Nawab Khair Bakhsh Marri (Balochi: نواب خیر بخش مری) was a politician from Balochistan, Pakistan. He has been leading a militant group Baloch Liberation Army (BLA) in Baluchistan for the past four decades. He is also the head of his powerful Marri tribe. In 1989, the Pakistan Peoples Party government in Islamabad was already anticipating the fall of Najibullah's PDPA government and had set up a government of the mujahideen in exile in Peshawar.
ایسا تو تاریخ میں کم ہی ہوا ہوگا کہ کسی قوم کی پوری قیادت اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے آمادہ ہوجائے اور انہیں ایسا کرنے سے روکنے والوں کو نشانۂ تنقید و استہزا بنادیا جائے۔ آج پاکستان کی پوری سیاسی قیادت شمالی وزیرستان پر فوجی حملے کی حامی ہے۔ مسلم لیگ ن تو صاحبِ اقتدار ہے اور فوجی آپریشن کا فیصلہ اسی کا ہے۔ لیکن دیگر تمام سیاسی قوتیں بھی فوجی آپریشن کے نکتے پر حکومت ہی کی صف میں کھڑی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والے آخر امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سید منورحسن کے سوالوں کے جوابات کیوں نہیں دیتے؟
آپریشن کا فیصلہ کرنے والوں سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے آج تک آخر کیا حاصل کیا گیا ہے؟ دور نہ جائیں صرف 1971ء کے مشرقی پاکستان کے آپریشن سے بات شروع کرلی جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا ان تمام فوجی آپریشنوں سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرلیے گئے؟ 1971ء کا فوجی آپریشن پاکستان کے سقوط پر منتج ہوا۔ بلاشبہ سقوط مشرقی پاکستان کے دیگر عوامل بھی رہے ہوں گے، لیکن اُس وقت فوجی آپریشن کا فیصلہ حالات کو سدھارنے کے لیے ایک اہم حکمت عملی تھی۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بڑھنے والی بغاوت کی تحریک نے پاک فوج کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے سامنے ہزیمت سے دوچار کیا اور ملک کا مشرقی بازو ہم سے کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔ آج کے حالات میں فوجی آپریشن کا کوئی بھی حامی، مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن سے برآمد ہونے والے ہولناک نتیجے کو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں شمار نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ مشرقی پاکستان میں کیا گیا فوجی آپریشن اپنے نتائج کے حصول (یعنی پاکستان کو ایک اکائی رکھنے) میں ناکام رہا۔ اور وہ ایک ناکام فوجی آپریشن تھا۔
بھٹو صاحب نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 1971ء کے مشرقی پاکستان کے ناکام فوجی آپریشن کے فقط دو سال بعد بھٹو صاحب نے بلوچستان کی حکومت تحلیل کرتے ہوئے بلوچستان پر فوج کشی کا اعلان کردیا۔ چار سال جاری رہنے والا آپریشن بھٹو صاحب کی حکومت کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔ لیکن اس آپریشن کے نتیجے میں وفاق پاکستان کے خلاف پیدا ہونے والی بداعتمادی کی تلخی آج تک مری اور مینگل قبائل کے رویوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔
2006ء میں بلوچستان میں شروع ہونے والا فوجی آپریشن جنرل پرویزمشرف کے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں آج کا بلوچستان ایک ایسا رستا ہوا ناسور بن چکا ہے جس کا علاج نہ تو سول حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی آپریشن کرنے والوں کے پاس۔ آپریشن میں ملک دشمن قوتوں نے کھل کر کھیل کھیلا ہے اور بقول سربراہ فرنٹیئر کانسٹیبلری بیس سے زائد غیرملکی خفیہ ایجنسیاں صوبے میں موجود ہیں اور صورت حال کے بگاڑ کی ذمہ دار ہیں۔ فوجی آپریشن پر پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کا تجزیہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’جنرل مشرف کا بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ایک بھیانک غلطی تھی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’نواب اکبر بگٹی بلوچستان میں وفاق کی علامت کے طور پر موجود تھے، ان کے دل میں پاکستان آرمی کے لیے احترام موجود تھا اور وہ بلوچستان اور وفاق کے درمیان ربط کا ذریعہ تھے۔ نواب اکبر بگٹی کا قتل پاکستان کے خلاف جرم ہے۔‘‘
پھر سوات آپریشن بھی جس کی کامیابی کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا گیا، سب کے سامنے موجود ہے۔ 2009ء میں شروع ہونے والا یہ آپریشن کہنے کو ختم ہوچکا ہے، لیکن تاحال آزاد میڈیا کا داخلہ وہاں ممنوع ہے۔ فوجی آپریشن کی کامیابی کے بعد علاقہ کا انتظام سول انتظامیہ کے حوالے ہوجانا چاہیے تھا، لیکن آخری اطلاعات یہ ہیں کہ وہاں سے فوج کی واپسی کی فی الحال کوئی تیاری نہیں بلکہ نوازشریف صاحب نے اپنے دورۂ سوات کے دوران وہاں مستقل فوجی چھائونی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔
کراچی کے دو آپریشن بھی ہمارے سامنے ہیں۔ پہلے آپریشن کا نتیجہ یہ ہے کہ آپریشن میں شریک تمام ہی پولیس آفیسر ایک ایک کرکے قتل کیے جا چکے ہیں اور شہر میں پچھلے پانچ برسوں میں 7000 سے زائد لوگ قتل کیے گئے ہیں۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیاں عام ہیں اور عوام کاجینا دوبھر ہے۔ اس پس منظر میں کراچی کی تاریخ کا دوسرا آپریشن کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں اہم کردار رینجرز کا ہے۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی کے مسلح گروپوں کی شہر میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو روکنے کے لیے شروع کیا جانے والا یہ آپریشن آج اس حال میں ہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے یہ لکھا ہے کہ ایک تہائی کراچی طالبان کے کنٹرول میں ہے جہاں ان ہی کا سکہ چلتا ہے اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ بھی اس خبر پر یقین رکھتے ہیں۔ کراچی کے شہریوں سے پوچھیے تو پتا چلے گا کہ نہ تو ٹارگٹ کلنگ کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری بند ہوئی ہے اور نہ ہی بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار میں کوئی فرق پڑا ہے۔ سیاسی تنظیموں کے مسلح جتھے آج بھی موجود ہیں اور آپریشن بھی جاری ہے۔ عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ رینجرز کی طرف سے ہر روز ٹارگٹ کلرز پکڑے جانے کے دعووں میں کیا صداقت ہے اور آخر اس آپریشن کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے!
ملک کی سیاسی قیادت کے ذمہ سید منور حسن کے اس سوال کا جواب قرض ہے کہ ناکام فوجی آپریشنوں کی تاریخ رکھنے والا پاکستان کیا ایک اور ناکام فوجی آپریشن کا متحمل ہوسکتا ہے؟
سید منور حسن نے ملک کی سیاسی قیادت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی ہے کہ پاکستان کی پختون آبادی اور اس سے ملحقہ افغانستان کی آبادی تاریخی طور پر استعمار دشمن رہی ہے۔ برطانوی سامراج یہاں اپنا قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔ روس نے افغانستان میں اگر ہزیمت اٹھائی تو اس کی وجہ افغانوں اور پاکستان کے غیرت مند پختون عوام کی اسلام دوستی اور حریت پسندی تھی۔ اور اب اگر پچھلے گیارہ برسوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے سر پھوڑ رہے ہیں اور دنیا بھر کے تجزیہ کار اسے امریکی شکست سے تعبیر کررہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ بھی پاکستان و افغانستان کے غیرت مند پختون عوام کا جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔ تاریخی طور پر افغانستان اور پاکستان کے یہ غیور مسلمان کبھی بھی اسلام دشمن قوتوں کے آلۂ کار نہیں بنے۔ غوری و غزنوی سے لے کر سیاف، گلبدین حکمت یار اور اب ملا عمر تک کوئی بھی مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف کبھی کھڑا نہیں ہوا۔ بلکہ ان سب کی موجودگی اسلام کی سربلندی اور افتخار کا سبب رہی ہے۔ ایسے میں کچھ ناراض عناصر اور کچھ شرپسند گروہوں کی موجودگی کو بنیاد بناکر فوجی آپریشن شروع کردینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ ایسا آپریشن جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو برے حالوں میں نقل مکانی کرنا پڑے گی، ناحق لوگوں کا خون ہوگا، بے گناہ افراد بھی لپیٹ میں لیے جائیں گے جہاں وہ پوچھ گچھ کے تکلیف دہ مراحل سے گزریں گے، اور یوں ملک اور پاک فوج سے ناراض لوگوں کی فہرست میں لاکھوں پاکستانیوں کا مزید اضافہ ہوجائے گا۔
سید منورحسن کا کہنا یہی ہے کہ ان کی فوجی آپریشن کی مخالفت دراصل فوج کی حمایت ہے، کیونکہ اس طرح وہ فوج کو ملک کے ایک اور علاقہ میں غیر مقبولیت سے بچانا چاہتے ہیں۔
امریکہ اپنی ہاری ہوئی جنگ پاکستان کے سر ڈال کر جانا چاہتا ہے۔ یعنی امریکہ کی موجودگی ہی میں استعمار دشمن افغانی اور پاکستانی پختون عوام پاکستان دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جائیں کہ امریکہ کے جانے کے بعد پاکستانی فوج امریکہ کی جگہ اُن سے ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی لڑتی رہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کے خلاف افغانستان سے ملحقہ پاکستانی پختون آبادی میں جس نفرت کی ضرورت ہے وہ فی الحال موجود نہیں۔ چنانچہ اس کا حل وہی ڈھونڈا گیا ہے جو مشرقی پاکستان میں آزمایا جا چکا ہے، یعنی فوجی آپریشن۔ عوام اور فوجی جوانوں کی جانیں بلاشبہ قیمتی ہیں لیکن جذبۂ جہاد سے معمور لاکھوں فرزندانِ توحید کو پاکستان سے دشمنی کی طرف دھکیل دینا انتہائی ناعاقبت اندیشی ہوگی۔
خبریں کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں۔ میر علی میں گزشتہ ہفتہ ہونے والے قبائلی جرگہ کی تفصیلات اخبارات میں آگئی ہیں جس میں عثمان زئی اور دیگر قبائل نے یہ طے کیا ہے کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں اگر وہاں کے عوام کو ہجرت کرنا پڑی تو وہ اِس دفعہ افغانستان کی طرف ہجرت کریں گے جہاں کی حکومت کم از کم ڈرون سے تو اپنے عوام کو بچاتی ہے۔
سید منور حسن کو اپنوں اور غیروں سے گاہے بگاہے یہ بھی سننے کو ملتا رہا ہے کہ طالبان اور جماعت کے طریقہ انقلاب میں بڑا فرق ہے۔ طالبان دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ جماعت اسلامی امت کے تصور کو لے کر زندہ ہے۔ ایسے میں طالبان کی حمایت میں سید منورحسن کا مستقل اصرار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مفاداتی سیاست اور امریکی زور اور زبردستی کے اِس دور میں لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص یا گروہ فقط سچ کے لیے پوری دنیا کے سامنے تنہا بھی کھڑا ہوسکتا ہے، خاص طور پر ایسے میں کہ جب سچ کی یہ گواہی بظاہر رائیگاں ہی جاتی نظر آرہی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ سچ کی مار کہاں تک پہنچتی اور اثر دکھاتی ہے۔ سید منور حسن کا کام دنیا کے سامنے سچ کو آشکار کرنا اور اس کے اوپر استقامت کے ساتھ جم جانا ہے۔
نوٹک بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار کے نزدیک ایک غیر آباد علاقہ ہے۔16 جنوری کو اس علاقے میں جانے والے چرواہے کو زمین میں دبی ہوئی ایک لاش کے اعضاء نظر آئے۔ اس نے لوگوں کو اطلاع دی، معاملہ حکام تک پہنچ گیا، یہ افواہیں پھیل گئیں کہ گزشتہ چند سال کے دوران اغواء ہونے والے سیاسی کارکنوں کو قتل کر کے دفن کر دیا گیا ہے۔ فیس بک پر رائے دینے والے کارکنوں نے 130 لاشوں کی دستیابی کا دعویٰ کیا، بلوچستان کی حکومت نے 13 لاشوں کے ملنے کی تصدیق کی۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ان لاشوں کے ملنے کی خبریں شایع ہوئیں مگر وفاقی حکومت نے اس بارے میں توجہ نہیں دی۔ لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے تحریک چلانے والے ایک کارکن نصیر اﷲ بلوچ نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کر دی۔
