Showing posts with label Bilal Ghuri. Show all posts

Pakistan is beautiful — and it's mine


کرہ ارض پر موجود آزاد ممالک اور ریاستوں کا شمار کیا جائے تو چھوٹے بڑے ممالک کو ملا کر یہ تعداد 200 کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان میں سے ایک ملک جو آبادی کے اعتبار سے چھٹے اور رقبے کے لحاظ سے 34ویں نمبر پر ہے، اسے دنیا بھر کے دانشور عجوبہ قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ ملک بیک وقت خوش قسمت بھی ہے اور بدقسمت بھی۔ خوش قسمت اس لئے کہ قدرت نے اسے بیشمار وسائل اور نعمتوں سے نوازا ہے۔یہ ملک روس سے دس گنا چھوٹا ہے لیکن اس کا نہری نظام اس کے مقابلے میں دس گنا بڑا ہے۔

بہترین موسم، گرم پانیوں، معتدل آب و ہوا اور زرخیز زمین کے باعث یہ خطہ کاشتکاری کے لئے انتہائی موزوں سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس ملک کی 40 فیصد زرعی اراضی اب بھی کاشتکاری کے لئے بروئے کار نہیں لائی گئی اور جدید سہولتوں کے فقدان کے باعث فی ایکڑ پیداوار بھی بہت کم ہے، مگر اس کے باوجود یہ ملک دنیا بھر میں دیسی گھی کی پیداوار کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ بھینس کے دودھ اور چنے کے مراکز کا جائزہ لینے لگیں تو یہ ملک دوسرے نمبر پر نظر آتا ہے۔ بھنڈی سمیت بہت سی سبزیوں کی پیداوار کے اعتبار سے عالمی ماہرین کے تخمینوں کے مطابق یہ ملک تیسرے نمبرہے۔ اگر خوبانی ،کپاس اور گنا پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست بنانے لگیں تو اس ملک کا شمار چوتھے بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ پیاز اور ٹماٹر کے ضمن میں اسے دنیا کا پانچواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ملک کھجور اور انواع و اقسام کی دالیں پیدا کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے اور پھلوں کے بادشاہ آم کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ہے۔ چاول اور گوبھی کی پیداوار کے حوالے سے یہ آٹھواں بڑا ملک ہے۔ ساگ، میتھی، پالک اور گندم کی فصل کا حساب لگایا جائے، تو یہ ان تمام ممالک پر سبقت لے جانے میں نویں نمبر پر ہے۔ اس طرح کینو اور مالٹے کی پیداوار کے لحاظ سے یہ دسواں بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں ہر سال 24 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جو براعظم افریقہ کے تمام ممالک کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہے۔ گندم کے بعد دوسری بڑی غذائی جنس چاول ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ہر سال 670 ملین میٹرک ٹن چاول اگاتے ہیں جس میں اس ملک کا حصہ تقریباً 7ملین میٹرک ٹن ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے معاملے میں یہ ملک نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ ہر سال 470000 ٹن فروٹ اور420000 ٹن سبزیاں بر آمد بھی کرتا ہے۔ یوں زرعی اجناس کی مجموعی پیداوار کے میدان میں اس ملک کا 25 واں نمبر ہے۔

یہ ملک صرف زرعی اعتبار سے ہی خوش قسمت نہیں بلکہ صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بھی 55ویں نمبر پر ہے۔ اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات یورپ تک فروخت ہوتی ہیں۔ معدنیات کے اعتبار سے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ ملک قسمت کا دھنی ہے۔ یہ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے، گیس کے ذخائر کے حوالے سے چھٹے جبکہ تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔ اس ملک میں سونے کا صرف ایک بڑا ذخیرہ جو دریافت تو ہو چکا مگر ابھی تک پہاڑوں کے نیچے ہی دفن ہے،اس کی مالیت کا تخمینہ 300ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ یہاں کوئلے کا صرف ایک ذخیرہ جو 9600 مربع کلومیٹر تک محیط ہے، یہاں 184بلین ٹن کوئلے کے ذخائر کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس کی مالیت کا تخمینہ 25000ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں کوئلے سے 10 کروڑ بیرل ڈیزل تیار کیا جا سکتا ہے، 500 سال تک بلاتعطل سالانہ 50 ہزار میگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے یا پھر لاکھوں ٹن کھاد تیارکی جا سکتی ہے۔ خوش قسمتی کی داستان یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس ملک میں74 ملین ٹن ایلومونئم دستیاب ہے، 500 ملین ٹن تانبا موجود ہے، 46 ملین ٹن جست دریافت ہو چکا، 350 ملین ٹن جپسیم ڈھونڈا جا چکا ہے، فاسفیٹ کے ذخائر کی مقدار 22ملین ٹن ہے جبکہ لوہے کے ذخائر کی مقدار 600 ملین ٹن بتائی جاتی ہے۔

