Showing posts with label Hijab. Show all posts

حکومت کے پاس کیا بچا ہے؟.....


پاکستانی فوج کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کور کمانڈرز کانفرنس نے اتوار کی شام ایک ہنگامی اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’طاقت کا استعمال مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر عدم تشدد کے ساتھ بحران کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔‘
مبصرین اس بیان کا مطلب یہ لے رہے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ملک میں جاری سیاسی بحران میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اپنا وزن بظاہر حکومت مخالف جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

پاکستانی فوج کے اس بیان کے بعد بھی فریقین ابھی تک اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کی جانب سے یہ بیان جاری ہونے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم کے استعفٰے پر کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
عرفان صدیقی وزیراعظم کے ان چند معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جن سے وزیراعظم مسلسل رابطے اور مشورے میں رہتے ہیں۔ عرفان صدیقی اتوار کے روز وزیر اعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اس اجلاس میں بھی شامل تھے جس میں اس بحران پر غور کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

عرفان صدیقی نے بتایا کہ حکومت نے ابھی تک کسی بھی فورم یا موقع پر وزیراعظم کے مستعفیٰ ہونے کے امکان پر غور نہیں کیا اور نہ ہی اس موضوع پر کسی بھی جماعت سے مذاکرات کا ارادہ ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے نائب سربراہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو اتوار کی شام بتایا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات فی الحال خارج از امکان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے کے علاوہ کوئی اور تجویز ان کی جماعت کو احتجاج سے نہیں روک سکے گی۔
اگر حکومت احتجاجی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر نہ لا سکے اور اس کے پاس مظاہرین کو وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بولنے سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا آپشن بھی موجود نہ ہو تو اس کے پاس کیا امکانات باقی رہ جاتے ہیں؟

یا تو مظاہرین کے ہاتھوں حکومت کی رٹ کا بالکل خاتمہ، یعنی ملک میں حکمرانی کا سنگین بحران اور دوسرا نواز شریف کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے پر بات چیت۔
حکومت اب ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں سے اپنے لیے کامیابی کا کوئی راستہ نکالنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔

آصف فاروقی

 

حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیلی فوجی کو پکڑ لیا



حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے مزاحمت کاروں نے غزہ کی پٹی میں لڑائی کے دوران ایک اسرائیلی فوجی کو گرفتار کر لیا ہے۔
ابوعبیدہ نام کے اس ترجمان کا اتوار کی شب حماس سے وابستہ ایک ٹیلی ویژن اسٹیشن سے بیان نشر ہوا ہے جس میں انھوں نے اطلاع دی ہے کہ ''ہم نے ایک صہیونی فوجی کو پکڑ لیا ہے اور قابض فوج نے اس کا اعتراف نہیں کیا ہے''۔انھوں نے بتایا کہ اس وقت اسرائیلی فوجی شاؤل ایرون القسام بریگیڈز کے زیر حراست ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کی ایک خاتون ترجمان نے کہا ہے کہ وہ اس دعوے سے آگاہ ہیں اور اس کی تحقیقات کررہے ہیں۔فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جونہی عزالدین القسام بریگیڈز کی جانب سے صہیونی فوجی کو پکڑنے کی اطلاع سامنے آئی تو مغربی کنارے کے شہروں رام اللہ اور الخلیل کے مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے خوشی میں ہوائی فائرنگ شروع کردی۔
حماس کے عسکری ونگ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی جارحیت کے تیرھویں روز صہیونی فوجی کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔اسرائیلی بمباری میں چارسو اڑتیس فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کی جوابی کارروائیوں میں اٹھارہ فوجیوں سمیت بیس یہودی مارے گئے ہیں۔
عزالدین القسام بریگیڈز کا کہنا ہے کہ اس فوجی کو چوبیس گھنٹے قبل غزہ شہر کے مشرق میں واقع علاقے طفاح میں اسرائیلی فوجیوں پر ایک حملے کے دوران پکڑا گیا تھا۔اس علاقے میں اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان شدید لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں اور اتوار کو اس محاذ پر تیرہ جارح فوجی ہلاک ہوچکے تھے۔
حماس کے ترجمان سامی ابوزہری نے صہیونی فوجی کو پکڑنے کی اطلاع کا خیرمقدم کیا ہے اور اس کو القسام بریگیڈز کی ایک بڑی کامیابی اور شہداء کے خون کا بدلہ قرار دیا ہے۔قبل ازیں اتوار کو غزہ کے علاقے شجاعیہ میں اسرائیلی فوج کی ٹینکوں سے شدید گولہ باری کے نتیجے میں ساٹھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
ٹیگز

سعودی عرب کی با برکت امداد

شیخ سعدی کے کئی شعروں کی طرح یہ شعر بھی ہمارا ایک محاورہ بن گیا کہ

دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست

در پریشاں حالی و درماندگی

کہ دوست وہ ہوتا ہے جو کسی دوست کی اس کی پریشان حالی اور درماندگی میں مدد کرے۔ سعودی عرب ہمارا پرانا اور صحیح دوست ہے لیکن وہ ایک ایسی دنیا میں آباد ہے اور تیل کی وجہ سے اتنا امیر ہے کہ عالمی تعلقات سے الگ تھلک نہیں رہ سکتا خصوصاً امریکا کی بیرونی پالیسیاں اسے پریشان کرتی رہتی ہیں لیکن یہ ملک پاکستان کو نہیں بھولتا اپنی مجبوریوں کے باوجود اسے یاد رکھتا ہے، یہ ملک علاوہ جغرافیائی اہمیت کے مسلمانوں کے لیے اپنے مقدس مقامات کی وجہ سے ایک ایسا ملک ہے کہ اس کے دفاع کے لیے جان قربان کر دینا کسی مسلمان کا سب سے بڑا اعزاز اور خوش نصیبی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب سے کوئی طاقت یا ملک کتنا بھی ناراض رہے وہ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ناراض اور فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمان سعودی عرب کا دفاعی حصار ہیں اور کوئی ہمارے فوجیوں سے پوچھے تو ایک ایک سپاہی اس کی تصدیق کرے گا۔

