یورپ کے جنگی جنون کی کہانی: جنگِ عظیم اول و دوم

08:15 Unknown 0 Comments


پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر لیگ آف نیشن یا جمیعت اقوام کی بنیاد رکھی گئی تاکہ بین الاقوامی تعاون کو ترقی دے کر جنگ کے امکانات کو ختم کرتے ہوئے امن کا راستہ صاف کیا جائے لیکن فاتح قوموں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کے باعث لیگ آف نیشن وہ مقاصد حاصل نہ کرسکی جن کیلئے اس کا وجود عمل میں آیا تھا۔آئندہ جنگ کے امکانات کو ختم کرنے کیلئے لیگ آف نیشن نے تخفیف اسلحہ کے عمل پر زوردیا کیونکہ اسلحہ کی زیادتی جنگ کو یقینی بناتی ہے۔اسلئے تجویز کیا گیا کہ ہر ملک کے پاس اتنا اسلحہ ہونا چاہیے جو اسکی دفاعی ضروریات اوراندرونی امن کیلئے ضروری ہے ۔اس اصول کے تحت جنگ کے اختتام پر صلح کے جتنے معاہدے ہوئے ان میں شکست خوردہ قوموں کو محدود تعداد سے زائد فوج رکھنے کی اجازت نہ دی گئی جبکہ فاتح قوموں نے اس اصول کی پابندی کو قبول نہ کیا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد تقریباً ہر قوم نے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا شروع کردیا ۔1913میں برطانیہ اسلحہ سازی پر تیس کروڑ پچھتر لاکھ ڈالر سالانہ خرچ کرتا تھاجو 1930میں بڑھ کر پچاس کروڑ پینتیس لاکھ ہوگئے ۔اسطرح فرانس کا دفاعی مصرفہ جو 1913میں تیس کروڑ انچاس لاکھ تھا بڑھ کر 1930میں چالیس کروڑ پچپن لاکھ اور امریکہ کا خرچہ دو کروڑ پینتا لیس لاکھ سے بڑھ کر ستر کروڑ اٹھائیس لاکھ ڈالر سالانہ کردیاگیا۔ایک طرف فاتح قومیں اسلحہ کے ڈھیر لگا رہی تھیں تو دوسری طرف مفتوحہ قوموں کو امن کے نام پر غیر مسلح کیا جارہاتھا۔اس پر جرمنی نے خاصا احتجاج کیا اور چودہ اکتوبر 1933کو لیگ آف نیشن سے علحیدگی اختیار کرلی۔جاپان اس سے پہلے ہی چین کے صوبے منچوریا پر حملہ کرکے لیگ آف نیشن کی ممبر شپ سے استعفیٰ دے چکا تھا۔1935میں اٹلی نے اے بی سینا(حبشہ)پر حملہ کرکے لیگ آف نیشن سے بغاوت کردی۔ بڑی طاقتوں کے اندر وطن پرستی اور قوم پرستی کے جذبات نے انہیں ایک طرح کا نفسیاتی مریض بنادیا تھا۔ہٹلر پوری دنیا میں جرمن قوم کی سربلندی چاہتا تھا۔مسولینی پرانی رومتہ الکبری کی عظمت اور شان وشوکت واپس لانا چاہتا تھا اور جاپان کی خواہش تھی کہ ایشیا میں صرف زرد قوم کا جھنڈا لہرئے اور جاپان کے شہنشاہ کی عظمت کا سکہ ہر دل پر بیٹھ جائے ۔
اس کے مقابلے میں اتحادیوں کی خواہش تھی کہ دنیا میں انہیں جو چودھراہٹ حاصل ہوچکی ہے وہ باقی رہے۔جاپان کا نعرہ تھا کہ ایشیا کے لوگ یورپ اور ایشیا سے کم نہیںمگر انہوں نے کالے اور گورے کا امتیاز پیدا کرکے ایشیا کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔اسلئے جاپان کا ساتھ دیا جائے تاکہ ایشیا کو یورپ کی غلامی سے نجات دلائی جاسکے۔اٹلی اور جرمنی چونکہ یورپی تھے ان کا نعرہ مختلف تھا۔انہوں نے دوسری اقوام خصوصاً عربوں کو جنگ عظیم کے خاتمے پر اتحادیوں کی وعدہ خلافی اور عرب تقسیم یاد دلائی جبکہ ان سب کے مقابلے میں اتحادی بلاک اقوام عالم کو پہلی جنگ عظیم میں جرمنی ،اٹلی اور جاپان کے مظالم یاد دلاتا رہا ۔

 دعووں اور الزام تراشیوں کا شور جاری رہا اور پھر جاپان نے 1931میںچین کے صوبے مانچوریا پر قبضہ کرلیا۔1935میں اٹلی نے حبشہ پر ہاتھ صاف کیا۔مانچوریا پر قبضے نے جاپان کا حوصلہ بڑھایااور اس نے پورے چین پر قبضہ کی نیت سے 1937میں چین پر حملہ کردیا۔جرمنی نے آسٹریا کی حدود کو تسلیم نہ کرتے ہوئے مارچ 1938میں اسے اپنے ماتحت کرلیا۔پھر 1939میں چیکوسلواکیہ پر قابض ہوا، اس کی دیکھا دیکھی اٹلی نے البانیہ کی پوری ریاست پر قبضہ کرلیا۔یکم ستمبر 1939کوجرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا ،یہ تھے وہ حالات جنہیں جنگ کی باقاعدہ پیش بندی کہنا چاہیے۔چنانچہ تین ستمبر 1939کو برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا ایک طرف اتحادی تھی پانچ بڑے امریکہ ،برطانیہ، چین ، روس ،فرانس اور انکے ہم نوا چھوٹے چھوٹے ملک۔ 1940کے موسم بہار میں جرمنی نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا دھواں دھار حملہ شروع کیا جس نے لڑائی کا رنگ ہی بدل دیابلکہ دنیا کی تاریخ فوجی سرگرمیوں کی نئی مثال قائم کی۔ اپریل کے اوائل میں دنیا نے اچانک یہ خبر سنی کہ جرمنی کی برق رفتا ر فوجوں نے محض ہوائی جہازوں کی مدد سے ڈنمارک اور ناروے پر قبضہ کرلیا ہے اور اگلے ہی مہینے بلجیئم اور ہالینڈ بھی جرمنی کے زیر تسلط آگئے۔اب تک جرمنی تنہا لڑ رہا تھااب اٹلی نے بھی میدان میں کودنے کا فیصلہ کیااور دس جون 1940کو فرانس کے اعلان جنگ کردیا ۔اب فرانس دو اطراف سے گھر گیا تھا۔

وہ دوہری مار برداشت نہ کرسکا اور 22جون کو ہتھیار ڈال دیئے مگر اس کے افریقی مقبوضات میں جنرل ڈیگال نے پیرس کے اعتراف شکست کو قبول نہ کیا اور لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔برطانیہ نے فرانس میں جرمنی کی بنائی ہوئی حکومت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے جنرل ڈیگال کو فرانس کا وارث قرار دے دیا۔فرانس کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اب برطانیہ میدان میں تنہا رہ گیا تھا۔ہٹلر نے ایک ماہ تک برطانیہ کو سوچنے کا موقع دیا کہ وہ بھی شکست تسلیم کرلے لیکن برطانیہ ڈٹا رہا۔بالآخر اگست 1940میں ہوائی حملے کے ذریعے جرمنی نے برطانیہ میں قیامت برپا کر دی جبکہ دوسرے محاذوں پر جرمنی کی فتوہات کا سلسلہ جاری تھااور بلغاریہ ،یوگوسلاویہ اور یونان بھی جرمنی کے زیرتسلط آگئے۔ 22جون 1941کو جرمنی نے ایک حیرت انگیز قدم اٹھایا یعنی روس پر حملہ کردیا ۔پوری دنیا جرمنی کی اس حماقت پر حیران تھی کیونکہ دوسال پہلے ہی جرمنی اور روس کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ ہوچکا تھا۔جرمن فوج حیرت انگیز طورپر آگے بڑھتی گئی اور دسمبر 1941میں ماسکو سے صرف 25میل کے فاصلے پر تھی لیکن ماسکو پر قبضہ نہ ہوسکا۔امریکہ ابھی تک براہ راست جنگ میں شامل نہ ہوا تھامگر اس کی ہمدردیاں کھلم کھلا برطانیہ اور روس کے ساتھ تھیںمگر 07دسمبر 1941کو جاپان نے اچانک بحرالکاہل میں امریکہ مقبوضہ جزائر پرل ہاربر پرہوائی حملہ کرکے تباہی مچادی۔امریکی بحری بیڑہ وہاں سے بھاگنے پر مجبورہوگیا۔اس واقعے نے اتحادیوں کی صف میں امریکہ اور محوریوں کی صف میں جاپان کا اضافہ کردیااور اس طرح یہ جنگ ایک عالمگیر جنگ بن گئی جس میں مشرق بھی تھا اور مغرب بھی،نئی دنیا بھی تھی اور پرانی دنیا بھی۔ پرل ہاربر پر قبضہ کے بعدجاپان بھی آندھی اور طوفان کی طرح آگے بڑھا،تین ماہ سے بھی کم عرصہ میں اس کی فوجیں بحرچین عبورکرکے ملایا تک قابض ہوگئیں۔25دسمبر 1941کو ہانگ کانگ کے برطانوی حصہ پر بھی جاپانی پرچم لہرا دیا گیا ۔فروری 1942میں سنگاپور بھی جاپان کے زیر تسلط آگیا۔ فلپائن کے جزائز جن کی حفاظت امریکہ کی ذمہ داری تھی مئی کے مہینے میں مکمل طور پر جاپان کا مقبوضہ بن گئے۔غرض چند ماہ کے عرصہ میں بحرالکاہل کے تما م جزائز کو فتح کرنے کے بعد جاپانی افواج سیام ،انڈو چائنا اور برما سے گزر کرہندوستان کی مشرقی سرحدوں تک پہنچ گئیں ۔ 1942میں محوریوںکی پیش قدمی میں کمی آگئی کیونکہ اتحادیوں کی طرف سے مدافعت میں اضافہ ہونے لگا تھا۔اٹلی کی فوجیں لیبیا سے نکل کر مصر میں سیدی بارانی کے مقام تک پہنچ گئیں ۔مگر اس سے آگے نہ بڑھ سکیں۔

جولائی 1942میں جرمنی کے جنرل رومیل نے مصر پر قبضہ کیلئے بھر پور کوشش کی اور اس قدر تیزی سے آگے بڑھا کہ سکندریہ صرف ستر میل کی مسافت پر رہ گیا لیکن اتحادیوں نے زبردست مقابلہ کیا اور نومبر 1942میں العالمین کے مقام پر جنرل منٹگمری کی قیادت میں اٹلی اور جرمنی کی زبردست فوجی طاقت کو پہلی بار اتنی بڑی شکست دی کہ اس کے بعد محوری کے پائوں شمالی افریقہ سے اکھڑتے چلے گئے ۔ اس کے فوراً بعد ہی امریکہ اور برطانیہ کی افواج نے امریکی جنرل آئزن ہاور کی کمانڈ میں مراکش اور الجزائز پر حملہ کرکے وہاں پڑائو ڈال دیا،اب محوری فوجیں شمالی افریقہ میں دو اطراف سے گھر گئیںاور آخر مئی 1943میں ہتھیار ڈال دیئے البتہ جنرل رومیل بچ کر نکل گیا۔ ایران نے اگرچہ محوریوں کی حمایت نہ کی تھی مگر جب روس جنگ میں شامل ہوا تو اس کا نزلہ ایران پر گرا۔اتحادی فوجیں دارالحکومت میں داخل ہوئیں اور بوڑھے بادشاہ کو معزول کرکے اس کے نوجوان بیٹے کو تخت پر بٹھا دیا ۔اس طرح ہندوستان میں برما کی سرحدوں سے لیکر بحرروم میں افریقہ کے ساحلوں تک اتحادی فوجوں نے دفاع کے نام پر زبردست فوجی استحکام حاصل کرلیا۔ محوریوں میں اٹلی سب سے کمزور تھا اس لئے شمالی افریقہ کی فتح کے بعد اتحادی فوجوں نے جزیرہ سسلی پر قبضہ کرکے اٹلی پر یلغار کی،مسلسل شکست سے اٹلی کی فوجوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔چنانچہ مسولینی کے خلاف بغاوت ہوگئی اور جولائی 1943میں اسے استعفیٰ دینا پڑا۔

