Showing posts with label Geo. Show all posts

پاکستان کے دفاعی اداروں اور جیو نجی میڈیا گروپ کے درمیان محاذ آرائی میں شدت......

پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینل جیو نیوز نے اپنے لائسنس کی معطلی کے چند گھنٹے کے بعد ملک کے طاقتور خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور وزارت دفاع کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کردیا ہے۔

جیو نیوز کے ملکیتی انڈی پینڈینٹ میڈیا گروپ نے یہ دعویٰ دفاعی اداروں کی جانب سے اپنے خلاف عاید کیے جانے والے ملک دشمنی کے الزامات کے جواب میں دائر کیا ہے۔پاکستان کے قومی اداروں اور جیو گروپ کے درمیان معروف صحافی حامد میر پر 19 اپریل کو کراچی میں قاتلانہ حملے کے بعد سے محاذ آرائی چل رہی ہے۔

جیونیوز نے حامد میر پر فائرنگ کے فوری بعد آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام پر اس حملے کا الزام عاید کردیا تھا اوراس نے اپنی نشریات میں کئی گھنٹے تک ان کی تصاویر اس انداز میں دکھائی تھیں کہ گویا وہی واقعے کے ذمے دار ہیں۔تاہم ابھی تک حامد میر پر حملہ کرنے والوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔

وزارت دفاع نے گذشتہ ماہ جیونیوز کے خلاف پاکستان کے میڈیا ریگولیٹر ادارے پیمرا کے ہاں درخواست دائر کردی تھی اور اس کا لائسنس معطل کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس پر آج جمعہ کو پیمرا نے جیو نیوز کا پندرہ روز کے لیے لائسنس معطل کردیا ہے اور اس پرقواعد وضوابط کی خلاف ورزیوں پر ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی عاید کیا ہے۔

اس کے ردعمل میں جیو اور جنگ گروپ نے وزارت دفاع ،انٹر سروسز انٹیلی جنس اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو ایک قانونی نوٹس جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان اداروں نے گروپ کو ملک دشمن قرار دے کر اس کی شہرت داغدار کی ہے اور اس کو نقصان پہنچایا ہے۔

اس ادارے کے اخبار جنگ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان کے مطابق ''آٹھ ہزار سے زیادہ صحافی ،کارکنان اور پروفیشنلز اس گروپ سے وابستہ ہیں۔پاکستان بھر میں نہ صرف انھیں بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔ان پر حملے بھی کیے گئے ہیں اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے''۔

جیو نیوز نے آئی ایس آئی سے کہا ہے کہ وہ چودہ روز میں ادارے پر عاید کردہ ملک دشمنی کے الزامات واپس لے اور معافی نامہ جاری کرے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نجی ادارے نے اس طرح آئی ایس آئی کو نوٹس جاری کیا ہے اور اس سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

جیو کے اس اقدام اور پیمرا کے حکم سے ظاہر ہے کہ ملک میں گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری میڈیا کی لڑائی ختم نہیں ہوگی بلکہ اس میں اب اور بھی شدت آئے گی۔جیو نے اس سے پہلے خود آئی ایس آئی اور وزارت دفاع سے اپنی مذکورہ نشریات پر معافی طلب کی تھی لیکن اس کے باوجود اس کو معاف نہیں کیا گیا تھا اور اب اس نے جوابی وار کرتے ہوئے آئی ایس آئی سے معافی کا مطالبہ کردیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری کی ایک تین رکنی کمیٹی نے گذشتہ ماہ جیو ٹی وی نیٹ ورک کے تین ٹیلی ویژن چینلوں کے لائسنس عارضی طور پر منسوخ کرنے اور اس کے دفاتر سیل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا کیونکہ خود پیمرا نے ہی اپنے تین پرائیویٹ ارکان کے فیصلے سے لاتعلقی ظاہر کردی تھی۔ پیمرا کے مذکورہ حکم سے قبل ہی پاکستان کے بہت سے علاقوں میں جیو کی نشریات معطل ہیں یا پھر کیبل آپریٹروں نے حکام کے دباؤ پر اس کو آخری نمبروں پر کردیا ہے۔پاکستان کے دو تین اور نجی ٹی وی چینلز بھی جیو کے خلاف مہم چلا رہے ہیں اور اس کو اپنے ٹاک شوز میں ملک دشمن قرار دے رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی بزعم خویش محب وطنوں نے اس چینل کے خلاف مہم شروع کررکھا ہے۔تاہم ملک کی صحافتی برادری اس چینل کی بندش کے خلاف ہے

