Showing posts with label Gullu Butt. Show all posts

گلو بٹ کی قوم......


ہم نے گلو کے نام پر قوم کو اور خود کو الو بنایا ہوا ہے۔ عقل پر پتھر ڈالے ہوئے آنکھیں بند کیے ہم اپنے کھودے ہوئے کنویں کے اندر گھومے جا رہے ہیں اور خوش ہیں کہ زبردست معرکہ مار لیا ہے۔ جو گلو ڈرامے کو نہیں دیکھ رہے ان کو اس بات کی فکر ہے کہ فیفا ورلڈ کپ کون جیتے گا۔ وہ رات بھر گھنٹوں ٹی وی کو دیکھ کر دوسری اقوام کی خوشی اور غم خود پر طاری کرتے ہوئے ہنستے اور روتے ہیں۔ مگر دنیا گلو اور فٹ بال کے گرد نہیں گھوم رہی۔ ہمارے برابر میں بین الاقوامی سیاست کا بد ترین بحران آتش فشاں میں سے پھوٹنے والے لاوے کی طرح پھیل رہا ہے۔

سی این این کی تین لفظوں کی سرخی ہمارے بغل میں تباہی کی اس داستان کو کوزے میں بند کرتی ہے۔ کل سارا دن عراق پر رپورٹنگ کے دوران سی این این نے اپنی اسکرین پر اس ملک کی آخری رسومات کو ـ ’’عراق کا خاتمہ‘‘ کا نام دیا۔ سننے کو تین الفاظ ہیں لیکن اگر غور کریں تو دل کو لرزا دینے والا جملہ ہے۔ جلتے ہوئے ملک سیاسی میدان پر پھیلتے اور پھر اس برے طریقے سے چکنا چور ہوتے ہیں کہ نام بھی باقی نہیں رہتا۔

قدیم ترین انسانی تہذیب عرب ثقافت اور اسلامی تمدن کی سر زمین اب بے نام کیفیت میں ریزہ ریزہ ہو رہی ہے۔ اور یہ پہلا ملک نہیں ہے جو اس عمل میں سے گزرا ہے۔ ہماری نسل نے اپنے سامنے درجنوں ممالک تہس نہس ہوتے دیکھے ہیں۔ مگر عراق کی مثال ہمارے لیے ان تمام ممالک سے زیادہ اہم ہے۔ یہاں پر سیاسی فساد جو امریکا کی شر انگیز پالیسیوں کا منطقی انجام تھا اس حد تک پھیلا کہ اس نے اتفاق رائے کی اصطلاح کو بے معنی کر دیا۔

آج کل اس ملک کے وزیر اعظم نور المالکی اپنے نکمے پن کی وجہ سے ہر کسی کا پسندیدہ ہدف بنے ہوئے ہیں۔ ان کی غلطیوں کی وجہ سے وہ تمام دھڑے جو طاقت کے نظام کا حصہ بننا چاہتے تھے اور جن کے توسط سے عراق کا ملک ایک اکائی کے طور پر اکٹھا رہ سکتا تھا اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ ایک طرف سنی شیعہ کی لڑائی چل رہی ہے دوسری طرف کرد اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم کے اپنے ساتھی ان کو چھوڑ رہے ہیں۔ شمالی اور جنوبی عراق اب علیحدہ ملک ہیں۔ شام جس کی سرحد عراق کے ساتھ ملتی ہے اہم حصوں پر کنٹرول کھو چکا ہے۔

دمشق اور بغداد اب یا تو نام کے دارلحکومت ہیں اور یا کٹی پھٹی ریاستوں کے مالک۔ ہمیں فٹ بال کے شائقین کی طرح دوسرے ممالک کے حالات کو خود پر طاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی بری اور اچھی مثال ہم پر لاگو ہوتی ہے۔ لیکن مشرق وسطی سے اٹھنے والا فرقہ ورانہ فساد اس سونامی کی طرح ہے جو سیکڑوں میل دور تباہی کے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اس وقت سعودی عرب اور حمایتی ملک ایک طرف ہیں۔ ایران پسند ملک اور دھڑے دوسری طرف۔ امریکا اپنی بد ترین پالیسیوں کے نتائج کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال کر معتبر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر جب تک یہ کسی قسم کی کارروائی کرنے پر مائل ہوگا تب تک اندرونی تباہی اتنی ہو چکی ہوگی کہ اس کا ازالہ صدیوں میں بھی ممکن نہیں ہوگا۔