اسلام جس قدر برصغیر میں ہے اتنا کسی دوسرے خطے میں نہیں ہے۔ پھر پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے۔ پیغمبروں کی سرزمینوں پر آباد عرب تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کو جس قدر برصغیر کے مسلمانوں نے سمجھا اتنا کسی دوسرے ملک میں نہیں سمجھا گیا۔ پاکستان کا وجود ہی اس کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ مسلمانوں نے یہ ملک اپنے وجود کے تحفظ کے لیے بنایا تا کہ اس میں ان کی تہذیب و ثقافت پھلے پھولے اور محفوظ رہے۔ سعودی عرب کو پاکستان اور اس خطے میں آباد مسلمانوں کے ان جذبات کا احساس ہے۔ آج پاکستان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک مضبوط ترین ملک ہے۔ عمر میں دنیا کے ہر مسلمان ملک سے چھوٹا مگر اسلامی شعور اور احساس میں سب سے بڑا ہے۔ ہمیں بے عمل اور گمراہ حکمرانوں نے بہت مارا ہے اور ہمارے اندر پوشیدہ اسلامی جوہر پر مسلسل ضربیں لگائی ہیں لیکن یہ جوہر ہمارے وجود کا حصہ ہے اسے نکال دیں تو پاکستان ایک غبارہ رہ جاتا ہے۔

بات مسلمانوں کے روحانی اور دنیاوی مرکز سعودی عرب اور پاکستان کے تعلق سے شروع ہوئی تھی جو جذبات میں ذرا دور نکل گئی۔ ہمارے پرلے درجے کے کرپٹ حکمرانوں نے جو کوئی نصف صدی سے ہمارے اوپر اپنی تمام تر بُری خواہشات کے مسلط ہیں ہمارے اس ملک کو اس کے لاتعداد وسائل کے باوجود ایک غریب ملک بنا دیا ہے۔ شہید حکیم سعید کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ رحمن میں جتنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے مسلمانوں کے اور پاکستانیوں کے پاس اس سے زیادہ ہیں، وہ گنتی بھی کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ کون کون سی نعمتیں زیادہ ہیں۔ تازہ مثال ہے تھر کے کوئلے کی جسے ہم اب نکال رہے ہیں اور جس سے ہم بجلی بنائیں گے۔ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے اس ملک میں کیا رکاوٹ تھی کہ بجلی کے لیے ہم نے اس سے پہلے یہ خزانہ نہیں کھولا یہ رکاوٹ ہمارے حکمران تھے جو جیسا بھی ہے اسے ایسا ہی چلنے دیں اور جو مال ہے وہ خود کھاتے رہیں۔ بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع یہ اربوں ڈالر کیا ہمارے حکمرانوں کو ورثے میں ملے تھے۔ انھوں نے ملک کو برملا کھایا اور ملی بھگت کے ساتھ اسے ہضم کیا۔ یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ہر پاکستانی ملک سے باہر جانے کو تیار ہے بلکہ بے چین ہے۔

ہماری اس غربت کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے ہر مالیاتی ادارے کے سامنے ہمارے ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ کسی دربار کے فقیر کی طرح ہم اپنا کشکول لیے پھرتے ہیں اور جب کوئی ہمیں قرض دے دیتا ہے تو ہم بے شرم اس کا جشن مناتے ہیں۔ ہمارا جو وزیر قرض لینے میں کامیاب ہوتا ہے وہ ہمارا کامیاب وزیر ہوتا ہے۔ جیسے ان دنوں کوئی ڈار صاحب ہیں۔ سعودی عرب سے ہماری یہ حالت دیکھی نہ گئی اور اس نے ہمیں اچھی طرح ٹٹول کر فی الحال کچھ رقم دے ڈالی جو اسے کسی نہ کسی صورت میں واپس مل جائے گی۔ اس برادرانہ قرض سے ہمارا کام چل گیا اور ہمارا ڈوبتا ہوا روپیہ سر باہر نکال کر تیرنے لگا البتہ ہمارے باغ و بہار شیخ رشید صاحب کو ڈبو گیا۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے دو چار ارب ڈالر کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ اتنی رقم تو ہمارا کوئی پاکستانی سیٹھ بھی دے سکتا ہے اور کوئی اچھی حکومت قومی وسائل کو صحیح استعمال کر کے سال دو سال میں ان قرضوں سے نجات بھی پا سکتی ہے۔

آج اگر ہم غربت میں غوطے کھا رہے ہیں تو کل ہم بحال ہو کر ایک معمول کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے اور یہ کچھ بعید نہیں ہے۔ ایک عالمی مالیاتی ادارے نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کبھی ختم نہیں ہو سکتا، یہ ناکام ریاست نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس کھانے کو اناج بہت ہے اور پاکستانی بھوکے نہیں مر سکتے۔ جو قوم اپنے گھر میں پیٹ بھر سکتی ہے وہ ناکام کیسے کہلا سکتی ہے لیکن اپنے لیڈروں کے بارے میں کیا کہیں اب تو یہ خود ہی اپنے پردے چاک کر رہے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی نے ان کی راتوں کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا ہے اور وہ بھی برملا۔ کیا پاکستان جیسے قرض دار ملک کے نمائندے اور حکمران ایسے ہونے چاہئیں جس دن ان کے دن اور راتیں ایک جیسی ہوں گی اس دن ہمارے دن روشن اور راتیں پر سکون ہو جائیں گی۔ سعودی عرب نے ہماری بر وقت مدد کی ہے شاید ہم نے بھی کسی شکل میں کچھ خدمت کی ہو لیکن ہم سر زمین حجاز کی خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے ان کی رحمت اور مغفرت کے طلب گار ہیں۔ ہمارا ہر سپاہی اور ہر پاکستانی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور سعودی عرب اس مدد کا شکریہ ادا کرتا ہے۔

