Showing posts with label Italy. Show all posts

انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے.........


بارہ ستمبر کو جب ایشیائی تارکین وطن سے بھری ہو ئی کشتی بحیرہ ٴروم میں مالٹا کے قریب ڈوب گئی تو یہ بحیرہٴ روم میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے ایک مختلف واقع تھا۔

اس بار اس کشتی کو مصر سے تعلق رکھنے والے انسانی سمگلروں نے اس وقت جان بوجھ کر تباہ کر دیا جب اس بڑی کشتی میں سوار مسافروں نے چھوٹی کشتیوں میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقع میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 300 تارکین ڈوب گئے۔

اس واقعے میں بچ جانے والے تین افراد نےمالٹا ٹائمز کو بتایا کہ’ یہ قتل عام تھا  اور جب سمگلروں نے مسافروں کی طرف سے چھوٹی کشتیوں میں سوار ہونے سے انکار کیا تو انھوں نے جان بوجھ کر دوسری کشتیوں کو اس بڑی کشتی میں مار مار کر اسے ڈبو دیا۔ جب تارکین وطن سے بھری ہوئی کشتی ڈوب رہی تھی اور لوگ مر رہے تھے تو انسانی سمگلر انھیں دیکھ کر ہنس رہے تھے اور اسی طرح ان کو ڈوبتا ہوا چھوڑ کر وہاں سے چلےگئے۔

فلسطین سے تعلق رکھنے والے تیئس سالہ محمد علی آمدلا نے مالٹا ٹائمزکو بتایا  ’سارے راستے ہمارے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیاگیا، لیکن مصری سمگلر سب سے بدترین تھے۔ 
ایک اور بچ جانے والے شخص نے تارکین وطن کی عالمی تنظیم آئی آو ایم کو بتایا کہ جب کشتی ڈوب رہی تھی تو انسانی سمگلر ڈوبتے ہوئے مسافروں کا تمسخر اڑا رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہماری کشتی کو ٹکر مارنے کے بعد وہ اس وقت تک وہاں موجود رہے جب تک کشتی پوری طرح ڈوب نہیں گئی۔‘

تارکین وطن کی اکثریت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھتی ہے

اس سانحے میں بچ جانے والے تیرہ اشخاص نے اپنی شہادتوں میں بتایا ہے کہ بڑی کشتی میں سوار آدھے لوگ تو فوراً ڈوب گئے لیکن جو وقتی طور پر بچ گئے تو وہ دو تین دن تک کھلے سمندر میں تیرتے رہے او جب ان کے لیے امداد پہنچی تو اس وقت بہت سارے سمندر کی نذر ہو چکے تھے۔

بچ جانے لوگوں نے جو کہانیاں بیان کی ہیں وہ دل دہلانے والی ہیں۔ستائس سالہ مامون دوگموش بتاتے ہیں: ’میں نے ایک پورے شامی خاندان کو ڈوبتے دیکھا۔ پہلے باپ ڈوبا، پھر ماں ڈوبی اور پھر میں ان کے ایک سالہ بچے کا حفاظت کرنے والا رہ گیا۔ ایک سالہ بچے نے میری باہوں میں دم توڑ دیا۔‘

ماموں دوگموش نے بتایا کہ کس طرح انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے۔’جب ایک شخص زندگی بچانے کےلیے انسانی سمگلروں کی کشتی کے ساتھ لٹک گیا تو انھوں نے اس کے بازو کاٹ دیئے۔ 

بہتر زندگی کی امید میں یورپ کے طرف سفر کرنے والوں نے بتایا کہ ہر شخص نے انسانی سمگلروں کو چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے اور وہ انھیں تاریک راستوں سے مصری علاقے دیمتا لائے جہاں سے انھیں ایک کشتی میں بٹھایاگیا۔
تارکین وطن کی تنظیم آئی آو ایم کے مطابق سنہ 2014 میں بحیرہٴ روم میں 2900 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

مالٹا نے یورپ کی طرف سفر کرنے والے تارکین وطن کی رہائش کے لیے کنٹینر ہاؤس تیار کیے ہیں

مالٹا کے وزیر اعظم جوزف موس کیٹ نے بتایا کہ یورپ کی طرف بڑھنے والے تارکین وطن کی تمام ذمہ داری جنوبی یورپ کے دو ملکوں، مالٹا اور اٹلی پر آن پڑی ہے۔
مالٹا اور اٹلی کی کوششوں کے باوجود یورپ آنے کے خواہشمند تارکین وطن بحیرہٴ روم میں ڈوب کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تارکین وطن کا مسئلہ ایک ایسا انسانی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس سے کوئی بھی نظریں نہیں چرا سکتا۔’رات دیر سے جب مجھے سینکڑوں افراد کےسمندر میں ڈوبنے کی اطلاع ملتی ہے تو مجھے دھچکا لگتا ہے۔‘
مالٹا کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی منصوبے بنائےگئے لیکن ان پر عمل نہیں ہو پاتا۔ لیبیا میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور اس کے ساحل سے یورپ کے ساحلوں کی طرف خطرناک سفر کرنے والوں کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم انٹیگرا فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والی ماریا پسانی کا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائیوں نے لوگوں کو بہتر زندگی کے لیے خطرناک راستوں کے ذریعے یورپ کی طرف سفر کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یورپ اپنے دروازے پر ہونے والی اموات سے پر بےحس ہوتا جا رہا ہے ۔

illegal immigration by sea

امریکا کا مالیاتی فراڈ… .......