 نئی حکومت نے اتحادیوں کو صلح کی پیشکش کی اور مسولینی کو ایک قابل نفرت لیڈر قرار دے کر جیل میں ڈال دیا۔اتحادیوں نے فاتحانہ شرائط پر اٹلی کی صلح کی درخواست تین ستمبر 1943کو قبول کرلی مگر جرمنی باز نہ آیا اور ایک دن چند جرمن ہوائی جہاز پیراشوٹ کی مدد سے مسولینی کو جیل سے اٹھا کر لے گئے اور شمالی اٹلی کے پہاڑوں میں آزاد فسطائی حکومت کے نام سے مسولینی نے نئی حکومت قائم کرکے اتحادیوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔اٹلی چونکہ اتحادیوں سے صلح کرچکا تھا اسلئے اس نے مسولینی کا ساتھ دینے کی بجائے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیاتاکہ اتحادیوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلا سکیں۔جب تک جرمنی میں دم خم رہا ،شمالی اٹلی کی پہاڑیوں میں مسولینی کی آواز گونجتی رہی لیکن دو سال بعد اپریل 1945میں مسولینی اپنے مخالف ہموطنوں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔جنہوں نے فوراً اُسے اور اُس کی بیوی کو قتل کردیا۔ شمالی افریقہ میں جرمن اور اطالوی افواج کی شکست کے بعد سے جنگ کا رخ بدلنا شروع ہوگیا تھا۔مراکش سے الجزائر تک امریکہ اور برطانیہ اپنی فوجیں اتار کراپنی پوزیشن مستحکم کرچکے تھے۔جرمنی ،سٹالن گراڈ کا محاصرہ نہ توڑ سکا۔مارچ 1943میں روس نے کیشیا کا علاقہ جرمنوں سے چھین لیا اور تقریباً ساڑھے تین لاکھ فوجی مارے گئے یا گرفتار ہوئے ۔اسکے بعد روس نے ایک اور حملہ کیا اور اپریل 1944تک یوکرائن واپس لیکر رومانیہ میں داخل ہوگیا۔اسی سال جون سے اکتوبر تک کے معرکوں میں بلغاریہ اور فن لینڈ کو بھی جرمنوں سے خالی کرالیا گیااور اب روسی فوجیں شمال مغربی جرمنی تک پہنچ گئیں ۔دوسری طرف برطانوی افواج نے یونان پر حملہ کیا اور1944کے آخر تک جرمنی یونان سے بھی نکلنے پر مجبور ہوگیا۔یوگوسلاویہ میں مارشل ٹیٹو نے جرمنوں کے خلاف گوریلا جنگ شروع کررکھی تھی۔نئی صورتحال سے اس جنگ کوبھی نیا رخ مل گیا۔برطانیہ اور امریکہ نے اب جرمنی کے خلاف کوئی براہ راست محاذ نہ کھولا تھا۔مگر نشان منزل سامنے پاکر انکے حوصلے بلند ہوئے اور جون 1944 میں یہ محاذ بھی کھول دیا گیا۔

دوماہ کی زبردست قتل غارت گری کے بعد اگست 1944میں اتحادی فوجوں نے فرانس کے جنوبی ساحل پیرس کی طرف بڑھناشروع کیا۔اس خبر سے پیرس میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اورفرانس میں قائم جرمن حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی جسے دبایا نہ جاسکے اور فرانس جرمن غلبے سے آزاد ہوا۔اب اتحادی فوجوں نے برلن کی طرف پیشقدمی کی ،مشرق میں روسی فوجیں اور مغرب میں امریکی وبرطانوی فوجیں اور ان کے ساتھ جنرل ڈیگال کے مسلح دستے لیکن برلن میں سب سے پہلے داخلے کا اعزاز 24اپریل 1945کو روس کوحاصل ہوا۔2مئی 1945کو جرمنی نے ہتھیار ڈال دیئے اور پانچ روز بعد پوری جرمن فوج نے غیر مشروط اطاعت قبول کرلی۔مگر ہٹلر کسی کے ہاتھ نہ آیاکیونکہ تین دن پہلے 29اپریل کو وہ خود کشی کرچکاتھااور وصیت کے مطابق اس کی لاش کو بھی دفنا یا جاچکاتھا۔مسولینی پہلے مرچکا تھااس لئے اتحادیوں کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی کہ وہ ہٹلر اور مسولینی کو زندہ گرفتار کرکے فتح کی نشانی کے طورپر نمائش کرسکیں۔ اتنا کچھ ہوچکنے کے بعد بھی جاپان نے ہارنہ مانی۔اگرچہ ہٹلر اور مسولینی کی موت کے بعد جاپان تنہا تھامگر اس نے لڑائی جاری رکھی۔ وہ اسے مزید جاری بھی رکھتا مگر وہ اس قیامت کی تاب نہ لاسکا جو اس کیلئے امریکہ نے تیار کی تھی۔جرمنی کی شکست کے تین ماہ بعد امریکہ نے 6اگست 1945کو جاپانی شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گراکر اسے کھنڈر بنا دیا۔تباہی کے اس نظارے نے اقوام عالم کو دہلا کر رکھ دیا ۔جاپان کی شکست یقینی سمجھتے ہوئے 8اگست کو روس نے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کرکے منچوریا میں اپنی فوجیں اتاردیںجوجاپانیوں کے قبضے میں تھا اور پھر اگلے روز 9اگست 1945کو امریکہ نے دوسرا، ایٹم بم فوجی اہمیت کے حامل جاپانی شہر ناگا ساکی پر گرایا ۔جس کی شدت پہلے ایٹم بم سے بہت زیادہ تھی۔جاپان اتنی بڑی تباہی کی تاب نہ لاسکا او ر14اگست 1945کو شکست تسلیم کرتے ہوئے اتحادیوں کی اطاعت قبول کرلی۔ 2ستمبر کو ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط ہوئے اور اس طرح پورے چھ سال بعد یہ عالمگیر جنگ ختم ہوئی۔

