Showing posts with label Lieutenant General Raheel Sharif. Show all posts

سویلین حکومتیں اور فوج......



۔ فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے بغیر اس ملک کا نظام کو ئی سویلین حکومت بہتر انداز سے نہیں چلا سکتی۔ لہذا نواز شریف کی حکومت کو فوج کے ساتھ کسی بھی وجہ سے طاقت کے کھیل میں پڑنے کے بجائے راولپنڈی کی طرف سے نکتہ نظر کی صورت میں اظہار شدہ خیالات کو اہم پالیسی معاملات پر سنجیدگی سے لینے کا انتظام کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اہم سلامتی اور دفاعی اداروں کے افکار کو تمام حکومتیں اپنی حتمی فیصلہ سازی کا اہم جز قرار دیتی ہیں یا سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے معروضی اور زمینی حقائق کے پیش نظر فوج کی دفاعی اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم رائے بنتی ہے۔

اس رائے کو نظر انداز کرنا بے وقوفی بھی ہے اور بہت سے سیاسی تنازعات کی جڑ بھی۔ آج کے حالات کے تناظر میں ہم چند ایک اور اقدامات بھی تجویز کر سکتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کے سامنے اس وقت سب سے اہم مسئلہ اس نظام کی غیر فعالیت ہے جس کے ذریعے آئینی اور قانونی پیرائے میں رہتے ہوئے فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے۔ چونکہ نواز شریف کی ترجیحات میں ’ذاتی قسم‘ کی میٹنگز ’رسمی اور سرکاری‘ قسم کی ملاقاتوں پر ہمیشہ حاوی رہی ہیں لہذا وہ ابھی بھی اداروں کے ذریعے نظام ریاست اور حکومت کی ذمے داریوں کو سنبھالنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ فوج کے ساتھ باقاعدہ رابطے کو انھوں نے ابھی بھی آرمی چیف یا کچھ عرصہ پہلے تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے ساتھ بند کمروں میں ہونی والی ملاقاتوں تک محدود کیے رکھا ہے۔

ان ملاقاتوں میں کتنی بات ہوتی ہو گی؟ کیسے فیصلے ہوتے ہوں گے؟ کتنا بحث مباحثہ ہوتا ہو گا؟ اس کا نہ تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ملے گا۔ مگر ہم محتاط اندازے کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں ایسی نشستوں میں ’سننے‘ اور ’سنانے‘ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہو۔ اور پھر کچھ عرصے سے فوجی سربراہ اور وزیر اعظم (بشمول پچھلی حکومت کے سربراہان کے) ہمیشہ ایک بحرانی صورت میں ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ عام حالات میں وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز دو ایسے جزیروں کے طور پر نظر آتے ہیں جو اپنے پسند کے پانیوں میں تیرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہوں یا اس کیفیت سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہوں۔ نتیجتاً فوج اور سویلین حکومتیں فائر بریگیڈ کے وہ انجن بن گئی ہیں جو صرف خطر ے کی گھنٹی پر ہی آگ بجھا نے کے لیے ایک سمت کا رخ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ اپنے اپنے خانوں میں کھڑے وقت گزارتے ہیں۔ اس سے نہ تو باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی طویل المدت فیصلے کرنے کے لیے سازگار ماحول بن پاتا ہے۔ اجنبیت قائم رہتی ہے۔ خوف اور خدشات زائل نہیں ہوتے۔ رائی کا پہاڑ بننے میں وقت نہیں لگتا۔ امریکا جیسے ملک میں بھی جہاں صدر انتہائی با اختیار ہے دفاعی، عسکری اور سی آئی اے کے سربراہان دن میں کم از کم ایک مرتبہ بسا اوقات ایک سے کئی زائد مرتبہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہر روز صبح تمام اداروں کے ذرایع ابلاغ، تشہیر کے ادارے ایک ٹیلی فون کانفرنس کے ذریعے دن میں صحافیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے ممکنہ سوالات پر مربوط جوابات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

یہ تک طے کر لیا جاتا ہے کہ کس قسم کے سوال کو کس ادارے نے بہتر یا ردعمل کے لیے دوسروں کے حوالے کر دینا ہے۔ بحران میں یا کسی اہم واقعہ کے ہونے پر صدر اور تمام اداروں کے سربراہان یا سرکردہ نمایندے ایک خاص کمرے میں اکٹھا ہو کر مختلف پہلووں پر رائے کا اظہار کرتے اور اپنی طرف سے اپنے ادارے کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس کمرے میں فیصلہ صرف صدر کرتا ہے مگر بسا اوقات اس کا فیصلہ محض ان مشوروں کی ایک نئی شکل ہوتی ہے جو موثر انداز میں اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ سی آئی اے اور پینٹاگون یا دفاع کے محکمے یا دفتر خارجہ کی طر ف سے پیش کی ہوئی تجاویز میں رتی برابر رد و بدل کیے بغیر جوں کا توں بیان کر دیتا ہے۔
مگر کبھی بھی ایسا کرنے میں امریکی صدر خود کو کٹھ پتلی نہیں سمجھتا۔ اگر اس کے گرد موجود گھاگ اور زیرک نمایندگان اس کو اس کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور بھی کر دیں تو بھی وہ اس اتفاق رائے کی کڑوی گولی کو ہضم کر کے پالیسی کو مکمل طور پر اپنا لیتا ہے۔ وہ باہر نکل کر یہ تصور نہیں دیتا کہ جیسے وہ مجبور اور لاچار ہے۔ اور اس کے مینڈیٹ پر کسی نے شب خون مار دیا ہے۔

