Showing posts with label United States. Show all posts

دنیا کا مطلوب ترین انسان ....World Most Wanted Man


یہ پچھلے سال ماہ جون کی بات ہے، پاکستانیوں نے عالم حیرت و پریشانی میں یہ خبر سنی کہ امریکی حکومت دنیائے نیٹ پر وسیع پیمانے پر ان کی جاسوسی کررہی ہے۔جو پاکستانی گوگل، سکائی پی، ایم ایس این براؤزر، یاہو، ایپل وغیرہ استعمال کرتا، وہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ریڈار میں آجاتا۔ تب ایجنسیاں مسلسل باخبر رہتیں کہ فلاں پاکستانی نیٹ یا موبائل پر کس سے ملاقاتیں اور باتیں کررہا ہے،کن ویب سائٹوں پر جارہا ہے اور اس کی کیا سرگرمیاں ہیں۔

امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستانیوں ہی نہیں بھارتیوں، ایرانیوں، روسیوں درحقیقت دنیائے نیٹ پر ہر قومیت کے باشندوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں اور کسی کو علم نہ تھا کہ ’’بگ برادر‘‘ خفیہ طور پر اس کی سرگرمیاں نوٹ کررہا ہے۔ تقریباً 1949ء میں مشہور امریکی ادیب، جارج اورویل نے اپنے ناول ’’1984‘‘ میں جس عالمی آمرانہ و استبدانہ حکومت کا تصور پیش کیا تھا، دور حاضر میں امریکی حکمران طبقہ اسے شدومد سے اپنا چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر میں عوام و خواص کی ٹوہ میں لگی امریکی حکومت کے ’’کارنامے‘‘ گھر کے بھیدی ایڈورڈ سنوڈن ہی نے افشا کیے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں… سنوڈن کا شمار دنیا کے بہادر ترین انسانوں میں ہونا چاہیے۔مئی 2013ء تک سنوڈن سی آئی اے کی نہایت پُرکشش اور مراعات سے بھر پور ملازمت کررہا تھا۔

اسے دنیا کی ہر آسائش میسر تھی۔ لیکن جب ضمیر نے تہیہ کرلیا کہ وہ اپنی حکومت کا ظلم و ستم سامنے لائے گا، تو سنوڈن نے عیش و عشرت والی اپنی زندگی کو لات مار دی۔ پاکستانیوں سمیت امریکی چیرہ دستیوں کا شکار ہر قوم کو سنوڈن کی قربانیوں پر اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ آمروں سے ٹکر ہر کوئی نہیں لے سکتا، اس کے لیے ہمت و قربانی دینے کا جذبہ درکار ہوتا ہے۔
اب بیچارا اسنوڈن پچھلے ایک برس سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا ہے۔ روس نے اسے پناہ دے رکھی ہے، مگر امریکی جاسوس شکاری کتوں کی مانند اس کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ بعید نہیںکہ اسرائیلی جاسوس جس طرح 1960ء میں جرمن فوجی افسر، ایڈلف ایخمان کو ارجنٹائن سے اغوا کر لائے تھے، اسی طرح سی آئی اے بھی سنوڈن کو روس میں دبوچے اور امریکا لے آئے۔ امریکی حکومت اسے ’’غدار‘‘ قرار دے چکی اور غداری کی سزا موت ہے۔

ایڈورڈ سنوڈن ایک شرمیلا، بھیڑبھاڑ سے دور رہنے والا نوجوان ہے۔ اسے اپنی تشہیر بھی پسند نہیں، اسی لیے دنیا والے کم ہی جانتے ہیں کہ سنوڈن نے دنیا کی اکلوتی سپرپاور سے کیوں ٹکر لی اور اپنی جان خطرے میں ڈال دی؟ یہی اہم سوالات جاننے کی خاطر اس ماہ اگست میں مشہور امریکی انویسٹیگیٹو صحافی، جیمز بامفورڈ ماسکو پہنچا۔ وہ پچھلے نو ماہ سے کوششیں کررہا تھا کہ کسی طرح سنوڈن سے انٹرویو ہوسکے۔

وہ لکھتا ہے 
  
جب سنوڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ قومی راز چرا کر فرار ہوا اور روسیوں نے اسے پناہ دی، تو امریکا میں اکثر لوگ یہی سمجھنے لگے کہ وہ روس کا ایجنٹ تھا۔ تاہم یہ الزام محض افواہ ہے۔آج ایڈورڈ سنوڈن کسی ملک کا شہری نہیں اور صرف میڈیا میں ہی اس کا چرچا سننے کو ملتا ہے… بہت کم لوگ اس سے ملاقات کرپاتے ہیں ۔ اس سے بھی کم لوگوں کو علم ہے کہ وہ رہتا کہاں ہے۔ تاہم وہ دنیا بھر میں جمہوریت، شخصی آزادی اور امن سے محبت کرنے والے کروڑوں انسانوں کا محبوب ہیرو بن چکا ہے۔‘‘
حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی ’’سنوڈن سیل‘‘ قائم ہوچکا ہے۔ اس خفیہ سیل سے سی آئی اے، ایف بی اے، این ایس اے اور دیگر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ افسر وابستہ ہیں۔ یہ افسر روزانہ میٹنگیں کرتے اور ایسی راہیں ڈھونڈتے ہیں جن سے سنوڈن کو قابو کیا جاسکے۔

تاہم امریکی پہلے کی مانند اتنے طاقتور نہیں رہے کہ روس میں اس کی سن گن لیتے پھریں… خصوصاً ایسے وقت میں کہ روس اور امریکا کے درمیان دوبارہ سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔
ایڈورڈ سنوڈن ماسکو میں ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بھیس بدل کر دکانوں میں خریداری کرتا اور گھومتا پھرتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی روسی بول لیتا ہے۔ بہت کم سیل فون اور کمپیوٹر استعمال کرتا ہے کیونکہ امریکی خفیہ ایجنسی، این ایس اے(National Security Agency) کے ماہرین ایسے جدید آلات ایجاد کرچکے جو بند کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون کے مائیکروفون بھی آن کر دیتے ہیں۔

جب سنوڈن نے پاکستانیوں کو خبردار کیا کہ ان کی پرائیویسی ملیامیٹ ہورہی ہے  تو وہ صرف 29 سال کا تھا۔ اب وہ 31 سال کا ہوچکا اور اس کے نظریات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔ کہتا ہے: ’’میں نے جب دیکھا کہ میری حکومت شخصی آزادی پامال کررہی ہے، تو میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ اگر غلط کام کی نشاندہی کرنا جرم ہے، تو میں اس کی سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ مجھے اپنے سے زیادہ ملک و قوم کی پرواہ ہے۔ لیکن میں یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتا کہ حکومت قانون کو سیاسی ہتھیار بنالے اور اس سے عوام کو ڈرائے دھمکائے تاکہ وہ اپنے حقوق کی خاطر کھڑے نہ ہوسکیں۔ میں اس جرم میں شریک کار نہیں بن سکتا۔ 

سنوڈن نے امریکی حکومت کے جو قومی راز انٹیلی جنس خزانے سے اڑائے، اب اس کے پاس نہیں، وہ انہیں روس نہیں لاسکا۔ یہ راز اب تین گروہوں کے پاس ہیں: اول لُک میڈیا جس کے کرتا دھرتا امریکی صحافی گلین گرین اور لارا پوئٹرس ہیں۔ دوم برطانوی اخبار گارڈین اور سوم امریکی صحافی بارٹن گیلمان۔ تاہم امریکا میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کے ذریعے امریکی حکومت ان گروہوں سے زبردستی اپنے راز واپس لے سکے۔

یہی وجہ ہے، امریکی حکمران طبقہ مسلسل متوحش رہتا ہے۔ خوف کے مارے اس کے بال کھڑے رہتے ہیں، اسے کچھ خبر نہیں کہ کب اگلے انکشافات کا سلسلہ شروع ہوجائے جو اقوام عالم میں امریکی حکومت کی مزید جگ ہنسائی و بے عزتی کر ڈالے۔ چنانچہ وہ حملے کا سامنے کرنے کی خاطر ہر لمحہ چوکنا رہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سنوڈن کی یہ خواہش ہرگز نہیں تھی کہ اس کی وجہ سے امریکی حکومت ٹینشن میں آجائے۔ سنوڈن نے دراصل جس خفیہ دستاویز کی نقول حاصل کیں، وہاں ڈیجیٹل نشان چھوڑ دیئے۔ مدعا امریکی حکومت کو یہ بتانا تھا کہ فلاں فائل اس نے نقل کی ہے اور اسے چوم کر چھوڑ دیا۔
یوں سنوڈن انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ محض وسل بلوئر ہے…خلاف قانون و اخلاق کام ہونے پر انتباہی گھنٹی بجانے والا ایک باضمیر انسان! وہ کسی غیر ملک کا گماشتہ یا جاسوس نہیں۔