اگر آپ کمزور دل کے مالک نہیں تو میں آپ کو بتا ہی دوں کہ یہ خوش قسمت ملک کوئی اور نہیں، آپ کا پیارا پاکستان ہے، جہاں غربت کا ننگا ناچ ہم برسہا برس سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ملک آٹھویں عالمی طاقت ہے،اس کے پاس دنیا کی چوتھی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی اور چھٹی طاقتور ترین فوج ہے مگر اس کے باوجود دہشت گرد کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور دہشت گردی نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر ان سب وسائل کے باوجود پاکستان میں گرمیاں شروع ہونے سے پہلے ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹے یومیہ ہو جائے تو مجھے اس بات سے کیا غرض کہ کہاں کتنے ٹن کوئلے کے ذخائر موجو د ہیں؟ میر پور خاص ڈویژن کی ایک چھوٹی سی تحصیل کُنری سے جھڈو تک کا علاقہ جسے ریڈ چلی کاریڈور کہتے ہیں، یہاں سالانہ 2لاکھ ٹن سرخ مرچ پیدا ہوتی ہے اور اسے ایشیاء کی سب سے بڑی آڑھت کا درجہ حاصل ہے تو سندھی اس فخر کا کیا کریں ؟ بچوں کو کھانے کے بجائے یہ ایوارڈ تو نہیں کھلایا جا سکتا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود تھر میں قحط سے بھوکوں مرتے انسانوں کو اس بات میں کیا دلچسپی کہ ریت کے نیچے دفن زمین میں بلیک گولڈ کی کتنی مقدار موجود ہے۔ دودھ کے لئے بلکتے اور ایڑیاں رگڑتے بچوں کو یہ لالی پاپ کیسے دیا جائے کہ ان کا ملک دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اولین دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جوہڑ سے جانوروں کے ساتھ پانی پیتے اور تعفن زدہ گوٹھوں کے کچے مکانوں میں سسک سسک کر جیتے سندھیوں کو اس سے کیا لینا دینا کہ موہنجودڑو میں تہذیب و ثقافت کے کیسے دفینے موجود ہیں۔ لاڑکانہ اور شہداد پور میں بنیادی سہولتوں سے محروم بدقسمت افراد کے اس بات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ ان کی دھرتی کس قدر خوش قسمت ہے۔ بلوچستان کے وہ دورافتادہ دیہات جہاں اس ترقی یافتہ دورمیں بھی کسی گھر میں سنگ و خشت کا عمل دخل نہیں، مٹی اور گارے سے ایستادہ گھروں میں مقیم ان پاکستانیوں کو میں کیسے سمجھائوں کہ یہاں کتنے ملین ٹن جپسم دریافت ہوئی ہے۔ جہاں زندگی کا کوئی مول نہیں،وہاں یہ بات کس قدر بے معنی لگتی ہے کہ تمہارے ہاں ریکوڈک کے علاقے میں سونے کے ذخائر کی مالیت بہت زیادہ ہے۔