ہمارے پاس اس قسم کا رابطہ مفقود ہے۔ حکومتیں یا اس منظم نظام کو استعمال کرنے سے یکسر گھبراتی ہیں یا پھر اس کو اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ باہمی ناچاقی پیدا کرنے کے علاوہ فوج کے ساتھ شفافیت کے ساتھ سنگین حالات کے علاوہ باہم رابطے کے فقدان کا ایک بڑا نقصان ان طاقتوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہے جو ایسے فاصلوں کو بڑھا کر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں۔ مگر پچھلے سالوں میں کئی مرتبہ حامد کرزئی کے الزامات نے فوج اور سویلین حکومتوں کے تعلقات کو محض اس وجہ سے بگاڑ دیا کہ نہ وزیر اعظم اور نہ ہی عسکری قیادت افغانستان کے اس لیڈر سے نپٹنے کے لیے آپس میں متفقہ رائے بنا پائی تھی۔
لہذا جب ترکی میں ایک ملاقات میں کرزئی نے اپنا نام نہاد مقدمہ کھولا تو وزیر اعظم نواز شریف جواب دینے کے بجائے عسکری نمایندگان کی طرف دیکھنے لگے جس پر ’ان کو‘ جواب دینا پڑا۔ اس طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایک میٹنگ میں وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے حوالے سے الزامات لگائے تو تیاری نہ ہونے کے باعث اس کو جواب اس وقت کے آرمی سربراہ نے انتہائی سخت الفاظ میں دیا۔ بعد میں جان کیری نے ایک نجی میٹنگ میں اپنے ان الزامات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی۔ امریکی وزیر خارجہ کے اظہار ندامت کو وزیر اعظم تک پہنچایا تو گیا مگر یہ انفرادی میٹنگ میں کیا گیا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر آج کوئی اس معاملے پر سرکاری ریکارڈ یا خفیہ فائلوں کو کھنگال کر مزید تفصیلات تلاش کرے تو اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے یہاں اداروں کے ذریعے کام ہونے یا کرنے کی روایت نہیں۔ سب سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہوتا ہے۔ فوج کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے نواز شریف حکومت کو فی الفور قومی سلامتی اور دفاعی معاملات سے متعلق ان تمام قواعد، ضوابط، اداروں اور کمیٹیوں کو فعال کرنا ہو گا جہاں پر کھل کر بحث مباحثہ ہو پائے۔ فوج کو فیصلہ سازی کے نظام سے باہر رکھ کر، یا رابطوں کو ذاتی مراسم کی شکل میں پیش کرنے کی روایت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔

اگر اس حکومت یا مستقبل کی کسی سویلین حکومت نے یہ نہ کیا تو فوج کے ساتھ ٹکراؤ کے امکانات اپنے بدترین نتائج کے ساتھ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ مگر کیا سب کچھ کرنے سے فوج اور سیاسی و منتخب حکومتوں کے معاملات درست ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ہاتھ ملانے کے لیے بھی دونوں طرف سے اقدامات کرنے ہوں گے

طلعت حسین

 

مسلح افواج اور پاکستان کی سیاست......


جمہوریت اور عوامی احتجاج میں بلاوجہ ملک کی مسلح افواج کو فریق بنایا جارہا ہے جبکہ وہ اندرون ملک جاری دہشت گردی سے نپٹ رہی ہے، ساتھ ہی کنٹرول لائن‘ سیالکوٹ کی رواں سرحد پار بھارتی افواج کی شدید گولہ باری کا بھی سدباب کررہی ہے۔ ایسے موقع پراس سے بھرپور تعاون کے بجائے اسے حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی جانب سے الزام تراشی‘ اتہام اور بہتان کا ہدف بنایا جارہا ہے جبکہ سرحد پار بھارت کی جنتا اپنی افواج کی حوصلہ افزائی میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتی۔ لوک گیتوں، کہانیوں اور فلموں میں دشمن یعنی پاکستان پر بھارتی سینا کی برتری کے فرضی کارناموں کے چرچے کیے جاتے ہیں۔

 بھارت تو جمہوری ملک ہے اور وہاں کثیر الجماعتی نظام رائج ہے، ان میں سے کوئی پارٹی ایسی نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ فوج اُس کے ساتھ یا اُس کے خلاف ہے۔ لیکن پاکستان ہی واحد ریاست ہے جس کے اکثر سیاستدان حصولِ اقتدار کے لیے عسکری قیادت کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور برسراقتدار آنے کے بعد اس کی کردارکشی کرنے لگتے ہیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی رہائی کے لیے Peter Galbraith اور Kon Cliburn نے جنرل ضیاء الحق پر کتنا دبائو ڈالاتھا اوران کی وطن واپسی میں امریکہ کا کتنا کردار تھا، لیکن ان کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کے مخالف نوازشریف نے جو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، ان سے محاذ آرائی شروع کردی، حتیٰ کہ ان کے نامزد کردہ پنجاب کے چیف سیکرٹری احمد صادق کو اپنے عہدے کی ذمہ داریاں نہیں سنبھالنے دیں اور پنجاب پولیس کو وفاق کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے تصادم کی شہ دی۔ یہی نہیں بلکہ موصوف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پنجاب کے بینک‘ اس کی ریلوے اور ہر شعبے کو وفاق سے آزاد کردیں گے۔ کیا یہ سب ویسی ہی علیحدگی پسندی کی باتیں نہیں تھیں جیسی مجیب الرحمن کیا کرتے تھے اور جس کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا؟ سنتے ہیں کہ اب پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے جس کا ثبوت 2006ء میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کا میثاق جمہوریت ہے جسے اول الذکر کے شوہر نامدار نے محض ’’سیاسی بیان‘‘ کہہ کر مسترد کردیا۔

 آمریت کے خلاف بطلِ حریت کی داعی پیپلزپارٹی دوسری بار بھی فوجی آمر پرویزمشرف سے این آر او جیسے شرمناک معاہدے کے ذریعے برسراقتدار آئی۔ یہ کیسی جمہوریت تھی جو امریکی استعمار اور اس کے پٹھو فوجی آمر پرویز مشرف کی بخشش کے نتیجے میں بحال ہوئی! جدوجہد تو وہ ہے جو ایران کے عوام نے شہنشاہ سے کی تھی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ کہہ کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جمہوریت کی قلعی کھول دی کہ ان دونوں پارٹیوں میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ پرویزمشرف کے عہدہ صدارت سے دستبردار ہونے کے بعد اسے باعزت طور پر رخصت کیا جائے گا جس طرح بے نظیر بھٹو امریکہ کی چھتر چھائوں میں دوبار پاکستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئیں، اسی طرح نوازشریف سعودی عرب کی سرپرستی میں مدت سے پہلے جلاوطنی ترک کرکے وطن واپس آئے۔

کیا یہ کسی جمہوری قیادت کو زیب دیتا ہے کہ وہ غیر ممالک کی سرپرستی میں ریاست کی باگ ڈور سنبھالے؟کیا یہ کسی عوامی نمائندے کو زیب دیتا ہے کہ حکومت کا کوئی اہلکار مبینہ طور پر دوسرے ملک کو یہ پیغام بھیجے کہ اگر اسے ’’فوجی بغاوت‘‘ کا سامنا ہو تو مذکورہ بیرونی طاقت مداخلت کرکے اسے ناکام بنادے؟ وہ کیسی قیادت ہے جسے اپنی مسلح افواج پر اعتماد نہیں ہے، بلکہ اس کے بجائے غیر ملکی فوج پر انحصار کرے؟