یوں امریکی حکومت بھی خبردار ہوجاتی ہے۔ وہ پھر مناسب اقدامات کرتی تاکہ مستقبل میں کوئی اور شخص قومی راز پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ سنوڈن کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسی، این ایس اے نے اس واقعے سے کوئی سبق نہیں لیا۔ بس یہ خبر منظر عام پر لے آئی کہ سنوڈن سترہ لاکھ دستاویز لے کر بھاگ گیا۔ حالانکہ سنوڈن نے بہت کم کی نقول بنائی تھیں۔ایڈورڈ سنوڈن کو شک ہے کہ دستاویزی نقول میں ایسا مواد بھی شامل ہے جسے امریکی حکومت اپنے لیے تباہ کن اور خطرناک سمجھتی ہے۔ وہ کہتا ہے:
 
میرا خیال ہے، ان نقول میں ایسی شُرلی (Smoking Gun) چھپی ہے جو چلی تو سیاسی طور پر پوری حکومت کو جلا ڈالے گی۔ لیکن یہ شرلی وہ لوگ بھی نہیں ڈھونڈ پائے جن کے پاس نقول موجود ہیں۔ انہیں اسے تلاش کرنا چاہیے۔ 
ان دستاویز میں کس نوعیت کے راز پوشیدہ ہیں، یہ سنوڈن بھی نہیں جانتا۔ سنوڈن نے آج تک یہ بھی نہیں بتایا کہ اس نے قومی راز کیسے چرائے تاہم ماہرین کمپیوٹر بتاتے ہیں، اس نے ایک خاص قسم کا سافٹ ویئر ’’ویب کرالر(Web crawler) استعمال کیا۔ اس سافٹ ویئر کی مدد سے کمپیوٹر ڈسک یا ڈسکوں میں مخصوص الفاظ و جملوں والی کوئی بھی فائل یا فائلیں ڈھونڈنا ممکن ہے۔
حال ہی میں ایک اور دلچسپ انکشاف ہوا۔ یہ کہ سنوڈن کے نام پر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کمین گاہوں میں چھپا کوئی اور شخص بھی اس کے نام سے خفیہ دستاویزات افشا کررہا ہے۔ سنوڈن اس متعلق کوئی بات کرنے سے انکاری ہے، مگر مغربی میڈیا یہ حقیقت جان چکا۔

وسط اگست میں مشہور جرمن رسالے،دیر اسپیگل نے ایک خصوصی رپورٹ میں افشا کیا کہ این ایس اے جرمنی میں بھی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں اور اسے جرمن انٹیلی جنس ایجنسی، بی این ڈی کا تعاون حاصل ہے۔ رپورٹ میں وہ ٹاپ سیکرٹ ’’معاہدہ دوستی‘‘ بھی شائع ہواجو این ایس اے اور بی این ڈی کے مابین 2002ء میں انجام پایا تھا۔ دیر اسپیگل نے رپورٹ کے آخر میں بتایا کہ یہ مواد اسے ایڈورڈ سنوڈن سے حاصل نہیں ہوا۔

یہ سچائی عیاں کرتی ہے کہ سنوڈن کی جرأت و حق پرستی نے امریکی انٹیلی جنس طبقے میں موجود دوسرے لوگوں کے ضمیر بھی جگا دیئے۔ سنوڈن امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خرابیاں کچھ یوں اجاگر کرتا ہے:’’ان میں کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس یا حساب کتاب موجود نہیں۔ افسران بالا کو علم ہی نہیں کہ کیا کچھ اندر آتا اور باہر جاتا ہے۔ اگر یہ بات ہے تو امریکی عوام خصوصاً این ایس اے پہ کیونکہ اعتماد کرسکتی ہے جو ان کا نجی و ذاتی ریکارڈ محفوظ کرنے میں محو ہے۔‘‘
امریکی عوام کے زبردست احتجاج نے آخر سیاستدانوں کو بیدار کر ہی دیا۔   جون کو امریکی قومی اسمبلی (ایوان نمائندگان) میں ارکان نے یہ بل پیش کیا کہ این ایس اے سے یہ اختیار چھین لیا جائے کہ وہ وارنٹ کے بغیر امریکیوں کی ای میلوں اور فون کالوں کا ریکارڈ جمع کرتی پھرے۔ یہ بل 293 ارکان نے منظور کرلیا، صرف 123 نے مخالفت میں ووٹ ڈالے۔

اس موقع پر ارکان ایوان نمائندگان نے ایک بیان میں کہا: امریکی عوام یہ دیکھ کر بجا طور پر پریشان ہیں کہ انہی کی حکومت ان کی ٹوہ میں لگی ہے اور نجی ڈیٹا محفوظ کررہی ہے۔ وسیع پیمانے پر عوام کی جاسوسی اب مزید نہیں چل سکتی۔ 
یہ حقیقت ہے کہ اگر عام سا نوجوان، ایڈورڈ سنوڈن بہادری نہ دکھاتا، تو امریکی حکومت اپنی عوام اور مخالف اقوام کی جاسوسی کرنے پر زور و شور سے جتی رہتی اور اسے کسی قسم کا احساس ِگناہ نہ ہوتا۔سنوڈن قومی دستاویز لیے 20 مئی 2013ء کو ہوائی سے ہانگ کانگ روانہ ہوا۔ تب اسے قطعاً احساس نہ تھا کہ یہ دستاویزات دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیں گی۔ وہ کہتا ہے:
’’تب میرا خیال یہی تھا کہ لوگ ایک نظر دستاویز دیکھ کر اپنے کاموں پر لگ جائیں گے۔ 

مگر ان دستاویزات نے امریکا سے لے کر پاکستان تک کئی ممالک کو ہلا ڈالا۔ خصوصاً دنیائے انٹرنیٹ میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جاسوسی عالمی بحث مباحثے کا مرکز بن گئیں۔ تب لاطینی امریکا کے کئی ممالک نے امریکا کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُدھر یورپ میں بھی امریکیوں کے خلاف شور مچا، نتیجتاً صدر اوباما اور کانگریس کو معذرت خواہانہ رویّہ اپنانا پڑا۔
رفتہ رفتہ امریکا میں سنوڈن کے متعلق بھی رویّہ تبدیل ہوگیا۔ پہلے امریکی عوام کی اکثریت اسے روس کا جاسوس، غدار اور بزدل سمجھتی تھی جس نے ملک و قوم کو دھوکا دیا۔ لیکن اب لاکھوں امریکی جان چکے کہ سنوڈن نے درحقیقت انہیں ایک آمرانہ و سفاکانہ حکومت کے پنجوں سے رہائی دلوائی… وہ حکومت جو چھپ کر ان پر نظر رکھے ہوئے تھی۔

ایڈورڈ سنوڈن آج عالمی شہرت یافتہ شخصیت بن چکا، مگر وہ بوجوہ اپنی ذات کے متعلق زیادہ باتیں نہیں بتاتا۔ اول وہ قدرتاً شرمیلا اور بھیڑ بھاڑ سے دور رہنے والا انسان ہے۔ پھر وہ اپنے خاندان کو تنازعات میں نہیں گھسیٹنا چاہتا۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ شہرت اور تعریفوں کے پل اسے مغرور و متکبر نہ بنادیں۔ یوں ظلم و جبر کے خلاف اس کی چلائی تحریک کو بھی نقصان پہنچے گا۔بہرحال سنوڈن کی آپ بیتی عیاں کرتی ہے کہ ایک منکسرالمزاج اور خاموش طبع نوجوان رفتہ رفتہ اپنی حکومت سے کیونکہ برگشتہ ہوا اور آخر ایسا فیصلہ کیا جسے کم ہی انسان اپنا پاتے ہیں۔
  
جون 1983ء کو پیدا ہونے والے سنوڈن کا بچپن امریکی شہر، میری لینڈ کے مضافاتی علاقے میں گزرا جس کے قریب ہی این ایس اے کا ہیڈکوارٹر واقع ہے۔ اس کا باپ، لونی کوسٹ گارڈ میں وارنٹ آفیسر تھا اور ماں مقامی عدالت میں کلرک! بہن جیسکا وکیل بن کر ایک سرکاری ادارے میں کام کررہی تھی۔ غرض سنوڈن کا پورا خاندان حکومت سے وابستہ تھا۔
فطرتاً والدین یہی چاتے تھے کہ ’’ایڈ‘‘ بھی پڑھ لکھ کر سرکاری ملازمت اختیار کرلے۔ ویسے بھی سنوڈن بچپن سے بہت ذہین اور پڑھاکو بچہ تھا۔ حتیٰ کہ دو آئی کیو ٹیسٹوں میں اس نے 145 سے زیادہ نمبر لے کر والدین کا سر فخر سے اونچا کردیا۔

