Showing posts with label Waziristan. Show all posts

'Eid Mela' To Celeberate With N. Waziristan IDPs

The suffering of Pakistan’s IDPs



The situation is deteriorating for internally displaced persons (IDPs) in Pakistan’s Waziristan tribal region. According to government sources more than 500,000  people have migrated from Waziristan to different parts of the country after army operations in the region. Most of the people who migrated from Waziristan are poor and some of them walked for two or three days to reach Bannu and Dera Ismail Khan because of a lack of transportation and the curfew restrictions in the area.Women and children are the worst affected, and several children have lost their lives due to a lack of medical facilities. The extreme summer weather has added further difficulty to their journey. 

Now due to a lack of facilities, these IDPs find it hard to provide food and shelter for their families. Local media are showing depressing pictures of these events. People are forced to stand for long hours outside government assistance centers. There are only a few NGOs working in the area with limited resources, and instead of providing help to these displaced people, political parties in Pakistan continue to fight with each other.

Khawaja Umer Farooq, Jeddah

آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری......


مان لیا کہ من بھر گیہوں میں تھوڑا بہت گھن بھی پس جاتا ہے ۔لیکن کیا یہ بھی ممکن ہے کہ سیر بھرگیہوں میں ایک من گھن پس جائے۔بالکل ممکن ہے اگر چکی شمالی وزیرستان کی ہو۔
آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری ۔نائن الیون سے اب تک قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ میں سات بڑے بڑے آپریشن ہو چکے ہیں۔

توقع یہی ہوتی ہے کہ ہر نئے آپریشن میں جو بھی اچھا برا تجربہ ہاتھ آئے گا اس کی روشنی میں اگلا آپریشن عسکری و انسانی اعتبار سے اور بہتر ہوگا۔ لیکن جس طرح سے لگ بھگ پانچ لاکھ انسانی مرغیوں کو شمالی وزیرستان کے دڑبے سے ہنکالا گیا اس سے تو نہیں لگتا کہ یہ وہی ریاست ، فوج اور مقامی انتظامیہ ہے جس نے سوات آپریشن سے پہلے پہلے مقامی و بین الاقوامی اداروں کی مدد سے کیمپوں کا پیشگی نظام قائم کر کے مالاکنڈ ڈویژن خوش اسلوبی اور نظم و ضبط کے ساتھ خالی کروایا تھا۔
دیکھا جائے تو شمالی وزیرستان کے پناہ گزینوں کی تعداد سوات آپریشن متاثرین کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے لیکن پیشگی انتظامات لگ بھگ زیرو رہے۔ آپریشن شروع ہونے کے دو ہفتے بعد اب کہیں جا کے انتظامی آثار دکھائی پڑنے لگے ہیں۔

بیت الخلا کی ضرورت
ارے ہاں تمہیں تو شاید بیت الخلا کی بھی ضرورت ہوگی نا۔یہ ہم نے چار گڑھے کھود دیے ہیں اور ہر گڑھے پر دو دو پٹڑے بھی رکھ دیے ہیں اور ٹاٹوں کی چار دیواری بھی کھڑی کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خواتین یہ بیت الخلا استعمال کرلیں۔باقی لوگ یہ سامنے والے جنگل میں چلے جایا کریں۔
زرا تصور کریں کہ کسی ایک روز لاہور، فیصل آباد، پنڈی، کراچی یا حیدرآباد کے کچھ مخصوص علاقوں کو دہشت گردی اور دیگر خوفناک جرائم سے پاک کرنے کی اچانک عسکری کارروائی شروع ہونے کے بعد یہاں کے چھ لاکھ مکینوں سے کہا جائے کہ جتنا جلد ممکن ہو غیر معینہ عرصے کے لیے گھر بار چھوڑ کر شہر کی حدود سے نکل جاؤ اور انھیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ یہاں سے کہاں اور کیسے جانا ہے؟ رکنا کہاں ہے۔ راستے میں اتنے لوگوں کو کوئی پانی بھی پلائے گا؟ کھانے کا کون پوچھے گا؟ بیماروں کو کہاں لادے لادے پھریں گے؟ نوزائدہ بچوں کے دودھ ، بڑے بچوں کی تعلیم اور پردہ دار خواتین کے نہانے دھونے پکانے کا کیسا انتظام ہو گا؟

اور پھر حکومت لاہور، فیصل آباد، پنڈی، کراچی اور حیدرآباد کے ان متاثرین کو
 نکالے جانے کے ہفتہ بھر بعد فی خاندان پندرہ ہزار روپے کی ادائیگی اس مد میں کر دے کہ یہ آپ کے کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کے فوری اخراجات ہیں اور پھر ان سے یہ کہا جائے کہ اپنی مدد آپ کے تحت سو پچاس کلومیٹر پرے ایک ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر رجسٹریشن کروا کے مہینے بھر کا راشن لے لو۔اور پھر ان سے کہا جائے کہ یہ جو لق و دق زمین نظر آ رہی ہے یہ کوئی ویرانہ نہیں تمہارے قیام کا کیمپ ہے۔ اپنے ایک سو دس کلو وزنی راشن کے تھیلے سر سے اتار کر زمین پر رکھو اور ان تھیلوں کو تکیہ سمجھ کر دو دو تین تین سر رکھ کے سوجاؤ۔
کیا کہا خیمے؟ وہ تو ابھی پانی کے جہاز سے آ رہے ہیں۔