آج کل پارلیمان کے تقدس اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کا بڑا ذکر سننے میں آتا ہے۔ پارلیمان اُس وقت قابلِ احترام ہوتی ہے جب اسے عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہوں، اور انتخابی امیدوار نہ تو نادہندہ ہوں‘ نہ کسی جرم میں ماخوذ، اور نہ ہی بے ضابطگیوں میں ملوث ہوں۔ لیکن اگر انتظامیہ کی جانب سے وسیع پیمانے پر ووٹوں کی چوری ہو اور جعلی ووٹوں سے منتخب ہونے والے امیدوار پارلیمان پر قابض ہوجائیں تو یہ ادارہ اپنی نمائندہ حیثیت اور وقار کھو دیتا ہے۔ اور عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ نادرا یا کسی غیر جانب دار ادارے سے ووٹوں کی تصدیق (Auditing) کروائیں، اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کے مطالبے پر عملدرآمد کرے۔ یہاں تو یہ عالم تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما نے چار نشستوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی چھان بین کا مطالبہ کیا تو موصوف نے اسے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا، جبکہ ان کے مصاحبین اور حوارین نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس پر تکرار بڑھتی گئی اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق تحریک انصاف نے وہی کچھ کیا جو 1977ء میں مسلم لیگ سمیت سات جماعتوں نے پی این اے کے نام سے ملک گیر سطح پر کیا۔

یوں بھی یہ پارلیمان اپنے کردار سے عوام کی نمائندہ نہیں معلوم ہوتی۔ اس نے متفقہ قرارداد میں فیصلہ کیا تھا کہ اگر امریکہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بند نہیں کرتا تو حکومت کو امریکہ کی جانب اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ لیکن ڈرون حملے برابر ہوتے رہے اور پارلیمان کا امریکہ کی جانب پاکستان کی پالیسی پر نظرثانی کے لیے دبائو ڈالنا تو کجا، وہ خاموش بیٹھی رہی۔ البتہ تحریک انصاف نے قزاقانہ حملے رکوانے کے لیے لمبی مارچ کی اور طورخم کے راستے افغانستان پر قابض امریکی فوج کی رسد کی ترسیل کی مزاحمت کی، لیکن پارلیمان کی کسی پارٹی نے اس میں شرکت نہیں کی۔

ایسی پارلیمان کا کیسے احترام کیا جائے جو تحفظِ پاکستان (Protection of Pakistan) جیسا کالا قانون منظور کرکے دستور میں موجود شہریوں کے بنیادی حقوق کی نفی کررہی ہو؟

جہاں تک بعض ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو وہ مسلح افواج پر اس لیے معترض ہیںکہ وہ پُرامن مظاہرین کے خلاف طاقت نہیں استعمال کرتی‘ اور یہی حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنمائوں کو شکایت ہے کہ فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی مخالفت کیوں کی! یہ وہی عناصر تو ہیں جنہوں نے 1971ء میں فوجی قیادت پر دبائو ڈال کر ڈھاکا میں مظاہرین پر گولیاں چلوائیں جس کے بعد سارے بنگال میں آگ لگ گئی۔ اب چونکہ فوج ان کے جھانسے میں نہیں آئی تو انہوں نے اسے بلیک میل کرنا شروع کردیا ہے، لیکن عسکری قیادت ان کے فریب میں نہیں آئے گی اور بقول غالب 

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

عسکری قیادت اگر غیر جانب دار رہے تب بھی مورد الزام ہے کہ غیر جانب دار کیوں ہے؟ آخر فوج کسی غیر مقبول حکومت کو عوام پر کیوں مسلط کرے؟ وہ سیاسی اقتدار کی رسّا کشی میں کیوں فریق بنے؟ اور جب کسی ملک کا وزیراعظم سیاسی تنازعات میں فوج یا عدلیہ کو مداخلت کی دعوت دیتا ہے تو اس کا یہ رویہ غیر جمہوری ہے، جبکہ فوج غیر جانب دار رہ کر ہی ملک کو خانہ جنگی سے بچا سکتی ہے۔ اس سارے تنازعے میں فوج کا کردار بڑا غیر جانب دارانہ، آئینی، منصفانہ اور غیر سیاسی رہا ہے۔ اس پر اتنے رکیک حملے کیے جارہے ہیں لیکن وہ اپنے نظم و ضبط کے باعث میڈیا میں اپنی صفائی نہیں پیش کرسکتی۔ تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے سیاست میں گھسیٹا جائے؟

قارئین ایک بات اور ملاحظہ فرمائیں۔ امریکی دفترخارجہ نے ہدایت کی ہے کہ نوازشریف کی حکومت کو برقرار رہنا چاہیے جبکہ ہندوستان کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی فوج اور مذہبی جماعتیں نواز حکومت کی اس لیے مخالفت کررہی ہیں کہ وہ بھارت سے تعلقات میں بہتری کی خواہاں ہے۔ آخر ان دونوں طاقتوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کیا ضرورت ہے؟
امریکی دفتر خارجہ نے تو یکم ستمبر کوتیسری بار پاکستان کی سیاسی جماعتوں کوانتباہ کیا ہے کہ وہ تشدد اور آئین شکنی سے گریز کریں۔ (ڈان 2 ستمبر 2014ئ)

پہلے تو امریکہ خود اپنے ملک میں پولیس کو ہدایت دے کہ وہ سیاہ فام افراد کو تاک تاک کر قتل کرنے سے باز آجائیں، ساتھ ہی اپنی عدلیہ اور ارکانِ جیوری کو تاکید کرے کہ وہ سیاہ فام امریکی شہریوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ ترک کردیں اور انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ امریکی انتظامیہ کو آتشیں اسلحہ کی خرید و فروخت پر سخت پابندی عائد کرنی چاہیے کیونکہ ہر کس و ناکس اسلحہ کا بے دریغ استعمال کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہر سال تیس ہزار امریکی شہری لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ آخر یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں آئے دن اسکول کے بچے‘ اساتذہ اور بچوں کے والدین بندوق بردار نوجوانوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں! آخر امریکہ میں اس دائمی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوجی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی جبکہ پولیس قتل و غارت گری کو روکنے میں ناکام ہوگئی ہے؟