عام بچے تو ٹی وی دیکھتے یا کھیلتے، سنوڈن مطالعہ کتب میں کھویا رہتا۔ اسے خصوصاً دیو مالا اور طلسمات پر لکھی کتابیں بہت بھاتیں، وہ گھنٹوں کتب پڑھنے میں محو رہتا۔ سنوڈن بتاتا ہے ’’مطالعے کے ذریعے ہی مجھے سمجھ آئی کہ چیلنجوں کا کیونکر مقابلہ کیا جائے اور یہ کہ جب شر اور خیر کی جنگ ہو، تو کس کا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘

سنوڈن جیسے ہی امریکی حکومت کا کچا چٹھا کھولنے لگا، امریکی میڈیا تبھی اس سرتوڑ کوشش میں لگ گیا کہ کسی طرح ’’غدار‘‘ کی خامیاں و برائیاں سامنے لاسکے۔ چناں چہ میڈیا نے یہ بات خوب اچھالی کہ سنوڈن صرف میٹرک پاس ہے۔ یعنی وہ جاہل و ناخواندہ ہے، محض اپنی ذہانت کے بل بوتے پر ترقی کرتا چلا گیا۔ یہ امر امریکی میڈیا کی منافقت اجاگر کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد بیچارا سنوڈن ایک وبائی بیماری کا نشانہ بن گیا۔ وہ پھر نو ماہ تک صاحب فراش رہا۔ جب صحت یاب ہوا، تو مقامی کالج میں داخلہ لے لیا۔
سنوڈن کو بچپن سے کمپیوٹر پر کام کرنا پسند تھا۔ اس کا ایک ہم جماعت سافٹ ویئر کمپنی چلاتا تھا۔ سنوڈن نے بل گیٹس، سرگئی برن، لیری پیچ، مائیکل ڈیل وغیرہ کے مانند تعلیم ادھوری چھوڑی اور سافٹ ویئر کمپنی میں کام کرنے لگا۔ یہ 1998ء کی بات ہے۔
 
 ستمبر 2001ء کو سنوڈن دفتر جارہا تھا کہ گاڑی کے ریڈیو پر اس نے سنا، طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گئے۔ سبھی امریکیوں کے مانند وہ بھی اس حادثے سے بہت متاثر ہوا۔ حتیٰ کہ جب 2004ء میں امریکی افواج نے فلوجہ، عراق پر حملہ کیا، تو سنوڈن رضا کارانہ طور پر اس میں شامل ہوگیا، وہ کہتا ہے:
’’تب مجھے بھی امریکی حکومت کے اس پروپیگنڈے پر یقین آگیا کہ عراق خطرناک ہتھیار بناکر امریکیوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ امریکی حکومت سچ بول رہی ہے۔ لہٰذا جذبہ حب الوطنی کے تحت میں بھی فوج میں جا شامل ہوا۔‘‘

سنوڈن عراق اس لیے بھی گیا تاکہ عربی زبان سیکھ سکے۔ اسے نئی زبانیں سیکھنے کا بہت شوق ہے۔ وہ تمام داخلہ امتحانات میں پاس ہوگیا مگر جب عسکری تربیت کا مرحلہ آیا، تو اس کی کمزور جسمانی ساخت آڑے آگئی۔ ایک حادثے میں اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور اسے مجبوراً فوج سے رخصت ہونا پڑا۔وہ کچھ ہی عرصے فارغ رہا۔ اسے ایک ٹاپ سیکرٹ سرکاری ادارے میں بحیثیت سکیورٹی گارڈ ملازمت مل گئی۔ وہ جھوٹ پکڑنے کے امتحان (پولی گراف ٹیسٹ) میں کامیاب رہا۔ اس کا ماضی بھی اچھی طرح کنگھالا گیا۔ یوں سنوڈن عالم بے خبری میں انٹیلی جنس کی خفیہ دنیا کا حصہ بن گیا۔
جب افسران بالا کو علم ہوا کہ وہ معاملات کمپیوٹر میں طاق ہے، تو سی آئی اے نے اسے اپنے گلوبل کمیونیکیشنز ڈویژن میں بھرتی کرلیا۔ ایلیٹ امریکی خفیہ ایجنسی کے صدر دفتر (لینگلے، ورجینا) میں واقع یہ ڈویژن کمپیوٹر سے متعلق معاملے و مسائل حل کرتا ہے۔

سنوڈن بتاتا ہے: میں سولہ برس سے کمپیوٹر کی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر انجینئرنگ کررہا تھا۔ سو مجھے کام سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ دنیائے نیٹ میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جتنی بھی پوشیدہ و عیاں ویب سائٹس واقع ہیں، ان سب کی نیٹ ورکنگ سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر میں ہی ہوتی ہے۔‘‘ لیکن سنوڈن کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ جدید ترین خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی پھوں پھاں ظاہری ہے، حقیقت میں وہ آؤٹ آف ڈیٹ ٹیکنالوجی بھی رکھتی ہے۔
بہرحال سنوڈن کے کام سے افسران بالا بہت خوش ہوئے۔ چناں چہ اسے سی آئی اے کے خفیہ تربیتی سکول بھجوا دیا گیا۔ وہاں ماہرین کمپیوٹروں کے ذریعے جاسوسی و چھان بین کرنے کے مختلف طریقے سیکھتے تھے۔ اس کی تربیت چھ ماہ جاری رہی اور مارچ 2007ء میں ختم ہوئی۔

سنوڈن کو پھر جنیوا، سوئٹزر لینڈ بھجوا دیا گیا۔ وہاں سی آئی اے جاننا چاہتی تھی کہ سوئس بینک امیر کبیر امریکیوں کو کس طرح پھانستے اور امریکی سرمایہ اپنے ہاں لاتے ہیں۔ سنوڈن اقوام متحدہ کے اہل کار کی حیثیت سے جنیوا پہنچا۔ اس کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھا اور جھیل کنارے عمدہ رہائش!
جنیوا ہی میں پہلی بار سنوڈن نے جانا کہ سی آئی اے کے ایجنٹ مقصد براری کی خاطر اخلاقیات و قانون بھی پامال کر ڈالتے ہیں۔ آج کی طرح تب بھی انہی ایجنٹوں کو ترقی ملتی تھی جو زیادہ سے زیادہ مردوزن کو اپنا نائب بنالیں۔ یہ مقامی ایجنٹ اصطلاحاً سی آئی اے کے ’’آپریٹیو‘‘ کہلاتے ہیں۔

یہ آپریٹیو بھی کامیابی کی خاطر اخلاقی اقدار ملیامیٹ کر ڈالتے ہیں۔ مثلاً جنیوا میں ان کا چلن تھاکہ وہ شکار کو اتنی شراب پلاتے کہ نشے میں دھت ہوکر جیل پہنچ جاتا۔ آپریٹیو پھر اس کی ضمانت کراتے اور یوں اسے اپنے دام میں پھانس کر اس سے راز اگلوالیتے۔ مگر اس روش نے امریکیوں کو سوئٹزر لینڈ میں بدنام کر ڈالا۔ وہاں مشہور ہوگیا کہ امریکی اپنی غرض کی خاطر گدھے کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔
جینوا میں سنوڈن کی ملاقات ایسے کئی ایجنٹوں اور جاسوسوں سے ہوئی جو عراق جنگ اور امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ امریکا کس جہنم میں جا پھنسا ہے۔