میں جنوبی پنجاب میں پھٹے پُرانے کپڑوں میں کپاس چُنتی خواتین کو کیسے بتائوں کہ ریشم کے تار بُنتی ملوں کا کپڑا ان کی پہنچ سے کیوں دور ہے۔ جہاں بکرے کا گوشت کھانے کے لئے عیدالاضحی کا انتظار کیا جاتا ہو، وہاں یہ بات کس قدر کھوکھلی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان سالانہ کتنے ٹن گوشت برآمد کرتا ہے اور اس سے کس قدر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وہ غیور پاکستانی جو دس سے پندرہ روپے کی روٹی خریدتے ہیں ،انہیں اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار براعظم جنوبی امریکہ کے برابر ہے۔ یہ سوال ہم سب کے لئے سوہان روح ہے کہ ہماراملک بیک وقت خوش قسمت اور بدقسمت کیوں ہے؟کبھی اناج کا قحط، کبھی چینی کی قلت، کبھی پانی کی کمی سے سوکھتی فصلیں تو کبھی سیلاب میں ڈوبتے کھیت، کبھی پیٹرول اور گیس کی عدم دستیابی تو کبھی بجلی کی قلت۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو یہاں کسی شئے کی کوئی کمی نہیں،صرف قیادت کا شارٹ فال ہے۔ جس دن ہم اس شارٹ فال کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور رہزنوں کے روپ میں موجود رہبروں سے نجات مل گئی،سب الجھنیں سلجھ جائیں گی،سب دکھ ٹل جائیں گے اور ہم سب کے دن بدل جائیں گے۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ

Pakistan is beautiful — and it's mine "

Enhanced by Zemanta

بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے


سلطنت روما کے عروج و زوال کی داستان پڑھتا ہوں تو لرز جاتا ہوں اور گاہے یہ خیال آتا ہے کیا ہم اسی راستے پر تو نہیں چل پڑے جہاں تہذیب و ثقافت کے پجاریوں کی قبریں جا بجا پھیلی نظر آتی ہیں۔ روم کے بے تاج بادشاہوں کو جشن طرب برپا کرنے کے سب طریقے فرسودہ محسوس ہونے لگے اور اکتاہٹ ہونے لگی تو یکسانیت دور کرنے کے لئے ایک نئی طرح کا کلچر فروغ دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ مورخین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ منفرد نوعیت کے اس اسپورٹس فیسٹیول کا نادر تخیل کس درباری نے پیش کیا تاہم جولیو کلیڈین خاندان جس نے روم پر کئی سو سال بادشاہت کی، اس کے دور حکمرانی میں گلیڈیٹر کے نام سے ایک وحشیانہ کھیل شروع کیا گیا جس کا مقصد رومی تہذیب و ثقافت کا تحفظ تھا۔

گلیڈیٹرز وہ قیدی اور غلام ہوا کرتے تھے جنہیں پالتو کتوں کی طرح پالا پوسا جاتا، کھلایا پلایا جاتا اور سالانہ فیسٹیول کے لئے تیار کیا جاتا۔ کئی ماہ پہلے اس منفرد شو کی ٹکٹیں فروخت ہوتیں اور مقررہ دن ایک بڑے میدان میں تماش بینوں کا انبوہ جمع ہو جاتا۔ بادشاہ کے درباری، امراء، رئوسا اور دیگر اشراف کے لئے اسٹیج سجایا جاتا، بادشاہ سلامت تھرکتے اجسام اور موسیقی کی دلنواز دھنوں سے نغمہ بار فضا میں تشریف لاتے اور یوں اس کھیل کو شروع کرنے کا حکم دیا جاتا۔ گلیڈیٹر جنہیں عرصہ دراز سے سدھایا گیا ہوتا، انہیں ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آنے کا حکم ملتا۔ وہ نہایت سلیقے اور قرینے کے ساتھ منظم انداز میں بادشاہ سلامت کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے اور سلامی پیش کرتے۔ اس کے بعد میدان کے ایک حصے میں موجود ان کچھاروں کے جنگلے کھول دیئے جاتے جن میں وحشی درندوں کو کئی دن سے بھوکا رکھا گیا ہوتا۔

شیر، چیتے، ریچھ ان سے نکلتے ہی گلیڈیٹروں پر ٹوٹ پڑتے۔ گلیڈیٹرز اپنے ہتھیاروں کے ساتھ بھوکے درندوں کا مقابلہ کرتے۔ میدان انسانوں اور حیوانوں کے خون سے بھر جاتا۔ لڑائی تب ختم ہوتی جب ان درندوں یا انہی کی طرح سدھائے گئے انسانوں میں سے کوئی ایک گروہ غالب آ جاتا۔ مورخین کا محتاط اندازہ یہ ہے کہ اس کھیل میں ہر سال کم از کم 8000 گلیڈیٹر مارے جاتے۔ جو بچ جاتے ،انہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا مگر اس کھیل سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا اور وہ اگلے سال اسی میلے میں پھر کام آ جاتے۔ جب یہ وحشی جانور گلیڈیٹروں کی تکا بوٹی کر رہے ہوتے تو تماشایئوں کی ہذیانی چیخیں اور موسیقی کا شور مل کر سماں باندھ دیتا اور بادشاہ سلامت ان مناظر سے بیحد لطف اندوز ہوتے۔