کیمپ میں پینے کا پانی؟ کل پرسوں انشااللہ ایک آدھ ٹینکر ضرور چکر لگائے گا یہاں۔
دیگچی، پرات، توا، رکابی، گلاس؟ ہاں کچھ این جی اوز سے بات ہوئی تو ہے۔امید ہے کہ اگلے دس پندرہ دن میں برتن بھی آجائیں گے تب تک خشک راشن مٹھی بنا کے پھانکتے رہو۔
ارے ہاں تمہیں تو شاید بیت الخلا کی بھی ضرورت ہوگی نا۔یہ ہم نے چار گڑھے کھود دیے ہیں اور ہر گڑھے پر دو دو پٹڑے بھی رکھ دیے ہیں اور ٹاٹوں کی چار دیواری بھی کھڑی کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خواتین یہ بیت الخلا استعمال کرلیں۔باقی لوگ یہ سامنے والے جنگل میں چلے جایا کریں۔
بجلی؟ کیا تمہارے پاس ٹارچ والا موبائل فون نہیں؟ تو پھر؟

بالکل پریشان مت ہو۔پوری قوم آزمائش کی گھڑی میں دل و جان سے تمہارے ساتھ ہے۔ بے صبری کو لگام دو۔انشااللہ دو تین ماہ میں پورا انتظام قابو میں آجائے گا۔تمہیں باقاعدہ ماہانہ مالی امداد بھی ملے گی۔تب تک یہ سمجھ لو کہ ملک کے لیے عظیم قربانی دے رہے ہو۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تم کسی اور صوبے میں جانے کی فرمائش کر بیٹھو۔جو ملے گا یہیں ملے گا۔یہاں سے گئے تو کچھ نہ ملے گا۔

وسعت اللہ خان 


اگر جمہوریت ختم ہوئی تو.......


بنوں اور کرک کے تپتے صحرائوں میں تڑپتی انسانیت سراپہ سوال ہے ۔ کہاں گئے مولانا سمیع الحق؟ انہوں نے تو اپنے آپ کو بیمار مشہور کرلیا لیکن کیا مولانا یوسف شاہ بھی بیمار ہیں۔ وہ جو روزانہ ٹی وی ٹاک شوز میں جلوہ گر ہوتے اور صبح، دوپہر، شام پریس کانفرنس کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ وہ قوم کو بتائیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کس نے اور کیوں ناکام کرایا؟ اس آپریشن کی تیاری فوج نےچھ ماہ قبل نہ صرف کرلی تھی بلکہ وزیرِ اعظم کو بریف بھی کیا تھا کہ وہ چھ گھنٹے کے نوٹس پر شروع کردیں گے۔ تب سردی کا موسم تھا۔

 عسکریت پسندوں کے لئے برف کی وجہ سے پہاڑوں میں چھپنا اور افغانستان منتقل ہونا مشکل تھا۔ آئی ڈی پیز کو بھی شدید گرمی کی اذیت برداشت نہ کرنا پڑتی۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو تب فوج کو کیوں روکا گیا؟ شدید ترین گرمی میں معصوم اور بیمار بچوں کو گود میں لئے شمالی وزیرستان کی تڑپتی لاکھوں مائیں اور بلکتے بچے، وزیر اعظم کے قادر الکلام مشیر خاص کالم نگار کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں۔ وہ ان کی زبانی جاننا چاہتی ہیں کہ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے اور ان کو دربدر کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ مذاکراتی کمیٹی میں عمران خان کی نمائندگی کرنے والے رستم شاہ مہمند نے مجھے بتایا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ عمران خان صاحب کو آگاہ کرتے رہے اور اللہ گواہ ہے کہ عمران خان مذاکراتی عمل سے متعلق قوم کو حقیقت نہیں بتا رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے مظلوم قبائلی عمران خان کی زبانی وہ حقیقت سننا چاہتے ہیں۔

وہ جاننا چاہتے ہیں کہ صحیح وقت پر آپریشن کے مخالف اور مذاکرات کے حامی، غلط وقت اور رمضان کی آمد پر آپریشن کے حامی کیوں بن گئے؟ وہ جن کی سیاست ڈرون حملوں کے گرد گھومتی تھی، آج ان کے دوبارہ آغاز پر کیوں خاموش ہیں؟ کیا محض اس لئے کہ تحریک انصاف کی ترجمان کو اوپر سے ہدایت نہیں ملی اور انہوں نے عمران خان کو ہدایت کی ہے کہ ڈرون حملوں کے دوبارہ آغاز پر خاموش رہیں۔ آپریشن کے یہ متاثرین پوچھ رہے ہیں کہ پختونوں کے حقوق کے علم بردار اسفندیارولی خان صاحب کہاں ہیں؟ کیا پختونوں پر اس سے بھی زیادہ مشکل وقت آسکتا ہے۔ وہ تو خیر یہ عذر پیش کرسکتے ہیں کہ وہ اقتدار سے باہر اور بیمار ہیں لیکن ان متاثرین کی آنکھیں پختونوں کے ایک اور لیڈر محمود خان اچکزئی کو بھی ڈھونڈرہی ہیں جن کی اس وقت پانچوں گھی میں ہیں، جن کے خاندان کا کم و بیش ہر مرد اقتدار میں ہے اور جو ان دنوں وزیرِ اعظم کے خصوصی ایلچی کی حیثیت میں افغانستان کو پاکستان کے ساتھ تعاون پر آمادہ کرنے کے لئے کابل کے دورے کررہے ہیں۔

اگر اسلام آباد کے محلات میں پنجابی وزیرِ اعظم کے ساتھ بیٹھ کر انہیں وزیرستان کے متاثرین یاد نہیں آئے تو کابل کے یخ بستہ محل میں پختون حامد کرزئی کے ساتھ بیٹھ کر بھی انہیں قبائلی عوام کے دکھوں نے نہیں ستایا۔ شاید حکمرانوں نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی سیاستدان کو عزت سے نہیں رہنے دیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن کو پورے ایک سال تک تڑپا دیا۔ پہلے وزارتیں نہیں دے رہے تھے اور پھر جب وزارتیں دے دیں تو ان کو ان کی مرضی کے محکمے نہیں دیئے تھے۔ نتیجتاً وہ حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے اسلام اور قبائلیوں کے روایتی ہتھیار استعمال کرنے لگے۔ شمالی وزیرستان کے متاثرین کو غلط فہمی تھی کہ اگر ان کے علاقے میں آپریشن کا آغاز ہوا تو مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے مداح سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر راہ میں کھڑے ہوں گے لیکن وزیر اعظم بھی کمال کے ہوشیار نکلے ۔ ادھر سے آپریشن کی اجازت دے دی اور ادھر سے مولانا فضل الرحمٰن کے اکرم درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ان کی مولانا کی مرضی کی وزارتیں دے دیں۔ مولانا کے ماضی کے بیانات اور ان کے ساتھ حکومت کی بدسلوکی کے تناظر میں قوم توقع کر رہی تھی کہ جب بھی آپریشن کا آغاز ہوگا تو وہ احتجاجاً کشمیر کمیٹی کی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ بھی چھوڑ دیں گے لیکن معاملہ الٹ نکلا۔ ادھر آپریشن کا آغاز ہوا اور ادھر وہ پورے کے پورے حکومت میں شامل ہوگئے۔ رہے سراج الحق صاحب تو شاید وہ صرف جماعت اسلامی کے امیر رہتے تو اس وقت ضرور میدان میں نکلتے لیکن افسوس کہ وہ ساتھ ساتھ پرویز خٹک صاحب کی ٹیم کے رکن بھی ہیں اور ان کی ٹیم کے رکن سے کسی قائدانہ کام کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ متاثرین آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے جو ہر وقت آپریشن آپریشن کی دہائیاں بلند کرتے تھے کی آمد کے بھی منتظر ہیں۔

