Showing posts with label Islamabad. Show all posts

Buldings are surrounded by floodwater in Shuja Abaad, Pakistan

Buldings are surrounded by floodwater in Shuja Abaad, Pakistan,

کہانی دھرنوں کی: سکرپٹ، کیریکٹرز اور ڈائریکٹرز.......


پاکستان میں جاری سیاسی صورتحال کے پیش نظر ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت اور فریقین کے مابین مزاکرات کسی نتائج پر نہیں پہنچ رہے اور پاکستانیوں کو سکون نصیب نہیں ہورہا؟

اس بلاگ میں کچھ سینئر ترین تجزیہ کاروں کی رائے اور معلومات کو اکٹھا کر کے پیش کیا جارہا ہے اور آخر میں ان تمام تجزیات اور حقائق کی بنا پر پاکستان میں چلنے والی فلم کا سکرپٹ حاضر خدمت ہے۔

مورخہ 14 جنوری 2013 کو دی نیوز میں چھپنے والے محترمہ شیریں مزاری کے آرٹیکل کے مطابقڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں اور محترمہ نے اپنے اس تجزیے کی بنیاد یہ دی ہے کہ چونکہ امریکہ 2014 میں افغانستان سے نکل رہا ہے اور ایسے وقت میں پاکستان میں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کےلئے ایک منتخب حکومت کے برعکس ایک لانگ ٹرم دوستانہ نگراں حکومت چاہتا ہے۔ خاص کر تب جبکہ امریکہ کو نہیں معلوم کے انتخابات کے نتیجے میں کس کی حکومت بنے گی اور اس دفعہ نا تو این آر او ہے اور نا کوئی گارنٹی دینے والے۔

چونکہ محترمہ شیریں مزاری کا یہ آرٹیکل پچھلے سال چھپا تھا تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ اسلام آباد میں آجکل ہورہا ہے وہ بہت پہلے سے طے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب مولانا قادری کے ساتھ محترمہ مزاری کے لیڈر عمران خان بھی اس عالمی سازش کا حصّہ بن گئے ہیں اور محترمہ اس سازش کو جانتے ہوئے بھی اپنے قائد کو اس سازش سے آگاہ نہیں کرسکیں۔ خیر اس منطقی نقطے پر مٹی ڈالیں اور آگے پڑھیں۔

مورخہ 5 ستمبر کو دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر نجم سیٹھی (جن کی مشہور زمانہ 'چڑیا' اندر کی خبریں اُڑا کر لانے کے لئے مشہور ہے) کے مضمون کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سازش آشکار ہوگئی ہے۔

سیٹھی صاحب کے مطابق تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی حکومت کے لئے فرشتہ بن کر نازل ہوئے۔ جس کے بعد اس سازش کے نقطوں کو جوڑ کر پوری سازش کو سمجھا جا سکتا ہے۔

سیٹھی صاحب کے مطابق پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل اشفاق کیانی نواز شریف کی طرف سے تجویز کردہ فارن پالیسیز سے ناخوش تھے۔ جن میں انڈیا، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات اور نان اسٹیٹ ایکٹرز (اثاثوں) اور طالبان کیخلاف آپریشن سے متعلق وزیراعظم نواز شریف موقف شامل تھے۔
ہفتہ وار انگریزی رسالے میں چھپنے والے مضمون کے مطابق چونکہ نواز شریف سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے میں گھسیٹ رہے ہیں اور نواز شریف کا یہ اقدام جنرل کیانی سمیت بہت سارے فوجی افسروں کو بھی شاملِ تفتیش کر رہا ہے، جنہوں نے 1999 میں مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ اس لئے بھی دونوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں تھی۔
جنرل کیانی کے سیاست میں عمل دخل کو دیکھتے ہوئے ہی وزیر اعظم کی جانب سے لائن میں تیسرے قدرے کم سیاسی جنرل راحیل شریف کو سپہ سلار منتخب کیا گیا۔

اس کے علاوہ سیٹھی صاحب کے مطابق اکتوبر 2014 میں کیانی دور کے بہت سارے جنرلز ریٹائر ہونے جارہے ہیں۔ جس کے بعد وزیر اعظم قدرے کم سیاسی جنرل کو آئی ایس آئی کی کرسی سونپ دیں گے۔ جس کے باعث فوج کی نیشنل سیکیورٹی میں مداخلت ضبط کر لی جائیگی۔
مشہور زمانہ چڑیا والے لکھتے ہیں کہ نواز شریف کا یہ خوف غلط بھی نہیں ہے کیونکہ ماضی میں دو مرتبہ ایسا ہوچکا ہے جب نواز شریف کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہان کو تبدیل کیا گیا۔
جیسے 1991 میں نواز شریف نے جنرل اسد درانی کو گھر بھیج کر جنرل جاوید ناصر کو چیف تعینات کردیا اور پھر 1999 جب نواز شریف کی جانب سے جنرل ضیا الدین بٹ کو یہ عہدہ سونپ دیا گیا۔ جنہیں بعد میں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لئے جب نواز شریف نے احکامات دیئے تو مشرف کی طرف سے بغاوت کردی گئی۔

اس مضمون میں مزید لکھا گیا ہے کہ جنرل کیانی کا یہ نظریہ تھا کے سنجیدہ فوجی بغاوت کی دھمکی فوجی بغاوت سے زیادہ کار آمد ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ کمزور معیشت، خودمختار عدلیہ، سرگرم میڈیا، سرگرم سول سوسائٹی ادارے اور غیر ریاستی ایکٹرز ہیں۔
کیانی صاحب کے نظریے کے مطابق بہتر یہ ہے کہ سیاسی منظر نامے کے پیچھے سے فوجی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی کرداروں کو برؤے کار لاتے ہوئے چیزوں کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے کہ فوجی بغاوت ناگزیر لگنے لگے۔
اسی نظریے کا استعمال کرتے ہوئے جنرل کیانی نے زرداری صاحب کو بھی فارن پالیسی، دہشت گردی کیخلاف جنگ، اور دیگر ایشوز جیسے انڈیا، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات، کیری لوگر بِل اور میمو گیٹ جیسے سکینڈل پر مجبور کردیا۔ بالکل اسی طرح جنرل کیانی کے نمک خوار نواز شریف کیساتھ بھی کرنا چاہتے ہیں۔

اب کی بار بھی بالکل اسی طرح کیانی نظریے کے تسلسل میں اکتوبر میں کچھ جنرلوں کی ریٹائرمنٹ سے قبل نواز حکومت کا بستر گول کرنے کی دھمکی دی گئی۔

ایک طرف سدا بہار آرمی کارندوں شیخ رشید اور چوہدری برادران کے ذریعے عمران خان اور طاہرالقادری کو استعمال کیا گیا جو کسی بھی قیمت پر وزیر اعظم بنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف مضبوط ترین میڈیا ہاؤس جنگ اور جیو کو کمزور کردیا گیا. عدلیہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی اور سابق چیف الیکشن کمشنر پر عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے خوف زدہ کردی گئی۔
سیٹھی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کا ڈھنڈورا اس لئے پیٹا گیا تاکہ تمام اپوزیشن جماعتیں مشہور ترین شخصیات عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ مل جائیں۔
بد قسمتی سے جیو اور نواز لیگ سازشیوں کے ہاتھوں پھنس گئیں۔ جس کی وجہ سے قوم غصّے میں آگئی۔ جیو نے ملک کی اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسی پر الزام لگادیا اور نواز لیگ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن انجام دیدیا۔
اس مضمون کے مطابق سازشیوں کی تین چیزیں خوش قسمتی سے خلاف توقع ہوگئیں۔

