Showing posts with label Arts. Show all posts

Voice of Baitul-Maqdis By Shakeel Turabi



 


 Voice of Baitul-Maqdis By Shakeel Turabi

Enhanced by Zemanta

اردو بمقابلہ انگریزی.......Urdu vs English


اگر آپ کسی بھی زبان کی ساخت کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کی پیدائش ایسی ہے جو صدیوں پر محیط ہے شکل بدلتی رہتی ہے اس کی تراش، خراش ہوتی رہتی ہے جس کو قدرت نہیں کرتی بلکہ انسان کرتے ہیں جب کہ قدرتی ذی حیات کی تعمیر اور ترقی میں محض قدرت کا ہی دخل ہے۔ آدمؑ میں اللہ نے روح پھونکی شیطان کو ادراک نہ تھا اس لیے انسان کی ترقی باکمال ہے ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اسی طرح زبان بھی ایک کمال ہے۔ ایک نوعمر بچہ بغیر گرامر کے اصول جانے صحیح زبان بولتا ہے تذکیروتانیث کا برمحل استعمال مگر یہ زبان صدیوں کا سرمایہ ہے۔ زبان تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہے اس کی ارتقا آواز بہ آواز ہوئی اس لیے صوت در صوت اس کی ہر آواز کا وزن کیا گیا۔

یعنی آواز کی موجوں کے ارتعاش سماعت دماغ میں پیدا کیے ہوئے ان سروں کو خوبصورت، کومل یا بوجھل کیسا محسوس کرتی ہے اسی اعتبار سے لفظ کا چناؤ کیا گیا ورنہ شروع میں انسان گونگا ہی تھا۔ بس شور اور اشاروں پر اکتفا کرتا تھا مگر صاحبان فہم نے اشارے کو شور یا پکار سے ملادیا اس موقعے پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بی بی حوا اور بابا آدمؑ کون سی زبان بولتے تھے۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب براعظم نہ بنے تھے خلیجی ریاستیں بھارت اور سری لنکا سے جڑی تھیں اسی لیے اب تک بابا آدمؑ کا مزار سری لنکا میں ہے۔ اس بات کا پتہ یوں بھی چلتا ہے کہ سنسکرت اور عربی بھاشا میں اکثر جگہ پر اشتراک ہے آواز اور شور کو انسان نے قید کرنا سیکھا اور ماں کو ایک ہی طرح پکارا گیا کہیں مدر Mother، مادر، ماتا تو کہیں ماں غرض شروع میں ’’م‘‘ میم کی آواز مشترک ہے۔ جب زمین کئی لخت ہوئی دریاؤں جھرنوں اور موسموں کے حصے میں آئی تو بولی بھی الگ الگ ہوتی گئی۔ بولیوں اور فاصلوں نے ہر علاقے کے حکمران بھی پیدا کیے جو ان علاقوں پر اپنی حکمرانی کریں یہ حکمران اپنے وسائل اور مادی قوت کے ذریعے اپنے حدود کے مالک بنتے رہے جس حکمران کی جتنی مادی قوت تھی وہ اسی قدر علاقے پر قابض ہوتا جاتا۔

اب اس حکمران کو حدود و قیود میں رکھنے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے اوتار، نبی اور پیغمبران بھی آتے رہے مگر ہر آن زبان ایک دوسرے سے ملتی رہی زبان کی آواز دیکھیں اور معنی دیکھیں کیسے بدلتے رہے اور آواز ایک ہی رہی۔ مثلاً بیسن۔ تلچھٹ یا دریا کا زمینی پھیلاؤ یعنی Indus Basin انڈس بیسن جب کہ اردو زبان میں بیسن چنے کا آٹا، دیکھیں انگریزی زبان میں جنگل Jungle جب کہ اردو زبان میں بھی ہم معنی، اردو زبان میں ڈکیت Dacoit ایک نہیں سیکڑوں الفاظ اردو زبان میں انگریزی زبان میں مل جائیں گے۔ یہ موازنہ تو تھا انگریزی کا جو ہندوستان پر قابض ہونے سے پہلے عام طور پر ہاف پینٹ (Half Pent) زیب تین کرتی تھی اور جب رقم ہاتھ آئی تو اس کے ہنرمندوں اور سائنسدانوں نے ہینڈلومز کو برقی لومز میں تبدیل کردیا اور کپڑے کی صنعت کو برق رفتار بنادیا ۔جس کو صنعتی انقلاب کا نام دیا گیا اور زبان نے بھی ترقی کی ہر نئے آلے اور مشین کا انگریزی نام تو خود بہ خود ہونا تھا زبان نہایت کمزور مگر اس کو بولنے اور برتنے والے نہایت ہوشیار زبان کی کمزوری کے عالم کی ادنیٰ سی مثال اور ’’د‘‘ اور ’’ڈ‘‘ کا فرق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ میرے نزدیک ’’ڈ‘‘ D یعنی ڈی پر نقطہ ڈال کی آواز نکال سکتا ہے جیساکہ جرمن زبان کی نکتہ دانی ہے۔ اردو زبان دنیا کی واحد خوش قسمت ترین زبان ہے جو تمام مشرقی زبانوں اور انگریزی حکمرانوں کی زیر نگرانی سانچوں میں ڈھل رہی تھی۔

