Showing posts with label Imran Khan. Show all posts

اب عمران خان کیا کریں گے؟.......


عمران خان کو اپنا آزادی مارچ اسلام آباد لائے ہوئے ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ شام کے وقت جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہوتی جارہی ہے، جبکہ تقاریر کا سخت ہوتا ہوا لہجہ بڑھتے ہوئے ہیجان کا پتہ دے رہا ہے۔ امیدیں اور وعدے اب بے چینی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اگر طاہر القادری کے حامی شارع دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے نا ہوتے، تو یہ سب ابھی اور بھی پھیکا ہوتا۔ لیکن عمران خان اب بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ لگتا یہ ہے کہ وہ اس لڑائی کو اب تلخ اختتام پر لے جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ رسک زیادہ ہے، اور آپشن کم رہ گئے ہیں۔ تو، اب عمران خان کیا کریں گے؟
کرکٹ کے برعکس سیاست میں کوئی بھی ہار جیت حتمی نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت کے اس کھیل میں ہار جیت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوتی۔ ہر نئے دن جیت کی ایک نئی کشمکش۔ پر کرکٹ کو سیاست کے ساتھ ملا دینے کا خیال کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے۔ عمران خان کی خود پسندی، ضد، اور حساب کتاب میں گڑبڑ ان کی غلطیاں ثابت ہوئی ہیں۔

وہ مزید چیزیں داؤ پر لگائے جارہے ہیں، جبکہ وہ انتخابی اصلاحات، اور انتخابات کی تحقیقات کی حکومتی پیشکش کو تسلیم کر کے جیت سکتے تھے۔ لیکن اپنے بے منطق کے اقدامات کی وجہ سے وہ اب اپنی اس پارٹی کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈال چکے ہیں، جس نے تعلیم یافتہ شہری مڈل کلاس کو سیاسی قوت میں بدل کر پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔

یہ حقیقت ہے، کہ پاکستان تحریک انصاف کی کرپشن، موروثی سیاست، اور قانون کی خلاف ورزی کے خلاف چلائی جانے والی مہم نے عوام کی اکثریت کو متاثر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی، کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا، کیونکہ لوگوں کے نزدیک یہی جماعت باریاں لینے والی دوسری جماعتوں سے مختلف تھی۔ لیکن ایک جس چیز جس کی کمی ہمیشہ سے رہی ہے، وہ ہے تبدیلی کا وژن، اس تبدیلی کا جس کا وہ بار بار وعدہ کرتے ہیں۔

ان کے تیز طرار بیانات اب صرف کھوکھلی باتوں میں بدل گئے ہیں۔ اہم سیاسی، سماجی، اور اقتصادی معاملات پر ان کے خیالات ان کے تبدیلی کے نظریے سے میل نہیں کھاتے۔ ان کا سیاسی پہلو کافی قدامت پسند ہے، اور وہ ملک کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ عسکریت پسندی اور طالبان پر ان کا مؤقف کافی پریشان کن رہا ہے۔ وہ پر کشش تو ہیں، لیکن ان میں وہ بات نہیں پائی جاتی، جو تبدیلی لانے والے لیڈروں میں ہوتی ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ان کے حالیہ اقدامات ہیں۔
یہ یقینی ہے کہ پی ٹی آئی کے اس دھرنے نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ان کی گہری نیند سے جگا دیا ہے، اور یقین دہانی کرا دی ہے کہ عوام اب اس سسٹم سے تنگ آچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے ایک مہینے سے جاری دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بے مثال باب ہے۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کو بھی سسٹم بچانے کے لیے تمام سیاسی قوتوں سے مدد لینی پڑی ہے۔

لیکن حالیہ دھرنوں نے پی ٹی آئی کی سیاسی ناپختگی، اور موقع پرستی کو ظاہر کردیا ہے۔ پارٹی نے اپنی پوری اسٹریٹیجی صرف یا تو امید پر قائم رکھی، یا کسی تیسری قوت کی جانب سے شریف حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی پر۔ اور جس وقت آرمی چیف ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے منظرنامے میں داخل ہوئے، تو شاید جیت کی امید مضبوط ہوئی تھی، پر یہ امید زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔
پی ٹی آئی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی، کہ اسے لگا کہ وہ لاکھوں لوگوں کو متحرک کر کے اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ لاہور سے اسلام آباد تک کے مارچ، اور اس کے بعد کے دھرنے میں صرف کچھ ہزار لوگ ہی شامل ہوئے۔

دیکھا جائے تو اسلام آباد میں ایک مہینے سے جاری دھرنے کا ملک کے باقی حصے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ عمران خان کی ملک بھر میں احتجاج کی اپیلوں کو کوئی خاص رسپانس نہیں ملا، صرف کراچی اور لاہور کے پوش علاقوں میں کچھ پارٹی کارکنوں کے اجتماع ہوئے اور بس۔ سول نافرمانی، اور ٹیکسوں اور بلوں کی عدم ادائیگی بھی ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ صرف پارٹی کے کچھ وفاداروں نے پشاور-اسلام آباد روڈ پر ٹول ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا، جبکہ کچھ اپر کلاس کے لوگوں کو ریسٹورینٹس کی انتظامیہ سے جی ایس ٹی کاٹنے پر جھگڑتے ہوئے دیکھا گیا۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں (خیبرپختونخواہ کے علاوہ) سے استعفے دینے کے فیصلے نے بھی نا صرف پارٹی کو اندرونی طور پر تقسیم کیا، بلکہ اس کی سیاسی تنہائی میں اضافہ کیا۔ اس وقت پارٹی کے ساتھ کوئی بھی اتحادی موجود نہیں ہے۔ اگر پارٹی پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرتی، تو اس کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوسکتی تھی۔ لیکن اس کے بجائے عمران خان نے پارلیمنٹ کو چوروں کا اڈہ قرار دے ڈالا۔

لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ نے منتخب حکومت کا ساتھ دینے میں بلوغت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ اور تو اور پی ٹی آئی کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کی حمایت کر کے دوسری جماعتوں نے پی ٹی آئی کو بھی زندگی دینے کی کوشش کی۔ اور اگر اب تک پی ٹی آئی کے اسمبلیوں سے استعفے منظور نہیں ہوئے ہیں، تو یہ بھی اس لیے کہ اپوزیشن جماعتوں نے استعفے منظور کرنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اب اس کو زیادہ عرصے تک ٹالا نہیں جا سکے گا۔ اسمبلیوں سے باہر بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کی قانون سازی کرانا پی ٹی آئی کے لیے اور بھی مشکل ہوجائے گا۔

وزیر اعظم کے استعفے کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام مطالبات پر اتفاق رائے موجود ہے۔ پارٹی اس کے لیے کریڈٹ لے کر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتی تھی، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی۔ عمران خان موجودہ بساط لپیٹ کر جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ وہ صرف انارکی کی حالت پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور حکومت کے رٹ کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔

دار الحکومت کی ایک معطل شدہ انتظامیہ نے پہلے ہی مظاہرین کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ اور عمران خان کی جانب سے اپنے گرفتار کارکنوں کو چھڑا لیا جانا اس بات کا ثبوت ہے۔ اس بڑھتے ہوئی سیاسی ہلچل اور طاقت کے خلا میں کسی غیر آئینی مداخلت کو راستہ مل سکتا ہے، اور شاید پی ٹی آئی چاہتی بھی یہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے، جو مکمل تباہی پر بھی ختم ہوسکتا ہے۔ اس بحران کا حل جمہوریت میں موجود ہے، پھر اس میں بھلے ہی کتنی ہی خامیاں ہوں، پر اس بحران کا سسٹم سے باہر کوئی حل نہیں ہے۔

زاہد حسین

بغاوت اور باغی --- شاہنواز فاروقی......


زبان کا سرکش گھوڑا.......



الفاظ کا موزوں اور بروقت استعمال ہی انسان کی پہچان ہے ورنہ کھاتے پیتے اور جیتے تو حیوان بھی ہیں ۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو کبھی امیدوں کے چراغ بن کر راستہ دکھاتے اور ٹوٹے دلوں کی ڈھارس بندھاتے ہیں لیکن الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو یہی الفاظ اندیشوں اور خوف کی زنجیریں بن کر پیروں سے چمٹ جاتے ہیں۔ الفاظ کبھی نشتر بن کر دل میں اُتر جاتے ہیں اور کبھی دل میں اُتر کر گھائو مٹاتے ہیں۔ الفاظ ہی ہیں جو رُلاتے ہیں ،ہنساتے ہیں،نیک نامی کا باعث بن جاتے ہیں یا پھر رسوا کر جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو قانون کی گرفت بہت ڈھیلی ہے اور یہ تصور نہیں کہ الفاظ کی پاداش میں کسی شخص کو سزا ہو سکے مگر متمدن معاشروں میں قانون صرف اعمال پر ہی سرکوبی نہیں کرتا بلکہ الفاظ پر بھی حرکت میں آتا ہے۔ چند برس قبل ایک امریکی موسیقار کو نازیبا الفاظ کے استعمال پر 4 لاکھ 30 ہزار ڈالر ہر جانہ ادا کرنا پڑا۔ خاتون موسیقار کورٹنی لو نے ڈیزائنر لیموران سے متعلق اہانت آمیز الفاط استعمال کیئے تو اس نے ہتک عزت کا دعویٰ کردیا۔ جن معاشروں میں قانون کی عملداری ہے وہاں تولنے کے بعد بولنے کا تصور ہے کیونکہ الفاظ گلے کی پھانس بن جاتے ہیں۔ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی سوچ سے متعلق محتاط رہیں کیونکہ آپ کی سوچ الفاظ کا روپ دھار کر سامنے آتی ہے۔

الفاظ کی ادائیگی سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ آپ کے الفاظ آپ کے اعمال کی صورت گری کرتے ہیں۔ اعمال احتیاط کے متقاضی ہیں کیونکہ یہ عادات میں بدل جاتے ہیں، عادات سے اغماض نہ برتیں کیونکہ یہ کردار کی عمارت کا بنیادی ستون ہوا کرتی ہیں اور کردار کی اہمیت اس لیئے مسلمہ ہے کہ اس پر آپ کے مقدر اور قسمت کا انحصار ہوتا ہے۔ یوں تو کسی شخص کی زندگی میں الفاظ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر خارزار سیاست میں قدم رکھنے والوں کو پہلا سبق ہی یہی دیا جاتا ہے کہ زبان کے سرکش گھوڑے کی لگام ڈھیلی نہ ہونے دیں کیونکہ چرچل کے بقول سیاست کا عمل بھی قریباً جنگ جیسا ولولہ انگیز اور خطرناک ہے۔ جنگ میں آپ صرف ایک بار مرتے ہیں اور رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں آپ کو بار بار موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح جنگ میں گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دینے والا سوار عبرتناک شکست کے قریب تر ہو جاتا ہے اسی طرح سیاست کے میدان میں وہ شہسوار منہ کے بل گرتا ہے جو زبان کے گھوڑے کی طنابیں ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔ سیاستدانوں کا وصف یہ ہے کہ وہ کم بولتے ہیں ،جہاں ایک لفظ سے کام چلتا ہو، وہاں جملہ ضائع نہیں کرتے اور جہاں ایک فقرے سے ضرورت پوری ہو جائے وہاں تقریر جھاڑنے کی حماقت نہیں کرتے۔ موجودہ دور میں تو کم گوئی اور سوچ سمجھ کر بولنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرے بیان کو تروڑ مروڑ کا شائع کیا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، ٹی وی چینلز فوراً کلپنگ نکال کر دکھا دیتے ہیں کہ آپ نے چند برس قبل کیا کہا تھا۔

انسان خود تو مرجاتا ہے لیکن اس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں مثلاًذوالفقار علی بھٹو جن کا شمار صف اول کے سیاستدانوں میں ہوتا ہے ،اگرچہ وہ اپنے الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے مگر ان کے چند جملے آج بھی ان کا تعاقب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے پر دھمکی دی کہ جس نے اس میں شرکت کی ،میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اِدھر ہم، اُدھر تم کا جملہ لاکھ وضاحتوں کے باوجود پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جذبات کی روانی میں انہوں نے کہا، اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو ہمالیہ خون کے آنسو روئے گا، مگر یہ جملہ طنز و استہزاء کا استعارہ بن گیا۔ ضیاء الحق نے کسی صحافی کے سوال پر جھنجھلا کر کہہ دیا، آئین ہے کیا شے، چند صفحات کی ایک دستاویز جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ ضیاء الحق خود تو دنیا سے رخصت ہو گیا مگر اس کا یہ جملہ آج بھی سوہان روح بنا ہوا ہے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کی، اسے چارٹر آف ڈیموکریسی کی لحد میں اتار دیا گیا مگر یہ گڑا مردہ پھر بھی باہر نکل کر واویلا کرنے سے باز نہیں آتا۔ پرویز مشرف کے دور میں بلوچوں سے بہت ناانصافیاں ہوئیں ،کئی فوجی آپریشن ہوئے لیکن اس کا ایک جملہ بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ مہلک ثابت ہوا کہ یہ ستر کی دہائی نہیں کہ یہ پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے، ہم انہیں وہاں سے ماریں گے جہاں سے انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔

آصف زرداری کا شمار پاکستان کے کایاں ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زبان بندی کو اپنی طاقت بنایا اور لب کشائی کے معاملے میں بہت محتاط رہے۔ جب سیاسی مخالفین کی کڑوی کسیلی باتوں کا حوالہ دیا جاتا تو وہ کوئی جواب دینے کے بجائے بات کو ہنس کر ٹال دیتے۔ لیکن ججوں کی بحالی سے متعلق ان کے منہ سے ایک جملہ نکل گیا کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور یہ جملہ ان کے ناقدین کا کام آسان کرگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جوش خطابت میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور پھر ان کے بڑے بھائی وضاحتیں دیتے رہ جاتے ہیں۔ یوں تو ان کے بیشمار جملے بدنامی کا باعث بنے لیکن جو زبان انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں منتخب صدر کے حوالے سے استعمال کی ،وہ آج بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ مثلاًوہ ان پر علی بابا چالیس چور کی پھبتی کستے رہے۔ انہوں نے کہا تھا،اگر میں نے آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ بعض اوقات سیاستدانوں سے سہواً ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں کہا تھا، یہ شیدا ٹلی، اس کو تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں ۔ لیکن آج وہی شیخ رشید ان کے سب بڑے مشیر ہیں۔ اس طرح کے معترضہ جملے اور ناپسندیدہ بیانات کم و بیش ہر سیاستدان سے منسوب ہیں اور سب کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے لیکن عمران خان گزشتہ ایک ماہ سے جس فراوانی سے اپنی زبان کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں ،اسے سیاسی نادانی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ اوئے نواز شریف، اوئے افتخار چوہدری تو ان کا طرز تخاطب تھا ہی مگر کبھی وہ آئی جی اسلام آباد کو بندے کا پتر بننے کی نصیحت کرتے ہوئے دھمکی دیتے ہیں کہ میں تمہیں جیل میں ڈال دوں گا۔ ان کے کئی بیانات تو ایسے ہیں کہ نقل بھی نہیں کیئے جا سکتے۔ جس پارٹی کا قائد پنجابی فلموں کے غنڈوں جیسے لہجے میں بات کرتا ہو ،اس کے کارکن مخالفین کو غلیظ گالیاں نہ دیں تو اور کیا کریں۔

کاش ! وہ اس ایک مہینے میں شاہ محمود قریشی سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ کاش  کسی پڑھے لکھے شخص نے چرچل کی بات یاد دلائی ہوتی کہ نازیبا الفاظ نگل لینے سے آج تک کسی کا معدہ خراب نہیں ہوا۔ کاش ! وہ یہ سمجھ سکتے کہ زبان کسی تیز دھار آلہ کی مثل ہے،ماہر سرجن کے پاس ہو تو نشتر اور اگراناڑی کے پاس ہو تو خنجر۔ کاش وہ کبھی فرصت کے لمحات میں غور کریں کہ وہ امیر ہیں یا غریب؟ کیونکہ خود احتسابی کا طریقہ یہ ہے کہ ہراچھے لفظ پر آپ کو دس روپے ملیں اور برے لفظ پر پانچ روپے واپس لے لیئے جائیں تو جمع تفریق کے بعد کیا پوزیشن ہو گی۔ ان کے منہ کے بل گرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے زبان کے سرکش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا تھا۔

محمد بلال غوری
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 
 

باغیوں کی ضرورت ہے.....



پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے وزیر اعظم نواز شریف کو خبردار کیا، کہ انہیں شک ہے کہ جیسے ہی بحران ختم ہوگا، ان کے وزراء واپس خودپسند اور متکبر ہوجائیں گے۔

میں بھی گیلری میں بیٹھا ہوا ان کے خیالات سن رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، کہ حکمران جماعت قومی اسمبلی میں ایک فیصلہ کن اکثریت رکھنے کے باوجود اس بحران میں کیوں آ پھنسی ہے۔ مجھے جواب تب ملا، جب میں نے سیشن کے اختتام پر دیکھا، کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی اعتزاز احسن کو مبارکباد پیش کر رہے تھے، کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ان کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔

یہ لاتعلقی کا وہ مظاہرہ ہے، جو نواز شریف اپنے ممبران سے برتتے ہیں، سوائے ان چند کے، جن کے ساتھ ان کے یا تو خاندانی تعلقات ہیں، یا ان کی ذاتی ترجیحات میں شامل ہیں۔

حالیہ سیاسی بحران جلد یا بدیر حل ہو ہی جائے گا۔ لیکن جو لوگ اقتدار میں موجود ہیں، ان کا رویہ دیر کے بجائے جلد ہی ایک اور بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان میں گورننس کے اسٹائل کو سیاسی اور انتظامی طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری جیسے پارلیمینٹیرین اور مظاہرین سیاسی سائیڈ کو درست کر سکتے ہیں، لیکن میں حیرت میں مبتلا ہوں، کہ آخر انتظامی امور کو کون درست کرے گا۔

شریف برادران کے شاہانہ رویے نے زیادہ تر بیوروکریسی کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اور اس کا اثر ہم پورے ملک میں محسوس کر سکتے ہیں، کیونکہ پنجاب اور مرکز کی حکومت ہی پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ایسی اجنبیت پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کے خواہشمند غنڈوں کے سامنے چھوٹی لگ سکتی ہے، لیکن یہ ایک بہتر گورننس والے پاکستان کے کاز کو زیادہ نقصان پہنچائے گی، کیوںکہ اس کی وجہ سے سسٹم میں خامیاں جنم لیتی ہیں۔

سول سروس میں انتظامی تبدیلیوں کی بات ایک اسی سالہ سابق سول سرونٹ، اور رائیونڈ میں موجود کچھ لوگوں کو نہیں کرنی چاہیے۔ مشیر ضرور ہونے چاہیں، پر ایسے، جو تمام نکات پر گہری سوچ رکھتے ہوں، اور کسی یا کچھ افراد کی طرفداری نا کرتے ہوں۔ ورنہ باقی کی بیوروکریسی اجنبیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

سیکریٹیریٹ کے گروپ افسر سے پوچھیں، گورنمنٹ سروس میں موجود استاد، ڈاکٹر، اور انجینیئر سے پوچھیں کہ آیا وہ سول سروس کے معاملات سے خوش ہے۔ رواں سال کے آغاز میں پنجاب پولیس سروس میں تقریباً بغاوت ہو چکی تھی، کیوںکہ اینٹی ٹیررازم اسکواڈ آئی جی پولیس کے بجائے صوبائی وزارت داخلہ کے ماتحت بنایا گیا تھا۔ 18 مارچ 2011 کو 76 پی سی ایس افسران کو صرف اس لیے گرفتار کر کے ان کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر طرفداری پر مبنی تقرریوں اور ترقیوں کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تھا۔

جب یہی حکومت مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کیس درج کرا سکتی ہے، تو پھر اس کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ماڈل ٹاؤن واقعے کی ایف آئی آر درج نا کرانے پر مقدمہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ پنجاب پولیس کی جانب سے مطالبوں کے لیے مظاہرہ کرتے ڈاکٹروں پر تشدد کی تصاویر بھی ابھی تازہ ہیں۔

پنجاب میں ایک جونیئر افسر کو ایک سینئر پوزیشن پر تعینات کرنا معمول کی بات ہے، کیونکہ ایک ایسا شخص جو کسی کی "مہربانی" کی وجہ سے اپنی قابلیت سے ہٹ کر کسی پوسٹ پر موجود ہے، وہ احکامات کی تعمیل بہتر طور پر بجا لا سکتا ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں، کہ پنجاب کے ڈی پی او اور ڈی سی او ہمہ وقت احکامات کے لیے چیف منسٹر ہاؤس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

صاف الفاظ میں کہیں تو یہ ایک کھلا راز ہے، کہ موجودہ حکومت ان انتہائی قابل سول سرونٹس کو بھی صرف اس لیے ناپسند کرتی ہے، کیونکہ وہ درباریوں کی طرح نیازمندی نہیں دکھاتے۔

وزیر اعظم نواز شریف کا اپنے مشیروں کے مشورے سننا ضروری نہیں کہ اچھی بات ہو، کیوںکہ ان کا مشیروں کا انتخاب بھی بہت کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں ہے۔ سول سروس کے معاملات کو سیاسی وفاداریاں رکھنے والے مشیروں کی مدد سے طے نہیں کرنا چاہیے، کیوںکہ ان کی رائے صرف سیاسی رجحانات کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور فوکس ادارہ سازی سے ہٹ جاتا ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ڈسٹرکٹ مینیجمینٹ گروپ (ن)، یا پولیس سروس آف پاکستان (ن) بنانے کی کوششیں نا رکیں، تو پاکستان ایک بحران سے دوسرے کے درمیان جھولتا رہے گا۔ 
ایک گروپ کے طور پر سول سرونٹس کو سیاسی طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ لیکن اسی وقت ریاست سے ان کی وابستگی بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت سول سرونٹس کو حکومتی معاملات میں مالکیت کا احساس (sense of ownership) دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔

آخر میں، میں وزیر اعظم نواز شریف سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جب جاوید ہاشمی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، تو آپ نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ مخصوص اصول کے لیے کھڑے ہوئے، یا اس لیے، کہ وہ اس اصول کے لیے کھڑے ہوئے جو آپ کے لیے فائدہ مند تھا۔

اس ملک کو جاوید ہاشمی جیسے مزید باغیوں کی ضرورت ہے، نا صرف سیاست میں، بلکہ بیوروکریسی میں بھی۔

سید سعادت

Imran Khan and Tahirul Qadri Long March and Dharna


کیا دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا؟......


جب چین کے صدر ڑی ینگ پیانگ کے دورہ پاکستان پرغیریقینی صورت حال کے بادل مسلسل گہرے ہورہے تھے تو اُس وقت حکم ران اور اپوزیشن جماعتیں مل کر اس دورے کو ہر حال میں ممکن بنانے کی بجائے دھرنے والوں کو بھر پور طریقے سے لتاڑنے اور دوسری طرف بے مذاکرات میں مصروف تھیں۔حالاں کہ اُس وقت بڑی واضح اطلاعات آ رہی تھیں کہ چینی صدر کا 14 سے 16 ستمبر تک کا طے شدہ دورہ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مظاہروں اور سیاسی کشیدگی کے باعث منسوخ یا ملتوی ہوسکتا ہے۔ غیر جانب دارسیاسی تجزیہ نگار وں کے مطابق حکومت کے پاس اس دورے کو بچانے کے لیے تین ہفتے تھے اور اس دوران حکومت کے پاس اچھی حکم رانی ثابت کرنے کا یہ ایک نادر موقع تھا لیکن اُن دنوں کو حکومت نے دھرنوں کو جواز بنا کر ضائع کردیا گیا۔

بلکہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ حکومت کو یقین تھا کہ چینی صدر ان حالات میں نہیں آئیں گے، اس لیے ان دھرنوں کوچینی صدر کے دورہ کی منسوخی سے منسلک کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی اور احسن اقبال کو اس پراپیگنڈہ کا ٹاسک دے دیا گیا۔ جب کہ اس موقع پر وزیر اعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سر تاج عزیر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ نہیں ہو گا ، البتہ یہ امکان موجود ہے کہ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسے میں سب سے پہلے وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقیات احسن اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی پر فوراً تنقید کرتے ہوئے قوم کو خبر دی کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
خارجہ امور کے مشیر اور منصوبہ بندی کے وزیر کے دو مختلف بیانات نے یوں قوم کو مخمصے میں ڈال دیا۔ اسی طرح جب مریم نوازشریف نے بھی اپنے ٹوئٹ میں عمران خان اور طاہرالقادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج عمران اور قادری کا ایجنڈا پورا ہو گیا ہے تو محب وطن پاکستانیوں کو ایک دھچکا لگا۔ ان اطلاعات کے بعد جہاں حکومتی پراپیگنڈہ والی بات درست محسوس ہونے لگی تو وہیںقوم شدید مخمصے کا شکار رہی۔

