Showing posts with label Bashar al Assad. Show all posts

.....دو جعلی صدارتی انتخابات کی ایک ہی کہانی....

مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے میں مصر اور شام میں صدارتی انتخابات کا ناٹک رچایا گیا اور دونوں کے نتائج غیر متوقع نہ تھے کیونکہ ان میں غاصب اور قاتل حکمرانوں کو بالترتیب 96 اور 88.1 فیصد ووٹوں سے ’’منتخب‘‘ کر لیا گیا۔ دونوں ممالک میں خونریز خانہ جنگی برپا ہے اور ریاست پر فوج کا غلبہ ہے۔ مصر اور شام کی ایک ہی کہانی ہے۔ دونوں ممالک کی افواج صہیونی ریاست سے 1948ء، 1966ء، 1973ء کی جنگوں میں شرمناک شکست سے دو چار ہوئیں۔ مصر نے تو صحرائے سینا کو غیر فوجی علاقہ تسلیم کر کے صہیونی ریاست سے دب کر 1979ء میں صلح کر لی جبکہ شام پر چالیس سال سے مسلط آمر باپ بیٹوں نے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ اور اس کا انضمام عملاً تسلیم کر لیا لیکن اپنی بزدلی چھپانے کے لیے ہنوز صہیونی ریاست سے مصر کی طرح صلح نامہ تو نہیں کیا لیکن اس سے خاموش معاہدے کے ذریعے اپنے اقتدار کے استحکام کی ضمانت حاصل کر لی۔ جبھی تو اسرائیل نے ان باغیوں پر حملے کیے جو بشار الاسد کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔

مصر اور شام کی بھگوڑی اور نکمی افواج صہیونی ریاست سے مک مکا کر کے اپنے ہی عوام پر ٹوٹ پڑی۔ جولائی میں منتخب ہونے والے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر مصری فوج کا سابق سربراہ اپنے پیشرو کرنلوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں سیاسی عمل سے خارج کر دیا اور ڈاکٹر محمد مرسی پر سرکاری رقم کے غلط استعمال کا جعلی الزام لگا کر انہیں تین سال قید کی سزا دے دی جبکہ اخوان کے سربراہ مرشد بدیع سمیت اس تنظیم کے 1212 رہنماؤں اور حامیوں کو دو دو پیشیوں میں سزائے موت سنا دی جس پر انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار باراک اوباما نے صرف اتنا ہی کہا کہ مصر کی عدالت کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں جبکہ مصر کے جعلی صدارتی انتخاب میں ’’96فیصد ووٹوں‘‘ سے کامیاب اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے فیلڈ مارشل السیسی کو مبارکباد دی۔

مصر کا صدارتی انتخاب ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ جب رائے دہندگان انتخاب کے دن گھروں میں بیٹھے رہے تو مصر کی فوج اور مخبر ایجنسی حرکت میں آئی اور انتخاب کی مقررہ تاریخ میں توسیع کر دی گئی تا کہ رائے دہندگان وہاں جا کر اپنا ووٹ دیں لیکن جب اس کے باوجود بھی رائے دہندگان گھروں سے نہیں نکلے تو جعلی فیلڈمارشل کی مخبر ایجنسی کے گماشتے گھر گھر جا کر ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر لاتے اور ان کے ووٹ گزرواتے رہے۔ انتخاب سے قبل مصر کی جنتا نے آئین اور حکومت پر نکتہ چینی ممنوع قرار دے دی تھی۔ السیسی کے خلاف سابق فوجی آمر ناصر کا سویلین (Civilian) چیلا حمدین صباحی بھی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اتارا گیا تھا مگر ا س کی جماعت تانگہ پارٹی بن کر رہ گئی۔ اسے انتخابی جلسہ منعقد کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ اول تو اس کی نفری بہت کم تھی ، دوم یہ کہ وہ جہاں جلسہ کرنا چاہتا تھا وہاں پہلے سے مصری فوج سادہ لباسوں میں ملبوس شہر کے جرائم پیشہ عناصر کو لے کر جلسہ گاہ پر قبضہ کر لیتی تھی۔