Geo News Shutdown by Pemra

Geo News Shutdown by Pemra
Enhanced by Zemanta

جیو، جنگ گروپ فوج اور آئی ایس آئی سے معافی کے طلبگار........

Pakistani Media Industry



 Pakistani Media Industry

یہ اجتماعی خودکشی کب تک


پاکستان میں ٹی وی چینل شروع ہوئے 12 سال ہونے والے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب مارچ 2002ء میں جنرل مشرف اور ISI کی وجہ سے میں نے دی نیوز کے گروپ ایڈیٹر کی پوسٹ سے استعفیٰ دیا تھا تو پاکستان میں یہ کوئی خبر نہیں تھی کیونکہ سوائے سرکاری چینل PTV کے اور کوئی TV نہیں تھا مگر کیونکہ ایک فوجی آمر کے خلاف ایک صحافی نے یہ کہہ کر نوکری چھوڑ دی تھی کہ دبائو قبول نہیں عالمی میڈیا میں یہ ایک بڑی خبر تھی۔ نوکری چھوڑ کر میں گھر واپس ورجینیا آگیا تو کئی بڑے TV چینل مجھے انٹرویو کرنے آئے اور سب سے بڑے چینل CNN نے پورے 30 منٹ کا ایک پروگرام کیا جس میں مجھے لیا گیا اور میرے ادارے جنگ گروپ سے شاہ رخ حسن صاحب کو لیا گیا کئی دوسرے صحافتی ادارے جیسے CPJ یعنی نیویارک کی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، کچھ پروفیسروں اور کئی لوگوں سے بھی بات کی گئی۔

جنرل مشرف کی جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک اخباری کانفرنس کا وہ کلپ بھی دکھایا گیا جس میں ایک جاپانی صحافی نے ان سے میرے استعفے کے بارے میں پوچھا تو وہ لاجواب نظر آئے۔ مگر یہ سب ایک تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں ہوا کسی نے کسی کو گالی نہیں دی اور ہر ایک نے اپنا مؤقف دیا اور انتظارکیا کہ جب دوسرے لوگ بول لیں تو جواب دیا جائے۔ استعفیٰ بھی ہو گیا اور احتجاج بھی اور معاملات آگے بڑھ گئے۔ جب سے پاکستان میں درجنوں کے حساب سے چینل آئے ہیں آزادی بہت بڑھ گئی ہے مگر ذمہ داری کا فقدان ہے۔ کچھ چینل (میں کسی کا نام نہیں لوں گا، پڑھنے والے خود اندازہ لگالیں) صحافتی بیک گرائونڈ سے آئے اور کچھ دیکھا دیکھی پیسے کے زور پر۔ کچھ کاروباری لوگوں کو محسوس ہوا کہ ان کا کاروبار ترقی کرے گا یا ان کی چوری کو کوئی پکڑنے کی ہمت نہیں کرے گا اگر وہ بھی میڈیا کے مالک بن گئے۔ کچھ پیسے والے لوگ جب میڈیا سے پریشان ہونا شروع ہوئے تو بدلے لینے خود میدان میں کود پڑے۔