پہلی: 10 لاکھ لوگ لانے کا دعوی پورا نہیں ہوا۔
دوسری: حکومت نے مارچ کے شرکا کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔

تیسری: جب چیزیں حکومت کے ہاتھ سے نکل رہیں تھیں تو جاوید ہاشمی نے بگل بجا دیا اور پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کو وزیر اعظم کے پیچھے کھڑا ہونے کا پیغام دیدیا۔

مضمون کے آخر میں لکھاری لکھتا ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے کچھ فیصلے اور پالیسیاں غلط بنائیں گئیں جنھوں نے وزیر اعظم کو کمزور کردیا۔ عمران خان میچ فکسر کے طور پر آشکار ہوگئے اور سازشی سامنے آگئے۔ سارے معاملے میں صرف جنرل راحیل ایک اچھا رول ادا کرتے نظر آئے۔
نجم سیٹھی کے ہی 15 اگست کو فرائیڈے ٹائمز میں چھپنے والا مضمون بھی کچھ ایسے ہی حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔

مثلاً، پیپلز پارٹی کی حکومت کیانی دور میں آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو کے آگے نیشنل سیکیورٹی کے ایشوز پر ڈھیر ہوگئیٌ تھی۔
جنرل کیانی نواز شریف کو بھی نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر قابو میں کرنا چاہتے تھے اور مشرف کیخلاف ٹرائل کی وجہ سے بھی جنرل کیانی اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بڑھ گئے تھے۔

اس مضمون کے اختتامیہ میں فرائیڈے ٹائمز کے مدیر لکھتے ہیں کہ اسلام آباد کا حال بگاڑنے کے بعد دھرنے والوں کو واپس بلا لیا جائیگا اور نواز شریف شکست مان کر سپریم کورٹ کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کروائیں گے، عمران خان کی آمادگی سے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہوگی، مشرف کو چھوڑ دیا جائیگا، علاقائی فارن پالیسی سے نواز شریف پیچھے ہٹ جائیں گے اور اگر سپریم کورٹ یہ تعین کرتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پارلیمنٹ توڑ دی جائیگی اور دوبارہ انتخابات کرواۓ جائیں گے۔

اوپر پیش کئے گئے تمام تجزیات، ان صحافیوں کی آشکار کردہ معلومات اور مجھ جیسے جونیئر ترین تجزیہ کار کے تجزیات کی روشنی میں جمہوریت کے خلاف کی جانے والی اس سازش کا سکرپٹ کچھ اس طرح بنتا ہے۔
وجہِ سازش

بیرونی
امریکہ افغانستان سے اس سال انخلا کا ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لئے پاکستان میں ایک دوستانہ نگران حکومت چاہتا ہے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کے ساتھ انخلا سے متعلق معاملات طے کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان میں ایک دوستانہ نگران حکومت ہی امریکہ کے لئے سازگار ثابت ہوسکتی ہے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے برطانیہ کے ذریعے طاہرالقادری (جس کا ذکر محترمہ شیریں مزاری کے مضمون میں کیا گیا ہے) اور طاہرالقادری کے ذریعے عمران خان کو استعمال کیا۔

مشرف ٹرائل
فوج اور نواز شریف کے مابین اختلافات کی ایک بڑی وجہ سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف بغاوت کا مقدمہ ہے۔ جس پر فوج نواز حکومت سے نالاں ہے۔

سازشی آلہ کار
عمران خان: 2013 کے انتخابات کے بعد عمران خان ہی دھاندلی کے الزامات لگا رہے تھے اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی سپورٹ بھی انھیں حاصل ہے۔
ڈاکٹر مولانا طاہر القادری: 2013 میں اسلام آباد میں ہی ہونے والے دھرنے میں اپنی سٹریٹ پاور دکھا چکے تھے۔

جاوید ہاشمی کے بقول عمران خان اور طاہر القادری کے مابین ملاقات جون کے پہلے ہفتے میں لندن میں ہوئی۔ جس کے بعد عمران خان کی طرف سے اعلان کیا گیا کے وہ طاہرالقادری کیساتھ کسی الائنس کا حصّہ نہیں بنے گے۔

اعجاز حسین: مورخہ 7 ستمبر کو نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام آپس کی بات میں اس سازش میں شریک ایک اور کردار متعارف کروایا جو نیشنل ڈیفینس کالج میں لیکچر دیتا رہا ہے اور جس نے چوہدریوں اور طاہرالقادری کے مابین رابطہ کروایا۔

سدا بہار فوجی کارندوں کا استعمال
چوہدری برادران اور شیخ رشید کو ان دونوں انقلابی رہنماؤں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور ان دونوں فوجی کارندوں کی دھرنوں میں موجودگی فوج کی سازش کو آشکار کرتی ہے۔

سازش کی ناکامی کی وجوہات
سیٹھی صاحب کے مضمون کیمطابق تین وجوہات کی بنا پر جمہوریت کیخلاف یہ سازش کامیاب نا ہوسکی۔
ایک: عمران خان دس لاکھ لوگ اسلام آباد نا لاسکے۔ جس کی وجہ سے مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔
دو: حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح دھرنوں کے شرکا پر طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے اتنی ہلاکتیں نا ہو سکیں جو عمران خان اور طاہرالقادری چاہتے تھے۔
تین: جاوید ہاشمی نے باغی ہوتے ہوئے عمران خان کے پیچھے مبینہ ہاتھوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔

بد قسمتی
بدقسمتی سے نواز حکومت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سرزد ہوگیا اور جیو نے آئی ایس آئی پر حامد میر پر قاتلانہ حملے کے الزامات لگا دیئے۔ جس کے بعد سازشیوں کے ہاتھ دونوں کیخلاف سازش کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔

پیارے افضل کی اینٹری
نواز حکومت کیخلاف سازش کو ناکام ہوتا دیکھ کر پاکستان کے سب سے صادق اور امین اینکر کے ذریعے الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری محمد افضل کی اینٹری کروائی گئی جنہوں نے طے شدہ سکرپٹ کیمطابق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے علاوہ جیو پر انتخابات میں دھاندلی کروانے کے الزامات لگائے۔
محمد افضل کی مشکوک اینٹری نے سازش میں اس متنازعہ اینکر کا کردار بھی آشکار کردیا اور دیکھنے والوں پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس اینکر کو خفیہ مواد کون فراہم کرتا ہے۔

چوہدری شجاعت کا کیانی پر الزام
جب جاوید ہاشمی نے سازش کو بے نقاب کردیا تو چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے جنرل کیانی پر الزام لگایا گیا کہ جنرل کیانی انتخابات میں دھاندلی میں ملوّث تھے۔
چوہدری صاحب کی طرف یہ الزام شاید سازش کے فیل ہونے پر جزبات کی رو میں بہتے ہوئے لگایا گیا اور شاید چوہدری صاحب کی سوچ کے مطابق اس بیان کے بعد ہی سوئی ہوئی ٹھنڈی فوج جاگ جائے اور موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے مداخلت کا فیصلہ کرلے۔

فوج کا مارشل لا نا لگانے کی وجہ
فوج کیانی نظریئے کی روشنی میں یہ سمجھتی ہے کہ مارشل لا کا خوف مارشل لا سے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ کہ فوج کمزور معیشت، خود مختار عدلیہ، سر گرم میڈیا، سرگرم سول سوسائٹی اور غیر ریاستی ایکٹرز کی وجہ سے مارشل لا نہیں لگا سکتی اور اگر لگاتی ہے تو خود پھنس جائیگی۔