ہمارا روپیہ بڑی حد تک بحال ہو گیا ہے۔ گویا اپنی زندگی پر ہمارا اعتماد بحال ہوا ہے۔ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں ہوں، میں تو اپنی تنخواہ کا حساب بھی نہیں رکھ سکتا لیکن اتنا دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے کاروباری لوگ قدرے اطمینان میں آ گئے ہیں۔ سعودی امداد اپنی مالیت سے زیادہ ہمارے لیے برکت میں بڑی ہے۔

عبدالقادر حسن

Enhanced by Zemanta

حج کی ادائیگی کے لیے بحری سروس


ایک خوش کن خبر ہے کہ حکومت نے فریضہ حج کی ادائیگی کے خواہش مند غریب شہریوں کی سہولت کے لیے حج کی ادائیگی کے لیے بحری سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد اس سروس کا آغاز آیندہ حج ایام سے ہوگا۔ وزیر پورٹس و شپنگ نے بتایا ہے کہ حج پر ساڑھے تین لاکھ کے قریب اخراجات آتے ہیں جس کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے حج کا فریضہ انجام دینا بڑا مشکل کام ہے۔ اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے سستے حج کا منصوبہ بنایا ہے، اس سلسلے میں یورپ سے تیز رفتار بحری جہاز حاصل کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے حاجیوں کو 6 دنوں کے اندر سعودی عرب پہنچایا جائے گا، انھیں کھانے پینے کی سہولیات بھی فراہم کی جائے گی، اس کے علاوہ تاجر برادری کے اشتراک سے جہازوں میں تجارتی سامان بھی ساتھ لے جایا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسٹم اور امیگریشن کے معاملات پر بھی بات چیت چل رہی ہے، اس کے علاوہ اگلے مرحلے میں بلوچستان کے راستے ایران جانے والے زائرین کو بھی بحری راستے سے ایران بھیجا جائے گا۔ حکومت کی یہ کوششیں بلاشبہ لائق تحسین ہیں۔

حج و عمرہ کی ادائیگی ہر مسلمان کی جستجو و تمنا ہوتی ہے۔ غریب سے غریب مسلمان بھی کم معاشی وسائل ہونے کے باوجود بھی اپنا پیٹ کاٹ کر بنیادی ضروریات کو نظر انداز اور بہت سے فرائض کو موخر کرکے فریضہ حج کی ادائیگی کی کوششیں کرتا ہے لیکن آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی اور کاروباری نقطہ نظر سے حج وعمرہ کے روز افزوں اخراجات ، ہیرا پھیری، لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے اس کا متحمل نہیں ہو پاتا۔ غریب و متوسط طبقے کے لیے فریضہ حج کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہوکر رہ گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بحری سفری سہولت کی وجہ سے حج کرایوں میں تین چوتھائی کے قریب کمی واقع ہوگی کیونکہ اس منصوبے کے تحت بحری کرایے کی شرح 25 سے 30 ہزار روپے رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑی سہولت میسر آجائے گی۔

عازمین حج کے لیے حکومت پاکستان نے ابتدا میں غیر منافع بخش بنیادوں پر حج پالیسی متعارف کروائی تھی جس میں وقتاً فوقتاً بہتری لانے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں لیکن وزارت مذہبی امور میں نااہل، بددیانت اور خوف خدا سے بے بہرہ افراد کی تعیناتی اور سیاسی مداخلت و مفادات کی وجہ سے اس کی کارکردگی خراب سے خراب تر ہوتی گئی اور مسائل، مصائب اور شکایتوں میں اضافہ ہوتا گیا، ان خرابیوں، کوتاہیوں اور شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے حکومت نے پرائیویٹ حج اسکیم کا اجرا کرکے اس عمل میں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کو شامل کر ڈالا جس کی وجہ سے کسی بہتری کے بجائے مزید خرابیاں رونما ہوئیں اور کرپشن اور ملی بھگت کا سلسلہ وزارت مذہبی امور سے ٹور آپریٹرز تک دراز ہوگیا۔ عازمین حج و عمرہ کی پریشانیوں اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔

رہائش، خوراک، سفری سہولیات، معاہدات کی خلاف ورزی کے لاتعداد واقعات سامنے آنے لگے جن پر حکومت نے کوئی توجہ نہ دی تو اس گمبھیر صورت حال پر عدالتوں کو ایکشن لینا پڑا۔ عدالت عظمیٰ کی کارروائیوں کے نتیجے میں وزیر و مشیر وزارت حج و مذہبی امور اور ٹور آپریٹرز جیلوں میں گئے، حجاج کو ان کی اضافی رقوم واپس کروائی گئیں۔ بدعنوانی اور لوٹ مار کو دیکھ کر سعودی حکومت بھی حرکت میں آئی، پاکستانی حکام سے سرکاری سطح پر اس کی شکایت کی گئی اور کافی ٹور آپریٹرز کو بلیک لسٹ کرکے تین سال تک کے لیے نئی رجسٹریشن پر پابندی عائد کردی گئی، مجبوراً حکومت پاکستان نے بھی سیکڑوں ٹور آپریٹرز کے لائسنس منسوخ کیے تھے۔ کم سرمایہ کاری اور کم مالی خطرات کے اس کاروبار میں راتوں رات دولت مند بننے کے خواہش مند عاقبت نااندیش عناصر کو حکومتی حلقوں کی آشیرباد اور پشت پناہی بھی حاصل ہے جو ایک منظم مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایک تو وہ طبقہ ہے جو دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی کے بعد فریضہ حج و عمرہ کی ادائیگی کی تڑپ و جستجو میں لگا رہتا ہے اور بمشکل ہی اس کا متحمل ہوتا ہے، دوسری جانب ارباب اقتدار و اختیار اور مراعات یافتہ طبقہ ہے جس نے ان مذہبی عبادات کو سیاسی و سماجی رسم کی حیثیت دے ڈالی ہے۔ سیاست دانوں کے لیے یہ فریضہ سیاسی حالات سے وقتی فرار حاصل کرنے، سیاسی جوڑ توڑ، ڈیل اور رابطوں کا بہترین ذریعہ بن چکا ہے۔ خوشنودی، پذیرائی کے لیے رشوت کے طور پر سیاسی حلیفوں اور کارکنوں کو سرکاری خرچ پر حج و عمرہ پر بھیجنے کا رجحان جڑیں پکڑ چکا ہے۔ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز مختلف قسم کے پرتعیش اور مختصر دورانیے کے ایسے حج و عمرہ پیکیج بھی متعارف کرائے جاتے ہیں جن کے اخراجات 20 لاکھ فی کس بتائے جاتے ہیں۔ حالانکہ حج کی اصل روح، تربیت اور فلسفہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کفن کی صورت حج کا احرام باندھ کر گھر سے نکلتا ہے، اپنے پیاروں کو زندگی کے تمام معاملات کو چھوڑ کر سفر کی مشقتیں برداشت کرتا، اﷲ کے حضور پیش قدمی کرتا ہے، عرفات میں حشر کے میدان کی طرح اﷲ کے حضور پیش ہوتا ہے، مزدلفہ میں رات کھلے آسمان تلے بسر کرتا ہے جہاں نہ کوئی ادنیٰ ہوتا ہے نہ اعلیٰ، نہ امیر نہ غریب، نہ حاکم نہ محکوم، سب کے پیر و سر ننگے ہوتے ہیں، ایک جیسا لباس ہوتا ہے، ہر کوئی اپنی مشقتیں خود برداشت کرتا ہے بلکہ حکم ہے کہ حج کی مشقتیں و صعوبتیں بیان نہ کی جائیں۔

حج کی ادائیگی کے دوران حجاج کے کپڑوں اور اجسام پر جمع ہونیوالے گرد و غبار اور میل کچیل پر اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فخر کرتا ہے اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ تعلیمات عام مسلمانوں کے علم میں ہوتی ہیں، کاش ہم ان پر غور اور عمل کرکے حج و عمرہ جیسی عبادات کی اصل روح کو برقرار رکھ سکیں۔ دنیا کے بہت سے اسلامی بلکہ بعض غیر اسلامی ممالک میں بھی عازمین حج کو اس فریضے کی ادائیگی میں سرکاری سطح پر بہت سی رعایت و مراعات فراہم کی جاتی ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے عازمین حج کے لیے بحری جہازوں کے ذریعے سفری سہولت کی فراہمی بھی ایک مستحسن اور قابل تعریف اقدام ہے۔ حکومت کو اس سہولت کے اجرا سے قبل اس قسم کے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے اس سہولت کا فائدہ غریب و متوسط طبقے کو پہنچے مثلاً یہ کہ اگر کسی نے پہلے فریضہ حج ادا کیا ہوا ہو تو اس کو یہ سہولت فراہم نہ کی جائے، سہولت سے استفادہ حاصل کرنیوالے سے اقرار نامہ لیا جائے کہ وہ ہوائی سفر کے اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔

اس بحری سفر میں سامان اور اس کے وزن کی بھی ایک متوازن حد مقرر کی جائے تاکہ کاروباری ذہنیت کے لوگ اس کا غلط استعمال نہ کرسکیں اور سب سے زیادہ اس کی سیکیورٹی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ بحری جہاز تک ممنوع اشیا اور منشیات وغیرہ کا پہنچانا نسبتاً آسان ہے، خاص طور پر ایک ہفتے پر محیط اس بحری سفر کے دوران کسی سادہ لوح یا بزرگ حاجی کے سامان میں رد و بدل یا کچھ شامل کردینا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ زاد حج کی اشیا میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ چند سال پیشتر کراچی کے عازمین عمرہ کے دو خاندانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کی چپلوں میں ٹور آپریٹرز کے کارندوں نے ہیروئن چھپا رکھی تھی، اگر جامعہ بنوری کے مہتمم سعودی فرماں روا تک رسائی اور سینیٹ اور قومی اسمبلی اپنے اجلاس میں اس مسئلے پر آواز بلند نہ کرتیں تو ان کی گردن زنی ہوچکی ہوتی۔

حکومت کو وزارت مذہبی امور کے معاملات کا ازسر نو اور سنجیدگی سے جائزہ لے کر اس کو نااہل، بددیانت افراد سے پاک کرکے سیاست اور مفادات سے بالاتر ہوکر اچھی شہرت کے حامل دین کی سوجھ بوجھ اور خوف خدا رکھنے والے افراد کو تعینات کرنا چاہیے۔ عام کرایوں اور حج و عمرہ کے کرایوں کے فرق اور ٹیکس ختم کرکے رعایتی نرخ مقرر کرنے چاہئیں، ٹور آپریٹرز کی رجسٹریشن کی سخت شرائط اور معیار مقرر کرکے صرف ایسے آپریٹرز کو خدمات کی ذمے داری سونپنی چاہیے جو اسے محض کاروبار نہیں بلکہ دینی فریضہ سمجھ کر سرانجام دیں۔ بلیک لسٹ ہونے والا شخص یا ادارہ کسی دوسرے نام سے یہ کام دوبارہ نہ حاصل کرسکے۔ کوٹے کی تقسیم دیانتدارانہ ہونی چاہیے، پرائیویٹ ٹور آپریٹرز اور عازمین کے درمیان ایک تحریری معاہدے کا جامع متن تیار کرکے حکومت کو اس کے ضامن کے طور پر دستخط کرکے اس پر عمل کو یقینی بنانا چاہیے، حکومت کے شکایتی سیل کو فعال متحرک اور ہر قسم کے دباؤ سے آزاد کرکے اس کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جانا چاہیے، ایسی ریگولیٹری باڈی بھی بنانی چاہیے جو معاہدے کے خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ ٹور آپریٹرز کا لائسنس منسوخ اور سیکیورٹی ضبط کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔

عدنان اشرف ایڈووکیٹ   

Enhanced by Zemanta

جیل کے ساتھی…


قیدیوں کو سب سے زیادہ گلہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے ہوتا ہے جو انھیں کڑے وقت میں اکیلا اور حوادث زمانہ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عموماً ایسے ساتھی جیل میں ملاقات کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ اگر ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو انھیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوران ملاقات یا اس کے بعد جس ساتھی کے ملاقات کے لیے وہ آیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اٹھا کر نہ لے جائیں۔

عموماً ایسے قیدی اپنے دوست احباب اور ساتھیوں سے بڑی بڑی توقعات بھی اس لیے وابستہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اثر و رسوخ انھیں مصائب کی دنیا سے جلد نکال سکتا ہے۔ میں نے ایسے لاتعداد قیدی دیکھے ہیں جنھیں اپنے ساتھیوں کی بے وفائی اور بے رخی کا بڑا قلق تھا۔ ایک قیدی نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی عزت و ناموس سب کچھ اپنے ساتھیوں کے لیے قربان کردی، لیکن اس کے ایسے ساتھی بھی تھے جنھوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا اور اب اس کا ساتھ دینا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی شرمندگی پر معافی کے بجائے ایسے طریقے اختیار کرلیے کہ اسے جتنا ممکن ہو جیل میں ہی رکھا جاسکے۔ ایک قیدی نے اپنی داستان میں اپنے کچھ ایسے ساتھیوں کا ذکر کیا جنھوں نے اس سے ملاقات ہی چھوڑ دی۔کورٹ میں آنے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں اپنی مفلوک الحالی میں ان سے امداد نہ مانگ لوں۔ اس قیدی کا یہ کہنا تھا کہ دولت تو آنے جانے والی چیزیں ہیں۔ لیکن اپنے ساتھیوں کا رویہ بڑا دل شکن ہے جس نے تمام اعتماد کی دیوار کو چھلنی چھلنی کردیا ہے۔

ایک سیاست زدہ قیدی سے احوال دریافت کیا تو اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ جو جماعت اس کے چھوٹے مسئلے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی وہ کسی قوم کی تقدیر بدلنے اور انقلاب کے نعرے لگانے سے باز رہے۔ اسے بھی اپنے رشتوں داروں سے زیادہ اپنے احباب کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا اس قیدی کے جذبات میں زمانے سے شکوئوں سے زیادہ اپنی سیاسی جماعت کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا کہ اس نے دل فریب نعروں میں آکر کتنی قربانیاں دیں۔ اپنا سوشل بائیکاٹ کروایا۔ دشمنیاں مول لیں۔ لیکن اس کی جماعت کے بااثر ساتھی، اس کے بجائے منشیات فروشوں کا ساتھ اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ وہ غریب ہے۔ ان کے لیے جرائم کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا اور انھیں ناجائز کاموں سے حصہ نہیں دے سکتا۔

یہاں میری حیرانگی دیدنی تھی کہ اگر وہ یہ عمل نہیں کرسکتا تو پھر وہ جیل میں کیوں ہے تو اس نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ بھی ساتھیوں کا تحفہ ہے۔ ان کی نظر کرم اور بڑے بڑے دعوؤں کا نتیجہ ہے۔

ایک قیدی نے اپنے بال بچوں کے بے سہارا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے دل میں ہل چل پیدا کردی کہ اس کے گھر والے بے سہارا ہوچکے ہیں۔ مالک مکان نے اس کے گھر والوں کو گھر سے اس لیے نکال دیا کہ وہ کرایہ نہیں ادا کرسکے تھے، کیونکہ ان کے گھر کا واحد کفیل مہینوں سے قید ہے۔مالک مکان نے اس کے گھر والوں کا کوئی عذر اس لیے سننے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ ایک سال سے بغیر کرایہ ادا کیے رہ رہے تھے۔ اس قیدی نے بتایا کہ اس کے رشتے دار، بھائی وغیرہ بہت غریب ہیں۔ اس کے حالات بھی کبھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے فلیٹ، مکان، زمین اور اپنی گاڑی تھی بچے اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اچھا کھانا اور اچھا رہن سہن اس کا مقدر تھا۔ لیکن کچھ ساتھیوں کی صحبت نے اسے آہستہ آہستہ ان نعمتوں سے محروم کردیا اور وہ قلاش ہوگیا اور اسکول سے بچے نکال دیے گئے۔

اس قیدی کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے دوست، ساتھی اس کی مدد کریں گے اس کا ساتھ دیں گے۔ اس قیدی نے بتایا کہ ان کا ایک سماجی حیثیت سے وابستہ ایک فورم تھا جس میں صنعت کار، وڈیرے، سرکاری اعلیٰ افسران، سیاسی نمایندے، ایم پی اے، ایم این اے تک اس کے ساتھی تھے۔ لیکن انھوں نے اس تکلیف میں پلٹ کر اس کی خبر تک نہیں لی۔ اس قیدی کا گلہ اپنے ساتھیوں سے اس لیے زیادہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے اپنا سب کچھ ان کی خاطر تباہ کیا ہے اس لیے اگر وہ سب مل کر اس کا ساتھ دیتے تو آج وہ جیل میں نہ ہوتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا۔ اس کے گھر والے در بدر نہ ہوتے۔ فاقے نہ کاٹتے اور انھیں مصائب کا سامنا نہ ہوتا۔