حیرت تو صباحی اور برادعی پر ہے، انہیں منتخب دستور ساز اسمبلی کا وضع کردہ اور رائے شماری میں منظور شدہ آئین تو اس لیے نامنظور تھا کہ اس میں اسلامی شقیں تھیں لیکن فوجی آمر کا آئین قابل قبول تھا جس میں حکومت پر نکتہ چینی ممنوع قرار دے دی گئی تھی اور فوج کو اپنی عدالت میں ان شہریوں پر مقدمہ چلانے کا اختیار دیا گیا تھا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ مصری فوج سے وابستہ ہوں۔ جیسا میں نے عرض کیا مصر کی فوج کا جنگ و جدل سے صرف میدان سے فرار ہونے یا ہتھیار ڈالنے تک کا تعلق رہا ہے جبکہ یہ ملک کے کاروبار پر قابض ہے۔ مصری فوجی شہریوں کو پینے کا پانی بند بوتلوں اور کھلے ٹینکروں کے ذریعے فراہم کرتے تھے اور صارفین سے اس کی گراں قیمت وصول کرتے تھے جبکہ شہریوں کو بلدیاتی اداروں کی جانب سے پانی مفت میں مہیا کیا جاتا تھا۔ اسی طرح فوجی بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے بھی مالک ہیں۔ یہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں غرضیکہ یہ اندرون ملک منافع بخش کاروبار میں مصروف رہتے ہیں اور چور بازاری، سمگلنگ، منشیات و اسلحہ فروشی ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ کیا اسے فوجی کہا جا سکتا ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ السیسی فیلڈ مارشل بن بیٹھا۔ کیا مصر میں یہ اعزاز شکست خوردہ، بد عنوان، غیر عسکری سرگرمیوں میں ملوث بھگوڑی فوج کو دیا جاتا ہے؟

البتہ ہمیں اس کی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ 14 اگست 2013ء کو السیسی نے دھرنا دئے پر امن عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا اور دیکھتے دیکھتے 1400 افراد کی لاشیں بچھا دی۔ شاید السیسی کو اسی ’’کارنامے‘‘ کی بنا پر فیلڈ مارشل کا اعزاز ملا تھا۔ اسے خلیج کے رجواڑوں اور تلواڑوں نے بحالئ جمہوریت کی خلعت بھی عطا کی اور اوباما نے بھی بخشش دی۔ اس طرح وہ استعمار اور شاہ پرستوں کا ایجنٹ نکلا۔
لیکن اسی اوباما اور اس کے قوالوں کے ٹولے (یعنی نیٹو قزاق ٹولے) نے 4 جون کو شام میں رچائے گئے صدارتی انتخابی ناٹک کو مضحکہ خیز اور ڈھونگ قرا ردیا۔ اور صحیح کیا لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ دونوں (مصر اور شام) کے صدارتی انتخابات میں کیا فرق تھا کہ مغربی استعمار ایک کو جائز اور دوسرے کو ناجائز قرار دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ بشار الاسد کا صدر منتخب ہونا ویسا ہی ہے جیسے السیسی کا منتخب ہونا۔ دونوں قانون اور انسانیت کے مجرم ہیں جنہیں قصر صدر کی بجائے مجرم کی حیثیت سے بین الاقوامی تعزیراتی عدالت (177) کے کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے۔

شام کے صدارتی انتخاب میں ملک کی چالیس فیصد آبادی ووٹ نہیں دے سکی جبکہ بشار الاسد کی فضائیہ اور اس کے توپخانے شہریوں پر بمباری اور گولے باری کر رہے ہیں۔ اس تین سالہ خانہ جنگی میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ پچیس لاکھ ترک وطن کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ایسے میں انتخاب رچانا قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
لیکن امریکہ اور یورپی یونین کی جسارت ملاحظہ کیجیے کہ مصر کے صدارتی انتخاب کو سند عطا کرتے ہیں اور شام کے صدارتی انتخاب کو ڈھونگ قرار دیتے ہیں۔ السیسی کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ بشار الاسد کے بارے میں برملا کہتے ہیں کہ وہ حق حکمرانی سے محروم ہو چکا ہے۔
یہی مغرب کا جمہوری نظام ہے جس کے بارے میں شاعر مشرق حکیم الامت 
علامہ اقبالؒ پہلے ہی کہہ چکے ہیں:

ہے وہی سازِ کہن یورپ کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے پوش
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

بشار الاسد اپنے آخری خطرناک ہتھیار حوالے نہیں کریں گے........


آیندہ چند ہفتے اور مہینے شام کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلفی کے ضمن میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ان خطرناک ہتھیاروں میں سے ایک چوتھائی ابھی تک بشارالاسد کے پاس ہیں اور ان کی حکومت دنیا کو ڈرانے دھمکانے کے لیے انھیں اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی ہے۔

شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے منگل کو اطلاع دی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے کام کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی مبصرین کو اغوا اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ واقعہ شاید اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ شامی حکومت مبصرمشن میں سے جو باقی لوگ رہ گئے ہیں،ان کے کام میں رکاوٹیں حائل کرنے کی تیاری کررہی ہے۔