جنرل راحیل شریف کا کردار
جنرل راحیل شریف نے اس سازش کو ناکام کرنے میں سب سے کلیدی رول ادا کیا اور اس کا سہرا وزیر اعظم نواز شریف کو بھی جاتا ہے جنہوں نے لائن میں سے تیسرے جنرل کو سپہ سلار کے طور پر چُنا۔

یہ جنرل راحیل کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ ایسے نازک حالات میں جب ایک طرف فوج آپریشن ضرب عزب میں مصروف ہے اور دوسری طرف سیلاب میں اپنا فریضہ سر انجام دے رہی ہے، جنرل راحیل پاکستان میں جمہوریت کا علم بلند رکھنے کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔

جنرل ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ
کچھ دوسرے جنرلز کے علاوہ اکتوبر میں آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ جنرل ظہیر الاسلام بھی اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں اور نئے آنے والے ممکنہ سربراہ کے لئے جنرل نصیر جنجوعہ کا نام سامنےآرہا ہے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ کا چناؤ تو چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر مدت ملازمت میں توسیع وزیر اعظم کی صوابدید ہوتی ہے اور موجودہ حالات کی روشنی میں نہیں لگتا کہ وزیر اعظم ایسا کوئی اقدام کریں گے۔
آخر میں پیش ہے 2013 کا ایک ویڈیو کلپ جس میں ایک بے باک نڈر صحافی نے موجودہ حالات کے بارے میں اپنے پروگرام میں بتا دیا تھا اور اس کے مطابق بھی پرویز مشرف کو بچانے کے لئے کچھ لوگ 2014 میں اسلام آباد میں دھرنے دیں گے۔

ان تمام تجزیات اور حقائق سے موجودہ سیاسی بحران کے پیچھے کار فرما سازشیوں کا تو پتہ چل جاتا ہے جو ابھی تک اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکے مگر ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ 
وہ اپنی پالیسیوں سے ان شر پسند سازشیوں کو بے نقاب کرتے رہیں۔

"شوباز شریف "...


Shahbaz Sharif

پاک فوج کے اصل دشمن.....


جو چیلنج اس وقت افواج پاکستان کو درپیش ہے، وہ شاید ہی دنیا کی کسی اور فوج کو درپیش ہو۔ مشرقی سرحد پر سائز میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی فوج کا سامنا۔ مغربی بارڈر پر ایک اور طرح کی بھیانک جنگ کا سامنا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت یعنی امریکہ کے ساتھ دوستی بھی اور دشمنی بھی (Love and hate relations) کا چیلنج ۔ دنیا کے کسی ملک کی فوج اس وقت اپنے ملک کے اندر مختلف محاذوں پر سرگرم عمل نہیں ہوگی، جس طرح کہ پاکستانی افواج ہیں۔ بلوچستان میں ایک اور نوعیت کی مصیبت، فاٹا اور سوات میں ایک اور طرح کی مصروفیت، کراچی میں ایک اور طرح کا الجھاو اور اب اسلام آباد جیسے شہروں میں آرٹیکل 245 کے تحت ایک اور طرح کی آزمائش ۔ فوج سے وابستہ خفیہ ایجنسیوں کے چیلنجوں کا تو کوئی شمارہی نہیں ۔ فرقہ واریت کا چیلنج، لسانیت کا چیلنج، دہشت گردی کا چیلنج، غیرملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کا چیلنج ۔ سی آئی اے یہاں مصروف عمل، را یہاں سرگرم عمل ، ایرانی انٹیلی جنس یہاں فعال، عرب ممالک کی انٹیلی جنس یہاں مستعد جبکہ افغان انٹیلی جنس کی اپنی حرکتیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے لے کر برطانوی اور یورپی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے کارندوں اور سرمائے کا رخ یہاں موڑ دیا ہے۔

ان چیلنجوں کا مقابلہ تبھی کیا جا سکتا ہے کہ قوم کا ہرفرد اپنی افواج اور اس کے اداروں کی پشت پر کھڑا ہو اور قوم کی طرف سے وہ مطلوبہ حمایت اور محبت اس فوج اوراس کے اداروں کے حصے میں تب پوری طرح آتی ہے جب وہ اپنے کام یعنی ملکی دفاع تک محدود رہیں۔ جو لوگ ان کو سیاست یا صحافت میں ملوث کرتے ہیں، وہ دوست کی شکل میں کیوں نہ ہوں دراصل اس فوج کے دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وہ لوگ یا تو اس فوج کے دشمن ہیں جو اسے ملکی سیاست میں ایمپائر بنانا چاہتے ہیں اوردعوتیں دے دے کر اسے سیاست کے گند میں ہاتھ ڈالنے کا کہتے ہیں ۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہماری فوج اور اس کے ادارے اپنے ان دشمنوں کے بارے میں مکمل خاموش ہیں ۔فوج کے یہ دشمن یا نادان دوست تین حلقوں میں موجود ہیں۔ سیاسی میدان میں تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ق) ، پاکستان عوامی تحریک اور چند بیروزگار سیاستدان اس فہرست میں شامل ہیں ۔ میڈیا میں بعض اخباری مالکان، بعض اینکرز اوربعض کالم نگار یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جبکہ تیسرا طبقہ ریٹائرڈ فوجی افسران کا ہے۔ عمران خان دنیا کے سامنے قسمیں اٹھاتے تھے کہ وہ اگست میں میاں نوازشریف کو رخصت کریں گے لیکن ہر کسی کو علم تھا کہ ان کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں ۔ یہ بھی ہر کسی کو علم تھا کہ عوامی طاقت سے وہ حکومت گرا نہیں سکتے کیونکہ بعض اوقات وہ تین ہزار لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر نواز شریف کی رخصتی کی خوشخبریاں سناتے رہے ۔ وہ ہر وقت ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کی دہائیاں دیتے رہے ۔

اب کسی ایسے ویسے فرد نے نہیں بلکہ ان کی جماعت کے مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے گواہی دی کہ کور کمیٹی کی میٹنگز میں عمران خان یہ بتاتے رہے کہ وہ فوج کے کہنے پر میدان میں اترے ہیں اور آخر میں فوج مداخلت کرکے سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو رخصت کرے گی ۔ اب اگر فوج یا اس کے کسی ادارے میں موجود کسی فرد نے تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا تو وہ فوج کے خلاف غداری کا مرتکب ہوا ہے اور اگر عمران خان ، شاہ محمود قریشی یا پھر جہانگیر ترین جھوٹ بولتے رہے تو پھر وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ یہی معاملہ گجرات کے چوہدھریوں اور شیخ رشید احمد کا بھی ہے ۔چوہدری صاحبان ہی قادری کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ’’ان‘‘ سے بات ہو گئی ہے اور وہ جو فائیو اسٹار کینٹینر میں بیٹھ کر ہزاروں بچوں اور خواتین کو مرواررہے ہیں تو اس امید پر مروارہے ہیں کہ فوج آ کر نواز شریف کو رخصت کرے گی ۔ان لوگوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے، اسے متنازع بنانے اور بدنام کرنے کی حد کر دی ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے ثالث یا گارنٹر بننے پر آمادگی ظاہر نہیں کی تھی لیکن ملاقات سے واپسی پر عمران خان اور علامہ طاہرالقادری نے پوری قوم کے سامنے یہ غلط بیانی کی کہ آرمی چیف نے ثالث اور گارنٹر بننے کا کہا ہے ۔