پوچھتے ہیں کہ کیا تمہارا کام صرف آپریشن کیلئے ورغلانا تھا۔ جس قوم کے ہاں سیاستدانوں کی بہتات اور لیڈروں کا فقدان ہو، اس کا یہی حشر ہوتا ہے جو اس وقت اس قوم کا ہو رہا ہے۔ فوج نے آپریشن کی تیاری چھ ماہ قبل کرلی تھی اور حکومت تین ماہ قبل اس نتیجے تک پہنچی تھی کہ آپریشن ہوگا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور وقت آنے پر ثابت کردوں گا کہ خیبرپختونخوا حکومت اور عمران خان کو بھی بہت پہلے سے علم تھا کہ آپریشن ہو کر رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ پھر آئی ڈی پیز کے لئے مرکزی یا صوبائی حکومت نے تیاری کیوں نہیں کی؟
حالت یہ ہے کہ میرے گزشتہ کالم کو پڑھ کر صبح بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض صاحب نے رابطہ کیا کہ وہ پانچ کروڑ روپے آئی ڈی پیز کے لئے دینا چاہتے ہیں لیکن حیران ہیں کہ کیسے یہ رقم خرچ کریں۔ یہ اعلان ٹی وی پر بھی انہوں نے کیا لیکن دو دن گزرنے کے باوجود کسی مرکزی یا صوبائی حکومت کے کسی ادارے نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ گزشتہ کالم پڑھنے کے بعد بیرون ملک اور اندرون ملک سے لوگ مجھ سے رابطہ کر کے امدادی فنڈ کے اکاونٹ کے بارے میں معلوم کرتے رہے لیکن پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس دن تک نہ صوبائی حکومت نے فنڈ قائم کر کے اکاونٹ نمبر مشتہر کیا تھا اور نہ صوبائی حکومت نے۔ صرف الخدمت تنظیم نے فنڈ قائم کیا تھا اور وہ متاثرین کی مدد کے لئے فعال بھی تھی۔ ان متاثرین کو پاکستان کے مخیر حضرات بھی سنبھال سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے اب کے بار میڈیا اس طرح کی فضا بھی نہ بنا سکا جس طرح کہ سوات آپریشن کے ضمن میں پیدا کی گئی تھی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ میڈیا کی قیادت کرنے والے جیو نیوز کو پہلے سے خاموش کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف میڈیا علامہ طاہر القادری کے ڈرامے، عمران خان کے جلسے اور چوہدری برادران کے تماشے کو کور کرنے میں مصروف رہا۔ مجھے یقین ہے کہ میری ان دہائیوں کے بعد بھی ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت کا ضمیر نہیں جاگے گا لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جب آپریشن کا فیصلہ بھی فوج نے کرنا ہے، جب اسے کنڈکٹ بھی فوج نے کرنا ہے، جب آئی ڈی پیز کا انتظام بھی اس نے فوجی طریقے سے کرنا ہے، جب شہروں کی سیکورٹی بھی اس کی ذمہ داری قرار پائی ہے اور جب اسلام آباد میں ان کو آرٹیکل 245 کے تحت اختیارات بھی دئے جارہے ہیں تو پھر یہ جمہوریت کس مرض کی دوا ہے؟

کل اگر طاہر القادری یا عمران خان کی التجائوں اور دہائیوں پر لبیک کہہ کر کوئی اس جمہوریت کو رخصت کرنے آ گیا تو کسی شہری کو کیا پڑی ہے جو اس کو بچانے کے لئے سیاسی قیادت کی پکار پر لبیک کہے گا۔ کوئی آمر حکمران رہے یا پھر نوازشریف، عمران خان یا آصف زرداری، قوم کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ پھر وہ کیوں کر جمہوریت کے لئے جیل جائے یا پھر کوڑے کھائے گا۔ پھر یہی قوم کہے گی کہ بھاڑ میں جائے اس میڈیا کی آزادی کہ جس کے پاس علامہ طاہر القادری کے ڈراموں کی کوریج کے لئے تو بہت وقت ہے لیکن پاکستان کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھنے والے ایشو یا پھر سات لاکھ انسانوں کے مسئلے کی کوریج کے لئے اس کے پاس وقت نہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

Cost of War : Migration of Waziristan Children

Cost of War : Migration of Waziristan Children

Help and Dua for Waziristan Displaced People





Help and Dua for Waziristan Displaced People

Tears of Waziristan

Tears of Waziristan

Media and Waziristan operation by Dr. Mujahid Mansoori



Media and Waziristan operation by Dr. Mujahid Mansoori

Can Waziristan operation bring peace in Pakistan?


 Can Waziristan operation bring peace in Pakistan?

Pakistan's military operations in Pakistan


ایسا تو تاریخ میں کم ہی ہوا ہوگا کہ کسی قوم کی پوری قیادت اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کے لیے آمادہ ہوجائے اور انہیں ایسا کرنے سے روکنے والوں کو نشانۂ تنقید و استہزا بنادیا جائے۔ آج پاکستان کی پوری سیاسی قیادت شمالی وزیرستان پر فوجی حملے کی حامی ہے۔ مسلم لیگ ن تو صاحبِ اقتدار ہے اور فوجی آپریشن کا فیصلہ اسی کا ہے۔ لیکن دیگر تمام سیاسی قوتیں بھی فوجی آپریشن کے نکتے پر حکومت ہی کی صف میں کھڑی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والے آخر امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سید منورحسن کے سوالوں کے جوابات کیوں نہیں دیتے؟

  آپریشن کا فیصلہ کرنے والوں سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے آج تک آخر کیا حاصل کیا گیا ہے؟ دور نہ جائیں صرف 1971ء کے مشرقی پاکستان کے آپریشن سے بات شروع کرلی جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا ان تمام فوجی آپریشنوں سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرلیے گئے؟ 1971ء کا فوجی آپریشن پاکستان کے سقوط پر منتج ہوا۔ بلاشبہ سقوط مشرقی پاکستان کے دیگر عوامل بھی رہے ہوں گے، لیکن اُس وقت فوجی آپریشن کا فیصلہ حالات کو سدھارنے کے لیے ایک اہم حکمت عملی تھی۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں بڑھنے والی بغاوت کی تحریک نے پاک فوج کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے سامنے ہزیمت سے دوچار کیا اور ملک کا مشرقی بازو ہم سے کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا۔ آج کے حالات میں فوجی آپریشن کا کوئی بھی حامی، مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن سے برآمد ہونے والے ہولناک نتیجے کو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں شمار نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ مشرقی پاکستان میں کیا گیا فوجی آپریشن اپنے نتائج کے حصول (یعنی پاکستان کو ایک اکائی رکھنے) میں ناکام رہا۔ اور وہ ایک ناکام فوجی آپریشن تھا۔