جیل میں ایسے قیدیوں کے احوال بھی سنے جنھوں نے بتایا کہ وہ ایک اچھی زندگی کا خواب سجائے، غلط راستوں پر چلے، لیکن ساتھیوں کی غلط محفل کا انجام بھی غلط ہوا۔ انھوں نے ساتھیوں سے بدلہ لینے کی قسم کھائی۔ کچھ ایسے سیاسی قیدی بھی میری نشست میں گویا ہوئے کہ انھوں نے اپنے لیڈروں کے کہنے پر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا لیکن انھیں بے سہارا بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔کسی نے ان کی وجہ سے دبئی میں کاروبار سجا لیے تو کسی نے ملائیشیا میں اپنے خاندان کو سیٹ کرلیا۔ اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مفروضوں اور نظریوں کے تحت مقید یہ قیدی اپنے لیڈروں سے نالاں نظر آئے کہ انھیں معمولی سی قانونی معاونت بھی فراہم کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ یہاں ان قیدیوں کے ساتھیوں، احباب، رشتے داروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ جیل میں قید اپنے ساتھی، دوست، رشتے داروں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں ان کے لیے کچھ نہ کریں، لیکن انھیں دلاسا تو دے سکتے ہیں۔

جیل میں پڑے یہ قیدی اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سے بڑی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن بڑی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ جب قیدی اپنی داستان میں روتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ اسے یہ تکلیف دہ دن اپنے ساتھی کی بدولت ممکن ہو رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ہزاروں قیدی، لاکھوں داستانیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کا مختصراً تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن مخصوص قیدیوں کی مشترکہ داستانوں میں سب سے زیادہ تذکرہ ان کے ساتھیوں کی بے رخی سے متعلق تھا۔ ایک قیدی نے بطور خاص کہا کہ ’’یہ ضرور لکھنا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ’’بھول مت جانا‘‘دیکھ لو کہ ساتھی آپ سب بھول گئے، گول گپے بھی نہیں کھلائے‘‘۔

غیر مبہم سی فرمائش پر لکھ تو دیا لیکن دل مسوس ہوکر رہ گیا کہ جیسے یہ داستانیں یہ شکوے، شکایتیں کرنے والے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے دوست احباب، رشتے دار سے زیادہ اپنے ساتھی پر بھروسہ کرتے نظر آئے۔ کاش کوئی ساتھی ان کا بھروسہ قائم رکھ دے۔

قادر خان   

Enhanced by Zemanta

شریعت کے تین درجے


شریعت کے تین اسٹیپس (درجے) ہیں۔

پہلا اسٹیپ اسلامی اخلاقیات ہے‘ وحی کا آغاز چالیس سال کی عمر میں ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عمر میں آخری نبی ہونے کا پیغام دیا لیکن آپؐ صادق اور امین برسوں پہلے اسٹیبلش ہو چکے تھے‘ مکہ کا ایک ایک شخص گواہی دیتا تھا‘ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘ خیانت نہیں کی‘ بے انصافی نہیں کی‘ کسی کا حق نہیں مارا‘ گواہی نہیں چھپائی‘ وقت ضایع نہیں کیا‘ اونچی آواز میں تکلم نہیں کیا‘ کسی سے نفرت نہیں کی‘ غیر محرم کو نہیں دیکھا‘ غلط فہمی اور افواہ نہیں پھیلائی‘ دوسروں کے عقائد پر تنقید نہیں کی‘ معاشرے کی کوئی روایت‘ کوئی قانون نہیں توڑا‘ وعدہ خلافی نہیں کی‘ منافرت نہیں پھیلائی‘ کسی فساد کا حصہ نہیں بنے‘ کام چوری نہیں کی اور کسی پر ظلم نہیں کیا‘ ہمارے رسولؐ اعلان نبوت سے قبل اخلاقیات کے اس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو چکے تھے جس پر کفار بھی حجر اسود نصب کرنے کے لیے آپؐ کو ثالث مقرر کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے

قریش کے بدترین دشمن بھی امانتیں رکھوانے کے لیے آپؐ کے گھر آتے تھے‘ تجارت کے قافلے روانہ ہوتے تھے تو لوگ اپنا سرمایہ آپؐ کے حوالے کرنا چاہتے تھے‘ آپؐ کی شرافت کا عالم یہ تھا ‘آپؐ مکہ کی متمول ترین خاتون حضرت خدیجہؓ کے لیے کام کرتے تھے‘ وہ آپؐ کی ایمانداری اور شرافت سے اتنا متاثر ہوئیں کہ انھوں نے خود نکاح کا پیغام بھجوا دیا‘ آپؐ کی شرافت کا یہ عالم تھا‘ آپؐ نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں فرمایا‘ جب تک حضرت خدیجہؓ دنیا میں موجود رہیں‘ حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال64 سال اور چھ ماہ کی عمر میں ہوا ‘ آپؓ اس وقت تک بہت ضعیف ہو چکی تھیں مگر نبی اکرمؐ نے دوسری شادی نہیں فرمائی اور یہ روایت اس معاشرے میں قائم کی جس میں کثرت ازدواج قانون بھی تھا اور رسم بھی۔ کنیزیں اور لونڈیاں بھی ہوتی تھیں اور آقاؤں کو ان پر پورا اختیار بھی ہوتا تھا‘ آپ ؐ کی اخلاقی برتری کی یہ حالت تھی مکہ اور اس کے قرب و جوار میں کوئی ایک ایسا شخص موجود نہیں تھا جو یہ کہہ سکتا‘ محمدؐ نے میرے ساتھ فلاں زیادتی کی‘ فلاں وعدہ توڑا یا فلاں وقت میرے ساتھ ترشی کے ساتھ پیش آئے‘ پورے مکہ میں کوئی شخص آپؐ پر جھوٹ بولنے تک کا الزام نہیں لگا سکا‘ رسول اللہ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو صحابہ کرام ؓ بھی اخلاقیات کے اعلیٰ معیارات پر متمکن ہو گئے‘ برداشت کیا تو زمین کو دہلا دیا‘ صبر کیا تو آسمان کی پلکیں گیلی ہو گئیں‘ وعدے نبھائے تو کفار کے دل نرم پڑ گئے اور سزائیں بھگتیں تو مشرکوں کو بھی پریشان کر دیا‘ یہ اخلاقیات شریعت کا پہلا اسٹیپ ہے‘ میرا ایمان ہے‘ ہم اس وقت تک سچے مسلمان نہیں ہو سکتے ہم جب تک شریعت کے اخلاقی درجے پر فائز نہیں ہو جاتے‘ ہمارے ہاتھ اور ہماری زبان سے جب تک دوسرے لوگ محفوظ نہیں ہوجاتے۔

شریعت کا دوسرا اسٹیپ (درجہ) عبادات ہیں‘ حضرت جبرائیل امین ؑ نے تیسری وحی کے دوران نبی اکرم ؐ کو وضو کا طریقہ سکھایا تھا‘ معراج کے دوران پانچ نمازیں فرض ہوئیں‘ تیس روزوں کا حکم‘ حج اور زکوٰۃ کا حکم بھی مختلف اوقات میں آیا‘ یہ تمام عبادات مسلمانوں پر فرض ہیں‘ ہم ان میں سے کسی عبادت کا انکار نہیں کر سکتے‘ یہ عبادات بندے اور خدا کے درمیان رابطہ ہیں‘ عبادات کے معاملے میں کوئی تیسرا شخص انسان اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا‘ میری نماز‘ میرا حج‘ میری زکوٰۃ اور میرا روزہ قبول ہوا یا نہیں ہوا؟ یہ فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے‘ میں کتنا بڑا مسلمان ہوں‘ میرے درجات کیا ہیں اور عبادت اور ریاضت کے باوجود میرا ٹھکانہ دوزخ ہو گا یا پھر میں کلین شیو اور بھرپور دنیا داری کے باوجود جنت میں جاؤں گا؟ یہ فیصلہ بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کرے گا‘ میری عقیدت‘ میری نسبت اور رسول اللہ ﷺ کے اصحابؓ کے ساتھ میری محبت، ہو سکتا ہے میری بخشش میں کوئی حصہ ڈال دے لیکن اس کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائیں گے‘ دنیا کا کوئی شخص یہ ذمے داری نہیں اٹھا سکتا۔

انسان کی عبادت اس کا پرائیویٹ یا نجی معاملہ ہوتا ہے‘ یہ پوری پیشانی زمین پر ٹیکتا ہے‘ اس کے پنجے زمین کے ساتھ چپکتے یا پھر ہوا میں معلق رہتے ہیں‘ یہ تین سیکنڈ کا سجدہ کرتا ہے یا پھر ڈیڑھ منٹ کا‘ نماز میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان کتنا فاصلہ ہوتا ہے‘ یہ مسواک استعمال کرتا ہے یا منجن سے دانت صاف کرتا ہے‘ یہ پتلون پہن کر نماز پڑھتا ہے یا پھر شلوار یا تہبند باندھ کر‘ یہ نماز کے دوران کس سورت کی تلاوت کرتا ہے‘ یہ سحری اور افطار میں کیا کھاتا ہے‘ یہ زکوٰۃ کس کو دیتا ہے اور زندگی کے کس حصے میں حج کے لیے روانہ ہوتا ہے‘ یہ تمام معاملے اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہیں اور کوئی شخص اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتا‘ دنیا کے کسی بھی خطے میں اور کسی بھی دور میں عبادت قانون نہیں رہی‘ یہ تعزیرات کی شکل اختیار نہیں کر سکی‘ ریاست یا حکومت کا کام شہری کو عبادت کی سہولت فراہم کرنا ہے‘ اسلامی ریاست کا کام مساجد بنانا‘ رمضان کا اعلان کرنا‘ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے سہولت فراہم کرنا اور حج کے سفر کو آسان بنانا ہے‘ لوگوں کو عبادت پر مجبور کرنا نہیں‘ یہ انسان کا اپنا فیصلہ‘اپنا اختیار ہے‘ ہاں البتہ جو شخص ان عبادات کا منکر ہو جائے یا جو انھیں اسلام سے خارج کرنے کی کوشش کرے اسلامی ریاست پر اس کا احتساب فرض ہو جاتا ہے مگر عبادت کرنا یا نہ کرنا یا کس طریقے سے کرنا یہ انفرادی فعل ہے اور حکومت اور ریاست کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

عبادت فرض ہے‘ یہ اہلیت نہیں ہے‘ ہم کسی شخص کو صرف تقویٰ کی بنیاد پر نیو کلیئر سائنس دان نہیں مان سکتے‘ ہم کسی شخص کو صرف عبادات کی بنیاد پر وزیر خزانہ بھی نہیں بنا سکتے اور ہم صرف نوافل اور روزوں کی کثرت کی بنیاد پر کسی کو چیف جسٹس بھی قرار نہیں دے سکتے‘عہدوں کے لیے اہلیت درکار ہوتی ہے‘ عبادت اہلیت میں اضافے کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن یہ اہلیت نہیں بن سکتی‘ عبادات شریعت کا دوسرا اسٹیپ ہے۔