اب وزیر اعظم کی غلط بیانی سے متعلق تو آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز آ گیا لیکن ان دونوں کی اس غلط بیانی کی تردید آئی ایس پی آر کی طرف سے آج تک نہیں ہوئی ۔ اسی طرح فورسز کے بعض ریٹائرڈ افسران ٹی وی چینلز پر آ کر ایک طرف فوج کی وکالت کرتے ہیں اور دوسری طرف حکومت کے خلاف تلخ زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کو فوج کا مزاج شناس باور کراتے ہیں بلکہ خلوتوں میں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ وہ فوج کی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ائرفورس کے ایک سابق افسر (ائرمارشل شہزاد چوہدری نہیں) کوئی ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے حالانکہ علامہ طاہرالقادری کے ساتھ ان کے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔

گزشتہ روز وہ حامد میر صاحب کے پروگرام کیپیٹل ٹاک سے رخصت ہو رہے تھے ۔ اس پروگرام میں طاہرالقادری کے ترجمان بھی آئے تھے ۔ جیو کے دفتر سے رخصت ہوتے وقت اندھیرے کی وجہ سے ان کا خیال نہیں رہا لیکن ہمارے اسٹاف کے دو بندے ان کی گفتگو سن رہے تھے ۔ وہ کیپیٹل ٹاک میں ان کے ساتھ آئے ہوئے عوامی تحریک کے ترجمان کو نصیحت کررہے تھے کہ وہ پولیس سے نمٹ کر چڑھ دوڑیں اور یقین دلا رہے تھے کہ فوج انہیں کچھ نہیں کہے گی ۔ اسی طرح یہ طبقہ اب اہل صحافت میں بھی سامنے آ گیا ہے جو فخر سے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ وہ سب کچھ عسکری اداروں کے اشارے پر کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ دن رات نہ صرف فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں بلکہ فوج کو دیگر اداروں کے ساتھ صف آرا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے آرمی چیف کی طرف سے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے مشورے کی جھوٹی خبر دی، یہی تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کے بارے میں پیشنگوئی کی کہ اس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف قراردادیں پیش کی جائیں گی لیکن یہ سب جھوٹ نکلا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اپنی ساکھ کے بارے میں انتہائی حساس فوج اور اس کے ادارے ان لوگوں کے بارے میں خاموش ہیں ۔

حامد میر صاحب کے معاملے میں جیو کی طرف سے زیادتی ہوئی تھی جس پر جیو اور جنگ کی طرف سے معافی بھی مانگی گئی، جرمانہ بھی ادا کیا گیا، اربوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ‘ اس کے کارکنوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں اور آج تک وہ ان خطرات سے دوچار ہیں لیکن دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو دن رات بدنام کرنے والے اور سویلین اداروں کو ان سے لڑانے کی سازش کرنے والے ان لوگوں کے بارے میں حکومت ‘ فوج اور اس کے ادارے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بسا اوقات وہ چہیتے بھی نظرآتے ہیں ۔ اسی طرح تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین کو کوئی غدار کہہ رہا ہے اور نہ ان کی زبان بندی کی کوئی سبیل نکالی جارہی ہے۔افواج پاکستان کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف نہ صرف شریف ہیں بلکہ ایک پروفیشل سپاہی اور جرنیل بھی ہیں ۔ پوری قوم جانتی ہے کہ نوازشریف حکومت نے اپنی نااہلی اور عسکری اداروں کے ساتھ سیاست بازی کے ذریعے فوجی مداخلت کے کئی مواقع پیدا کئے لیکن جنرل راحیل شریف نے فوج کو اس کے آئینی دائرے تک محدود رکھا۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے لئے عمران خان صاحب کی بھرپور کوششوں اور قادری صاحب کی التجائوں کے باوجود انہوں نے جس صبر کا مظاہرہ کیا ‘ اس کی وجہ سے قوم کی نظروں میں ان کی اور فوج کی قد بہت بلند ہوئی ہے لیکن بعض چیزیں اب بھی غلط فہمیاں پیدا کررہی ہیں ۔

ایک سوال ذہنوں میں یہ اٹھ رہاہے کہ آئی ایس پی آر کے ہر پریس ریلیز میں حکومت کو تو نصیحت موجود ہوتی تھی لیکن فوج کو بدنام اور قوم کو ذہنی عذاب میں مبتلا کرنے والے عمران خان اور قادری صاحب کو کسی پریس ریلیز میں کوئی نصیحت نہیں کی گئی ۔ دوسرا سوال ذہنوں میں یہ اٹھ رہا ہے کہ ایک غلطی کی بنیاد پر جیو اور جنگ کو دیوار سے لگانے والے ادارے فوج اور آئی ایس آئی کو سیاست میں دھکیل کر انہیں بدنام کرنے والے چینلز ‘ اینکرز اور نام نہاد عسکری ماہرین کو کھلی چھوٹ کیوں دی گئی ہے ؟۔ جاوید ہاشمی کے الزامات معمولی الزامات نہیں ہیں ۔ وہ جس جماعت پر فوج کے ساتھ حکومت کے خلاف میچ فکسنگ کا الزام لگارہے ہیں، خود اس جماعت کے مرکزی صدر ہیں ۔ فوجی قیادت کا فرض ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کریں ۔

اگر ہاشمی صاحب جھوٹ بول رہے ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہئے ۔ اگر عمران خان، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین وغیرہ نے اپنی کورکمیٹی سے جھوٹ بولا ہے تو ان کے خلاف فوج کو بدنام کرنے کا مقدمہ قائم ہونا چاہئیے اور اگر کسی عسکری ادارے کے کسی فرد یا افراد نے تحریک انصاف کے قائدین کو جھوٹی امیدیں دلائی تھیں تو ان سے بازپرس ہونا چاہئے ۔ اس جنگی فضا میں وہ قوم یکسو ہوکر اپنے قومی اداروں کے ساتھ کیسے کھڑی ہو گی کہ ان اداروں کی نظروں میں ’’جیو‘‘ کے لئے الگ اور کسی اور چینل کے لئے الگ قانون ہو اور جس میں بعض سیاستدانوں کو تو کسی ایک فقرے پر غدار قرار دیا جا رہا ہو لیکن کچھ سیاستدانوں کو فوج سے متعلق سب کچھ کہنے کی اجازت ہو۔

سلیم صافی

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


 

People stand on the rooftop of their flooded houses on the outskirts of Islamabad, Pakistan

People stand on the rooftop of their flooded houses caused by heavy rains on the outskirts of Islamabad, Pakistan.

Tahir ul-Qadri addressing supporters in front of Parliament House during the Revolution March in Islamabad

Tahir ul-Qadri, Sufi cleric and opposition leader of political party Pakistan Awami Tehreek (PAT), raises a cricket bat while addressing supporters in front of Parliament House during the Revolution March in Islamabad. Weeks of mounting anti-government protests in Pakistan had been enough to convince five of the powerful army's 11 Corps Commanders that it was time for them to step in and force embattled Prime Minister Nawaz Sharif to resign.

اصل جنگ......


ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد میں جاری سیاسی ڈرامہ انتہائی مہارت کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ اس کا ڈراپ سین ابھی ہونا باقی ہے، اختتام کس طرح ہوگا، یہ بھی واضح نہیں ہے۔ ریڈ زون پر قبضہ، اور پرائم منسٹر ہاؤس کے سامنے ہنگامہ آخری اقدام ثابت ہونے تھے، لیکن روزانہ نئے ٹوئسٹ آرہے ہیں جس کی وجہ سے معاملہ طویل اور گہرا ہوتا جا رہا ہے، جبکہ پوری قوم شارع دستور پر ہونے والے تشدد کے مناظر دیکھ رہی ہے۔

روزانہ نئے کردار سامنے آرہے ہیں، جس سے سسپنس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے پارلیمنٹ، پھر فوج، اب سپریم کورٹ بھی ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ لیکن کیا وہ اس جمود کو توڑ کر اسے کسی منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں؟ جیسے جیسے حالات مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ فوج کی جانب سے ثالثی کی کوششیں تب رک گئیں جب وزیر اعظم نے ثالثی کی درخواست سے لا علمی کا اظہار کیا، لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے کی گئی ثالثی کی پیشکش اب بھی فریقین کی رضامندی کی منتظر ہے۔

اب اس معاملے میں بہت شبہات ہیں، کہ آیا فوج ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کرے گی، یا وہ بھی اس بحران میں ایک فریق ہے۔ اس پورے تنازعے میں ہمیں کمرے میں موجود اس خفیہ طاقت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سول اور ملٹری قیادت کے درمیان موجود تنازعہ اس حالیہ بحران کی بڑی وجوہات میں سے ہے۔ سیاسی ٹینشن اور ٖبے یقینی تب تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ فوج اور نواز شریف کے درمیان تعلقات میں بہتری نا آجائے۔

عمران خان، طاہر القادری، اور فوج کے درمیان کوئی گٹھ جوڑ ہے یا نہیں، اس کا ثابت ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن جاوید ہاشمی، جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر ترین رہنما ہیں، کی جانب سے کیے گئے انکشافات کے بعد اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ان دونوں لیڈروں کی فوج کے کچھ عناصر کے ساتھ ہم آہنگی ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے، کہ فوج اور وزیر اعظم کے درمیان بڑھتی ہوئی ٹینشن کی رپورٹس کی وجہ سے ہی اسلام آباد کی جانب مارچ، اور وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہو؟ خاص طور پر طاہر القادری فوج کے لیے اپنی محبت کا والہانہ انداز میں اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے کیمپ میں لٹکتے ہوئے بینر جن میں فوج کی حمایت میں الفاظ درج ہیں، بھی کئی شبہات کو جنم دے رہے ہیں۔

جب ان دوںوں لیڈروں کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے بلایا گیا اور ثالثی کی پیشکش کی گئی، تو دونوں کی خوشی دیدنی تھی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں فوج کے بیچ میں آنے کی کتنی امید تھی۔ یہ بات بہت واضح ہے، کہ مظاہرین کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس پر دھاوا، اور شارع دستور پر جاری ہنگامہ اسی لیے کیا گیا تھا، تاکہ فوج کو مداخلت کے لیے جواز فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ فوجی سپاہیوں کے حق میں مظاہرین کی نعرے بازی بھی اچانک اور غیر متوقع نہیں تھی۔

فوج اور نواز شریف کے ماضی میں تعلقات کو دیکھا جائے، تو صاف معلوم ہوتا ہے، کہ دونوں کے روابط کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ جنرلوں نے نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کو ہچکچاہٹ سے قبول کیا۔ اور صرف کچھ ہی وقت میں ان کے ناہموار تعلقات دوبارہ خراب ہوگئے۔ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا نواز شریف کے فیصلے نے چنگاری کا کام دیا، جب کہ ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی مزید کم تب ہوئی، جب وزیر اعظم مبینہ طور پر مشرف پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد انہیں محفوظ راستہ دینے کے معاہدے سے پھر گئے۔

اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل ہیں، جنہوں نے سول ملٹری قیادت کے درمیان تنازعے کو مزید ہوا دی۔ طالبان کے خلاف آپریشن پر نواز شریف کا مبہم رویہ، اور کابینہ کے کچھ وزراء کی جانب سے فوج کے خلاف بیانات نے بھی ٹینشن کو بڑھایا۔ لیکن جیو کے تنازعے نے باقاعدہ جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جیو کی جانب سے آئی ایس آئی پر الزام لگانے کے بعد حکومت کی جانب سے جیو کے خلاف کاروائی میں تاخیر پر فوج نے یہ سمجھا کہ حکومت جیو کی حمایت کرتی ہے۔ کچھ وزراء کی جانب سے جیو کی حمایت میں دیے جانے والے بیانات نے آگ کو مزید بھڑکانے میں مدد دی۔

جیسے جیسے عداوت بڑھتی گئی، تو وزیر اعظم نے مبینہ طور پر آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کو سویلین حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات کے تحت ہٹانا چاہا۔ یہی وہ فیصلہ کن مقام تھا، جہاں نواز شریف کو پیچھے ہٹنا پڑا، پر تب تک نقصان ہو چکا تھا۔

اس میں حیرت کی بات نہیں، کہ کئی سینیئر وزراء نے اس سازش کی بو تب ہی سونگھ لی تھی، جب عمران خان اور طاہر القادری نے ہاتھ ملائے، اور اسلام آباد کا رخ کیا۔ حد سے زیادہ پرعزم قادری کے فدائیوں نے تحریک انصاف کو وہ افرادی قوت فراہم کی، جس میں تحریک انصاف کو اپنی تمام تر سپورٹ کے باوجود کمی کا سامنا ہے۔ یہ واضح تھا، کہ تحریک انصاف صرف اپنے بل پر مہم اتنے لمبے عرصے تک جاری نہیں رکھ سکتی تھی۔

بلاشبہ اس پریشان کن صورتحال کے مزید پریشان کن ہونے میں حکومت کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ حکومت کی عدم استعداد ہی ہے، جس کی وجہ سے طاہر القادری اور عمران خان دار الحکومت کو اتنے دنوں سے یرغمال بنائے رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نواز شریف کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کے فیصلے نے حکومت کو تو زیادہ فائدہ نہیں پہنچایا ہے، البتہ فوج کو مزید بااختیار کر دیا ہے۔

نواز شریف کی ساکھ اور تب زیادہ خراب ہوئی، جب انہوں نے قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ انہوں نے فوج کو ثالثی کے لیے نہیں کہا، لیکن اسی وقت آئی ایس پی آر کی جانب سے اختلافی بیان آگیا، جس نے نواز شریف کو شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

یہ حقیقت ہے، کہ جیسے جیسے حکومت کی معاملات پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے، ویسے ویسے فوج مزید با اختیار ہو رہی ہے۔ جنرلوں کی جانب سے سیاستدانوں کو معاملہ پر امن اور سیاسی طور پر حل کرنے کی نصیحت نے بھی یہ ظاہر کر دیا ہے، کہ سیاسی طاقت جی ایچ کیو کے پاس ہے۔ فوج کی جانب سے یہ دو ہفتوں میں دوسری ایسی وارننگ ہے۔ اور اب جب پارلیمنٹ نظام بچانے کے لیے دوڑ پڑی ہے، تو کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اگلی وارننگ بھی ہوگی یا نہیں۔ پر جنگ اب ختم ہو چکی ہے۔

اختتام بھلے ہے ٹھنڈا ہو، یا دھماکے دار، لیکن اس حالیہ سیاسی بحران کے پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت پر سنگین اثرات ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں اب انتہائی کمزور ہیں، اور ملٹری طاقت کے سرچشمے کے طور پر سامنے آئی ہے۔

زاہد حسین

Heroes Of Pakistan Police?



Heroes Of Pakistan Police?

Do you believe the Pakistan political crisis is scripted?