بھٹو صاحب نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 1971ء کے مشرقی پاکستان کے ناکام فوجی آپریشن کے فقط دو سال بعد بھٹو صاحب نے بلوچستان کی حکومت تحلیل کرتے ہوئے بلوچستان پر فوج کشی کا اعلان کردیا۔ چار سال جاری رہنے والا آپریشن بھٹو صاحب کی حکومت کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔ لیکن اس آپریشن کے نتیجے میں وفاق پاکستان کے خلاف پیدا ہونے والی بداعتمادی کی تلخی آج تک مری اور مینگل قبائل کے رویوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔

2006ء میں بلوچستان میں شروع ہونے والا فوجی آپریشن جنرل پرویزمشرف کے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں آج کا بلوچستان ایک ایسا رستا ہوا ناسور بن چکا ہے جس کا علاج نہ تو سول حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی آپریشن کرنے والوں کے پاس۔ آپریشن میں ملک دشمن قوتوں نے کھل کر کھیل کھیلا ہے اور بقول سربراہ فرنٹیئر کانسٹیبلری بیس سے زائد غیرملکی خفیہ ایجنسیاں صوبے میں موجود ہیں اور صورت حال کے بگاڑ کی ذمہ دار ہیں۔ فوجی آپریشن پر پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کا تجزیہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’جنرل مشرف کا بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ایک بھیانک غلطی تھی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’نواب اکبر بگٹی بلوچستان میں وفاق کی علامت کے طور پر موجود تھے، ان کے دل میں پاکستان آرمی کے لیے احترام موجود تھا اور وہ بلوچستان اور وفاق کے درمیان ربط کا ذریعہ تھے۔ نواب اکبر بگٹی کا قتل پاکستان کے خلاف جرم ہے۔‘‘

پھر سوات آپریشن بھی جس کی کامیابی کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا گیا، سب کے سامنے موجود ہے۔ 2009ء میں شروع ہونے والا یہ آپریشن کہنے کو ختم ہوچکا ہے، لیکن تاحال آزاد میڈیا کا داخلہ وہاں ممنوع ہے۔ فوجی آپریشن کی کامیابی کے بعد علاقہ کا انتظام سول انتظامیہ کے حوالے ہوجانا چاہیے تھا، لیکن آخری اطلاعات یہ ہیں کہ وہاں سے فوج کی واپسی کی فی الحال کوئی تیاری نہیں بلکہ نوازشریف صاحب نے اپنے دورۂ سوات کے دوران وہاں مستقل فوجی چھائونی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔

کراچی کے دو آپریشن بھی ہمارے سامنے ہیں۔ پہلے آپریشن کا نتیجہ یہ ہے کہ آپریشن میں شریک تمام ہی پولیس آفیسر ایک ایک کرکے قتل کیے جا چکے ہیں اور شہر میں پچھلے پانچ برسوں میں 7000 سے زائد لوگ قتل کیے گئے ہیں۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیاں عام ہیں اور عوام کاجینا دوبھر ہے۔ اس پس منظر میں کراچی کی تاریخ کا دوسرا آپریشن کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں اہم کردار رینجرز کا ہے۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی کے مسلح گروپوں کی شہر میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو روکنے کے لیے شروع کیا جانے والا یہ آپریشن آج اس حال میں ہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے یہ لکھا ہے کہ ایک تہائی کراچی طالبان کے کنٹرول میں ہے جہاں ان ہی کا سکہ چلتا ہے اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ بھی اس خبر پر یقین رکھتے ہیں۔ کراچی کے شہریوں سے پوچھیے تو پتا چلے گا کہ نہ تو ٹارگٹ کلنگ کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری بند ہوئی ہے اور نہ ہی بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار میں کوئی فرق پڑا ہے۔ سیاسی تنظیموں کے مسلح جتھے آج بھی موجود ہیں اور آپریشن بھی جاری ہے۔ عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ رینجرز کی طرف سے ہر روز ٹارگٹ کلرز پکڑے جانے کے دعووں میں کیا صداقت ہے اور آخر اس آپریشن کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے!

ملک کی سیاسی قیادت کے ذمہ سید منور حسن کے اس سوال کا جواب قرض ہے کہ ناکام فوجی آپریشنوں کی تاریخ رکھنے والا پاکستان کیا ایک اور ناکام فوجی آپریشن کا متحمل ہوسکتا ہے؟

سید منور حسن نے ملک کی سیاسی قیادت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی ہے کہ پاکستان کی پختون آبادی اور اس سے ملحقہ افغانستان کی آبادی تاریخی طور پر استعمار دشمن رہی ہے۔ برطانوی سامراج یہاں اپنا قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔ روس نے افغانستان میں اگر ہزیمت اٹھائی تو اس کی وجہ افغانوں اور پاکستان کے غیرت مند پختون عوام کی اسلام دوستی اور حریت پسندی تھی۔ اور اب اگر پچھلے گیارہ برسوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے سر پھوڑ رہے ہیں اور دنیا بھر کے تجزیہ کار اسے امریکی شکست سے تعبیر کررہے ہیں تو اس کی بڑی وجہ بھی پاکستان و افغانستان کے غیرت مند پختون عوام کا جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔ تاریخی طور پر افغانستان اور پاکستان کے یہ غیور مسلمان کبھی بھی اسلام دشمن قوتوں کے آلۂ کار نہیں بنے۔ غوری و غزنوی سے لے کر سیاف، گلبدین حکمت یار اور اب ملا عمر تک کوئی بھی مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف کبھی کھڑا نہیں ہوا۔ بلکہ ان سب کی موجودگی اسلام کی سربلندی اور افتخار کا سبب رہی ہے۔ ایسے میں کچھ ناراض عناصر اور کچھ شرپسند گروہوں کی موجودگی کو بنیاد بناکر فوجی آپریشن شروع کردینا کہاں کی دانش مندی ہے؟ ایسا آپریشن جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو برے حالوں میں نقل مکانی کرنا پڑے گی، ناحق لوگوں کا خون ہوگا، بے گناہ افراد بھی لپیٹ میں لیے جائیں گے جہاں وہ پوچھ گچھ کے تکلیف دہ مراحل سے گزریں گے، اور یوں ملک اور پاک فوج سے ناراض لوگوں کی فہرست میں لاکھوں پاکستانیوں کا مزید اضافہ ہوجائے گا۔

سید منورحسن کا کہنا یہی ہے کہ ان کی فوجی آپریشن کی مخالفت دراصل فوج کی حمایت ہے، کیونکہ اس طرح وہ فوج کو ملک کے ایک اور علاقہ میں غیر مقبولیت سے بچانا چاہتے ہیں۔

امریکہ اپنی ہاری ہوئی جنگ پاکستان کے سر ڈال کر جانا چاہتا ہے۔ یعنی امریکہ کی موجودگی ہی میں استعمار دشمن افغانی اور پاکستانی پختون عوام پاکستان دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جائیں کہ امریکہ کے جانے کے بعد پاکستانی فوج امریکہ کی جگہ اُن سے ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی لڑتی رہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کے خلاف افغانستان سے ملحقہ پاکستانی پختون آبادی میں جس نفرت کی ضرورت ہے وہ فی الحال موجود نہیں۔ چنانچہ اس کا حل وہی ڈھونڈا گیا ہے جو مشرقی پاکستان میں آزمایا جا چکا ہے، یعنی فوجی آپریشن۔ عوام اور فوجی جوانوں کی جانیں بلاشبہ قیمتی ہیں لیکن جذبۂ جہاد سے معمور لاکھوں فرزندانِ توحید کو پاکستان سے دشمنی کی طرف دھکیل دینا انتہائی ناعاقبت اندیشی ہوگی۔

خبریں کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں۔ میر علی میں گزشتہ ہفتہ ہونے والے قبائلی جرگہ کی تفصیلات اخبارات میں آگئی ہیں جس میں عثمان زئی اور دیگر قبائل نے یہ طے کیا ہے کہ فوجی آپریشن کے نتیجے میں اگر وہاں کے عوام کو ہجرت کرنا پڑی تو وہ اِس دفعہ افغانستان کی طرف ہجرت کریں گے جہاں کی حکومت کم از کم ڈرون سے تو اپنے عوام کو بچاتی ہے۔

سید منور حسن کو اپنوں اور غیروں سے گاہے بگاہے یہ بھی سننے کو ملتا رہا ہے کہ طالبان اور جماعت کے طریقہ انقلاب میں بڑا فرق ہے۔ طالبان دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ جماعت اسلامی امت کے تصور کو لے کر زندہ ہے۔ ایسے میں طالبان کی حمایت میں سید منورحسن کا مستقل اصرار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مفاداتی سیاست اور امریکی زور اور زبردستی کے اِس دور میں لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ کوئی شخص یا گروہ فقط سچ کے لیے پوری دنیا کے سامنے تنہا بھی کھڑا ہوسکتا ہے، خاص طور پر ایسے میں کہ جب سچ کی یہ گواہی بظاہر رائیگاں ہی جاتی نظر آرہی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ سچ کی مار کہاں تک پہنچتی اور اثر دکھاتی ہے۔ سید منور حسن کا کام دنیا کے سامنے سچ کو آشکار کرنا اور اس کے اوپر استقامت کے ساتھ جم جانا ہے۔

Pakistan's military operations in Pakistan

Enhanced by Zemanta

مولانا سمیع الحق کا ’’مذاکراتی مشن‘‘

 

مولانا سمیع الحق نے طالبان کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے تو مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دے دیا تھا لیکن وزیر اعظم نوازشریف نے مولانا کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا جس سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ دوسری طرف طالبان سے مذاکرات کے زبردست حامی اور کسی بھی نوع کے فوجی آپریشن کے شدید مخالف عمران خان نے کہا ہے کہ ہم فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ طالبان کے خلاف آپریشن کا کوئی فیصلہ ہوچکا ہے تو ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔ بیانات کی ان پھلجڑیوں کے دوران دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز پولیس اہلکاروں سمیت چودہ افراد اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔

مولانا سمیع الحق کی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات تو ضرور ہوئی لیکن ’’ملاقات‘‘ کے اس عنوان کے تحت رقم ہونے والی ساری داستان صرف مولانا ہی کے کنج لب سے پھوٹی۔ حکومت کی طرف سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حضرت کو کوئی خصوصی مشن سونپا گیا ہے تاہم مولانا نے ملاقات کے فوراً بعد اخباری نمائندوں کو آگاہ کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ تراشنے پر مامور ہوئے ہیں۔ حکومت نے اس کی تردید نہ کی۔ حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن نے اسے اپنی سبکی خیال کیا کیوں کہ طالبان کے حوالے سے وہ خود کو زیادہ موثر خیال کرتے ہیں۔ اگلے ہی دن وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرکے صورت حال کی وضاحت کردی۔

مولانا سمیع الحق کی وزیر اعظم سے ملاقات 31؍ دسمبر کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کو نہیں بتایا کہ طالبان کے کم و بیش پینسٹھ گروپس میں سے ان کی ملاقات کن لوگوں سے ہوئی؟رابطے کے دوران طالبان نے مذاکرات کے لئے کیا پیشگی شرائط عائد کیں؟ باضابطہ مذاکراتی عمل کے لئے حکومت سے کیا مطالبہ کیا جارہا تھا؟ اس طرح کے مشن عام طور پر خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ ثالثی کا کردار ادا کرنے والا شخص اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ ٹھوس پیشرفت سے پہلے بات گلی محلوں کا موضوع نہ بنے۔ مولانا نے اس احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔ فوری طور پر پورے جلال و جمال کے ساتھ میڈیا کے سامنے آئے اور قوم کو مژدہ سنایا کہ اس سنگین بحران کے حل کے لئے بالآخر وزیراعظم کی نگاہ انتخاب ان پر پڑی ہے اور اب وہ تیشہ ٔفرہاد لے کر جوئے شیر بہا لانے کو نکل رہے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ سیاست ، رقابت کا کھیل ہے۔ سیاسی اہداف و مقاصد رکھنے والا علماء کے درمیان ہم آہنگی کم کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ ان کی انا خاصی سخت جان ہوتی ہے۔ اسی انا نے جمعیت علمائے اسلام کے کئی ٹکڑے کر رکھے ہیں۔ مولانا کے حصے کی جمعیت ان کے نام کی مناسبت سے جمعیت علمائے (س) کہلاتی ہے۔ اگر حضرت کو واقعی یہ اہم مشن سونپا گیا تھا اور وہ خلوص دل کے ساتھ کوئی خدمت بجا لانا چاہتے تھے تو شرط اول یہی تھی کہ وہ میڈیا کی چکاچوند سے دور، ذوق تصویر و تشہیر سے بے نیاز ہو کر اللہ کی خوشنودی، پاکستان کی سلامتی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اس کارخیر میں لگ جاتے۔ دنیا کو خبر اس وقت ہوتی جب اس گھنے جنگل سے کوئی راستہ تلاش کرلیا جاتا، سنجیدہ مذاکرات کی بساط بچھ جاتی اور دلوں میں امید ویقین کے چراغ روشن ہوجاتے۔ تب میڈیا تحقیق کرتا اور پوری قوم سراغ لگاتی کہ یہ کارنامہ کس مرد کار کے ہنر کا اعجاز ہے۔کھوج لگانے والوں کے قدم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی دہلیز تک پہنچتے۔ وہ سب حضرت کے حجرۂ خاص کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور حضرت سرجھکا کر شرمائے لجائے انداز میں کہتے… اس میں میرا کوئی کمال نہیں ، سب اللہ کا کرم ہے‘‘۔ لیکن سیاست خود نمائی اور چہرہ کشائی مانگتی ہے۔ سو مولانا نے جوئے شیر کیلئے سنگلاخ پہاڑوں پہ پہلی کدال چلانے سے پہلے قوم کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا کہ انہیں وزیراعظم نے شرف ملاقات عطا کیا ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کارمحال ان کے کندھوں پہ ڈال دیا گیا ہے۔