موت اور تباہی کا یہ خوفناک کھیل دوہزار ایک سواکانوے روز تک جاری رہا ۔انسانی تاریخ کی اس سب سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن جنگ میں انسانوں کی سب سے بڑی تعداد (سات کروڑ ) شریک ہوئی،جنگی مشینوں کی سب سے بڑی تعداد استعمال ہوئی۔انسانی جانوں کا نقصان بے اندازہ تھا۔کم ازکم ایک کروڑ ستر لاکھ انسان جنگی میدانوں میں مارے گئے ۔ایک کروڑ اسی لاکھ شہری کسی نہ کسی طرح ہلاک ہوئے ۔مقتولین کی تعداد پہلی جنگ عظیم سے تقریباً دوگنا تھی۔یہ تعداد اوربھی زیادہ ہوجاتی مگر دو زخمیوں میں سے ایک کو خو ن دے کر اور نئی دوائوں کے استعمال سے بچالیا گیا۔براہ راست فوجی مصارف کھربوں ڈالر پہنچ گئے۔املاک کا نقصان کم از کم اس سے دوگنا تھا۔پورے یورپ میں زمین اس قدر بنجرہوچکی تھی کہ گویا کسی درانتی سے صاف کردی گئی ہو۔دریائے سین (فرانس ) سے دریائے والگا(روس)تک اور دریائے اوڈر(جرمنی)سے دریائے ٹیمز(اٹلی)تک یورپ میں بربادی کا جال بچھ گیا۔بڑے بڑے شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ۔جو کارخانے کئی کئی مربع میل میں پھیلے ہوئے تھے مٹا دیئے گئے ۔نقل وحمل کے ذرائع درہم برہم ہوگئے۔چونکہ متحار ب فریقین نے پسپا ہوتے وقت ہر شے بے دردی سے تباہ کردینے کی کوشش کی۔اس لئے بڑے بڑے زیر کاشت رقبے اس قدر برباد ہوچکے کہ سال ہا سال ان سے پیداوار حاصل نہ کی جاسکی یا بہت کم پیداوار ہوئی۔مویشیوں کی تعداد گھٹ گئی،یورپی معاشرے کا پورا نظام برباد ہوگیا۔خوراک ،لباس اور مکانوں کی کمی کئی سالوں تک پوری نہ ہوسکی۔اکثر یورپی اور ایشیائی ممالک اقتصادی بدنظمی کے باعث شل ہوچکے تھے اور لوگوں کو افراط زر کا بھوت پریشان کررہاتھا۔وسیع آبادیاں حرکت میں تھیںجنگی قیدی واپس آرہے تھے،لاکھوں پناہ گزین حفاظت اور امن کی تلاش میں ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف جارہے تھے یا انہیں نکالا جارہا تھا ۔گویا ایک ایسی عالمگیر تباہی چشم فلک نے دیکھی جس کا تصور کرکے بھی روح کانپ جاتی ہے

0 comments: