Showing posts with label Geo News. Show all posts

Geo News Live Geo TV Live Online

 
Geo News Live Geo TV Live Online


Geo News Live by GeoNews

Geo news embed code

<iframe frameborder="0" width="480" height="270" src="//www.dailymotion.com/embed/video/x1qu3sj" allowfullscreen></iframe><br /><a href="http://www.dailymotion.com/video/x1qu3sj_geo-news-live_news" target="_blank">Geo News Live</a> <i>by <a href="http://www.dailymotion.com/GeoNews" target="_blank">GeoNews</a></i>


Political Attacks on the Pakistan Judiciary by Ansar Abbasi


Political Attacks on the Judiciary by Ansar Abbasi

Operation, dialogue or third option by Ansar Abbasi


Operation, dialogue or third option by Ansar Abbasi

Geo News Shutdown by Pemra

Geo News Shutdown by Pemra
Enhanced by Zemanta

نیزے پہ بھی سر اپنا سرفراز رہے گا.......


یہ کیسی بہادری ہے؟ ان لوگوں کی بہادری بندوق کی نالی کے پیچھے ایک آنکھ بند کر کے ٹریگر دبانے کا انتظار کرتی ہے۔ بندوق کی گولیوں میں موجود بارود کے بل بوتے پر یہ بہادر لوگ کسی بھی نہتے انسان کو غدار قرار دے ڈالتے ہیں، کافر قرار دے ڈالتے ہیں لیکن جب ان کے ہاتھ میں بندوق نہ ہو تو پھر یہ بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ بھگوڑے بن جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سچائی بندوق سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور سچ بولنے والوں کو اپنی بات منوانے کیلئے بندوق کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی بندوقوں والے سچے لوگوں کو خاموش کروا سکتے ہیں ظفر آہیر بھی وطن عزیز کے ان نہتے اور مظلوم صحافیوں میں سے ایک ہے جنہیں بندوق کی نالی کے پیچھے چھپ کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں غدار اور غیر ملکی ایجنٹ کہا گیا لیکن ظفر آہیر صرف پاکستان کے اہل صحافت کا نہیں بلکہ عام لوگوں کا ہیرو بن کر سامنے آیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ظفر آہیر پر حملہ کس نے کیا لیکن حکومت حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔

سب جانتے ہیں کہ جیو ٹی وی، جنگ گروپ اور ان اداروں سے وابستہ صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ کون ہے لیکن عدالتیں کہتی ہیں کہ ثبوت لیکر آئو۔ جب اعلیٰ عدالتیں حکم دیتی ہیں کہ جیو ٹی وی کی بندش غیر قانونی ہے اور جیو ٹی وی کو بحال کیا جائے تو ان احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوتا کیونکہ کیبل آپریٹروں کو بھی بندوق کی نالی کے پیچھے بیٹھی وحشت و درندگی سے خطرہ لاحق ہے ۔ پچھلے کچھ ہفتوں کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اصل طاقت اسی کے پاس ہے جس کے پاس بندوق ہے ۔ آئین و قانون صرف کمزور لوگوں کیلئے ہے۔ حکومت بے بس ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوتا ۔ حکومت آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات سے گریز کر رہی ہے۔

حکومت کا سارا زور لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری برادران کی ملاقات کی مذمت پر ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری سے کوئی لاکھ اختلاف کرے لیکن پاکستان آکر سیاست کرنا ان کا حق ہے ۔ حکومت ڈاکٹر طاہر القادری پر غصہ نکالنا چھوڑے اور ہمیں یہ بتائے کہ روزنامہ جنگ ملتان کے ایڈیٹر ظفر آہیر پر حملہ کرنے والے ریاست سے زیادہ طاقتور کیوں ہیں ؟ لاہور، راولپنڈی اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں جنگ کی گاڑیوں پر حملہ کرنے والوں کا سراغ کیوں نہیں لگایا جاتا ؟ کچھ وفاقی وزراء کہتے ہیں کہ صورتحال بڑی نازک ہے، ان کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیجئے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ’’ان‘‘ کا غصہ پاکستان کے آئین اور قانون سے زیادہ بڑا ہے ؟ اگر ’’ان‘‘ کا غصہ ہی پاکستان کا اصل آئین و قانون اور پاکستان کا اصلی قومی مفاد ہے تو پھر یہ غصہ ہمیں 1971ء میں کیوں نظر نہ آیا ؟ اس وقت تو بڑی سعادت مندی سے دشمن کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے گئے تھے ۔

میں طنز اور طعنوں کے ذریعہ کسی کو نیچا نہیں دکھانا چاہتا لیکن جن لوگوں نے ظفر آہیر کو بندوقوں کے بٹ مارتے ہوئے انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ بتائو1971ء میں کوئی جیو ٹی وی موجود تھا ؟ تاریخ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ 1971ء میں مغربی پاکستان کے اخبارات بشمول روزنامہ جنگ وہی کچھ لکھتے تھے جو ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کی حکومت انہیں بتایا کرتی تھی۔ سوائے ایک دو اخبارات کے چند صحافیوں کے کسی نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت نہ کی۔ پھر بھارت کے سامنے تاریخ کا اتنا بڑا سرنڈر کیوں کیا گیا ؟ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کے بعض افسران اور جوانوں نے بڑی بہادری دکھائی لیکن جب راولپنڈی کے حکم پر سرنڈر کیا جا رہا تھا تو اس وقت خون کے آخری قطر ے اور آخری گولی تک لڑنے کے وعدے کہاں گئے تھے؟کیا ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ یہ پوچھیں کہ آپ کا سارا غصہ اور ساری حب الوطنی صرف اپنوں پر انگارے بنکر کیوں ٹوٹتی ہے ؟ 1971ءمیں تو جیو ٹی وی نہیں تھا پھر پاکستان کس نے توڑ دیا ؟ 1984ءمیں بھی جیو ٹی وی نہیں تھا پھر سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کیسے ہو گیا ؟ 1999ء میں بھی جیوٹی وی نہیں تھا پھر کارگل سے پسپائی کیوں ہوئی ؟ جیو ٹی وی 2002ء میں آیا اور جیو ٹی وی پر ہم جیسے صحافیوں نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی حکومت سے یہ پوچھنا شروع کیا کہ پاکستان کے فوجی اڈے غیر ملکی طاقتوں کو کس سے پوچھ کر دیئے گئے ؟ جیوٹی وی پر ہم جیسے صحافیوں نے یہ پوچھنا شروع کیا کہ پاکستان کے فوجی اڈوں سے اڑنے والے ڈرون طیارے پاکستان میں کس کی اجازت سے حملے کر رہے ہیں ؟

جیو ٹی وی پر بیٹھے صحافیوں اور دوسرے چینلز نے یہ پوچھنا شروع کیا کہ مشرف حکومت اور اسرائیل کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کے کیا مقاصد ہیں ؟ جیو ٹی وی پر بیٹھے اینکرز اورمہمانوں نے یہ سوال اٹھانا شروع کیا کہ مشرف حکومت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرکے بھارت کے ساتھ کیا سودے بازی کر رہی ہے ؟ جب یہ سوالات اٹھائے گئے تو پہلے مجھے غدار کہا گیا پھر جیو کو بھارت اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ جیو کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے والے اپنے پیرومرشد سید پرویز مشرف کی کتاب پڑھ لیں ۔ اس کتاب میں موصوف نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ شکر ہے کہ ابھی تک یہ جرات کسی سیاست دان یا صحافی سے سرزد نہیں ہوئی ورنہ ابھی تک بندوق کی نالی کے پیچھے چھپی حب الوطنی اور دینی غیرت اپنا کام دکھا چکی ہوتی ۔