آخر میں مَیں اُن سیاستدانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادر ی کو افواجِ پاکستان کا آلۂ کار کہتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے 1990ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے یونس حبیب کے بقول ایجنسی سے وافر رقوم لی تھیں۔ وہ کس منہ سے ان افراد پر الزامات لگاتے ہیں جنہوں نے سرکاری ذرائع کے خفیہ فنڈ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا؟
یہ بعض سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کا تکیہ کلام بن گیا ہے کہ ملک کی 
    تاریخ میں فوج نے 33 سال حکومت کی ہے، لہٰذا اسے اقتدار کا چسکا لگ گیا ہے اور وہ زیادہ دیر کسی جمہوری حکومت کو ٹکنے نہیں دیتی۔ یہ آدھا سچ اور آدھا جھوٹ ہے، کیونکہ جب جب فوج نے غیر فوجی (جمہوری نہیں) حکومتوں کو معزول کرکے اقتدار سنبھالا ہے تو اُس وقت سیاستدانوں نے اس سے تعاون کیا ہے۔ اور اگر ہر مارشل لا کے نفاذ پر سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے ردعمل کا جائزہ لیا جائے تو ان کی مبارک سلامت سے اخبارات کے کالم کے کالم سیاہ نظر آئیں گے، اور جب عسکری قیادت نے ملک کی کابینہ یا اسمبلی بنائی تو اس کے اراکین خاکی وردی والے نہیں بلکہ سویلین تھے۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کوئی جنرل یا کرنل تھے، جو فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر قدرتی وسائل اور بعد ازاں وزیر خارجہ بن گئے؟ کیا مشہور قانون دان منظور قادر کوئی فوجی افسر تھے؟ کیا ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان اور منعم خان گورنر مشرقی پاکستان فوجی عہدیدار تھے؟ اسی طرح جنرل یحییٰ خان کے دور میں 1970ء کا مثالی انتخاب کیا مارشل لا حکام نے نہیں کرایا؟ جس سے زیادہ منصفانہ اور شفاف انتخاب آج تک نہیں ہوسکا۔ جبکہ پی پی کی جمہوری حکومت میں 1977ء میں کرایا گیا انتخاب شرمناک حد تک ووٹوں کی چوری پر مبنی تھا۔ کیا یحییٰ خان کی حکومت میں نورالامین نائب صدر نہ تھے؟ اورکیا ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ میں پاکستان کے وفد کے سربراہ نہ تھے؟ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے یا کوئی فوجی جس نے سلامتی کونسل میں بنگلہ دیش کا بحران فرو کرانے کے لیے پولینڈ کا مصالحتی مسودۂ قرارداد اجلاس میں چاک کردیا تھا اور روس کے مندوب جیکب   کو زارِ ملک کہا تھا؟

کیا جنرل ضیاء الحق کو تحریک استقلال کے سربراہ نے خط نہیں لکھا تھا کہ وہ پی پی کی حکومت کا تختہ الٹ دیں؟ تحریک استقلال تو بھٹو مخالف متحدہ محاذ PNA کی اہم رکن تھی۔ کیا ضیاء الحق کی کابینہ میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما وزارتوں پر فائز نہیں تھے؟ اسی طرح نوازشریف کی مسلم لیگ کے ارکان ٹوٹ کر جنرل مشرف کے ساتھ نہیں جا ملے تھے؟ اورکیا قاف لیگ کے اہم رہنما نے ببانگِ دہل یہ نہیں کہا تھا کہ وہ باوردی جنرل مشرف کو دس بار صدر منتخب کرائیں گے؟ کیا جنرل مشرف کو ملک کی بعض سیاسی پارٹیوں کی بھرپور حمایت نہیں حاصل تھی؟ اُس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام یوسف اور ان کی کابینہ کے وزرا فوجی تھے یا سیاسی رہنما؟

اگر فوجی اور سویلین حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو فوجی حکومتوں کی کارکردگی سویلین حکومتوں سے کہیں بہتر تھی۔ ملک میں امن و امان کا دور دورہ تھا اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جاتی تھی… لیکن اب…؟

پروفیسر شمیم اختر

Pakistan Army role in Pakistan Politics

کہانی دھرنوں کی: سکرپٹ، کیریکٹرز اور ڈائریکٹرز.......


پاکستان میں جاری سیاسی صورتحال کے پیش نظر ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت اور فریقین کے مابین مزاکرات کسی نتائج پر نہیں پہنچ رہے اور پاکستانیوں کو سکون نصیب نہیں ہورہا؟

اس بلاگ میں کچھ سینئر ترین تجزیہ کاروں کی رائے اور معلومات کو اکٹھا کر کے پیش کیا جارہا ہے اور آخر میں ان تمام تجزیات اور حقائق کی بنا پر پاکستان میں چلنے والی فلم کا سکرپٹ حاضر خدمت ہے۔

مورخہ 14 جنوری 2013 کو دی نیوز میں چھپنے والے محترمہ شیریں مزاری کے آرٹیکل کے مطابقڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں اور محترمہ نے اپنے اس تجزیے کی بنیاد یہ دی ہے کہ چونکہ امریکہ 2014 میں افغانستان سے نکل رہا ہے اور ایسے وقت میں پاکستان میں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کےلئے ایک منتخب حکومت کے برعکس ایک لانگ ٹرم دوستانہ نگراں حکومت چاہتا ہے۔ خاص کر تب جبکہ امریکہ کو نہیں معلوم کے انتخابات کے نتیجے میں کس کی حکومت بنے گی اور اس دفعہ نا تو این آر او ہے اور نا کوئی گارنٹی دینے والے۔

چونکہ محترمہ شیریں مزاری کا یہ آرٹیکل پچھلے سال چھپا تھا تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ اسلام آباد میں آجکل ہورہا ہے وہ بہت پہلے سے طے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب مولانا قادری کے ساتھ محترمہ مزاری کے لیڈر عمران خان بھی اس عالمی سازش کا حصّہ بن گئے ہیں اور محترمہ اس سازش کو جانتے ہوئے بھی اپنے قائد کو اس سازش سے آگاہ نہیں کرسکیں۔ خیر اس منطقی نقطے پر مٹی ڈالیں اور آگے پڑھیں۔