یعنی پاکستان میں سوائے دوچار گروپس کے باقی سب لوگ چمک دمک اور بڑھتی ہوئی میڈیا کی طاقت دیکھ کر مالک، اخبار نویس اور میڈیا اینکرز بن بیٹھے۔ کچھ نے خوب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جہاں سے پلاٹ،زمین، نوکری اور کوئی فائدہ مل سکا ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگائی۔ کچھ فوجیوں کی آمریت میں وزیر اور مشیر بنے کوئی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر شامل باجا ہوگیا کوئی سفیر بن گیا اورکوئی امیر، غرض میڈیا کے راستے جس کی جتنی بن پڑی اس کو بے دریغ استعمال کیا۔ کچھ کہانیاں ایسی بھی ہیں کہ کچھ دن کیلئے صحافت کی سیڑھی استعمال کرکے لوگ مزے اڑاتے رہے اور جب وہ دن بیت گئے تو واپس صحافت میں آکر سب کی ماں،بہن شروع کردی یا پھر سیڑھی کے نیچے سےیہ اوپر جانے کی کوشش۔ اس بھاگ دوڑ میں جائز اور ناجائز مال کمانا ایک اہم ترین عنصر رہا۔ اخبار اور TV کے مالکان جائز آمدنی کے ساتھ ساتھ خاص مراعات بھی لیتے رہے یہاں تک کہ ہر ایک کو یہ یقین ہوگیا کہ اگر گاڑی یا موٹر سائیکل پر اگر PRESS لکھا ہوا ہو تو بڑی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں تو اس دور میں چھاپہ خانے والوں نے یعنی پرنٹنگ پریس والے بھی اپنی گاڑیوں پر پریس کی تختی لگاکر گھومنا شروع ہوگئے۔

سب پریس سے ڈرنے لگے پولیس والے دوسروں سے بھتے لیتے تھے مگر پریس والوں کو ماہانہ بھتہ دیتے تھے۔ ہر دروازہ خود بہ خود کھل جاتا اور لوگوں کو ایسے مزے آئے کہ ایک ڈمی اخبار نکالنے والے نے چار ڈمی نکال دیئے ایک وقت میں پشاور جیسے چھوٹے شہر میں 65 روزنامے چھاپے جاتے تھے۔ شاید اب بھی ہوں کیونکہ حکومت سب سے بڑی اشتہاری پارٹی ہوتی تھی تو سارے مالک اور ایڈیٹر اور اکثر جو خود مالک بھی ایڈیٹر بھی ہوتے تھے وہ حکومت کے انفارمیشن کے محکموں اور وزارتوں کے دفاتر میں موجود رہتے تھے۔ ایک بڑی صنعت بن گئی تھی اور حکومتی افسروں کے بھی مزے آگئے تھے کہ اشتہار دیا سو روپے کا اور پچاس یا اس سے بھی زیادہ میز کے نیچے سے واپس کیش لے لیا۔ TV چینل جب آئے تو اکثر وہی لوگ جو اخباروں میں دائو لگانے مارے مارے پھرتے تھے ہر گھر کی TV اسکرین پر نظر آنے لگے اور پھر ایک ایسی ریس شروع ہوئی کہ اللہ کی پناہ۔ اس ساری داستان امیر حمزہ میں جو حصہ صحافت کا شکار ہوگیا وہ پروفیشنل ایڈیٹر اور وہ صحافی تھے جو اپنے کام میں تو ماہر تھے مگر اوپر کی کمائی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر سب سے بڑا نقصان ان مالکوں نے پہنچایا جو خود ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر بن گئے تاکہ جتنی حکومتی مراعات، سرکاری دورے، اعلیٰ حکام اور فوجی اور سول حکمرانوں کی قربت اور سارے مزے وہ خود لوٹ سکیں۔ کچھ سالوں میں اخباروں میں سوائے اکا دکا کو چھوڑ کر سارے مالکان ہی فیصلہ ساز بن بیٹھے۔ TV والوں کا تو اور برا حال ہوا۔

نیا نیا ایک چٹخارے والا میڈیم، فوری شہرت اور اسٹار بن جانے کے مواقع سب ہضم نہیں ہوسکے۔ جو لوگ صحافت سے تعلق نہیں رکھتے تھے اور صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی یا دشمنی میں اس میدان میں آگئے وہ تو ظاہر ہے مخصوص ایجنڈے لے کر آئے تھے۔ جب مقابلہ سخت ہونے لگا اور کیک کا حصہ بٹنے لگا تو پرانے کھلاڑی بھی نئے دائو پیچ اپنانے لگے۔ تین گروپ بڑی تیاری سے میدان میں کودے کہ انگریزی کے TV چینل چلائیں گے مگر سب بھاگ لئے۔ جو بکتا تھا وہی پکنے لگا۔ خواتین کی بھرمار اور پھر شادی بیاہ کی رسومات دن رات کا خیال کئے بغیر ایسے نشر ہونے لگیں جیسے یہی ہمارا دینی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ مزید آگے چلے تو جرم کی داستانیں عام ہونا شروع ہوئیں اور کچھ چینل پولیس اور دوسرے اداروں کے فرائض انجام دینے لگے۔ یہ سارے شتر بے مہار ہوتے گئے اور کسی نے نہ روکا روکنے والے یاتو بکے ہوئے تھے یا دبے ہوئے یا ضرورت مند، سیاسی یا مالی طور پر۔ پھر اس لڑائی میں وہ مقام آگیا کہ ہم سب ایک دوسرے پر پل پڑے اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ پورا میڈیا اجتماعی خودکشی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ ہر ایک اپنی فکر میں ہے اور کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ اس خودکش جنگ کا انجام کیا ہوگا۔ آج تک ایک ضابطہ اخلاق یا Working guidelines تک موجود نہیں۔

آج ہم اس طرح ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہیں جیسے ’’میں نہیں یا تو نہیں‘‘ حکومت عدالتیں اور ادارے تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ کس کو روکیں کس کا ساتھ دیں اور کہاں تک۔ اس دوڑ میں میڈیا کے بڑوں سے بڑی بڑی غلطیاں بھی سرزد ہوگئیں۔ اخبارات ہمیشہ ہاکروں کے ہاتھ بلیک میل ہوتے تھے مگر جب TV چینل آئے تو وہی غلطی دہرائی گئی اور ہاکروں کی جگہ کیبل آپریٹرز نے لے لی اور آج بڑے سے بڑا چینل بھی ان کے سامنے بے بس ہے۔ مگر یہ سب کہاں جاکر رکے گا۔ فوری طور پر ایک کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ صحافت کے ان لوگوں کو جو پروفیشنل ہیں اختیار دیا جائے اور مالکان ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ صحافتی معاملات کو بزنس سے الگ کرکے چلایا جائے۔ میرے کئی دوست ہیں اور ہم ہمیشہ اخبارات میں صحت مند مقابلہ کرتے رہے ہیںمگر دوستیاں اور ناطے کبھی نہیں ٹوٹے۔ مالکان فیل ہوگئے ہیں اور اس کا نقصان سب کو ہوگا۔ جو گھس بیٹھئےاس پیشے میں آگھسے ہیں ان کی نشاندہی کرنا اور نکالنا ضروری ہے۔ یہ نہ ہوا تو جو چند لوگ اپنی عزت بچاکر چھپے بیٹھے ہیں وہ بھی صحافت چھوڑ دیں گے اور پھر خدا ہی حافظ پھر اجتماعی قبر کا آرڈر دینا پڑ جائیگا۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

70 Percent Geo News transmission closed


70 Percent Geo News transmission closed
Enhanced by Zemanta

Mir Shakil-ur-Rahman


Mir Shakil-ur-Rahman is a Pakistani media mogul and philanthropist. As a businessman, he is known as founder 24-hour news cycle network, Geo TV, as well as its executive. In addition, he is the owner of the Jang Group, that was started by his father Mir Khalil ur Rehman[1][2] and part owner of the Independent Media Corporation. This media group publishes a number of Newspapers and Magazines in Urdu and English. IMC also owns the Geo TV network.[citation needed]

Early life

Shakil attended St Patrick's High School, Karachi for early education.[3]

Career

In late 1990s, during Nawaz Sharif second term as Prime Minister, Shakil was first asked by Sharif's government to dismiss some of the staff members of the Jang Group. On Shakil's refusal a number of tax evasion cases were filed against his news group amounting to 40 million US dollars, followed by freezing of bank accounts and seizure of their assets. The government withdrew after some controversial phone conversations between governments aides and Shakil were made public by Shakil .[4][5]
Shakil established a Television channel network by the name of Geo TV in 2002.[6]

Achievements

Business Week magazine, in a report published in the issue of 11 July 2005, selected Mir Shakil ur Rahman in its list of 25 Stars of Asia, for their role in bringing change in their respective field in Asia. They wrote that Geo TV launched by Mir Shakil ur Rahman has become one of the most popular TV channels in Pakistan. The GEO TV network has quickly evolved into Pakistan's biggest network of channels.[citation needed]

Media industry associations

Mir Shakil ur Rahman has also served as president of All Pakistan Newspapers Society in 2006.[7] He remained a convener of Wage Board Committee of the society in 2010.[8] He was the President of Council of Pakistan Newspapers Editors in 1995-96 and 2003–04 and the president of Pakistan Broadcasters Association in 2005.[9] Shakil served as a member of Press Council of Pakistan in 2013.[10]He is the youngest son of Mir Khalil ur Rehman who was the founder and editor of the Jang newspaper.[1
Enhanced by Zemanta

ہم معذرت خواہ ہیں: جنگ گروپ



پاکستان کے میڈیا ہاؤس جنگ گروپ نے اس کے جیو ٹی وی چینل پر مارننگ شو پر کھڑے ہونے والے تنازعے پر معافی مانگی ہے۔

جنگ گروپ کی جانب مانگی گئی معافی جنگ اخبار کے پورے صفحے پر ’ہم معذرت خواہ ہیں‘ کے نام سے چھپی ہے۔

  اس معذرت میں کہا گیا ہے کہ ’اٹھو جاگو پاکستان‘ میں میزبان ڈاکٹر شائستہ لودھی کی غیر دانستگی میں ہونے والی غلطی کے بعد ادارے کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس معذرت میں جید علماء کے تبصرے بھی چھاپے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ غلطی پر معافی مانگ لی گئی ہے اور اس واقعے کی تحقیقات کرانے پر زور دیا گیا ہے۔

جنگ گروپ کی جانب سے یہ معذرت جنگ اخبار کے پانچوں ایڈیشن میں پورے ایک صفحے پر چھاپی گئی ہے۔ تاہم یہ معذرت جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز میں نہیں چھاپی گئی۔

یاد رہے کہ جیو کے ایک مارننگ شو میں اداکارہ وینا ملک اور ان کے شوہرکی شادی سے متعلق ایک پروگرام کے دوران ایک قوالی پیش کی گئی جس کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے اس بات پر شدید اعتراض کیا گیا کہ برگزیدہ ہستیوں سے منسوب قوالی کو جس طرح شادی سے متعلق پروگرام میں پیش کیا گیا وہ انتہائی غیر مناسب تھا۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے مبینہ طور پر متنازع پروگرام نشر کرنے پر جیو گروپ کے انٹرٹینمنٹ چینل کو شو کاز نوٹس جاری کیا ہے، جبکہ اسلام آباد میں پیمرا کے دفتر کے سامنے مذہبی تنظیموں کے کارکنوں نے جیو کو بند کرنے کے لیے مظاہرے کیے ہیں۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی یا پیمرا کی طرف سے جمعے کو جاری کیے گئے ایک تحریری بیان کے مطابق پیمرا نے جیوانٹرٹینمٹ چینل پر 14 مئی سنہ 2014 کی صبح مبینہ طور پر متنازع پروگرام نشر کرنے پر جیو کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وضاحت طلب کی ہے۔

Enhanced by Zemanta

جیو مشکل میں، مقدمہ درج........پاکستان کے بڑے نجی چینل کیخلاف کیبل آپریٹرز بھی متحرک


پاکستان میں سب سے بڑا نجی میڈیا گروپ مزید مشکلات میں گھر گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے مارگلہ تھانے میں جیو اور اس کے سربراہ میر شکیل الرحمان کے خلاف عدالتی حکم پر ہفتے کے روز مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب جیو سے وابستہ صحافی نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی سے ہٹا کر ایک مرتبہ پھر ذکاء اشرف باجوہ کو سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پچھلے کئی دنوں سے جیو گروپ اور اس کے مالک کیخلاف ملک دشمنی کے حوالے سے جاری اپنی مہم کو تیز کر دی ہے۔

عمران خان نے جیو گروپ پر امریکا سمیت غیر ممالک سے ان کا ایجنڈا پورا کرنے کیلیے فنڈز لینے کا الزام عاید کیا ہے اور پریس کانفرنس میں اس سلسلے میں دستاویزات لہراتے ہوئے دعوی کیا ہے ان کے پاس اس بارے میں مکمل شواہد موجود ہیں۔ انہوں نے میر شکیل الرحمان، جیو اور خلیل الرحمان فاونڈیشن کے اثاثہ جات کی تحقیقات کے علاوہ ان کی طرف سے ٹیکسوں کی ادائیگی کی بھی تحقیقات کرانے کیلیے کہا ہے۔

عمران خان نے اپنی جماعت کی کور کمیٹی کو میڈیا گروپ کے بارے میں اعتماد میں لینے کے بعد پریس کانفرنس میں کہا میر خلیل الرحمان فاونڈیشن کے نام سے غیر ملکی فنڈنگ لی جاتی ہے اور بعد ازاں جیو کو رقم منتقل کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا جیو گروپ نے باقاعدہ غیرملکوں میں فنڈنگ کرنے والوں کو ایک پلندہ بنا کر دیا کہ ان کیلیے کیا کیا کر سکتا ہے۔ عمران خان جیو گروپ کی امریکی ادارے وائس آف امریکا کے ساتھ ہونے والی ڈیل پر بات کر رہے تھے۔

انہوں نے برطانیہ سے چھ اعشاریہ نو ملین پاونڈ کی رقم لینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا '' اس معاملے میں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن لارڈ نذیر نے بھی تحریک پیش کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیو اور جنگ کے امن کی آشا منصوبے کیلیے بھی اربوں کی فنڈنگ بیرون ملک سے آئی ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا دبئی میں اربوں روپے کے گھر میں رہ کر اور کروڑوں روپے کی گاڑی استعمال کرنے والا شخص ملک پر غیر ملکی ایجنڈا مسلط کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا '' باہر سے فنڈنگ وہ کرتے ہیں جو ملک کو جنگ میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے اس موقع پر میر شکیل الرحمان کو مناظرے کا چیلنج بھی دیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے مسلم لیگ نواز اور جیو کے مفادات کو ایک قرار دیا اور کہا اسی وجہ سے پی ٹی وی اپنے سپورٹس چینل کے مفادات جیو سپورٹس کیلیے عملا سرنڈر کیے ہوئے ہے۔ واضح رہے ملک میں کیبل آپریٹرز نے بھی جیو کیخلاف بائیکاٹ مہم شروع کر دی ہے۔

Countrywide protests against Geo TV







Countrywide protests against Geo TV
Enhanced by Zemanta

Geo and Jang Group Challenge Imran Khan, Zaid Hamid & Mubashir Luqman

Geo and Jang Group Challenge Imran Khan, Zaid Hamid & Mubashir Luqman
Enhanced by Zemanta

Advice to Geo and Jang Group........غلطیوں کا ازالہ صرف معافی سے ممکن


جیو اور جنگ کی مینجمنٹ اور اس سے منسلک اپنے آپ کو اعلیٰ درجے کا دانشور سمجھنے والے چند مخصوص اینکرز اور تجزیہ نگار حضرات اپنے ساتھ ہونیوالے شدید عوامی ردعمل اور برتاؤ پر گریہ، آہ و بکا اور غیر مدلل چیخ و پکار کرنے کے بجائے ’’میڈیا کی آزادی اور باخبر ذرایع‘‘ جیسے استثنا اور استحقاق لیے ہوئے لفظوں کی آر میں ماضی بعید اور ماضی قریب مین معزز اشخاص اور اداروں کو رسوا اور بے عزت کرنیوالے رویے کا ادراک کریں اور احساس کریں کہ کس طرح ان کی غفلت اور غیر ذمے دارانہ تجزیاتی انداز نے صرف الزامات اور اپنی ذاتی پسند و ناپسند کے معیار پر قائم متعصبانہ Perception کے ہتھیار سے کتنے لوگوں کے عزت و وقار کو مجروح کیا۔ کتنے لوگوں کو ان کے جرم ثابت کیے بغیر قوم کے سامنے مجرم بناکر پیش کردیا۔

اسی کا شہر، وہی مدعی وہی منصف

ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا

دولت، شہرت اور فرمانبردار افرادی قوت کا ہمیشہ سے ہی یہ خاصا رہا ہے کہ یہ جب کسی ادارے کو حاصل ہو جائے تو وہ اس زعم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ’’وہ اب سب کچھ کرسکتا ہے‘‘ مگر نہیں ایسا کچھ نہیں ہوتا چونکہ ایک انسان دولت، شہرت اور افرادی قوت کی بنیاد پر ’’بہت کچھ کرسکتا ہے مگر سب کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا رونا رونے کے بجائے اپنی غلطیوں کا صدق دل اور کھلے ذہن سے تجزیہ کیجیے پچھلے دس بارہ سالوں میں اپنائی جانیوالی روش کا جائزہ لیجیے۔سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیجیے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ادارے کا رویہ انتہائی متعصبانہ نہیں رہا؟ حزب اختلاف کا دور ہو یا حزب اقتدار کا دور ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی کردار کشی کرنے اسے رسوا کرنے اور اسے بدنام کرنے کی باقاعدہ عملی اور ابلاغی جدوجہد نہیں کی گئی؟

کیا محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم قائد اور ان کے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری کو بغیر کسی ثبوت کے ایک بدعنوان ترین شخص بناکر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کیا بالواسطہ طور پر انھیں میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی سازش میں شامل کرنے کی کوششوں کو تقویت دینے اور اس الزام کو ہوا دے کر عوام میں انھیں غیر مقبول بنانے کی مبالغہ آرائی نہیں کی گئی؟کیا میمو گیٹ کے معاملے پرسابق صدر آصف علی زرداری کو ’’غدار‘‘ قرار دلوانے کی شعوری کوشش نہیں کی، کیا منصور اعجاز کو ہر قیمت پر پاکستان آکر گواہی اور ثبوت فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کی بھرپور کمپین نہیں چلائی گئی؟

19 جون 2012 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو بار بار یہ بات یاد نہیں دلوائی گئی کہ کروڑوں ووٹوں سے منتخب شدہ وزیر اعظم نے آپ کی توہین کی ہے اور اب ہر صورت انھیں توہین عدالت کا مجرم قرار دے کر عدالت عالیہ کا وقار بلند کیا جائے کیا یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا؟ کیا اس ادارے نے کبھی اپنے اس انتہائی غیر ذمے دارانہ رویے اور برتاؤ کا تجزیہ کیا جس نے پیپلز پارٹی سے وابستہ کروڑوں افراد کے دلوں کو زخمی کردیا۔ کیا پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت جو ایک عظیم لیڈر کی شہادت کے نتیجے میں انھیں ملا تھا کیا۔کیا پچھلے پانچ سالوں میں کوئی ایک بھی تجزیاتی پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس میں پیپلز پارٹی کے عوامی بھلائی سے متعلق کسی اقدام یا کسی مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کی خفیف سی کوشش کی ہو؟

ارسلان افتخار کے معاملے پر اپنا سارا وزن چیف جسٹس آف پاکستان کے پلڑے میں نہیں ڈالا؟

پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ہونے کا اعزاز رکھنے کے باوجود ملکی تحفظ کے سب سے اعلیٰ ادارے کے خلاف ایسے بے بنیاد الزامات عائد کردیے جن الزامات کو عائد کرنے سے پہلے ہماری سالمیت کے دشمن بھی دس بار سوچتے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ایسے الزام عائد کرکے دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کردی اور ہماری انتہائی مشکل ترین حالات سے نبرد آزما پاکستان کی بقا کی جنگ میں مصروف عظیم فوج کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا۔ عقل، دانش اور فہم مشکل حالات کو صبر حوصلے اور قربانی کے ساتھ نمٹنے کا سبق دیتی ہے۔

