Showing posts with label Middle East. Show all posts

اسلامک ا سٹیٹ آف عراق اینڈ شام.....(Islamic State of Iraq and ash Sham)


آئی ایس آئی ایس کے نام سے انتہا پسند تنظیم نے عراق کے شہر موصل اور شام کے صوبہ عمر علی کے قرب و جوار کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسلامی مملکت کے نام سے حکومت بنا رکھی ہے۔ یہ تنظیم شام کے بعض بجلی گھروں پر قبضے کر کے وہاں بجلی کی تقسیم اور بلوں کی وصولی کر رہی ہے ۔اس کے زیر قبضہ علاقوں سے تیل کی فروخت بھی اس کا ذریعہ آمدنی ہے۔ علاوہ یہ نوادرات کی کھدائی کروا رہی ہے جس پر یہ دریافت کنند گان سے خمس وصول کرتی ہے۔ خمس کی شرح بھی نوادرات اور علاقوں کے حساب سے مختلف ہے ۔ خمس 20 سے %60 تک وصول کیا جا رہا ہے جس کے تعین کا اختیار تنظیم مقامی کمانڈروں کے پاس ہے۔ مشرق وسطیٰ قدیم ترین تہذیبوں کی آماجگاہ ہے، یہاں میسوپوٹیمیائی، اشوری، رومی اور اسلامی ادوار کی قدیم ترین تحریروں اور قیمتی نوادرات کے مدفن ہیں اور عمارتوں کی شکل میں بھی قدیم ترین تاریخی آثار موجودہ ہیں۔ دریائے فرات کے کنارے اور قرب و جوار میں قیمتی نوادرات، سونے چاندی کے زیورات کے بھاری خزانوں کے دفینے بھی موجودہ ہیں ۔ ان علاقوں میں کھدائی کیلئے یہ لوگ عراق کے پیشہ ور افراد کو جن کے پاس تجربہ اور بھاری مشینری ہوتی ہے کو ٹھیکہ دیتے اور لائسنس جاری کرتے ہیں اور خمس کے علاوہ بھی بھاری حصہ وصول کرتے ہیں۔

یوں نوادرات کی اسمگلنگ ترکی کے راستے دنیا بھر میں پھیلائی جا رہی ہے ۔ بشار الاسدکے خلاف یہ جنگ کرنے کے بہانے یہ شام میں داخل ہوئے، پہلے انہیں القائدہ سمجھا گیا مگر انہوں نے القائدہ سے اپنی شناخت الگ رکھی ،ان کی اس الگ شناخت کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان پر توجہ دی اور سالوں یہی تاثر رہا کہ یہ امریکہ کے اسپانسرڈ ہیں۔ ایک سال قبل انہوں نے شام کے صوبے عمر علی اور قرب و جوار کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ظلم کی نئی شناخت کے ساتھ نمودار ہوئے۔2 امریکی صحافیوں کو گرفتار کر لیا۔ امریکہ نے کچھ دن قبل ان پر ڈرون حملے کئے تو انہوں نے دونوں صحافیوں کے گلے کاٹ کر ویڈیو اپ لوڈ کر دی جس کے حقیقی ہونے کی تصدیق امریکی ایجنسیوں نے کر دی ہے۔ صدر اوباما نے دہشت گردوں سے نمٹنے کا اعلان کر دیا ہے وہ یوکرائن اور ملحقہ ریاستوں کے دورے پر تھے جہاں روسی مداخلت سے حالات بدلے بدلے سے ہیں، یوکرائن نے نیٹو میں شمولیت کی درخواست دیدی ہے۔ اوباما آئی ایس آئی ایس سے نمٹنے سے پہلے یوکرائن کے بحران کا حل چاہتے تھے مگر مذکورہ واقعےسے ان پر دبائو بہت زیادہ آ گیا ہے اب انکی ترجیح آئی ایس آئی ایس کا خاتمہ ہے۔

مگر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کیا القائدہ کا خاتمہ ہو چکا۔ اس کا جواب نفی میں ہے اور یہی سوال اوباما کے سامنے ہے۔اکثر تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی آئی ایس آئی ایس تو شاید ختم ہو جائے مگر دہشت گرد ادھر ادھر بکھر جائیں گے، پھر انہیں ڈھونڈھنا مشکل ہو گا ۔ القائدہ اور آئی ایس آئی خود کو فاصلے پہ رکھے ہوئے ہیں مگر کہیں ٹکرائو بھی نہیں، نظریاتی اتحاد بھی نظر آتا ہے۔ بھارت میں القائدہ 20 سال سے گھسنے کی کوشش میں تھی مگر وہاں اس کے تشخّص کی وجہ سے جگہ نہیں بن رہی تھی جبکہ آئی ایس آئی ایس 4 ماہ قبل بھارت سے ہائرنگ میں کامیاب رہی ہے ۔ القاعدہ نے بھارت برما اور دیگر ملحقہ ممالک کیلئے پانچویں ونگ کی لانچنگ کا اعلان کیا ہے ممکن ہے اس لانچنگ میں آئی ایس آئی ایس کی نئی ہائرنگ معاون ہو۔ آئی ایس آئی ایس والوں کا رویہ بہت زیادہ پُر تشدد ہے گو دونوں کی قیادت اور شناخت الگ الگ ہے مگر نظریاتی اختلاف نظر نہیں آتا۔

آئی ایس آئی ایس کا ذریعہ آمدنی بین الاقوامی تہذیبی ورثے کی لوٹ کھسوٹ ہے ۔کچھ بین الاقوامی تنظیمیں اقوام متحدہ سے ان قیمتی نوادرات کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنے کی درخواستیں کر رہی ہیں ،مہذب معاشروں میں ان کی خرید نہیں ہو گی جس سے کھدائی کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔ نوادرات کی کھدائی اور عمارتوں کی توڑ پھوڑ سے نہ صرف بین الاقوامی قیمتی تاریخی ورثہ تباہ ہو گا خصوصا شامیوں کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو نگے ۔یہ نوادرات شامی معاشرے میں تصادم کو روکنے اور مصالحتی رویوں کی افزائش میں بھی معاون ہیں۔ شامی صدیوں سے تاریخ میں رہ رہے ہیں وہ پرانی تہذیبوں کے امین ہیں۔ وہ پرانے شہروں اور حق ہمسائیگی کے حامل خاندانی نظام میں رہنے کے عادی ہیں۔ تاریخی مسجدوں اور گرجا گھروں میں عبادت کرتے ہیں ، صدیوں پرانے بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد تہذیبی ورثے کی عدم موجودگی میں انہیں مصالحت سے رہنے میں دقت ہو گی۔ یہ ورثہ شامیوں کو سیاست ،مذہبی تشخص اور فرقہ پرستی سے بالا بنا تا ہے جس سے مصالحت کے رویئے پنپتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور تہذیبی ورثے کو بچائے جو انتہا پسندوں کا ذریعہ آمدنی بھی ہے۔