چیف جسٹس تصدق جیلانی نے ازخود اختیار Suomoto کے تحت معاملے کی سنگینی کا نوٹس لیا تو ڈپٹی کمشنر خضدار کو سپریم کورٹ میں پیش ہونا پڑا اور سرکاری طور پر یہ بات تسلیم کی گئی کہ 17 جنوری کو چرواہوں کی اطلاع پر نوٹک کے علاقے میں کھدائی کے دوران 13 لاشیں برآمد کی گئیں۔ بلوچستان حکومت نے ان لاشوں کے بارے میں تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل ٹریبونل قائم کیا ہے۔ نصیر اﷲ بلوچ کا کہنا ہے کہ 3 لاشوں کی شناخت ہو چکی ہے اور یہ وہ بدقسمت سیاسی کارکن ہیں جن کا تعلق آواران سے تھا اور وہ گزشتہ سال لاپتہ ہوئے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملات پر تحقیق کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ 2000ء سے ریاستی اہلکاروں نے سیاسی کارکنوں کو حراست میں لینا شروع کیا تھا، ان لوگوں کو خفیہ سیف ہاؤس میں برسوں قید رکھا جاتا تھا، ان میں سے کچھ لوگ رہا ہوئے، جن میں سے کچھ ذہنی طور پر مفلوج ہوئے، کچھ نے سیاست چھوڑ دی، کچھ ایجنسیوں کے مخبر بن گئے، باقی اغوا ہونے والے افراد کا پتہ نہیں چل سکا۔
2008ء میں پیپلز پارٹی کی وفاق اور بلوچستان میں حکومتوں کے بننے کے بعد بہت سے لاپتہ افراد رہا ہوئے۔ جب دوسرے صوبوں سے آ کر آباد ہونے والے اساتذہ، صحافیوں، انجینئروں، پولیس اور انتظامی افسروں، ڈاکٹروں، حجاموں، دکانداروں کو ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک کیا جانے لگا تو پھر لاپتہ ہونے والے افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔جنرل پرویز مشرف کے حامیوں میں شمار ہونے والے ایک سردار کے بیٹے کی سربراہی میں لشکر اسلام نامی تنظیم قائم کی گئی، اس تنظیم نے ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ دوسری طرف قوم پرست کارکنوں کو اغواء کر کے قتل کیا جانے لگا۔ نوٹک کے علاقے میں بھی اس تنظیم کا کیمپ تھا۔ گزشتہ مہینے جب مستونگ میں ہزارہ برادری کے زائرین کی بس کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا اور بہت سے زائرین شہید ہوئے تو ہزارہ برادری نے کوئٹہ میں دھرنا دیا۔ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم ہوئی، اس کمیٹی نے ان کیمپوں کی نشاندہی کی۔ کسی ذریعے نے نوٹک میں قائم کیمپ کے نگرانوں کو بتا دیا، یہ کیمپ منتقل ہوا مگر لاشیں چھوڑ گیا۔ سیاسی کارکنوں کا اغوا اور پھر ان کا قتل ایک بھیانک صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ جب اسلام آباد میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی تضادات کے خاتمے کا فیصلہ کیا، نیشنل پارٹی اور ملی یکجہتی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی، اس طرح تاریخ میں پہلی دفعہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک بلوچ وزیر اعلیٰ بنے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی واضح کیا کہ پورے بلوچستان پر صوبائی حکومت کی بالادستی سے ہی صوبے میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے اور سیاسی تنازعات حل ہو سکتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے قائد میر حاصل بزنجو نے یہ واضح اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت کی پہلی ترجیح لاپتہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا ہے، مگر ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت کو ہر طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال سیکیورٹی فورسزنے کالجوں اور کوچنگ سینٹروں پر چھاپے مارے اور ملک دشمن کتابوں کی برآمد کا دعویٰ کیا، ان میں سے بیشتر کتابیں مشہور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کی ہیں جو سماج کے ارتقاء، تاریخ کے مختلف ادوار اور روشن خیالی کی تحریکوں سے متعلق ہیں، اس طرح مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو، نیلسن منڈیلا وغیرہ کی سوانح عمری تھیں، یہ کتابیں ملک کی تمام جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ یہ ساری کارروائی صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر ہوئی، صوبائی حکومت کی منظوری کے بغیر نوجوانوں کو مطالعے کی سزا دینے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح لاپتہ افراد کے معاملے پر صوبائی حکومت کے احکامات کی پابندی کرنے پر کوئی وفاقی ادارہ تیار نہیں۔
دوسری طرف بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے بم دھماکوں اور ہتھیاروں کے استعمال سے صوبائی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سینیٹر حاصل بزنجو ایک مثبت سوچ رکھنے والے سیاستدان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے واضح احکامات جاری کیے ہیں کہ لاپتہ افراد کو ماورائے عدالت ہلاک نہیں کیا جائے گا، مگر جب تک تمام لاپتہ افراد رہا نہیں ہوجاتے اس وقت تک صورتحال معمول پر نہیں آئے گی۔ بلوچستان حکومت نے نوٹک میں ملنے والی لاشوں کے معاملات کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ٹریبونل کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری مسلسل لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کی کوشش کرتے رہے مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا، یوں ایک جج پر مشتمل ٹریبونل کو بااثر ادارے کسی صورت اہمیت نہیں دیں گے اور ایک دفعہ پھر امتحان وزیر اعظم نواز شریف کا ہے، وہ مقتدر حلقوں کو اس بات پر تیار کریں کہ تمام لاپتہ افراد حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں اور پورے بلوچستان پر صوبائی حکومت کی عملداری ہو تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ گمشدہ سیاسی کارکنوں کے قتل کے مستقبل میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔
جاسوسی ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ اپنے پیاروں کی تلاش اور ان کی رہائی کیلئے دنیا کی تاریخ میں ایک بڑا لانگ مارچ کوئٹہ سے اسلام آباد دو ہزار میل مسافت پا پیادہ طے کرنے والے ماما قدیر اور ان کے ساتھی مرد و خواتین کے منہ پر موجودہ نواز شریف حکومت کی طرف سے متعارف کردہ پی پی او یعنی پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس (ترمیم شدہ) ایک طمانچہ ہے۔ اس آرڈیننس یا انتہائی ظالمانہ قانون میں لاپتہ لوگوں کی غیر قانونی و غیر آئینی نظربندی کو قانونی و آئینی بنانے اور اب تک ہونے والی ماورائے آئین و قانون بلکہ ماورائے عالمی قوانین و خلاف انسانیت جرم کے زمرے میں آنے والی گمشدگيوں اور ان کے ذمہ دار اداروں، اہلکاروں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ماورائے پاکستانی آئین و قوانین خواہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں اور خلاف انسانیت جرائم کے زمرے میں آنے والا یہ نام نہاد تحفظ پاکستان آرڈیننس ان گمشدہ پاکستانی شہریوں اور ان کی گمشدگی پر ان کی مائوں بہنوں کے آنسوئوں، مردہ جسموں اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں واپس ہونے والے بلوچوں و دیگر لاپتہ لوگوں پر ریاست کی سفاکی کا فسطائی قہقہہ ہے۔