روم میں گلیڈیٹروں کا یہ کھیل کئی سو سال تک جاری رہا اور اسے روم کی ثقافت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہاں تک کہ کلیڈین سلسلہ کے آخری چشم و چراغ نیرو نے اقتدار سنبھال لیا۔ نیرو کا برسراقتدار آنا بھی اقتدار کی رسہ کشی کے خود غرضانہ کھیل کا ایک عجیب موڑ تھا۔ نیرو موسیقی کا رسیا تھا،اسے کسی ناچنے والے گھر میں جنم لینا تھا مگر شاہی خاندان میں پیدا ہو گیا۔ اس لئے وہ تخت نشین ہونے کے بعد بھی باقاعدہ ناچتا گاتا اور اپنے درباریوں سے داد وصول کرتا۔ اس کی ماں ایپرپینا نے اپنے شوہر کو زہر دے دیا تاکہ نیرو بادشاہت کا حقدار بن سکے۔ اس کے چچا کلاڈیئس نے اپنے بھتیجے نیرو کو تخت و تاج کا وارث نامزد کر دیا لیکن یہ شخص ایسا احسان فراموش اور مطلبی نکلا کہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے انہیں ٹھکانے لگایا جن کی وجہ سے اسے اقتدار نصیب ہوا۔

پہلے اس نے اپنے محسن چچا کے بیٹے کو مروایا اور پھر ماں کو قتل کر دیا۔ اپنی ایک بیوی کو اس نے تب لات مار کر ہلاک کر دیا جب وہ حاملہ تھی۔اسے جب جو لڑکی پسند آتی، اس کے شوہر کو قید میں ڈال کر اپنے پاس رکھ لیتا۔ ناول نگار Gaius Suetonius کو رومی تاریخ کا سب سے معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول The twelve ceasre میں نیرو کی خباثت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب نیرو کا دل شادیوں سے بھر گیا تو اس نے جی بہلانے کے لئے ایک نئی ترکیب سوچی ، وہ اپنے سپاہیوں کے ذریعے انتہائی پاکباز و پاکدامن کنواری لڑکیوں کی کھوج لگواتا،انہیں اپنے کارندے بھیج کر زبردستی اٹھواتا اور اپنے جنسی درندوں کے حوالے کر دیتا تاکہ وہ اجتماعی آبروریزی کا شوق پورا کر سکیں۔ جب درندگی کا یہ کھیل شروع ہوتا اور مظلوم لڑکیوں کی دلدوز چیخوں سے زمین ہل رہی ہوتی تو یہ نفسیاتی مریض حظ اُٹھاتا اور اپنے جذبات کی تسکین کرتا۔ اقتدار کے آخری ایام میں اس نے ایک اور خباثت یہ کی کہ ایک انتہائی حسین و جمیل لڑکے کو عمل اخصاء کے ذریعے نا مرد کیا اور دلہن بنانے کے بعد زندگی بھر اپنے پاس رکھا۔ ایک مرتبہ جب نیرو کے دوست اور آرمینیا کے شہنشاہ ٹریدیٹس نے روم کی سیر کو آنا تھا تو نیرو نے گلیڈیٹرز کے کھیل میں جدت پیدا کرنے کے لئے اس میں گلیڈیٹر عورتوں کا اضافہ کر دیا اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی وحشی درندوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا۔


ایک جملہ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ 64 قبل مسیح روم میں شدید آگ لگی جس میں دارالسلطنت کے دوتہائی علاقے جل کر راکھ ہو گئے اور ہزاروں انسان زندہ جل گئے۔جب روم جل رہا تھا تو نیرو 53میل دور واقع اپنے محل کی ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ چونکہ نیرو عیاش اور اذیت پسند تھا لہٰذا یہ آگ اس نے خود لگوائی تاکہ جلتے مرتے لوگوں کی دلدوز چیخوں سے محظوظ ہو سکے۔ کسی شاعر نے ایسے حکمرانوں کی کیا خوب عکاسی کی ہے:

لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے کہا

اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت

جھکا کر سر سبھی شاہ پرست بولے حضور!