عراق کے قومی اثاثے یعنی تیل کی تنصیبات وغیرہ اب غیر ریاستی گروپوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ شکست و ریخت کا یہ عمل اب بے قابو ہے۔ چونکہ اس علاقے میں پیدا ہونے والے حالات مختلف ذرایع سے ہمارے ہاں اندرونی طور پر فتنہ پروری کا باعث بن جاتے ہیں۔ لہذا ہمیں ان کے بارے میں فکر کرنی چاہیے۔ اور کچھ نہیں تو یہ سوچنا چاہیے کہ ریاستوں کی فعالیت اتنی جلدی سرخ رنگ کے محلول میں کیسے تحلیل ہو جاتی ہے۔
سیاسی عدم اتفاق رائے اور اندرونی جھگڑے ریاستی نظام سے خود کش حملوں کی طرح ٹکراتے ہیں اور ناقابل تلافی تباہی میں بدل جاتے ہیں۔ مگر گلو بٹ سے متاثرہ میڈیا، حماقتوں پر مائل حکومت اور ذاتی مفادات پر مبنی کھیل تماشے کرنے والی حزب اختلاف ان معاملات سے کہیں دور پاکستان کو ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں تبدیل کیے ہوئے ہیں۔ جہاں ہر کوئی اپنے خلاف گول کر کے خوش ہوئے پھرتا ہے۔ بے مہار تماش بینوں کی طرح قوم کا ایک بڑا حصہ کھانے پینے اور اچھل کود میں مصروف ہے۔ کہیں پر جنگ ہو رہی ہے اور کہیں پہ پارٹیاں۔ کوئی میچ دیکھ رہا ہے اور کوئی ایک دوسرے پر کرسیاں اچھال رہا ہے۔

ایسی ادھم پرستی اس سے پہلے ہم نے نہیں دیکھی۔ اس وقت یہ بحث فضول ہے کہ اس ہنگامے کا سبب کون بنا۔ کیونکہ یہاں پر کوئی کبھی اپنی ذمے داری قبول نہیں کرتا، کرتوت اپنے ہوتے ہیں مگر ذمے داری کسی دوسرے کی۔ میاں شہباز شریف کا یہ کہنا کہ صوبے کا وزیر اعلی ہونے کے باوجود ماڈل ٹائون سانحے کے اس معاملے کو ٹی وی اسکرین سے جانا اس رویے کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس طرح حزب اختلاف کا یہ بیان کہ موجودہ حکومت کو احتجاج کے ذریعے مفلوج کر کے وہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں، نادانیوں کی فہرست میں اول درجے کا خیال ہے۔

ایک بین الاقوامی ادارے کی حالیہ تحقیق کے مطابق پچھلے ساٹھ سالوں میں دنیا امن کے حوالے سے ایسے بد ترین حالات سے نہیں گزری جیسا کہ اب ہے۔ اس خوفناک صورت حال کی ایک وجہ ریاستوں کے اندر بڑھتی ہوئی افرا تفری ہے جو آبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے۔ خون ریزی کی راہ ہموار کرتی ہے اور مختلف گروپوں کو ایسی پر تشدد لڑائی میں پھنسا دیتی ہے جس سے وہ کوشش کے باوجود نہیں نکل پاتے۔