The plan to oust the PML-N led government and topple Prime Minister Nawaz Sharif from power is reaching critical mass. The last 48 hours saw the Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) and Pakistan Awami Tehreek (PAT) anti-government protests morph Islamabad's Red Zone from a concert ground to a bloody battlefield, with at least three people killed and hundreds injured. The deadly confrontation shows little signs of letting up, as both Imran Khan and Tahirul Qadri have encouraged their supporters to battle on, while negotiations with the government appear to be going nowhere - despite the Pakistan Army playing the role of 'mediator'.

'It won't be called a martial law'

Javed Hashmi said he was ashamed and said he was sure Imran was too. "Now I'm going to say something and maybe Imran will refute that as well but it would be good if he didn't.""Imran had told the core committee it won't be called a martial law...we will file a petition in the Supreme Court and get a judge of our choosing...and he will say okay...we didn't talk about Bangladesh...that CJ will validate the actions that will be taken eventually...today I have heard that CJ has called all judges...Justice Jilani will retire and the current CJ will become chief justice...and they will get rid [of the government]".

Javed Hashmi


Muhammad Javed Hashmi  b. January 1, 1948), is a senior conservative figure, political scientist and geostrategist who presides over the Pakistan Movement for Justice (PTI) which is led by sportsman-turned politician Imran Khan. He was elected to the post of Central President on March 2013 by the electoral college of the party.

Originally a leading and senior member of Pakistan Muslim League, Hashmi served twice in federal cabinet first as the Federal Ministry of Health and as the Federal Ministry of Youth Affairs in both first and second government of former Prime minister Nawaz Sharif. After being dismissed in 1999 in a coup d'état staged by General Pervez Musharraf against Nawaz Sharif, Hashmi was appointed central president of the Pakistan Muslim League and led the League in the controversial 2002 general elections, which saw the landslide defeat of the League. In 2003, Hashmi was arrested and faced a trial on charges of treason in the Central Jail Rawalpindi after making controversial statements against Pakistan Armed Forces, and was released on 4 August 2007.[1]

In the 2008 elections, Hashmi won a record three seats out of the four contested; he only lost out to Shah Mehmood Qureshi in his home city of Multan. Hashmi won National Assembly seats from Multan, Lahore and Rawalpindi beating PML-Q leader Shaikh Rasheed Ahmad in the latter one.[2] On 20 July 2010 Hashmi suffered from Brain hemorrhage and was admitted to hospital. After recovering, he served as the Chairman of the Standing Parliamentary Committee on Foreign Affairs and but resigned after falling out with Nawaz Sharif on various political issues. He would later ascended to join the Pakistan Movement for Justice led by Imran Khan as the party president. In 2013 elections Hashmi won from both two constituency's he contested from in Islamabad and in Multan from the platform of PTI.[3]

Early career

An agriculturist by profession, Hashmi attended Punjab University where he was part of the student wing of Jamaat-e-Islami and was once accused of murder of a fellow student but was ruled not guilty by court. He took his B.Sc. in Political Science in 1969, followed byM.Sc. in 1971, and M.Phil. in 1973, in the same academic discipline from the same institution. The then Prime Minister Z.A Bhutto offered him to be High Commissioner of Pakistan in United Kingdom(UK)and in return give up agitation against the ruling PPP but he did not budge from his stance.[4] He turned to politics in 1985 and joined hands with Nawaz Sharif — who later became Prime minister.[4] From 1985 till 1988, he was elected to the National Assembly for the terms of 1985 till 1988.[4] From 1990 till 1993, Hashmi was the Minister of State for Youth Affairs, and elected as Parliamentarian for the terms of 1993–1997.[4] From 1997–1999, he served as Federal Minister for Health in Nawaz Sharif's cabinet during his second term. He was alleged for being involved in Mehran Bank Scandal along with other political heavyweights like Nawaz Sharif, Shahbaz Sharif and few more main stream politicians of that time. Allegations on Makhdoom Javed Hashmi were laid by Yousaf Advocate who had an old business conflict with Hashmi family, he alleged Hashmi's involvement in the scandal but Younas Habib who was the main character and distributed all the funds never alleged Makhdoom Javed Hashmi. Makhdoom Javed Hashmi very strongly rejected the allegations and demanded a judicial probe of the scandal involving all the top political leadership of that time. During Musharraf era,PML(Q) was in dire need of MNAs to form a coalition government, so their delegation led by Ch. shujaat went on to see him and offered him to be part of PML(Q)but Hashmi Refused to support Pervez Musharraf. For this act he had to suffer the wrath of the then president Gen. Musharraf and he remained behind the bars for 5 years. During prison days he wrote two books about his political struggle which are named as "HAAN MEIN BAGHI HUN"(yes,I am a rebel)& "TAKHTAEY E DAAR K SAAEY TALAY". .He served in united nations for some times as well.[4] These days he is serving as President Pakistan Tehreek e Insaf. Hashmi is one of the politicians in Pakistan who have never lost in an elections.

Arrest

ON 29 October 2003, he was arrested from Parliament Building on charges of inciting mutiny made by General Pervez Musharraf.[5] Earlier, in a press conference on 20 October 2003, he had read a letter that he received in mail, signed anonymously by some active military officers at Pakistan Army's Combatant Headquarter, known as The Generals Headquarter (GHQ), calling for an investigation into the corruption in the armed forces and criticizing the President and Chief of Army Staff General Pervez Musharraf, and his relationship with the American President George W. Bush.[5] His trial was held in the central Adiala Jail instead of a district and sessions court at the Lahore High Court, which raised doubts among human rights groups about its fairness.[5] On 12 April 2004, he was sentenced to 23 years in prison for inciting mutiny in the army, forgery, and defamation.[5]

The verdict has widely been considered as a willful miscarriage of justice by the General Pervez Musharraf's Government. All opposition parties in Pakistan, including Pakistan Peoples Party of the former Prime Minister Benazir Bhutto and six party-alliance Muttahida Majlis-e-Amal (MMA), regarded the verdict to be politically motivated by the ruling junta with malicious intent, declaring him to be a political prisoner.[5] In imprisonment he also wrote two books titled as "Haan, Main Baaghi Hoon!" (Yes, I am a 'Rebel!') and "takhta daar ke saaye tale" (Under the shadow of Hanging board). His book, "Yes, I am a 'Rebel'!", Hashmi clearly stated that he was jailed because he demanded a commission to be formed to investigate the Kargil issue, the restoration of democracy and opposed the Army’s role in politics, and Pakistan's geostrategy policy in central Asia and Europe.[5]

On 3 August 2007, a three-member bench of the Supreme Court of Pakistan under Chief Justice Iftikhar Chaudhry granted him bail after serving approximately three and a half years in prison.[5] Javed Hashmi was released from the Central Jail Kotlakhpat in Lahore on 4 August 2007.[5]

He was again placed under arrest at the declaration of a state of emergency on 3 November 2007[6]
2008 elections

It is believed that Hashmi was personally asked by party chairman Nawaz Sharif to contest from Rawalpindi for the National Assembly seat, where Sheikh Rasheed Ahmed of the PML[Q] was undefeated since 1988. Makhdoom Javed Hashmi as a result won three National Assembly seats, one from Rawalpindi, one from Punjab Capital Lahore and one from his hometown Multan. Hashmi beat PML-Q's political stalwart Sheikh Rasheed Ahmed in Rawalpindi. They finished second behind the PPP and made a coalition with its one time fierce rivals.