شوق سلامت رہے شہر اور بہت

جب سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے موئن جو دڑو میں ہنگامہ برپا تھا اور کسی نے آثار قدیمہ کو نقصان پہنچنے کی بات کی تو جیالے سیخ پا ہو گئے اور میں محولہ بالا اشعار گنگناتا رہ گیا۔ میلوں ٹھیلوں کے ذریعے عوام کو رام کرنے اور لبھانے کی ریت تو بہت پرانی ہے۔ سندھی ثقافت کے نام پر تو یہ ناٹک پہلی بار ہوا مگر پنجابی اور پختون ثقافت کے نام پر تو اس طرح کی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ اس تقریب کی خبر تو نمایاں طور پر شائع ہوئی مگر ایک چھوٹی سی خبر کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ خبر یہ تھی کہ اس تقریب سے واپس جانے والے انجیئنروں کو ڈاکوئوں نے لوٹ لیا...کیونکہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ جب بھوکے ننگے روم کے شہریوں نے نیرو کے خلاف بغاوت کی تو اس تہذیب و ثقافت کا بھی جنازہ نکل گیا۔ نیرو کو معلوم تھا کہ لوگ اس کی تکا بوٹی کر دیں گے اس لئے اس نے محض 31 سال کی عمر میں خودکشی کر لی۔

جس طرح ایک شہزادے نے ثقافت کے نام پر لوگوں کی غربت کا مذاق اُڑایا، ویسے ہی ایک اور شہزادے نے اسپورٹس فیسٹیول رچایا اور سب سے بڑا قومی پرچم بنانے کا اعزاز پایا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے والوں کو کیا معلوم کہ ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں بھی لکھا جا چکا۔شنید ہے کہ اب بسنت منانے کی تیاریاں بھی پورے زور شور سے جاری ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ثقافت کے نام پر میرے ہم وطنوں کی غربت کا مذاق اُڑایا جائے گا۔ نہ جانے کیوں ایسے میلوں ٹھیلوں اور فیسٹیولزکو منعقد ہوتا دیکھ کر مجھے سندھ اور پنجاب کے شہزادوں پر ترس آتا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔


بشکریہ روزنامہ ' جنگ '