ان حالات میں فوری طور پرچینی سفارت خانے کا ردعمل سامنے آیا کہ انہیں صدر کے دورے کے منسوخ کیے جانے کا علم نہیں مگر وہ اسلام آباد کی صورت حال کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ اس پر ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے میڈیا کو بتایا کہ صدر کے دورے کے شیڈول کو منسوخ یا تبدیل نہیں کیا جارہا۔ یاد رہے کہ یہ بیان اس وقت دیا گیا تھا جب چینی صدر کی سیکورٹی اور پروٹوکول پر مشتمل ایک اعلٰی سطحی ٹیم دورے کی تاریخوں کو حتمی شکل دینے کے لیے دو روز سے اسلام آباد میں موجود تھی۔ اس موقع پر چینی صدر کی آمد مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار نظر آئی۔

اسی دوران عمران خان اور طاہر القادری نے چینی صدر ڑی جنگ پیانگ کے دورے کے موقع پر کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی اور دونوں نے چینی صدر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا قریبی اور اصل دوست ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو یہاں تک کہا کہ یہ دورہ ہماری وجہ سے نہیں بل کہ حکم رانوں کی نا اہلی کی وجہ سے ملتوی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ دورہ ملتوی ہونے سے کئی روز پہلے میں نے بڑی وضاحت سے یہ کہہ دیا تھا کہ جب چینی صدر آئیں گے تو ہم اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے مگر ان کے دل میں چور تھا، یہ ڈر رہے تھے کہ اگر چینی صدر نے پوچھ لیا کہ یہ لوگ پارلیمنٹ کے سامنے کیوں بیٹھے ہیں؟ تو چینی صدر کو ہم کیا بتائیں گے۔ سچ کہنا ان کی سرشت میں نہیں اور جب بھی یہ جھوٹ بولتے ہیں تو پکڑے جاتے ہیں۔

وجہ جو بھی ہو مگر ہوا وہ ہی جس کا سب کو ڈر تھا۔ چین کے صدر نے موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر پاکستان کا دورہ ملتوی کردیا جسے اب حالات بہتر ہونے کے بعد دوبارہ طے کیا جائے گا۔ سکیورٹی ٹیم نے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے حکام سے چینی صدر کے دورہ پاکستان کے سلسلے میں جب ملاقات کی تھی تو پاکستانی حکام کی جانب سے چینی صدر کی ٹیم کو لاہور میں ملاقات کی تجویز بھی دی گئی جسے سکیورٹی ٹیم نے یک سر مسترد کردیا۔

چین کے صدر اس اہم دورہ میں پاک چین مشترکہ تجارت سمیت دونوں ممالک کے درمیان دیگر اہم معاہدوں پر دست خط کرنے والے تھے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر سری لنکا کے صدر اور آئی ایم ایف کے وفد سمیت دیگر اعلیٰ حکام پاکستان کا دورہ ملتوی کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چینی صدر کے دورے کی نئی تاریخ کا تعین اب ایک ماہ بعد کیا جائے گا تاہم چینی سفارت خانے اور پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بارے میں تصدیق کرنے سے انکارکیا ہے۔

واضح رہے کہ چین کے صدور اپنے دورہ پاکستان کے دوران ہمیشہ ایوان صدر میں قیام کرتے رہے ہیں لیکن ان دنوں اس سرکاری عمارت کے باہر دھرنے جاری ہیں۔ اس لیے جب پاکستانی حکومت نے چینی صدر کی سکیورٹی ٹیم کو متبادل کے طور پر لاہور میں ملاقاتوں کی تجویز دی تو سکیورٹی ٹیم نے پاکستانی حکام کو واضح کر دیا تھا کہ چین کے صدر موجودہ حالات میں پاکستان نہیں آ سکتے، دوسری بات یہ بھی ہے کہ لاہور گنجان آباد شہر ہے وہاں ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد ہی چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونے کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین کو بتایا گیا تھا۔ گو کہ دوسری جانب چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ چینی صدر کے دورے کی منسوخی کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں، ہمیں دورہ منسوخ ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اسلام آباد کی صورت حال پاکستان کا نجی معاملہ ہے، ہم قریب سے صورت حال مانیٹر کررہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ فریقین مسئلے کو جلد سے جلد حل کر لیںگے۔ اُدھر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم چینی صدر کے دورہ کے ملتوی ہونے کی ابھی تصدیق نہیں کرسکتے۔ پانچ ستمبر کو سرتاج عزیز نے کہا کہ آیندہ چوبیس گھنٹوں میں صورت حال واضح ہو جائے گی، جو نہ ہو سکی تھی۔ مگر جب ترجمان پاک بحریہ نے بھی دورہ کے التوا کی تصدیق کی تو اُس وقت میڈیا اور عوام کو یقین ہواکہ دورہ واقعی ملتوی ہو چکا ہے۔

اطلاعات یہ تھیں کہ چینی صدر کے اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بتیس ارب ڈالر کے معاہدات ہونا تھے جن میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے پاور پلانٹ کے سمجھوتے بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان دس ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی امید کی جا رہی تھی مگر میڈیا میں آنے والے بیانات میں اربوں ڈالر کی اس سرمایا کاری کو حکومتی قرضے بھی کہا جا رہا ہے۔
چینی صدرکا دورہ پاکستان ملتوی ہونے پر سابق صدر آصف زرداری، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے افسوس کا اظہار کیا ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ فریقین اسلام آباد میں بحران کوختم نہیں کراسکے اور یوں بدقسمتی سے بحران کے باعث چینی صدر کا غیرمعمولی دورہ ملتوی ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ چینی صدرکا دورہ ملتوی ہونا عمران خان اورطاہرالقادری کا قوم سے انتقام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قوم عمران خان اورطاہرالقادری کوکبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھرنوں نے پاکستان اورچینی حکومت کی ایک سالہ کوششوں پرپانی پھیردیا۔ تاحال چینی صدر کے ممکنہ دورے سے متعلق نہ تو نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی مزید تفصیلات بتائی گئی ہیں۔اس دورے کی ناکامی کوحکومت بہ طورپراپیگنڈہ استعمال کرتی رہی جو اُسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بہتر ی اسی میں ہے کہ اس دورے کی نئی تاریخوں کا اعلان کردیا جاتا تا کہ قوم کو دھرنوںسے ہونے والی فرسٹریشن کے دوران کوئی اچھی خبر سننے کو مل جاتی۔
آخر کا ر جب مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سر تاج عزیز نے جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے شرکا ء کو بتایا کہ چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا ہے منسوخ نہیںہوا، تو بات واضح ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس اہم دورے کو ری شیڈول کرانے کے لیے تمام تر ممکنہ اقدامات کریں گے اور ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔

کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی دارالحکومت میں دھرنوں کی صورت حال اور چینی صدر کے دورہ پاکستان کے ملتوی ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اجلاس کے دوران دفتر خارجہ کے حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کمیٹی کے اجلاس میں چینی صدر کے دورہ کے منسوخ ہونے کے باعث پاکستان کو پہنچنے والے سفارتی سطح پر نقصان اور باہمی تعلقات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کریں، کمیٹی اراکین نے حکومت اور دھرنے دینے والی جماعتوں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قائدین پر بھی زور دیا گیا کہ وہ اپنے معاملات جلد از جلد حل کریں۔

کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران مشیر برائے امور خارجہ نے کہا کہ ہم چینی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ آئندہ کسی وقت چین کے صدر کے دورہ پاکستان کو ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ چینی حکام نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ چینی صدر جب اور جتنا جلد ممکن ہوا وہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی چین کے وزیر خارجہ کے ساتھ 11 ستمبر کو شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہو رہی ہے اور وہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے ری شیڈول ہونے پر بات چیت کریں گے۔کمیٹی اراکین نے اس موقع پر کہا کہ دفتر خارجہ سری لنکا اور مالدیپ کے صدور کے دورہ پاکستان کے ری شیڈول ہونے کے لیے بھی کام شروع کیا جائے ۔

پاک چین سفارتی تعلقات
اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں تین ایشوز ایشوز ایٹمی اثاثے‘ مسئلہ کشمیر اور پاک چین دوستی پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آئیں مگر اس اتفاق میں تبدیلی نہ آسکی۔ اسی لیے پاکستان کا استحکام اور خوشحالی آج بھی چین سے قربت میں ہی ہے۔ پاک چین سٹرٹیجک تعلقات کے بعد اس وقت دنیائے سیاست میں کافی تبدیلیاں آ رہی ہیں جو بہت اہم ہیں۔ ایک بنیادی تبدیلی اور نئی حقیقت تو یہ ہے کہ اقتصادی و سیاسی قوت اور طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔

اگر انیسویں صدی برطانیہ کی تھی‘ بیسویں صدی امریکا کی تو اکیسویں صدی ایشیا کی ہو گی اور اب طاقت کا توازن یورپ اور امریکا سے نکل کر ہمارے خطے میں آ رہا ہے۔ آج سب سے مضبوط اور ابھرتی ہوئی نئی طاقت عوامی جمہوریہ چین ہے جو ہمارا ہمسایہ اور دیرینہ دوست ہے۔ دوسری بات جو اہم ہے کہ چین کی بڑھتی قوت اور پرامن طور پر نہایت تیزی سے آگے بڑھنے سے کچھ لوگ خائف ہو کر اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ چین کو کس طرح روکا جائے؟ اس مقصد کے لیے مغرب کے چند گروپ ہندوستان کو تیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کی بنیاد 2005 میں بش انتظامیہ نے رکھی دی تھی جب ہندوستان کے ساتھ امریکا نے نیوکلیئر معاہدہ کیا۔

اس کا اصل مقصد چین کو ہندوستان کے مقابلے میں مضبوط کرنا تھا۔ اس حوالے سے ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہندوستان کی کوشش تھی کہ وہ سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن جائے اور اس کی تائید امریکا‘ فرانس اور برطانیہ بھی کر چکے ہیں‘ تاہم چین نے پاکستان کا ساتھ دیا اور اس معاملے کو روکا ۔ چین نے ہمارا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے۔ امریکا کا عراق اور افغانستان کی جنگ کا ہر ہفتے کا خرچہ چار ارب ڈالر ہے۔ یعنی ہر ہفتے عراق اور افغانستان کی جنگ میں امریکا چار ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا پاکستان کو جو امداد دے رہا ہے‘ وہ ان کی عراق اور افغانستان کی جنگ کے تین ہفتے کا خرچہ ہے۔

غلام محی الدین

Xi Jinping Postpones Pakistan Visit

کہانی دھرنوں کی: سکرپٹ، کیریکٹرز اور ڈائریکٹرز.......


پاکستان میں جاری سیاسی صورتحال کے پیش نظر ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت اور فریقین کے مابین مزاکرات کسی نتائج پر نہیں پہنچ رہے اور پاکستانیوں کو سکون نصیب نہیں ہورہا؟

اس بلاگ میں کچھ سینئر ترین تجزیہ کاروں کی رائے اور معلومات کو اکٹھا کر کے پیش کیا جارہا ہے اور آخر میں ان تمام تجزیات اور حقائق کی بنا پر پاکستان میں چلنے والی فلم کا سکرپٹ حاضر خدمت ہے۔

مورخہ 14 جنوری 2013 کو دی نیوز میں چھپنے والے محترمہ شیریں مزاری کے آرٹیکل کے مطابقڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں اور محترمہ نے اپنے اس تجزیے کی بنیاد یہ دی ہے کہ چونکہ امریکہ 2014 میں افغانستان سے نکل رہا ہے اور ایسے وقت میں پاکستان میں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کےلئے ایک منتخب حکومت کے برعکس ایک لانگ ٹرم دوستانہ نگراں حکومت چاہتا ہے۔ خاص کر تب جبکہ امریکہ کو نہیں معلوم کے انتخابات کے نتیجے میں کس کی حکومت بنے گی اور اس دفعہ نا تو این آر او ہے اور نا کوئی گارنٹی دینے والے۔

چونکہ محترمہ شیریں مزاری کا یہ آرٹیکل پچھلے سال چھپا تھا تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ اسلام آباد میں آجکل ہورہا ہے وہ بہت پہلے سے طے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب مولانا قادری کے ساتھ محترمہ مزاری کے لیڈر عمران خان بھی اس عالمی سازش کا حصّہ بن گئے ہیں اور محترمہ اس سازش کو جانتے ہوئے بھی اپنے قائد کو اس سازش سے آگاہ نہیں کرسکیں۔ خیر اس منطقی نقطے پر مٹی ڈالیں اور آگے پڑھیں۔

مورخہ 5 ستمبر کو دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر نجم سیٹھی (جن کی مشہور زمانہ 'چڑیا' اندر کی خبریں اُڑا کر لانے کے لئے مشہور ہے) کے مضمون کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سازش آشکار ہوگئی ہے۔

سیٹھی صاحب کے مطابق تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی حکومت کے لئے فرشتہ بن کر نازل ہوئے۔ جس کے بعد اس سازش کے نقطوں کو جوڑ کر پوری سازش کو سمجھا جا سکتا ہے۔

سیٹھی صاحب کے مطابق پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل اشفاق کیانی نواز شریف کی طرف سے تجویز کردہ فارن پالیسیز سے ناخوش تھے۔ جن میں انڈیا، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات اور نان اسٹیٹ ایکٹرز (اثاثوں) اور طالبان کیخلاف آپریشن سے متعلق وزیراعظم نواز شریف موقف شامل تھے۔
ہفتہ وار انگریزی رسالے میں چھپنے والے مضمون کے مطابق چونکہ نواز شریف سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے میں گھسیٹ رہے ہیں اور نواز شریف کا یہ اقدام جنرل کیانی سمیت بہت سارے فوجی افسروں کو بھی شاملِ تفتیش کر رہا ہے، جنہوں نے 1999 میں مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ اس لئے بھی دونوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں تھی۔
جنرل کیانی کے سیاست میں عمل دخل کو دیکھتے ہوئے ہی وزیر اعظم کی جانب سے لائن میں تیسرے قدرے کم سیاسی جنرل راحیل شریف کو سپہ سلار منتخب کیا گیا۔

اس کے علاوہ سیٹھی صاحب کے مطابق اکتوبر 2014 میں کیانی دور کے بہت سارے جنرلز ریٹائر ہونے جارہے ہیں۔ جس کے بعد وزیر اعظم قدرے کم سیاسی جنرل کو آئی ایس آئی کی کرسی سونپ دیں گے۔ جس کے باعث فوج کی نیشنل سیکیورٹی میں مداخلت ضبط کر لی جائیگی۔
مشہور زمانہ چڑیا والے لکھتے ہیں کہ نواز شریف کا یہ خوف غلط بھی نہیں ہے کیونکہ ماضی میں دو مرتبہ ایسا ہوچکا ہے جب نواز شریف کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہان کو تبدیل کیا گیا۔
جیسے 1991 میں نواز شریف نے جنرل اسد درانی کو گھر بھیج کر جنرل جاوید ناصر کو چیف تعینات کردیا اور پھر 1999 جب نواز شریف کی جانب سے جنرل ضیا الدین بٹ کو یہ عہدہ سونپ دیا گیا۔ جنہیں بعد میں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لئے جب نواز شریف نے احکامات دیئے تو مشرف کی طرف سے بغاوت کردی گئی۔

اس مضمون میں مزید لکھا گیا ہے کہ جنرل کیانی کا یہ نظریہ تھا کے سنجیدہ فوجی بغاوت کی دھمکی فوجی بغاوت سے زیادہ کار آمد ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ کمزور معیشت، خودمختار عدلیہ، سرگرم میڈیا، سرگرم سول سوسائٹی ادارے اور غیر ریاستی ایکٹرز ہیں۔
کیانی صاحب کے نظریے کے مطابق بہتر یہ ہے کہ سیاسی منظر نامے کے پیچھے سے فوجی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی کرداروں کو برؤے کار لاتے ہوئے چیزوں کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے کہ فوجی بغاوت ناگزیر لگنے لگے۔
اسی نظریے کا استعمال کرتے ہوئے جنرل کیانی نے زرداری صاحب کو بھی فارن پالیسی، دہشت گردی کیخلاف جنگ، اور دیگر ایشوز جیسے انڈیا، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات، کیری لوگر بِل اور میمو گیٹ جیسے سکینڈل پر مجبور کردیا۔ بالکل اسی طرح جنرل کیانی کے نمک خوار نواز شریف کیساتھ بھی کرنا چاہتے ہیں۔

اب کی بار بھی بالکل اسی طرح کیانی نظریے کے تسلسل میں اکتوبر میں کچھ جنرلوں کی ریٹائرمنٹ سے قبل نواز حکومت کا بستر گول کرنے کی دھمکی دی گئی۔

ایک طرف سدا بہار آرمی کارندوں شیخ رشید اور چوہدری برادران کے ذریعے عمران خان اور طاہرالقادری کو استعمال کیا گیا جو کسی بھی قیمت پر وزیر اعظم بنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف مضبوط ترین میڈیا ہاؤس جنگ اور جیو کو کمزور کردیا گیا. عدلیہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی اور سابق چیف الیکشن کمشنر پر عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے خوف زدہ کردی گئی۔
سیٹھی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کا ڈھنڈورا اس لئے پیٹا گیا تاکہ تمام اپوزیشن جماعتیں مشہور ترین شخصیات عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ مل جائیں۔
بد قسمتی سے جیو اور نواز لیگ سازشیوں کے ہاتھوں پھنس گئیں۔ جس کی وجہ سے قوم غصّے میں آگئی۔ جیو نے ملک کی اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسی پر الزام لگادیا اور نواز لیگ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن انجام دیدیا۔
اس مضمون کے مطابق سازشیوں کی تین چیزیں خوش قسمتی سے خلاف توقع ہوگئیں۔

پہلی: 10 لاکھ لوگ لانے کا دعوی پورا نہیں ہوا۔
دوسری: حکومت نے مارچ کے شرکا کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔

تیسری: جب چیزیں حکومت کے ہاتھ سے نکل رہیں تھیں تو جاوید ہاشمی نے بگل بجا دیا اور پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کو وزیر اعظم کے پیچھے کھڑا ہونے کا پیغام دیدیا۔

مضمون کے آخر میں لکھاری لکھتا ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے کچھ فیصلے اور پالیسیاں غلط بنائیں گئیں جنھوں نے وزیر اعظم کو کمزور کردیا۔ عمران خان میچ فکسر کے طور پر آشکار ہوگئے اور سازشی سامنے آگئے۔ سارے معاملے میں صرف جنرل راحیل ایک اچھا رول ادا کرتے نظر آئے۔
نجم سیٹھی کے ہی 15 اگست کو فرائیڈے ٹائمز میں چھپنے والا مضمون بھی کچھ ایسے ہی حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔

مثلاً، پیپلز پارٹی کی حکومت کیانی دور میں آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو کے آگے نیشنل سیکیورٹی کے ایشوز پر ڈھیر ہوگئیٌ تھی۔
جنرل کیانی نواز شریف کو بھی نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر قابو میں کرنا چاہتے تھے اور مشرف کیخلاف ٹرائل کی وجہ سے بھی جنرل کیانی اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بڑھ گئے تھے۔

اس مضمون کے اختتامیہ میں فرائیڈے ٹائمز کے مدیر لکھتے ہیں کہ اسلام آباد کا حال بگاڑنے کے بعد دھرنے والوں کو واپس بلا لیا جائیگا اور نواز شریف شکست مان کر سپریم کورٹ کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کروائیں گے، عمران خان کی آمادگی سے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہوگی، مشرف کو چھوڑ دیا جائیگا، علاقائی فارن پالیسی سے نواز شریف پیچھے ہٹ جائیں گے اور اگر سپریم کورٹ یہ تعین کرتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پارلیمنٹ توڑ دی جائیگی اور دوبارہ انتخابات کرواۓ جائیں گے۔

اوپر پیش کئے گئے تمام تجزیات، ان صحافیوں کی آشکار کردہ معلومات اور مجھ جیسے جونیئر ترین تجزیہ کار کے تجزیات کی روشنی میں جمہوریت کے خلاف کی جانے والی اس سازش کا سکرپٹ کچھ اس طرح بنتا ہے۔
وجہِ سازش

بیرونی
امریکہ افغانستان سے اس سال انخلا کا ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لئے پاکستان میں ایک دوستانہ نگران حکومت چاہتا ہے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کے ساتھ انخلا سے متعلق معاملات طے کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان میں ایک دوستانہ نگران حکومت ہی امریکہ کے لئے سازگار ثابت ہوسکتی ہے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے برطانیہ کے ذریعے طاہرالقادری (جس کا ذکر محترمہ شیریں مزاری کے مضمون میں کیا گیا ہے) اور طاہرالقادری کے ذریعے عمران خان کو استعمال کیا۔

مشرف ٹرائل
فوج اور نواز شریف کے مابین اختلافات کی ایک بڑی وجہ سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف بغاوت کا مقدمہ ہے۔ جس پر فوج نواز حکومت سے نالاں ہے۔

سازشی آلہ کار
عمران خان: 2013 کے انتخابات کے بعد عمران خان ہی دھاندلی کے الزامات لگا رہے تھے اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی سپورٹ بھی انھیں حاصل ہے۔
ڈاکٹر مولانا طاہر القادری: 2013 میں اسلام آباد میں ہی ہونے والے دھرنے میں اپنی سٹریٹ پاور دکھا چکے تھے۔

جاوید ہاشمی کے بقول عمران خان اور طاہر القادری کے مابین ملاقات جون کے پہلے ہفتے میں لندن میں ہوئی۔ جس کے بعد عمران خان کی طرف سے اعلان کیا گیا کے وہ طاہرالقادری کیساتھ کسی الائنس کا حصّہ نہیں بنے گے۔

اعجاز حسین: مورخہ 7 ستمبر کو نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام آپس کی بات میں اس سازش میں شریک ایک اور کردار متعارف کروایا جو نیشنل ڈیفینس کالج میں لیکچر دیتا رہا ہے اور جس نے چوہدریوں اور طاہرالقادری کے مابین رابطہ کروایا۔

سدا بہار فوجی کارندوں کا استعمال
چوہدری برادران اور شیخ رشید کو ان دونوں انقلابی رہنماؤں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور ان دونوں فوجی کارندوں کی دھرنوں میں موجودگی فوج کی سازش کو آشکار کرتی ہے۔

سازش کی ناکامی کی وجوہات
سیٹھی صاحب کے مضمون کیمطابق تین وجوہات کی بنا پر جمہوریت کیخلاف یہ سازش کامیاب نا ہوسکی۔
ایک: عمران خان دس لاکھ لوگ اسلام آباد نا لاسکے۔ جس کی وجہ سے مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔
دو: حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح دھرنوں کے شرکا پر طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے اتنی ہلاکتیں نا ہو سکیں جو عمران خان اور طاہرالقادری چاہتے تھے۔
تین: جاوید ہاشمی نے باغی ہوتے ہوئے عمران خان کے پیچھے مبینہ ہاتھوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔

بد قسمتی
بدقسمتی سے نواز حکومت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سرزد ہوگیا اور جیو نے آئی ایس آئی پر حامد میر پر قاتلانہ حملے کے الزامات لگا دیئے۔ جس کے بعد سازشیوں کے ہاتھ دونوں کیخلاف سازش کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔

پیارے افضل کی اینٹری
نواز حکومت کیخلاف سازش کو ناکام ہوتا دیکھ کر پاکستان کے سب سے صادق اور امین اینکر کے ذریعے الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری محمد افضل کی اینٹری کروائی گئی جنہوں نے طے شدہ سکرپٹ کیمطابق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے علاوہ جیو پر انتخابات میں دھاندلی کروانے کے الزامات لگائے۔
محمد افضل کی مشکوک اینٹری نے سازش میں اس متنازعہ اینکر کا کردار بھی آشکار کردیا اور دیکھنے والوں پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس اینکر کو خفیہ مواد کون فراہم کرتا ہے۔

چوہدری شجاعت کا کیانی پر الزام
جب جاوید ہاشمی نے سازش کو بے نقاب کردیا تو چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے جنرل کیانی پر الزام لگایا گیا کہ جنرل کیانی انتخابات میں دھاندلی میں ملوّث تھے۔
چوہدری صاحب کی طرف یہ الزام شاید سازش کے فیل ہونے پر جزبات کی رو میں بہتے ہوئے لگایا گیا اور شاید چوہدری صاحب کی سوچ کے مطابق اس بیان کے بعد ہی سوئی ہوئی ٹھنڈی فوج جاگ جائے اور موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے مداخلت کا فیصلہ کرلے۔

فوج کا مارشل لا نا لگانے کی وجہ
فوج کیانی نظریئے کی روشنی میں یہ سمجھتی ہے کہ مارشل لا کا خوف مارشل لا سے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ کہ فوج کمزور معیشت، خود مختار عدلیہ، سر گرم میڈیا، سرگرم سول سوسائٹی اور غیر ریاستی ایکٹرز کی وجہ سے مارشل لا نہیں لگا سکتی اور اگر لگاتی ہے تو خود پھنس جائیگی۔

جنرل راحیل شریف کا کردار
جنرل راحیل شریف نے اس سازش کو ناکام کرنے میں سب سے کلیدی رول ادا کیا اور اس کا سہرا وزیر اعظم نواز شریف کو بھی جاتا ہے جنہوں نے لائن میں سے تیسرے جنرل کو سپہ سلار کے طور پر چُنا۔

یہ جنرل راحیل کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ ایسے نازک حالات میں جب ایک طرف فوج آپریشن ضرب عزب میں مصروف ہے اور دوسری طرف سیلاب میں اپنا فریضہ سر انجام دے رہی ہے، جنرل راحیل پاکستان میں جمہوریت کا علم بلند رکھنے کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔

جنرل ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ
کچھ دوسرے جنرلز کے علاوہ اکتوبر میں آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ جنرل ظہیر الاسلام بھی اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں اور نئے آنے والے ممکنہ سربراہ کے لئے جنرل نصیر جنجوعہ کا نام سامنےآرہا ہے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ کا چناؤ تو چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر مدت ملازمت میں توسیع وزیر اعظم کی صوابدید ہوتی ہے اور موجودہ حالات کی روشنی میں نہیں لگتا کہ وزیر اعظم ایسا کوئی اقدام کریں گے۔
آخر میں پیش ہے 2013 کا ایک ویڈیو کلپ جس میں ایک بے باک نڈر صحافی نے موجودہ حالات کے بارے میں اپنے پروگرام میں بتا دیا تھا اور اس کے مطابق بھی پرویز مشرف کو بچانے کے لئے کچھ لوگ 2014 میں اسلام آباد میں دھرنے دیں گے۔

ان تمام تجزیات اور حقائق سے موجودہ سیاسی بحران کے پیچھے کار فرما سازشیوں کا تو پتہ چل جاتا ہے جو ابھی تک اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکے مگر ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ 
وہ اپنی پالیسیوں سے ان شر پسند سازشیوں کو بے نقاب کرتے رہیں۔

دھرنے کی افادیت......


سیاسی یا جنگی لائحہ عمل وہی بہتر گردانا جاتا ہے جس میں مشکل حالات سے نکلنے کا بندو بست موجود ہو۔ عمران خان نے شروع دن سے ہی اپنے لیے وزیر اعظم کے استعفیٰ کا جو ہدف مقرر کیا تھا اس میں اس سے کم پر مان جانے کا موقع نہیں چھوڑا گیا۔ دھرنوں میں افراد کی تعداد خاصی حد تک کم ہوگئی ہے۔ شام کو بھی تعداد کچھ اتنی نہیں ہوتی کہ اس کو دیکھ کر پارلیمنٹ میں بیٹھی تمام جماعتیں اور حکومت کے ایوان تھرتھر کانپنے لگیں۔ کیمرے ابھی تک وہ چشم پوشی کر رہے ہیں جس کا کسی طور بھی ایک پروفیشنل معیار پر دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ مگر پھر بھی سڑک پر ارد گرد کے علاقوں سے آئے ہوئے کارکنان اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے وہ اصل میں ہوتے ہیں۔ خیال کی اڑان، بیان اور کیمرے کی پرواز ان کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے باوجود ان خالی جگہوں کو پُر نہیں کر سکتی جو روز روز واضح ہوتی چلی جا رہی ہے۔

لہٰذا سڑک کے ذریعے دباؤ پیدا کر کے اپنا مطالبہ منوانے کا وقت گزر گیا۔ عمران خان ان حالات کو اگر نہ سمجھیں تو ان کی مرضی ہے۔ مگر کسی بڑی غلطی یا حادثے کے علاوہ سڑک پر سے احتجاج کر کے وہ نہ اب کسی کو متاثر کر رہے ہیں اور نہ حصول منزل کی طرف ایک قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی حالات نے بھی ان کے احتجاج پر گہرے اثرات چھوڑنے شروع کر دیے ہیں۔ سیلاب نے کنٹینر سے نکال کر سیالکوٹ کا دورہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ویسے سیلاب سے پہلے بھی اپنی دوسری ضروریات سے مغلوب ہو کر ان کو دن میں دس، بارہ گھنٹے کنٹینر چھوڑنا ہی پڑتا تھا۔

آنے والے دنوں میں بدلتے ہوئے حالات ان کو از خود کنٹینر سے دور رکھ سکتے ہیں۔ اس جگہ پر ٹِکے رہنے کی سیاسی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ جو جماعتیں انتخابی عمل کا حصہ بن کر سیاست کرنا چاہتی ہیں ‘وہ خود کو طویل عرصے کے لیے نظام سے دور نہیں رکھ سکتیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے عمران خان کے علاوہ تقریبا ہر کوئی یہی بات بار بار دہرا رہا ہے۔ عمران خان ہر کسی کو غدار، بزدل یا چیتے کی متضاد شکل کے جانوروں کی شکل سے پیش نہیں کر سکتے۔ ان کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اکثریت کی رائے زیادہ عرصہ تک موقوف نہیں کی جا سکتی۔ نواز شریف کے خلاف مزاحمت کی دھن میں انھوں نے خود کو جماعت کی رائے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔

ابھی تک ان کے نعرے اور وعدے وہی ہیں جو چند ہفتے پہلے تھے۔ مگر اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے سیاسی طور پر اپنی جماعت کے لیے ماحول بری طرح خراب بھی کیا ہے۔ پاکستان کے اندر بہترین کارکردگی پیش کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ نظام ہی کچھ ایسا ہے۔ ہم معاشرتی اور نسلی طور پر بیسیوں رنگ رکھتے ہیں۔ یہاں پر چھوٹی بڑی درجنوں جماعتوں کا اپنے اپنے حلقے میں اہم کردار ہے جو ایک ہی ہلے میں تبدیل یا تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ہو یا نواز لیگ کی دو تہائی اکثریت، انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں ہر بڑے اور چھوٹے فیصلے پر دوسری جماعتوں پر انحصار کرتی ہیں۔

عمران خان نے کنٹینر میں مورچہ بند ہو کر جو پھلجھڑیاں چھوڑی ہیں ان کی کی چنگاریاں ہر دامن پر گری ہیں۔ کوئی جماعت اور اس کا لیڈر عمران خان کی زبان اور ہاتھ کے اشارے سے محفوظ نہیں رہا۔ کوئی ایسا الزام باقی نہیں ہے جو انھوں نے دوسروں پر نہ لگایا ہو۔ دھمکی، لاٹھی اور سبق سکھانے کی جو نئی سرکار کو انھوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر ترتیب دیا ہے وہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک بہت بڑا درد سر بن چکا ہے۔ اگر آج نواز شریف اور شہباز شریف اور ان کے قریبی دوست فضا میں تحلیل ہو جائیں تو بھی عمران خان کو پارلیمان میں بیٹھی ہوئی جماعتیں آسان راستہ فراہم نہیں کریں گی۔ بلوچستان میں قوم پرستوں اور سرداروں سے سینگ پھنسانے کے ساتھ ساتھ پشتون رہنماوں کی بدترین تضحیک پاکستان تحریک انصاف کے لیے مستقبل میں کسی ممکنہ سیاسی اتحاد کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔

خیبر پختون خوا میں مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے اوپر اپنی جماعت کے نمایندگان کے ساتھ پتھروں کی بارش کر کے سیاسی راستے اگر مسدود نہیں کیے تو محدود ضرور کر دئے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ دست و گریبان ہیں اور سندھی قوم پرستوں کو گھاس تک نہیں ڈالتے۔ کبھی ایم کیو ایم پر برستے ہیں۔پنجاب میں نواز لیگ کے ساتھ لڑائی ہے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی مقابلہ۔ اگر عمران خان نیا پاکستان بنانے کے بعدوزیراعظم بن گئے تویہ ملک چلائیں گے کیسے؟
اتنے الزامات لگانے کے بعد ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے کون پیے گا۔ دھرنے کا ہدف نواز شریف اس وقت دوبارہ سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان انکو نکالنے پر مصر تو ہیں مگر سیاسی مشکلات میں گھرے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کا نکما پن اور تبدیلی کے نعرے کی پکار اب بھی قائم ہے۔ مگر یہ دونوں عناصر عمران خان کو ان کی بیان کردہ منزل کی طرف لے جانے کے لیے مناسب نہیں ہیں۔

اس تمام قصے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار رہا ہے یہ موضوع اس وقت اٹھانا موزوں نہیں ہے۔ اگرچہ حقائق چھپائے بھی نہیں چھپتے مگر انکو ڈھانپنے کے لیے جو گنجائش چاہیے وہ اس وقت موجود نہیں۔ اتنا کافی ہے کہ اس تمام مسئلے کا یہ تمام زوایہ اس راز کی طرح ہے جو سب کو معلوم ہونے کے باوجود رازداری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے راز ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگلے دو تین ہفتوں میں دھرنوں کے پیچھے ہونے والی یہ کوشش عملاً رائیگاں ہو کر ختم ہو جائے گی۔ جس سہارے کے ناتے اتنی لمبی چھلانگ لگائی گئی تھی وہ گزرتی ہوئی ساعتوں کی نذر ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو پس منظر میں کھیلے جانے والے کھیل نے کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔

اس مشکل منظر نامے کے باوجود تحریک انصاف نے اس احتجاج سے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔ اگر بات چیت کے درجن سے زائد دور کسی ایسے معاہدے کی صورت میں سامنے آ جاتے ہیں جس سے لمبی چوڑی اور ضروری اصلاحات کا دروازہ کھل جاتا ہے تو اس کا سہرا احتجاج کے سر ہی باندھا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے لیے یہ سہرا بندی ضروری ہے۔ اس کے بغیر تحریک انصاف خود کو اس مشکل موڑ پر سے پھسلے بغیر نہیں نکال سکتی۔ معاہدے کے بعد عمران خان ملکی معاملات پر جزوقتی توجہ دینے کے بجائے کلی طور پر اپنی کوششیں صرف کر سکتے ہیں۔ جہاں تک رہا معاملہ طاہر القادری کا تو انکو جب ٹیلی فون آئے گا وہ واپس چلے جائیں گے۔ دھرنا اپنی افادیت حاصل کر چکا ہے اس کو مہذب انداز سے عزت بچا کر ختم کرنے کا انتظام ضروری ہو چکا ہے۔

طلعت حسین
 

احساس زیاں جاتا رہا......


جشن آزادی کے بعد سے پیارے پاکستان میں جو ہوا برا ہوا۔ کسی بھی محب وطن صاحب فہم و شعور کے لیے دل چھیدنے اور دماغ ماؤف کر دینے کے لیے وہ دھماچوکڑی ہی کافی ہے جو ملک میں مچی۔ تین جماعتوں کی لڑائی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ ملک کو ہونے والا کھربوں کا نقصان تو رہا ایک طرف، ساری دنیا میں جو جگ ہنسائی ہوئی اس کا تو کچھ مداوا ہی نہیں۔ پریشانی کا یہ عالم کہ ’’ قیامت صغریٰ‘‘ کے ان دنوں میں قوم کا ہر باضمیر شخص ملک و قوم کی عافیت کے لیے نہ صرف ہاتھ اٹھائے دعا گو دیکھا، بلکہ انتہائی غمگین بھی، کیوں کہ اتنی طویل پرتشدد اعصابی جنگ اور وہ بھی دار الحکومت میں شاید پہلے کبھی نہ برپا ہوئی ہو۔ ہر فریق نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر فریق مخالف کی سات پردوں میں بھی چھپی خطاؤں کو آشکار کیا اور اپنی ظاہر و باہر خامیوں کو خوبیاں بنا کر پیش کیا، حالانکہ غلطیاں تو ہر دو نے کیں۔

معاملہ حکومت کی نااہلی و کوتاہی سے شروع ہو کر مظاہرین کی غلطی و خامی پر جا ٹکا۔ یوں تو صاحب اقتدار طبقے نے حکومت کو بطرز جمہوریت نہیں، بلکہ بطرز بادشاہت ہانکا۔ صاحب اقتدار کا غیر لچک دار رویہ، اقربا پروری، عوامی مسائل سے عدم توجہی، غیرمنتخب افراد کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنے کی روش اور امور مملکت کو کاروباری طرز پر چلانے کی سوچ نے یقینا کئی مسائل کو جنم دیا، لیکن معاملے کو سیاسی آگ نے دھاندلی کے نقطے پر پکڑا۔ اگر پہلے ہی 4 حلقوں کا معاملہ صاف کر لیا جاتا تو شاید ملک ’’جنگی کیفیت‘‘ میں مبتلا نہ ہوتا اور رہی سہی کسر ماڈل ٹاؤن واقعے نے پوری کر دی، بھلا بے وقت 14 افراد کی جان لے کر رکاوٹیں ہٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی اور اگر اسی وقت ایف آئی آر درج کر کے شفاف تحقیقات کردی جاتیں تو آج یہ نوبت نہ آتی، لیکن حکومت ’’میں نہ مانوں‘‘ کی تعبیر بنی رہی ۔