مغرب کا رویہ بھی سمجھ سے بالا تر نظر آتا ہے۔ احتیاط کے پردے میں دیر جس سے فیصلے اپنی اہمیت کھو جاتے ہیں۔ ابتداء میں یہ پندرہ بیس ہزار لوگ تھے اب ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے اگر القائدہ اور آئی ایس آئی ایس کو مشترک فرض کر لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب اور اس کے اتحادی حقیقی کنٹرول میں کامیاب ہو جائیں گے۔ صدر اوباما نے نیٹو سے خطاب میں کہا یہ قتل و غارت ہمیں تقسیم نہیں کر سکتی ،ہم متحد ہیں اور ہمارے اتحادی ہماری پشت پر ہیں۔ ملتے جلتے الفاظ وزیر خارجہ جان کیری نے دہرائے ہیں مگر سوال اپنی جگہ تشنہ ہے، کیا کامیابی ہو گی۔ ابتداء میں خبریں اڑائی گئیں داعش، مملکت اسلامیہ کی پشت پر ایک عرب ملک ہے مگریہ افواہ ہی نکلی مشرق وسطٰی میں غیر جمہوری صدارتوں کے خلاف لہر سے سکوت تو ٹوٹ گیا مگر کیا امن قائم ہوا۔ تیونس اوریمن میں افرا تفری برقرار ہے، شام عراق لیبیا جنگوں کی زد میں ہیں۔ القاعدہ کو شکست نہیں ہوئی تو پھر کیا پایا کیا کھویا۔ مغرب سب کچھ امن کے نام پر کر رہا ہے مگر امن کوسوں دور ہٹتا جا رہا ہے، مغرب انسانیت کا علمبردار ہے اور انسانت کے تحفظ کا دعویدار ہے مگر انسانیت غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے ۔ایسا کیوں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ افراتفری سے بھرپور یہ منظر نامہ ہی مغرب کا مطمح نظر ہو۔


نذیر احمد سندھو
بہ شکریہ روزنامہ "جنگ 

Islamic State of Iraq and ash Sham

Gaza Children : Tears of Gaza














محفوظ تر‘‘ دنیا میں بے چینی کیوں؟........


افغانستان سے غیر ملکی بالخصوص امریکی فوجیوں کے انخلا کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے صدر اوباما کی بے چینی میں اتنی ہی شدت آتی جا رہی ہے۔ شاید 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ کرنے کے متعلق پر جوش فیصلہ کے وقت بھی صدر جارج ڈبلیو بش کو اتنی پریشانی نہیں ہوئی ہو گی، جتنی ابھی افغانستان سے نکلنے میں صدر اوباما کو درپیش ہے۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے۔ اس کی واجب وجہ ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ انخلا کے بعد افغانستان کا کیا ہو گا؟ کرزئی یا ان کے جانشینوں کا کیا حشر ہو گا؟ کیونکہ عراق ان کے سامنے ہے۔

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور طالبان کے جنگجوؤں کو ٹھکانے
 لگانے کے بعد حالانکہ امریکہ یہ بلند بانگ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اب دنیا پہلے سے محفوظ ہو گئی ہے لیکن اسے اب خود اپنی باتوں پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ یقین آئے بھی تو کیسے؟ حقائق منھ چڑھا رہے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کو پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد اسی طرح کے حماقت آمیز بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ مغربی رہنمائوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ اب عراق سے تمام برائیوں اور مسائل کا خاتمہ ہو گیا ہے اور امن و امان کا دور شروع ہونے والا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ در حقیقت مسئلہ کی جڑ میں پانی اور کھاد ڈال رہے ہیں اور اسی جڑ سے ایک دن ایک نئے مسئلہ کی کونپل پھوٹے گی اور دھیرے دھیرے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لے گی اور یہ پرانے مسئلہ سے زیادہ خطرناک ہو گا۔

ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے۔ صرف ایک دہائی پہلے کی ہی بات ہے جب بغداد کے ہر چوک پر صدام حسین کے مجسموں کے مسخ وزنی ٹکرے پھیلے پڑے تھے۔ بموں پر ’’فار صدام حسین ود لو‘‘ لکھ کے طیاروں سے گرایا گیا تاکہ ’’فاشسٹ، عراق کے ملبے پر ایک جمہوری، روشن خیال، پر امن اور مہذب عراق تعمیر ہو سکے جس میں شیعہ، سنی اور کرد شانہ بشانہ خوف کے جنگل سے نکل کر حال کی جلی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے چمکتے مستقبل میں چھلانگ لگا سکیں، لیکن اب عراق کی صورتحال کیا ہےَ کیا یہی ہے جمہوری، روشن خیال، پر امن اور مہذب عراق کے خواب کی تعبیر؟

داعش کی شکل میں اب ایک نیا مسئلہ سامنے ہے، پہلے سے زیادہ خطرناک۔ صرف عراق کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے۔ پہلے تو صرف عراق پر حکمرانی اور اقتدار کی جنگ تھی لیکن اب اس میں مسلکی تنازع کا تڑکہ لگ گیا ہے ۔ خود ان کھلاڑیوں کو بھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے جن کے ہاتھوں میں مسند عراق پر بیٹھی کٹھ پتلیوں کی ڈور ہے۔ عراقی حکومت اور خود صدر نوری المالکی بار بار امریکہ سے درخواست کر چکے ہیں کہ ہمیں بچا لو، لیکن امریکہ پس و پیش میں مبتلا ہے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ کبھی عراق میں فوجی مداخلت سے انکار کرتا ہے تو کبھی دیگر حیلے بہانوں سے محدود فوجی اور دیگر حکام عراق بھیجنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ادھر ایران بھی عجیب مخمصے میں ہے۔ در پردہ نوری المالکی کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کھل کر سامنے نہ آنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ برائی کو برائی سے ختم کیا جائے تو برائے شکل بدل کر بھٹکی ہوئی روح بن جاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عراق صرف ایک ملک نہیں بلکہ تیزاب سے بھرا وہ جار ہے جو دھینگا مشتی میں ٹوٹ گیا تو آس پاس کی سب چیزوں کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس حقیقت سے لوگ آگاہ نہیں تھے مگر ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’’ہر برا کام بہترین نیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘

بہت سارے لوگوں کو یاد ہو گا کہ بغداد میں پہلا بم گرنے سے پہلے عرب لیگ کے سکریٹری جنرل امر موسیٰ نے اس حقیقت کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ کیا کرنے والے ہو؟ تم جہنم کا دروازہ کیوں کھونا چاہ رہے ہو، لیکن اس دنیا کے جارج بشوں، ٹونی بلیئروں، ایریل شیرونوں اور ان کے حواریوں کا ایمان کامل تھا کہ پہلے عراق، وہاں کے عوام اور پھر صدام کے ساتھ جو ہوا، اس کے بعد خلیج، مشرق وسطیٰ اور باقی دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔

ہاں، دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔ اس کی گوائی اپریل 2003ء کے بعد سے مارے جانے والے 2 لاکھ عراقیوں، ایک لاکھ 60 ہزار شامیوں، ایک لاکھ سے زائد افغانیوں اور 60 ہزار پاکستانیوں کی لاشیں دے رہی ہیں۔ پانچ کروڑ پناہ گزین، ’’محفوظ تر‘‘ دنیا میں سر چھپانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اتنے پناہ گزین تو دوسری عالمی جنگ نے بھی پیدا نہیں کیے۔ طویل پناہ گزینی کی حالت میں رہنے والوں میں 25 لاکھ افغان باشندے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مہاجر افغان ہی ہیں اور کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے پاکستان میں اس کے سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں جن کی تعداد تقریباً 16 لاکھ ہے۔

دنیا بھر میں ہزاروں مہاجرین نے اپنی زندگیوں کے بہترین اوقات خیمہ بستیوں میں گزارے اور وہ بے گھر ہونے کا باعث بننے والے بحرانوں کو تقریباً بھلا چکے ہیں۔ میانمار کے ساتھ ملحق تھائی لینڈ کی سرحد پر میانمار کے کیرن اقلیت کے ایک لاکھ 20 ہزار افراد 20 برس سے زائد عرصہ سے مہاجر بستیوں میں مقیم ہیں۔ صرف شام ہی میں 65 لاکھ بے گھر افراد موجود ہیں۔ ان کے لیے خوراک، پانی، قیام اور طبی سہولت تک رسائی محدود ہے۔
شام کے بحران کے دوران اردن، لبنان اور ترکی نے اپنی سرحدیں کھلی رکھیں۔ 
اس وقت لبنان میں 10 لاکھ سے زائد مہاجرین ہیں یعنی اس کی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی شامی باشندے ہیں۔ ان کے لیے رہائش گاہوں، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مہاجرین کی دیکھ بھال کا زیادہ تر بوجھ ان ممالک پر ہے جو خود کمزور ہیں۔ ترقی پذیر ممالک دنیا بھر کے مہاجرین کی 86 فیصد تعداد کے میزبان ہیں جبکہ دولت مند ممالک محض 14 فیصد کا خیال رکھ رہے ہیں۔ 10 برس قبل دولت مند ممالک 30 فیصد اور ترقی پذیر ممالک 70 فیصد مہاجرین کے میزبان تھے۔

بہر حال یہ ’’محفوظ تر‘‘ دنیا مفت میں تھوڑے ہی ہاتھ آئی۔ ’’معمار اعظم‘‘ امریکہ کے 6 ٹریلین ڈالر اور ساڑھے 4 ہزار فوجی تابوت تو صرف عراق کو مشرق وسطیٰ کا مینارہ جمہوریت بنانے کے منصوبے پر لگ گئے۔ اس خرچ میں اس جدید عراقی فوج کی تعمیر بھی شامل ہے جس نے پچھلے ایک ماہ میں ثابت کر دیا کہ دشمن سامنے نہ ہو تو اس سے زیادہ جری سپاہ پورے خطے میں نہیں اور اب دنیا اور محفوظ ہوجائے گی جب امریکہ 650 بلین ڈالر کے خرچ سے تعمیر ہونے والے نئے اور جمہوری کرزئی گزیدہ افغانستان کو اگلے برس شکاری اور خرگوش کے ساتھ بیک وقت دوڑنے میں طاق افغان قیادت کے حوالے کر جائے گا۔ اس افغانستان کی بنیادوں میں اب تک ایک لاکھ سے زائد ’بے قیمتی‘ مقامی عوام کے ساتھ ساتھ 3500 امریکی فوجیوں اور سویلین کنٹریکٹروں کا قیمتی خون بھی شامل ہو چکا ہے۔ نجیب اللہ نے سوویت یونین کی رخصتی کے بعد بھی 3 یا ساڑھے 3 برس قبائلی طوفان کے تھپیڑے سہہ گیا تھا۔ موجودہ کابلی ڈھانچہ کا تو اللہ ہی جانے کیا ہو گا

قبا چاھئے اس کو خون عرب سے........


عراق تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، اگر وہاں دوبارہ لڑائی چھڑتی ہے تو اس کے باعث خام تیل کی قیمتوں پر اثر پڑے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

عراق کی صورتحال دن بہ دن دھماکا خیز ہوتی جا رہی ہے۔ شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے عراق کی مغربی سرحد پر قبضہ کے بعد اس خطہ میں حکومت کی عمل داری ایک طرح سے ختم ہو گئی ہے۔ دوسری جانب عراقی حکومت داعش کی پیش قدمی کے باعث بے بس نظر آتی ہے اور اس نے امریکا سے درخواست کی ہے کہ اسے فوری طور پر فضائی امداد فراہم کی جائے۔

عراق میں صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری عراق پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم نوری المالکی سے ملاقات کر کے یہ کہا ہے کہ حکومت میں عراق کے تمام فریقوں کو حصہ داری دی جائے تاکہ سنی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے کسی بڑے ٹکرائو کو روکا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف عراقی حکومت امریکا سے براہ راست مداخلت کی درخواست کر رہی ہے، وہیں دوسری جانب ایران کے سب سے بڑے مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ عراق میں مداخلت کے لیے بہانے تلاش کر رہا ہے۔

امریکا نے عراق پر حملہ کے آٹھ سال بعد 2011ء میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے اپنی فوجیں ہٹا لینے کا اعلان کیا تھا کہ عراق میں اب القاعدہ کی رہنمائی میں سنی ملیشیا کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بڑے تمسخرانہ انداز میں کہا تھا کہ انہوں نے عراق میں موجود القاعدہ تنظیم کی ایک طرح سے کمر توڑ دی ہے، جس کا دوبارہ سر اٹھانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لیکن ان کو شاید یہ علم نہیں تھا کہ بظاہر طور پر خاموش ہو جانے والے شدت پسند مصلحت کے تحت ضرور خاموش ہو گئے لیکن انہوں نے اندر ہی اندر تیاری کر کے اپنی طاقت کو مجتمع کر لیا ہے۔ ان عناصر کو عراق کے اس طبقہ کی بھی حمایت حاصل رہی جو موجودہ حکومت کے استحصال کا شکار رہا۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے بعض افسران نے صدام حسین کے دور کا انتقام بے گناہ لوگوں سے لیا، جس کی وجہ سے ان لوگوں کے اندر غم و غصہ تھا۔