عالمی جنگ شروع ہونے سے قبل متحاربین کے مابین معاہدوں کی ابتدا 1894 سے 1907 تک ہونے اور 28 جولائی 1914 کو جنگ کی ابتدا سے لے کر مارچ 1917 تک امریکا اپنے نیوٹرل ہونے کا تاثر متحارب ملکوں پر قائم کرنے میں کامیاب رہا تھا۔

اس عرصے کے دوران تمام یورپی ممالک۔ 1۔کرنسی ایکسچینج بحران۔ 2۔ایک دوسرے سے تجارت کی بندش۔ 3۔ سونے کے معیار سے تمام ممالک کا ہٹ جانا۔ 4۔ سفارتی تعلقات کا ختم ہوجانا۔ 5۔ ہر ملک کا دفاعی بجٹ بڑھتا گیا، جس سے ملکی معیشت پر غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اس کے نتیجے میں اشیاء کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قیمتیں گرتی چلی گئیں، یعنی مہنگائی بڑھتی گئی۔ 6۔ امریکا کسی بھی معاہدے میں شریک نہیں ہوا تھا اور مارچ 1917 تک جنگ سے بھی الگ رہا تھا۔ یورپی ملکوں نے امریکا کو Safe Haven Gold Country کے طور پر دیکھ کر اپنا اپنا سونا امریکی بینکوں میں Deposit یا اپنے کھاتوں میں رکھنا شروع کردیا تھا۔ کتاب ’’یورپی کرنسی اینڈ فنانس‘‘ 1925 امریکا، کے حصہ دوم، صفحہ 5 پر دیے گئے امریکی گولڈ تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق 1912 کو امریکا نے 19.123 ملین ڈالر کا سر پلس گولڈ امپورٹ کیا اور پھر 1913 میں جنگی تیاریوں اور 1914 میں جنگ کے شروع ہوجانے کے بعد متحارب ملکوں نے ٹوٹل 14.418 ملین ڈالر کا سونا امریکا سے نکال لیا تھا۔ اس کے بعد امریکا نے مالیاتی پالیسی تبدیل کرلی تھی۔

امریکا نے اشیا کے بدلے وہ سونا لینا شروع کردیا جو امریکی بینکوں میں متحارب ملکوں نے ڈپازٹ رکھا ہوا تھا اور جن ملکوں کا سونا موجود نہیں تھا، ان ملکوں سے اشیا اور کاغذی ڈالروں کے عوض سونا وصول کرنا شروع کردیا تھا۔ یاد رہے کہ امریکا اپنے گولڈ اسٹینڈرڈ 1837 پر ابھی تک کھڑا تھا۔ یعنی 20.67 ڈالر ایک اونس فائن سونے کے بدلے ڈالر ادا کر رہا تھا۔ اس طرح امریکا کاغذی ڈالروں کو یورپی معیشت میں ’’یورپی کرنسی ایکسچینج بحران‘‘ کے دوران داخل کرنے میں کامیاب ہوتا گیا۔ جب امریکا اپریل 1917 کو جنگ میں شریک ہوگیا تو امریکی غیر جانب داری کا بھرم ٹوٹ جانے سے یورپی ملکوں کا امریکا پر سونے کی ادائیگی کے لیے دباؤ بڑھتا گیا۔ امریکا نے اس دباؤ کو روکنے کے لیے 7 ستمبر 1917 سے 30 جون 1919 تک غیر ملکی ڈپازٹ سونے کے نکالنے پر پابندی لگا دی تھی۔

کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ حصہ دوم کے صفحے 7 پر امریکا اشیا کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق 1914 سے 1925 تک 22894.347 ملین ڈالر کی امریکا نے اشیا ایکسپورٹ کی تھیں۔ کتاب International Currency Experience by League of Nations 1944 پر درج ہے کہ 1913 میں امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 12900.0 ملین ڈالر تھا۔ دوسرے 17 بڑے نوآبادیاں رکھنے والے ممالک کے پاس 3145.0 ملین ڈالر گولڈ ریزرو تھا۔ اس طرح امریکا ان ملکوں سے 144 فیصد گولڈ ملین ڈالر ریزروز پیچھے تھا۔ کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ امریکا 1925 کے حصہ اول کے صفحے 17 کے حاشیے میں لکھا ہے کہ جنوری 1925 کو امریکا کے پاس گولڈ 4547.407 ملین ڈالر ریزرو تھا۔ اور تجارتی اشیا کے عوض امریکا نے جنوری 1925 کو 22894.347 ملین ڈالر گولڈ حاصل کیا۔