پھر جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے مارچ کی ٹھانی تو حکومت بھی روکنے کو ڈٹ گئی اور مارچوں نے حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کے ڈھول کا پول کھول دیا۔ پنجاب بھر کو کنٹینروں سے بند کرنے سے لے کر جا بجا خندقیں کھودنے تک حکومت نے اپنی پریشانی کا بین ثبوت قوم کے سپرد کیا اور پی ٹی آئی کو ناتجربہ کار کا طعنہ دینے والی مسلم لیگ ن کے تین دہائیوں پر پھیلے حکومتی تجربے کا نچوڑ دیکھ کر قوم کے پاس دنگ ہوئے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ حالانکہ اپنے حقوق کے حصول اور حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر احتجاج کرنا ہر فرد کا جمہوری حق ہے، جسے روکنا کسی طور بھی درست نہیں، لیکن جمہوری حکومت کے رویہ سے نوبت یہاں تک پہنچی۔

دوسری جانب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے جو طریقہ اختیارکیا اسے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں گردانا جاسکتا۔ خیر سے کسی کو تو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ پاکستانی عوام کو برانگیختہ کر کے ’’نامعلوم و مجہول‘‘ انقلاب کا راگ آلاپے۔ جب کہ ایک جمہوری سیاسی لیڈر عمران خان کے مطالبات نہ صرف حق پر مبنی، بلکہ ایک عرصے سے پوری قوم کی آواز بھی۔ نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل، گزشتہ انتخابات کا احتساب، بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے آیندہ شفاف الیکشن کی ضمانت اور وزیر اعظم کے استعفے کے سوا باقی بھی اسی طرح جاندار۔ اتنے بھاری بھرکم مطالبات کے باوجود جمہوری لیڈر خان صاحب قادری صاحب کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی سیاست داؤ پر لگا بیٹھے۔

قادری صاحب کے پاس تو کھونے کے لیے کچھ نہیں، لیکن خان صاحب کے پاس تو کھونے اور بچانے کے لیے بہت کچھ تھا، وہ مہاتیر محمد اور طیب اردگان بن سکتے تھے، لیکن انھوں نے بننا پسند نہ کیا اور حیرت انگیز احتجاج اختیار کیا، جو انھیں کسی طور بھی زیب نہیں دیتا۔ پہلے ریڈ زون میں زبردستی داخل ہوئے، پھر وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھ دوڑے، پولیس نے اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے روکنا چاہا تو ’’انقلابیوں‘‘ نے ڈنڈوں، پتھروں اور لوہے کے راڈوں سے پولیس کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اس کے بعد قومی نشریاتی ادارے پر دھاوا بول کر پاکستان کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کیا، جو پورے ملک کا سرجھکانے کو کافی ہے۔
اگرچہ بعد میں دونوں رہنماؤں نے ملوث ہونے کی تردید کی، جس کو تسلیم کرنا مشکل، لیکن اشتعال تو ان کی تقریروں سے ہی پھیلا۔ اس سے پہلے خان صاحب نے سول نافرمانی کا اعلان کیا، اگرچہ محب وطن قوم کے تعاون سے بری طرح ناکامی ہوئی، لیکن یہ اعلان کرنا ہی (ن) لیگ نہیں ،بلکہ اقتصادی و معاشی بحران کے شکار ملک کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے، حالانکہ سول نافرمانی اپنے ہی ملک نہیں، بلکہ دشمنوں اور غیروں کے خلاف کی جاتی ہے، ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف آزادی حاصل کرنے کے لیے کی گئی تھی۔

اس اعلان کا بہر حال خان صاحب کی سیاست کو نقصان ہوا۔ ’’باغی‘‘ کے انکشافات اور دھرنوں میں دعوؤں کے مطابق افراد لانے میں ناکامی کی وجہ سے ان کی سیاست پر پڑنے والے منفی اثرات بھی واضح ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب کے پی کے کے دس لاکھ سے زاید آئی ڈی پیز بے یارو مددگار ملک میں رل رہے ہوں اور کے پی کے حکومت میں پی ٹی آئی کی پوری قیادت اپنی ذمے داریاں چھوڑ کر اسلام آباد میں مورچہ زن ہو تو کے پی کے میں پی ٹی آئی کی سیاسی کشتی میں سوراخ کا ہونا بھی فطری امر ہے۔

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ زور زبردستی حکومتوں کو ختم کرنے کی کوشش سے صرف حکومت ہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ملک و قوم بھی چین و سکون سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک، لیبیا میں معمر قذافی، تیونس میں زین العابدین اور شام میں بشار الاسد کی حکومتوں کو زبردستی ختم کرنے کا انجام بدامنی اور بے سکونی کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ ان کے بعد کیا ہم بھی ملک میں وہی حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں، جن کو سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں؟ لیکن جب سیاستدانوں کو ملک سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہوں تو یہی کہا جاسکتا ہے ؎

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اگر بحیثیت قوم ہم اپنے رویوں میں سنجیدگی لانے میں ناکام رہے تو خدانخواستہ ملک دشمن قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتی ہیں اور پھر’’اب پچھتائے کیا ھوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ والا معاملہ نہ ہو۔ تین کی سیاسی جنگ میں بہرحال ہار صرف اس قوم کا مقدر اور ہمیشہ سے ہوتا بھی یہی آیا۔ اگر ’’بادشاہ سلامت‘‘میاں صاحب کی ’’بادشاہت‘‘ سلامت رہے تو قوم کی بدقسمتی اوراگر ’’انقلابیوں‘‘ کی ’’آمرانہ‘‘ سوچ فاتح ہو تو قوم کی اس سے بھی زیادہ بدقسمتی۔ اس قوم کا کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ لاٹھیاں کھانے، دھرنے دینے، مارچ کرنے اور جان کی بازی لگانے کے لیے ہر جگہ پیش پیش یہ عوام، لیکن بعد میں ان کو بھلا دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں تو قوم کو جاگ جانا چاہیے اور سیاستدان تو نہیں، قوم ہی سنجیدگی کا دامن تھامے۔

عابد محمود عزام
  

پاک فوج کے اصل دشمن.....


جو چیلنج اس وقت افواج پاکستان کو درپیش ہے، وہ شاید ہی دنیا کی کسی اور فوج کو درپیش ہو۔ مشرقی سرحد پر سائز میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی فوج کا سامنا۔ مغربی بارڈر پر ایک اور طرح کی بھیانک جنگ کا سامنا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت یعنی امریکہ کے ساتھ دوستی بھی اور دشمنی بھی (Love and hate relations) کا چیلنج ۔ دنیا کے کسی ملک کی فوج اس وقت اپنے ملک کے اندر مختلف محاذوں پر سرگرم عمل نہیں ہوگی، جس طرح کہ پاکستانی افواج ہیں۔ بلوچستان میں ایک اور نوعیت کی مصیبت، فاٹا اور سوات میں ایک اور طرح کی مصروفیت، کراچی میں ایک اور طرح کا الجھاو اور اب اسلام آباد جیسے شہروں میں آرٹیکل 245 کے تحت ایک اور طرح کی آزمائش ۔ فوج سے وابستہ خفیہ ایجنسیوں کے چیلنجوں کا تو کوئی شمارہی نہیں ۔ فرقہ واریت کا چیلنج، لسانیت کا چیلنج، دہشت گردی کا چیلنج، غیرملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کا چیلنج ۔ سی آئی اے یہاں مصروف عمل، را یہاں سرگرم عمل ، ایرانی انٹیلی جنس یہاں فعال، عرب ممالک کی انٹیلی جنس یہاں مستعد جبکہ افغان انٹیلی جنس کی اپنی حرکتیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے لے کر برطانوی اور یورپی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے کارندوں اور سرمائے کا رخ یہاں موڑ دیا ہے۔

ان چیلنجوں کا مقابلہ تبھی کیا جا سکتا ہے کہ قوم کا ہرفرد اپنی افواج اور اس کے اداروں کی پشت پر کھڑا ہو اور قوم کی طرف سے وہ مطلوبہ حمایت اور محبت اس فوج اوراس کے اداروں کے حصے میں تب پوری طرح آتی ہے جب وہ اپنے کام یعنی ملکی دفاع تک محدود رہیں۔ جو لوگ ان کو سیاست یا صحافت میں ملوث کرتے ہیں، وہ دوست کی شکل میں کیوں نہ ہوں دراصل اس فوج کے دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وہ لوگ یا تو اس فوج کے دشمن ہیں جو اسے ملکی سیاست میں ایمپائر بنانا چاہتے ہیں اوردعوتیں دے دے کر اسے سیاست کے گند میں ہاتھ ڈالنے کا کہتے ہیں ۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہماری فوج اور اس کے ادارے اپنے ان دشمنوں کے بارے میں مکمل خاموش ہیں ۔فوج کے یہ دشمن یا نادان دوست تین حلقوں میں موجود ہیں۔ سیاسی میدان میں تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ق) ، پاکستان عوامی تحریک اور چند بیروزگار سیاستدان اس فہرست میں شامل ہیں ۔ میڈیا میں بعض اخباری مالکان، بعض اینکرز اوربعض کالم نگار یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جبکہ تیسرا طبقہ ریٹائرڈ فوجی افسران کا ہے۔ عمران خان دنیا کے سامنے قسمیں اٹھاتے تھے کہ وہ اگست میں میاں نوازشریف کو رخصت کریں گے لیکن ہر کسی کو علم تھا کہ ان کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں ۔ یہ بھی ہر کسی کو علم تھا کہ عوامی طاقت سے وہ حکومت گرا نہیں سکتے کیونکہ بعض اوقات وہ تین ہزار لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر نواز شریف کی رخصتی کی خوشخبریاں سناتے رہے ۔ وہ ہر وقت ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کی دہائیاں دیتے رہے ۔

اب کسی ایسے ویسے فرد نے نہیں بلکہ ان کی جماعت کے مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے گواہی دی کہ کور کمیٹی کی میٹنگز میں عمران خان یہ بتاتے رہے کہ وہ فوج کے کہنے پر میدان میں اترے ہیں اور آخر میں فوج مداخلت کرکے سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو رخصت کرے گی ۔ اب اگر فوج یا اس کے کسی ادارے میں موجود کسی فرد نے تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا تو وہ فوج کے خلاف غداری کا مرتکب ہوا ہے اور اگر عمران خان ، شاہ محمود قریشی یا پھر جہانگیر ترین جھوٹ بولتے رہے تو پھر وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ یہی معاملہ گجرات کے چوہدھریوں اور شیخ رشید احمد کا بھی ہے ۔چوہدری صاحبان ہی قادری کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ’’ان‘‘ سے بات ہو گئی ہے اور وہ جو فائیو اسٹار کینٹینر میں بیٹھ کر ہزاروں بچوں اور خواتین کو مرواررہے ہیں تو اس امید پر مروارہے ہیں کہ فوج آ کر نواز شریف کو رخصت کرے گی ۔ان لوگوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے، اسے متنازع بنانے اور بدنام کرنے کی حد کر دی ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے ثالث یا گارنٹر بننے پر آمادگی ظاہر نہیں کی تھی لیکن ملاقات سے واپسی پر عمران خان اور علامہ طاہرالقادری نے پوری قوم کے سامنے یہ غلط بیانی کی کہ آرمی چیف نے ثالث اور گارنٹر بننے کا کہا ہے ۔

اب وزیر اعظم کی غلط بیانی سے متعلق تو آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز آ گیا لیکن ان دونوں کی اس غلط بیانی کی تردید آئی ایس پی آر کی طرف سے آج تک نہیں ہوئی ۔ اسی طرح فورسز کے بعض ریٹائرڈ افسران ٹی وی چینلز پر آ کر ایک طرف فوج کی وکالت کرتے ہیں اور دوسری طرف حکومت کے خلاف تلخ زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کو فوج کا مزاج شناس باور کراتے ہیں بلکہ خلوتوں میں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ وہ فوج کی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ائرفورس کے ایک سابق افسر (ائرمارشل شہزاد چوہدری نہیں) کوئی ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے حالانکہ علامہ طاہرالقادری کے ساتھ ان کے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔

گزشتہ روز وہ حامد میر صاحب کے پروگرام کیپیٹل ٹاک سے رخصت ہو رہے تھے ۔ اس پروگرام میں طاہرالقادری کے ترجمان بھی آئے تھے ۔ جیو کے دفتر سے رخصت ہوتے وقت اندھیرے کی وجہ سے ان کا خیال نہیں رہا لیکن ہمارے اسٹاف کے دو بندے ان کی گفتگو سن رہے تھے ۔ وہ کیپیٹل ٹاک میں ان کے ساتھ آئے ہوئے عوامی تحریک کے ترجمان کو نصیحت کررہے تھے کہ وہ پولیس سے نمٹ کر چڑھ دوڑیں اور یقین دلا رہے تھے کہ فوج انہیں کچھ نہیں کہے گی ۔ اسی طرح یہ طبقہ اب اہل صحافت میں بھی سامنے آ گیا ہے جو فخر سے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ وہ سب کچھ عسکری اداروں کے اشارے پر کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ دن رات نہ صرف فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں بلکہ فوج کو دیگر اداروں کے ساتھ صف آرا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے آرمی چیف کی طرف سے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے مشورے کی جھوٹی خبر دی، یہی تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کے بارے میں پیشنگوئی کی کہ اس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف قراردادیں پیش کی جائیں گی لیکن یہ سب جھوٹ نکلا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اپنی ساکھ کے بارے میں انتہائی حساس فوج اور اس کے ادارے ان لوگوں کے بارے میں خاموش ہیں ۔

حامد میر صاحب کے معاملے میں جیو کی طرف سے زیادتی ہوئی تھی جس پر جیو اور جنگ کی طرف سے معافی بھی مانگی گئی، جرمانہ بھی ادا کیا گیا، اربوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ‘ اس کے کارکنوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں اور آج تک وہ ان خطرات سے دوچار ہیں لیکن دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو دن رات بدنام کرنے والے اور سویلین اداروں کو ان سے لڑانے کی سازش کرنے والے ان لوگوں کے بارے میں حکومت ‘ فوج اور اس کے ادارے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بسا اوقات وہ چہیتے بھی نظرآتے ہیں ۔ اسی طرح تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین کو کوئی غدار کہہ رہا ہے اور نہ ان کی زبان بندی کی کوئی سبیل نکالی جارہی ہے۔افواج پاکستان کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف نہ صرف شریف ہیں بلکہ ایک پروفیشل سپاہی اور جرنیل بھی ہیں ۔ پوری قوم جانتی ہے کہ نوازشریف حکومت نے اپنی نااہلی اور عسکری اداروں کے ساتھ سیاست بازی کے ذریعے فوجی مداخلت کے کئی مواقع پیدا کئے لیکن جنرل راحیل شریف نے فوج کو اس کے آئینی دائرے تک محدود رکھا۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے لئے عمران خان صاحب کی بھرپور کوششوں اور قادری صاحب کی التجائوں کے باوجود انہوں نے جس صبر کا مظاہرہ کیا ‘ اس کی وجہ سے قوم کی نظروں میں ان کی اور فوج کی قد بہت بلند ہوئی ہے لیکن بعض چیزیں اب بھی غلط فہمیاں پیدا کررہی ہیں ۔

ایک سوال ذہنوں میں یہ اٹھ رہاہے کہ آئی ایس پی آر کے ہر پریس ریلیز میں حکومت کو تو نصیحت موجود ہوتی تھی لیکن فوج کو بدنام اور قوم کو ذہنی عذاب میں مبتلا کرنے والے عمران خان اور قادری صاحب کو کسی پریس ریلیز میں کوئی نصیحت نہیں کی گئی ۔ دوسرا سوال ذہنوں میں یہ اٹھ رہا ہے کہ ایک غلطی کی بنیاد پر جیو اور جنگ کو دیوار سے لگانے والے ادارے فوج اور آئی ایس آئی کو سیاست میں دھکیل کر انہیں بدنام کرنے والے چینلز ‘ اینکرز اور نام نہاد عسکری ماہرین کو کھلی چھوٹ کیوں دی گئی ہے ؟۔ جاوید ہاشمی کے الزامات معمولی الزامات نہیں ہیں ۔ وہ جس جماعت پر فوج کے ساتھ حکومت کے خلاف میچ فکسنگ کا الزام لگارہے ہیں، خود اس جماعت کے مرکزی صدر ہیں ۔ فوجی قیادت کا فرض ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کریں ۔

اگر ہاشمی صاحب جھوٹ بول رہے ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہئے ۔ اگر عمران خان، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین وغیرہ نے اپنی کورکمیٹی سے جھوٹ بولا ہے تو ان کے خلاف فوج کو بدنام کرنے کا مقدمہ قائم ہونا چاہئیے اور اگر کسی عسکری ادارے کے کسی فرد یا افراد نے تحریک انصاف کے قائدین کو جھوٹی امیدیں دلائی تھیں تو ان سے بازپرس ہونا چاہئے ۔ اس جنگی فضا میں وہ قوم یکسو ہوکر اپنے قومی اداروں کے ساتھ کیسے کھڑی ہو گی کہ ان اداروں کی نظروں میں ’’جیو‘‘ کے لئے الگ اور کسی اور چینل کے لئے الگ قانون ہو اور جس میں بعض سیاستدانوں کو تو کسی ایک فقرے پر غدار قرار دیا جا رہا ہو لیکن کچھ سیاستدانوں کو فوج سے متعلق سب کچھ کہنے کی اجازت ہو۔

سلیم صافی

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


 

Tahir ul-Qadri addressing supporters in front of Parliament House during the Revolution March in Islamabad

Tahir ul-Qadri, Sufi cleric and opposition leader of political party Pakistan Awami Tehreek (PAT), raises a cricket bat while addressing supporters in front of Parliament House during the Revolution March in Islamabad. Weeks of mounting anti-government protests in Pakistan had been enough to convince five of the powerful army's 11 Corps Commanders that it was time for them to step in and force embattled Prime Minister Nawaz Sharif to resign.

اصل جنگ......


ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد میں جاری سیاسی ڈرامہ انتہائی مہارت کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ اس کا ڈراپ سین ابھی ہونا باقی ہے، اختتام کس طرح ہوگا، یہ بھی واضح نہیں ہے۔ ریڈ زون پر قبضہ، اور پرائم منسٹر ہاؤس کے سامنے ہنگامہ آخری اقدام ثابت ہونے تھے، لیکن روزانہ نئے ٹوئسٹ آرہے ہیں جس کی وجہ سے معاملہ طویل اور گہرا ہوتا جا رہا ہے، جبکہ پوری قوم شارع دستور پر ہونے والے تشدد کے مناظر دیکھ رہی ہے۔

روزانہ نئے کردار سامنے آرہے ہیں، جس سے سسپنس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے پارلیمنٹ، پھر فوج، اب سپریم کورٹ بھی ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ لیکن کیا وہ اس جمود کو توڑ کر اسے کسی منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں؟ جیسے جیسے حالات مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ فوج کی جانب سے ثالثی کی کوششیں تب رک گئیں جب وزیر اعظم نے ثالثی کی درخواست سے لا علمی کا اظہار کیا، لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے کی گئی ثالثی کی پیشکش اب بھی فریقین کی رضامندی کی منتظر ہے۔

اب اس معاملے میں بہت شبہات ہیں، کہ آیا فوج ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کرے گی، یا وہ بھی اس بحران میں ایک فریق ہے۔ اس پورے تنازعے میں ہمیں کمرے میں موجود اس خفیہ طاقت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سول اور ملٹری قیادت کے درمیان موجود تنازعہ اس حالیہ بحران کی بڑی وجوہات میں سے ہے۔ سیاسی ٹینشن اور ٖبے یقینی تب تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ فوج اور نواز شریف کے درمیان تعلقات میں بہتری نا آجائے۔

عمران خان، طاہر القادری، اور فوج کے درمیان کوئی گٹھ جوڑ ہے یا نہیں، اس کا ثابت ہونا ابھی باقی ہے۔ لیکن جاوید ہاشمی، جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر ترین رہنما ہیں، کی جانب سے کیے گئے انکشافات کے بعد اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ان دونوں لیڈروں کی فوج کے کچھ عناصر کے ساتھ ہم آہنگی ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے، کہ فوج اور وزیر اعظم کے درمیان بڑھتی ہوئی ٹینشن کی رپورٹس کی وجہ سے ہی اسلام آباد کی جانب مارچ، اور وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہو؟ خاص طور پر طاہر القادری فوج کے لیے اپنی محبت کا والہانہ انداز میں اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے کیمپ میں لٹکتے ہوئے بینر جن میں فوج کی حمایت میں الفاظ درج ہیں، بھی کئی شبہات کو جنم دے رہے ہیں۔

جب ان دوںوں لیڈروں کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے بلایا گیا اور ثالثی کی پیشکش کی گئی، تو دونوں کی خوشی دیدنی تھی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں فوج کے بیچ میں آنے کی کتنی امید تھی۔ یہ بات بہت واضح ہے، کہ مظاہرین کی جانب سے وزیر اعظم ہاؤس پر دھاوا، اور شارع دستور پر جاری ہنگامہ اسی لیے کیا گیا تھا، تاکہ فوج کو مداخلت کے لیے جواز فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ فوجی سپاہیوں کے حق میں مظاہرین کی نعرے بازی بھی اچانک اور غیر متوقع نہیں تھی۔

فوج اور نواز شریف کے ماضی میں تعلقات کو دیکھا جائے، تو صاف معلوم ہوتا ہے، کہ دونوں کے روابط کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ جنرلوں نے نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کو ہچکچاہٹ سے قبول کیا۔ اور صرف کچھ ہی وقت میں ان کے ناہموار تعلقات دوبارہ خراب ہوگئے۔ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا نواز شریف کے فیصلے نے چنگاری کا کام دیا، جب کہ ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی مزید کم تب ہوئی، جب وزیر اعظم مبینہ طور پر مشرف پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد انہیں محفوظ راستہ دینے کے معاہدے سے پھر گئے۔

اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل ہیں، جنہوں نے سول ملٹری قیادت کے درمیان تنازعے کو مزید ہوا دی۔ طالبان کے خلاف آپریشن پر نواز شریف کا مبہم رویہ، اور کابینہ کے کچھ وزراء کی جانب سے فوج کے خلاف بیانات نے بھی ٹینشن کو بڑھایا۔ لیکن جیو کے تنازعے نے باقاعدہ جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جیو کی جانب سے آئی ایس آئی پر الزام لگانے کے بعد حکومت کی جانب سے جیو کے خلاف کاروائی میں تاخیر پر فوج نے یہ سمجھا کہ حکومت جیو کی حمایت کرتی ہے۔ کچھ وزراء کی جانب سے جیو کی حمایت میں دیے جانے والے بیانات نے آگ کو مزید بھڑکانے میں مدد دی۔

جیسے جیسے عداوت بڑھتی گئی، تو وزیر اعظم نے مبینہ طور پر آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام کو سویلین حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات کے تحت ہٹانا چاہا۔ یہی وہ فیصلہ کن مقام تھا، جہاں نواز شریف کو پیچھے ہٹنا پڑا، پر تب تک نقصان ہو چکا تھا۔

اس میں حیرت کی بات نہیں، کہ کئی سینیئر وزراء نے اس سازش کی بو تب ہی سونگھ لی تھی، جب عمران خان اور طاہر القادری نے ہاتھ ملائے، اور اسلام آباد کا رخ کیا۔ حد سے زیادہ پرعزم قادری کے فدائیوں نے تحریک انصاف کو وہ افرادی قوت فراہم کی، جس میں تحریک انصاف کو اپنی تمام تر سپورٹ کے باوجود کمی کا سامنا ہے۔ یہ واضح تھا، کہ تحریک انصاف صرف اپنے بل پر مہم اتنے لمبے عرصے تک جاری نہیں رکھ سکتی تھی۔

بلاشبہ اس پریشان کن صورتحال کے مزید پریشان کن ہونے میں حکومت کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہ حکومت کی عدم استعداد ہی ہے، جس کی وجہ سے طاہر القادری اور عمران خان دار الحکومت کو اتنے دنوں سے یرغمال بنائے رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نواز شریف کی جانب سے سول انتظامیہ کی مدد کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کے فیصلے نے حکومت کو تو زیادہ فائدہ نہیں پہنچایا ہے، البتہ فوج کو مزید بااختیار کر دیا ہے۔

نواز شریف کی ساکھ اور تب زیادہ خراب ہوئی، جب انہوں نے قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ انہوں نے فوج کو ثالثی کے لیے نہیں کہا، لیکن اسی وقت آئی ایس پی آر کی جانب سے اختلافی بیان آگیا، جس نے نواز شریف کو شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

یہ حقیقت ہے، کہ جیسے جیسے حکومت کی معاملات پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے، ویسے ویسے فوج مزید با اختیار ہو رہی ہے۔ جنرلوں کی جانب سے سیاستدانوں کو معاملہ پر امن اور سیاسی طور پر حل کرنے کی نصیحت نے بھی یہ ظاہر کر دیا ہے، کہ سیاسی طاقت جی ایچ کیو کے پاس ہے۔ فوج کی جانب سے یہ دو ہفتوں میں دوسری ایسی وارننگ ہے۔ اور اب جب پارلیمنٹ نظام بچانے کے لیے دوڑ پڑی ہے، تو کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اگلی وارننگ بھی ہوگی یا نہیں۔ پر جنگ اب ختم ہو چکی ہے۔

اختتام بھلے ہے ٹھنڈا ہو، یا دھماکے دار، لیکن اس حالیہ سیاسی بحران کے پاکستان کی نوزائیدہ جمہوریت پر سنگین اثرات ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں اب انتہائی کمزور ہیں، اور ملٹری طاقت کے سرچشمے کے طور پر سامنے آئی ہے۔

زاہد حسین

Open Letter to PTI Chairman Imran Khan



جناب عمران خان

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف
اسلام آباد۔

میری بیٹی منزہ کی عمر 14 برس ہے۔ اپنے دس سالہ تعلیمی دور میں وہ صرف ایک بار مسلسل پانچ دن سکول نہیں جا سکی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔

خاندانی تقریبات ہوں یا سیر و تفریح کے مواقع، منزہ سکول پر کسی چیز کو فوقیت نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے، جناب خان صاحب کہ جب کل اسے پیغام ملا کہ اس کا سکول مزید ایک ہفتہ نہیں کھل سکے گا، تو وہ بجھ سی گئی۔

خان صاحب میری بیٹی کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سکول نہ جا سکنا ہے۔ ایک اور وجہ ہے جس کا تعلق بھی براہ راست آپ ہی سے ہے، اس لیے وہ بھی میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

گذشتہ برس مئی میں جب انتخابات قریب آئے تو میں نے آپ کی جماعت کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر ہمارے گھر میں خاصی گرما گرم سیاسی بحث چھڑ گئی۔ منزہ میرے اس فیصلے کے سخت خلاف تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 11 مئی کی صبح جب میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلا تو منزہ نے مجھ سے کہا ’بابا ایک بار پھر سوچ لیں۔‘
مزید شرمندگی

میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔
میں نے سوچا کہاں میرا 20 سالہ صحافت کا تجربہ اور کہاں یہ کل کی بچی اور اس کی سیاسی سمجھ بوجھ۔ میں پولنگ بوتھ میں گیا اور آپ کے امیدوار کے نام پر مہر لگائی۔

اگلے چند ماہ میں منزہ کو آپ کے نظریات اور نئے پاکستان کے فائدے گنواتا رہا۔ مجھے کبھی شک نہیں ہوا کہ وہ ان باتوں سے مرعوب ہو رہی ہے لیکن میں اسے اچھے مستقبل کی خوشخبری سناتا رہا۔

گذشتہ چند روز سے منزہ کنفیوژن کا شکار ہے۔ میں جب رات کو گھر جاتا ہوں تو اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتا۔ جو مناظر اس نے گذشتہ چند دنوں میں ٹیلی وژن پر دیکھے ہیں، اس کے بعد میں اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا۔
تحریک انصاف کا آزادی مارچ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب اسلام آباد پہنچا تھا اور اس کے بعد شہر کے کئی حصوں میں نظام زندگی متاثر ہوا ہے
میں یقین نہیں کر پا رہا کہ 13 برس کی منزہ نے آپ کے نظریات کے بارے میں جو خدشات ایک برس پہلے ظاہر کیے تھے، وہ سچ ثابت ہو رہے ہیں۔
عمران خان صاحب، میں اپنی بیٹی کے سامنے شرمندہ ہو گیا ہوں۔

میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔
پلیز میری اور اپنی عزت کا پاس رکھیں۔ منزہ کو سکول جانے دیں۔
آپ کے نام یہ خط منزہ بھی پڑھے گی، اس لیے میں یہ بات یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں تحریر کردہ ایک ایک لفظ سچ ہے۔ امید ہے آپ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور کریں گے۔

آپ کا ووٹر

Open Letter to PTI Chairman Imran Khan

MQM Resignations By Ansar Abbasi


MQM Resignations By Ansar Abbasi

سدا بہار باغی......


سنہ 1972 کے اوائل میں نوجوانوں کا ایک گروپ گورنر ہاﺅس لاہور میں گھس گیا، یہ سمن آباد کے علاقے سے مبینہ طور پر حکومتی عہدیدار کی جانب سے دو لڑکیوں کو اغوا کرنے پر احتجاج کررہے تھے۔

اس ہجوم کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا جو اس وقت صدر مملکت تھے  جبکہ ان کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر موجود ایک برطانوی وزیر تھے۔
مظاہرین کے قائدین میں سے ایک جاوید ہاشمی نامی نوجوان بھی شامل تھا جس نے پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن اسلامی جمعیت طلباءکی حمایت کے ساتھ سخت مقابلے کے بعد جیتا تھا۔

دو برس بعد جاوید ہاشمی نے ایسا ہی اقدام بنگلہ دیش کو بطور علیحدہ ریاست تسلیم کیے جانے پر ایک احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے اس وقت کیا، جب لاہور اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کی میزبانی کررہا تھا۔
وہ نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ حکومت مخالف بینرز اٹھائے تمام تر سیکیورٹی انتظامات کو توڑ کر سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے موٹرکیڈ کے سامنے جاکھڑے ہوئے۔

ان دونوں واقعات کا ذکر جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات' ہاں میں باغی ہوں  میں کیا ہے، اب انہوں نے اپنی جماعت کے سربراہ کی بات ماننے سے انکار کیا ہے۔
کیا گورنر ہاﺅس لاہور پارلیمنٹ کی طرح ریاست کی علامت نہیں اور کیا غیر ملکی معزز مہمان کے سیکیورٹی انتظامات کو توڑنا وزیراعظم ہاﺅس کے گرد پہنچنے سے کم اہم ہے؟ مگر جاوید ہاشمی جب کسی مقصد پر یقین رکھتا ہے تو وہ اس طرح کے فرق کو نظرانداز کردیتا ہے۔

اس کا ماننا تھا کہ اسے کسی بھی طریقے سے بھٹو حکومت کو چیلنج کرنا ہے تو اس سے جو ہوسکا اس نے کیا، اس کا ماننا تھا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے تھا تو جو اسے مناسب لگا اس نے کیا۔
اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح اس نے اسلامی کانفرنس سے چند ماہ قبل اپنے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کی ریلی کو اسی مقصد کی وجہ سے کتنی کامیاب سے سبوتاژ کیا تھا۔
تو یہ بات واضح ہے کہ اب وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا جو عمران خان حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ جاوید ہاشمی کے نظریات ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں کی سیاسی زندگی کے دوران وہ اختیار کرچکا ہے۔
یہ نظریات تین بنیادوں پر قائم ہیں، فوجی آمریت پر انتخابی جمہوریت کی بالادستی، اختلاف رائے اور اپنے سیاسی اقدامات کے نتائج کی پروا نہ کرنا۔

بغاوت کا مقدمہ

کچھ استثنیٰ سے قطع نظر یہ وہ سیاسی اصول ہیں جو جاوید ہاشمی نے اختیار کررکھے ہیں۔
اس کی سب سے واضح مثال اس کی جانب سے 2003 میں فوجی طاقت پر سویلین بالادستی کا بہادرانہ دفاع اس کی گرفتاری کا باعث بنا اور اس پر الزام لگایا کہ وہ فوج میں تقسیم ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔
اگلے ساڑھے تین سال تک وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہا اور مقدمے کی سماعت بھی جیل کے اندر ہوئی۔

مشرف حکومت نے یہ مقدمہ ایک خط کی بنیاد پر چلایا جو جاوید ہاشمی نے سب کے سامنے پیش کیا تھا جو چند جونئیر عہدیداران نے لکھا تھا اور اس میں فوجی حکومت کے کچھ سنیئر اراکین پر کرپشن الزامات عائد کیے گئے تھے۔
جاوید ہاشمی کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی اسے کبھی یہ خط عوام کے سامنے پیش کرنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہوا۔
اسی طرح اس کی جانب سے شریف برداران کے جلاوطنی اختیار کرنے اور متعدد اہم رہنماﺅں کے مشرف کیمپ میں شامل ہونے کے بعد مسلم لیگ نواز کے صدر بننے کے لیے تیار ہونا ثابت کرتا ہے کہ وہ مشکل ترین اوقات میں بھی جمہوریت کے لیے کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

جاوید ہاشمی نے سدا بہار باغی کی مضبوط حیثیت تعمیر کی، وہ اپنی سوچ کے مطابق بولتا ہے چاہے کیسے نتائج یا حالات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اس نے ہر اس وقت مخالفت کا اظہار کیا جب اسے لگا کہ اتھارٹی کی جانب سے ٹھیک کام نہیں کیا جارہا، اور اس کے لیے یہ پروا کبھی نہیں کہ اتھارٹی میں شامل افراد اس کی اپنی جماعت کے سربراہان ہی کیوں نہ ہو۔

وزیراعظم نواز شریف اور حکمران جماعت نواز لیگ کے متعدد سنیئر اراکین اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ کس طرح جاوید ہاشمی پارٹی اجلاسوں میں پارٹی قیادت سے اپنے تعلقات پر اثرات کی پروا کیے بغیر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جاوید ہاشمی نے کبھی غلطیاں نہیں کیں، 1978 میں 29 سال کی عمر میں وہ جنرل ضیا الحق کی فوجی کابینہ کے نوجوان ترین وزیر کی حیثیت سے شامل تھے۔
تاہم بعد میں وہ اپنے فیصلے پر پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا، اپنی کتاب میں اس نے وضاحت کی ہے کہ وہ کبھی اس وزارت کو لینے کے بعد مطمئن نہیں رہا اور وہ جلدازجلد اس سے مستعفی ہونا چاہتا تھا۔
اسی طرح 1993 میں جب اسے لاہور سے محفوظ نشستوں کی پیشکش کی جارہی تھی تو اس نے ملتان سے اپنے آبائی حلقے سے انتخاب لڑنے پر اصرار کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ محمود قریشی نواز شریف کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگیا۔

اس کی سب سے بڑی غلطی یوسف نامی ایک ایڈووکیٹ سے پیسے لینا تھا۔
یوسف نے بعد ازاں دعویٰ کیا کہ یہ رقم یونس حبیب کی تھی جو کہ مہران بینک کا صدر تھا، جسے انٹیلی جنس عہدیدران نے 1990 میں پیپلزپارٹی مخالف سیاستدانوں کی انتخابی مہم کے لیے سرمایہ لگانے کا ٹاسک دیا تھا۔

جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات میں اس عزم کو دوہرایا ہے کہ وہ مستقبل میں کبھی اپنی سیاست سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہٰں کرے گا، اس نے ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وہ رقم کاروبار کے لیے بطور قرضہ لی تھی جسے اس نے واپس لوٹا بھی دیا تھا۔
تاہم ان الزامات نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

جب اس نے دسمبر 2011 میں نواز لیگ کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو اس کے پرانے سیاسی ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ن لیگ کی جانب سے ایک قریبی رشتے دار کو بطور انتخابی امیدوار نامزد نہ کرنے پر جاوید ہاشمی برہم تھا۔

کچھ کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی اس لیے ناخوش تھا کیونکہ وہ 2008 کے انتخابات کے بعد قائد حزب اختلاف بننا چاہتا تھا مگر یہ عہدہ چوہدری نثار علی خان کو دے دیا گیا۔
اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس عہدے کا حقدار تھا کیونکہ مشرف دور میں، جب بہت کم سیاستدان کسی بھی سطح پر ن لیگ کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے، اس نے پارٹی کے لیے بہت زیادہ کام کیا۔
جاوید ہاشمی لگتا ہے کہ اپنی سیاسی راست گوئی کو نہیں کھویا، اور اس نے اپنے یقین کے مطابق بولنے کی صلاحیت کو برقرار رکھا، جبکہ جمہوریت اور اداروں سے محبت بھی جاری رکھی۔

اسے اپنے اقدامات کے نتیجے میں سیاسی نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑا اور کوئی نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی سے اخراج کے بعد اس کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔
یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائے گا، جس کا وہ ابھی بھی شدید ناقد ہے، جہاں تک پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے آپشن کی بات ہے تو یہ بالکل ناممکن لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے پورے کیرئیر میں اس جماعت کا شدید مخالف رہا ہے۔

اپنی کتاب کے پہلے صفحے میں جاوید ہاشمی نے خلفیہ دوم حضرت عمرؓ کا قول درج کیا ہے" تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنالیا حالانکہ ان کی ماﺅں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟، وہ اب بھی ہمیشہ کی طرح آزاد ہے۔
کوئی چیز یا ایسا نظریہ جس پر اسے یقین نہیں اسے کسی پارٹی کا قیدی نہیں بناسکتا، عمران خان کو جاوید ہاشمی کو اپنی پارٹی میں لینے سے پہلے اس کو جان لینا چاہئے تھا۔