مورخہ 5 ستمبر کو دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر نجم سیٹھی (جن کی مشہور زمانہ 'چڑیا' اندر کی خبریں اُڑا کر لانے کے لئے مشہور ہے) کے مضمون کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سازش آشکار ہوگئی ہے۔

سیٹھی صاحب کے مطابق تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی حکومت کے لئے فرشتہ بن کر نازل ہوئے۔ جس کے بعد اس سازش کے نقطوں کو جوڑ کر پوری سازش کو سمجھا جا سکتا ہے۔

سیٹھی صاحب کے مطابق پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل اشفاق کیانی نواز شریف کی طرف سے تجویز کردہ فارن پالیسیز سے ناخوش تھے۔ جن میں انڈیا، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات اور نان اسٹیٹ ایکٹرز (اثاثوں) اور طالبان کیخلاف آپریشن سے متعلق وزیراعظم نواز شریف موقف شامل تھے۔
ہفتہ وار انگریزی رسالے میں چھپنے والے مضمون کے مطابق چونکہ نواز شریف سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے میں گھسیٹ رہے ہیں اور نواز شریف کا یہ اقدام جنرل کیانی سمیت بہت سارے فوجی افسروں کو بھی شاملِ تفتیش کر رہا ہے، جنہوں نے 1999 میں مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ اس لئے بھی دونوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں تھی۔
جنرل کیانی کے سیاست میں عمل دخل کو دیکھتے ہوئے ہی وزیر اعظم کی جانب سے لائن میں تیسرے قدرے کم سیاسی جنرل راحیل شریف کو سپہ سلار منتخب کیا گیا۔

اس کے علاوہ سیٹھی صاحب کے مطابق اکتوبر 2014 میں کیانی دور کے بہت سارے جنرلز ریٹائر ہونے جارہے ہیں۔ جس کے بعد وزیر اعظم قدرے کم سیاسی جنرل کو آئی ایس آئی کی کرسی سونپ دیں گے۔ جس کے باعث فوج کی نیشنل سیکیورٹی میں مداخلت ضبط کر لی جائیگی۔
مشہور زمانہ چڑیا والے لکھتے ہیں کہ نواز شریف کا یہ خوف غلط بھی نہیں ہے کیونکہ ماضی میں دو مرتبہ ایسا ہوچکا ہے جب نواز شریف کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہان کو تبدیل کیا گیا۔
جیسے 1991 میں نواز شریف نے جنرل اسد درانی کو گھر بھیج کر جنرل جاوید ناصر کو چیف تعینات کردیا اور پھر 1999 جب نواز شریف کی جانب سے جنرل ضیا الدین بٹ کو یہ عہدہ سونپ دیا گیا۔ جنہیں بعد میں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لئے جب نواز شریف نے احکامات دیئے تو مشرف کی طرف سے بغاوت کردی گئی۔

اس مضمون میں مزید لکھا گیا ہے کہ جنرل کیانی کا یہ نظریہ تھا کے سنجیدہ فوجی بغاوت کی دھمکی فوجی بغاوت سے زیادہ کار آمد ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ کمزور معیشت، خودمختار عدلیہ، سرگرم میڈیا، سرگرم سول سوسائٹی ادارے اور غیر ریاستی ایکٹرز ہیں۔
کیانی صاحب کے نظریے کے مطابق بہتر یہ ہے کہ سیاسی منظر نامے کے پیچھے سے فوجی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی کرداروں کو برؤے کار لاتے ہوئے چیزوں کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے کہ فوجی بغاوت ناگزیر لگنے لگے۔
اسی نظریے کا استعمال کرتے ہوئے جنرل کیانی نے زرداری صاحب کو بھی فارن پالیسی، دہشت گردی کیخلاف جنگ، اور دیگر ایشوز جیسے انڈیا، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات، کیری لوگر بِل اور میمو گیٹ جیسے سکینڈل پر مجبور کردیا۔ بالکل اسی طرح جنرل کیانی کے نمک خوار نواز شریف کیساتھ بھی کرنا چاہتے ہیں۔

اب کی بار بھی بالکل اسی طرح کیانی نظریے کے تسلسل میں اکتوبر میں کچھ جنرلوں کی ریٹائرمنٹ سے قبل نواز حکومت کا بستر گول کرنے کی دھمکی دی گئی۔

ایک طرف سدا بہار آرمی کارندوں شیخ رشید اور چوہدری برادران کے ذریعے عمران خان اور طاہرالقادری کو استعمال کیا گیا جو کسی بھی قیمت پر وزیر اعظم بنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف مضبوط ترین میڈیا ہاؤس جنگ اور جیو کو کمزور کردیا گیا. عدلیہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی اور سابق چیف الیکشن کمشنر پر عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے خوف زدہ کردی گئی۔
سیٹھی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کا ڈھنڈورا اس لئے پیٹا گیا تاکہ تمام اپوزیشن جماعتیں مشہور ترین شخصیات عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ مل جائیں۔
بد قسمتی سے جیو اور نواز لیگ سازشیوں کے ہاتھوں پھنس گئیں۔ جس کی وجہ سے قوم غصّے میں آگئی۔ جیو نے ملک کی اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسی پر الزام لگادیا اور نواز لیگ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن انجام دیدیا۔
اس مضمون کے مطابق سازشیوں کی تین چیزیں خوش قسمتی سے خلاف توقع ہوگئیں۔

پہلی: 10 لاکھ لوگ لانے کا دعوی پورا نہیں ہوا۔
دوسری: حکومت نے مارچ کے شرکا کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔

تیسری: جب چیزیں حکومت کے ہاتھ سے نکل رہیں تھیں تو جاوید ہاشمی نے بگل بجا دیا اور پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کو وزیر اعظم کے پیچھے کھڑا ہونے کا پیغام دیدیا۔

مضمون کے آخر میں لکھاری لکھتا ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے کچھ فیصلے اور پالیسیاں غلط بنائیں گئیں جنھوں نے وزیر اعظم کو کمزور کردیا۔ عمران خان میچ فکسر کے طور پر آشکار ہوگئے اور سازشی سامنے آگئے۔ سارے معاملے میں صرف جنرل راحیل ایک اچھا رول ادا کرتے نظر آئے۔
نجم سیٹھی کے ہی 15 اگست کو فرائیڈے ٹائمز میں چھپنے والا مضمون بھی کچھ ایسے ہی حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔

مثلاً، پیپلز پارٹی کی حکومت کیانی دور میں آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو کے آگے نیشنل سیکیورٹی کے ایشوز پر ڈھیر ہوگئیٌ تھی۔
جنرل کیانی نواز شریف کو بھی نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر قابو میں کرنا چاہتے تھے اور مشرف کیخلاف ٹرائل کی وجہ سے بھی جنرل کیانی اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بڑھ گئے تھے۔

اس مضمون کے اختتامیہ میں فرائیڈے ٹائمز کے مدیر لکھتے ہیں کہ اسلام آباد کا حال بگاڑنے کے بعد دھرنے والوں کو واپس بلا لیا جائیگا اور نواز شریف شکست مان کر سپریم کورٹ کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کروائیں گے، عمران خان کی آمادگی سے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہوگی، مشرف کو چھوڑ دیا جائیگا، علاقائی فارن پالیسی سے نواز شریف پیچھے ہٹ جائیں گے اور اگر سپریم کورٹ یہ تعین کرتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پارلیمنٹ توڑ دی جائیگی اور دوبارہ انتخابات کرواۓ جائیں گے۔

اوپر پیش کئے گئے تمام تجزیات، ان صحافیوں کی آشکار کردہ معلومات اور مجھ جیسے جونیئر ترین تجزیہ کار کے تجزیات کی روشنی میں جمہوریت کے خلاف کی جانے والی اس سازش کا سکرپٹ کچھ اس طرح بنتا ہے۔
وجہِ سازش

بیرونی
امریکہ افغانستان سے اس سال انخلا کا ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لئے پاکستان میں ایک دوستانہ نگران حکومت چاہتا ہے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کے ساتھ انخلا سے متعلق معاملات طے کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان میں ایک دوستانہ نگران حکومت ہی امریکہ کے لئے سازگار ثابت ہوسکتی ہے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے برطانیہ کے ذریعے طاہرالقادری (جس کا ذکر محترمہ شیریں مزاری کے مضمون میں کیا گیا ہے) اور طاہرالقادری کے ذریعے عمران خان کو استعمال کیا۔

مشرف ٹرائل
فوج اور نواز شریف کے مابین اختلافات کی ایک بڑی وجہ سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف بغاوت کا مقدمہ ہے۔ جس پر فوج نواز حکومت سے نالاں ہے۔

سازشی آلہ کار
عمران خان: 2013 کے انتخابات کے بعد عمران خان ہی دھاندلی کے الزامات لگا رہے تھے اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی سپورٹ بھی انھیں حاصل ہے۔
ڈاکٹر مولانا طاہر القادری: 2013 میں اسلام آباد میں ہی ہونے والے دھرنے میں اپنی سٹریٹ پاور دکھا چکے تھے۔

جاوید ہاشمی کے بقول عمران خان اور طاہر القادری کے مابین ملاقات جون کے پہلے ہفتے میں لندن میں ہوئی۔ جس کے بعد عمران خان کی طرف سے اعلان کیا گیا کے وہ طاہرالقادری کیساتھ کسی الائنس کا حصّہ نہیں بنے گے۔

اعجاز حسین: مورخہ 7 ستمبر کو نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام آپس کی بات میں اس سازش میں شریک ایک اور کردار متعارف کروایا جو نیشنل ڈیفینس کالج میں لیکچر دیتا رہا ہے اور جس نے چوہدریوں اور طاہرالقادری کے مابین رابطہ کروایا۔

سدا بہار فوجی کارندوں کا استعمال
چوہدری برادران اور شیخ رشید کو ان دونوں انقلابی رہنماؤں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور ان دونوں فوجی کارندوں کی دھرنوں میں موجودگی فوج کی سازش کو آشکار کرتی ہے۔

سازش کی ناکامی کی وجوہات
سیٹھی صاحب کے مضمون کیمطابق تین وجوہات کی بنا پر جمہوریت کیخلاف یہ سازش کامیاب نا ہوسکی۔
ایک: عمران خان دس لاکھ لوگ اسلام آباد نا لاسکے۔ جس کی وجہ سے مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔
دو: حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح دھرنوں کے شرکا پر طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے اتنی ہلاکتیں نا ہو سکیں جو عمران خان اور طاہرالقادری چاہتے تھے۔
تین: جاوید ہاشمی نے باغی ہوتے ہوئے عمران خان کے پیچھے مبینہ ہاتھوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔

بد قسمتی
بدقسمتی سے نواز حکومت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سرزد ہوگیا اور جیو نے آئی ایس آئی پر حامد میر پر قاتلانہ حملے کے الزامات لگا دیئے۔ جس کے بعد سازشیوں کے ہاتھ دونوں کیخلاف سازش کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔

پیارے افضل کی اینٹری
نواز حکومت کیخلاف سازش کو ناکام ہوتا دیکھ کر پاکستان کے سب سے صادق اور امین اینکر کے ذریعے الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری محمد افضل کی اینٹری کروائی گئی جنہوں نے طے شدہ سکرپٹ کیمطابق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے علاوہ جیو پر انتخابات میں دھاندلی کروانے کے الزامات لگائے۔
محمد افضل کی مشکوک اینٹری نے سازش میں اس متنازعہ اینکر کا کردار بھی آشکار کردیا اور دیکھنے والوں پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس اینکر کو خفیہ مواد کون فراہم کرتا ہے۔

چوہدری شجاعت کا کیانی پر الزام
جب جاوید ہاشمی نے سازش کو بے نقاب کردیا تو چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے جنرل کیانی پر الزام لگایا گیا کہ جنرل کیانی انتخابات میں دھاندلی میں ملوّث تھے۔
چوہدری صاحب کی طرف یہ الزام شاید سازش کے فیل ہونے پر جزبات کی رو میں بہتے ہوئے لگایا گیا اور شاید چوہدری صاحب کی سوچ کے مطابق اس بیان کے بعد ہی سوئی ہوئی ٹھنڈی فوج جاگ جائے اور موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے مداخلت کا فیصلہ کرلے۔

فوج کا مارشل لا نا لگانے کی وجہ
فوج کیانی نظریئے کی روشنی میں یہ سمجھتی ہے کہ مارشل لا کا خوف مارشل لا سے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ کہ فوج کمزور معیشت، خود مختار عدلیہ، سر گرم میڈیا، سرگرم سول سوسائٹی اور غیر ریاستی ایکٹرز کی وجہ سے مارشل لا نہیں لگا سکتی اور اگر لگاتی ہے تو خود پھنس جائیگی۔