لطیفے گھڑنے والے خود لطیفہ بن جاتے ہیں


دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے تو آشنا ہو مگر بل گیٹس کو نہ جانتا ہو۔ یہ شخص جس نے مائیکروسوفٹ جیسی بزنس ایمپائر کھڑی کی،مسلسل19سال تک کوئی مائی کا لال دنیا کے امیر ترین شخص کا ٹائٹل اس سے نہ چھین سکا،یہاں تک کہ اس نے اپنی دولت دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی۔ بل گیٹس کی زندگی کے بیشمار پہلو ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس پہلو کو روشن ترین کہاجائے۔لیکن مجھے بل گیٹس کے ذاتی اوصاف سے کوئی سروکار نہیں۔مجھے اس کی شہرہ ء آفاق کمپنی کی کامیابیوں سے بھی کوئی غرض نہیں، جس کی نیٹ ورتھ 69.96ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان کے زرمبادلہ کےذخائر سے 11گنا زیادہ۔میں جب بھی بل گیٹس کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے بھارتی وزیر اعظم نہرو یاد آتے ہیں۔تقسیم ہند کے بعد ایک مغربی صحافی نے پوچھا ،آپ کے ہاں تو کوئی قابل ذکرپیداوارنہیںجسےبرآمدکر سکیں۔زرمبادلہ کیسے کمائیں گے ۔نہرو نے ہنستے ہوئے کہا ،ہم با صلاحیت افراد ایکسپورٹ کریں گے،یہ افراد ہمارازرمبادلہ ہیں۔آج اس کی یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے اورمیں تب سے رشک اور حسد کے سنگم پر مبہوت کھڑا ہوں جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ایک بھارتی نژاد آئی ٹی ایکسپرٹ ستیا نڈیلا کو مائیکروسوفٹ کا نیا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔مائیکروسوفٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سٹیو بالمر نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور نئے سی ای او کا انتخاب کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں 100 ماہرین کے نام زیر غور تھے۔نہ صرف اس منصب کے لئے ایک بھارتی شہری کو منتخب کیا گیا ہے بلکہ حیدرآبادکے باسی ستیانڈیلا کے بعد جس شخص کا نام مائیکروسوفٹ کے نئے سربراہ کے طور پر لیا جا رہا تھا اس کا تعلق بھی بھارت سے ہے۔بھارت کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہو گی کہ امریکہ کی سب سے بڑی آئی ٹی فرم کے سی ای او کا چنائو تھا اور مسابقت حیدرآباد کے ستیا نڈیلا اور چنائی کے سندر پچھائی کے مابین تھی...وہ لوگ جو امریکہ میں آئی ٹی کے گڑھ سلیکان ویلی کے بارے میں جانتے ہیں ،ان کے لئے یہ خبر ہرگز غیر متوقع نہیں ہے کہ ایک انڈین کو مائیکروسوفٹ کا سربراہ بنا دیا گیا ہے کیونکہ سلیکان ویلی کی تمام آئی ٹی فرموںمیں 80فیصد انجینئروںکا تعلق بھارت سے ہے۔مائیکرو سوفٹ میں ہر تیسرے فرد کا تعلق بھارت سے ہے۔ نہ صرف سلیکان ویلی میں بھارتیوں کی اجارہ داری ہے بلکہ بھارتی اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر ان آئی ٹی فرموں کو سمندر پار لانے میں کامیاب ہوئے اور اب مائیکروسوفٹ اور یاہو سمیت تمام معروف آئی ٹی فرمیں بھارت میں کام کر رہی ہیں۔ ایک بڑی موبائل فون کمپنی کے پروڈکشن یونٹ انڈیا میں کام کر رہے ہیں۔سلیکان ویلی کے بعد اگر سرمایہ کار آئی ٹی کے حوالے سے کسی اور شہر کا نام لیتے ہیں تو وہ بنگلور ہے۔صرف آئی ٹی ہی کیا بھارتی شہری امریکہ اور یورپ سے لیکر عرب ممالک تک نہ صرف کاروبار کی دنیا کے بے تاج بادشاہ مانے جاتے ہیں بلکہ نچلے درجے کی ملازمتوں سے لیکر اعلیٰ پائے کے انتظامی عہدوں تک ہر طرف اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں۔تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کلیدی عہدوں پر آپ کو ہندو نظر آئیں گے۔پیپسیکو جو ایک عالمی شہرت یافتہ کولامشروب بناتی ہے،اس کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو آفیسر Indra Nooyiہیں،ماسٹرز کارڈز کے سی ای او Ajay Bangaہیں،امریکہ کے ایک معروف بینک کی سربراہی Anshu Jainکے پاس ہے۔اور معرف بنک کا انتظام ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہودی لابی کے بعد امریکہ میں کوئی کمیونٹی سب سے زیادہ مضبوط اور بااثر ہے تو وہ بھارتی کمیونٹی ہے۔چند برس قبل فوربز میگزین نے دس ایسی بڑی کمپنیوں کی فہرست جاری کی تھی جن کی سربراہی بھارتی شہریوں کے ہاتھ میں ہے۔کیلی فورنیا،نیویارک،نیو جرسی،ٹیکساس اور فلوریڈا میں 100سے زائد ایسی فرمیںہیں جن میں بھارتی شہریوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہیں یا پھر وہ کلیدی انتظامی عہدوں پرہیں۔آپ ان کافر ممالک کو چھوڑیں ۔شائد یہاں پاکستانیوں کو مسلمان ہونے کی وجہ سے تعصب کا سامنا ہو،آپ برطانیہ میں بھی بھارتی شہریوں کی کامیابیاں نظر انداز کر دیں کہ شائد ایسٹ انڈیا کمپنی اور ہندوئوں کا گٹھ جوڑ تاحال قائم ہو۔ آپ دبئی اور شارجہ سے لیکر قطر،عمان،بحرین اور سعودی عرب تک کسی عرب ملک کے اعداد و شمار جمع کر لیں۔آپ ملائیشیا سے انڈونیشا اور ترکی سے مصر تک کسی بھی مسلم ملک میں سروے کرا کے دیکھ لیں ،آپ کو ہندوئوں کی سبقت واضح طور پر محسوس ہوگی۔ اگر کوئی تعمیراتی کمپنی کسی عرب کی ہے تو اس میں انجینئر اور ٹیکنیشن بھارتی ہوں گے ،مزدوروں میں بھی کچھ بنگالی ہوں گے اور کچھ پاکستانی۔اگر کوئی کلینک ہے تو ڈاکٹر ہندو ہو گا،اگر کوئی گروسری سٹور ہے۔کوئی پیٹرول پمپ ہے،کوئی سروس اسٹیشن اور شوروم ہے تو اس کی ملکیت بھارتی شہریوں کے پاس ہو گی اور پاکستانی کسی پیٹرول پمپ پر نوکری کر رہے ہوں گے،کسی ہوٹل میں ویٹر کے فرائض سرانجام دے رہے ہوں گے، کسی سروس اسٹیشن پر گاڑیاں دھو رہے ہوں گے، کہیں ٹیکسی چلا رہے ہوں گے یا کسی تخریب اور فراڈ کی ترکیب سوچ رہے ہوں گے۔

