قوم کی تقدیر کی پرواز بھی کسی وی آئی پی کی منتظر ہے؟.......

12:14 Unknown 0 Comments



ار، کیا پاکستان میں نہیں رہتے؟
 
 
ایک صاحب نے اپنا سمارٹ فون ایک کلب کے بیرے کے سامنے لہراتے ہوئے پوچھا۔ جہاز سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا لوگوں نے، فیس بُک پر ویڈیو ڈال دی کِسی نے۔ ذرا شکلیں دیکھو ان بڑوں کی۔

کیا کر دیا سر، کس نے، کہاں؟
یہ دیکھو پہلے رمیش کمار کو گالیاں دے کر جہاز سے نکالا۔
کِس کو سر دلیپ کمار کو؟ وُہ کراچی آیا ہوا ہے؟ ابے نہیں نواز لیگ کا ایم این اے ہے، جہاز لیٹ کروا دیا تھا اُس نے۔ 68 سال سے یہی کر رہے ہیں۔ لوگوں نے دکھا دیا، اب نہیں چلے گا۔

ہاں سر 68 سال سے تو یہی ہو رہا ہے۔
ابے اِدھر آؤ یہ دیکھو۔ یہ چلتا ہوا کون آ رہا ہے۔
سر یہ تو اپنے رحمان ملک صاحب لگتے ہیں، بالکل وہی ہے۔ اب دیکھو کیسے بھاگا، لوگوں کا غصہ دیکھ کر۔ دیکھو ریوائنڈ کرتا ہوں پھِر دیکھو۔ پتہ ہے اندر سے یہ سالے بڑے ڈرپوک ہوتے ہیں۔ ویسے اپنے آپ کو بڑا وی آئی پی سمجھتے ہیں۔ اندر سے ٹھس۔
  
 سر یہ رحمان ملک صاحب چل کہاں رہے ہیں اندر سُرنگ میں؟
جہاز نہیں دیکھا کبھی کراچی ایئرپورٹ پر؟ وہاں جہاز سُرنگ کے ساتھ آ کر لگتا ہے۔ پھِر مسافر سُرنگ میں سے گزر کر جہاز میں بیٹھتے ہیں۔ یہ آیا رحمان ملک پورے دو گھنٹے لیٹ، لوگ بھِنّا گئے۔ ایسی گالیاں دیں کہ بھاگ گیا۔ 68 سال سے لوٹ کر کھا رہے ہیں اِس ملک کو۔ لوگوں نے ایک منٹ میں اوقات یاد کرا دی۔
تو سر رحمان ملک کے پاس اپنا جہاز بھی نہیں ہے؟ ابے تم جیسے لوگوں کی وجہ سے 68 سال سے یہ ملک نہیں سُدھر سکا۔ جہاز میں ہم لوگ بیٹھتے ہیں ٹکٹ خرید کر۔ یہ ٹھہرے مُفتے۔ اور پھر جہاز بھی اِن کی مرضی کے بغیر نہیں اُڑ سکتا۔
یہ تو واقعی زیادتی ہے سر۔
 
ایسی ویسی؟ لیکن لوگوں نے بھی کمال کر دیا۔ ویڈیو بنا کر فیس بُک پر ڈال دی۔ اب تک دو لاکھ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ حیرت ہے تم پہلے آدمی ہو جس نے اب تک نہیں دیکھی۔ اِس ملک میں رہتے بھی ہو یا نہیں؟
سر اِدھر ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں تو اِتنا پتہ ہے کہ کلب کو 11 بجے بند کرنا ہے۔ صبح چھ بجے کھولنا ہے۔ بیچ میں بندہ سوئے یا جہازوں کے آنے جانے کی خبر رکھے۔ ویسے یہ فیس بک کیا ہوتی ہے؟

ابے یار تم جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ ملک 68 سال سے۔۔۔
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے ساتھ پاکستان کے کھاتے پیتے لوگوں کی گہری جذباتی وابستگی ہے۔ کبھی 40 سال پرانے اشتہاروں میں پی آئی اے کے میزبانوں کی ڈیزائنر وردیاں دیکھ کر ہاتھ ملتے ہیں تو کبھی اُن دنوں کا ذکر کر کے آبدیدہ ہوتے ہیں جب پی آئی اے کی بزنس کلاس میں شیمپین مِلا کرتی تھی۔
کبھی اِس ایئر لائن کو ایک فوجی ایئرمارشل نور خان نے بنایا تھا اور سیاست دانوں نے اِس میں اپنے حمایتیوں کی بھرتیاں کر کے تباہ کر دیا۔ کبھی دوبئی یا جدہ جانے والے اُن مزدوروں کو کوستے ہیں جنھیں نہ سیٹ بیلٹ باندھنے کی تمیز ہے، جو نہ امیگریشن فارم بھر سکتے ہیں۔ اور تو اور ایسا لگتا ہے اُنھوں نے کبھی زندگی میں باتھ روم بھی نہیں دیکھا۔
کہاں گئے وُہ دن جب مسافر اور فضائی میزبان سب کے سب خوش مزاج اور خوشبودار ہوا کرتے تھے اور اب آ گئے یہ سیاست دان جو ایک قومی اثاثے کو گھر کی سواری بنا کر رکھتے ہیں۔
خوشحال ماضی کو یاد کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ، بے عزتی کروانا رحمان ملک کے قبیلے کے لوگوں کے پیشے کا لازمی حصہ ہے (اگر رحمان ملک کا مذاق اُڑانے سے پاکستان کا کوئی مسئلہ حل ہو سکتا تو پاکستان اب تک سوئٹزرلینڈ بن چکا ہوتا)۔


لیکن سوچنا چاہیے کہ اِس قوم کی تقدیر کی فلائٹ جو 68 سال سے رن وے پر کھڑی ہے ، اُس کی وجہ واقعی ٹیکنیکل فالٹ ہے یا وُہ بھی کِسی وی آئی پی کی منتظر ہے؟

محمد حنیف

0 comments: