک بحال نہیں ہوگی تب تک قانون کی حکمرانی ایک خواب رہے گی اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جائیں گے وغیرہ اور وغیرہ اور وغیرہ…کیا آپ کچھ سمے کے لیے اسٹیٹ رٹ کی رٹ لگانا بند کرسکتے ہیں پلیز۔بہت شکریہ۔
عرض یوں ہے کہ خدا کو چھوا تو نہیں جا سکتا لیکن مختلف شکلوں میں محسوس ضرور کیا جاسکتا ہے اور کچھ اتنے راسخ انداز سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات حاضر والدین کے کسی حکم کی بھی غائب خدا کے فرمان کے آگے کوئی حیثیت نہیں۔بالکل اسی طرح ریاستی رٹ نام کی کوئی شے آپ کو کسی ٹھیلے پر نہیں ملے گی۔لیکن اگر اسے سب دل سے مان لیں تو پھر وہی رٹ ہماری اپنی ہی اجتماعی و انفرادی شکل و صورت میں ہر طرف اظہار کرتی دکھائی سنائی دے گی۔
بھلے منہ سے کچھ بھی کہیں مگر ہم میں سے اکثر لوگ شائد ایسے نڈر ہوچکے ہیں کہ خدا سے نہیں ڈرتے تو ریاستی اختیار سے کیا ڈریں گے۔ آئینِ پاکستان کی پہلی شق میں صاف صاف ہے کہ اختیارات کا سرچشمہ خدائے برتر ہے اور ریاست یہ اختیارات امانتاً منتخب نمایندوں کے توسط سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی مجاز ہے۔یعنی خدائی رٹ ہی اسٹیٹ رٹ ہے۔ پھر بھی سب پوچھ رہے ہیں کہ اسٹیٹ رٹ کہاں ہے۔
شائد اس موٹر سائیکل سوار کے پاس ہے جو کسی بھی چوک پہ باوردی کانسٹیبل کی شکل میں کھڑی ریاست کو دھتا بتاتے ہوئے یوں سگنل توڑتا ہے گویا کفر توڑ رہا ہو۔ یا شائد اسٹیٹ رٹ ڈسکہ کے ان چار لوگوں کے پاس ہے جنہوں نے اپنی بیٹی اور ناپسندیدہ داماد کو بیسیوں لوگوں کے سامنے دن دھاڑے کھمبے سے باندھا اور دونوں کے سر اتار کے خبجرلہراتے آرام سے چلے گئے۔تماشائی یہ بات سوچنے سے ہی عاری ہیں کہ انھوں نے دو انسانوں کی شکل میں دراصل ریاست اور عدالت کا سر اتارے جانے کا منظر دیکھا ہے۔یا پھر اسٹیٹ رٹ اس سادے کی داشتہ ہے جو کسی بھی شہری کو جیپ میں ڈالنے کا خود ساختہ حق رکھتا ہے اور پھر نہ شہری کا پتہ ملتا ہے نہ سادے کا۔رٹ کسی زمانے میں بس ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی اب عرصہ ہوا ریاست نے اس کی بھی نجکاری کردی اور اپنے اختیار کو اٹھارہ کروڑ شئیرز میں بانٹ کے بیچ دیا تاکہ ریاست کو دیگر ضروری کاموں کے لیے وقت مل سکے۔ نتیجہ ؟؟؟(ملاوٹ) خدا کو ناپسند ہے اور ریاست کو بھی۔لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر کھلا رہے ہیں پلا رہے ہیں اور ریاست بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔
(خیانت) خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری یا ادارہ ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔یا تو خائن ہے یا پھر خیانت گزیدہ۔ پچھلے ایک سال میں کرپشن کے تین ہزار اکتالیس مقدمات میں سے صرف چوبیس کا فیصلہ ہوسکا۔ رشوت لے کے پھنس گیا ہے رشوت دے کے چھوٹ جا۔ (یہ ضرب المثل مغربی نہیں مشرقی ہے اور یہیں کی ہے)۔
(ارتکازِ دولت) خرابی ہے ان لوگوں کے لیے کہ جنہوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔ مملکتِ خداداِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کررہے ہیں۔ ٹیکس دصولی کی شرح کے معاملے میں یہ ریاست دنیا کے ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ان کا ایک دوسرے پر تو بس نہیں چلتا۔چنانچہ تنخواہ دار طبقے اور ماچس و مٹی کے تیل پرگذارہ کرنے والوں پے مالیاتی مردانگی اتاری جاتی ہے۔
خدا کے نام کی تکریم کرنے والے لوگ
خدا کے گھر سے بھی اونچے مکان رکھتے ہیں (جمال احسانی) جھوٹ، غلط بیانی اور آدھا سچ) نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی ریاستی کتاب میں اجازت ہے۔لیکن جھونپڑی سے محل تک، ٹھیلے والے سے لے کر پیش امام تک،بچے سے حکمرانِ اعلی تک کوئی ہے جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر رہ گیا ہو۔
(قتلِ عمد) کس مذہب یا قانون میں جائز ہے؟ کیا اس کی خدائی اور ریاستی سزا انتہائی سخت نہیں؟ اس سے زیادہ کوئی اور کیا کہے کہ جس نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ مگر خدا کا نام لینے والی ریاست ہو کہ خدا کا دم بھرنے والے افراد۔ دونوں کے کانوں سے روئی کون نکالے؟
ریپ) کوئی فاسق و فاجر بھی اس کی وکالت نہیں کرتا۔اس پاکستان میں اینگلو سیکسن لا سے قوانینِ حدود اور جرگہ روایات تک کون سا قانون لاگو نہیں۔ مگر پچھلے پانچ برس میں ریپ کے ایک ملزم کو بھی سزا نہیں مل پائی۔(اس سے اورکچھ ہو نہ ہو انفرادی و اجتماعی پاک بازی، پرہیز گاری اور غیر جانبداری کے معیار کو ضرور اندازہ ہو سکتا ہے ۔
دہشت گردی) خدائی ڈکشنری میں اسی کو فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور اس کی سزا ایک ہی ہے۔قلع قمع۔ دہشت گردی کسی بھی ریاستی رٹ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں یہ بھول بھال کر کہ دنیا گول ہے۔ جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر کو آئے گی۔ انصاف) ریاست کفر پہ تو زندہ رہ سکتی ہے بے انصافی پر نہیں۔اس پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں کوئی ایسا شخص جو کہہ سکے کہ وہ انصاف کے نافذ و جاری نظام سے زیادہ تو نہیں مگر تھوڑا بہت ضرور مطمئن ہے۔ ریاستی رٹ انصاف کے ستون پر کھڑی ہوتی ہے۔کیا کسی کو ستون دکھائی دے رہا ہے؟ بس جتنا دکھائی دے رہا ہے اتنی ہی ریاستی رٹ پر اکتفا کیجیے۔ اقلیت) اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔سب اقلیت ہیں۔کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائص واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن اس دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ کوئی فوری امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا راستہ۔اسی کو تو پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ کہتے ہیں۔ عقیدہ) عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے،زبردستی، ترغیب و تحریص، دھمکی، خاص اہداف اور مفادات ذہن میں رکھ کے ایسی قانون سازی کی بھی اجازت نہیں جن کی زد میں آ کر ریاست کا کوئی بھی گروہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر درجہ دوم کا شہری بن جائے۔تلوار کی نوک گردن پہ رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے، رنگ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی۔
کیا ریاست اس نفرت پرور کھیل میں فریق ہے یا غیر جانبدار؟ کیا فوجداری و دیوانی قوانین کی نوعیت ایسی ہے کہ ریاست کا ہر شہری دل سے خود کو اس سرزمین کا فرزند سمجھے اور اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔کیا خدا کی جانب سے اس شاخسانے کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔کیا سب لوگ (بلاخصوص صاحب ِ احوال و صاحب الرائے حضرات) واقعی آسمانی احکامات کو ایک بڑی اور مکمل تصویر کے طور پر دیکھنے، پڑھنے اور ان احکامات میں مضمر حکمتی اشارے سمجھنے کے قابل ہیں یا پھر اپنی اپنی پسند کے احکامات کو آدھا پورا بیان کرکے اس تشریح کو شریعتِ خدا کہنے اور منوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
جب تک ان سوالات کا کوئی متفق علیہہ تشفی بخش عقلی جواب نہیں ملتا۔ریاستی رٹ کو بیٹھے روتے رہئے۔
آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری......
مان لیا کہ من بھر گیہوں میں تھوڑا بہت گھن بھی پس جاتا ہے ۔لیکن کیا یہ بھی ممکن ہے کہ سیر بھرگیہوں میں ایک من گھن پس جائے۔بالکل ممکن ہے اگر چکی شمالی وزیرستان کی ہو۔آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری ۔نائن الیون سے اب تک قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ میں سات بڑے بڑے آپریشن ہو چکے ہیں۔
توقع یہی ہوتی ہے کہ ہر نئے آپریشن میں جو بھی اچھا برا تجربہ ہاتھ آئے گا اس کی روشنی میں اگلا آپریشن عسکری و انسانی اعتبار سے اور بہتر ہوگا۔ لیکن جس طرح سے لگ بھگ پانچ لاکھ انسانی مرغیوں کو شمالی وزیرستان کے دڑبے سے ہنکالا گیا اس سے تو نہیں لگتا کہ یہ وہی ریاست ، فوج اور مقامی انتظامیہ ہے جس نے سوات آپریشن سے پہلے پہلے مقامی و بین الاقوامی اداروں کی مدد سے کیمپوں کا پیشگی نظام قائم کر کے مالاکنڈ ڈویژن خوش اسلوبی اور نظم و ضبط کے ساتھ خالی کروایا تھا۔دیکھا جائے تو شمالی وزیرستان کے پناہ گزینوں کی تعداد سوات آپریشن متاثرین کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے لیکن پیشگی انتظامات لگ بھگ زیرو رہے۔ آپریشن شروع ہونے کے دو ہفتے بعد اب کہیں جا کے انتظامی آثار دکھائی پڑنے لگے ہیں۔
بیت الخلا کی ضرورتارے ہاں تمہیں تو شاید بیت الخلا کی بھی ضرورت ہوگی نا۔یہ ہم نے چار گڑھے کھود دیے ہیں اور ہر گڑھے پر دو دو پٹڑے بھی رکھ دیے ہیں اور ٹاٹوں کی چار دیواری بھی کھڑی کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خواتین یہ بیت الخلا استعمال کرلیں۔باقی لوگ یہ سامنے والے جنگل میں چلے جایا کریں۔زرا تصور کریں کہ کسی ایک روز لاہور، فیصل آباد، پنڈی، کراچی یا حیدرآباد کے کچھ مخصوص علاقوں کو دہشت گردی اور دیگر خوفناک جرائم سے پاک کرنے کی اچانک عسکری کارروائی شروع ہونے کے بعد یہاں کے چھ لاکھ مکینوں سے کہا جائے کہ جتنا جلد ممکن ہو غیر معینہ عرصے کے لیے گھر بار چھوڑ کر شہر کی حدود سے نکل جاؤ اور انھیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ یہاں سے کہاں اور کیسے جانا ہے؟ رکنا کہاں ہے۔ راستے میں اتنے لوگوں کو کوئی پانی بھی پلائے گا؟ کھانے کا کون پوچھے گا؟ بیماروں کو کہاں لادے لادے پھریں گے؟ نوزائدہ بچوں کے دودھ ، بڑے بچوں کی تعلیم اور پردہ دار خواتین کے نہانے دھونے پکانے کا کیسا انتظام ہو گا؟
اور پھر حکومت لاہور، فیصل آباد، پنڈی، کراچی اور حیدرآباد کے ان متاثرین کو نکالے جانے کے ہفتہ بھر بعد فی خاندان پندرہ ہزار روپے کی ادائیگی اس مد میں کر دے کہ یہ آپ کے کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کے فوری اخراجات ہیں اور پھر ان سے یہ کہا جائے کہ اپنی مدد آپ کے تحت سو پچاس کلومیٹر پرے ایک ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر رجسٹریشن کروا کے مہینے بھر کا راشن لے لو۔اور پھر ان سے کہا جائے کہ یہ جو لق و دق زمین نظر آ رہی ہے یہ کوئی ویرانہ نہیں تمہارے قیام کا کیمپ ہے۔ اپنے ایک سو دس کلو وزنی راشن کے تھیلے سر سے اتار کر زمین پر رکھو اور ان تھیلوں کو تکیہ سمجھ کر دو دو تین تین سر رکھ کے سوجاؤ۔کیا کہا خیمے؟ وہ تو ابھی پانی کے جہاز سے آ رہے ہیں۔
کیمپ میں پینے کا پانی؟ کل پرسوں انشااللہ ایک آدھ ٹینکر ضرور چکر لگائے گا یہاں۔دیگچی، پرات، توا، رکابی، گلاس؟ ہاں کچھ این جی اوز سے بات ہوئی تو ہے۔امید ہے کہ اگلے دس پندرہ دن میں برتن بھی آجائیں گے تب تک خشک راشن مٹھی بنا کے پھانکتے رہو۔ارے ہاں تمہیں تو شاید بیت الخلا کی بھی ضرورت ہوگی نا۔یہ ہم نے چار گڑھے کھود دیے ہیں اور ہر گڑھے پر دو دو پٹڑے بھی رکھ دیے ہیں اور ٹاٹوں کی چار دیواری بھی کھڑی کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خواتین یہ بیت الخلا استعمال کرلیں۔باقی لوگ یہ سامنے والے جنگل میں چلے جایا کریں۔بجلی؟ کیا تمہارے پاس ٹارچ والا موبائل فون نہیں؟ تو پھر؟
بالکل پریشان مت ہو۔پوری قوم آزمائش کی گھڑی میں دل و جان سے تمہارے ساتھ ہے۔ بے صبری کو لگام دو۔انشااللہ دو تین ماہ میں پورا انتظام قابو میں آجائے گا۔تمہیں باقاعدہ ماہانہ مالی امداد بھی ملے گی۔تب تک یہ سمجھ لو کہ ملک کے لیے عظیم قربانی دے رہے ہو۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تم کسی اور صوبے میں جانے کی فرمائش کر بیٹھو۔جو ملے گا یہیں ملے گا۔یہاں سے گئے تو کچھ نہ ملے گا۔
وسعت اللہ خان
مان لیا کہ من بھر گیہوں میں تھوڑا بہت گھن بھی پس جاتا ہے ۔لیکن کیا یہ بھی ممکن ہے کہ سیر بھرگیہوں میں ایک من گھن پس جائے۔بالکل ممکن ہے اگر چکی شمالی وزیرستان کی ہو۔
وسعت اللہ خان
ہر طرف گلو بٹ.........
کراچی میں دن کا اختتام اگر اوسطاً آٹھ لوگوں کی غیر فطری پرتشدد موت پر نہ ہو تو مقامی باشندے گھبرا جاتے ہیں کہ یا خدا خیر آج کا دن پرامن کیسے گزر گیا ضرور کل کچھ نہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔شاید کراچی کی خونی فضا میں مسلسل سانس لینے کے سبب لاہور میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر میں خود کو اتنا افسردہ محسوس نہیں کر پا رہا جتنا باقی ملک بالعموم اور سوشل میڈیا بالخصوص ہے۔ البتہ مجھ جیسے کراچویوں کے لیے لاہور کے خونی واقعات کے تناظر میں اگر کوئی شے نئی اور حیران کن ہے تو وہ ہے ظہورِ گلو بٹ۔ویسے تو میرے شہر میں ایک سے ایک گلو پڑا ہے اور میرے صوبے میں گلو گورنمنٹ آف مٹیاری نامی ڈاکو بھی گزرا ہے، پر کمی ہے تو گلو بٹ لاہوری جیسے کی۔جو کام سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی پانچ پانچ سو فلموں میں ہنہناتے گھوڑوں پر گنڈاسے لہراتے نہ کر سکے وہ تنِ تنہا گلو بٹ نے صرف ایک ڈنڈے سے سینکڑوں پولیس والوں اور بیسیوں کیمروں کے سامنے ٹیک ٹو دیے بغیر کر ڈالا۔پچھلے دو روز سے پھولدار قمیض اور پتلون میں ملبوس گلو بٹ نے مقامی میڈیا کی ریٹنگ اتنی اوپر پہنچا دی ہے کہ شیخ رشید جیسے ٹی وی فن کاروں کو بھی تشویش ہو چلی ہے۔ کیمرے کی آنکھ ہر زاویے سے گلو کو ہی دکھا رہی ہے۔پہلے اس شیر جوان نے منہاج القرآن کے دفتر کے باہر کھڑے بیسیوں مسلح پولیس والوں کے ایک افسر سے پرتپاک مصافحہ کیا۔ پھر ایک پولیس ٹولی کے ساتھ گپ شپ فرمائی۔ بعد ازاں جہادی جوش اور جہازی ڈنڈے سے پارک ہوئی کاروں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے۔اس بے مثال کارنامے کے بعد ہمارے ہیرو نے ایک پولیس افسر سے گلے مل کر شاباشی لی اور زخمی گاڑیوں کی جانب دیکھتے ہوئے ہلکا سا فاتحانہ رقص فرمایا۔قبلہ گلو بٹ کا شجرہ"جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔ جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی"پھر دیگر پولیس والوں کی معیت میں ایک ہکا بکا کولڈ ڈرنک والے کا ڈیپ فریزر کھول کے سوڈے کی ٹھنڈی ٹھار بوتلیں لہراتے ہوئے اجتماعی جشنِ فتح کا خم لنڈھایا اور پھر کیمروں کے سامنے سے فخریہ انداز میں نوکیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے دیتے جنابِ گلو بٹ استہزائیہ چال چلتے آگے بڑھ گئے اور افق پارگم ہوگئے۔اس دوران میڈیائی تیتروں نے قبلہ گلو بٹ کا شجرہ کھود نکالا۔ جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینیئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی۔واقعے کے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد کلفیہ لباس میں ملبوس جنابِ گلو بٹ نے ایک مقامی تھانے میں نہایت اطمینان سے ایسےگرفتاری پیش کی جیسے وزرائے کرام زیرِ مونچھ ترسیلی مسکراہٹ سجائے بیواؤں کو سلائی مشین پیش کرتے ہیں۔اعلیٰ حضرت بٹ صاحب اس سمے پولیس سجنوں کی تحویل میں ایک بے جان ایف آئی آر کی چادر اوڑھے گئے دن کی تھکن اتار رہے ہیں اور نشریاتی گرد و غبار بیٹھنے کے منتظر ہیں۔اس مرحلے پر آپ میرا گریبان پکڑ سکتے ہیں کہ اے سفاک لکھاری تجھے آٹھ لاشیں اور سو سے زائد زخمی کیوں نظر نہیں آرہے، صرف گلو پر ہی کیوں تیرے قلم کی نب اٹک گئی ہے۔عرض یہ ہے کہ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو مرتے ہی رہتے ہیں اور مرتے ہی رہیں گے، پر آدمی جیئے تو گلو شیر کی طرح جیئے۔ دھڑلے کے ساتھ چاروں خانے چوکس ۔۔۔قانونی و غیر قانونی، اخلاقی و غیر اخلاقی بکواسیات میں الجھے بغیر۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دراصل یہ گلو پرور نظام ہی ایک گلو بٹ نے دوسرے گلو بٹ کی مدد سے تیسرے گلو بٹ کے لیے بنایا تا کہ وہ اسے چوتھے گلو بٹ کے حوالے کر سکے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہر نیا گلو بٹ ہر پرانے گلو بٹ سے بڑا گلو بٹ ثابت ہوا۔ارے کس کس گلو بٹ کی بات کیجیے گا حضور۔ اس گلو بٹ کی جس نے ڈنڈے مار مار کے اس ملک کی گاڑی کی چھت بٹھا دی یا اس گلو بٹ کی جس نے آئین کی اوریجنل ونڈ سکرین کرچی کرچی کر دی۔یا وہ گلو بٹ جس نے ڈنڈے پر نظریے کا تیل مل کے اسے سائلنسر پائپ میں دے دیا یا پھر وہ گلو بٹ جس نے وفاقی گاڑی کو اینٹوں پر کھڑا کر کے معاشی انجن، جمالیاتی وائپرز، سماجی ڈیش بورڈ، نفسیاتی بیک مرر اور وسائل کی ہیڈ لائٹس بڑے بڑے خلیجی و غیر خلیجی گلو بٹس کو لوہے کے بھاؤ تلوا دیں اور کیا اس وقت ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں گلو بٹ اپنے سے مختلف انسانوں کے سرگاڑیاں سمجھ کے نہیں توڑ رہے۔فیض صاحب نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ،گلو میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلےجب آپ ایسے ایسے چیتےگلو بٹوں کے بٹ سہہ رہے ہیں تو پھر لاہور کے ایک معمولی سے گلو بٹ کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ تئیس تاریخ کو ایک اور گلو بٹ معافی چاہتا ہوں، گلوِ اعظم لینڈ کرنے والے ہیں۔لگ پتہ جائے گا۔
تب نیرو موٹر وے بنا رہا تھا.........
پاکستان کو نائن الیون کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اقتصادی ، سماجی اور عسکری اعتبار سے لگ بھگ اسی ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ اس عرصے میں تقریباً دس لاکھ لوگ اندرونی طور پر در بدر ہو چکے ہیں۔ فاٹا ، کراچی اور بلوچستان کی شکل میں ریاست کو بیک وقت تین جنگوں کا سامنا ہے۔ان جنگوں اور ان کے اثرات نے ساٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو نگل لیا ہے۔
جوں جوں حفاظتی دیواریں اونچی ہو رہی ہیں توں توں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اگلے لمحے کس کے ساتھ کہاں ، کیسی واردات ہونے والی ہے۔جو جرنیل دو ہزار چار پانچ تک یہ کہتے رہے کہ دہشت گردوں کی تعداد چھ سو سے زیادہ نہیں وہ آج اس سوال سے ہی کنی کترا جاتے ہیں کہ اس وقت کتنے لوگ اور کتنی تنظیمیں ریاست سے برسرِ پیکار اور اینٹ سے اینٹ بجانے کے درپے ہیں۔
مگر ایسا بھی نہیں کہ ریاست چلانے والے اپنے قومی و منصبی فرائض سے غافل ہیں۔وہ ہر وقت ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں، راتوں کو اٹھ اٹھ کے ٹہلتے ہیں ، رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے رہتے ہیں ، گاہے ماہے آسمانوں کی طرف تکتے ہیں ، سرد آہ بھی بھر لیتے ہیں، باہمی غفلت اور غلطیوں کا نوٹس بھی لیتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھاتے بھی رہتے ہیں کہ کوئی ہور گل کرو ، اے تے روز دا سیاپا اے۔
زمہ دارانِ ریاست کو اچھے سے معلوم ہے کہ دہشت گردی ریاست کو آہستہ آہستہ چبا چبا کر نگل رہی ہے، مگر انہوں نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔
"فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔"
اگر وہ سالانہ پچاس لاکھ بچوں کو پہلی جماعت میں داخل نہیں کرسکتے تو پریشانی کیوں؟ کیا وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹیوں کے لیے سالانہ چونسٹھ ارب روپے مختص نہیں کر رہے؟
اگر وہ سالانہ بیس لاکھ نئے لڑکے لڑکیوں کو روزگار دینے میں بے بس ہیں تو کون سا ظلم ہورہا ہے؟ کیا وہ ساڑھے پانچ لاکھ نوجوانوں کو وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام کے تحت بزنس لون ، قرضِ حسنہ ، ہنر مندی کی تربیت اور فیسوں کی معافی کے لیے بیس ارب روپے کی امداد نہیں دے رہے؟
اگر وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ نفوس دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندگی کاٹ رہے ہیں تو اس کی بھی تو تعریف کیجیے کہ وہ تریپن لاکھ خاندانوں کو نیشنل انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ دے رہے ہیں تاکہ ان کے تیس دن سہولت سے کٹ جائیں۔
اگر آپ کو شکوہ ہے کہ کم از کم گیارہ ہزار روپے کی تنخواہ کی سرکاری حد میں کسی خاندان کا گذارہ نہیں ہوسکتا تو یہ بھی تو دیکھیے کہ اس وقت ہر پاکستانی کی فی کس آمدنی تیرہ سو چھیاسی ڈالر ہے۔اور یہ تیرہ سو چھیاسی ڈالر امانتاً حکومت کے پاس پڑے ہیں جنہیں مناسب وقت پر لوٹا دیا جائے گا۔
اور کون کہتا ہے کہ والیانِ ریاست انسدادِ دہشت گردی کی اہمیت سے غافل ہیں۔ان کی پہلی ترجیح تو یہی ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے کوئی حل نکل آئے۔اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے میڈیا کی گردن میں بھی پٹہ ڈال دیا گیا ہے۔اگر اب بھی دہشت گردوں نے عقل کے ناخن نہ لیے تو پھر متبادل حکمتِ عملی بھی تیار ہے۔
مثلاً ملک میں توانائی کے بحران پر تیزی سے قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہورہا ہے تا کہ دہشت گرد اندھیرے میں کسی سخت شے سے ٹھوکر نہ کھا جائیں۔گوادر تا سنکیانگ کاریڈور اور لاہور تا کراچی موٹر وے کی ڈیزائننگ شروع ہوچکی ہے تا کہ امارات ِاسلامی پاکستان کی ممکنہ قیادت کا فور وھیلر قافلہ ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ان موٹر ویز پر کروز کرسکے۔
جب میاں صاحب پچھلے برس تیسری بار قصرِ وزیرِ اعظم تشریف لائے تو انہیں یہ دیکھ کے بہت رنج ہوا کہ جاتی حکومت سرکاری املاک کے دروازے، کھڑکیاں اور پنکھے بھی ساتھ لے گئی اور لان میں کچرے کے ڈھیر چھوڑ گئی۔اور تو اور وزیرِ اعظم کے زیرِ استعمال گاڑیوں کی سیٹوں کا چمڑا تک اترا ہوا تھا اور وزیرِ اعظم کی حفاظت کے لیے جو تربیت یافتہ کتے موجود تھے ناکافی غذائیت کے سبب کاٹنا تو رہا ایک طرف وہ تو اپنی بھونک تک سے محروم ہوچکے تھے۔ چنانچہ فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔
رہی بات کہ ہوائی اڈوں کی ٹوٹی خاردار تاروں کو کب بدلا جائےگا، پولیس تھانوں کے باتھ روم کب ٹھیک ہوں گے، ایئرپورٹ سیکورٹی فورس وغیرہ کے فرسودہ ہتھیاروں کا کیا بنےگا، ناقص کیمروں کی خرید کب بند ہوگی، جدید انٹیلی جینس نظام کی تشکیل کا خرچہ اور تربیت کا بار کون اور کب اٹھائےگا، انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک جدید، جامع قانونی و عسکری حکمتِ عملی تشکیل پاکر کب نافذ ہو کر نتائج سامنے لائے گی؟
تو اب ہر بات کا ٹھیکہ ریاست نے تو نہیں لے رکھا۔ کچھ وہ بھی تو سوچیں کہ جن کے سبب پاکستان اس دلدل میں پھنسا ہے۔اگر سارے وسائل اور پوری طاقت دہشت گردی کے خاتمے پر ہی لگا دی گئی تو شمسی توانائی سے بجلی تم پیدا کروگے، موٹر وے تمہارا باپ بنا کے دے گا، ایوانِ وزیرِ اعظم کی گھاس کاٹنے کیا تم آؤ گے ۔۔۔ واہ جی واہ ۔ چل دوڑ یہاں سے، ڈُو مور کا بچہ۔
سب مایا ہے.......وسعت اللہ خان
المیہ یہ ہے کہ جہاں دریا نہ ہو وہاں بھی پل بنانے کے وعدے پر ووٹ لے لینا ہی کامیاب انتخابی سیاست کہلاتی ہے۔ (نکیتا خروشچیف)
جرمنی
نچلے طبقے کے ٹوٹے ہوئے کنبے میں پیدا ہونے والا ناکام مصور، ضدی مزدور، ارادے کا پکا فوجی ڈا کیا اڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر کیسے بنا؟ جب انیس سو انیس میں اس نے نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو انتہائی دائیں بازو کے کئی جرمن گروپوں کی طرح اس پارٹی کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ مگر ایسے کسی گروپ میں شمولیت کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ تنظیمی صلاحیت کے بل بوتے پر آدمی تیزی سے ترقی کرسکتا ہے اور ہٹلر تو سراپا تنظیمی صلاحیت تھا۔