چونکہ سنوڈن کمپیوٹر سسٹمز اور نیٹ آپریشنز کے کام سے متعلق تھا، لہٰذا وہ دوسروں کی نسبت زیادہ جانتا کہ امریکی حکومت کیونکر افغان و عراقی جنگیں چلا رہی ہیں۔ عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ حقائق جان کر سنوڈن پریشان ہوگیا۔ کہتا ہے:
’’وہ صدر بش کا زمانہ تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا تاریک دور شروع ہوچکا تھا۔ انسانوں پر تشدد ہوا اور بغیر وارنٹ فون کالیں سنی جانے لگیں۔‘‘
سنوڈن نے فیصلہ کیا کہ وہ وسل بلوئر بن کر تلخ حقائق دنیا والوں کے سامنے لے آئے۔ مگر اسی دوران امید و تبدیلی کا نعرہ بلند کرکے بارک اوباما امریکی افق پر نمودار ہوگئے۔ وہ بتاتا ہے:’’اوباما جو خیالات و نظریات سامنے لے کر آئے، ان سے ناقدین بھی متاثر ہوئے، وہ اخلاقیات اور قانون کی بالادستی چاہتے تھے۔‘‘
مگر صدر بن کر بارک اوباما اپنے تمام دعوے و نعرے بھول گئے۔ تبدیلی تو کیا آتی، وہ سابقہ بش حکومت کی پالیسیوں کو زیادہ زور و شور سے عملی جامہ پہنانے لگے۔ اس امر نے سنوڈن کو مزید بھڑکا دیا۔ تاہم اپنی حکومت کے خلاف لاوا اندر ہی اندر ابلتا رہا اور اسے باہر نکلنے میں کچھ وقت لگا۔
   افسروں نے سنوڈن کو سی آئی اے سے این ایس اے بھجوا دیا۔ ڈیل کمپنی اس انٹیلی جنس ایجنسی کی اہم کنٹریکٹر تھی، وہاں اسے بہ حیثیت ٹیکنیکل ایکسپرٹ ملازمت مل گئی۔ حادثہ 9/11 کے بعد جب این ایس اے کو وافر پیسہ ملا، تو وہ اپنے کام ٹھیکے داروں کے سپرد کرنے لگی تھی۔

سنوڈن کی نئی تقرری ٹوکیو، جاپان میں ہوئی۔ وہاں اس نے جاپانی حکومت اور افواج کے اعلیٰ افسروں کو سکھایا کہ چینی ہیکر حملہ کریں تو وہ اپنے نیٹ ورک کیونکر محفوظ بنائیں۔ مگر سنوڈن کا ضمیر اسے مسلسل کچوکے دیتا رہا۔
این ایس اے آکر اس پر نئے انکشاف ہوئے۔ اول یہ کہ امریکی حکومت ڈرون اور ایجنٹوں کے ذریعے افغانستان، پاکستان ،یمن وغیرہ میں’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ میں ملوث ہے۔ دوم یہ کہ این ایس اے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں پر نظر رکھتی ہے۔ وہ محیر العقول قدرت رکھتی ہے کہ شہر میں کسی کی بھی حرکات نوٹ کرسکے۔دراصل ہر موبائل، کمپیوٹر اور برقی سگنل خارج کرنے والی الیکٹرونک شے ایک مخصوص شناختی نشان بھی چھوڑتی ہے۔یہ ’’ایم اے سی ایڈریس‘‘(MAC address) کہلاتا ہے۔ اسی شناختی نشان کی بنیاد پر این ایس اے آپ کی سرگرمیاں اور نقل و حرکت پر بھی نظر رکھ سکتی ہے۔

مارچ 2012ء میں سنوڈن کو جزیرہ ہوائی بھجوا یا گیا۔ وہاں ڈھائی لاکھ مربع فٹ رقبے پر پھیلے وسیع و عریض زیر زمین بینکر میں امریکی حکومت نے ’’انفارمیشن شیئرنگ سینٹر‘‘ قائم کررکھا تھا۔ اس ادارے میں تمام امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ڈیٹا ہم آہنگ کیا جاتا ۔ وہاں سنوڈن سینئر ٹیکنالوجسٹ کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اسی ٹاپ سیکرٹ ادارے میں مصروف کار رہ کر سنوڈن پر حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔

ایک انکشاف یہ ہوا کہ این ایس اے کے سربراہ، کیتھ الیگزینڈر نے ایجنٹوں کو حکم دے رکھا ہے کہ امریکا مخالف رہنماؤں کی نیٹ سرچنگ پر نظر رکھیں۔کوئی پورنو گرافی میں ملوث ہو تو اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ سنوڈن بتاتا ہے:
’’ذاتی خامیوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا امریکی حکومت کا پرانا حربہ ہے۔ مثلاً ایف بی آئی نے مارٹن لوتھر کنگ کے معاشقوں کو بہت اچھالا تاکہ وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائیں۔‘‘

ہوائی میں سنوڈن کو بیشتر ٹاپ سیکرٹ دستاویزات تک رسائی حاصل تھی لیکن وہ سبھی فائلوں کو کنگھالنا چاہتا تھا۔ لہٰذا اس نے بہ حیثیت انفراسٹرکچر اینالسٹ این ایس اے کے سب سے بڑے کنٹریکٹر، بوز ایلن (Booz Allen)میں ملازمت کرلی۔
بوز ایلن میں کام کرتے ہوئے ہی سنوڈن پر اگلا انکشاف ہوا۔ یہ کہ این ایس اسے دنیا بھر میں مطلوبہ انفرادی یا سرکاری کمپیوٹر میں ڈیٹا چرانے والا پروگرام داخل کرتی اور اس سے سینکڑوں گیگابائٹ پر مشتمل ڈیٹا چرالیتی ہے اور یہ دن دیہاڑے چوری اتنے خفیہ انداز میں ہوتی ہے کہ شکار کو پتا ہی نہیں چلتا قابل ذکر یہ کہ این ایس اے اس چوری میں کسی قسم کا احساس جرم یا ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں کرتی۔

بوزایلن میں سنوڈن کا بنیادی کام چین سے ہونے والے سائبر حملوں کا تجزیہ کرنا تھا۔ اسی کام کے دوران نوجوان پر اگلا انکشاف ہوا۔ یہ کہ امریکی حکومت چینی یونیورسٹی، ہسپتالوں اور دیگر سویلین اداروں کو بھی سائبر حملوں کا نشانہ بناتی ہے۔ سرکاری اور عسکری ٹارگٹ اس کے علاوہ تھے۔ اس انکشاف نے بھی سنوڈن کو امریکی حکومت سے مزید متنفر کردیا۔

این ایس اے کی دستاویز کے مطالعے سے سنوڈن کو ایک اور راز معلوم ہوا۔ پتا چلا کہ ایلیٹ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے بلف ڈیل نامی قصبے میں ایک وسیع و عریض اور انتہائی خفیہ ڈیٹا سینٹر بنا رکھا ہے۔ وہاں کھربوں صفحات جتنا ڈیٹا محفوظ کرنا ممکن ہے۔ اس سینٹر میں امریکیوں اور غیر ملکیوں کی کالوں، فیکسوں، ای میلوں اور دیگر مواد پر مبنی ڈیٹا جمع ہوتا ہے۔

امریکی حکومت کے ’’سیاہ کارناموں‘‘ سے واقف ہوکر سنوڈن نے تہیہ کرلیا کہ وہ انہیں دنیا والوں کے سامنے لائے گا۔ سوال یہ تھا کہ کب؟ آخر مارچ 2013ء کو یہ موقع آپہنچا۔ اسی دن این ایس اے کے سربراہ نے بائبل پر قسم کھا کر ایک سینٹ کمیٹی کو بتایا ’’این ایس اے لاکھوں امریکیوں کی نجی معلومات ہرگز اکٹھی نہیں کررہی۔ یہ محض افواہ ہے۔‘‘

اس سفید جھوٹ پر باضمیر نوجوان کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ اس نے یو ایس بی پکڑی اور وہ دستاویز اس میں منتقل کرنے لگا جو ’’جمہوریت پسند‘‘ اور انسانی حقوق کی ’’چیمپئن‘‘ امریکی حکومت کا حقیقی مکروہ چہرہ دکھاتی ہیں۔ دوماہ بعد بذریعہ ہوائی جہاز سنوڈن ہانگ کانگ روانہ ہوگیا۔ اس کی جیب یو ایس بیوں سے بھری ہوئی تھی۔

اسلام میں پرائیویسی

دین اسلام پہلا مذہب ہے جس میں ایک فرد کی پرائیویسی یا ذاتی زندگی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ذرا دیکھیے، قرآن پاک میں کن الفاظ میں پرائیویسی پامال کرنے والوں کو ڈانٹا گیا ہے:
’’اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کرو اور نہ کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم پسند کرو گے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاؤ؟ (سورۃ الحجرات:12)
ممتاز مفسر، ابن کثیر اپنی تفسیر میں درج بالا آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اے مسلمانو! تجسّس کرو نہ تحسّس، نفرت کرو اور نہ ہی تدابر، اور بھائیوں کی طرح مل کے رہو۔‘علامہ اوزاعی کا کہنا ہے ’’تجسّس سے مراد ہے، کوئی چیز ڈھونڈنا۔ تحسّس کے معنی ہیں، بغیر اجازت لوگوں کی گفتگو سننا اور ان کے گھروں میں جھانکنا جبکہ تدابر کا مطلب ہے، ایک دوسرے سے کٹ جانا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر جلد نہم، صفحہ 201)
اسلام میں نجی و ذاتی زندگی گزارنے کا حق کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا ثبوت ایک حدیث سے ملتا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت اللعالمین اور خیر البشر ہیں۔ مگر آپؐ نے فرما رکھا ہے:’’اگر کوئی تمہارے گھر میں جھانکے، اور تم پتھر مار کے اس کی آنکھ پھوڑ دو تو یہ گناہ نہیں ہوگا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اسرائیل۔۔۔ موجاں ای موجاں