زیادہ تفصیل میں نہیں جائوں گا ۔ مختصر یہ کہ آج کل آپ کو پاکستان میں جو بحران نظر آ رہا ہے اس بحران نے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمے کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔ بندوقوں والے بھارت و اسرائیل کے منظور نظر پرویز مشرف کو ہر صورت غداری کے مقدمے سے بچانا چاہتے ہیں ۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ سیاست و صحافت میں جو لوگ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ نہ چلانے کا مشورہ دے رہے تھے ان کی اصلیت سامنے آ چکی ہے ۔ ان میں سے اکثر سیاست دان، دانشور اور نام نہاد صحافی آج کل جیو ٹی وی کو غدار قرار دیکر اپنے اصلی آقائوں کو خوش کر رہے ہیں ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا ۔ عوام کے سامنے سب کے چہروں سے نقاب اتر چکا۔ جن لوگوں نے 1971ء میں بنگالیوں کو غدار قرار دیکر انہیں گولیاں ماریں آج ہمارے پیچھے پڑے ہیں ۔ جن لوگوں نے بلوچوں کو غدار قرار دیکر انہیں لاپتہ کیا اور انکی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکیں آج جیو ٹی وی کو لاپتہ کرکے قتل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ بھاڑے کے ٹٹو قلم فروش غداری کا ڈھول پیٹنے والوں کے آگے آگے بڑی بے شرمی کے ساتھ ناچ رہے ہیں ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ قلم فروشوں اور ضمیر فروشوں کی اس چھوٹی سی ٹولی کو پاکستان کے اہل سیاست و صحافت کی بڑی اکثریت نے مسترد کر دیا ہے اور ان سے پوچھ رہی ہے کہ تمہاری قومی غیرت اور حب الوطنی اس وقت کہاں تھی جب ایک شب امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر ایبٹ آباد آئے اور ایک آپریشن میں تمہاری سب پھرتیوں اور چالاکیوں کو کفن میں لپیٹ کر افغانستان لے گئے ؟ اللہ کرے پاکستان کو جلد از جلد مشرف کی باقیات سے نجات ملے اور ہماری فوج ایک دفعہ پھر میجر عزیز بھٹی شہید اور میجر شبیر شریف شہید جیسے بہادروں کے کردار کا نمونہ بن جائے جو ظفر آہیر جیسے نہتے ہم وطنوں کیخلاف نہیں بلکہ طاقتور دشمن کے خلاف جنگ کرتے تھے ۔آخر میں ظفر آہیر پر حملہ کرنے والے مکاروں کے نام فیض احمد فیض کا یہ پیغام عرض ہے ۔

تاحشر زمانہ تمہیں مکار کہے گا

تم عہد شکن ہو، تمہیں غدار کہے گا

جو صاحب دل ہے، ہمیں ابرار کہے گا

جو بندہ حر ہے ،ہمیں احرار کہے گا

نام اونچا زمانے میں ہر انداز رہے گا

نیزے پہ بھی سر اپنا سرفراز رہے گا


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

Geo News and Jang Group Open Letter To The Government And PEMRA

 Geo News and Jang Group Open Letter To The Government And PEMRA

Enhanced by Zemanta

Charge Sheet Against Geo News and Jang Group


 Charge Sheet Against Geo News and Jang Group

Enhanced by Zemanta

میڈیا کی بے توقیری......



Degrading media by Saleem Safi
Enhanced by Zemanta

Geo News and Media Ethics

Pakistani Media Industry



 Pakistani Media Industry

PEMRA suspends licenses of Geo TV Network

PEMRA suspends licenses of Geo TV Network
Enhanced by Zemanta

یہ اجتماعی خودکشی کب تک


پاکستان میں ٹی وی چینل شروع ہوئے 12 سال ہونے والے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب مارچ 2002ء میں جنرل مشرف اور ISI کی وجہ سے میں نے دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر کی پوسٹ سے استعفیٰ دیا تھا تو پاکستان میں یہ کوئی خبر نہیں تھی کیونکہ سوائے سرکاری چینل PTV کے اور کوئی TV نہیں تھا مگر کیونکہ ایک فوجی آمر کے خلاف ایک صحافی نے یہ کہہ کر نوکری چھوڑ دی تھی کہ دبائو قبول نہیں عالمی میڈیا میں یہ ایک بڑی خبر تھی۔ نوکری چھوڑ کر میں گھر واپس ورجینیا آگیا تو کئی بڑے TV چینل مجھے انٹرویو کرنے آئے اور سب سے بڑے چینل CNN نے پورے 30 منٹ کا ایک پروگرام کیا جس میں مجھے لیا گیا اور میرے ادارے جنگ گروپ سے شاہ رخ حسن صاحب کو لیا گیا کئی دوسرے صحافتی ادارے جیسے CPJ یعنی نیویارک کی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، کچھ پروفیسروں اور کئی لوگوں سے بھی بات کی گئی۔