چنانچہ انتھک ہٹلر کی قیادت میں گمنام نازی پارٹی نے انیس سو چوبیس میں پہلا پارلیمانی الیکشن لڑا اور پانچ سو ستتر کے ایوان میں چودہ سیٹیں حاصل کیں۔ انیس سو اٹھائیس کے الیکشن میں صرف بارہ سیٹیں ملیں لیکن انیس سو تیس میں ہونے والے الیکشن میں نازی پارٹی ایک سو سات سیٹیں لے کر سوشل ڈیموکریٹس کے بعد دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ صرف دو سال میں بارہ سے ایک سو سات سیٹیں کرلینا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ہٹلر اور اس کی ٹیم نے ان دو برسوں میں اپنی ناکامی کے اسباب کو سمجھنے کی سنجیدگی سے کوشش کی۔ پتہ یہ چلا کہ صرف یہودیوں کے خلاف نفرت ، کیمونسٹوں سے دشمنی اور سوشل ڈیموکریٹس کو منافق بتانے سے کام نہیں چلے گا۔
زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو شیشے میں اتارنے کے لیے انتخابی حکمتِ عملی اور نعرے بدلنے پڑیں گے۔لہٰذا پورے جرمنی کو نازی پارٹی کی اٹھانوے علاقائی شاخوں میں تقسیم کیا گیا۔ مقصد پارٹی کی ممبر سازی میں تیزی لانا اور نچلی سطح تک منظم ہونا تھا۔ نوجوانوں کو ساتھ ملانے کے لیے ہٹلر یوتھ بنی۔پارٹی رضاکاروں کی پانچ نیم عسکری شاخیں تشکیل دی گئیں۔مزدوروں،کسانوں، اساتذہ، سرکاری ملازموں، چھوٹے کاروباریوں کی ذیلی تنظیمیں بنا کر انھیں پارٹی کے ساتھ جوڑا گیا۔ نازی پارٹی کی انیس سو تیس کی ممبر شپ دیکھی جائے تو اکیانوے فیصد ممبروں کا تعلق مڈل کلاس سے اور پینتیس فیصد کا مزدور طبقے سے تھا۔
سن تیس کے الیکشن کا انچارج جوزف گوئبلز کو بنایا گیا۔ جس نے انتخابی مہم کو ایک سائنس میں تبدیل کردیا۔ پہلی دفعہ کسی لیڈر نے الیکشن مہم میں تیزی لانے کے لیے ہوائی جہاز کا استعمال کیا۔ ریڈیو پر انتخابی پیغامات دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ رات کو ہزاروں افراد کے مشعل بردار جلوس کی روایت پڑی تاکہ دیکھنے والے مبہوت رہ جائیں۔لاکھوں کی تعداد میں رنگین پوسٹرز اور بینرز کی مفت تقسیم کا چلن شروع ہوا۔ ہزاروں کے مجمع میں جا کر عام لوگوں سے ہاتھ ملانا، چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھا کر پیار کرنا اور تصویر کھچوانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
ہٹلر غضب کا مقرر تھا۔بہت آہستہ آہستہ تقریر شروع کرتا اور رفتہ رفتہ آواز بڑھتی چلی جاتی اور آخر میں مجمع خطابت کی سحر انگیزی سے پاگل ہوچکا ہوتا۔اقتصادی مسائل اور سیاسی عدم استحکام سے تنگ آدمی جلسے سے باہر نکلتا تو ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی خواب ضرور ہوتا۔ بے روزگاروں کو روزگار، دیوالیہ کاروباریوں کے لیے قرضے، صنعت کاروں کو ٹیکس کی چھوٹ، فوج کی سابقہ عظمت کی بحالی، طبقاتی فرق میں کمی، سیاسی افراتفری کا خاتمہ، ایک مضبوط حکومت قائم کرکے بدعنوانی سے پاک ایسے عظیم جرمنی کی تعمیر کا خواب جو معاہدہ ورسائے کی غلامانہ زنجیریں کاٹ پھینکے۔ رگوں میں خالص آریائی خون رکھنے والی شاندار قوم کا عظیم الشان جرمنی جس میں یہودی بینکروں اور کیمونسٹوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی۔
تین اکتوبر انیس سو تیس کو جرمن پارلیمنٹ کا افتتاحی اجلاس ہوا تو ایک سو سات نازی ممبر ایک ساتھ ہال میں داخل ہوئے اور جب اسمبلی کے صدر نے ایک ایک کا نام پکارا تو ہال میں ’’ پریزنٹ ہائل ہٹلر ’’ کا نعرہ ایک سو سات دفعہ گونجا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہٹلر جس نے انیس سو بیس میں جرمن ٹیکس حکام کو بتایا تھا کہ وہ ایک ایسا غریب اخباری لکھاری ہے جس کے پاس گاڑی بھی ادھار کی ہے۔اسی ہٹلر کی جماعت نے اگلے چھ برس میں بارہ سیٹوں سے ایک سو سات سیٹوں تک جو زقند لگائی تو وسائل کہاں سے آئے۔
انیس سو چوبیس تک بہت سے جرمن کاروباریوں نے آگے کے حالات بھانپ لیے تھے۔وہ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے بدحال جرمنی میں بڑھتی کیمونسٹ طاقت سے خائف تھے اور سوشل ڈیموکریٹس کے حامی تھے مگر کچھ سرمایہ کاروں نے جرمنی کے اقتصادی و سیاسی مسائل کا حل ہٹلر کی فلاسفی میں دیکھنا شروع کیا چنانچہ انیس سو چوبیس کے بعد سے نازی پارٹی جرمن کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستانہ نگاہوں میں آنی شروع ہوئی۔معروف اسٹیل صنعت کار فرٹز تھائیسن نازی پارٹی کا باقاعدہ ممبر بنا۔ہیوگو سٹائنز کی بزنس فیملی نے نازیوں کے ہفت روزہ وولکشر بیوباختر کو روزنامہ بنانے میں مدد دی۔کیمیکلز اور دواساز کمپنی آئی جی فاربین کی طرف سے مالی معاونت شروع ہوئی اور انیس سو تیس کی انتخابی کامیابی کے بعد تو نازی پارٹی ایسا سیاہ گھوڑا بن گئی جس پر کارپوریٹ سیکٹر آنکھیں بند کرکے شرط بد سکتا تھا۔
انیس سو اکتیس میں کوئلے کی کانوں کے سیٹھوں کی تنظیم نے ہر ایک ٹن کوئلے کی فروخت سے حاصل پیسے میں سے آدھا مارک نازی پارٹی کو بطور چندہ دینا شروع کیا۔ اسی سال آئی جی فاربین اور چند دیگر کاروباریوں اور بینکروں نے پانچ لاکھ مارک کا چندہ دیا۔نازی پارٹی نے اس مقصد کے لیے ڈوش بینک میں نیشنل ٹرسٹی شپ کے نام سے ایک اکاؤنٹ قائم کیا جو ہٹلر کے نائب رڈولف ہس کے نام پر تھا۔
انیس سو بتیس میں جب جرمنی میں بے روزگاری بین الاقوامی کساد بازاری کے سبب عروج پر تھی اور کوئی قومی جماعت اپنے طور پر یا باہمی نفاق کے سبب مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی تو جولائی کے پارلیمانی انتخابات میں نازی پارٹی اپنی پچھلی کامیابی کو دوگنا کرتے ہوئے دو سو تیس نشستیں حاصل کر کے سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر ابھری۔مگر پانچ سو ستتر کے ایوان میں دو سو اناسی کی سادہ اکثریت کسی کے پاس نہیں تھی مگر کوئی کیمونسٹوں، سوشل ڈیموکریٹس اور نازیوں میں سے کوئی کسی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے پر تیار نہیں تھا چنانچہ صرف چار مہینے بعد دوبارہ الیکشن کرانے پڑ گئے لیکن کساد بازاری کی شدت میں کمی کے سبب نازیوں کی سیٹیں دو سو تیس سے کم ہو کر ایک سو چھیانوے رہ گئیں۔ صدر وان ہنڈن برگ نے اگلے دو مہینے حکومت بننے کے انتظار کے بعد جنوری تینتیس میں پہلی دفعہ نازیوں کو حکومت سازی کی دعوت دی اور ہٹلر نے چانسلر کا حلف اٹھا لیا مگر یہ بھی دیوار پر لکھا تھا کہ کوئی پارٹی نازیوں سے حکومت سازی میں تعاون نہیں کرے گی لہٰذا پھر انتخابات کرانے پڑیں گے۔
بیس فروری کو اسمبلی کے صدر (اسپیکر) ہرمن گوئرنگ کے گھر پر جرمن بزنس اور انڈسٹری کے باسز کو مدعو کیا گیا۔شرکاء میں سب سے بڑی اسٹیل اور اسلحہ ساز کمپنی کرپ کے مالک الفرڈ کرپ وان بوہلن کے علاوہ آئی جی فاربین، اے ای جی اور اوسرم سمیت تیرہ بڑے صنعتی و تجارتی نمایندے اور سرمایہ کار شریک ہوئے۔ہٹلر نے تقریباً ڈھائی گھنٹے ان سے خطاب کیا۔ لبِ لباب یہ تھا کہ اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کو متحد کرکے تعمیرِ نو کر سکے۔ اگر جلد ایسا نہ ہوا تو کیمونزم جرمنی کو کھا جائے گا۔اس تقریرِ پرتاثیر کے نتیجے میں کارپوریٹ سیکٹر نے تین ملین مارک کا فنڈ قائم کیا۔ یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ الیکشن کے بعد بھی اس میں سے چھ لاکھ مارک بچ گئے۔
اس اجلاس کے سات دن بعد پارلیمنٹ کو پراسرار طور پر آگ لگ گئی۔اگلے دن پارلیمنٹ نے یہ قانون منظور کیا کہ کابینہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اگلے چار ماہ تک ضروری قانون سازی کرسکتی ہے چنانچہ بنیادی شہری حقوق معطل ہوگئے۔پارلیمنٹ کی آتشزدگی کے الزام میں کیمونسٹوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔الیکشن کا اعلان ہوا۔ تربیت یافتہ نازی نوجوانوں نے سڑکوں اور گلیوں میں مخالفین کی مارپیٹ شروع کردی اور جلسے خراب کیے گئے۔مارچ تینتیس کے الیکشن میں نازیوں کو دو سو اٹھاسی سیٹیں مل گئیں یعنی سادہ اکثریت سے ایک کم۔انھوں نے دائیں بازو کے چند غیر نازی ارکان کو توڑا اور ہٹلر باقاعدہ چانسلر بن گیا۔
ہندوستان۔
انیس سو پچیس میں ناگپور کے ڈاکٹر کیشو بالی رام ہیگواڑ نے راشٹریہ سیوامک سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد ہندوستان کو خالص آریائی ہندو راشٹر بنانا تھا۔ہٹلر کی طرح آر ایس ایس نے بھی اپنی خالص آریائی شناخت ابھارنے کے لیے سواستیکا کا نشان اپنایا۔آر ایس ایس کی بنیادی قیادت جو مہا دیو سداشیوگول والکر ، ونائک دمودر ساورکر اور ہیگواڑ پر مشتمل تھی اسے ہندو راشٹر کی منزل مسولینی کی فاشسٹ اور ہٹلر کی نازی آئیڈیا لوجی میں صاف نظر آرہی تھی۔گولوالکر نے اپنے ایک مضمون میں ہٹلر کی یہود دشمن پالیسی کو سراہتے ہوئے مسلمانوں کا ذکر کیے بغیر لکھا۔’’ غیر ملکی عناصر کے لیے دو ہی راستے ہیں۔یا تو اکثریتی گروہ میں ضم ہو کر اس کا کلچر اپنا لیں یا پھر دھرتی چھوڑ دیں۔یہی اقلیتی مسئلے کا درست اور منطقی حل ہے‘‘۔
اکتیس جنوری انیس سو اڑتالیس کو جب آر ایس ایس کے ایک سابق رکن ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کردیا تو آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی۔انیس سو اکیاون میں آر ایس ایس نے ڈاکٹر شیاما پرشاد مکھر جی کی قیادت میں بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے اپنی ذیلی سیاسی شاخ تشکیل دی۔جن سنگھ نے انیس سو باون میں ملک کے پہلے عام انتخابات میں لوک سبھا کی صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔انیس سو ستاون کے انتخابات میں اسے چار، باسٹھ میں چوہتر، سڑسٹھ میں پینتیس اور اکہتر کے الیکشن میں بائیس نشستیں ملیں۔انیس سو ستتر کا الیکشن آر ایس ایس نے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف بننے والے اتحاد جنتا پارٹی کے بینر تلے لڑا لیکن جب انیس سو اسی کے انتخابات میں جنتا پارٹی کو شکست ہوگئی اور اتحاد بکھر گیا تو بھارتیہ جن سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے جنم لیا۔ نئی پارٹی نے انیس سو چوراسی کے انتخابات میں دو سیٹیں حاصل کیں لیکن اس کے فوراً بعد ایودھیا میں رام مندر بناؤ تحریک کے نتیجے میں اسے انیس سو نواسی میں پچاسی نشستیں ، اکیانوے میں ایک سو بیس اور چھیانوے میں ایک سو چھیاسٹھ نشستیں ملیں۔بی جے پی نے سادہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت بنانے کی کوشش کی مگر سولہ دن بعد یہ حکومت مستعفی ہوگئی لیکن جب انیس سو اٹھانوے میں ایک سو بیاسی سیٹیں ملیں تو پہلی مرتبہ آر ایس ایس کو بی جے پی کی شکل میں واجپائی کی قیادت میں حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن دو ہزار چار کے انتخابات میں بی جے پی گجرات میں قتلِ عام سے پیدا ہونے والی بے یقینی اور اقتصادی ترقی کے ثمر میں عام آدمی کو شریک نہ کرنے کے سبب انڈیا شائننگ کا نعرہ لگانے کے باوجود کانگریس کے ہاتھوں شکست کھا گئی اور دو ہزار نو میں بھی اسے اندرونی انتشار کے سبب صرف ایک سو سولہ نشستیں ملیں جو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں اکیس کم تھیں۔تو پھر ایسا کیا معجزہ ہوا کہ بی جے پی کے سیاسی اتحاد نے دو ہزار چودہ کے الیکشن میں اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور بھارت کو تیس سال بعد ایسی حکومت مل گئی جو اپنی معیاد مکمل کرنے کے لیے سیاسی اتحادیوں کے رحم و کرم پر نہیں۔کیا یہ گجرات ماڈل کی کامیابی ہے یا سن تیس کے جرمن کارپوریٹ ماڈل کی چمتکاری ہے۔
وسعت اللہ خان
عجیب النسا کا حرامی......
حسن سپروائزر کا یہ ایس ایم ایس پڑھتے ہی میرے دل سے گویا ایک بھاری پتھر ہٹ گیا کہ تمہاری عجیب النسا آج فجر کے بعد چل بسیں۔
یو نو وٹ۔۔۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ وہ کونسا پروجیکٹ ہے جس میں کسی بھی دوسرے پروجیکٹ سے زیادہ وقت، وسائل، محنت، توانائی اور تربیت کے باوجود منافع کا امکان سب سے کم اور خسارے کا امکان سب سے زیادہ ہے۔اس کے باوجود سب سے زیادہ لوگ اسی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ؟ اولاد۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب النسا کی تدفین کے بعد میں اور حسن سپروائزر آمنے سامنے کی دو پرانی قبروں سے گاؤ تکیے کی طرح ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔میری سوالوں بھری آنکھوں سے ٹپکتے تجسس کو حسن سپروائزر کی خفیف سی ٹیڑھی بائیں آنکھ نے لپک لیا۔
’’ بیٹا بس کیا بتاؤں ؟ جائے نماز سے اٹھتے ہی کہنے لگیں، نیند آرہی ہ ےکوئی ڈسٹرب نہ کرے۔آدھے گھنٹے بعد اٹھا دینا۔ میں نے آہستہ سے ان کے کمرے کے کواڑ بھیڑ دیے۔ پینتیس چالیس منٹ بعد یاد آیا تواندر جھانکا۔ تب تک بڑی بی نکل چکی تھیں۔ برس ہا برس دن رات دیکھنے کی وجہ سے مجھے شائد ان کی عادت ہو گئی تھی اس لیے ابھی خالی خالی سا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘
کل ہی کی تو بات ہے کہ گیارہ مئی انیس سو ستاسی کو عجیب النسا کا اکلوتا بیٹا خالد انھیں یہاں جمع کرا گیا تھا۔ (میں نے آج تک خالد کا صرف نام ہی سنا ہے)۔ بقول حسن سپروائزر عجیب النسا کو یہاں داخل کرانے کے بعد خالد پہلی اور آخری دفعہ ٹھیک ایک سال بعد گیارہ مئی انیس سو اٹھاسی کو ماں سے ملنے آیا تو اس نے دور سے تمہیں (یعنی مجھے ) عجیب النسا کی گود میں دیکھا اور پھر وہ اپنی ماں کے لیے جو تین جوڑے لایا تھا میرے ( یعنی حسن سپروائزر) حوالے کرکے بنا ملے ہی چلا گیا اور پھر نہیں پلٹا۔
لگ بھگ چھ سال بعد بس ایک مرتبہ خالد کا خط ڈاک سے آیا۔ جب حسن سپروائزر نے وہ خط عجیب النسا کو لا کر دیا تومیں انھی کی گود میں سر رکھے بخار میں پھک رہا تھا۔مجھے عجیب النسا کی آنکھیں کبھی نہیں بھول سکتیں جو لفافے پر لکھائی دیکھتے ہی لہلہلا اٹھی تھیں۔پر جیسے جیسے وہ سطر در سطر خط میں اترتی گئیں ، چہرہ بھی پیاسی زمین سا چٹختا چلا گیا۔
اب جب کہ عجیب النسا مرچکی ہیں تو بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ اس دن جب وہ کمرے سے باہر آرام کرسی پر بیٹھی دھوپ سینک رہی تھیں تو میں نے وہ خط ان کے تکیے کے نیچے سے نکال کر بڑی مشکل سے ہجے کر کر کے اتنا ضرور سمجھ لیا جتنا ایک چھ ساڑھے چھ سال کا چوری پکڑے جانے کے خوف سے گھبرایا بچہ سمجھ سکتا ہے۔اسلام آباد ، اسکیل اٹھارہ، نوشین، شادی، بابا، فیکٹری، عمرہ، بہت مصروف ہوں ، بچہ کس کا ہے ؟؟ بس خط کی یہی کچھ باتیں مجھے یاد ہیں۔اگلے دن جب عجیب النسا کمرے سے باہر بیٹھی حسبِ معمول دھوپ سینک رہی تھیں تو میں نے پورا خط تسلی سے پڑھنے کے لیے دوبارہ ان کے تکیے کے نیچے ہاتھ مارا مگر وہ وہاں نہیں تھا۔
ارے کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ عجیب النسا سے میرا کوئی براہ راست رشتہ ہے ؟؟؟ نہیں نئیں نئیں۔۔۔حسن سپروائزر کو بھی بس اتنا معلوم ہے کہ مجھے کوئی باہر رکھے پنگھوڑے میں منہ اندھیرے ڈال گیا تھا اور عجیب النسا نے یہ کہہ کر میرا چھوٹا سا بستر اپنے کمرے میں لگوا لیا کہ دل بہلا رہے گا۔
وہ بتاتی رہتی تھیں کہ جب میں بولنے کے قابل ہوا تو اپنے ننھے ننھے پیروں سے سے ان کا چہرہ ٹٹولتے ہوئے کہتا تھا ادیب ان نت آ۔۔۔۔ اور وہ مجھ سے بار بار کہلواتی تھیں ادیب ان نت آ۔۔۔۔انھیں یہ اتنا اچھا لگا کہ جب تک زندہ رہیں ان کا پورا نام لیتا رہا۔ ایک میں ہی تو تھا ان کا پورا نام لینے والا۔۔۔۔۔
ہوش سنبھالنے کے بعد کی جو چند یادیں کچھ کچھ ذہن میں اٹکی ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دو تین مہینے بعد عجیب النسا صبح ہی صبح کمرے کی الماری میں سے کچھ کاغذ نکالتیں اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کے کہتیں چل سرٹیفکیٹ تڑوا لیں۔ پھر ہم دونوں رکشے میں بیٹھ کر ایک دفتر میں جاتے اور ان سرٹیفکیٹوں کے بدلے نوٹوں کی ایک گڈی مل جاتی۔( نہ انھوں نے کبھی بتایا نہ میں نے پوچھا کہ ان سرٹیفکیٹوں کا پس منظر کیا ہے )۔
ہر دفعہ عجیب النسا کو سرٹیفکیٹ والے دفتر میں کوئی نہ کوئی جاننے والی مل ہی جاتی اور وہ اس کے کسی بھی غیر متوقع سوال سے پہلے ہی احتیاطاً شروع ہوجاتیں کہ یہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے ذوالفقار احمد خان۔ذہانت میں ماشاللہ بالکل اپنے نانا مولوی صاحب ذوالفقار احمد خان سری کوٹی پر گیا ہے۔اس دفتر سے ہم دونوں سیدھے میری نرسری جاتے اور نرسری کا کلرک نوٹوں کی تقریباً آدھی گڈی الگ کرکے رسید کاٹ دیتا۔
میں نے عجیب النسا کے پاس رہتے رہتے ایک روز ایم ایس کمپیوٹر سائنس بھی ( اول پوزیشن ) کرلیا اور آج ایک ملٹی نیشنل میں سادرن ریجن کا ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈویژن ہوں۔جس دن نوکری ملی عجیب النسا نے تقریباً دھکے ہی دے کر اپنے کمرے سے نکال دیا۔
’’ اب تو یہاں سے جا اور اس گھر میں جا کے رہ جو کمپنی نے تجھے دیا ہے‘‘۔
مگر آپ ؟
’’خبردار جو آگے ایک لفظ بھی کہا۔بس یہی میرا آخری گھر ہے اور مٹی بھی یہیں سے اٹھے گی‘‘۔
مگر میں نے عجیب النسا کو بڑی مشکل سے موبائل فون رکھنے پر آمادہ کر لیا۔ ماتھا چومتے وقت پتلیاں گھماتے ہوئے کہنے لگیں تجھے میری اتنی فکر کیوں رہتی ہے ؟ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔کل کو تیرے جورو بچے بھی ہوں گے، ان کی فکر کرنا سیکھ۔
دفتر سے گھر واپسی پر جب بھی ان کے پاس سے ہو کر جاتا تو کہتیں تیرے پاس دنیا میں اور کوئی کام نہیں کیا جو روزانہ مجھے دیکھنے چلا آتا ہے۔ یہ بھانڈا تو بہت بعدمیں حسن سپروائزر نے پھوڑا کہ عجیب النسا تمہارے لائے کپڑے جوتے تمہارے جاتے ہی الماری سے نکال فوراً ساتھ کی عورتوں میں تقسیم کر دیتی ہیں مگر تازہ انگریزی ناول اور پھول اپنے کنے ہی رکھتی ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ مگر میں بہرحال مطمئن ہوں کہ عجیب النسا بنا محتاج ہوئے مرگئیں۔ اب اس دنیا میں کوئی نہیں جو جائے نماز کا کونہ موڑتے موڑتے میرے گال کھینچتا ہوا یہ دعائیہ طعنہ دے سکے کہ ،
خدایا ! حلالیوں کی ستائی ہر ماں کو ایسا حرامی بھی عطا فرما۔آمین۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
مجھے آئی ایس آئی سے کیوں محبت ہے؟

آج کے پاکستان میں بس دو ہی ٹیمیں ہیں جن پر قومی وقار کا دارومدار ہے۔کرکٹ اور آئی ایس آئی۔ان دنوں کرکٹ کی باگ ڈور صحافی نجم سیٹھی کے ہاتھ میں ہے ۔حسنِ اتفاق سے وہ اور آئی ایس آئی ایک دوسرے سے بوجوہ بخوبی واقف ہیں۔ چونکہ کرکٹ ٹیم ان دنوں وقفے سے ہے لہٰذا قومی محبت کا دھارا پوری شدت کے ساتھ ٹیم آئی ایس آئی کی طرف ہے۔
حامد میر ایپی سوڈ کے بعد سے پنڈی اسلام آباد میں بالخصوص اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بالعموم فرقہ، ذات، پیشے، چینل، رنگ و نسل و نظریے اور کالعدم و غیر کالعدم کے فرق سے بالا سب ہی مکاتیبِ فکر قومی تحفظ کی ضامن ایجنسی سے اظہارِ محبت میں
’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘ کی تفسیرِ متبادلہ بن چکے ہیں۔
قومیں اپنے اکابرین، نظریے اور شناخت کے لیے تو سڑکوں پر والہانہ پن دکھاتی آئی ہیں ۔لیکن کسی انٹیلی جینس ادارے کے لیے جوشِ محبت کا یوں امڈنا ؟ اللہ اللہ ۔۔
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
ظاہر ہے ایسے روح پرور ماحول کا اثر ہر شخص پر ہوتا ہے سو مجھ پر بھی ہوا۔اور اپنی آنکھوں سے تعصب کے جالے اتار کر جو دیکھا تو کچھ عجب ہی دکھائی دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ آئی ایس آئی نے اب تک پوری توجہ اپنے بنیادی کام یعنی داخلی و خارجی سلامتی کی نگرانی پر مرکوز رکھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک سبھوں نے اسے سیاست میں گھسیٹنے کے لیے کیا کیا ڈورے نہ ڈالے۔لیکن آئی ایس آئی نے ہمیشہ یہ عذرِ آئینی پیش کرکے خود کو سیاسی کت خانے سے بچائے رکھا کہ،
ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
آپ دیکھیں کہ پورے ضیا دور میں آئی ایس آئی نے اپنی توجہ اس ہدف پر رکھی کہ افغان دلدل میں پاکستان کو دھنسنے سے کیسے روکا جائے۔ بعد از ضیا ہر درد مند قومی ادارے کی طرح آئی ایس آئی کی بھی تمنا رہی کہ کسی طرح اقتدار اس کے صحیح حقداروں یعنی عوام کے منتخب اداروں کو مننتقل ہوجائے۔ مگر جمہوریت دو جماعتی نظام کی صورت میں بحال ہو تاکہ مسابقت کی آب و ہوا میں جمہوریت کا پودا پھلتا پھولتا پھیلتا رہے۔
قومیں اپنے اکابرین، نظریے اور شناخت کے لیے تو سڑکوں پر والہانہ پن دکھاتی آئی ہیں ۔لیکن کسی انٹیلی جینس ادارے کے لیے جوشِ محبت کا یوں امڈنا؟ اللہ اللہ ۔۔
چنانچہ آئی ایس آئی نے بےنظیر بھٹو کی ممکنہ یک جماعتی آمرانہ سوچ کو لگام دینے کے لیے کچھ قبلہ درست سیاست دانوں کی جانب سے اسلامی جہموری اتحاد ( آئی جے آئی ) کی تشکیل کا رسمی سا خیرمقدم تو ضرور کیا مگر یہ بھی واضح کردیا کہ فیصلہ شفاف انتخابی اکھاڑے میں ہی ہوگا اور جیتنے والے سے پورا تعاون کیا جائے گا۔لہٰذا وعدے کا پاس کرتے ہوئے مرکز میں جیتنے والی بےنظیر اور فاتح پنجاب نواز شریف سے پورا پورا تعاون کیا گیا اور اتنا کیا گیا کہ قوم پکار اٹھی،
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے ( علیم )
اسی طرح سنہ اکیانوے کے انتخابات میں کسی ٹچے سے مہران بینک کے کسی ایویں ای سے یونس حبیب نے جانے کس کس کا الٹا سیدھا نام لے کر آئی ایس آئی کو زبردستی چند سو ملین روپے تھما دیے کہ بینک کا کمپیوٹر سسٹم کام نہیں کررہا لہٰذا آپ یہ رقم فلاں فلاں کسٹمر تک فوراً پہنچوا دیں۔ سادہ طبیعت آئی ایس آئی نے خدمتِ خلق کے جذبے میں یہ کام انجام دے دیا۔اگر پتہ ہوتا کہ یہ اسے پھنسوانے کا ڈرامہ ہے تو کاہے کو وہ یہ سب کرتی۔چنانچہ سب ہی صاف صاف نکل گئے اور ایک ڈائری میں ہاتھ سے لکھے چند ناموں کی بنیاد پر ایجنسی کے خلاف سلطانی گواہ بن گئے۔اور نام بھی کیا تھے۔شیخ صاحب ، سردار صاحب ، قاضی صاحب ، پیر صاحب ، میاں صاحب وغیرہ وغیرہ۔ بندہ پوچھے کہ شیخ صاحب سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ یہ شیخ رشید ہے یا شیخ بدرو ۔پیر صاحب سے کیسے پتہ چلے گا کہ یہ پیر پگارا کا ہی ذکر ہے یا پیر کوڑل شاہ کا۔اور میاں صاحب سے کیسے ۔۔۔تو یہ ہے آج کل کے زمانے میں کسی سے نیکی کرنے کا صلہ۔
خدمتِ خلق
سنہ اکیانوے کے انتخابات میں کسی ٹچے سے مہران بینک کے کسی ایویں ای سے یونس حبیب نے جانے کس کس کا الٹا سیدھا نام لے کر آئی ایس آئی کو زبردستی چند سو ملین روپے تھما دیے کہ بینک کا کمپیوٹر سسٹم کام نہیں کررہا لہٰذا آپ یہ رقم فلاں فلاں کسٹمر تک فوراً پہنچوا دیں۔ سادہ طبیعت آئی ایس آئی نے خدمتِ خلق کے جذبے میں یہ کام انجام دے دیا۔
مجھے کوئی قائل کرے کہ آئی ایس آئی سویلین حکومتوں کی اگر ایسی ہی دشمن تھی تو صرف بی بی اور ان کے حواری ہی کیوں چیختے رہے۔ میاں صاحب نے تیسری دفعہ وزیرِ اعظم بننے کے باوجود کبھی کیوں نہیں کہا کہ ان کی دو برطرفیوں کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ تھا؟ کامن سنس کی بات ہے کہ ایک ادارہ جو براہ راست وزیرِ اعظم سیکرٹیریٹ کے ماتحت ہو کیسے اپنے باس کے خلاف کسی سازش میں کسی اور کا ساتھ دے سکتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ دو ہزار دو کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ق جنرل مشرف کے کہنے پر آئی ایس آئی نے بنوائی اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل کی غیر معمولی کامیابی کے لیے بھی انتخابی میدان ہموار کیا۔فرض کریں ایسا ہی ہوا تو کیا ہوا؟ سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف نہ صرف چیف آف آرمی سٹاف تھے بلکہ بطور چیف ایگزیکٹیو وزیرِ اعظم کے اختیارات بھی استعمال کر رہے تھے۔چنانچہ اگر آئی ایس آئی ان کے پرائم منسٹرانہ احکامات بجا لائی تو کون سا قانون توڑ دیا؟
اور ہاں! غیر ملکی آلہ کاروں کے بقول آئی ایس آئی افغانستان میں بھی مسلسل مداخلت کرتی رہتی ہے۔بھائیو کچھ تو عقل کو ہاتھ مارو۔ ایک افغان پچھلے چالیس برس سے دوسرے افغان کے ساتھ جو جو کر رہا ہے وہاں آئی ایس آئی کو اضافی ہتھیلی لگانے کی بھلا کیا ضرورت؟
اچھا جی آئی ایس آئی نے جہادی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی ۔ہاں کی تو پھر؟؟؟؟ یہ اعتراض وہ نام نہاد لبرل سیکولر فاشسٹ کرتے ہیں جو جہادِ فی سبیل للہ کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ اور یہ کوئی کیوں نہیں دیکھتا کہ آئی ایس آئی نے اقبال کا تصورِ شاہین جیسا سمجھا ویسا کس نے سمجھا؟
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
کل کو آپ اقبال پر بھی الزام لگا دیں کہ دراصل ان کے اشعار ہی پاکستان کے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔۔۔۔۔۔
یہ بھی طنز کیا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہے تو پھر اسے یہ کیوں نہیں پتہ چلا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں رہتا ہے اور پھر یہ کیوں نہیں پتہ چلا کہ امریکی اسے لینے آ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ؟ اس سے پہلے کہ میں اس گھٹیا اعتراض کا دندان شکن جواب دوں زرا ایک بات تو بتائیے۔
ظہیر تیرے جانثار۔بے شمار بے شمار ۔ظالمو جواب دو ، آئی ایس آئی کو حساب دو۔۔۔۔
اگر آپ مجھ سے کہیں کہ یار وسعت زرا چار پان تو لے آ ،چھالیہ کم اور چونا بہت تیز نہ ہو اور ہاں ایک پیکٹ بینسن سگریٹ کا بھی پکڑ لینا، لوکل نہیں فارن کیا سمجھے؟ ابے سن ، واپسی پر محمود مستری کے ہاں بھی جھانکتے ہوئے آنا ، دیکھ لینا اس نے انجن کھولا یا نہیں اور اگر وہ کوئی رنگ پسٹن منگوانا چاہے تو لکھوا کر پرچی جیب میں رکھ لینا اور یہ لے دو ہزار روپے وہ جو قاسم مٹھائی والا ہے نا! اسے خاموشی سے جا کر دے آئیو۔کہنا خادم بھائی نے بھجوائے ہیں ۔۔اور سن ، جاتے ہوئے عاصم کلینک میں بھی پوچھ لینا کہ ڈاکٹر صاحب شام کو کب بیٹھتے ہیں؟ اب بھاگ کے جا اور ایسے آ جیسے گیا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
یہ بتائیے کہ ان میں سے مجھے کتنے کام پورے یاد رہیں گے، کتنے آدھے اور کتنے بالکل بھی نہیں۔اب آپ میری جگہ آئی ایس آئی کو رکھیں۔ایک اکیلی ایجنسی اور اس پر ہزار فرمائشیں۔۔۔آئندہ اگر کسی نے نام بھی لیا ایبٹ آباد کا تو ننانوے مار کے ایک گنوں گا۔اور جب تک ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ نہ آئے میں ایک لفظ سننے کا روادار نہیں۔ اور اگر اس رپورٹ میں کسی ایجنسی کا نام آ گیا تو جو چور کی سزا وہ میری ۔۔۔امید ہے اب آپ اس موضوع پر مزید بک بک نہیں فرمائیں گے۔
ہی ہی ہی ہی۔۔چلو آپ کہتے ہیں تو جبری گمشدگیوں کے ڈرامے پر بھی بات کرلیتے ہیں؟ مگر یہ بھی خوب ہے کہ اٹھائے پولیس اور نام آئی ایس آئی کا۔اٹھائے ایف سی اور ٹوپی آئی ایس آئی پر۔ بندہ بیرونِ ملک فرار ہو جائے اور تلاش پر لگا دیں آئی ایس آئی کو۔اغوا کرے را، موساد اور سی آئی اے اور گردن آئی ایس آئی کی پتلی۔۔۔۔
دفع کریں اس بحث کو ایک قصہ سنئے۔پچھلی رات ایک بھوت میرے گھر پے آیا۔ہم دونوں نے ساتھ ڈنر کیا، آئس کریم کھائی اور کنگنا رناوت کی فلم کوئین ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھی اور پھر وہ بھوت ہاتھ ملائے بغیر غائب ہوگیا؟ کریں گے آپ میری اس بات پر یقین ؟؟
قومی مفاد
بلاشبہہ آئی ایس آئی نے اب تک جو کیا قومی مفاد میں کیا اور سینہ ٹھونک کر کیا۔اور کسی بھی حساس قومی ادارے کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
لیکن اگر میں کہوں کہ رات آئی ایس آئی والے میرے گھر پے آئے اور خطرناک دھمکیاں دیں؟ آپ میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو آنکھیں بند کرکے اس کہانی پر فوراً یقین نہ کرلے۔ اے لال بھجکڑو! اگر واقعی ایسا ہوتا تو فاٹا کے حیات اللہ سے اسلام آباد کے سلیم شہزاد تک کسی صحافی کے قتل میں تو آئی ایس آئی کا نام ثابت ہوتا۔ظاہر ہے اب آپ لوگ کھسیانے پن میں اس قسم کے چچھورے اشعار کا سہارا لیں گے کہ
دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پے کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
بلاشبہہ آئی ایس آئی نے اب تک جو کیا قومی مفاد میں کیا اور سینہ ٹھونک کر کیا۔اور کسی بھی حساس قومی ادارے کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔کیا فیض صاحب نے گواہی نہیں دی تھی کہ،
ہر داغ ہے اس دل میں بہ جز داغِ ندامت ۔
آئی ایس آئی دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ہے۔یہ مسلسل جاگتی ہے تاکہ اٹھارہ کروڑ شہری چین سے سو سکیں اور اٹھ سکیں۔لہٰذا اپنے نمک کی لاج رکھو اور حب الوطنی کے ثبوت میں ایسے دھاڑو کہ دشمنوں کے دل پارہ پارہ ہوجائیں۔۔۔ظہیر تیرے جانثار۔بے شمار بے شمار ۔ظالمو جواب دو ، آئی ایس آئی کو حساب دو۔۔۔۔
سب آنکھوں کا ہے یہ تارہ ، سیاست گروں کا راج دلارا ، ملک و قوم کا حتمی سہارا ، ہم نے تجھ پے یہ دل وارا ، آب پارہ آب پارہ ۔۔۔
وسعت اللہ خان
اتفاقاً انسان ہونے کا کتنا انتقام لیں گے
جانور بھی اسی طرح پیدا ہوئے جیسے انسان۔ اسی نے پیدا کیا جس نے انسانوں کو۔ ابتدا میں جس کا جہاں بس چلتا دوسرے کو شکار کر لیتا یا خود ہو جاتا۔ لیکن انسان میں دیگر جانداروں کی نسبت خود کو ڈھالنے اور سیکھنے کی صلاحیت چونکہ زیادہ تھی لہذا وہ باقی جانداروں سے آگے نکل گیا اور اس نے لگ بھگ دس ہزار برس قبل کچھ جانداروں کو سدھانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ جیسے گھوڑا ، گدھا، مرغی ، گائے ، بکری ، کتا، بندر، کبوتر، طوطا، مینا وغیرہ اور پھر ہر ایک کی مخصوص صلاحتیوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جس میں بنیادی فوائد بار برداری ، خوراک اور چمڑے وغیرہ کا حصول تھا۔ پھر ان جانوروں کو سدھانے کا جواز بھی پیدا ہو گیا۔ مثلاً یہ کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے بجائے محض جبلت کے سہارے رہنے کے سبب جانور بھی درختوں ، پانی اور آگ کی طرح ایک قدرتی دولت ہوتے ہیں جو انسانوں کے فائدے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ سولہویں صدی کے مشہور فرانسسیی فلسفی رینے ڈیکارت کا بھی یہ خیال تھا کہ جانور بالکل گھڑی کی طرح مکینکیل ہوتے ہیں انھیں دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا۔
ہر مذہب نے کچھ جانوروں کے گوشت کے استعمال کی اجازت دی اور کچھ کا گوشت ممنوع قرار دیا۔ ہر مذہب نے ضرورت کے سوا جانوروں کو قید کرنے اور بغرضِ تفریح تکلیف و ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا اور پالتو جانوروں سے مہربانی کا سلوک اختیار کرنے کی تاکید کی اور اس مہربانی کے اجر کا مژدہ بھی سنایا اور پھر سائنسی طور پر یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ہر جاندار زندگی کے دائرے کا اہم اور لازمی جزو ہے۔ اگر کوئی ایک حیاتیاتی نسل خطرے میں پڑتی ہے تو پورا سرکل آف لائف کمزور ہو کر بالاخر ٹوٹ پھوٹ بھی سکتا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ عیسائی یورپ میں تجارتی انقلاب آنے تک بلی کو شیطان کا روپ مان کر اسے جگہ جگہ بھوسے کے ساتھ باندھ کر زندہ جلادیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب بلیاں کم ہو گئیں تو چوہے بڑھ گئے اور چوہوں کے ذریعے چودھویں اور پندھرویں صدی میں جو طاعون پھیلا اس سے یورپ کی ایک تہائی آبادی لقمہِ اجل بن گئی۔اس کے بعد کسی نے بلی کو شیطان کی خالہ نہیں کہا۔
رومن بادشاہ تو عوام کی توجہ روزمرہ مسائل اور اپنی نااہلی سے ہٹانے کے لیے انھیں جانوروں کی لڑائی کے تماشے میں مصروف رکھتے تھے لیکن جدید ، روشن خیال، پڑھی لکھی خدا ترس دنیا میں آج جانوروں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کے ہوتے ہوئے رومن دور فرشتوں کا زمانہ لگتا ہے۔ سن انیس سو اڑتیس میں امریکا میں فوڈ، ڈرگ اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ کے تحت مصنوعات کو انسانی استعمال سے قبل جانوروں پر آزمانے کا عمل لازمی قرار پایا۔ چنانچہ صرف امریکی لیبارٹریز میں سالانہ لگ بھگ ستر ملین چوہے ، کتے ، بلیاں ، خرگوش ، بندر ، پرندے وغیرہ تحقیق و ترقی کے نام پر اذیت ناکی اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ خرگوشوں کی آنکھوں میں متعدد کاسمیٹکس مصنوعات تجرباتی طور پر داخل کر کے انھیں اندھا کیا جاتا ہے۔ اسے ڈریز ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ اور پھر انھیں ناکارہ قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ چین فر کا سب سے بڑا عالمی ایکسپورٹر ہے۔ فیشن انڈسٹری کی بھوک مٹانے کی خاطر سالانہ ساڑھے تین ملین جانور صرف اس لیے مار دیے جاتے ہیں کہ ان کے نرم بال فر کی مصنوعات میں استعمال ہوسکیں۔ مثلاً چالیس انچ کا ایک فر کوٹ بنانے میں اوسطاً پنتیس خرگوشوں ، یا بیس لومڑیوں یا آٹھ سیلز کی کھال درکار ہوتی ہے۔
قراقلی ٹوپی بنانے کے لیے جونرم فر مٹیریل چاہیے وہ بھیڑ کے اس بچے کی کھال سے ہی مل سکتا ہے جسے پیدا ہونے سے پہلے ماں کا پیٹ چاک کر کے نکالا جاتا ہے۔ حالانکہ فی زمانہ سنتھیٹک میٹیریل سے بھی اتنے ہی گرم کپڑے اور دیگر مصنوعات بن سکتی ہیں اور بن بھی رہی ہیں۔ فر کو تو جانے دیں جانوروں کی تو کھال بھی ان کے لیے مصیبت ہے۔صرف دو ہزار دو سے دو ہزار پانچ کے دوران جوتے ، پرس ، بیلٹس، جیکٹس وغیرہ بنانے کے لیے یورپی یونین میں چونتیس لاکھ بڑی چھپکلیوں ، تیس لاکھ مگرمچھوں اور چونتیس لاکھ سانپوں کی کھالیں امپورٹ کی گئیں۔اگر ہاتھی کے دانت اور گینڈے کے سینگ نہ ہوتے تو آج ان کی نسل اپنی بقا کی جنگ نہ لڑ رہی ہوتی۔
گائے کا دودھ یقیناً اہم انسانی غذا ہے۔ لیکن اب سے تیس برس پہلے تک گائے کی اوسط عمر بیس سے پچیس برس ہوا کرتی تھی۔ اب اسے چار سے پانچ برس ہی زندہ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس کا دودھ بڑھانے کے لیے مسلسل ہارمونل انجکشن دیے جاتے ہیں اور مصنوعی طریقوں سے لگاتار حاملہ رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا ہوسکیں۔ یوں وہ کچھ ہی عرصے میں سوائے ہلاکت کے کسی کام کی نہیں رہتی۔ مگر بھارت جہاں گائے ہلاک کرنا جرم ہے وہاں صرف چند لاکھ گائیوں کے لیے گؤشالہ کی سہولت ہے۔ دیگر کروڑوں بھک مری یا آلودہ الم غلم کھا کے خود ہی سورگباشی ہو جاتی ہیں۔
مرغی عالمی سطح پر گوشت کی ساٹھ فیصد مانگ پوری کرتی ہے۔لیکن بیس فیصد مرغیاں گندگی اور پنجروں میں گنجائش سے زیادہ ٹھونسے جانے اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران ہی مرجاتی ہیں۔انڈے دینے والی مرغیوں کا گوشت عام طور سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ جب وہ بانجھ ہوجاتی ہیں تو انھیں ہزاروں کی تعداد میں زندہ دفن کردیا جاتا ہے۔شارک کے بازوؤں کا ( شارک فن) سوپ ایک مہنگی سوغات ہے اور ایک اچھے ریسٹورنٹ میں دو سو ڈالر فی باؤل تک قیمت وصول کی جاتی ہے۔لیکن شارک کے بازو کاٹ کر باقی شارک کو سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بغیر بازوں کے وہ تیرنے سے معذور ہوجاتی ہے اور سمندر کی تہہ میں اترتی چلی جاتی ہے۔شمالی بحر اوقیانوس میں جزائر فیرو میں ہر موسمِ گرما میں ایک ہزار پائلٹ وھیل مچھلیوں کو گھیر کر کنارے تک لایا جاتا ہے اور انھیں تیز دھار آلات سے ہلاک کیا جاتا ہے۔جس سے تا حدِ نظر پانی سرخ ہوجاتا ہے۔ مچھلیوں کے قتلِ عام کا یہ قدیم میلہ آج تک جاری ہے۔ لگ بھگ دو سو ٹن وزنی بلیو وھیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اب سے سو برس پہلے تک کرہِ ارض کے سمندروں میں دو لاکھ بلو وہیلز تھیں۔مگر آگ لگے ان کی چربی کو کہ آج دس ہزار سے بھی کم رہگئی ہیں۔
اکیزوکوری ایک خاص جاپانی ڈش ہے۔ باورچی شیشے کے واٹر ٹینک میں سے گاہک کی مرضی کے مطابق زندہ مچھلی نکال کر اس کی کھال اتارتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑے کچھ اس مہارت سے کرتا ہے کہ دل دھڑکتا رہے اور سر میں جان باقی رہے اور پھر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر قاب میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔منہ کھولتی بند کرتی مچھلی آہستہ آہستہ مرتی ہے۔تب تک اس کا گرم نرم گوشت چوپ سٹکس کے ذریعے گاہک کے معدے میں اتر چکا ہوتا ہے۔ین یانگ فش چینی ڈش ہے۔ زندہ مچھلی کو اس طرح تلا جاتا ہے کہ سر میں آخر تک جان باقی رہے۔ جیاؤ لو رو ( آبی گدھے کا گوشت ) بھی ایک مہنگی چینی ڈش ہے۔ زندہ گدھے کی تھوڑی سی کھال اتار کر کچے گوشت پر مسلسل ابلا ہوا پانی ڈالتے ہیں اور جب وہ پک جاتا ہے تو اتنا پارچہ اتار کر گاہک کو پیش کردیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا کے جزیرہ نارتھ سالویزی کی ٹومو ہون مارکیٹ میں بندر ، چمگادڑ ، بلی، کتے، سور، چوہے، اژدھے زندہ روسٹ کر کے لٹکا دیے جاتے ہیں۔اور ان کے ہم جولی دیگر جانور پنجروں میں بند سامنے سامنے اپنی باری گن رہے ہوتے ہیں۔
بل فائٹنگ کے کھیل میں ہر سال لگ بھگ چالیس ہزار بھینسے مر جاتے ہیں۔ ایک بھینسہ جس کے جسم میں بل فائٹر کے کئی فاتحانہ نیزے گڑے ہوں مرنے میں ایک گھنٹہ لگاتا ہے۔ اسپین کے مدینسیلی قصبے میں ہر سال نومبر میں ٹورو جبیلو ( جلتا ہوا بھینسا ) کا تہوار منایا جاتا ہے۔ جنگلی بھینسے کے نوکیلے سینگوں پر ڈامر کی تہہ لیپ کر اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔بھینسا شعلوں کی شدت سے بچنے کے لیے دیواروں سے ٹکریں مارتا ہوا گلیوں اور سڑکوں پر تماشائیوں کی تالیوں اور شور میں دیوانہ وار بھاگتا رہتا ہے اور جلتا ڈامر ٹپک ٹپک کر اسے گردن تک جھلسا دیتا ہے اور پھر وہ چار سے پانچ گھنٹے میں سسک سسک کے مرجاتا ہے۔ جب گرے ہاؤنڈز کتے دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتے تو انھیں گولی ماردی جاتی ہے۔ یوں ہر سال لگ بھگ پچاس ہزار گرے ہاؤنڈز انسانی تفریح کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ یہی سلوک ناکارہ گھوڑوں کے ساتھ ہوتا ہے۔سن اسی کے عشرے میں ہیونزگیٹ نامی فلم میں ایک منظر فلمانے کی خاطر زندہ گھوڑا ڈائنامائیٹ سے اڑا دیا گیا۔ جانوروں کو ان جنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی لینا دینا نہیں۔ مثلاً ڈولفنز سے سمندر میں بچھی بارودی سرنگیں تلاش کرائی جاتی ہیں۔ سی لائنز دشمن کے زیرِ آب غوطہ خور تلاش کرتے ہیں۔ کتے بم سونگھتے پھرتے ہیں۔ بارودی سرنگوں سے اٹے میدانوں پر سے پالتو جانور گذارے جاتے ہیں تاکہ وہ میدان انسانوں کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ کیمیاوی ہتھیاروں اور ان کے توڑ کے تجربات جانوروں پر کیے جاتے ہیں۔ دھماکوں کے اثرات اور چھوٹے ہتھیاروں کی فائر پاور جانوروں پر آزمائی جاتی ہے۔ جن جن ممالک میں بچوں کو مسلح تنازعات میں جھونکا جاتا ہے ان کی معصومیت اور قدرتی جھجک مٹانے کے لیے ان کے ہاتھوں جانوروں کی سفاکانہ طریقے سے ہلاکت سے عسکری تربیت شروع ہوتی ہے۔ جیسے مرغی پکڑ کر اس کی گردن ہاتھوں سے الگ کر دینا یا ٹانگیں پکڑ کر پھاڑ دینا وغیرہ۔
کہا جاتا ہے کہ جانور چونکہ بے زبان ہوتے ہیں لہذا ان کی ہلاکت سے انسانی نفسیات پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا اور ایسے واقعات انسانی شعور میں زیادہ عرصے نہیں رہتے۔ لیکن ایف بی آئی کے مطابق چھتیس فیصد جنسی قاتلوں کے پروفائلز سے ظاہر ہوا کہ وہ بچپن میں جانوروں پر تشدد کے شوقین تھے اور اس شوق نے ان میں جو بے حسی پیدا کی وہ بڑھتے بڑھتے انسانوں کے متشدد شکار تک لے آئی۔ نہیں نہیں ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم تو اس خدا کے ماننے والے ہیں جو کہتا ہے کہ جانور بھی میری مخلوق ہیں اور اپنی اپنی زبان میں میری حمد و ثنا کرتے ہیں۔ جس نے اصحابِ کف کے کتے کے لیے بھی اجر کا اعلان کیا۔ جس نے غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی حرام قرار دیا۔ ہم تو اس نبی کے پیروکار ہیں جس کی بلی مغیرہ چادر پر سو جاتی تو آپ چادر چھوڑ کے آہستگی سے چلے جاتے تھے تاکہ نیند نہ ٹوٹے۔ آپ نے سختی سے منع کیا کہ جانور کو داغنا ، آپس میں لڑانا اور تفریحاً ان کی شکلیں مسخ کرنا قابلِ نفرین و لعنت ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ جس نے ایک چڑیا کو بلاوجہ مارا اسے یومِ قیامت جواب دینا ہے۔ آپ ایسے رقیق القلب کہ ایک پیاسے پلے کو کنوئیں سے پانی پلانے والی عورت کو اجرِ عظیم کی نوید سنائی۔ آپ ہی کے ایک خلیفہِ راشد سے منسوب ہے کہ فرات کے کنارے کوئی کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کی ذمے داری خلیفہِ وقت پر ہے۔
احادیث کی بات ہو تو ہم حضرت ابو ہریرہ ( بلیوں کا باپ ) کا حوالہ دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کے نام بڑے فخر سے شاہین احمد ، باز محمد ، شیر علی ، کلبِ صادق وغیرہ رکھتے ہیں۔ مگر یہ بھی ہے کہ آنکھیں خود پھیرتے ہیں اور الزام طوطا چشمی کو دیتے ہیں۔مکار خود ہیں پر بدنام لومڑی ہے۔ سفاکی اندر موجود ہے مگر مثال بھیڑئیے کی۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر احسان فراموشی آپ کریں اور بدنام ہو آستین کا سانپ۔نقالی کی داد خود وصول کریں اور نام لگائیں بندر کا۔ حرام خود کھائیں اور حوالہ دیں خنزیر کا۔۔
کیا ہمیں روزانہ لوہے کے پنجروں میں ٹھنسی مرغیاں ، موٹرسائیکل کے پیچھے دوہرے کرکے بندھے بکرے ، ڈیڑھ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے والے ٹرکوں میں معلق چارپائیوں میں ٹانگیں پھنسائے بکرے اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی کھڑی بھینسیں، وزن کے زور پر ہوا میں معلق پیٹے جانے والے گدھے ، گلے میں رسی ڈال کر کھینچے جانے والے ڈنڈے کے خوف سے ناچتے بندر ، چڑیا گھر کے کنکریٹ سے پنجے کھرچ کر زخمی ہونے والے شیر ، نتھنوں میں نکیل ڈالے کرتب دکھانے پر مجبور ریچھ ، لاکھوں روپے کی شرط پر لہو لہان لڑائی کے منہ نچے کتے اور ایک دوسرے کی گردن نوچنے اور آنکھیں پھوڑنے والے مرغ دکھائی نہیں دیتے۔سوچئے اگر آپ ان میں سے کسی جانور کی شکل میں جنمے جاتے تو آپ کے ساتھ کیا ہوتا ؟ ایک ہی کرہِ ارض پر ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود اتفاقاً انسان ہونے کا آخر ہم ان بے زبانوں سے اور کتنا انتقام لیں گے ؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"
Pakistan Disabled Peoples by Wusatullah Khan
آج ذرا خود پر غور کیجے گا جب آپ گھر سے نکلیں اور آپ کو کوئی صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے نظر آئیں یا کالا چشمہ پہنے سفید چھڑی ہلاتے فٹ پاتھ پے ملیں یا اسی فٹ پاتھ پر دونوں پیر گھسٹتے دکھائی دیں، ہم میں سے بیشتر ان لوگوں کے لیے ایک لمحاتی ہمدردی محسوس کرتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ ہماری طرح کے ان نارمل دماغ و دل کے لوگوں کو ہماری ہمدردی سے زیادہ ہماری توجہ کی ضرورت ہے۔یہ بیمار نہیں کہ آپ ان پر عیادت بھری نگاہ ڈالیں۔یہ ناکام نہیں کہ آپ ان پر ترس کھائیں۔یہ نکھٹو نہیں ، بھکاری نہیں۔یہ بھی ایک خوبصورت اور پرسکون زندگی چاہتے ہیں مگر ہم آپ جیسے نام نہاد جسمانی نارمل لوگوں کی ہمدردی و ترس ان کے لیے سب سے بڑا تازیانہ بن جاتا ہے۔آخر ہم ان کے ہم قدم اور شانہ بشانہ ایک نارمل رویے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتے۔
اس وقت اس دنیا کے ہر سو میں سے پندرہ لوگ کسی نا کسی جسمانی یا زہنی کمی میں مبتلا ہیں اور ان میں سے ستر تا اسی فیصد ترقی پذیر دنیا میں رہتے ہیں۔پاکستان میں اگرچہ جسمانی و ذہنی کمی کے شکار لوگوں کا کوئی سائنسی سروے موجود نہیں لیکن انیس سو اٹھانوے کی آخری مردم شماری کے مطابق ملک میں پونے تین ملین معذور افراد تھے اور اس تناسب سے اندازہ ہے کہ گذشتہ سولہ برس میں ان کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔اور یہ تعداد ناروے ، نیوزی لینڈ ، لبنان اور کویت جیسے کسی بھی ملک کی آبادی سے زیادہ ہے۔
لیکن ناروے ، نیوزی لینڈ ، لبنان اور کویت سمیت بیشتر امیر یا متوسط ممالک میں معذوری بوجھ سمجھے جانے کے بجائے رفتہ رفتہ محض ایک جسمانی کمی کے درجے تک لائی جاچکی ہے۔ ان ممالک میں روزگار کے اکثر شعبوں میں کوئی بھی جسمانی کمی کا شکار اپنے صلاحتیوں کے حساب سے کوئی بھی کام منتخب کرنے میں آزاد ہے۔فٹ پاتھوں سے لے کر عمارتوں ، بسوں ، ٹرینوں کے ریمپس تک ایسے بنائے گئے ہیں کہ جسمانی معذوروں کو مدد کے لیے ادھر ادھر نہ دیکھنا پڑے۔ان کے لیے پبلک پرائیویٹ پارکنگ ایریاز میں جگہیں مختص ہونا ایک عام سی بات ہے۔وہ اپنے استعمال کے لیے ڈیوٹی فری آلات اور گاڑیاں امپورٹ کرسکتے ہیں۔ان کے اوقاتِ کار لچک دار رکھے گئے ہیں اور سرکاری و نجی طبی و سماجی ادارے ان کی بھرپور معاونت سے کبھی نہیں ہچکچاتے چنانچہ ان معاشروں میں شائد ہی کوئی ایسا زن و مرد ہو جو محض کسی جسمانی کمی کے سبب زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہو۔گویا ان معاشروں نے ان کی کمی کو اپنی توجہ سے اپنے اندر جذب کرلیا ہے۔
مگر ہم جیسے معاشروں میں کہانی خود ترسی سے شروع ہوتی ہے اور خدا ترسی پر ختم ہوجاتی ہے۔جس طرح ذہنی مسائل کے سلجھاؤ کے لیے ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا عیب کی بات سمجھی جاتی ہے اور ایسے مشورے کو ’’ اوئے میں کوئی پاغل ہاں ’’ کہہ کر مسترد کردیا جاتا ہے اسی طرح ذہنی یا جسمانی کمی کے شکار بچوں اور بڑوں کے بارے میں بھی یہ سوچ کر بغیر سوچے سمجھے انااللہ پڑھ لی جاتی ہے کہ صبر سے کام لو اللہ کو یہی منظور تھا۔حالانکہ اگر صرف بھکاریوں کی ہی تعداد کو گنا جائے تو ہٹے کٹے بھکاری جسمانی و ذہنی کمی کے شکار حاجت مندوں سے کئی گنا زیادہ پائے جاتے ہیں۔اگر کمی کے شکار شخص کو ذرا سا بھی سماجی دھکا مل جائے تو بہت سے معذور اس دنیا کو نام نہاد اچھے بھلوں کے لیے اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
آخر اشاروں کی زبان کو ترقی دینے والی ہیلن کیلر بھی تو نابینا اور بہری تھی۔کیمبرج میں بیٹھا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ماہر فلکیات و فزکس سٹیونز ہاکنز اپنے پورے مفلوج جسم کے ساتھ سوائے دماغ کے اور کیا ہے۔کیا پولیو میکسیکو کے فریڈا کاہلو کو ایک بڑا مصور بننے سے روک سکا ؟ بہرے موسیقار بیتھوون نے اس دنیا کو کیسی کیسی جادوئی دھنوں سے بھر دیا کہ آج تک مغربی موسیقی بیتھوون سے بچ کر نہیں نکل پائی۔ سدھا چندرن کی جب ایک حادثے میں دونوں ٹانگیں کٹ گئیں تب اسے پتہ چلا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی رقاصہ بننے کا راستہ تو اب کھلا ہے۔
جنرل ضیا الحق کے بارے میں آپ بھلے جو بھی رائے رکھیں مگر وہ پاکستان کے شائد پہلے اور اب تک کے آخری حکمراں ہیں جنہوں نے معذوروں ، آہستہ رو اور خصوصی تعلیم کے ضرورت مند بچوں کے لیے قانون سازی بھی کی اور ادارہ سازی میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔انھیں اپنی لاڈلی بیٹی زین سے یہ سبق ملا کہ ہم قدم نا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ قدم ہی نہیں بڑھایا جاسکتا۔کہنے کو پاکستان میں معذور افراد کی فلاح سے متعلق قانون انیس سو اکیاسی سے نافذ ہے اور اس کے تحت سرکاری و نجی اداروں میں دو فیصد ملازمتی کوٹہ جسمانی کمی کے شکار لوگوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔تاہم کوئی سال ایسا نہیں جاتا کہ معذور افراد کی مختلف انجمنوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے نہ آتا ہو کہ دو فیصد کوٹے پر عمل درآمد کیا جائے۔
یہ بھی ڈھنڈورا ہے کہ اسلام آباد ، لاہور اور کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بھی ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ سرکاری اسپتالوں میں تو غیر معذوروں کے لیے بھی بظاہر مفت علاج کی سہولت ہے۔ویسے بھی ساٹھ فیصد سے زائد معذور افراد دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اور یہ کہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے متاثرین بھی کیا مفت علاج کے لیے اسلام آباد ، لاہور یا کراچی جائیں ؟ معذور افراد کے لیے ڈیوٹی فری گاڑیوں کی امپورٹ ہوسکتی ہے لیکن کیا اس سے بھی زیادہ اہم اشیا یعنی وہیل چییرز ، ٹرائی سائکلز اور مصنوعی اعضا بھی ڈیوٹی فری منگوائے جاسکتے ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔
سرکاری بیت المال کے پاس کروڑوں روپے موجود ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ جس خاندان میں دو معذور افراد ہوں اس خاندان کو پچیس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔لیکن اگر کسی خاندان میں صرف ایک معذور پایا جائے تو وہ کیا کرے اور کہاں جائے ؟ یہ بھی کوئی نہیں بتاتا۔
پبلک سروس کمیشن کے تحت اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے امتحانات ( مقابلے کا امتحان ) میں معذور افراد کے لیے کامرس، اکاؤنٹس ، ریونیو اور انفارمیشن کے شعبے کھلے ہیں۔خصوصی تعلیم کی وزارت انیس سو چھیاسی سے کام کررہی ہے اور اس کے تحت خصوصی تعلیم کے چھیالیس مراکز بھی فعال ہیںمگر وہاں بریل کتابوں ، مددگار تعلیمی آلات اور ماہر اساتذہ کی کمی کا رونا ہے۔پبلک لائبریریوں میں بھی بریل کتابوں کے نام پر ایک آدھ الماری موجود ہوتی ہے مگر اس پر اکثر زنگ آلود تالہ ہی دیکھا گیا ہے۔
جسمانی کمی کے شکار بچوں کی آدھی سے زیادہ تعداد نارمل اسکولوں میں بھی پڑھ سکتی ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے اسکول کمرشل وجوہات کی بنا پر معذور بچوں کو اپنے ہاں داخلہ دینے کی بہت قرینے سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔اگر کمی کے شکار بچے نارمل اسکولوں میں داخل ہو بھی جائیں تو ان کے ساتھ کلاس فیلوز حتیٰ کہ اساتذہ تک انھیں ایک خصوصی مخلوق کے طور پر دیکھتے اور برتتے ہیں۔اس رویے کے سبب جسمانی کمی کے شکار بچوں کی نارمل صلاحتیں بھی متاثر ہوجاتی ہیں۔
ایک جانب شائد ہی کسی کا دھیان جاتا ہو اور وہ ہے انٹلکچوئل ڈس ایبلٹی۔اس کا شکار بچہ دیکھنے میں تو بالکل نارمل لگتا ہے لیکن ناکافی غذائیت کے سبب اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما ایک نارمل بچے کے مقابلے میں آدھی رھ جاتی ہے۔ لگ بھگ اٹھائیس فیصد پاکستانی بچے انٹلکچوئل ڈس ایبلٹی کا شکار ہیں لیکن ان پر الگ سے توجہ دینے کے بجائے ان پر پھسڈی ، نکمے ، کام چور اور کند ذہن کا لیبل لگا کے ان کے اپنے ہی گھر اور سماج والے نادانستہ طور پر خود سے الگ تھلگ کرتے چلے جاتے ہیں۔
اگرچہ فٹ پاتھوں ، رہائشی و کمرشل عمارات اور ٹرانسپورٹ کو بغیر کسی اضافی بجٹ کے ڈس ایبل فرینڈلی بنایا جاسکتا ہے۔بس تعمیراتی ٹھیکیدار کو بتانے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں اور ٹرین کی بوگیوں کو خریدتے وقت کمپنی کو یہ سہولتیں نصب کرنے کی ہدایات دینے کی ضرورت ہے۔لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم جسمانی کمی کے شکار لوگوں اور ان کے مسائل کو محسوس کرسکیں۔مگر ہمیں تو کوئی اپنے علاوہ نظر ہی نہیں آتا۔تو پھر نابینا کون ہوا ؟
معذوروں کی مدد تو خیر ہم سے کیا ہوگی۔ہم تو ان ممالک میں شامل ہیں جہاں معذور سازی ہوتی ہے۔یقین نہ آئے تو پولیو کی ویکسینیشن کرنے والے رضاکاروں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑھ لیا کریں۔
Pakistan Disabled Peoples by Wusatullah Khan
Subscribe to:
Posts (Atom)
Popular Posts
-
Pakistan Air Force Female Fighter Pilot, Ayesha Farooq
-
Geo News Live Geo TV Live Online
-
Child Protection in Pakistan by Ibtisam Elahi Zaheer
-
حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیلی فوجی کو پکڑ لیا
-
آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری......