داعش کے ارکان نے عراق میں جب اپنی کارروائی شروع کی تو ان لوگوں نے اسے اپنے نجات دہندہ کے طور پر دیکھا اور عراقی باشندے اب کھل کر اس تنظیم کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کی جانب سے جب کارروائی شروع کی گئی تو جلد ہی عراق کے کئی شہر اس کے زیر نگیں ہو گئے اور عراقی فوج کسی بھی محاذ پر ان کے سامنے ٹک نہیں پائی اور جس جگہ بھی ٹکراؤ ہوا، میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ عراق فوج کی بے بسی کا اندازہ عراق کے وزیر خارجہ کے اس بیان سے ہو جاتا ہے کہ عراق کے پاس فضائیہ نہیں ہے اور نہ ہی جنگی طیارے ہیں۔ اس کے باوجود کہ حکومت کو داعش سے درپیش خطرے کا پہلے سے ہی علم تھا، لیکن عراقی فوج ان کے سامنے بالکل بے بس نظر آئی۔

یہی وجہ ہے کہ داعش نے دفاعی لحاظ سے اہم شمالی شہر تل عفر کے ہوائی اڈہ پر آسانی سے قبضہ کر لیا۔ اس طرح داعش کے جنگجوؤں نے عراق کے بڑے حصہ کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا، جس کے آغاز موصل پر قبضہ شے شروع ہوا تھا۔ یہی نہیں داعش کے جنگجوؤں نے انبار صوبہ کے سنی اکثریت والے قصبوں میں اپنے پیر جما لیے۔ اس طرح جنگجوؤوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کا راستہ صاف ہو گیا۔ اردن اور شام کی سرحدی چوکیوں پر تقریباً 90 فیصد علاقہ پر باغیوں کا قبضہ ہے۔ کئی مقامات پر فوج اور پولیس نے اپنی چوکیوں کو چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی، جب باغیوں نے انہیں خون خرابہ سے بچنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کر دیا تھا۔

داعش کے شدت پسندوں نے جس طرح بغداد کی جانب اپنی پیش قدمی جاری رکھی ہے، اس سے بغداد کے اندر لوگوں میں ایک طرح کی سراسیمگی سی پائی جاتی ہے۔ اب جس طرح سے عراقی حکومت بار بار امریکہ سے فضائی حملہ کی درخواست کر رہی ہے، اس سے عراق میں ایک بار پھر بڑے پیمانہ پر قتل و غارت گری کے خدشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عراق میں تیل کی دولت پر قبضہ جمانے کے لیے امریکہ نے جس طرح بڑے پیمانہ پر تباہی مچائی، اس سے لاکھوں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایک ہنستا مسکراتا ملک آہ و بکا کے لیے مجبور ہو گیا۔ ہولناک بمباری کے باعث آج بھی وہاں ہزاروں افراد جن میں بوڑھے اور بچے بھی شامل ہیں، معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ اگر پھر دوبارہ وہاں بمباری کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی زد میں معصوم شہری آئے بغیر نہیں رہیں گے۔

عراق تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، اگر وہاں دوبارہ لڑائی چھڑتی ہے تو اس کے باعث خام تیل کی قیمتوں پر اثر پڑے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ ہندوستان جس کا تیل کے درآمدات پر بہت بڑا انحصار ہے، تیل کی قیمتوں پر اضافہ سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کا براہ راست اثر پوری معیشت پر پڑے گا۔ جب سے عراق میں زیادہ گڑبڑی پیدا ہوئی ہے، خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونا بھی شروع ہو گیا ہے۔ شدت پسندوں کی جانب سے وہاں کی آئل ریفائنری پر قبضہ کیے جانے کے بعد عراق سے تیل کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت خام تیل کی قیمت 9 مہینے کی سب سے اونچی شرح 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے۔ اگر عراق کا بحران فوری طور پر حل نہیں کیا گیا تو ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر جو زبردست بوجھ پڑے گا، اس کا خمیازہ 
عوام ہی کو برداشت کرنا پڑے گا۔

کیا عراق تقسیم ہوجائے گا؟.....

اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق کی قومی شناخت اب تک برقرار ہے اور معاملات کو درست کرنا زیادہ مشکل نہیں مگر وزیراعظم نوری المالکی کی پالیسیوں کے ہاتھوں ملک تقسیم کی حد تک جاسکتا ہے۔

ہم پہلے بھی سن چکے ہیں کہ عراق تباہی اور تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اور یہ کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم تک نوبت جا پہنچی ہے اور القاعدہ کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ اب ایسے ہی دعوے نئے سِرے سے سامنے لائے جارہے ہیں۔

وزیر اعظم نوری المالکی کے دوسرے دورِ حکومت میں دو ایسے عوامل ہیں جو غیر معمولی تشویش پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عراق میں سکیورٹی کی صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ دہشت گردی کو روکنا آسان نہیں رہا۔ کوئی بھی گروپ کچھ بھی کرسکتا ہے اور کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ سیاسی حلقے نوری المالکی پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ پہلے دورِ حکومت میں نوری المالکی نے بیشتر معاملات میں اپنی مرضی چلائی تھی۔ اب لوگ اُن پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ دونوں معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ اگر حکومت نے بر وقت معاملات درست نہ کیے تو ملک میں شدید کشیدگی پھیلے گی اور بات ملک کی تقسیم تک بھی جاسکتی ہے۔

حال ہی میں ایبرل میں ’’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے زیراہتمام ایک مباحثے میں یہ بات سامنے آئی کہ نوری المالکی پر اعتماد کی سطح خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ سیاسی اور معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل نہیں ہوسکا ہے، جس کے نتیجے میں ان پر اعتبار کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ بہت سی وزارتیں اہم اشوز پر احکامات نہیں مان رہیں۔ خود نوری المالکی چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات مرکز کے پاس رہیں۔ ایسی صورت میں علاقائی یا صوبائی حکومتیں پریشانی کا شکار رہیں گی۔ ان کے لیے فنڈنگ کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ بہت سے علاقوں کو شکایت ہے کہ ان کی سکیورٹی اور ترقی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔

سُنی اور کُرد، اب بھی شیعہ کمیونٹی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر وہ نوری المالکی پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ وہ نہیں مان سکتے کہ نوری المالکی انہیں مطلوبہ نتائج دے سکتے ہیں۔ سنی اکثریت والے مغربی صوبوں کی شکایات زیادہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت ان کی بات سنے اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ مغربی صوبوں میں مرکزی حکومت کا عمل دخل گھٹتا جارہا ہے۔ لوگ بغداد کی بات سننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اُن کا شکوہ ہے کہ مرکزی حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ دوسری طرف شام سے دراندازی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ القاعدہ عناصر نے عراق کے مغربی صوبوں میں بہت سے مقامات اپنے کنٹرول میں کرلیے ہیں۔

کردوں کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کردوں نے اپنے علاقوں کو بہت حد تک خودمختار بنالیا ہے۔ انہوں نے کئی غیر ملکی کمپنیوں سے اپنے طور پر معاہدے کیے ہیں۔ تیل کی برآمد کے معاملے میں بھی کرد مرکزی حکومت کی ہر بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس روش نے کردوں اور بغداد کے تعلقات کشیدہ کردیے ہیں۔ مرکزی حکومت نے کرد علاقوں کے بہت سے منصوبوں میں فنڈنگ روک دی ہے۔ ان علاقوں کے ترقیاتی بجٹ میں اچھی خاصی کٹوتی کردی گئی ہے۔

کردستان ریجنل گورنمنٹ کے سربراہ مسعود برزانی نے انتباہ کیا ہے کہ اگر کردوں کے مفادات کو یونہی نظر انداز کیا جاتا رہا، تو وہ آزادی کا اعلان کردیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرد اگر ملک سے الگ ہوئے تو انہیں شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ وہ سیاسی اور معاشی، دونوں اعتبار سے خسارے میں رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ مسعود برزانی کے انتباہ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

ایسا نہیں ہے کہ نوری المالکی کو تمام شیعہ حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ مقتدٰی الصدر نے خبردار کیا ہے کہ نوری المالکی کا دوبارہ انتخاب معاملات کو مزید خراب کرے گا۔ آیت اللہ سیستانی عام طور پر خاموش رہنا پسند کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی اشارہ دیا ہے کہ نوری المالکی کو دھاندلی کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں لانا ناقابل قبول ہوگا۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ نوری المالکی پر اعتماد کی سطح خطرناک حد تک گرگئی ہے۔ ہر طرف سے یہ اشارہ دیا جارہا ہے کہ نوری المالکی کے اقتدار کا تسلسل عراق کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔

عراق میں کرپشن کی جو سطح ہے اور نوری المالکی نے جس طور تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ دوبارہ منتخب ہوں گے۔ کرپشن پر یقین رکھنے والوں کو نوری المالکی کی شکل میں بہترین سرپرست میسر ہوگا۔ قومی خزانے پر نوری المالکی اور ان کے رفقا کا مکمل کنٹرول ہے۔ سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے بھی اُن کے ساتھ کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ ملک جس طرح کی صورت حال سے دوچار ہے اور سکیورٹی کا جو بھی معاملہ ہے، اُس نے ایسے حالات کو جنم دیا ہے جن کے تحت نوری المالکی کو اقتدار سے محروم کرنے والے ووٹنگ بلاک کی تشکیل انتہائی ناممکن ہوچکی ہے۔ معاشرے میں تقسیم در تقسیم کا عمل تیزی سے جاری ہے، جس کے نتیجے میں نوری المالکی پر اعتماد نہ کرنے والوں کے درمیان بھی تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے آپس کے اختلافات نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔

شام کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال بھی عراق پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ شام میں سُنی اکثریت کے قتل عام نے عراق میں بھی دلوں میں فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے منفی اثرات عراق کے کئی صوبوں میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں انبار، نینوا اور صلاح الدین نمایاں ہیں۔ یہ تمام عوامل نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ نوری المالکی کے لیے لازم ہے کہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو مستحکم کرنے پر بھی توجہ دیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کم کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ مگر اب تک اس حوالے سے اقدامات دکھائی نہیں دیے ہیں۔ صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال خطوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ سنی علاقوں میں تیل کی تنصیبات خطرے میں ہیں۔ ایسے میں عراق کی مرکزی حکومت کو بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا ہوگا اور وہ بھی پوری جامعیت اور قطعیت کے ساتھ۔

خطے کے بہت سے ممالک کو عراق کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ بالخصوص ایران کو یہ طے کرنا ہے کہ عراق نوری المالکی کی قیادت میں ایک خطرناک ملک کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھے گا یا اس میں ایک ایسی حکومت کی راہ ہموار کی جائے جس میں معاشرے کے تمام طبقات کی حقیقی اور قابل قبول نمائندگی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے ۲۰۱۰ء میں نوری المالکی کو دوسری مرتبہ اقتدار دلانے کے حوالے سے مداخلت کی تھی مگر اب مقتدٰی الصدر اور نجف کی طرف سے واضح اشارے ملے ہیں کہ ایرانی قیادت نوری المالکی سے مطمئن نہیں اور تیسری مدت کے لیے انہیں اقتدار میں دیکھنا پسند نہیں کرے گی۔

۲۰۰۳ء سے اب تک ایران اپنے پڑوس میں جاری ریس کے ہر گھوڑے کی حمایت کے معاملے میں غیر معمولی محتاط رہا ہے۔ اگر ایرانی قیادت محسوس کرے گی کہ نوری المالکی کی وزارتِ عظمیٰ اُس کے اپنے مفادات اور خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے تو یقینی طور پر وہ اُن سے گلو خلاصی چاہے گی۔

شام کے حالات نے عراقی معاشرے میں تقسیم کا عمل تیز اور وسیع کردیا ہے۔ بلقان کی طرز پر شام اور عراق کے بھی حصے بخرے ہونے تک معاملہ پہنچ سکتا ہے۔ شام کے مقابلے میں عراق کا کیس البتہ بہت مختلف ہے۔ شام تو واضح طور پر ایک ایسے مقام تک پہنچا ہوا لگتا ہے جہاں سے واپسی شاید اُس کے بس میں بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ عراق اب تک تقسیم کے حتمی مرحلے تک نہیں پہنچا۔ بہت کچھ درست کیا جاسکتا ہے مگر اِس کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔

مغربی طاقتیں، عراق اور ہم........


امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے بہت عمدہ بات کہی تھی کہ "اخبارات میں حقائق اگر کہیں ملتے ہیں تو صرف اشتہارات میں۔" یہ قابل حیرت ہے کہ ایک ایسے شخص نے جو ہمارے زمانے سے تقریبا دو صدی قبل اس دنیا میں رہا ہو، صحافت اور ’’پیڈ نیوز‘‘ کی حقیقت کو اتنی گہرائی سے سمجھ لیا تھا۔ آج ہمارے سامنے خبروں اور معلومات کا ایک سیلاب ہے اور ہم اطلاعات کی ترسیل کے انتہائی اہم اور جدید دور میں جی رہے ہیں۔ کمپیوٹر، ٹیبلٹ اور نت نئے قسم کے موبائل فون کی شکل میں ہمارے سامنے اطلاعات کا گویا دھماکا ہو چکا ہے۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر کسی کے بھی تعلق سے اعداد و شمار اور حقائق تک پہنچنا اب انگلیوں کا کھیل ہو گیا ہے۔ اسکے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اب بھی کئی حقیقتوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ نیویارک ٹائمز سے وابستہ مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے نامور صحافی اور کالم نگار تھامس ایل فریڈ مین، جارج بش کے مشرقی وسطیٰ کی آزادی کے مشن کے بڑے حامی رہے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بس جنگ کے میدان میں اترے نہیں، اس کے علاوہ اس جنگ کی حمایت میں انہوں نے سب کچھ کیا اور عراق پر فوج کشی کیلئے امریکا اور اسکے اتحادیوں کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔ عراق پر حملے کرنے کیلئے فریڈمین نے ہی اپنی تحریروں کے ذریعے امریکا اور اسکے اتحادیوں کو اکسایا حتیٰ کہ اس مقصد کیلئے مغربی ممالک کے صحافیوں کی قیادت کا بھی بیڑا اٹھایا۔ انہی کی سربراہی میں مغرب نواز صحافیوں نے اپنے مضامین کے ذریعے مغربی طاقتوں کو عراق کی تاراجی کی داستان لکھنے کی ترغیب دی۔
عام تباہی کے ہتھیار رکھنے سے لے کر نائن الیون کی سازش میں ملوث ہونے تک صدام حسین کو مغربی طاقتوں نے ہر ہر جرم کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کی۔ اسکے بعد عراقیوں کی آزادی کا بہانہ بنایا گیا اور وہاں لوگوں کو جمہوریت کے قیام کے خواب دکھائے گئے۔ یعنی کہ حالات یک بہ یک پیدا نہیں ہو گئے بلکہ انہیں پورے منصوبہ بند طریقے سے پیدا کیا گیا اور قابل ذکر ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے میں تھامس فریڈمین اور ان جیسے دیگر مغرب نواز صحافیوں کا ہی عمل دخل تھا۔ پھر اس کے جو نتائج برآمد ہوئے وہ آج کسی سے بھی پوشیدہ 
نہیں ہیں۔

عراق کبھی دنیا کے امیر ترین اور قدیم ترین ممالک میں سے ایک تھا لیکن آج
 اسے پوری طرح برباد کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں سیاسی اور معاشی سطح پر بھی اس ملک کو ایسا زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے جو فی الحال تو ناقابل تلافی نظر آتا ہے۔ انتہا پسندی سر ابھار رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد عروج پر ہے۔ نیز اس ملک کے دگرگوں حالات پورے مشرق وسطیٰ کے استحکام کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ عراق جنگ کو 11 سال ہو گئے ہیں۔ یہ امریکا کا نئی صدی کا ایک منصوبہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے یہ سب کچھ کیا۔ بہرحال عراق جنگ کے نتائج نے امریکا کے تمام دعوئوں اور وعدوں کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ سب کچھ جھوٹ نکلا، بالکل سفید جھوٹ۔

اس کے باوجود حد درجہ افسوس کا مقام ہے کہ امریکا کے سابق صدر جارج بش، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور تھامس فریڈ مین جیسے ان حامیوں نے کبھی پچھتاوے یا معافی کے طور پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ عراق کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس پر پچھتانے یا معافی مانگنے کی بجائے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے دریدہ دہنی کا ثبوت دیتے ہوئے عراق کی طرز پر دیگر مسلم ممالک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی حمایت ظاہر کی ہے جبکہ تھامس فریڈمین نے نیویارک ٹائمز میں 10 جون کو شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون بعنوان 'دی رئیل وار آف آئیڈیاز' میں جو باتیں کہی ہیں ان سے ایک اشارہ ملتا ہے کہ عراق کی موجودہ صورتحال پر انہیں کچھ افسوس ہوا ہے۔

تھامس فریڈمین کو عراق جنگ سے تباہ ہونے والے کھیت کھلیانوں اور زرخیز علاقوں پر افسوس ہے۔ انہیں افسوس ہے کہ اس جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے کردستان کے جنگلاتی خطے کو بڑی حد تک متاثر کیا نیز یہاں کی حیوانی اور نباتی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ مختصراً یہ کہ اپنے اس مضمون میں انہوں نے مذہبی شدت پسندوں اور کارکنان تحفظ ماحولیات کے درمیان جنگ کو نظریات کی اصل جنگ قرار دیا ہے اور عراق کی ماحولیاتی تباہی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