جنرل مشرف کی جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک اخباری کانفرنس کا وہ کلپ بھی دکھایا گیا جس میں ایک جاپانی صحافی نے ان سے میرے استعفے کے بارے میں پوچھا تو وہ لاجواب نظر آئے۔ مگر یہ سب ایک تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں ہوا کسی نے کسی کو گالی نہیں دی اور ہر ایک نے اپنا مؤقف دیا اور انتظارکیا کہ جب دوسرے لوگ بول لیں تو جواب دیا جائے۔ استعفیٰ بھی ہو گیا اور احتجاج بھی اور معاملات آگے بڑھ گئے۔ جب سے پاکستان میں درجنوں کے حساب سے چینل آئے ہیں آزادی بہت بڑھ گئی ہے مگر ذمہ داری کا فقدان ہے۔ کچھ چینل (میں کسی کا نام نہیں لوں گا، پڑھنے والے خود اندازہ لگالیں) صحافتی بیک گرائونڈ سے آئے اور کچھ دیکھا دیکھی پیسے کے زور پر۔ کچھ کاروباری لوگوں کو محسوس ہوا کہ ان کا کاروبار ترقی کرے گا یا ان کی چوری کو کوئی پکڑنے کی ہمت نہیں کرے گا اگر وہ بھی میڈیا کے مالک بن گئے۔ کچھ پیسے والے لوگ جب میڈیا سے پریشان ہونا شروع ہوئے تو بدلے لینے خود میدان میں کود پڑے۔

یعنی پاکستان میں سوائے دوچار گروپس کے باقی سب لوگ چمک دمک اور بڑھتی ہوئی میڈیا کی طاقت دیکھ کر مالک، اخبار نویس اور میڈیا اینکرز بن بیٹھے۔ کچھ نے خوب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جہاں سے پلاٹ،زمین، نوکری اور کوئی فائدہ مل سکا ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگائی۔ کچھ فوجیوں کی آمریت میں وزیر اور مشیر بنے کوئی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر شامل باجا ہوگیا کوئی سفیر بن گیا اورکوئی امیر، غرض میڈیا کے راستے جس کی جتنی بن پڑی اس کو بے دریغ استعمال کیا۔ کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں کہ کچھ دن کیلئے صحافت کی سیڑھی استعمال کرکے لوگ مزے اڑاتے رہے اور جب وہ دن بیت گئے تو واپس صحافت میں آکر سب کی ماں،بہن شروع کردی یا پھر سیڑھی کے نیچے سےیہ اوپر جانے کی کوشش۔ اس بھاگ دوڑ میں جائز اور ناجائز مال کمانا ایک اہم ترین عنصر رہا۔ اخبار اور TV کے مالکان جائز آمدنی کے ساتھ ساتھ خاص مراعات بھی لیتے رہے یہاں تک کہ ہر ایک کو یہ یقین ہوگیا کہ اگر گاڑی یا موٹر سائیکل پر اگر PRESS لکھا ہوا ہو تو بڑی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں تو اس دور میں چھاپہ خانے والوں نے یعنی پرنٹنگ پریس والے بھی اپنی گاڑیوں پر پریس کی تختی لگاکر گھومنا شروع ہوگئے۔

سب پریس سے ڈرنے لگے پولیس والے دوسروں سے بھتے لیتے تھے مگر پریس والوں کو ماہانہ بھتہ دیتے تھے۔ ہر دروازہ خود بہ خود کھل جاتا اور لوگوں کو ایسے مزے آئے کہ ایک ڈمی اخبار نکالنے والے نے چار ڈمی نکال دیئے ایک وقت میں پشاور جیسے چھوٹے شہر میں 65 روزنامے چھاپے جاتے تھے۔ شاید اب بھی ہوں کیونکہ حکومت سب سے بڑی اشتہاری پارٹی ہوتی تھی تو سارے مالک اور ایڈیٹر اور اکثر جو خود مالک بھی ایڈیٹر بھی ہوتے تھے وہ حکومت کے انفارمیشن کے محکموں اور وزارتوں کے دفاتر میں موجود رہتے تھے۔ ایک بڑی صنعت بن گئی تھی اور حکومتی افسروں کے بھی مزے آگئے تھے کہ اشتہار دیا سو روپے کا اور پچاس یا اس سے بھی زیادہ میز کے نیچے سے واپس کیش لے لیا۔ TV چینل جب آئے تو اکثر وہی لوگ جو اخباروں میں دائو لگانے مارے مارے پھرتے تھے ہر گھر کی TV اسکرین پر نظر آنے لگے اور پھر ایک ایسی ریس شروع ہوئی کہ اللہ کی پناہ۔ اس ساری داستان امیر حمزہ میں جو حصہ صحافت کا شکار ہوگیا وہ پروفیشنل ایڈیٹر اور وہ صحافی تھے جو اپنے کام میں تو ماہر تھے مگر اوپر کی کمائی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر سب سے بڑا نقصان ان مالکوں نے پہنچایا جو خود ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر بن گئے تاکہ جتنی حکومتی مراعات، سرکاری دورے، اعلیٰ حکام اور فوجی اور سول حکمرانوں کی قربت اور سارے مزے وہ خود لوٹ سکیں۔ کچھ سالوں میں اخباروں میں سوائے اکا دکا کو چھوڑ کر سارے مالکان ہی فیصلہ ساز بن بیٹھے۔ TV والوں کا تو اور برا حال ہوا۔

