Showing posts with label Peace Talks with Taliban. Show all posts

امن مذاکرات کا پُل صراط


طالبان سے مذاکرات کا مرحلہ کبھی انتہائی قریب اور کبھی بہت دور نظر آ رہا ہے۔ حکومت نے ایک جبکہ طالبان نے دو مذاکراتی کمیٹیاں بنا دی ہیں جن میں مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابراہیم خاں کے سوا کوئی سیاست دان اور طالبان کی کوئی اہم شخصیت شامل نہیں، تاہم غالب امکان یہی ہے کہ جب یہ مذاکراتی کمیٹیاں آپس میں بات چیت کریں گی، تو معاملات کو سمجھنے اور اُنہیں سلجھانے کی پوری کوشش کریں گی۔ مذاکرات میں کامیابی کے لیے رازداری، سفارت کاری، زباں بندی اور فائر بندی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اِس سے بھی زیادہ اہم بات خلوصِ نیت اور سیاسی استقامت ہو گی۔ حکومت کے اخلاص اور عزم کایہ احساس مجھے وزیراعظم نواز شریف کی ڈیڑھ گھنٹے پر محیط گفتگو کے دوران ہوا جو وہ الحمرا کے کمیٹی روم میں کالم نگاروں سے بڑی بے تکلفی سے کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی اوّلین ترجیح اور پوری کوشش یہی ہے کہ خون بہائے بغیر اپنے وطن میں امن قائم رکھا جائے اور مذاکرات کے ذریعے ایک ایسا ماحول تیار ہوتا جائے جس میں دلیل ، قانون اور انصاف کی حکمرانی یقینی ہو۔ اُن کی آواز سے گہری دردمندی اور آنکھوں سے بے پایاں دوراندیشی ٹپک رہی تھی۔اُنہوں نے بتایا کہ مذاکرات کی خواہش کا اظہار میں نے گزشتہ ستمبر میں پوری امریکی قیادت سے بہت کھل کر کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے عوام اور ہماری فوج امن کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور پاکستان بالآخر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کو شکست دینے میں کامیاب رہے گا۔

الحمرا آرٹ کونسل کے بیدار مغز چیئرمین اور صاحبِ طرز کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی نے اِس تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے امکانات، خدشات اور ممکنہ نتائج پر خیال آرائی ہوتی رہی۔ ایک صاحب نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت طالبان کے ٹریپ میں آ گئی ہے جو نئی صف بندی کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک نے اپنے باغیوں اور عوام کے قاتلوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے اور اُنہیں ریاستی طاقت سے شکست دی گئی ہے۔ یہ طالبان جو ہمارے آئین ، ہماری جمہوریت اور ہماری عدالتوں کو نہیں مانتے اور اپنی خود ساختہ شریعت کے نام پر لوگوں کی گردنیں کاٹ دیتے ہیں، اُن سے کیا بات چیت ہو سکتی ہے؟ اِس پر وزیراعظم نے کہا کہ تاریخ میں جنگ و جدل کا خاتمہ آخرکار مذاکرات کی میز ہی پر ہوا ہے اور ہمارے لیے یہی بہتر ہو گا کہ امن مذاکرات بہت بڑے خون خرابے سے پہلے کر لیے جائیں اور اُن کی کامیابی کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اُنہوں نے انکشاف کیا کہ ہماری پارٹی کے کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ قومی اسمبلی میں صرف اتنا اعلان ہی کافی ہے کہ ہم طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش قبول کرتے ہیں اور مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے ٗ مگر میں نے قومی اسمبلی کے اندر ہی اُن کا اعلان کرنا ضروری سمجھا۔ غالباً وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ اُن کے نزدیک قومی اسمبلی ہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اُنہوں نے کسی قدر اطمینان بخش لہجے میں کہا کہ طالبان کی طرف سے مثبت اشارے مل رہے ہیں اور یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ بتدریج معاملات میں بہتری آئے گی اور افہام و تفہیم کا عمل ثمرآور ثابت ہو گا۔ اُن کی تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں کے علاوہ اہلِ قلم اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا سے اپیل تھی کہ وہ ایسی باتیں پھیلانے سے مکمل اجتناب کریں جن سے امن مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اُنہوں نے اِس امر پر زور دیا کہ پاکستان کے اندر قیامِ امن کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دیں، چنانچہ میں بھارت سے روابط معمول پر لانے کے لیے ایک عرصے سے کوشش کرتا آیا ہوں۔ ہم دونوں ممالک اپنے دفاع پر اتنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں کہ سوشل سیکٹر کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ دونوں طرف کی قیادتوں کو اپنی روش کو بدلنا ، دفاعی اخراجات میں کمی لانا اور سرحد پار دہشت گردی پر قابو پانا ہو گا۔ میری امریکہ میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات ہوئی ،تو میں نے اُنہیں بتایا کہ ہمارے پاس بھارت کی طرف سے پاکستان میں دراندازی کے ثبوت موجود ہیں اور بدلے ہوئے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اچھے ہمسائیوں کی طرح رہنے کا عہد کریں۔

جناب وزیراعظم نے اپنے اِس ایقان کا اظہار کیا کہ ایک پُرامن، مضبوط، متحد اور آزاد افغانستان، پاکستان اور اِس خطے کے مفاد میں ہے۔ وہاں کے باشندوں کے مابین مصالحت کی فضا پیدا کرنے میں ہم ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اُن کی باتوں کے دوران مجھے جناب محمود خاں اچکزئی کی وہ تقریر یاد آتی رہی جو اُنہوں نے ’’مرکزِ فکر وعمل‘‘ کے زیر اہتمام افغانستان پر ایک عظیم الشان دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں کی تھی اور کہا تھا کہ اگر پاکستان اور ایران، افغانستان کے ساتھ یہ معاہدہ طے کر لیں کہ وہ اُس کی آزادی اور خودمختاری تسلیم کرتے ہیں ، تو افغانستان میں اِسی سال مارچ کے مہینے تک امن قائم ہو سکتا ہے۔ جناب وزیراعظم کی بصیرت افروز باتوں سے مجھے اِس اعتماد کی دولت حاصل ہوئی کہ جو برسرِ اقتدار لوگ ہیں ،وہ جاں فشانی اور بلند نگاہی سے کام کر رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہبازشریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملے اور طالبان سے مذاکرات کے اسٹرٹیجک پہلوؤں پر بڑی تفصیل سے تبادلۂ خیال کیا۔ انتظامات کو آخری شکل دینے کے لیے وزیراعظم سے تفصیلی ملاقات کی۔ اِس کے بعد جنرل راحیل شریف سعودی عرب روانہ ہو گئے جس کے حکمران اور امامِ کعبہ پاکستان میں انتہا پسندی کے خاتمے اور طالبان کو راہِ راست پر لانے میں ایک مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پچھلے دنوں تھنک ٹینک پائنا کے تحت ’’انسدادِ دہشت گردی کی ترجیحات‘‘ کے عنوان سے قومی سیمینار منعقد ہوا جس میں مذاکراتی عمل کے نازک پہلوؤں پر خیال افروز گفتگو ہوئی۔ پروفیسر ابراہیم خاں جن کوبعد میں طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا ہے ،اُنہوں نے ایک فقرے میں پوری صورتِ حال کا یہ تجزیہ پیش کیا کہ ’’ہم طالبان کی خاطر فوج سے لڑ سکتے ہیں نہ فوج کی خاطر طالبان سے ٹکر لے سکتے ہیں‘‘۔ اُن کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بہت بڑی تباہی آ سکتی ہے۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور جو تین مرتبہ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے تھے، 9/11 کے بعد برطانیہ اور یورپ میں پیدا ہونے والی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اُنہوں نے آئرش ریپبلکن آرمی کی شکست کا تجزیہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ برطانوی حکومت نے گاجر اور چھڑی دونوں استعمال کیے تھے۔ اُن کے خیال میں طالبان بڑے ہوشیار اور بڑے شاطر ہیں۔ اِس لیے حکومت کو بہت غوروخوض کے بعد ایک جامع حکمتِ عملی وضع کرنی چاہیے۔خواجہ سعد رفیق جو فکری پختگی سے آراستہ ہونےکے علاوہ مردِ میدان بھی ہیں اور ریلوے کو انقلابی تبدیلیوں سے آشنا بھی کر رہے ہیں، اُنہوں نے امن مذاکرات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک صبر آزما مرحلہ ہے اِس میں دونوں طرف سے غیر معمولی قوتِ برداشت کا ثبوت دینا ہو گا۔ اِس عمل میں بڑے مشکل مقام آئیں گے اور مذاکرات کا رشتہ بار بار ٹوٹتا محسوس ہو گا ،مگر عوام اور فوج کی حمایت سے یہ پُل صراط عبور کیا جا سکتا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر مسعود شریف خٹک جو 1994ء کے کراچی آپریشن کے منصوبہ ساز تھے ٗ اُنہوں نے بتایا کہ شہری شورشوں پر فقط سول آرمڈ فورسز ہی قابو پا سکتی ہیں جن کی اعلیٰ تربیت اور نہایت برق رفتار انٹیلی جنس شیئرنگ کے انتظامات ہونے چاہئیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خاں نے اپنے تجربات اور مطالعے کی بنیاد پر یہ مشورہ دیا کہ انتہا پسندی کی اصلاح اور دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر ہے اور واضح کیا کہ نیشنل سیکورٹی پالیسی ہر ملک میں خفیہ رکھی جاتی ہے۔ اِس حوالے سے سید منور حسن کا یہ بیان بھی قابلِ غور ہے کہ ’’فضائی بمباری سے امن قائم ہوتا ہے نہ خودکش حملوں سے شریعت نافذ کی جا سکتی ہے‘‘۔ ہمیں اُمید ہے کہ وزیراعظم اِس پُل صراط سے قوم کو گزارنے میں قائدانہ کردار ادا کریں گے۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

کیا عمران خان مشکل میں پھنس گئے؟


پاکستانی طالبان کی قیادت نے عمران خان کو مشکل میں نہیں ڈالا بلکہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالا ہے۔ طالبان کی طرف سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے کمیٹی میں عمران خان کا نام شامل کرنا واقعی ایک دھماکہ ہے۔ چند دن پہلے جب وزیر اعظم نواز شریف نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا تو ایک بڑا اعتراض یہ سامنے آیا کہ اس کمیٹی میں علماء اور سیاستدانوں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ اب طالبان کی طرف سے پانچ رکنی کمیٹی کا اعلان سامنے آیا ہے تو کہا جارہا ہے کہ طالبان نے اپنی کمیٹی میں علماء اور سیاستدانوں کو کیوں شامل کردیا ہے؟ عام خیال یہ ہے کہ عمران خان بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں پہلے ہی طالبان خان کہتے تھے اب تو طالبان نے بھی انہیں اپنا مذاکرات کار بنالیا ہے اور تصدیق کردی ہے کہ عمران خان اندر سے طالبان ہیں۔ میری ناقص رائے بالکل مختلف ہے، طالبان کی طرف سے عمران خان کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا جاتا یا نہ کیا جاتا لیکن عمران خان کے مخالفین اپنے الزامات سے کبھی باز نہ آئے۔ طالبان نے ایک کلین شیو سیاستدان کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کیا ہے جس پر مولانا فضل الرحمن نے الزام لگایا تھا کہ وہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ عمران خان پر اعتماد کا اظہار کرکے طالبان نے یہ پیغام دیا ہے کہ جن پاکستانیوں نے داڑھیاں نہیں رکھیں ہم ان کے خلاف نہیں ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق طالبان کے اندر کچھ لوگوں نے عمران خان کے نام پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس کی شکل شرعی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے لیکن اکثریت کی رائے یہ تھی کہ ہم نے عمران خان کے ذریعہ شریعت نافذ نہیں کرانی بلکہ امن مذاکرات کرنے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ فوجی آپریشن کی بجائے مذاکرات کی حمایت کی ہے لہٰذا عمران خان کے ذریعے مذاکرات میں کوئی حرج نہیں۔ یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ عمران خان آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں کئی مرتبہ یہ کہا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات آئین کے اندر رہ کر کئے جائیں۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں عمران خان کے علاوہ مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم خان اور مفتی کفایت اللہ بھی آئین اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