جنرل راحیل شریف کا کردار
جنرل راحیل شریف نے اس سازش کو ناکام کرنے میں سب سے کلیدی رول ادا کیا اور اس کا سہرا وزیر اعظم نواز شریف کو بھی جاتا ہے جنہوں نے لائن میں سے تیسرے جنرل کو سپہ سلار کے طور پر چُنا۔

یہ جنرل راحیل کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ ایسے نازک حالات میں جب ایک طرف فوج آپریشن ضرب عزب میں مصروف ہے اور دوسری طرف سیلاب میں اپنا فریضہ سر انجام دے رہی ہے، جنرل راحیل پاکستان میں جمہوریت کا علم بلند رکھنے کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔

جنرل ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ
کچھ دوسرے جنرلز کے علاوہ اکتوبر میں آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ جنرل ظہیر الاسلام بھی اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں اور نئے آنے والے ممکنہ سربراہ کے لئے جنرل نصیر جنجوعہ کا نام سامنےآرہا ہے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ کا چناؤ تو چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر مدت ملازمت میں توسیع وزیر اعظم کی صوابدید ہوتی ہے اور موجودہ حالات کی روشنی میں نہیں لگتا کہ وزیر اعظم ایسا کوئی اقدام کریں گے۔
آخر میں پیش ہے 2013 کا ایک ویڈیو کلپ جس میں ایک بے باک نڈر صحافی نے موجودہ حالات کے بارے میں اپنے پروگرام میں بتا دیا تھا اور اس کے مطابق بھی پرویز مشرف کو بچانے کے لئے کچھ لوگ 2014 میں اسلام آباد میں دھرنے دیں گے۔

ان تمام تجزیات اور حقائق سے موجودہ سیاسی بحران کے پیچھے کار فرما سازشیوں کا تو پتہ چل جاتا ہے جو ابھی تک اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکے مگر ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ 
وہ اپنی پالیسیوں سے ان شر پسند سازشیوں کو بے نقاب کرتے رہیں۔

پاکستان کا سیاسی عدم استحکام اور جرنیلوں کا کھیل – - شاہنواز فاروقی......


پاکستان کی سیاست کی حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ قومی تاریخ کے آدھے حصے میں جرنیلوں نے براہِ راست حکومت کی ہے اور باقی عرصے میں وہ پردے کے پیچھے کھڑے ہوکر ڈوریاں ہلاتے رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ڈوریاں ہلانے کا کام کبھی غلام اسحق خان نے انجام دیا ہے، کبھی فاروق احمد خان لغاری نے۔ عام خیال یہ ہے کہ اِن دنوں یہ کام عمران خان اور طاہر القادری نے سنبھالا ہوا ہے۔ لیکن اس دعوے کی شہادت کیا ہے؟

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میاں نوازشریف نے گزشتہ سوا سال میں اس طرح حکومت کی ہے کہ لفظ ’’حکومت‘‘ منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ میاں صاحب کے پاس بھاری مینڈیٹ ہے اور بھاری مینڈیٹ میاں صاحب پر بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے، مگر اس بھاری مینڈیٹ نے میاں صاحب کو ذمے دار بنانے کے بجائے غیر ذمے دار بنادیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ اس طرح معاملات کرنے کی کوشش کی جیسے پاک بھارت تعلقات میاں صاحب کا گھریلو مسئلہ ہو۔ ان کے نزدیک پارلیمنٹ کی یہ قدروقیمت ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس طرح آتے ہیں جیسے نئی نویلی دلہن منہ دکھانے کے لیے حاضر ہو۔ انہوں نے اقتدار میں اپنے عزیزوں، رشتے داروں کو اتنا دخیل کرلیا ہے کہ ملک میں خاندانی حکومت کا تاثر گہرا ہوگیا ہے۔ لوگ شکایت کررہے ہیں کہ اگرچہ میاں صاحب پورے ملک کے وزیراعظم ہیں مگر ان کی توجہ پنجاب پر مرکوز ہے۔ میاں صاحب نے قرضوں سے قوم کی جان چھڑانے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے ملک و قوم پر قرضوں کا نیا بوجھ لاد دیا ہے۔ کراچی اور بلوچستان کی بدامنی جوں کی توں ہے۔ میاں صاحب نے فوجی آپریشن کی پہلے مزاحمت کی اور پھر اس طرح ہتھیار ڈال دیے جیسے کرنے کا اصل کام فوجی آپریشن ہی تھا۔ انہوں نے عمران خان کے انتخابی دھاندلی سے متعلق اعتراضات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور قیمتی وقت ضائع کرتے چلے گئے۔

 لیکن اس کے باوجود میاں صاحب کی حکومت اور ملک کا جمہوری نظام اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کے خلاف سازش کی جائے اور ملک و قوم کو تماشا بنایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کے سیاسی عدم استحکام کی پشت پر جرنیلوں کا کھیل پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آگیا ہے۔ اس کھیل کی شہادتیں قومی اخبارات کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق عمران خان کے آزادی اور طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کے دوران پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے تین چار ملاقاتیں کی ہیں۔ اگرچہ ملاقاتوں کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن ان ملاقاتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اس بحران میں آرمی چیف اور فوج ایک فریق بن کر ابھرے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو سیاسی معاملات میں جنرل راحیل سے کسی حکومتی اہلکار کی ملاقات کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مگر اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ اگر فوج حکومت سے بڑی قوت کے طور پر موجود نہ ہوتی تو شہبازشریف اور چودھری نثار آرمی چیف سے ملاقات نہ کرتے… اور اگر آرمی چیف غیر سیاسی ہوتے تو وہ خود حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیتے۔ اس سلسلے میں 20 اگست کے روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے جنرل راحیل کے ساتھ ملاقات میں شکایت کی ہے کہ ہم تو پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر یہ دونوں جماعتیں حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہیں۔ میاں نوازشریف کی بات غلط نہیں، مگر اُن کے بیان میں کم ازکم تین نکات ایسے ہیں جنہیں شرمناک کہا جاسکتا ہے۔ میاں صاحب کے بیان سے ایک بات تو یہ ظاہر ہے کہ وہ جنرل راحیل کو خود سے بالاتر تسلیم کررہے ہیں۔