شامی صدر بشارالاسد کے گوداموں میں مہلک کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی بھاری مقدار موجود ہے۔ان میں عالمی جنگ کی باقیات میں سے مسٹرڈ گیس ہے۔حال ہی میں تیار شدہ سیرن اور بوٹولینم ٹاکسن ایسی خطرناک گیسیں ہیں۔پورے پورے شہر کو زہرآلود کرنے کے لیے ان کے چند ایک قطرے ہی کافی ہیں۔شامی رجیم کے پاس انتھراکس جیسے حیاتیاتی ہتھیار ہیں۔اس نے ایسا بیکٹریا تیار کررکھا ہے جس سے طاعون سے ہیضے تک وبائی امراض پھیلائے جاسکتے ہیں۔ان کے علاوہ ایبولا نامی وائرس بھی ہے۔

گذشتہ سال اس وقت تک کسی نے بھی شامی رجیم سے درپیش اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا،جب تک اس نے دمشق کے نواحی علاقے الغوطہ میں سیرن گیس کا استعمال نہیں کیا تھا۔اس حملے کے نتیجے میں پندرہ سو کے لگ بھگ افراد کی حالت غیر ہوگئی تھی اور ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔

مشکل اور خطرناک مشن

گذشتہ سال اکتوبر سے بین الاقوامی مبصرین شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی بیرون ملک منتقلی کے ایک مشکل اور خطرناک مشن پر عمل پیرا ہیں۔ان مبصرین کا خیال ہے کہ انھوں نے بشارالاسد کے گوداموں سے ان کیمیائی ہتھیاروں کی بھاری مقدار کو منتقل کردیا ہے لیکن ان کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں حالیہ مہینوں سے قبل کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔

تاہم اگر ان ہتھیاروں کی تھوڑی بہت مقدار ملک میں رہ گئی ہے تو اس کو تھوڑا نہیں سمجھںا چاہیے کیونکہ یہ تھوڑی مقدار بھی ہزاروں افراد کے قتل عام کے لیے کافی ہے۔مزید برآں ہم ان ہتھیاروں کے صرف اس ذخیرے کی بات کررہے ہیں جس کے بارے میں بتایا گیا ہے یا جو دریافت ہوا ہے۔

شامی حکومت یقینی طور پر تزویراتی ذخیرہ گاہوں میں دوسرے ہتھیاروں کو چھپا رہی ہے تاکہ انھیں فیصلہ کن کامیابی کے لیے وقتِ ضرورت بروئے کار لایا جاسکے۔وہ ان ہتھیاروں کو استعمال کرسکتی ہے اور پھر القاعدہ یا دولت اسلامی عراق وشام (داعش) یااس طرح کے کسی بھی اور فریق پر ان کا الزام عاید کرسکتی ہے۔

امریکی وزیردفاع چَک ہیگل نے منگل کے روز بزعم خویش یہ کہا ہے کہ امریکا نے اپنا اثرورسوخ اور اہمیت کھوئی نہیں ہے۔لیکن کیسے؟ انھوں نے کہا کہ شامی حکومت نے امریکی دھمکیوں کے خوف سے بڑے محکومانہ انداز میں اپنے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔یہ درست ہے کہ شامی حکومت کو امریکی طاقت کا خطرہ تھا لیکن کیا یہ طاقت استعمال بھی کی جائے گی،وہ ایسا خیال نہیں کرتی ہے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے معاہدے پر گذشتہ سال ستمبر میں دستخط کیے تھے لیکن وہ تب سے اس پر عمل درآمد میں پس وپیش سے کام لے رہی ہے اور تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔غالباً ہیگل یہ بات نہیں جانتے ہیں کہ شامی رجیم نے غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے جرم سے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے فائدہ اٹھایا ہے۔وہ اس طرح کہ وہ اپنے اتحادیوں سے افرادی قوت اور ہتھیاروں کے حصول کے لیے وقت گزاری میں کامیاب رہا ہے۔

اسد رجیم نے کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کے لیے معاہدے پر دستخط کے باوجود کلورین اور مسٹرڈ گیس کے استعمال کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ان کی کم مقدار استعمال کی جارہی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس معاہدے کی مدد سے دوسرے تباہ کن طریقوں کو استعمال میں لانے میں کامیاب رہا ہے۔انہی کی بندولت اس نے غوطہ اور حمص وغیرہ میں اپنی شکستوں کو فتوحات میں تبدیل کر لیا ہے۔

کیا چک ہیگل یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اسد رجیم نے کیمیائی ہتھیاروں سے فائدہ اٹھایا ہے،وہ اپنی حکمرانی کو طول دینے میں کامیاب رہا ہے اور اس کو کسی بین الاقوامی جوابی کارروائی سے بھی تحفظ مل گیا ہے۔اب ہم سب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اسد رجیم بڑے پیمانے پر جنگ کے بغیر اپنے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کو حوالے نہیں کرے گا۔