31؍ دسمبر 2013ء سے ، دستکش ہونے کے دن 22؍جنوری 2014ء تک کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ مولانا کی مصروفیات کیا رہیں۔ وہ اکوڑہ خٹک کے حجرہ عالی سے کتنی بار نکلے، کہاں کہاں کا سفر کیا، کس کس سے ملاقات کی اور کتنی برف پگھلانے میں کامیاب ہوئے۔ تین ہفتوں کے دوران مولانا نے طالبان سے کوئی اپیل نہ کی کہ چونکہ معاملات کے سدھار کی ذمہ داری اب ان کے کندھوں پہ ڈال دی گئی ہے لہٰذا وہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کریں جو امن کی خواہش پر منفی اثرات ڈالے۔ جنوری کے تین ہفتوں کے دوران دہشت گردی کی ایک زبردست لہر اٹھی۔ بنوں اور راولپنڈی کی وارداتوں نے قوم کو ہلا کے رکھ دیا۔ امن اور خیرسگالی کا پیامبر ہونے کے ناتے مولانا کو چاہئے تھا کہ ان وارداتوں کی کھل کر مذمت کرتے۔ طالبان سے مخاطب ہوکر کہتے کہ ’’میرے بچو! یہ تم کیا کررہے ہو، اب امن کا سفید پرچم میرے ہاتھ میں ہے۔ میری لاج رکھو اور مذاکراتی عمل کو مخلصانہ کوششوں کو سبوتاژ نہ کرو‘‘۔وزیراعظم کی طرف سے ملاقات کا وقت نہ ملنے پر تو وہ اتنے برہم ہوئے کہ مذاکراتی مشن ہی سے دستکش ہوگئے لیکن دہشت گردی کی پے درپے وارداتوں کو انہوں نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا اور اظہار خفگی تک نہ کیا۔ اصولاً تو ان ہلاکت آفریں وارداتوں پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں طالبان سے کہنا چاہئے تھا کہ اگر تم لوگ اپنا ہاتھ نہیں روک سکتے تو میں اس مشن سے دستبردار ہورہا ہوں۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ وزیراعظم کا ملاقات کیلئے وقت نہ نکالنا (بقول مولانا سمیع الحق) ان سنگین وارداتوں سے بھی بڑا گناہ نکلا جو چند دنوں میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت تقریباً ڈیڑھ سو افراد کا لہو پی گئیں۔

مولانا نے یہ بھی نہیں بتایا کہ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے حوالے سے کیا ایسی ٹھوس پیشرفت ہوئی تھی جسے وہ اپنی کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں؟ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر مبنی عمومی بیانات ایک عرصے سے آرہے ہیں۔ جس دن بنوں کا المیہ پش آیا، اس دن بھی طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد اور اعظم طارق کے انٹرویوز کے اقتباسات جاری ہوئے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم نے باوقار، سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات سے نہ پہلے کبھی انکار کیا تھا اور نہ اس مذاکراتی عمل کی افادیت سے مستقبل میں انکار کرتے ہیں‘‘۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان نیک خواہشات کے اظہار کے باوجود بموں کے دھماکے، خودکش حملے اور ہلاکت آفریں کارروائیاں جاری ہیں، جن کی ذمہ داری بھی قبول کی جارہی ہے۔

دہشت گردی کی بہت بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد ایک ایسا مرحلہ آن پہنچا ہے جس میں قوم کو اپنے عزم راسخ کا اظہار کرنا ہوگا۔ عمران خان نے درست کہا کہ اگر آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے تو سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ ان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ قوم اپنی فوج کے ساتھ ہے۔ حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ کم از کم دہشت گردی کے معاملے کو سیاست یا شخصی مفاد کی آنکھ سے نہ دیکھا جائے۔ اس معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کا امتیاز بھی ختم ہو جانا چاہئے۔ فوج سے مشاورت کے بعد حکومت اگر کسی نتیجے پر پہنچتی ہے تو اسے کم از کم ان بڑی جماعتوں کو ضرور اعتماد میں لینا چاہئے جو پارلیمان میں قابل ذکر عوامی نمائندگی رکھتی ہیں۔

اگر یہ مناسب خیال کیا جاتا ہے کہ مذاکراتی عمل کے لئے تمام جماعتوں کے اشتراک سے ایک اور پرعزم کوشش کی جائے تو ٹھیک اور اگر یہ طے پاتا ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے اور مسلسل پھیلتی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ہی کارگر آپشن ہے تو اس پر اتفاق رائے کرلینا چاہئے۔ مولانا سمیع الحق سمیت علمائے کرام کو بھی اب نیمے دروں نیمے بروں کی آشوب سے نکل کر واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ

Maulana Samiul Haq