دنیا میں اس وقت پانچ قسم کے ممالک پائے جاتے ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو دنیا کو چلا رہی ہے جس کے کہنے پر تیل اور سونے کی قیمتیں بڑھتی اور گھٹتی ہیں اور جو ممالک کے نقشے بدل دیتے ہیں۔ دوسری قسم ان ممالک کی ہے جو دنیا کو چلانے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس طرف ہر روز اپنے قدم بڑھا رہے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو اپنے معروضی حالات سے واقف ہوتے ہوئے خود کو اعلی علاقائی طاقت کہلوانے پر اتفاق کیے ہوئے ہیں۔
چوتھی قسم ان ممالک کی ہے جو خود کو مشکل سے سنبھالے ہوئے ہیں اور ہر وقت اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں وہ پانچویں قسم میں نہ جا گریں۔ جہاں پر ان کے بارے میں ’’عراق کا اختتام جیسی شہ سرخی لگ جائے‘‘ پانچویں نمبر پر بد قسمتی سے وہ ممالک ہیں جن کے بارے میں یہ شہہ سرخیاں لگ رہی ہیں۔ ان کا صرف ماضی باقی ہے ۔نہ حال ہے نہ مستقبل۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم اس وقت کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ گلو بٹ سے نظر ہٹائیں تو جواب خود ہی نظر آ جائے گا۔

طلعت حسین

بہ شکریہ روزنامہ ’’ایکسپریس 

گلو بٹ کی حکمرانی..........



ہر طرف گلو بٹ.........


کراچی میں دن کا اختتام اگر اوسطاً آٹھ لوگوں کی غیر فطری پرتشدد موت پر نہ ہو تو مقامی باشندے گھبرا جاتے ہیں کہ یا خدا خیر آج کا دن پرامن کیسے گزر گیا ضرور کل کچھ نہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
شاید کراچی کی خونی فضا میں مسلسل سانس لینے کے سبب لاہور میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر میں خود کو اتنا افسردہ محسوس نہیں کر پا رہا جتنا باقی ملک بالعموم اور سوشل میڈیا بالخصوص ہے۔
 