کیونکہ یورپی ملکوں میں ’’کرنسی ایکسچینج بحران‘‘ تھا۔ اور ڈالر اتنی زیادہ مقدار میں یورپ میں گردش نہیں کر رہے تھے۔ اگر امریکا کاغذی ڈالر ایکسپورٹ بھی کر رہا تھا تو اس کے بدلے اشیا یا سونا لے رہا تھا۔ اس طرح گولڈ ریزرو ملین ڈالر اور تجارتی اشیا کے ملین ڈالر کا ٹوٹل 27441.754 ملین ڈالر گولڈ ہوتا ہے۔ کتاب ’’انٹرنیشنل کرنسی ایکسپیرینس‘‘ جسے لیگ آف نیشنز نے 1944 میں شایع کیا اس کے صفحے 235 پر 24 ملکوں کے پاس 1925 میں 2367.0 ملین ڈالرز گوڈ ریزرو تھا۔ امریکا دوسرے ملکوں سے 1913 میں 144 فیصد پیچھے تھا اور 1925 میں امریکا گولڈ ریزرو ملین ڈالر 1059 فیصد24 ملکوں سے آگے آچکا تھا۔

امریکا نے جنگ زدہ، تباہ حال یورپی ملکوں کی مجبوریوں، کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کتاب The Course and Phases of the world Economic Depression by League of Nations Geneva 1931 کے صفحے 319 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکا نے 1920 سے 1930 تک یورپی ملکوں کو 9 ارب 70 کروڑ 40 لاکھ کاغذی ڈالر ایکسپورٹ کیے تھے۔ کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ حصہ دوم کے صفحے 92 پر لکھا ہے “The allied Countries protected there exchange in the united states. before the united states interred the war they sent gold to New York, and obtained dollar loan through American Banking houses.”

کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ حصہ دوم کے صفحے 95 پر درج ہے۔ ڈنمارک نے جولائی 1923 کو 35 لاکھ ڈالر کا سونا امریکا بھیجا کہ ڈنمارک کی کرنسی Krone کرونی کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں گرنے سے روکا جائے۔

متذکرہ کتاب کے صفحے 287 پر لکھا ہے۔ “The Swiss Government in August, 1923 placed a loan in New York for 20.0 million dollar in an effort to support the Swiss France”

اس کے بعد پھر سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے اپریل 1924 کو امریکا سے 3 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 3 پر لکھا ہے۔

“Italy in June 1925 establised a credit of 50.0 million dollar in New York for the purpose of stabilizing the Lira.”

“Belgium also in June 1925 borrowed a similar amount in United States part of which money is to be used to maintain the Stability of Belgium France”

اس طرح بیلجیم نے 1920 سے 1922 تک 595.899 ملین ڈالر کا قرضہ امریکا سے کرنسی فرانک کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں گرنے سے روکنے کے لیے کیا۔ ناروے نے 1915 سے 1924 تک امریکا سے 811.356 ملین ڈالر کا قرضہ لیا۔ پولینڈ نے جون 1924 کو امریکا سے 725.2 ملین ڈالر کا قرضہ لیا۔ کتاب “A Revision of the Treaty” Being a Sequel to the Economic Consequence of the pace” by J.M Keynes 1922 کے صفحے 219 پر درج ہے کہ جولائی1921 کو امریکا نے 19 یورپی ملکوں کو 11 ارب 8 کروڑ 47 لاکھ 67 ہزار 5 سو 75 ڈالر کا قرضہ دیا۔

اس میں سے امریکا نے ’’لبرٹی لون ایکٹ‘‘ کے تحت 9 ارب 43 کروڑ 52 لاکھ 25 ہزار 3 سو 29 ڈالر نقد کرنسی ان ملکوں کو دی تھی۔ کتاب International Economy 1963. by John Parke Young کے صفحے 543-44 پر درج ہے کہ امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور بعد میں جن ملکوں کو قرضے دیے تھے۔ ان قرضوں پر امریکا نے جون 1931 کو 2 ارب 80 کروڑ ڈالر سود اور اصل زر کی مد میں وصول کیے تھے۔ کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ 1925 جسے امریکی حکومت نے شایع کیا۔

حصہ دوم کے صفحے 95 پر درج ہے امریکا نے 15 دسمبر 1923 کو Exchange Equalization Fund EEE قائم کیا۔ دراصل یہ ادارہ موجودہ آئی ایم ایف تھا جسے 91 سال قبل بنایا گیا تھا۔ یہ ادارہ ضرورت مند ملکوں کو فارن ایکسچینج ریزرو ڈالر فروخت کرتا تھا۔ ملکوں سے سونا یا دیگر ضمانتیں لیتا تھا۔ ملکوں کو مہنگے قرضے دے کر اپنی شرائط منواتا تھا۔ دسمبر 1923 کے بعد امریکی مالیاتی غیر ملکی تمام آپریشن کرنے کے ساتھ یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں میں جوڑ توڑ کرتا تھا۔

 

Enhanced by Zemanta