میں رشک اور حسد کے سنگم پر کھڑا سوچ رہا ہوں کہ آخر بھارتیوں کو ایسے کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ پوری دنیا میں راج کر رہے ہیں اور ہم ہر جگہ تذلیل و تحقیر کا نشانہ بن رہے ہیں؟آخر ان کے پاس ایسا کونسا ہنر اور ایسی کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ سونا بن جاتی ہے اور ہم سونے پر ہاتھ رکھتے ہیں تو وہ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا ہے؟کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ سلیکان ویلی کی قیادت پاکستانیوں کے ہاتھ ہوتی؟کیا یہ ممکن نہ تھا کی مائیکرو سوفٹ، گوگل، یاہو اور نوکیا کی سرمایہ کاری کے لئے بنگلور کے بجائے لاہور کا انتخاب کیا جاتا؟یہ سوال جس شخص سے بھی کیے جائیں گے وہ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ان کا جواب دے گا۔ کسی کاخیال ہوگاکہ ہمیں کام چوری کے باعث یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں،کوئی سوچتا ہو گا کہ ہم بے ایمانی کے باعث رسوا ہو رہے ہیں۔یہ سب باتیں درست ہیں مگر میرا خیال یہ ہے کہ ہم لطیفوں کی وجہ سے ناکام ہیں۔جی ہاں، ہم کامیاب انسانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں،لطیفے بُنتے ہیں اور ہر بات ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم خود لطیفہ بن گئے ہیں۔ہم سکھوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں،ہر طرح کی حماقتیں ان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں یا پھر پٹھانوں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ہم ہر اس شخص کا مذاق اُڑاتے ہیں،جو اپنی محنت کے بل بوتے پر کامیابی کی منازل طے کرتا ہے۔نمونے کے طور پر میں ایک لطیفہ نقل کر رہا ہوں۔مجھے نہیں معلوم ،یہ لطیفہ کس کی اختراع ہے مگر آپ کی طرح میں نے بھی یہ لطیفہ کئی بار سنا اور پڑھا ہے۔آپ یہ لطیفہ پڑھیں اور پھر فیصلہ کریں، کیا اس طرح کے لطیفے گھڑنے والی قوم کا کوئی فرد مائیکرو سوفٹ کا سربراہ بن سکتا ہے:ـ’’ایک پٹھان نے مائیکرو سوفٹ کے سربراہ بل گیٹس کو خط لکھا۔کی بورڈ میں ABC کی ترتیب ٹھیک نہیں۔صحیح اے بی سی والا کی بورڈ کب بنائیں گے؟ ونڈوز میں ا سٹارٹ کا بٹن ہے مگر اسٹاپ کا بٹن کیوں نہیں؟جب کی بورڈ میں Any keyکا بٹن نہیں تو پھر کمپیوٹر یہ کیوں کہتا ہے کہ Press any key۔ ہم مس ورڈ(MS Word) تو استعمال کرتے ہیں مگر مسٹر ورڈ کب لانچ ہو گا؟اگر آپ بُرا نا مانیں تو یہ بھی بتا دیں کہ آپ کا نام بل گیٹس ہے تو آپ ونڈوز کیوں بناتے ہیں؟‘‘


بشکریہ روزنامہ 'جنگ

Microsoft Indian President

Enhanced by Zemanta