 میاں صاحب کے بیان کا دوسرا شرمناک نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے جنرل راحیل سے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی شکایت اس طرح کی ہے جیسے یہ دونوں جنرل راحیل کی جماعتیں ہوں۔ میاں نوازشریف کے بیان کا تیسرا شرمناک نکتہ یہ ہے کہ ملک کے انتظامی سربراہ یا چیف ایگزیکٹو نے آرمی چیف کے سامنے خود کو غیر مؤثر تسلیم کرلیا اور گویا اس بات کی غیر اعلان شدہ خواہش کی کہ آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں تو کریں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ ہر اعتبار سے ایک شرمناک اعلان ہے اور اس اعلان میں بھاری مینڈیٹ بھاری بوٹوں کو چومتا نظرآرہا ہے۔ 20 اگست کے اخبارات میں وزیرداخلہ چودھری نثار کا بیان بھی شائع ہوا ہے، اس بیان میں چودھری نثار نے یہ کہنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ دھرنوں کے کھیل میں فوج شریک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کھیل کے پیچھے ’’کوئی اور‘‘ تو ہوسکتا ہے مگر فوج نہیں۔ لیکن چودھری نثار نے ’’کوئی اور‘‘ کا تشخص واضح نہیں کیا۔ یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر اس کھیل کی پشت پر فوج نہیں ہے تو چودھری نثار کو یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ لیکن یہ تماشا صرف میاں نوازشریف اور چودھری نثار کے بیانات تک محدود نہیں۔

فوج کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ریڈ زون میں موجود عمارتیں ریاست کی علامت ہیں اور پاک فوج ان کا دفاع کررہی ہے۔ فوج کے ترجمان نے دوسری بات یہ کہی کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مسئلے کے حل کے لیے معنی خیز مذاکرات کریں۔ یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ عمران خان اور طاہرالقاردی کے دھرنے ایک سیاسی معاملہ ہیں اور فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے، مگر اس کے باوجود پاک فوج کے ترجمان نے سیاسی معاملے میں مداخلت کی ہے۔ اس مداخلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ فوج کے ترجمان نے دھرنوں کے شرکا کو یاد دلایا ہے کہ فوج جن عمارتوں کی حفاظت کررہی ہے ان کی طرف آنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں فوج کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا اور اگر فوج کچھ نہیں کرے گی تو اس کا کچھ اور مطلب لیا جائے گا۔ فوج کے ترجمان نے اپنے بیان کے اس نکتے کے ذریعے یہ بھی بتادیا کہ ریاست کی علامتوں کی حفاظت صرف فوج کرسکتی ہے۔ لیکن میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے بیان کا زیادہ قابل اعتراض نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے غیر سیاسی ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تلقین کی ہے۔

 سوال یہ ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ انہیں یہ کہنے کا حق کہاں سے حاصل ہوا؟ ملک کا آئین تو انہیں ہرگز بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ جرنیلوں کے پاس طاقت ہے اور انہیں سیاسی عمل میں مداخلت کے لیے کسی آئینی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے متحارب سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تلقین کردی ہے تو وہ مذاکرات کی شرائط کا اعلان بھی کردیں۔ یہ مذاکرات اگر جی ایچ کیو میں ہوجائیں تو یقینا ان کی قدروقیمت بڑھ جائے گی۔ اتفاق سے 19 اگست کی رات کو جب پاک فوج کے ترجمان کا مذکورہ بیان جاری ہوا تو ایک ٹیلی ویژن چینل کے نمائندے نے طاہرالقادری کے ساتھ گفتگو میں اس بیان کا ذکر کیا۔ طاہرالقادری نے بیان کا پہلا نکتہ سنا تو کہا کہ یہ نکتہ Positiveہے۔ انہیں بیان کے دوسرے نکتے سے مطلع کیا گیا تو اسے بھی قادری صاحب نے Positive قرار دیا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آیا کہ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ لیکن ملک کے سیاسی عدم استحکام کی پشت پر جرنیلوں کے کھیل کا قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔20 اگست کے روزنامہ جنگ میں سابقہ فوجیوں کی تنظیم ایکس سروس مین کے لیگل فورم کی جانب سے ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ ناکام ہوچکی ہیں چنانچہ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔

 بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے ریڈ زون کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ ایکس سروس مین سوسائٹی سابقہ فوجیوں کی تنظیم ہے اور اسے خود کو ریٹائرڈ فوجیوں کے معاملات تک محدود رکھنا چاہیے، لیکن ایک سیاسی بحران میں سابق فوجیوں کی تنظیم کا قانونی حصہ بھی پوری قوت سے بولا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نے صرف حکومت کو ناکام قرار نہیں دیا بلکہ پارلیمنٹ کو بھی ناکام باور کرایا ہے۔ عمران خان کے بعد سابقہ فوجیوں کی تنظیم کا لیگل فورم مڈٹرم انتخابات کے حق میں بلند ہونے والی دوسری آواز ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ عمران خان اور ایکس سروس مین سوسائٹی کا لیگل فورم ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جامعہ حفصہ نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو جنرل پرویزمشرف نے جامعہ میں سینکڑوں طلبہ و طالبات کو خون میں نہلا دیا، حالانکہ غازی برادران مذاکرات پر آمادہ تھے۔ وزیرستان میں ریاست کی رٹ چیلنج ہوئی تو طالبان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرایا گیا حالانکہ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔ لیکن لاہور اور اسلام آباد میں دس روز سے ریاست کی رٹ کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور فوج کا ترجمان کہہ رہا ہے کہ ہم اسلام آباد میں عمارتوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم یہ منظر بھی دیکھ رہی ہے کہ ملک کا وزیراعظم آرمی چیف سے شکایت کررہا ہے کہ ہم مذاکرات چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ معلوم نہیں آرمی چیف نے اس کے جواب میں وزیراعظم سے کیا کہا۔

 تاہم فوج کے ترجمان نے سیاسی قوتوں کو مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ اس صورت حال کا لب لباب عیاں ہے، میاں نوازشریف کی حکومت جاتی ہے تو بھی فوج کی بالادستی یقینی ہے اور اگر ان کی حکومت نہیں جاتی تو بھی فوج کی بالادستی کو دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورت حال نے یقینی بنادیا ہے۔ البتہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو اس سے کوئی ’’اتاترک‘‘ برآمد ہوتا ہے یا نہیں؟

شاہنواز فاروقی