ایک آمر کے پروردہ حکمرانوں سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں پاکستان کے لوگو! کیا آپ واقعی سنجیدگی اور یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ ظالمانہ قانون واقعی پاکستان کا تحفظ کر سکے گا یا اس کے شکار لوگوں کو پاکستان سے اور زیادہ بیزار و دور کردے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائرڈ ہونے کی دیر تھی اور خود کو اسپتال میں دل کے درد میں داخل کرانے والا ایف سی کا ڈی جی بھی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اٹھ آیا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل آئین و قانون کی حدود میں نہیں ماورائے ائین و قانون ریاستی رٹ میں ہے۔ایف سی کے سربراہ کے ایسے بیان کے چوبیس گھنٹوں بعد ایوان صدر سے ریاستی و سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں لوگوں کی گمشدگيوں کے تحفظ کا آرڈیننس نافذ کردیا گیا۔ پاکستان کے شہریوں کو قانون و ریاست کے رکھوالوں کے ہاتھوں ڈاکوئوں کی طرح اغوا اور اغواکاروں کے تحفظ کو بدقسمتی سے پاکستان کے تحفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ملک کے بانی کے اصولوں اور افکار سے بھی مذاق ہے جنہوں نے کہا تھا ’’پاکستان کے اندر کسی بھی شخص کو عدالت قانون سے رجوع کئے بغیر ایک سیکنڈ کیلئے بھی نظربند یا قید نہیں رکھا جا سکتا‘‘۔
نیز یہاں تحفظ پاکستان کے نام پر کسی بھی شخص کو ریاستی و سیکورٹی ادارے تین ماہ تک کسی بھی عدالت سے رجوع کئے بغیر قید رکھ سکتے ہیں اور اٹھائے جانے والے شخص کی قید کی جگہ خفیہ ہو گی۔ جیسے اب تک ہزاروں گمشدہ لوگوں کی برسوں سے گمشدگیوں کے مقامات اور گم کردہ ادارے معلوم ہوتے ہوئے بھی نامعلوم بتائےجاتے ہیں۔راتوں کو ان کی چیخیں کہیں چڑیا گھروں کے جانور بھی سنتے ہیں۔تحفظ پاکستان آرڈیننس ایسے بدنام زمانہ قوانین کا تسلسل ہے جب پاکستان ڈیفنس رولز یا ڈی پی ار ذوالفقار علی بھٹو سمیت پاکستان میں اس کے پیشروئوں اور اس سے قبل غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی استعماری حکومت نے نافذ کئے تھے جن کے تحت خان عبدالغفار اور جی ایم سید سمیت وقت کی حکومتوں کے ہزاروں سیاسی مخالفین قید کئے جاتے رہے تھے۔
حبیب جالب کی نظمیں شوق کے ساتھ لیکن غلط انداز میں پڑھنے والے حکمران کبھی حبیب جالب کی ان سطروں کو بھی اپنے ضمیر کے ترازو میں تول لیتے:
تم سے پہلے جو یہاں ایک شخص تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
اس سے قبل جب سے ملک بنا تو حکمرانوں نے چوراچکوں، غنڈوں، بدمعاشوں کو کم اور اپنے سیاسی مخالفین کو کبھی پبلک سیفٹی ایکٹ، تو کبھی کرائم کنٹرول ایکٹ، تو کبھی فرنٹیئر ایکٹ، تو کبھی کرمنل ٹرائبز ایکٹ، تو کبھی ڈیفنس آف پاکستان میں قید رکھا۔ برسبیل تذکرہ آزادی کے ابتدائی سالوں میں ہزاروں سالوں سے سندھ کے جم پل سیکڑوں معزز ہندو شہریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند رکھ کر ان کی آزادی فقط بھارت نقل مکانی کرنے پر عمل میں لائی گئی تھی۔ وہ درویش منش سادھو واسوانی بھی جس نے جناح صاحب کے فوت ہونے پر برت یعنی روزہ رکھا تھا اور قرآن کی تلاوت کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے اسّی سال کی عمر سے زائد کے بزرگ ہندو شہری اور حیدرآباد دیال داس کلب کے صدر کو کسی ذاتی رنجش اور غلط سی آئی ڈی رپورٹوں پر ڈیفنس اف پاکستان رولز کے تحت نظربند رکھا۔ آپ فوجی آمر ضیاء کو کچھ بھی کہیں لیکن اس نے بغض معاویہ میں ہی سہی ڈیفنس آف پاکستان رولز ختم کرتے ہوئے سیکڑوں سیاسی قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ آج اس کی باقیات نے ہزاروں نہیں تو سیکڑوں بلوچوں سمیت دیکر گمشدگان کو غائب رکھا ہوا ہے۔ حال ہی میں مستونگ کے قریب دہشت گرد حملوں میں نیویارک میں رہنے والی نوجوان ہزارہ خاتون سماجی ورکر شازیہ کا پولیس والا بھائی بھی شامل تھا جو اپنے دوسرے ساتھی پولیس والوں کے ساتھ حملہ آور کے خلاف زائرین کی حفاظت کرتے قتل ہوا۔ یہ دکھی بہن کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی نسل کشی سے بھاگ کر ترک وطن پر مجبور ہوئی۔
ان قاتل جتھوں پر تحفظ پاکستان آرڈیننس کا اطلاق کیا ہوا۔
یہ تو وہ حکمران ہیں جنہوں نے سندھ میں ٹنڈو بہاول میں وردی والوں کے ہاتھوں ہلاک کئے جانے والے نو ہاریوں کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا تھا- اب اغوا کئے جانے والوں میں جب اغوا ہوئے تو مائوں کے ساتھ شیر خوار بچوں کو بھی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نام پر غیر معینہ مدت تک زیر قید و تشدد رکھا جائے گا۔ ابھی پی پی او یا تحفظ پاکستان آرڈیننس جیسے قانون پر صدر ممنون حسین کے دستخطوں کی سیاہی ہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بلوچستان کے خضدار علاقے توتک جہاں اسٹیبلشمنٹ حامی مسلح جتھوں بمشمول شفیق مینگل گروپ کی دہشت قائم ہے وہاں سے اجتماعی قبر برآمد ہوئی ہے جہاں پندرہ کے قریب تاحال گمنام مسخ شدہ لاشوں کو ایک جگہ دفن کردیا گیا تھا۔ زیادہ تر قیاس آرائی یہ کی جارہی ہے کہ یہ اجتماعی قبر میں دفن کی گئی لاشیں گمشدہ بلوچ قوم پرستوں یا علیحدگی پسندوں کی ہوسکتی ہيں۔ اگرچہ آزاد ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے لیکن سرکاری یا غیر سرکاری طور ، علاقے کے صحافی ( وہ علاقہ جہاں صحافی رپورٹنگ پر قتل کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ہوں کہ شدت پسند مسلح علیحدگی پسندوں یا اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ قاتل جتھوں کے ہاتھوں) اجتماعی قبر اور اس میں دفن کی گئی پندرہ لاشوں کی دریافت کے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کے حوالے سے بھی تصدیق کرتے ہیں۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز والے ان برآمد ہونے والی پندرہ لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ اقوام متحدہ کے زیر انتظام کرانے کا مطالبہ کرتے سنے جاتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوا ہے جب بلوچستان میں بے بس ڈاکٹر مالک کی حکومت شورش زدہ صوبے میں اسٹیبلشمنٹ نواز مسلح جتھوں کو غیر مسلح کرنے کی باتیں کر رہی تھی۔
ظاہر ہے کہ اجتماعی قبروں میں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں سے پاکستان کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ایسا ماضی میں کبھی ممکن ہوسکا نہ افغانستان میں ، نہ عراق و شام میں نہ ہی کشمیر اور کمبوڈیا میں جہاں بھی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں۔بلوچوں کی مسخ شدہ اجتماعی قبروں کی برآمدگی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو معاملے کی تحقیقات اور اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے مداخلت کے مطالبے کی پٹیشن پر پاکستان کے دیگر صوبوں میں روشن خیال اور امن دوست لوگوں نے بھی دستخط کئے ہیں جن کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی اور زبانوں و خیالات سے ہے۔
’’جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان گیا‘‘ اگر حبیب جالب آج ہوتے تو پنجاب میں ماما قدیر کے پیدل مارچ میں ہمقدم ہوکر اپنی ایسی نظمیں پڑھ رہے ہوتے۔
لیکن تخت لاہور کی بےرحم اکثریت والی حکومت سے نام نہاد چھوٹے صوبوں اور قومیتوں کو انصاف کی توقع تاحال حسب ماضی عبث ثابت ہوئی ہے۔ وہ صرف زرداری کے ساتھ میوزیکل چیئر میں واری وٹے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کتنے سندھی اور شیعہ عقیدے کے لوگ حکمران پارٹی کی قیادت میں شامل رہ گئے ہیں؟ کتنے ہزارے ہیں۔بلوچ اپنی سرزمین پر جلاوطن ہیں۔ جس کی ایک مثال ڈیرہ موڑ کشمور کے قریب بگٹی قبائل کے مرد عورتیں اور بچے سردی میں ٹھٹھرتے اپنے گھروں کو ڈیرہ بگٹی جانے کو بیتابی سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ یہاں کوئی طاہر القادری نہیں تو میڈیا کی بھی کوئی کوریج نہیں۔