البتہ مجھ جیسے کراچویوں کے لیے لاہور کے خونی واقعات کے تناظر میں اگر کوئی شے نئی اور حیران کن ہے تو وہ ہے ظہورِ گلو بٹ۔
ویسے تو میرے شہر میں ایک سے ایک گلو پڑا ہے اور میرے صوبے میں گلو گورنمنٹ آف مٹیاری نامی ڈاکو بھی گزرا ہے، پر کمی ہے تو گلو بٹ لاہوری جیسے کی۔
جو کام سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی پانچ پانچ سو فلموں میں ہنہناتے گھوڑوں پر گنڈاسے لہراتے نہ کر سکے وہ تنِ تنہا گلو بٹ نے صرف ایک ڈنڈے سے سینکڑوں پولیس والوں اور بیسیوں کیمروں کے سامنے ٹیک ٹو دیے بغیر کر ڈالا۔
پچھلے دو روز سے پھولدار قمیض اور پتلون میں ملبوس گلو بٹ نے مقامی میڈیا کی ریٹنگ اتنی اوپر پہنچا دی ہے کہ شیخ رشید جیسے ٹی وی فن کاروں کو بھی تشویش ہو چلی ہے۔ کیمرے کی آنکھ ہر زاویے سے گلو کو ہی دکھا رہی ہے۔
پہلے اس شیر جوان نے منہاج القرآن کے دفتر کے باہر کھڑے بیسیوں مسلح پولیس والوں کے ایک افسر سے پرتپاک مصافحہ کیا۔ پھر ایک پولیس ٹولی کے ساتھ گپ شپ فرمائی۔ بعد ازاں جہادی جوش اور جہازی ڈنڈے سے پارک ہوئی کاروں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے۔
اس بے مثال کارنامے کے بعد ہمارے ہیرو نے ایک پولیس افسر سے گلے مل کر شاباشی لی اور زخمی گاڑیوں کی جانب دیکھتے ہوئے ہلکا سا فاتحانہ رقص فرمایا۔
قبلہ گلو بٹ کا شجرہ
"جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔ جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی"
پھر دیگر پولیس والوں کی معیت میں ایک ہکا بکا کولڈ ڈرنک والے کا ڈیپ فریزر کھول کے سوڈے کی ٹھنڈی ٹھار بوتلیں لہراتے ہوئے اجتماعی جشنِ فتح کا خم لنڈھایا اور پھر کیمروں کے سامنے سے فخریہ انداز میں نوکیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے دیتے جنابِ گلو بٹ استہزائیہ چال چلتے آگے بڑھ گئے اور افق پارگم ہوگئے۔
اس دوران میڈیائی تیتروں نے قبلہ گلو بٹ کا شجرہ کھود نکالا۔ جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینیئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔
جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی۔
واقعے کے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد کلفیہ لباس میں ملبوس جنابِ گلو بٹ نے ایک مقامی تھانے میں نہایت اطمینان سے ایسےگرفتاری پیش کی جیسے وزرائے کرام زیرِ مونچھ ترسیلی مسکراہٹ سجائے بیواؤں کو سلائی مشین پیش کرتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت بٹ صاحب اس سمے پولیس سجنوں کی تحویل میں ایک بے جان ایف آئی آر کی چادر اوڑھے گئے دن کی تھکن اتار رہے ہیں اور نشریاتی گرد و غبار بیٹھنے کے منتظر ہیں۔
اس مرحلے پر آپ میرا گریبان پکڑ سکتے ہیں کہ اے سفاک لکھاری تجھے آٹھ لاشیں اور سو سے زائد زخمی کیوں نظر نہیں آرہے، صرف گلو پر ہی کیوں تیرے قلم کی نب اٹک گئی ہے۔
عرض یہ ہے کہ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو مرتے ہی رہتے ہیں اور مرتے ہی رہیں گے، پر آدمی جیئے تو گلو شیر کی طرح جیئے۔ دھڑلے کے ساتھ چاروں خانے چوکس ۔۔۔قانونی و غیر قانونی، اخلاقی و غیر اخلاقی بکواسیات میں الجھے بغیر۔
بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دراصل یہ گلو پرور نظام ہی ایک گلو بٹ نے دوسرے گلو بٹ کی مدد سے تیسرے گلو بٹ کے لیے بنایا تا کہ وہ اسے چوتھے گلو بٹ کے حوالے کر سکے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہر نیا گلو بٹ ہر پرانے گلو بٹ سے بڑا گلو بٹ ثابت ہوا۔
ارے کس کس گلو بٹ کی بات کیجیے گا حضور۔ اس گلو بٹ کی جس نے ڈنڈے مار مار کے اس ملک کی گاڑی کی چھت بٹھا دی یا اس گلو بٹ کی جس نے آئین کی اوریجنل ونڈ سکرین کرچی کرچی کر دی۔
یا وہ گلو بٹ جس نے ڈنڈے پر نظریے کا تیل مل کے اسے سائلنسر پائپ میں دے دیا یا پھر وہ گلو بٹ جس نے وفاقی گاڑی کو اینٹوں پر کھڑا کر کے معاشی انجن، جمالیاتی وائپرز، سماجی ڈیش بورڈ، نفسیاتی بیک مرر اور وسائل کی ہیڈ لائٹس بڑے بڑے خلیجی و غیر خلیجی گلو بٹس کو لوہے کے بھاؤ تلوا دیں اور کیا اس وقت ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں گلو بٹ اپنے سے مختلف انسانوں کے سرگاڑیاں سمجھ کے نہیں توڑ رہے۔
فیض صاحب نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ،
گلو میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
جب آپ ایسے ایسے چیتےگلو بٹوں کے بٹ سہہ رہے ہیں تو پھر لاہور کے ایک معمولی سے گلو بٹ کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ تئیس تاریخ کو ایک اور گلو بٹ معافی چاہتا ہوں، گلوِ اعظم لینڈ کرنے والے ہیں۔لگ پتہ جائے گا۔