فریڈمین کے مطابق 'عراق میں اگر شدت پسندوں کو جیت حاصل ہوتی ہے (حالات بتا رہے ہیں وہ جیتنے کے قریب ہیں) تو یہ خطہ انسانی اور ماحولیاتی تباہی کا خطہ بن جائے گا۔ اگر ماحولیات کے تحفظ کیلئے سرگرم گروپ فاتح رہتے ہیں تو اسکا سبب یہ ہو گا کہ کافی لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر انہوں نے ماحول اور اپنی زمینوں کی حفاظر کرنا نہیں سیکھا تو وہ یا تو خود ایک دوسرے کو تباہ کر دیں گے یا قدرت کا قہر انہیں برباد کر دے گا۔ عراق اور اس کے ماحول کے تئیں فریڈمین کی یہ تشویش کچھ کچھ دل کو چھونے والی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دریائے دجلہ اور فرات سے سیراب ہونے والی اس سر زمین کا خاتمہ یہی ہے؟ کیا ہزاروں سال پرانی عراقق تہذیب وثقافت کا انجام یہی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ عراق صرف ماحولیاتی سطح پر برباد نہیں ہوا ہے بلکہ تمام پہلوٗوں سے یہ تباہی کی طرف گامزن ہے۔ ہلاکتوں کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو عراق کیلئے 2014ء سب سے زیادہ درد ناک ثابت ہوا۔ عراق دن بہ دن خون آلود ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں تھامس فریڈمین کا صرف ماحولیاتی تباہی پر اظہار افسوس کرنا اس منافقت کا غماز ہے جو ہمیشہ سے ہی مغرب اور مغرب کے حامیوں کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ان کا یہ خیال منافقت سے کچھ زیادہ اپنے اندر مجرمانہ پہلو بھی لئے ہوئے ہے۔ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ عراق کی اس صورتحال کیلئے جو طاقتیں ذمہ دار ہیں وہ اس طرز کے مزید منصوبوں کی وکالت کر رہی ہیں؟َ مشرق وسطیٰ کے موضوع پر اپریل میں ٹونی بلئیر نے اپنے ایک خطاب میں واضح طور پر اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔
انہوں نے مسلم دنیا کے ہنگاموں کو ناقابل فہم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لوگ ہماری حمایت کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ٹونی بلئیر کا یہ خطاب اشتعال انگیز اور سخت تھا اور کہا جاسکتا ہے کہ کافی طویل وقت کے بعد کسی مغربی لیڈر نے اس طرح کی تقریر کی تھی۔ بہرحال اس خطاب کے ذریعے جنہیں نشانہ بنایا گیا تھا یعنی مسلم ممالک، انہوں نے اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی۔ ٹونی بلئیر نے اپنی منفی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکسویں صدی میں عالمی سلامتی کیلئے اسلامی شدت پسندی ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ خطرہ کم نہیں ہو رہا ہے بلکہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس خطرے سے طبقات بلکہ قومیں تک متزلزل ہو رہی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں یہ خطرہ باہمی امن و امان کے ساتھ رہنے کے امکان کو بھی کم کر رہا ہے اور ہم اس کا سامنہ کرنے کیلئے کمزور پڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔'

یہ ہے اس لیڈر کی تقریر جسے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں کیلئے متعین کیا ہے۔ کوئی مسلم لیڈر اگر اس طرح عیسائیت اور صہیونیت کے خلاف بیان دے تو ہنگامہ مچ جائے۔ مختلف جنگوں کے ذریعہ انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان کس نے پہنچایا، مسلمانوں نے یا مغربی طاقتوں نے؟ کچھ صدیوں پہلے تک دنیا پر استعماری اور استبدادی نظام کے ذریعے حکمرانی کس نے کی، مسلمانوں نے یا مغربی طاقتوں نے؟ دنیا کے مختلف حصوں میں کن طاقتوں نے فوجی اڈے اور اسلحہ کے کارخانے بنا رکھے ہیں؟ افسوس کہ ہم مسلامان بھی خاموش ہیں۔ کیا ہم ٹونی بلئیر جیسے لیڈروں کو مذید جارحیت کا موقع نہیں دے رہے ہیں؟

اعجاز ذکاء سید
بشکریہ روزنامہ ’’انقلاب 

Dubai: A City of Progress and Ideas



Dubai: A City of Progress and Ideas
Enhanced by Zemanta

The Middle East respiratory syndrome coronavirus (MERS-CoV)


The Middle East respiratory syndrome coronavirus (MERS-CoV),[1] also termed EMC/2012 (HCoV-EMC/2012), is positive-sense, single-stranded RNA novel species of the genus Betacoronavirus. First called Novel coronavirus 2012 or simply novel coronavirus, it was first reported in 2012 after genome sequencing of a virus isolated from sputum samples from patients who fell ill in a 2012 outbreak of a new flu. As of 2 May 2014, MERS-CoV cases have been reported in several countries, including Saudi Arabia, Malaysia, Jordan, Qatar, Egypt, the United Arab Emirates, Tunisia, the Philippines, Indonesia, and the United States.

Virology

The virus MERS-CoV is a new member of the beta group of coronavirus, Betacoronavirus, lineage C. MERS-CoV genomes are phylogenetically classified into two clades, clade A and B. The earliest cases of MERS were of clade A clusters (EMC/2012 and Jordan-N3/2012), and new cases are genetically distinct (clade B).[2]MERS-CoV is distinct from SARS and distinct from the common-cold coronavirus and known endemic human betacoronaviruses HCoV-OC43 and HCoV-HKU1.[3] Until 23 May 2013, MERS-CoV had frequently been referred to as a SARS-like virus,[4] or simply the novel coronavirus, and early it was referred to colloquially on messageboards as the "Saudi SARS".

Origin

The first confirmed cases were reported in an Amman, Jordan hospital among health care workers and nursing staff in April 2012, where the cases were determined to be H2H transmission. Later a 60-year-old male patient with acute pneumonia and acute renal failure, who passed away in Jeddah, Saudi Arabia on 24 June 2012.[3] Egyptian virologist Dr. Ali Mohamed Zaki isolated and identified a previously unknown coronavirus from the man's lungs.[5][6][7] Dr. Zaki then posted his findings on 24 September 2012 on ProMED-mail.[6][8][8] The isolated cells showed cytopathic effects (CPE), in the form of rounding and syncetia formation.[8]

A second case was found in September 2012. A 49-year-old male living in Qatar presented similar flu symptoms, and a sequence of the virus was nearly identical to that of the first case.[3] In November 2012, similar cases appeared in Qatar and Saudi Arabia. Additional cases were noted, with deaths associated, and rapid research and monitoring of this novel coronavirus began. It is not certain whether the infections are the result of a single zoonotic event with subsequent human-to-human transmission, or if the multiple geographic sites of infection represent multiple zoonotic events from a common unknown source.

A study by Ziad Memish of Riyadh University and colleagues suggests that the virus arose sometime between July 2007 and June 2012, with perhaps as many as 7 separate zoonotic transmissions. Among animal reservoirs, CoV has a large genetic diversity yet the samples from patients suggest a similar genome, and therefore common source, though the data are limited. It has been determined through molecular clock analysis, that viruses from the EMC/2012 and England/Qatar/2012 date to early 2011 suggesting that these cases are descended from a single zoonotic event. It would appear the MERS-CoV has been circulating in the human population for greater than one year without detection and suggests independent transmission from an unknown source.[9][10]

Tropism

In humans, the virus has a strong tropism for nonciliated bronchial epithelial cells, and it has been shown to effectively evade the innate immune responses and antagonize interferon (IFN) production in these cells. This tropism is unique in that most respiratory viruses target ciliated cells.[11][12]Due to the clinical similarity between MERS-CoV and SARS-CoV, it was proposed that they may use the same cellular receptor; the exopeptidase, angiotensin converting enzyme 2 (ACE2).[13] However, it was later discovered that neutralization of ACE2 by recombinant antibodies does not prevent MERS-CoV infection.[14] Further research identified dipeptyl peptidase 4 (DPP4; also known as CD26) as a functional cellular receptor for MERS-CoV.[12] Unlike other known coronavirus receptors, the enzymatic activity of DPP4 is not required for infection. As would be expected, the amino acid sequence of DPP4 is highly conserved across species and is expressed in the human bronchial epithelium and kidneys.[12][15] Bat DPP4 genes appear to have been subject to a high degree of adaptive evolution as a response to coronavirus infections, so the lineage leading to MERS-CoV may have circulated in bat populations for a long period of time before being transmitted to people.[16]