فورٹ ولیم کالج اردو زبان کا کارخانہ اور سب سے بڑھ کر جب یہ زبان ڈھل رہی تھی اس کا سکہ چمک رہا تھا اس وقت، غالب، آتش، حالی، ذوق اردو کے اعزازی ملازم تھے اس زبان کو انیس دبیر، نظیر اور میر تقی میر کی بھٹی نے صیقل کیا یہ وہ عہد تھا جب دنیا میں شاید ہی کہیں یہ یک وقت عہد بہ عہد اتنے عظیم شعرا مسند زبان پہ بیٹھے ہوں جیساکہ مسند اردو پہ جلوہ افروز تھے اسی لیے داغ دہلوی نے یہ نعرہ لگایا۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اردو زبان تقسیم ہند کے بعد تو مسلمان کی زبان بھارت میں قرار دے دی گئی تھی رہی سہی کسر پاکستان نے قائد اعظم کے قول کی نفی کرکے اس کو دفتری زبان بننے سے روک دیا گوکہ اس زبان کے پاس سائنسی تراجم کا ذخیرہ موجود تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے پاس ایم بی بی ایس کے تراجم موجود تھے ۔ میر عثمان علی خان جو نواب دکن تھے انھوں نے سہل، نرم تراجم کرائے تھے اور ثقیل الفاظ کو بے دخل کردیا تھا یہ نہیں کہ انگریزی زبان جہاں زبان میں فنی خرابیاں موجود ہیں مثلاً متضاد معنی آسان سی بات ویل (Well) اچھا، بھلا، کنواں کہاں اچھا بھلا اور کہاں کنواں بالکل متضاد معنی دوسرا لفظ کین (Can) ممکن ہے، ہوسکتا ہے دوسرا معنی کنستر اور ایسے سیکڑوں الفاظ جب کہ اردو زبان اس سقم سے پاک ہے جب کہ اردو زبان کی ایک اور برتری نون غناں یعنی ن میں نقطہ موجود نہیں یہ آواز سر کے لیے اور شاعری کے حسن کو دوبالا کرنے میں اکثیر ہے زبان کے اس حسن کو کیا کہیے گا غالب نے نون غنہ کو دیکھیں کیسے استعمال کیا ہے:

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو

جب کہ انگریزی زبان حروف کی کمزوری کی بنا پر آزاد شاعری پر اس کا انحصار ہے انگریزی زبان میں نصف این یعنی نون غنہ کا کوئی جواب نہیں مگر پھر بھی وہ زبان اردو زبان سے برتر کہلاتی ہے اور ہم اس سے چمٹے پڑے ہیں آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ انگریزی قوم نے اپنے سامراجی عزائم اور آزادی خیال کو الگ الگ استعمال کیا اور اپنی سائنسی ایجادات پر سواری کرکے تمام دنیا میں اپنا لوہا منوالیا ۔چھوٹی سی چیز پریشر کوکر Pressure ، اوون، انجکشن، ٹیسٹ ٹیوب، تھرمامیٹر، بلڈپریشر اور اب کمپیوٹر، سیٹلائٹ، موبائل فون، چپ chip، ڈرون طیارے وغیرہ وغیرہ ۔گزشتہ 500 برسوں سے فرنگی ترقی نے دنیا کی زبانوں میں وہ وار کیا ہے جو غیر ملکی گھس بیٹھیے کرتے ہیں یہاں تک کہ چین کو ایک نئی زبان چنگلش بنانے کا سوچنا پڑا اور ایک کمزور اور بے ترتیب زبان آج دنیا کی بلند پایہ زبان بن گئی ہے۔ ذرا غور کیجیے انگریزی کے حرف “V” وی کو دیکھیے 250 یا 300 الفاظ بنانے کے قابل ہے حرف “W”تقریباً 400 حروف بنانے کی حد سے حد قابلیت رکھتا ہے اور آخری حروف “X” ایکس، “Y” وائی اور “Z” ۔۔۔۔100 الفاظ بنانے سے عاری ہیں اسی طریقے سے درمیانی حروف کے اوزان کیے جائیں تو کوئی ہزاروں پر ہوں گے چند سو سے کم کیونکہ زبان نے بہت سست روی اور بے قاعدگی سے ترقی کی ہے اور قواعد بھی کمزور ہے مگر قوم 13 ویں اور 15 ویں صدی سے اپنے سامراجی ہنر کو استعمال کرنے لگی اور آج وہ نہایت تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ اقوام میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ کم ازکم انھوں نے اپنی قوم کا پیٹ کاٹ کے اپنا گھر نہیں بھرا اپنے عوام سے انصاف کیا، جانفشانی سے کام کیا عالموں کی عزت اور تکریم کی مگر افسوس کہ پاکستان کے کچھ شاعر اور نام نہاد ادیب اکثر ادبی کانفرنسوں میں رومن رسم الخط کے گیت گاتے نظر آتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اب ایس ایم ایس (SMS) کی اکثریت چونکہ رومن میں ہوتی ہے لہٰذا مستقبل قریب میں اردو کا بوریا بستر گول ہونے کو ہے ۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کا تر نوالہ اردو زبان کے ذریعے ہیں ان کا نام دینا مناسب نہیں ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ بھارت کی فلم انڈسٹری آج بھی اردو زبان کی مرہون منت ہے۔ تقریباً 25 فیصد زرکثیر پیدا کر رہی ہے اردو زبان کے شعرا اور ادبا اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں کہاں کی بے تکی باتیں کرتے ہیں یہ لوگ ابھی اس ملک کے 50 فیصد لوگ ترتیب سے اردو کے حروف تہجی نہیں جانتے، رومن ایس ایم ایس کی باتیں کرتے ہیں۔ ترکی میں رومن نے جگہ لی تو ترکی کی تہذیب، تمدن اور ادب کا کیا ہوا ترک زبان اپنے قدیم اثاثے سے محروم ہوگئی اور یورپی یونین نے ہزار کوششوں کے بعد بھی یورپی یونین میں شامل نہ کیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ قومیں لباس، زبان تہذیب چھوڑ کر ترقی کرسکتی ہیں نہ اپنی ثقافت چھوڑ کے اسی لیے جرمن چانسلر جرمن زبان، روسی صدر روسی زبان اور چینی صدر اور کابینہ چینی زبان بولتی ہے ۔کیونکہ وہ اپنا اعزاز سمجھتی ہیں لہٰذا پاکستانی قوم اگر اپنی خودی نہیں پہچانے گی تو ترقی ممکن نہیں اس کا تجربہ ہم 68 برس میں کرچکے مزید کیا تجربات کرنا چاہتے ہیں۔

Urdu vs English

Enhanced by Zemanta

Dusti, Speaker Aur Glass Fellows by Ansar Abbasi


Dusti, Speaker Aur Glass Fellows by Ansar Abbasi    
Enhanced by Zemanta

10 Years of Face Book




10 Years of Face Book

 

Time periodKey developments at Facebook
January 2004-September 2006Facebook gradually enlarges the set of people who are allowed to register, starting from Harvard University only in January 2004, then gradually expanding to more US universities, then moving to international student networks, and finally switching to open registration in September 2006: anybody who is at least 13 and has a valid email address can sign up.
September 2006 onwardEven as Facebook's userbase keeps increasing, the eligibility requirements for Facebook remain largely the same. At some point, Facebook starts allowing people to register with either an email address or a mobile phone, thereby making it possible for people who do not have email addresses to register.

Product and accessibility

Time periodKey developments at Facebook
2005 onward, but largely concentrated September 2006 - September 2009Facebook develops some of the core social infrastructure that would come to define the user experience for many years to come, starting with photos and the ability to tag friends in them (October and December 2005), Facebook's News Feed (September 2006), and them proceeding to Facebook Platform in May 2007, an attempt to get developers to create applications for use within Facebook. The ability to @-tag friends in posts and comments is introduced in September 2009.
Concentrated 2009-2011Facebook works on becoming the "social layer" of the web, with the (now deprecated) name Facebook Connect, that allows Facebook's like buttons to be displayed on external websites, and also allows them to use Facebook for logins.
Concentrated 2012 onward, with some early moves in 2010 and 2011Facebook shifts attention to mobile phones. At the low end of the market, this includes initiatives such as Facebook Zero and Facebook for SIM. At the high end, this includes development and improvement of iOS and Android apps, as well as initiatives such as Facebook Home and Facebook Paper (the latter, in January 2014, is the first product of Facebook Creative Labs, Facebook's in-house initiative for small teams to work on standalone mobile apps). Facebook also acquires a number of mobile-focused companies, such as Instagram, and fails to acquire Snapchat.
Late 2011 onwardFacebook reimagines some of its core infrastructure, replacing the profile and wall with the new Timeline, and replacing search with Facebook Graph Search. A plan to significantly redesign the News Feed, announced March 2013, is abandoned a few months later.
2013 onwardFacebook moves more aggressively into Twitter territory: it launches support for hashtags and hashtag-based search, and also introduces trending topics.
Enhanced by Zemanta

Poor People, Big Achievements



Poor People, Big Achievements
Enhanced by Zemanta

Remember Khan Abdul Wali Khan By Ajmal Khattak


 Remember Wali Khan By Ajmal Khatak

Enhanced by Zemanta

Reality of Jamat-e-Islami


 
Reality of Jamat-e-Islami
Enhanced by Zemanta