گواہ اور ثبوت کے بغیر الزام محض الزام رہتا ہے جو ہمیشہ الزام لگانے والے کے لیے رسوائی اور پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ معلومات سے متعلقہ ذمے دار ادارے ’’افواہ‘‘ کو کبھی بھی ’’خبر‘‘ کا درجہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ تدبر، فہم و فراست اور حقیقت کے متلاشی صاحب قلم لوگ ریٹنگ بڑھانے کے مقصد کے حصول کی خاطر اپنے قلم کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیتے وہ مبینہ سے ’’مصدقہ‘‘ کا کٹھن سفر طے کرکے ہی اپنے ملک و قوم کو حقیقت اور سچائی سے آشنا کرنے کا عظیم کام کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بقا اور ان کی فلاح اور بہبود کے لیے قائم کیے گئے آئینی اداروں کا نہ صرف تحفظ کرتے ہیں بلکہ ان کی آبیاری اور نشو و نما میں اپنی دانش اور شعور کو استعمال کرکے اپنا قومی فریضہ نبھاتے ہیں۔

میری دانست میں مصلحت حالات کا تقاضا ہے کہ ماضی میں کی ہوئی مجرمانہ انداز فکر سے دست بردار ہوکر قوم سے اور ملک کے جغرافیے کی حفاظت پر معمور قوم کے ان عظیم سپوتوں سے اپنی غلطیوں پر غیر مشروط معافی مانگی جائے اور اپنی ذہنی اور ابلاغی صلاحیتوں کو پاکستانی فوج کے امیج اور حوصلوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کے موقف کو سپورٹ کیا جائے اور قوم کو ان کے مسائل پر تنقید اور صرف تنقید کے بجائے ان کے مسائل کو حل کرنے کی تدابیر بتائی جائیں تاکہ قوم مایوسی کے اندھیروں سے نکل سکے۔

یاد کریں وہ وقت جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں آپ کے ادارے کو بند کرنے کی کوشش کی گئی تو پوری پاکستانی قوم آپ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اور وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج پوری قوم آپ کے اس ادارے کا بائی کاٹ کرکے ایسے بند کرنے کی خواہاں ہے۔ اب حکومت وقت کے سایہ تلے کسی ریلیف کی کوشش کرنے کے بجائے قوم سے معافی مانگیں اور اپنی پرانی مغرورانہ، ’’اور ہم سے بہتر کوئی نہیں‘‘ کے خود ساختہ اور پرفریب تصور سے باہر نکلیں۔ اور عوام کو اپنا ہم نوا بنائیں چونکہ جن لوگوں کے ساتھ قوم کھڑی ہو وہ ادارے نہ کبھی بند ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی ختم ہوتے ہیں ’’امن کی آشا‘‘ جیسے پروگرام ان ملکوں کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے جو ہمیں مستقبل میں ’’پیاسا‘‘ اور ’’بھوکوں‘‘ مارنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوں۔

تجویز:- اداروں میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل قوم کے لیے ہمیشہ سود مند رہتا ہے مشورہ ہے کہ ’’ایکسپریس ٹی وی چینل‘‘ پر موجود جاوید چوہدری ، معید پیرزادہ ، ایاز خان جیسے فہم و فراست کے مالک اینکر حضرات سے ’’ٹی وی ٹاک شوز‘‘ کو نشر کرنے کے سلیقے سیکھیے تاکہ مستقبل میں آپ کے ادارے کو ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میری اس رائے کو منفی نہیں مثبت انداز میں لیجیے گا۔

آئی ایچ سید  

Shaista Wahidi


Shaista Wahidi is a Pakistani Anchor and TV Presenter. She was the host of the morning show Good Morning Pakistan, which airs on Ary Digital. In the end of September 2010, she joined GEO[citation needed] and is now hosting a morning show of Pakistan 'Utho Jago Pakistan' on the same channel. The same show has been closed down by PEMRA on 16 April 2014 due to blasphemy attempt during an earlier show.