جزیرہ ہوائی پہنچ کر سنوڈن پہ پہلا انکشاف یہ ہوا کہ دنیائے انٹرنیٹ میں کروڑوں انسانوں کی جاسوسی سے این ایس اے کو جو ڈیٹا حاصل ہوا، وہ اسے من و عن اسرائیل کو فراہم کررہی ہے۔ اس ڈیٹا میں امریکا میں مقیم ان لاکھوں عربوں اور فلسطینیوں کی ای میلیں اور فون کالیں بھی شامل تھیں جن کے رشتے دار مقبوضہ فلسطین میں مقیم تھے۔ سنوڈن کہتا ہے:
 
میں امریکی و اسرائیلی حکومتوں کا تعاون دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسرائیلی اس ڈیٹا کے ذریعے باآسانی فلسطینیوں کو ٹارگٹ کرسکتے تھے۔ میں اسے انفرادی آزادی کی پامالی کے بدترین واقعات میں شامل سمجھتا ہوں۔‘‘
حکومت کرپٹ کیسے ہوتی ہے؟

ایڈورڈ سنوڈن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ این ایس اے کے افسر اور حکومتی اہلکار دھڑلے سے کہتے ہیں کہ عوام کی کالیں و ای میلیں ٹیپ نہیں ہورہیں۔ یہ صریح جھوٹ چھوٹے انٹیلی جنس اہلکار ایک کان سے سنتے دوسرے سے نکال دیتے۔ وہ کہتا ہے:
’’یوں میرے ساتھیوں نے فرد کی آزادی پامال کرنے والی حکومتی کارروائی کو معمولی بدی سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ لیکن میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ انسان اسی طرح چھوٹی چھوٹی برائیوں، قانون توڑنے کے واقعات، جھوٹوں اور دھوکہ بازی کو نظر انداز کرنے لگے، تو وہ اسے زندگی کا چلن سمجھنے لگتا ہے۔
 
پندرہ، بیس، پچیس سال بعد انسان برائیوں کا ایسا عادی ہوجاتا ہے کہ پھر بڑی سے بڑی برائی بھی اسے حیرت زدہ اور متاثر نہیں کرتی اور یہی خطرناک بات ہے۔ تب انسان کے لیے تمام اخلاقیات اور اصول ضابطے بے معنی بن جاتے ہیں اور وہ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والے انتہائی نامعقول نظریے کو درست سمجھنے لگتا ہے۔ تب حکومت اور سرکاری اہل کار عوام کو دھوکا دیتے اور برائی کرتے ہوئے یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ یوں سارا نظام حکومت ہی کرپٹ ہوجاتا ہے۔ امریکی حکومت کا سسٹم بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔

شام جب دنیائے نیٹ سے کٹا
2012ء میں این ایس اے کے ہیکروں نے کوشش کی کہ شام میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کے بنیادی روسٹر میں اپنا پروگرام چھوڑ دے۔ یوں این ایس اے کو موقع مل جاتا کہ وہ شام میں بیشتر انٹرنیٹ ٹریفک کو ریکارڈ کرسکے۔
شام تب پوری طرح خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا لیکن کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پروگرام روسٹر میں انسٹال نہیں ہوسکا۔ یہی نہیں، اس نے روسٹر کو ناقابل استعمال بنا ڈالا۔ چنانچہ شام کے بیشتر علاقوں کا انٹرنیٹ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ مگر شامی حکومت اور عوام، کسی کو علم نہ تھا کہ اس خرابی کی ذمے دار امریکی حکومت ہے۔
اُدھر این ایس اے کے ہیکروں میں ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف ’’ارے مروادیا‘‘ کے جملے سنائی دیئے۔ اب انہوں نے سرتوڑ کوشش کی کہ روسٹر درست کردیں۔ انہیں خوف تھا کہ شامی حکومت جدید ترین سافٹ ویئر تک پہنچ سکتی ہے لیکن روسٹر مرمت نہ ہوسکا۔
این ایس اے کی خوش قسمتی کہ شامی حکومت کے ماہرین کمپیوٹر اسی تگ و دو میں لگے رہے کہ دنیائے انٹرنیٹ سے رابطہ بحال ہوجائے۔ انہیں یہ جستجو نہیں تھی کہ خرابی کے منبع تک پہنچا جائے۔ تبھی امریکی سرکاری ہیکروں میں درج ذیل لطیفہ مشہور ہوا جو کسی حد تک سچائی بھی رکھتا ہے: ’’اگر ہم پکڑے جاتے، تو پریشانی کی کوئی بات نہ تھی، ہم فوراً اسرائیل کی طرف انگلی اٹھا دیتے۔‘‘

انتہائی خطرناک سافٹ ویئر : مونسٹر مائنڈ
سنوڈن یہ جان کر حیرت زدہ ہوا کہ امریکی ماہرین کمپیوٹر ایک مہلک اور تباہ کن سافٹ ویئر ’’مونسٹر مائنڈ‘‘ (MonsterMind)ایجاد کرچکے۔ یہ پروگرام دنیائے انٹرنیٹ میں امریکی تنصیبات کی نگرانی کرتا اور ان پر سائبر حملے روکتا ہے۔
مونسٹر مائنڈ کی جدت و ہلاکت آفریں خصوصیت یہ ہے کہ جس جگہ سے سائبر حملہ آئے، وہ اس پر جوابی وار کرتا اور کمپیوٹر کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ سنوڈن کے مطابق مونسٹر مائنڈ کی یہی خاصیت بہت خطرناک ہے۔

وجہ یہ ہے کہ سائبر حملے عموماً چھپ کر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ہیکر چین میں بیٹھا ہے، مگر اس نے حملہ روس میں موجود کمپیوٹر سے کیا۔ ایسی صورت میں مونسٹر مائنڈ نہ صرف غلط طور پر روس پر حملہ آور ہوتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ شکار ہونے والا کمپیوٹر کسی سکول کالج یا ہسپتال میں ہو اور اس کی خرابی سے سارا نظام تلپٹ ہو جائے۔

اس صورت حا ل میں روس نے جوابی وار کیا، تو دونوں سپر طاقتوں کے مابین جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسی لیے سنوڈن نے مونسٹر مائنڈ کو بنی نوع انسان کے خلاف سرگرم عمل ابلیس قرار دیا۔

Adward Snowden

Muslim groups denounce beheading of US journalist Steven Sotloff


Leading Muslim institutions denounced the killing of Steven Sotloff, the second US journalist to be executed by Islamic State militants and President Barrack Obama vowed to build a coalition to “degrade and destroy” the extremist group. 

“This is obviously a criminal act which we greatly denounce,” Maha Akeel of the Organization of the Islamic Conference told Al Arabiya News, voicing the same condemnation the group issued when IS released a video of the execution of US journalist James Foley. “They claim that they do their acts in the name of Islam but their doing has nothing to do with Islam,” Akeel said.

“We can’t call them an Islamic group, but a criminal one,” she explained, emphasizing Al-Azhar’s online campaign, which urges people and news outlets to stop calling the group Islamic. Al-Azhar is the top Islamic authority in Egypt and it is also highly revered by many Muslims worldwide. Former deputy imam of Al-Azhar Sheikh Mahmoud Ashour told Al Arabiya News that Sotloff’s killing was not only against humanity but “there is no religion that accepts the killing of a human soul.”

The largest Muslim civil rights and advocacy organization in the US, the Council on American-Islamic Relations, said: “No words can describe the horror, disgust and sorrow felt by Muslims in America and worldwide at the unconscionable and un-Islamic violence perpetrated by the IS terror group. The criminal actions of IS are antithetical to the faith of Islam.”

Obama reaffirmed that Washington would not be intimidated by IS militants. “Those who make the mistake of harming Americans will learn that we will not forget and that our reach is long and that justice will be served,” he said. — Al Arabiya News/Agencies

What are major problems in Pakistan



The survey by the Pew Research Centre, which was partly released earlier this week, also shows that the price-hike has replaced energy shortage as the country’s number one problem. As many as 97 per cent of Pakistanis see rising prices as their number one problem while 90pc people still say it is the shortage of electricity.
The public opinion poll, taken in April and May this year, found that the United States and India, while wildly unpopular in Pakistan, earned higher favourability ratings than either Al Qaeda or the Taliban. Just 12pc of Pakistanis view Al Qaeda favourably while only 8pc say the same thing about the Taliban. Fourteen per cent Pakistani view the United States favourably and 13pc like India. The favourable view of the United States, although low, marks a 3pce increase from 2013, when only 11pc held a favourable view of the US.

The surveyors also discovered that unfavourable view of the United States had declined sharply in recent years, from a high of 80pc in 2012 to 59pc this year. This was 72pc in 2013. India too remains unpopular in Pakistan, with 71pc of respondents expressing an unfavourable view of it compared with 13pc holding a positive view. While extremely low, this 13pc rating still ranks India higher than either Al Qaeda or the Taliban. Still, Pakistanis continue to view India as a greater threat to their nation than either the Taliban or Al Qaeda. When asked which of the three groups posed the greatest threat to Pakistan, a slight majority (51pc) said that India did, compared with 25pc who answered with the Taliban and 2pc who said Al Qaeda.

In a separate survey of national priorities in Pakistan, 90pc also identified lack of jobs as the problem number one confronting Pakistan while 87pc saw the rising crime rate as their major concern. An overwhelming majority – 76pc – described the increasing rich-poor gap as the country’s number one problem. For 62pc, it is lack of health facilities and for 59pc it is the country’s corrupt leadership. Public debt is the most pressing problem for 58pc and for 57pc; it’s poor quality schooling.

Food safety comes after schooling with 52pc, followed by bad traffic, 52pc. Air pollution is a major problem for 40pc and water pollution is for 39pc. Thirty-nine per cent Pakistanis are concerned about Shia-Sunni tensions and 28pc about the situation in Afghanistan. The Indian influence in Afghanistan is a concern for 26pc.

Published in Dawn, August 30th, 2014

Three Questions for United States of America

 Three Questions for United States of America

The Ice Bucket Challenge

The Ice Bucket Challenge, sometimes called the ALS Ice Bucket Challenge, is an activity involving dumping a bucket of ice water on one's head to promote awareness of the disease amyotrophic lateral sclerosis (ALS) and encourage donations to research. It went viralthroughout social media during mid 2014.[1][2] In the United Kingdom, people also participate in the challenge for the Motor Neurone Disease Association.
The challenge dares nominated participants to be filmed having a bucket of ice water poured on their heads and challenging others to do the same. A common stipulation is that nominated people have 24 hours to comply or forfeit by way of a charitable financial donation.[3

Origin

The origins of the idea of dumping cold water on one's head to raise money for charity are unclear and have been attributed to multiple sources. From mid 2013 to early 2014, a challenge of unknown origin often called the "Cold Water Challenge" became popular on social media in areas of the Northern United States. The task usually involved the option of either donating money to cancer research or having to jump into cold water.[4]

One version of the challenge, which took place in New Zealand as early as July 7, 2014, involved dousing participants with cold water and then donating to a charity; for example, the Auckland Division of the Cancer Society.[5] As with similar challenges, it was usually filmed so footage can be shared online.

The National Fallen Firefighters Foundation popularized the "Cold Water Challenge" in early 2014 to raise funds as an unsanctioned spin-off of the polar plunge most widely used by Special Olympics as a fundraiser.[6] On May 20, 2014 the Washington Township, New Jersey fire department posted a video on YouTube participating in the "Cold Water Challenge" with fire hoses. Participating members of the department were subsequently punished for using fire department equipment without permission.[7]

The challenge first received increased media attention in the United States on June 30, 2014, when personalities of the program Morning Drive, which airs weekdays on Golf Channel, televised the social-media phenomenon, and performed a live, on-air Ice Bucket Challenge.[8]Soon after, the challenge was brought to mainstream audiences when television anchor Matt Lauer did the Ice Bucket Challenge on July 15, 2014 on NBC's The Today Show at Greg Norman's request.[9][10] On the same day, golfer Chris Kennedy did the challenge and then challenged his cousin Jeanette Senerchia of Pelham, NY, whose husband, Anthony, has had ALS for 11 years. A day later she did the challenge while her 6-year-old daughter filmed her in front of their house. Senerchia's network on Facebook connected with Pat Quinn, a 31-year-old in Yonkers, NY, who was diagnosed with ALS in March 2013. Quinn called upon his friends and family. Soon, his whole network was posting challenges, including family in Florida, friends in Ireland and Greece, and a bar full of locals, which was broadcast on local television.[citation needed]

Local Green Bay radio and TV personality John Maino performs the ALS Ice Bucket Challenge. 
Quinn's Facebook network overlapped with Massachusetts resident and former Boston College baseball player Pete Frates, who has ALSand began posting about the challenge on Twitter.[11] Frates is a well-known patient advocate in the ALS community, having been awarded the Stephen Heywood Patients Today award in 2012 for his fundraising and advocacy work nicknamed the "Frate Train".[12] Frates' Boston College and sporting connections became an initial focus of the challenge and strengthened its focus on ALS.[13] In the following weeks,many celebrities and notable individuals also took the challenge.

The President of the United States, Barack Obama, was challenged by Ethel Kennedy but declined, opting to contribute to the campaign with a donation of $100.[14] Justin Bieber,[15] LeBron James,[16] and "Weird" Al Yankovic[17] also challenged President Obama after completing the Ice Bucket Challenge. Former president George W. Bush completed the challenge and nominated Bill Clinton.[18]

On August 21, 2014, several firefighters in Campbellsville, KY were injured by electric shock, including one critically, when the ladder they were using to spray the school band for the Ice Bucket Challenge came too close to a high-voltage power line.[19]
Rules

Within 24 hours of being challenged, participants are to video record themselves in continuous footage. First, they are to announce their acceptance of the challenge followed by pouring ice into a bucket of water. The bucket is then to be lifted overhead and poured over the participant's head. Then the participant can call out a challenge to other people.

Whether people choose to donate, perform the challenge, or do both varies. In one version of the challenge, the participant is expected to donate $10 if they have poured the ice water over their head or donate $100 if they have not.[20] In another version, dumping the ice water over the participant's head is done in lieu of any donation, which has led to some criticisms of the challenge being a form of slacktivism.[21] Many individual videos include the participant saying that they will be making a donation as well as performing the challenge.[citation needed]
 
Effects

In mid 2014, the Ice Bucket Challenge went viral on social media and became a pop culture phenomenon, particularly in the United States, with numerous celebrities, politicians, athletes, and everyday Americans posting videos of themselves online and on TV participating in the event.[3][14] According to The New York Times people shared more than 1.2 million videos on Facebook between June 1 and August 13 and mentioned the phenomenon more than 2.2 million times on Twitter since July 29.[22] Mashable called the phenomenon "the Harlem Shake of the summer".[9]

Prior to the widespread internet sensation of the Ice Bucket Challenge, public awareness of the disease amyotrophic lateral sclerosis (ALS) was relatively limited; the ALS Association state that prior to the challenge going viral only half of Americans had heard of the disease,[22]often referred to as "Lou Gehrig's disease", after baseball great Lou Gehrig who publicly revealed his diagnosis.