-
Join Army As Captain/Major Through Short Service Regular Commission
-
Ayesha Farooq, Female Pakistani Fighter Pilot, A New Beginning in PAF
-
K-8 Karakorum Fighter Jet Trainer with Rocket & Gun Pods
-
Lieutenant General Zaheer-ul Islam is 18th Director-General 'ISI' 1959
-
ARY News Live ARY News Online
Labels
- 10 Years
- 10 Years of Face Book
- 1947–1958
- 1971–1977
- 1977–1999
- 2002 Gujarat violence
- 2010 FIFA World Cup
- 2014 Fifa World Cup
- 2014 World Cup Brazil
- 28 May “Youm-e-Takbeer”
- 35 Punctures
- 3G/4G
- 3G/4G auction in #Pakistan
- Aafia Siddiqui
- Aaj Tv
- Aamir Khakwani
- Aangan Terha
- Abdul Qadeer Khan
- Abdul Wali Khan
- Abdullah Tariq Sohail
- Abdusalam
- Abortion
- Abseiling
- Abu Bakr
- Abu Bakr al-Baghdadi
- Abu Hamza Rabia
- Abu Laith al-Libi
- Abu Sulayman Al-Jazairi
- Accidents
- Adward Snowden
- Afghanistan
- Afghanistan war
- Afghanistan Wars Cost
- Africa
- Aftab Iqbal
- Agence France Presse
- Ahmad Kamal
- Ahmed Shehzad
- Air Force
- Air Show
- Air-to-Air Refueling
- AirForce and Navy
- Airport security
- Airstrike
- Akbar
- Akram Khan Durrani
- Al Arabiya
- Al Qaeda
- Al Sharpton
- Al-
- Al-Ikhlas
- Al-Khidmat Foundation
- Al-Qaeda
- Al-Shifa
- Al-Shifa Hospital
- AlKhidmat Foundation Pakistan
- Allah
- alqaeda
- ALS
- ALS Association
- Altaf Hussain
- Altaf Hussain arrested in London
- Altaf Hussain Qureshi
- Amazon Mechanical Turk
- Ambulance
- Ambulance Drivers of Karachi
- American Medical Association
- American Muslims
- American Osteopathic Association
- Amir Mir
- Amman
- Amna Masood Janjua
- Amnesty International
- Amyotrophic lateral sclerosis
- Anantnag
- Anarkali
- Ancient World
- Andhra Pradesh
- Andrew McCollum
- Ankahi
- Annals of Internal Medicine
- ANP
- Ansar Abbasi
- Anti-Ship Missiles
- Anti-statism
- Anti-Submarine Helicopters
- Anti-Submarine Warfare
- Antonio
- Antonio Inoki
- Apache
- Apostle
- Arab people
- Arabian Sea
- Arabic language
- Arena Amazônia
- Arena de São Paulo
- Arena Fonte Nova
- Arena Pantanal
- Armored Vehicles
- Army operation
- Art
- Arts
- Arts and Entertainment
- Arvind Kejriwal
- ARY
- ARY Digital
- ARY News
- ARY News Live
- ARY News Online
- Asad Umar
- Asia
- Asia Cup
- Assam
- Associate Members
- Associated Press
- Atmospheric Sciences
- Atomic nucleus
- Attack Helicopters
- Attack on Hamid Mir
- Auction
- Author
- Autogrill
- Aviation
- AWACS
- Awami National
- Awami National Party
- Ayaz Amir
- Ayesha Gazi
- Azad Kashmir
- Azadi March
- Babar Suleman
- Baitul-Maqdis
- Bajaur Agency
- Balakot
- Ballistic Missile
- Baloch people
- Balochistan
- Balochistan Pakistan
- Balochistan Crises
- Balochistan Liberation Army
- Balochistan Pakistan
- Baluchistan
- Bangladesh
- Bangladesh Liberation War
- Bangladesh Nationalist Party
- Banking in Switzerland
- Bannu
- Baptists
- Bara
- Barack Obama
- Barak Obama
- Barbados
- Bari Imam
- Baroness Sayeeda Warsi
- Bashar al Assad
- BBC
- Beautiful Mosques
- Beautiful Places
- Beauty of Pakistan
- Beheading of US journalist
- Behroze Sabzwari
- Beijing
- Belgium
- Benazir Bhutto
- Benjamin Netanyahu
- Bharatiya Janata
- Bharatiya Janata Party
- Bhutto
- Big Ben
- Big Disasters
- Big Three
- Bihar
- Bilal Ghuri
- Bilawal Bhutto Zardari
- Bill & Melinda Gates Foundation
- Bill Gates
- BJP
- Blasphemy
- Blog
- Board of Control for Cricket in India
- Bob Sapp
- Bodyart
- Bodypainting
- Bogor
- Books
- Boston
- Brahmaputra River
- Brazil
- Brazil national football team
- Breast cancer
- Britain
- Brown
- Build Pakistan
- Bund
- Burkina Faso
- Burma
- Business
- Business and Economy
- Cabinet of the United Kingdom
- Camps
- Canada
- Canadian cultural protectionism
- Capital punishment
- Caribbean
- casualties
- Ceasefire
- Central Jail Gujranwala
- Central Prison Karachi
- Chairman of the Conservative Party
- Chanel
- Charge Sheet Against Geo News
- Chaudhry Pervaiz Elahi
- Chaudhry Shujaat Hussain
- Chenab River
- Chennai Super Kings
- Chhipa Ambulance
- Chief Justice Nasir–ul–Mulk
- Chief Minister of Punjab Pakistan
- Child
- Child Abuse
- Child Abuse in Pakistan
- Child Marriage
- Child Marriage in Pakistan
- Child Protection in Pakistan
- Children
- China
- Chinese
- Chinese New Year
- Cholistan Desert
- Chris Hughes
- Christmas
- Circumvesuviana
- Clock
- Clock face
- Cold War
- Colombia
- Conservative
- constitution and pakistan
- Constitution of Pakistan
- Construction
- Coronavirus
- Corruption in Pakistan
- Countries with the largest Muslim populations
- Credit Suisse
- Cricket
- Crime
- Crown Jewels of the United Kingdom
- Cruise Missile
- Current deployments
- Cyclone Nanauk
- Daily Jang
- Damascus
- Darya-ye Noor
- Data Darbar Lahore
- David Cameron
- Dawa
- DawnNews
- Dead city
- Debaltseve
- Defence Ministry
- Democracy
- Democracy in India
- Depression
- Dera Ismail Khan
- Dhoop Kinare
- Displaced person
- Domestic violence
- Donetsk
- Donetsk Oblast
- Dr. Aafia Siddiqui release
- Dr. Akramul Haq
- Dr. Hasanat
- Dr. Mujahid Mansoori
- Dr. Safdar Mehmood
- Dr. Shahid Hassan
- Dr. Shahid Siddiqui
- Drought
- Drug
- Drug interaction
- drug war
- Dubai
- Dubi Air Show
- Dunya News
- Dustin Moskovitz
- Earth Sciences
- East India Company
- Eastern Ukraine
- Ebola
- Ebola outbreak
- Ebola virus disease
- Economic growth
- Economics
- Edinburgh
- Eduardo Saverin
- Education
- Education system in Pakistan
- Egypt
- Election
- Election Commission of India
- Elections in India
- Electronic media
- Ellen Johnson Sirleaf
- Emergency service
- End enforced disappearances in Pakistan
- Energy Crises in Pakistan
- England
- Engro Corporation
- ER (TV series)
- Ethel Kennedy
- Ethiopia
- Eurasian Union
- Europe
- European
- European Union
- Express News
- Express Tribune
- Ezzedine Al-Qassam Brigades
- F-16
- Face Book
- Face Book History
- Facepainting
- Facts and Statistics
- Faisalabad
- Falah-e-Insaniat Foundation
- Famous Cricket Players And Their Kids
- Farmer
- Fashion
- Fast Attack Missile Craft
- Fatah
- Fatima Surayya Bajia
- Fellowship
- Female Pilots
- Ferguson
- Ferguson Missouri
- FIF
- FIFA
- FIFA World Cup
- Fighter Aircrafts
- Fighter Jet Trainer
- Finance minister
- Financial Services
- Flash flood
- Flood
- Flood in Pakistan
- Floods
- Follow Follow
- Food Standards Agency
- Football
- Foreign and Commonwealth Office
- Fortaleza
- France
- Friday
- Frigates
- Fuji Television
- Full Members
- Fundamental Rights Agency
- Future of Electronic Media in Pakistan
- G-3S Rifle
- G.M.F
- Gauhati
- Gaza
- Gaza Children
- Gaza City
- Gaza Strip
- Gaza under attack
- Gaza War
- General election
- genetically modified food
- Geo
- Geo apologizes
- Geo News
- Geo News Live Geo TV Live Online
- Geo TV
- geonews
- geotv
- German language
- Ghulam Noor Rabbani Khar
- GM Syed
- Gmail
- Golden Temple
- Google Authorship
- Google Blog Search
- Google Password
- Google+
- Government
- Government College University
- Government of Pakistan
- Granja Comary
- Great Comet
- Great Football Players
- Greece
- Guinea
- Gujarat
- Gulabo
- Gullu Butt
- Guru Nanak Stadium
- Guwahati
- Habib Jalib
- Hadith
- Hadrat
- Hafiz Muhammad Saeed
- Haitham al-Yemeni
- Hajj
- Hajj by Sea
- Hamas
- Hamid Karzai
- Hamid Mir
- hamidmir
- Happy Pakistan Independence Day 2014
- Hardcover
- Haris Suleman
- Hasb-e-Haal
- Haseena Moin
- Health
- Health Canada
- Heavy Rain
- Helicopters
- Henry Bartle Frere
- Herculaneum
- Heroes Of Pakistan Police? Pakistan
- Higher Education in Pakistan
- Hijab
- Hina Rabbani Khar
- Hindu
- Hindu nationalism
- Hiroshima
- History
- Hiv And Aids
- Holidays in Pakistan
- Home
- Honor killing
- Honour killing in Pakistan
- Horseshoe Falls
- Houses of Parliament
- How do you treat the worst democracy?
- How Does Google Work?
- How to Avoid Food Poisoning
- HTML5
- Huangpu
- Huangpu River
- Humaima Malick
- Human behavior
- Human Rights Commission
- Hyderabad
- Iam Malala
- Ibtisam Elahi Zaheer
- ICC
- Ideas-2012
- IDF
- Idrees Bakhtiar
- Ikramul Haq
- Illegal drug trade
- Illegal immigration by sea
- Imam Haram
- Important Darbars in Pakistan
- Imran Farooq
- Imran Khan
- Imran Khan calls for civil disobedience
- Independence Day
- India
- India Election
- India national cricket team
- India–Pakistan relations
- Indian
- Indian Air Force
- Indian Elections
- Indian general election
- Indian National Congress
- Indian Ocean
- Indian Premier League
- Indiana
- Indo-Pakistani War of 1947
- Indonesia
- Indus River
- Inqilab March
- Insaf
- Inter Service Public Relations
- Inter-Services Intelligence
- Inter-Services Public Relations
- Interior ministry
- Internally displaced person
- International Civil Aviation Organization
- International Cricket Council
- International Security Assistance Force
- Internet
- Internet monitoring
- Internet access
- IPL 2014 in Pictures
- Iran
- Iran Pro League
- Iran's nuclear program
- Iraq
- Iraq War
- Irfan Siddiqui
- Ironside
- Irshad Ahmed Arif
- Ishaq Dar
- Ishtiaq Ahmed
- Ishtiaq Baig
- ISI
- ISIL
- Islam
- Islamabad
- Islamabad Dharna
- Islami Shariah
- Islamic banking
- Islamic State
- Islamic State of Iraq and ash Sham
- Islamic terrorism
- Israel
- Israel Defense Forces
- Israeli
- Istanbul
- Italy
- Jahangir
- Jakarta
- Jama'at-ud-Da'wah
- Jamaat-e-Islami
- Jamat Islami
- James Foley
- Jamia Binoria
- Jamiat Ulema-e-Islam
- Jammu
- Jammu and Kashmir
- Jammu Kashmir
- Jammu-Kashmir
- Jamrud
- Jamsed Dasti Allegations
- Jamshed Dasti
- Jang
- Jang Group
- Jang Group of Newspapers
- Jang Group Open Letter To The Government And PEMRA
- Japan
- Japan's new immigration law
- Javed Chaudhry
- Javed Hashmi
- Jazz
- Jeddah
- Jerusalem
- JF-17 Thunder
- Jhang
- Jhelum District
- Jhelum River
- Jim Breyer
- Jin Mao Tower
- Jinnah International Airport
- Job Opportunities in Pakistani Armed Forces
- John Adams
- Joint Military Exercise
- Joko Widodo
- Jordan
- Journalist
- Judicial Watch
- July 8
- June
- June 2014
- Kabaddi
- Kabul
- Kalabagh
- Kalabagh Dam
- Kanwar Dilshad
- karachi
- Karachi Airport Attack
- Karachi Division
- Karachi operation
- Karachi Stock Exchange
- Karl Lagerfeld
- Karnataka
- Kashf ul Mahjoob
- Kashmir
- Kashmir Day
- Kashmir Solidarity Day
- Kashmiri
- Kashmiri Pandit
- KESC
- Khabarnaak
- Khair Bakhsh Marri
- Khaled Al Maeena
- Khalid Almaeena
- Khan Younis
- Khan Yunis
- Khattak
- Khuda Ki Basti
- Khuzaa
- KHYBER PAKHTUNKHWA
- Khyber Pakhtunkhwa Assembly
- Khyber Pukhtoonkhwa
- Khyber-Pakhtunkhwa
- King Abdullah
- Koh-i-Noor
- Koh-i-Noor Hira
- Konark
- Kounsarnag
- Kuala Lumpur
- Kulgam district
- Lahore
- Lahore High Court
- Lahore Metro Train Project
- Lake Malawi
- Landslide
- Larkana
- Law
- LCA Tejas
- League of Nations
- Levant
- Liberia
- Lieutenant General Raheel Sharif
- Lifeboat (rescue)
- Lionel Messi
- List of diplomatic missions in Pakistan
- Literature
- Load-shedding
- Login
- Loksabha
- London
- Long March
- Love Pakistan
- Luhansk
- Luis Suárez
- Lupanar
- Lyari
- Mads Gilbert
- Maha
- Mahira Khan
- Mahmoud Abbas
- Major Shaheed
- Major problems in Pakistan
- Major Raja Aziz Bhati Shaheed
- Makes and Models
- Malala Yousafzai
- Malala Yousef Zai
- Malaysia
- Malaysia Airlines
- Malaysia Airlines flight
- Malaysia Airlines MH17
- Malaysia Airlines MH370
- Malik Riaz Hussain
- Mall of the World
- Mama Qadeer
- Mama Qadeer Baloch
- Manmohan Singh
- Manzoor Ijaz
- Manzoor Wattoo
- Mao Zedong
- Map
- Marina Khan
- Maritime Patrol Aircraft
- Marri
- May Allah
- Mazar-e-Quaid
- Mecca
- Médecins Sans Frontières
- Media
- Media of Pakistan
- Media studies
- Member state of the European Union
- Mers Virus
- Met Office
- Meteorology
- MH370 Flight Incident
- Michael Brown
- Microscope
- Microsoft
- Middle East
- Migration of Waziristan Children
- Minhaj-ul-Quran
- Ministry of Defence
- Mir Shakil
- Mir Shakil-ur-Rahman
- Mirpur Khas
- Mirza Aslam Baig
- Missile
- Missing People from Blochistan
- Mission
- Missouri State Highway Patrol
- Mithi
- Modi
- Mohammad Asghar
- Mohammed Ali Jinnah
- Mohammed bin Rashid Al Maktoum
- Mohammed Yousaf
- Mohenjo-daro
- Mohmand
- Mohtarma Fatima Jinnah
- Money laundering
- Mood (psychology)
- Mosul
- Mount Vesuvius
- MQM
- MQM Resignations
- Mubashir Luqman
- Mufti Muneeb ur Rehman
- Mughal
- Mughal Empire
- Muhammad
- Muhammad Ali Jinnah
- Muhammad Tahir-ul-Qadri
- Mujahid Mansoori
- Mujahideen
- Multan
- Multi Barrel Rocket Launcher
- Mumbai
- Murder
- Music
- Muslim
- Muslim Achievements
- Muslim Countries of the World
- Muslim Leaders
- Muslim scientists
- Muttahida Qaumi Movement
- Nablus
- Nagarparkar
- Najam Sethi
- Nalanda
- Nalanda district
- Nanauk
- Naples
- Narendra Modi
- Nasim Zehra
- Nasrullah Shaji
- Naswar
- National
- National Awami Party
- National Disaster Response Force
- National Football League
- National Security Agency
- NATO
- Navy
- Nawab
- Nawabzada Nasrullah Khan
- Nawaz Sharif
- Nawz Sharif
- Nazism
- Nek Muhammad Wazir
- Nepal
- Netanyahu
- New Delhi
- New World Order
- New Year
- New york
- Neymar
- Niagara Falls
- Niagara Falls Ontario
- Nigeria
- Nisar Ali Khan
- Nishan e Haider
- Noor
- Noor Muhammad
- North Africa
- North Korea
- North Waziristan
- Northern Ireland
- NSA
- Nuclear Weapons
- Nurpur Shahan
- Obesity
- Old Pakistani TV dramas
- Oman
- One Day International
- Online Petition for Aafia's Release
- Ontario
- Operation Blue Star
- Orange Order
- Organization and Command Structure
- Organizations
- Oriental Pearl Tower
- Orya Maqbool Jan
- Pacific Ocean
- Pak Army Arms
- Pak Army Arms Traning
- Pak Navy
- Pak Navy S.S.G
- Pakistan
- Pakistan and IMF
- Pakistan and India Relations
- Pakistan and Saudi Arabia Relations
- Pakistan and War on Terror
- Pakistan Armed Forces
- Pakistan Army
- Pakistan Awami Tehreek
- Pakistan blocked unregistered mobile SIMs
- Pakistan Constitution
- Pakistan Democracy
- Pakistan Disabled Peoples
- Pakistan Economy
- Pakistan Education System
- Pakistan Electronic Media Regulatory Authority
- Pakistan Flood Destruction
- Pakistan government
- Pakistan History and Introduction
- Pakistan Income Tax System
- Pakistan Industry
- Pakistan Judiciary
- Pakistan Media
- Pakistan Muslim League
- Pakistan Muslim League (N)
- Pakistan Muslim League (Q)
- Pakistan Navy
- Pakistan New World Records
- Pakistan Ordinance
- Pakistan Parliament
- Pakistan Peace Talks with Taliban
- Pakistan People
- Pakistan Peoples Party
- Pakistan Police
- Pakistan Political Crisis
- Pakistan Politics
- Pakistan Post
- Pakistan Postage
- Pakistan Poverty
- Pakistan Rangers
- Pakistan Rupee
- Pakistan Rupee against US Dollar
- Pakistan Tehreek
- Pakistan Tehreek-e-Insaf
- Pakistan Unrest
- Pakistan Working Women
- PAKISTAN: International Women's Day
- Pakistan's military operations
- Pakistani
- Pakistani Air Force
- Pakistani Dramas Classics
- Pakistani people
- Pakistani television
- Pakistani UAV Industry
- Pakistanis in the United Arab Emirates
- Pakistanis set new world records Business
- PakistanRailways
- Pakitan Vip Culture
- Palace of Westminster
- Palestine
- Palestine’s unity government
- Palestinian people
- Palestinian refugee
- Palestinian rocket attacks on Israel
- Palestinian territories
- Paper
- Paris
- Paris Air Show
- Parliament of Pakistan
- Passenger Plane
- PAT
- Pat Quinn
- PCB
- peace
- Peace Talks
- Peace Talks with Taliban
- Pemra
- PEMRA suspends licenses of Geo TV
- Pentagon
- People
- Personal computer
- Pervez Hoodbhoy
- Pervez Musharraf
- Peshawar
- Pew Research Center
- Philip Hammond
- Physical exercise
- PIA
- Pir Panjal Range
- Plane Crash
- PML-N
- Poetry
- Polar vortex
- Police
- Police officer
- Poliomyelitis
- Politics
- Politics of Pakistan
- Polling place
- Pompeii
- Portable Document Format
- Postage stamp
- Postage stamps and postal history of Pakistan
- Poverty
- Poverty in Pakistan
- Poverty threshold
- Power of Social Media
- Prabowo Subianto
- Prescription drug
- President of the United States
- President of Turkey
- Primary Education in Pakistan
- Prime Minister of India
- Prime Minister of Pakistan
- Prince Salim
- Prince Salman
- Princess Diana
- Professor Dr Ajmal khan
- Programs
- Protection of Pakistan Ordinance
- Protest
- Protests against Geo TV
- Provinces
- Provincial Assembly of the Punjab
- PTA
- PTI
- Punjab
- Punjab Pakistan
- Punjab Festival
- Punjab Pakistan
- Punjab Police
- Punjab Province
- Punjab region
- Pyongyang
- Qadiriyya
- Qadri
- Qatar
- Queen Victoria
- Quetta
- Quied-e-Azam
- Quran
- Qurtaba Mosque Spain
- Rafah
- Rahman
- Rain in Punjab
- Rajouri district
- Ramallah
- Rana Sanaullah Khan
- Rape
- Rashid Minhas Major Aziz Bhati
- Rawalpindi
- Reality of Jamat-e-Islami
- Reality-Based
- Recent Dialouge with Taliban
- Recep Tayyip Erdogan
- Recep Tayyip Erdoğan
- Recreation
- Red Zone
- Rehman
- Rehman Malik
- Relative Ranks of Pak Army
- Religion and Spirituality
- Research papers
- Reuters
- Rio de Janeiro
- River Chenab
- Rizwan Wasti
- Robert Fisk
- Robert Gates
- Rohingya
- Rome
- Rowland Hill
- Royal Philatelic Collection
- Russia
- Rustam Shah Mohmand
- Safe Pakistan
- Sahih al-Bukhari
- Sakhawat Naz
- Salafi
- Salah
- Saleem Safi
- Salim
- Salim Nasir
- Sami ul Haq
- San Jose State University
- SAu
- Saudi Arabia
- Save Children
- Say No To Drugs
- Sayeeda Warsi
- Saylani Welfare Trust
- Scinde Dawk
- Scotland
- Scotland Yard
- Scottish independence
- Scottish independence referendum 2014
- Search for Malaysia Airlines MH370
- Searching
- Select (magazine)
- Self Growth
- Shah Abdul Latif Kazmi
- Shahbaz Sharif
- Shahid Afridi
- Shahid Hassan
- Shahid Khaqan Abbasi
- Shahnaz Sheikh
- Shaista Lodhi
- Shaista Wahidi
- Shakeel
- Shakil
- Shanghai
- Shariah
- Shariah in Pakistan
- Sharif
- Shehnaz Sheikh
- Sheik Mohammed bin Rashid Al Maktoum
- Sheikh Sudais
- Shenawaz Farooqi
- Sher Shah
- Sher Shah Multan
- Sher Shah Suri
- Shifa
- Shinzō Abe
- Shooting of Trayvon Martin
- Sierra Leone
- Sindh
- Sindh Festival
- Sindh government
- Singapore
- Sirajul Haq
- Sisi
- Sitting
- SlideShare
- Smartphone
- Snoker
- Soccer
- Social media
- Social Media in Pakistan
- Social networking service
- Social Sciences
- South Africa
- South America
- South Asia
- South Asian Association for Regional Cooperation
- South Waziristan
- Sport
- Sports
- Sri Lanka
- Srinagar
- SSG
- St. Louis
- States presidential election 2012
- Steven Sotloff
- Stop Child Abuse
- Strategic Dialogue
- Strikes in Karachi
- Submarine
- Substance abuse
- Sudan
- Sufism
- Suharto
- Suicide in Pakistan
- Sunday Aug. 17 2014
- Sunni Islam
- Support group
- Supreme Court of Pakistan
- Surface to Air Missiles
- Swiss Banks
- Switzerland
- Syed Saleem Shahzad
- Syria
- Syria Chemical Attack
- Syria Crises
- Syria Elections
- Syria War
- Tafsir
- Tahir
- Tahirul Qadri
- Talat Hussain
- Taliban
- Taliban insurgency
- Tamil Nadu
- Tank
- Tanvir Ashraf Kaira
- Targeted killing
- Tawi River
- Tax Collection In Pakistan
- Tears of Waziristan
- Technology
- Tehrik-i-Taliban Pakistan
- Tel Aviv
- Telenor
- Television
- Television channel
- Terrorism
- Test cricket
- Thar
- Thar Desert
- Thar Drought
- Tharparkar
- Tharparkar District
- The Children of Gaza
- The Ice Bucket Challenge
- Think Before Speak
- Third World
- Thomas Jefferson
- Thul
- Tissue paper
- Tobacco
- Tokyo
- Top Stories
- Transport Aircraft
- Transportation
- Transportation and Logistics
- Tribute to Nasrullah Shaji
- TTP
- Turkey
- Turkey Elections
- Turkey President in Pictures
- UAE
- UAV
- Ukraine
- Ulama
- Ummah
- Ummat
- Unemployment Rate
- UNICEF
- Union
- United
- United Arab Emirates
- United Kingdom
- United Nations
- United Nations and Philistine
- United Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees in the Near East
- United State
- United States
- United States of America
- Universal Declaration of Human Rights
- University of Punjab
- UNO
- Upper Dir District
- Urdu
- Urdu Books
- Urdu Columns
- Urdu Ghazal
- Urdu poetry
- Urdu vs English
- US Army
- US Dollar
- US Drone Attacks in Pakistan
- USA
- USA is Spying on Millions of People
- Uttar Pradesh
- Vadnagar
- Valentine Day
- Valentine's Day
- Veena Malik
- Vice Chancellor Islamia University
- Video
- Violence against women
- Wali Babar murder case
- Wali Khan Babar
- Walking: Why it’s so important
- Wapda
- War crime
- War on Poverty
- War on Terror
- War on Terrorism
- Warfare and Conflict
- Washington
- Water Crisis in Pakistan
- Waziristan
- Waziristan IDPs
- Waziristan Operation
- Weather Phenomena
- Web search engine
- Wedding
- Welfare
- West
- West Africa
- West Bank
- West Florissant Avenue
- Western Culture
- Western Media and the Gaza War
- Why did Facebook buy WhatsApp? United States
- Women
- Word expensive cities
- Wordpress
- WordPress.com
- Work
- World Cup
- World economy
- World Health Organization
- World least expensive cities
- World Literature
- World War
- World War I
- World War II
- World's most expensive stamp
- World's worst air accidents
- Wusat Ullah Khan
- Xi Jinping
- Yarmouk
- Yarmouk Camp
- Yasir Pirzada
- Year of the Horse
- Yousaf Raza Gillani
- YouTube
- Yvonne Ridley
- Zaheer ul-Islam
- Zaid Hamid
- ZDK-03 AEW Aircraft
- Zindagi Gulzar Hai
- کشف المحجوب
About Me
Powered by Blogger.
Blog Archive
-
▼
2014
(520)
-
▼
September
(76)
- Pak army song
- Pak army modified guns
- اب عمران خان کیا کریں گے؟.......
- انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے.........
- دشمن بچے --- شاہنواز فاروقی....
- بغاوت اور باغی --- شاہنواز فاروقی......
- پاکستان :65برس میں سیلاب سے 40ارب ڈالرکانقصان........
- یورپ کے جنگی جنون کی کہانی: جنگِ عظیم اول و دوم
- قوم کی تقدیر کی پرواز بھی کسی وی آئی پی کی منتظر ہ...
- سیلاب زدگان کی مدد کیجیے......
- سویلین حکومتیں اور فوج......
- The Kalabagh Dam
- Energy crisis and Kalabagh Dam
- زبان کا سرکش گھوڑا.......
- Flood victims arrive in Sher Shah, Pakistan
- Buldings are surrounded by floodwater in Shuja Aba...
- باغیوں کی ضرورت ہے.....
- جب خاموشی بہتر سمجھی جائے.......
- Thousands of Orange Order supporters marched in a ...
- Kashmiri men evacuate women and the elderly from a...
- People stand on a damaged bridge on the Tawi River...
- بات کرنی مجھے مشکل ،کبھی ایسی تونہ ...تھی
- کتابیں‘ جنہوں نے زندگی پر اثر ڈالا.......
- Falah-e-Insaniat Foundation load relief supplies t...
- Pakistani Floods - Soldiers load relief supplies d...
- Pakistan Floods - Army soldiers unload boats to be...
- کیا دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا؟...
- Flood victims sit beside their belongings as they ...
- مسلح افواج اور پاکستان کی سیاست......
- کہانی دھرنوں کی: سکرپٹ، کیریکٹرز اور ڈائریکٹرز.......
- مجھے اس شہر میں رہنے سے خوف آتا ہے.....
- An aerial photograph shows homes surrounded by flo...
- ARY News Live ARY News Online
- Geo News Live Geo TV Live Online
- صارفین پاس ورڈ تبدیل کر لیں، گوگل کی ہدایت.......
- دو راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں......
- سیلاب جو ساری متاع بہا لے گیا.......
- حکومتی .....بدانتظامیوں کی داستان..
- یہ ایسے تو نہیں ہوگا.....
- Pakistan Floods - WATER EVERYWHERE
- پاکستان میں ہر سال 5 ہزار سے زائد افراد خودکشی کرن...
- دھرنے کی افادیت......
- بارشوں اور سیلاب سے اب تک 50 ارب روپے تک کا نقصان....
- لگتا ہے لائن ڈراپ ہوگئی......
- احساس زیاں جاتا رہا......
- Navy Reples Attack on PNS Zulfiquar (251) F-22P Zu...
- Facebook addiction can leave you lonely, depressed
- "شوباز شریف "...
- اسلامک ا سٹیٹ آف عراق اینڈ شام.....(Islamic State ...
- تباہی کی داستانیں رقم کرتے سیلابی ریلوں کا سفر جار...
- پاک فوج کے اصل دشمن.....
- دنیا کا مطلوب ترین انسان ....World Most Wanted Man
- Revival of Pakistan Railways : Railways records im...
- People stand on the rooftop of their flooded house...
- Tahir ul-Qadri addressing supporters in front of P...
- اصل جنگ......
- People stand near their submerged houses on the fl...
- جنگل بیابان میں گزرے برس.......
- سوشل میڈیا کی طاقت.......Power of Social Media
- شدید بارشوں نے لاہور میں تباہی مچادی
- تھر کے قحط زدہ لوگ خودکشیاں کرنے لگے......
- Open Letter to PTI Chairman Imran Khan
- Muslim groups denounce beheading of US journalist ...
- MQM Resignations By Ansar Abbasi
- سدا بہار باغی......
- Economic Cost of of Imran Khan Azadi March and Inq...
- باغی کی خطرناک بغاوت.......
- کیسا انقلاب؟......
- Real Leader and Hero Recep Tayyip Erdogan
- Heroes Of Pakistan Police?
- Asad Umar
- Do you believe the Pakistan political crisis is sc...
- Javed Hashmi
- یہ محمد علی جناح کا پاکستان ہے؟
- حکومت کے پاس کیا بچا ہے؟.....
- ساٹھ برس پرانی تازہ کہانی.....
-
▼
September
(76)