Transmission

On 13 February 2013, the World Health Organization stated "the risk of sustained person-to-person transmission appears to be very low."[17] The cells MERS-CoV infects in the lungs only account for 20% of respiratory epithelial cells, so a large number of virions are likely needed to be inhaled to cause infection.[15]
As of 29 May 2013, the WHO is now warning that the MERS-CoV virus is a "threat to entire world."[18] However, Dr. Anthony S. Fauci of the National Institutes of Health in Bethesda, Maryland, stated that as of now MERS-CoV "does not spread in a sustained person to person way at all." Dr. Fauci stated that there is potential danger in that it is possible for the virus to mutate into a strain that does transmit from person to person.[19]
The infection of healthcare workers (HCW) leads to concerns of human to human transmission.[20]The Centers for Disease Control and Prevention (CDC) list MERS as transmissible from human-to-human. From their FAQ, in answer to the question "Does MERS-CoV spread from person to person?", they answer "MERS-CoV has been shown to spread between people who are in close contact. Transmission from infected patients to healthcare personnel has also been observed. Clusters of cases in several countries are being investigated.".[21] There is also a New York Times article which provides some correlative context for this.[22]

Natural reservoir

Early research suggested the virus is related to one found in the Egyptian tomb bat. In September 2012 Ron Fouchier speculated that the virus might have originated in bats.[23] Work by epidemiologist Ian Lipkin of Columbia University in New York showed that the virus isolated from a bat looked to be a match to the virus found in humans.[24][25] [26] 2c betacoronaviruses were detected in Nycteris bats in Ghana and Pipistrellus bats in Europe that are phylogenetically related to the MERS-CoV virus.[27]Recent work links camels to the virus. An ahead-of-print dispatch for the journal Emerging Infectious Diseases records research showing the coronavirus infection in dromedary camel calves and adults, 99.9% matching to the genomes of human clade B MERS-CoV.[28]

At least one person who has fallen sick with MERS was known to have come into contact with camels or recently drank camel milk.[29]On 9 August 2013, a report in the journal The Lancet Infectious Diseases showed that 50 out of 50 (100%) blood serum from Omani camels and 15 of 105 (14%) from Spanish camels had protein-specific antibodies against the MERS-CoV spike protein. Blood serum from European sheep, goats, cattle, and other camelids had no such antibodies.[30] Countries like Saudi Arabia and the United Arab Emirates produce and consume large amounts of camel meat. The possibility exists that African or Australian bats harbor the virus and transmit it to camels. Imported camels from these regions might have carried the virus to the Middle East.[31]

In 2013 MERS-CoV was identified in three members of a dromedary camel herd held in a Qatar barn, which was linked to two confirmed human cases who have since recovered. The presence of MERS-CoV in the camels was confirmed by the National Institute of Public Health and Environment (RIVM) of the Ministry of Health and the Erasmus Medical Center (WHO Collaborating Center), the Netherlands. None of the camels showed any sign of disease when the samples were collected. The Qatar Supreme Council of Health advised in November 2013 that people with underlying health conditions, such as heart disease, diabetes, kidney disease, respiratory disease, the immunosuppressed, and the elderly, avoid any close animal contacts when visiting farms and markets, and to practice good hygiene, such as washing hands.[32]

A further study on dromedary camels from Saudi Arabia published in December 2013 revealed the presence of MERS-CoV in 90% of the evaluated dromedary camels (310), suggesting that dromedary camels not only could be the main reservoir of MERS-CoV, but also the animal source of MERS.[33]According to the 27 March 2014 MERS-CoV summary update, recent studies support that camels serve as the primary source of the MERS-CoV infecting humans, while bats may be the ultimate reservoir of the virus. Evidence includes the frequency with which the virus has been found in camels to which human cases have been exposed, seriological data which shows widespread transmission in camels, and the similarity of the camel CoV to the human CoV.[34]

Taxonomy

MERS-CoV is more closely related to the bat coronaviruses HKU4 and HKU5 (lineage 2C) than it is to SARS-CoV (lineage 2B) (2, 9), sharing more than 90% sequence identity with their closest relationships, bat coronaviruses HKU4 and HKU5 and therefore considered to belong to the same species by the International Committee on Taxonomy of Viruses (ICTV).
Viruses
› ssRNA viruses
› Group: IV; positive-sense, single-stranded RNA viruses
› Order: Nidovirales
› Family: Coronaviridae
› Subfamily: Coronavirinae
› Genus: Betacoronavirus[36]
› Species: Betacoronavirus 1 (commonly called Human coronavirus OC43), Human coronavirus HKU1, Murine coronavirus, Pipistrellus bat coronavirus HKU5, Rousettus bat coronavirus HKU9, Severe acute respiratory syndrome-related coronavirus, Tylonycteris bat coronavirus HKU4, MERS-CoV
Strains:
  • Isolate:
  • Isolate:
  • NCBI

Microbiology

The virus grows readily on Vero cells and LLC-MK2 cells.[8]

Research / IP Controversy

Saudi officials had not given permission to Dr. Zaki to send a sample of the virus to Fouchier and they were angered when Fouchier claimed the patent on the full genetic sequence[38] of the Middle East respiratory syndrome coronavirus.[38]The editor of The Economist observed, "Concern over security must not slow urgent work. Studying a deadly virus is risky. Not studying it is riskier."[38] Dr. Zaki was fired from his job at the hospital as a result of sharing his sample and findings.[39][40][41][42]At their annual meeting of the World Health Assembly in May 2013, WHO chief Margaret Chan declared that intellectual property, or patents on strains of new virus, should not impede nations from protecting their citizens by limiting scientific investigations. Deputy Health Minister Ziad Memish raised concerns that scientists who held the patent for the MERS-CoV virus would not allow other scientists to use patented material and were therefore delaying the development of diagnostic tests.[43] Erasmus MC responded that the patent application did not restrict public health research into MERS coronavirus,[44] and that the virus and diagnostic tests were shipped—free of charge—to all that requested such reagents.

Corona Map

On 2 May 2014, the Corona Map was launched becoming the first site to track the MERS coronavirus in realtime on the world map. The data is officially reported by WHO or the Ministry of Health of the respective country.[45]
Enhanced by Zemanta