After the Ice Bucket Challenge went viral on social media, public awareness and charitable donations to ALS charities soared. On August 21, 2014, The New York Times reported that the ALS Association had received $41.8 million in donations from July 29 until August 21. More than 739,000 new donors have given money to the association, which is more than double the $19.4 million in total contributions the association received during the year that ended January 31, 2013.[23] Similarly, the ALS Therapy Development Institutereported a ten-fold increase in donations relative to the same period in 2014,[24] with over 2,000 donations made in a single day on August 20, 2014, while Project ALS reported a 50-fold increase.[25] In the United Kingdom, people have also been facing the challenge for the Motor Neurone Disease Association. The Motor Neurone Disease (MND) Association is the only national charity in England, Wales and Northern Ireland focused on MND care, research and campaigning.[26] MND Scotland provides care and support to everyone affected by Motor Neurone Disease in Scotland.[27]

Criticism

A number of criticisms have arisen relating to the campaign, accusing it of being self-congratulatory,[28] focusing primarily on fun rather than donating money to charity, and as an example of substituting a trivial activity for more genuine involvement in charitable activities. William MacAskill, Vice-President of Giving What We Can, suggested that the challenge encouraged moral licensing, meaning that some people might use taking part in the challenge as a substitute for other charitable acts. He also proposed that by attracting donations for ALS, the challenge was "cannibalizing" potential donations that otherwise would have gone to other charities instead.[29]

Steve-O questioned the campaign, suggesting that celebrities' videos generally forgot to share donation information for ALS charities, and that the initial $15 million dollars in funds was insignificant, given the star power of the celebrities participating. He noted that, of the videos he viewed, only Charlie Sheen and Bill Gates noted that the point is to donate money.[30]

Pamela Anderson refused to take part in the challenge because the use of animal experimentation in ALS research.[31] Members of the pro-life movement criticised the campaign because of the connection between embryonic stem cell research and ALS research.[32]

On August 22, 2014, Brian O'Neill, a physician at the Detroit Medical Center, warned that the challenge may have adverse health effects on participants, including potentially inducing a vagal response which might, for example, lead to unconsciousness in people taking blood pressure medications.[33]

Criticism also targeted the waste of water.[34]

Niagara Falls is illuminated by colorful lights

Niagara Falls is illuminated by colorful lights near the border between the United States and Canada in Washington D.C

Ebola outbreak is a public health emergency



The World Health Organization on Friday declared the Ebola outbreak in West Africa to be an international public health emergency that requires an extraordinary response to stop its spread. It is the largest and longest outbreak ever recorded of Ebola, which has a death rate of about 50 percent and has so far killed at least 932 people. WHO declared similar emergencies for the swine flu pandemic in 2009 and for polio in May. The WHO chief, Dr. Margaret Chan, said the announcement is "a clear call for international solidarity" although she acknowledged that many countries would probably not have any Ebola cases.

"Countries affected to date simply do not have the capacity to manage an outbreak of this size and complexity on their own," Chan said at a news conference in Geneva. "I urge the international community to provide this support on the most urgent basis possible." The agency had convened an expert committee this week to assess the severity of the continuing epidemic.

The current outbreak of Ebola began in Guinea in March and has since spread to Sierra Leone and Liberia, with a suspected cluster in Nigeria. There is no licensed treatment or vaccine for Ebola. The impact of the WHO declaration is unclear; the declaration about polio doesn't yet seem to have slowed the spread of virus. "Statements won't save lives," said Dr. Bart Janssens, director of operations for Doctors Without Borders. "For weeks, (we) have been repeating that a massive medical, epidemiological and public health response is desperately needed. ... Lives are being lost because the response is too slow."

"I don't know what the advantage is of declaring an international emergency," added Dr. David Heymann, who directed WHO's response to the SARS outbreak and is now a professor at the London School of Hygiene and Tropical Medicine."This could bring in more foreign aid but we don't know that yet," he said.
In the United States, the Centers for Disease Control and Prevention have already elevated their Ebola response to the highest level and have recommended against traveling to West Africa. On Friday, American health officials also eased safety restrictions on an experimental drug to treat Ebola, a move that could clear the way for its use in patients. Two Americans infected with the deadly virus recently received a different drug never before tested in people and seem to be improving slightly, according to the charity they work for.

Other experts hoped the WHO declaration would send more health workers to West Africa.
"The situation is very critical and different from what we've seen before," said Dr. Heinz Feldmann, chief of virology at the U.S. National Institute of Allergy and Infectious Disease. "There are so many locations with transmission popping up and we just need more people on the ground." WHO did not recommend any travel or trade bans but said people who had close contact with Ebola patients should not travel internationally. For countries with Ebola, WHO issued various recommendations, including exit screening at international airports and border crossings to spot potential cases. It also discouraged mass gatherings. WHO said countries without Ebola should heighten their surveillance and treat any suspected cases as a health emergency.


This week, two of the worst-hit Ebola countries — Liberia and Sierra Leone — brought in troops to enforce quarantines and stop people infected with the disease from traveling. Liberian President Ellen Johnson Sirleaf said no one with a fever would be allowed in or out of the country and warned some civil liberties could be suspended if needed to bring the virus under control. Chan said while extraordinary measures might be necessary to contain the outbreak, it is important to recognize civil rights. 

"We need to respect the dignity of people and inform them why these measures are being taken," she said. — AP



Walking: Why it’s so important


Family doctor Dr. Saleh Al-Ansari said walking is not just about physical exercise, but it is a highly beneficial sport for intellectual growth and exercise as well. 
“We must increase awareness in society especially now with the rise in obesity rates. The media plays a highly effective and influential role in the matter; schools and universities also play their part in raising awareness among the youth. The private sector also plays a role through its social corporate responsibility and its concern for its employees and while the private sector can sponsor awareness campaigns, what really needs to be done is to build more walkways. Sidewalks should also be fixed so people can use them too,” he was quoted as saying.

Dr. Al-Ansari went on to explain the many benefits of walking and urged people with obesity to take regular walks if they can’t exercise. “Hippocrates himself said walking is the best medicine for humans. Philosopher Friedrich Nietzsche also mentioned that great ideas generate when walking. A very recent Stanford study proved that walking enhances creativity and innovation in thoughts and ideas. Exercise is not just for the obese, even healthy weight people have fat stored in their bodies from food that will only go away with exercise,” he added. 

He advised people to walk between 30 and 60 minutes, 5 to 7 times a week. Kids, however, should exercise at least one hour a day. To maintain a healthy exercise schedule, Dr. Al-Ansari said people should increase their daily walking distance by no more than 10 percent every week. “The best time for walking is after Fajr prayer. The distance and speed of walking depends on gender and age group. There is a right way of exercising but the most important thing is to start at a comfortable speed and distance and gradually increase from there.”

According to a report in Agence France Presse, Dr. Rob Danoff, a member of the American Osteopathic Association, said sitting for long periods of time can prove particularly damaging to the health because sitting causes back pains and lax muscles which increase probability of diabetes and cardiovascular diseases. The American Health Institute revealed that an average American spends 7.7 hours a day with no exercise and 70 percent of American employees spend five hours sitting at their desks. The more hours you spend sitting the more the blood circulation is hindered. This, in turn, causes greater damage and health risks.

The Annals of Internal Medicine published a study showing that health risks increase by 15 percent for people who spend eight hours a day sitting and an increase by 40 percent for those who spend even longer hours sitting in comparison to those who spend less than four hours of their day sitting. 

The American Medical Association recently urged the business sector to find better working solutions for their employees. Some of the solutions included elevated desks and inflated seats that promote ergonomic health and posture. However, Dr. Rob Danoff said standing, for too long is also unhealthy. Therefore, he proposed the following: Stand for one minute every 30 minutes, walk down the hallways, use the stairs instead of the elevator, and walk up to a colleague rather than sending an e-mail.

“There are many such simple solutions to the problem that do not require any advanced and expensive devices or technology,” he said. — SG

Top Countries by number of research papers published

Top Countries by number of research papers published

If you forget Gaza...














If you forget Gaza...

Pakistani-American Haris Suleman's aircraft crashes into sea

The plane of seventeen-year-old American-born Pakistani Haris Suleman and his father Babar Suleman, who were attempting to fly around the world in 30 days, has crashed into the Pacific, DawnNews reported.

A family member confirmed that the body of Haris Suleman has been recovered by rescue teams. Babar Suleman has not been found at the time of writing.

The Sulemans had undertaken the challenge in a bid to raise money to help educate Pakistan’s poor children.

They were being supported in their endeavor by the Citizen’s Foundation (TCF).

They started their journey from Plainfield, Indiana, in the US, on June 19, and visited Canada, Iceland, England, Greece, Egypt and the UAE before reaching Pakistan.

The USA is Spying on Millions of People by Yasir Pirzada


   The USA is Spying on Millions of People by Yasir Pirzada

Media and Waziristan operation by Dr. Mujahid Mansoori



Media and Waziristan operation by Dr. Mujahid Mansoori

.....دو جعلی صدارتی انتخابات کی ایک ہی کہانی....

مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے میں مصر اور شام میں صدارتی انتخابات کا ناٹک رچایا گیا اور دونوں کے نتائج غیر متوقع نہ تھے کیونکہ ان میں غاصب اور قاتل حکمرانوں کو بالترتیب 96 اور 88.1 فیصد ووٹوں سے ’’منتخب‘‘ کر لیا گیا۔ دونوں ممالک میں خونریز خانہ جنگی برپا ہے اور ریاست پر فوج کا غلبہ ہے۔ مصر اور شام کی ایک ہی کہانی ہے۔ دونوں ممالک کی افواج صہیونی ریاست سے 1948ء، 1966ء، 1973ء کی جنگوں میں شرمناک شکست سے دو چار ہوئیں۔ مصر نے تو صحرائے سینا کو غیر فوجی علاقہ تسلیم کر کے صہیونی ریاست سے دب کر 1979ء میں صلح کر لی جبکہ شام پر چالیس سال سے مسلط آمر باپ بیٹوں نے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ اور اس کا انضمام عملاً تسلیم کر لیا لیکن اپنی بزدلی چھپانے کے لیے ہنوز صہیونی ریاست سے مصر کی طرح صلح نامہ تو نہیں کیا لیکن اس سے خاموش معاہدے کے ذریعے اپنے اقتدار کے استحکام کی ضمانت حاصل کر لی۔ جبھی تو اسرائیل نے ان باغیوں پر حملے کیے جو بشار الاسد کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔

مصر اور شام کی بھگوڑی اور نکمی افواج صہیونی ریاست سے مک مکا کر کے اپنے ہی عوام پر ٹوٹ پڑی۔ جولائی میں منتخب ہونے والے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر مصری فوج کا سابق سربراہ اپنے پیشرو کرنلوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں سیاسی عمل سے خارج کر دیا اور ڈاکٹر محمد مرسی پر سرکاری رقم کے غلط استعمال کا جعلی الزام لگا کر انہیں تین سال قید کی سزا دے دی جبکہ اخوان کے سربراہ مرشد بدیع سمیت اس تنظیم کے 1212 رہنماؤں اور حامیوں کو دو دو پیشیوں میں سزائے موت سنا دی جس پر انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار باراک اوباما نے صرف اتنا ہی کہا کہ مصر کی عدالت کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں جبکہ مصر کے جعلی صدارتی انتخاب میں ’’96فیصد ووٹوں‘‘ سے کامیاب اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے فیلڈ مارشل السیسی کو مبارکباد دی۔

مصر کا صدارتی انتخاب ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ جب رائے دہندگان انتخاب کے دن گھروں میں بیٹھے رہے تو مصر کی فوج اور مخبر ایجنسی حرکت میں آئی اور انتخاب کی مقررہ تاریخ میں توسیع کر دی گئی تا کہ رائے دہندگان وہاں جا کر اپنا ووٹ دیں لیکن جب اس کے باوجود بھی رائے دہندگان گھروں سے نہیں نکلے تو جعلی فیلڈمارشل کی مخبر ایجنسی کے گماشتے گھر گھر جا کر ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر لاتے اور ان کے ووٹ گزرواتے رہے۔ انتخاب سے قبل مصر کی جنتا نے آئین اور حکومت پر نکتہ چینی ممنوع قرار دے دی تھی۔ السیسی کے خلاف سابق فوجی آمر ناصر کا سویلین (Civilian) چیلا حمدین صباحی بھی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اتارا گیا تھا مگر ا س کی جماعت تانگہ پارٹی بن کر رہ گئی۔ اسے انتخابی جلسہ منعقد کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ اول تو اس کی نفری بہت کم تھی ، دوم یہ کہ وہ جہاں جلسہ کرنا چاہتا تھا وہاں پہلے سے مصری فوج سادہ لباسوں میں ملبوس شہر کے جرائم پیشہ عناصر کو لے کر جلسہ گاہ پر قبضہ کر لیتی تھی۔

حیرت تو صباحی اور برادعی پر ہے، انہیں منتخب دستور ساز اسمبلی کا وضع کردہ اور رائے شماری میں منظور شدہ آئین تو اس لیے نامنظور تھا کہ اس میں اسلامی شقیں تھیں لیکن فوجی آمر کا آئین قابل قبول تھا جس میں حکومت پر نکتہ چینی ممنوع قرار دے دی گئی تھی اور فوج کو اپنی عدالت میں ان شہریوں پر مقدمہ چلانے کا اختیار دیا گیا تھا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ مصری فوج سے وابستہ ہوں۔ جیسا میں نے عرض کیا مصر کی فوج کا جنگ و جدل سے صرف میدان سے فرار ہونے یا ہتھیار ڈالنے تک کا تعلق رہا ہے جبکہ یہ ملک کے کاروبار پر قابض ہے۔ مصری فوجی شہریوں کو پینے کا پانی بند بوتلوں اور کھلے ٹینکروں کے ذریعے فراہم کرتے تھے اور صارفین سے اس کی گراں قیمت وصول کرتے تھے جبکہ شہریوں کو بلدیاتی اداروں کی جانب سے پانی مفت میں مہیا کیا جاتا تھا۔ اسی طرح فوجی بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے بھی مالک ہیں۔ یہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں غرضیکہ یہ اندرون ملک منافع بخش کاروبار میں مصروف رہتے ہیں اور چور بازاری، سمگلنگ، منشیات و اسلحہ فروشی ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ کیا اسے فوجی کہا جا سکتا ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ السیسی فیلڈ مارشل بن بیٹھا۔ کیا مصر میں یہ اعزاز شکست خوردہ، بد عنوان، غیر عسکری سرگرمیوں میں ملوث بھگوڑی فوج کو دیا جاتا ہے؟

البتہ ہمیں اس کی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ 14 اگست 2013ء کو السیسی نے دھرنا دئے پر امن عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا اور دیکھتے دیکھتے 1400 افراد کی لاشیں بچھا دی۔ شاید السیسی کو اسی ’’کارنامے‘‘ کی بنا پر فیلڈ مارشل کا اعزاز ملا تھا۔ اسے خلیج کے رجواڑوں اور تلواڑوں نے بحالئ جمہوریت کی خلعت بھی عطا کی اور اوباما نے بھی بخشش دی۔ اس طرح وہ استعمار اور شاہ پرستوں کا ایجنٹ نکلا۔
لیکن اسی اوباما اور اس کے قوالوں کے ٹولے (یعنی نیٹو قزاق ٹولے) نے 4 جون کو شام میں رچائے گئے صدارتی انتخابی ناٹک کو مضحکہ خیز اور ڈھونگ قرا ردیا۔ اور صحیح کیا لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ دونوں (مصر اور شام) کے صدارتی انتخابات میں کیا فرق تھا کہ مغربی استعمار ایک کو جائز اور دوسرے کو ناجائز قرار دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ بشار الاسد کا صدر منتخب ہونا ویسا ہی ہے جیسے السیسی کا منتخب ہونا۔ دونوں قانون اور انسانیت کے مجرم ہیں جنہیں قصر صدر کی بجائے مجرم کی حیثیت سے بین الاقوامی تعزیراتی عدالت (177) کے کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے۔

شام کے صدارتی انتخاب میں ملک کی چالیس فیصد آبادی ووٹ نہیں دے سکی جبکہ بشار الاسد کی فضائیہ اور اس کے توپخانے شہریوں پر بمباری اور گولے باری کر رہے ہیں۔ اس تین سالہ خانہ جنگی میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ پچیس لاکھ ترک وطن کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ایسے میں انتخاب رچانا قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
لیکن امریکہ اور یورپی یونین کی جسارت ملاحظہ کیجیے کہ مصر کے صدارتی انتخاب کو سند عطا کرتے ہیں اور شام کے صدارتی انتخاب کو ڈھونگ قرار دیتے ہیں۔ السیسی کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ بشار الاسد کے بارے میں برملا کہتے ہیں کہ وہ حق حکمرانی سے محروم ہو چکا ہے۔
یہی مغرب کا جمہوری نظام ہے جس کے بارے میں شاعر مشرق حکیم الامت 
علامہ اقبالؒ پہلے ہی کہہ چکے ہیں:

ہے وہی سازِ کہن یورپ کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے پوش
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

The BJP’s victory in India Elections


The recent landslide victory of the Bharatiya Janata Party (BJP), with new Prime Minister Narendra Modi at the helm, is a big test for the world’s largest democracy India. After the miserable performance of the Indian National Congress (INC), people’s expectations are very high.

Sixty percent of the country’s population is dependent on agriculture and poverty is increasing in rural areas, with unemployment also on the up. With its weakening economy, India’s relations with neighboring countries such as China and Pakistan and the rights of minorities will be a big challenge for the new government.

Thousands of Muslims lost their lives in the Gujarat riots when Modi was prime minster of Gujarat. Although Modi always distances himself from a former hard stance on minorities and the killings in Gujarat, years ago the US and the UK denied visas to Modi.

Several key figures in Modi’s government were involved in the Gujarat riots and some of them were recently punished by the judiciary. Minorities are also worried about the hard stance of Modi’s government on Bengali migrants.

Khawaja Umer Farooq

Jeddah
Enhanced by Zemanta