After 2008 elections

Despite winning 3 seats, Hashmi refused to take oath from President Musharraf and thus did not get a place in the federal cabinet. Hashmi was one of the few people who decided not to take oath as it was against his principle. Hashmi is the senior vice president of the party and is always seen in important meeting between the PML(N) and PPP. Hashmi is considered a political heavyweight and is well respected throughout Pakistan. He is seen many times representing the views of his party the PML-N on various talk shows. It was widely reported that in the by-elections, Hashmi supported an independent candidate who was running against Makhdoom Mureed Hussain Qureshi, brother of Hashmi's old rival Makhdoom Shah Mehmood Qureshi. After Mureed Qureshi lost, many people including Mureed Hussain widely condemned the behaviour of Hashmi and said that they will report the incident to the chief of the Peoples Party, Asif Zardari. Hashmi is a strong supporter of the judges who have been sacked and it is said that Hashmi is one of the few people in the PML-N who are trying to convince the senior leadership of the PML-N to stop supporting the PPP as they believe the PPP is not serious and sincere when they say that they will restore the judges.

Kerry-Lugar Bill

Javed Hashmi released a very strong reaction on Inter Services Public Relations press release on Kerry-Luger bill.[citation needed] Terming Kerry-Lugar bill an interference on part of US in Pakistani security agencies' affairs, he said that if there is anything that needs to be corrected, Pakistan will do it herself. Besides he also commented on Pakistan Army's response to the bill saying "Pak Army should stay within its limits,... We will protect our Army if it ensures playing the role assigned to it."[7]
Resignation from Parliament (2011)

On 7 May 2011 Hashmi submitted his resignation from Parliament, claiming that is a dummy and not passing real legislation, his resignation has yet to be accepted by Chaudhary Nisar Ali Khan the leader of Pakistan Parliamentary affairs.[8]
Hospitalization

In July 20, 2010, Hashmi was hospitalized at Nishtar Hospital after he suffered Brain Hemorrhage, and his body also suffered stroke due to internal bleeding.[9] He was later admitted at the Lahore General Hospital Dr. Tariq Salahuddin, principal of the Lahore General Hospital.[10] Dr. Tariq Salahuddin briefed the media and Hashmi’s CT Angiography reports came out normal.[10]

Pakistan Tehreek-e-Insaf

Javed Hashmi joined Pakistan Tehreek-e-Insaf on December 24, 2011 saying that he has made no deal with Imran Khan and has become a member because Imran Khan has an agenda of a change, but analysts say that various reasons caused this act, like Nawaz Sharif refused to make Hashmi the leader of opposition, refused to let Hashmi run for President as Nawaz did not want the PML(Q)'s vote for Hashmi and the PML(N) did not give Hashmi's son-in-law, Zahid Hashmi a ticket for the elections.[11] While addressing a mega political rally at the tomb of Quaid-e-Azam in Karachi on December 25, 2011 He said, "The youth of today have to move forward,Karachi is mini Pakistan. It represents all shades of the peoples of Pakistan." Quoting Quaid-e-Azam he said, "Minorities are our blood." Hashmi straight forwardly addressed to PTI Chairman Imran Khan, "Yes, I'm a rebel (Baghi); you invited a rebel to join PTI, Now if you have not delivered as per your manifesto I will be first person to rebel against your Party” He has a very famous chant to his name in the Pakistan Tehreek-e-Insaf, "baghi hun main", I'm a rebel Hashmi and his daughter Memoona Hashmi resigned from National assembly of Pakistan on December 29, 2011.[12]

Javed Hashmi dared Pakistan Muslim League (Nawaz) leader Nawaz Sharif to field his man against Shaikh Rashid in the next elections despite knowing that he too defeated Sheikh Rasheed on the PML(N)'s ticket and Sheikh Rasheed had been defeated by two other PMLN candidates as well.[13]

حکومت کے پاس کیا بچا ہے؟.....


پاکستانی فوج کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کور کمانڈرز کانفرنس نے اتوار کی شام ایک ہنگامی اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’طاقت کا استعمال مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر عدم تشدد کے ساتھ بحران کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔‘
مبصرین اس بیان کا مطلب یہ لے رہے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ملک میں جاری سیاسی بحران میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اپنا وزن بظاہر حکومت مخالف جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

پاکستانی فوج کے اس بیان کے بعد بھی فریقین ابھی تک اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کی جانب سے یہ بیان جاری ہونے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم کے استعفٰے پر کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
عرفان صدیقی وزیراعظم کے ان چند معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جن سے وزیراعظم مسلسل رابطے اور مشورے میں رہتے ہیں۔ عرفان صدیقی اتوار کے روز وزیر اعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اس اجلاس میں بھی شامل تھے جس میں اس بحران پر غور کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

عرفان صدیقی نے بتایا کہ حکومت نے ابھی تک کسی بھی فورم یا موقع پر وزیراعظم کے مستعفیٰ ہونے کے امکان پر غور نہیں کیا اور نہ ہی اس موضوع پر کسی بھی جماعت سے مذاکرات کا ارادہ ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے نائب سربراہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو اتوار کی شام بتایا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات فی الحال خارج از امکان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے کے علاوہ کوئی اور تجویز ان کی جماعت کو احتجاج سے نہیں روک سکے گی۔
اگر حکومت احتجاجی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر نہ لا سکے اور اس کے پاس مظاہرین کو وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بولنے سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا آپشن بھی موجود نہ ہو تو اس کے پاس کیا امکانات باقی رہ جاتے ہیں؟

یا تو مظاہرین کے ہاتھوں حکومت کی رٹ کا بالکل خاتمہ، یعنی ملک میں حکمرانی کا سنگین بحران اور دوسرا نواز شریف کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے پر بات چیت۔
حکومت اب ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں سے اپنے لیے کامیابی کا کوئی راستہ نکالنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔

آصف فاروقی

 

ساٹھ برس پرانی تازہ کہانی.....


یہ کہانی اس سال کی ہے جب ڈاکٹر طاہر القادری پیدا ہوچکے تھے اور عمران خان کی پیدائش میں ابھی ایک سال باقی تھا۔
ایران میں جواں سال رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت نئی نئی تھی۔ شاہ نے 1951 میں عوامی دباؤ کے تحت عام انتخابات کروائے جن کے نتیجے میں قوم پرست رہنما محمد مصدق وزیرِ اعظم بن گئے۔
 
محمد مصدق نے سب سے پہلے تو دو تہائی پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر وزیرِ دفاع اور بری فوج کے سربراہ کی نامزدگی کے اختیارات شاہ سے واپس لے لیے۔ پھر شاہی خاندان کے سالانہ ذاتی بجٹ میں کمی کر دی، پھرشاہی زمینیں بنامِ سرکار واپس ہوگئیں۔

زرعی اصلاحات کے ذریعے بڑی بڑی جاگیرداریوں کو کم کر کے کسانوں میں ضبط شدہ زمینیں بانٹنے کا سلسلہ شروع ہوا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایرانی تیل پر اینگلو ایرانین کمپنی کا 40 سالہ اختیار ختم کر کے تیل کی صنعت قومیا لی۔
چنانچہ ایسے خطرناک محمد مصدق کو چلتا کرنے کے لیے شاہ، برطانوی انٹیلی جینس ایم آئی سکس اور امریکی سی آئی اے کی تکون وجود میں آئی اور مصدق حکومت کے خاتمے کا مشترکہ ٹھیکہ امریکی سی آئی اے نے اٹھا لیا۔ سی آئی اے نے اس پروجیکٹ کے لیے دس لاکھ ڈالر مختص کیے اور یہ بجٹ تہران میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف کرمٹ روز ویلٹ کے حوالے کر دیا گیا۔