طالبان کی پانچ رکنی مذاکراتی ٹیم میں سے چار ارکان جمہوریت کے ذریعہ تبدیلی لانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کرکے مجھے تو یہی پیغام ملا ہے کہ طالبان جمہوریت کے خلاف نہیں ہیں۔ نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے لیکن میری رائے میں طالبان نے اپنی مذاکراتی ٹیم کے ذریعہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرلیا ہے۔ میرے لئے یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں شامل پانچوں ارکان نے ہمیشہ خود کش حملوں میں بے گناہ انسانوں کی اموات پر افسوس کا اظہار کیا اور خود کش حملوں کی مذمت کی۔ ان پانچ افراد کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کرکے طالبان کی طرف سے یہ پیغام بھی آیا ہے کہ خود کش حملوں کی مذمت کرنے والے ان کے لئے واجب القتل نہیں۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبدالعزیز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ جب تک حکومت ملک میں نفاذ شریعت کا وعدہ نہیں کرتی وہ مذاکراتی ٹیم میں شا مل نہیں ہونگے۔ مولانا صاحب سے گزارش ہے کہ پہلے مذاکراتی ٹیم میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کردیں اور پھر اپنے ساتھی مذاکرات کاروں کے ساتھ بیٹھ کر ایک ایجنڈا طے کریں اور اس میں جو بھی مناسب مطالبہ شامل کرنا ہے شامل کرلیں۔ یاد رکھیئے پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور قائد اعظمؒ محمد علی جناح پاکستان کے مسلمانوں کو واقعی ایک ایسا نظام دینا چاہتے تھے جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔ قائد اعظمؒ نے اسٹیٹ بینک کو یہ ہدایات بھی جاری کردی تھیں کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری شروع کی جائے لیکن قائد اعظمؒ کے انتقال کے بعد ہم نے ان کو بھلا دیا۔ قائد اعظمؒ جو بھی تھے اور جیسے بھی تھے لیکن ایک کلین شیو مسلمان تھے جس پر مولانا حسرت موہانیؒ سے لے کر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ تک سینکڑوں ہزاروں علماء نے اپنے ا عتماد کا اظہار کیا۔ قائد اعظمؒ نے پاکستان بندوق کے زور پر نہیں بنایا بلکہ سیاسی و جمہوری جدوجہد کے ذریعہ پاکستان بنایا۔ قائد ا عظم کے پاکستان میں بندوق کے زور پر شریعت نافذ نہیں ہوسکتی اس لئے نفاذ شریعت کے مطالبے کے ذریعے امن کی کوششوں کو مشکلات میں نہ ڈالا جائے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے اپنی مذاکراتی ٹیم میں چار سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو شامل کرکے دراصل سیاست کی ہے۔ ان چاروں میں سے کسی ایک نے بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل ہونے سے انکار کردیا تو طالبان کہیں گے ہم تو مذاکرات کے لئے سنجیدہ تھے لیکن سیاستدانوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ میری رائے میں حکومت کی مذاکراتی ٹیم بھی ٹھیک ہے اور طالبان کی بھی ٹھیک ہے۔ حکومت کی ٹیم میں رستم شاہ مہمند تحریک انصاف کے نمائندے ہیں۔ طالبان کی ٹیم میں عمران خان تحریک انصاف کے نمائندے ہیں۔ حکومت کی ٹیم میں میجر ریٹائرڈ عامر یہ کہتے ہیں کہ میرا تعلق ایک دینی گھرانے سے ہے میں مولوی بھی ہوں اور فوجی بھی ہوں۔ پاکستان میں پرویز مشرف نے جو آگ لگائی اس میں مولوی بھی مررہا ہے اور فوجی بھی مررہا ہے، اس لئے میں یہ جنگ ختم کرانا چاہتا ہوں۔ میجر ریٹائرڈعامر نے2007ء میں بھی سوات کے علاقے کوزہ بانڈے جاکر مسلم خان کے گھر میں مولانا فضل اللہ سے مذاکرات کئے اور انہیں اپنے ایف ایم ریڈیو پر تشدد کی مذمت کے لئے کہا۔ مولانا فضل اللہ نے اپنے ا یف ایم ریڈیو پر تشدد کی مذمت کردی لیکن مشرف حکومت نے مذاکرات ختم کردئیے اور یوں سوات کو آگ اور خون کے کھیل جھونک میں دیاگیا۔

مجھے کئی صحافی دوستوں نے کہا کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ارکان طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ میرا جواب یہ تھا کہ اگر یہ چاروں پاکستان کے آئین اور جمہوریت کے ساتھ ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اب طالبان کی ٹیم سامنے آئی ہے تو اس کے اکثر ارکان بھی آئین اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ دونوں اطراف کبھی بھی کہیں بھی مل بیٹھ کر مذاکرات شروع کرسکتی ہیں۔ یہ ایک سنہری موقع ہے، عمران خان، مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم، مفتی کفایت اللہ اور مولانا عبدالعزیز آگے بڑھیں۔ حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات شروع کردیں، کوئی عالمی طاقت اور کوئی خفیہ ادارہ ان مذاکرات میں اپنا ایجنڈہ مسلط نہیں کرسکتا۔ یہ دونوں ٹیمیں جو بھی طے کریں گی حکومت کو اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ مشکل میں عمران خان نہیں پھنسے، مشکل میں طالبان اور حکومت پھنس گئی اگر مذاکرات شروع ہوگئے تو دونوں اطراف کی ٹیمیں سیز فائر کے مطالبے سے ابتداء کریں گی۔ پھر طالبان کو بھی اپنی کارروائیاں بند کرنی پڑیں گی اور حکومت کو اپنی کارروائیاں بند کرنی ہونگی۔ ہوسکتا ہے کہ کسی مرحلےپر طالبان اور حکومت مل کر امریکہ سے مطالبہ کریں کہ ڈرون حملے بند کرو۔ مشکل میں تو امریکہ پھنس جائے گا۔ اس وقت تو پورا پاکستان مشکل میں پھنسا ہوا ہے لیکن مشکل سے نکلنے کا موقع پیدا ہوچکا ہے۔ عمران خان آگے بڑھیں اور مذاکراتی عمل شروع کرکے ایک نئی تاریخ بنادیں۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

Peace Talks and Challenges By Dr. Mujahid Mansoori


 Peace Talks and Challenges

Enhanced by Zemanta

Peace Talks with Taliban by Saleem Safi


 Peace Talks with Taliban by Saleem Safi

Enhanced by Zemanta