شریعت کا تیسرا اسٹیپ اسلامی سزائیں ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قاتل کی سزا موت‘ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کی سزا سنگساری طے فرمائی‘ اسلام میں ان تینوں سزاؤں کی کنڈیشنز بھی موجود ہیں‘مثلاً اگر مقتول کے لواحقین اللہ کے نام پر یا خون بہا لے کر معافی پر تیار ہو جائیں تو قاتل کو قتل نہیں کیا جاتا‘ چوری کے پیچھے اگر انتہائی مجبوری ہو اور قاضی اس مجبوری کو مجبوری مان لے تو یہ سزا بھی معاف ہو سکتی ہے‘ معطل ہو سکتی ہے یا پھر تبدیل ہو سکتی ہے‘ آپ نے تاریخ میں پڑھا ہو گا‘ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں حجاز اور شام میں قحط پڑا تو آپؓ نے چوری کی سزا معطل کر دی تھی‘کیوں؟ کیونکہ حضرت عمر فاروقؓ انسانی مجبوریوں سے آگاہ تھے‘ وہ جانتے تھے لوگ قحط میں رشتہ حیات قائم رکھنے کے لیے خوراک کی چوری پر مجبور ہوسکتے ہیں اور مجبوروں کے ہاتھ کاٹنا انصاف نہیں ہو گا‘ حضرت عمرؓ کا دور صحابہ کرامؓ کا زمانہ تھا‘ مستقبل کے دو خلیفہ راشد بھی اس وقت دنیا میں موجود تھے اور قرآن اور احادیث کے گواہ بھی لیکن وہ لوگ جو حضرت عمرؓ کی دوسری چادر کو معاف نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے بھی سزا معطل کرنے کا یہ فیصلہ قبول کر لیا۔

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے‘ بعض حالتوں میں چوری کی سزا بھی معطل ہو سکتی ہے اور رہ گئی زنا کی سزا تو اس میں بھی بے شمار کنڈیشنز ہیں اور یہ کنڈیشنز جب تک پوری نہیں ہوتیں‘ کسی ملزم‘ کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی لیکن اس کے باوجود یہ سزائیں ہماری شریعت کا حصہ ہیں اور ہم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک یہ سزائیں ہمارے ایمان کا حصہ نہ بن جائیں‘ یہ اللہ کے احکامات ہیں اور ہم ان سے سرتابی نہیں کر سکتے‘ یہ حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے قبل چند دوسری حقیقتیں بھی آتی ہیں‘ شریعت کا پہلا اسٹیپ اخلاقیات ہے‘ اسلام شروع ہی اخلاقیات سے ہوتا ہے‘ نبی اکرمؐ پر اترنے والی پہلی دونوں وحی اخلاقیات پر مبنی تھیں‘ علم حاصل کریں‘ اللہ کے کرم کو تسلیم کریں‘ اللہ کی بڑائی بیان کریں‘ صفائی اختیار کریں‘ احسان کریں اور صبر کریں‘ یہ اللہ کے ابتدائی پیغامات تھے‘ عبادات ان پیغامات کے بعد آئیں ‘ اللہ کے رسولؐ نے عبادت کی خطا پر کسی کو سزا نہیں دی تھی اور سزائیں تیسرے اسٹیپ میں اس وقت آئیں جب اسلامی ریاست قائم ہو چکی تھی اور مسلمان پہلے دو درجے طے کر چکے تھے اور اخلاقیات اور عبادات مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں اورکسی مسلمان پر وعدہ خلافی‘ ناانصافی‘ جھوٹ‘ ظلم‘ زیادتی‘ ناشائستگی‘ اکھڑ پن‘ سستی‘ لاقانونیت اور حکم عدولی کا الزام نہیں لگ سکتا تھا اور مدینہ میں کوئی شخص بے نماز اور بے روزہ نہیں رہا تھا اور مدینہ میں کوئی ایسا شخص نہیں بچا تھا جو صاحب نصاب بھی ہو اور زکوٰۃ بھی نہ دے اور کوئی ایسا شخص بھی نہیں تھا جو حج کا فریضہ ادا نہ کرنا چاہتا ہو‘ شریعت کے تیسرے درجے سے قبل شریعت کے پہلے دونوں اسٹیپس پورے ہو چکے ہیں لیکن ہم لوگ اسلام کو تیسرے درجے سے شروع کرنا چاہتے ہیں‘ ہم اسلام کو سزاؤں سے اسٹارٹ کرنا چاہتے ہیں۔

آپ اس کا عملی مظاہرہ لورا لائی میں دیکھ لیجیے‘لورا لائی کے علاقے کلی منزکئی میں چند مقامی علماء کے حکم پرشک کی بنیاد پر لوگوں نے ایک خاتون اور ایک مرد دراز خان کو پتھر مار کر ہلاک کر دیا‘ ہم اس سزا کے خلاف نہیں ہیں‘ یہ قرآن کی سزا ہے لیکن ہم طریقہ کار پر اختلاف کر سکتے ہیں‘ لورا لائی کے جن لوگوں نے یہ سزا سنائی‘ کیا وہ ایمان کے اس اسٹینڈرڈ پر پورے اترتے ہیں جس کی بنیاد اسلام نے رکھی تھی‘ اگر ہاں تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم نے شریعت کے پہلے دو درجے طے کر لیے ہیں‘ کیا دنیا ہماری صداقت اور امانت کی قسم کھا سکتی ہے‘ کیا ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہو چکے ہیں اور کیا ہم نے عبادت کے اس معیار کو چھو لیا ہے جس میں خدا بندے سے خود پوچھتا ہے بتا تیری رضا کیا ہے؟ اگر نہیں توہمیں کس نے دوسرے شخص کو گنہگار ڈکلیئر کرنے اور اسے پتھروں کے ذریعے ہلاک کرنے کا اختیار دیا؟ اسلام صداقت اور امانت سے شروع ہوا تھا‘ خدا کے لیے اسے صداقت اور امانت سے شروع کریں‘ اس کا آغاز پتھروں سے نہ کریں‘ ایمان چاہتے ہو تو پہلے ایماندار بنو‘ اسلام چاہتے ہو تو پہلے سلامتی کے راستے پر چلو‘ تمہیں اسلام بھی ملے گا‘ ایمان بھی اور اللہ بھی۔

جاوید چوہدری  

Enhanced by Zemanta