ایرانی ذرائع ابلاغ میں اچانک مصدق کی پالیسیوں پر تنقید میں تیزی آگئی۔ ملک کے مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے شروع ہوگئے۔ از قسمِ راندۂ درگاہ سیاست دانوں کا ایک اتحاد راتوں رات کھڑا ہو گیا جس نے ایک عوامی ریفرینڈم کروایا۔

ریفرینڈم میں حسبِ توقع 99 فیصد لوگوں نے مصدق حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ان نتائج کو کچھ مقامی اخبارات نے یہ کہہ کر خوب اچھالا کہ مصدق حکومت کا اخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے۔ جب وزیرِ اعظم مصدق نے اس اچانک سے ابھرنے والی بے چینی کو مسترد کر دیا تو پھر کام میں اور تیزی لائی گئی۔
تہران کے ایک مقامی دادا شعبان جعفری کو شہری باشندے منظم کرنے اور رشیدی برادران کو تہران سے باہر کے ڈنڈہ بردار قبائلی دارالحکومت پہنچانے اور ان کے قیام و طعام کے لیے وسائل فراہم کیے گئے۔ دارالحکومت میں ہزاروں افراد پر مشتمل احتجاجی جلوس روز نکلنے لگے۔ بازاروں میں مصدق کے حامیوں کی دوکانیں نذرِ آتش ہونے لگیں۔ تصادم شروع ہوگئے۔ 15 روز کے ہنگاموں میں لگ بھگ تین سو لوگ ہلاک ہوئے اور مصدق مخالفین نے سرکاری عمارات کو گھیر لیا۔

ایران میں شورش

رشیدی برادران کو تہران سے باہر کے ڈنڈہ بردار قبائلی دارالحکومت پہنچانے اور ان کے قیام و طعام کے لیے وسائل فراہم کیے گئے۔ دارالحکومت میں ہزاروں افراد پر مشتمل احتجاجی جلوس روز نکلنے لگے۔ بازاروں میں مصدق کے حامیوں کی دوکانیں نذرِ آتش ہونے لگیں۔ تصادم شروع ہوگئے۔

چنانچہ رضا شاہ پہلوی کو مصدق حکومت کی رٹ ختم ہونے پر ریاست بچانے کے لیے مجبوراً مداخلت کرنا پڑی اور 16 اگست 1953 کو جنرل فضل اللہ زاہدی کو عبوری وزیرِ اعظم نامزد کرکے معزول محمد مصدق کو نظر بند کر دیا گیا۔اگلے روز تہران ایسا نارمل تھا گویا یہاں 24 گھنٹے پہلے کسی کی نکسیر تک نہ پھوٹی ہو۔

اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس وقت محمد مصدق کی کہانی بیان کرنے کا مقصد آخر کیا ہے اور اس کا آج کے پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ کیا میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ سیاسی ہنگام سی آئی اے اور ایم آئی سکس کی سازش ہے؟
بخدا قطعاً نہیں۔ دنیائے سازش میں پرانا نیا کچھ نہیں ہوتا۔ فارمولا اگر مجرب و موثر ہو تو 60 برس بعد بھی کام دے جاوے ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی کے منصوبے ایم آئی سکس اور سی آئی اے وغیرہ کی میراث تھوڑی ہیں۔ ایسے منصوبے تو ثوابِ جاریہ کی طرح کہیں کا کوئی بھی ادارہ کسی بھی وقت تھوڑی 
بہت ترمیم کے ساتھ حسبِ ضرورت استعمال کر سکتا ہے۔

اب جو ہو سو ہو مگر میں پاکستان تحریکِ انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کا بطورِ خاص شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مورخ کا کام خاصا آسان کر دیا ہے۔

یہ محتسب، یہ عدالت تو اک بہانہ ہے
جو طے شدہ ہے وہی فیصلہ سنانا ہے

وسعت اللہ خان

Clashes as PTI 'Azadi' March Advances on Islamabad ...

Pakistani opposition supporters carry a wounded protester following clashes with security forces near the prime minister's residence in Islamabad. Police in Pakistan's capital Islamabad fired tear gas on anti-government protesters attempting to storm Prime Minister Nawaz Sharif's official residence in a bid to force his resignation. — AFP PHOTO



Pakistan Political Crisis by Khalid Almaeena


In Pakistan a Mexican standoff is taking place. Opposition politician Imran Khan, who recently called off talks with the elected government of Prime Minister Nawaz Sharif, and populist cleric Tahir ul-Qadri are parked in front of Parliament in Islamabad with both demanding that Sharif quit. A range of accusations have been hurled at Sharif who won a landslide victory in the general elections of May 2013 which were given a clean chit by independent international observers judging them to be free and credible.

Both Khan and Qadri accuse Sharif of rigging the elections and of nepotism and corruption. They have declared that they will not back down until the prime minister steps down. Imran Khan has been the more vocal of the two figures against Sharif. In emotional appeals mixed with cajoling and threats, he has raised the level of opposition by alluding to more extreme measures if any demonstrators are attacked by the police. Khan specifically targeted the police chief of Islamabad warning that if any of his workers were injured, he would chase him to every corner of Pakistan.

While this drama is going on, Nawaz Sharif must be weighing his options and response. After all he is the democratically elected head of the government! It is not an easy state of affairs with rallies being planned across the country, a law and order situation to be dealt with, MQM killers on the loose in Karachi, problems in Baluchistan and a host of external difficulties. Sharif stands alone in the face of a predicament that would tax the nerves of the strongest of men. He has to overcome any fears or indecision and come up with wise solutions and sensible measures to safeguard Pakistan. At present he seems like Marshal Will Kane played by Gary Cooper in the 1952 Western classic High Noon facing his opposition alone in a confrontation that may have a decisive impact on the future of the nation. 


On the other side both Imran Khan and Tahir ul-Qadri are waiting as a third party. Meanwhile, the Pakistani army watches anxiously. Many Pakistanis believe that the army is reluctant to step in. It is already embroiled in fighting terror and guarding the country’s borders. With so much at stake, the economy on a downward trend and with chaos and the fear of uncertainty across the country, the best interests of Pakistan lie in a meaningful dialogue. Imran Khan’s party should behave like a responsible opposition. Nawaz Sharif should look into the genuine grievances of the people, instill reforms, assure transparency and weed out corrupt officials. Tahir ul-Qadri should be packed off to Canada for he has proved to be a publicity-seeking rabble-rouser and demagogue who seems only to be intent on creating chaos and destruction.

Pakistan cannot afford such turmoil especially with the dangerous situations that pose a threat to the country’s borders. The Pakistani people have suffered and endured calamities for decades. What they need is some respite, a reasonable Imran Khan and an accommodating Nawaz Sharif both of whom love their country and can offer much more to serve their nation. Let us hope and pray that they will rise to the occasion putting their country’s interests above all.

 






 

مذاکرا ت کے بعد پھر مذاکرات.......

Imran Khan Azadi March

نواز شریف کا استعفیٰ؟......

Nawaz Sharif Resignation

Imran Khan march into Islamabad's 'Red zone ...









Imran Khan in Red Zone Islamabad

Supporters of fiery anti-government cleric Tahir-ul-Qadri

Supporters of fiery anti-government cleric Tahir-ul-Qadri, his images seen at background, take part in a protest, in Islamabad, Pakistan. Qadri led rallies  in Pakistan’s capital, demanding Prime Minister Nawaz Sharif step down over alleged fraud in last year’s election in front of  of protesters.

Imran Khan's Political Future


Imran Khan's Political Future

Imran Khan Azadi March









Imran Khan Azadi March