نیا نیا ایک چٹخارے والا میڈیم، فوری شہرت اور اسٹار بن جانے کے مواقع سب ہضم نہیں ہوسکے۔ جو لوگ صحافت سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی یا دشمنی میں اس میدان میں آگئے وہ تو ظاہر ہے مخصوص ایجنڈے لے کر آئے تھے۔ جب مقابلہ سخت ہونے لگا اور کیک کا حصہ بٹنے لگا تو پرانے کھلاڑی بھی نئے دائو پیچ اپنانے لگے۔ تین گروپ بڑی تیاری سے میدان میں کودے کہ انگریزی کے TV چینل چلائیں گے مگر سب بھاگ لئے۔ جو بکتا تھا وہی پکنے لگا۔ خواتین کی بھرمار اور پھر شادی بیاہ کی رسومات دن رات کا خیال کئے بغیر ایسے نشر ہونے لگیں جیسے یہی ہمارا دینی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ مزید آگے چلے تو جرم کی داستانیں عام ہونا شروع ہوئیں اور کچھ چینل پولیس اور دوسرے اداروں کے فرائض انجام دینے لگے۔ یہ سارے شتر بے مہار ہوتے گئے اور کسی نے نہ روکا روکنے والے یاتو بکے ہوئے تھے یا دبے ہوئے یا ضرورت مند، سیاسی یا مالی طور پر۔ پھر اس لڑائی میں وہ مقام آگیا کہ ہم سب ایک دوسرے پر پل پڑے اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ پورا میڈیا اجتماعی خودکشی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ ہر ایک اپنی فکر میں ہے اور کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ اس خودکش جنگ کا انجام کیا ہوگا۔ آج تک ایک ضابطہ اخلاق یا Working guidelines تک موجود نہیں۔

آج ہم اس طرح ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہیں جیسے ’’میں نہیں یا تو نہیں‘‘ حکومت عدالتیں اور ادارے تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ کس کو روکیں کس کا ساتھ دیں اور کہاں تک۔ اس دوڑ میں میڈیا کے بڑوں سے بڑی بڑی غلطیاں بھی سرزد ہوگئیں۔ اخبارات ہمیشہ ہاکروں کے ہاتھ بلیک میل ہوتے تھے مگر جب TV چینل آئے تو وہی غلطی دہرائی گئی اور ہاکروں کی جگہ کیبل آپریٹرز نے لے لی اور آج بڑے سے بڑا چینل بھی ان کے سامنے بے بس ہے۔ مگر یہ سب کہاں جاکر رکے گا۔ فوری طور پر ایک کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ صحافت کے ان لوگوں کو جو پروفیشنل ہیں اختیار دیا جائے اور مالکان ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ صحافتی معاملات کو بزنس سے الگ کرکے چلایا جائے۔ میرے کئی دوست ہیں اور ہم ہمیشہ اخبارات میں صحت مند مقابلہ کرتے رہے ہیںمگر دوستیاں اور ناطے کبھی نہیں ٹوٹے۔ مالکان فیل ہوگئے ہیں اور اس کا نقصان سب کو ہوگا۔ جو گھس بیٹھئےاس پیشے میں آگھسے ہیں ان کی نشاندہی کرنا اور نکالنا ضروری ہے۔ یہ نہ ہوا تو جو چند لوگ اپنی عزت بچاکر چھپے بیٹھے ہیں وہ بھی صحافت چھوڑ دیں گے اور پھر خدا ہی حافظ پھر اجتماعی قبر کا آرڈر دینا پڑ جائیگا۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

70 Percent Geo News transmission closed


70 Percent Geo News transmission closed
Enhanced by Zemanta

The Future of Electronic Media in Pakistan

The Future of Electronic Media in Pakistan by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta