Showing posts with label Azadi March. Show all posts

اب عمران خان کیا کریں گے؟.......


عمران خان کو اپنا آزادی مارچ اسلام آباد لائے ہوئے ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ شام کے وقت جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہوتی جارہی ہے، جبکہ تقاریر کا سخت ہوتا ہوا لہجہ بڑھتے ہوئے ہیجان کا پتہ دے رہا ہے۔ امیدیں اور وعدے اب بے چینی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اگر طاہر القادری کے حامی شارع دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے نا ہوتے، تو یہ سب ابھی اور بھی پھیکا ہوتا۔ لیکن عمران خان اب بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ لگتا یہ ہے کہ وہ اس لڑائی کو اب تلخ اختتام پر لے جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ رسک زیادہ ہے، اور آپشن کم رہ گئے ہیں۔ تو، اب عمران خان کیا کریں گے؟
کرکٹ کے برعکس سیاست میں کوئی بھی ہار جیت حتمی نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت کے اس کھیل میں ہار جیت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوتی۔ ہر نئے دن جیت کی ایک نئی کشمکش۔ پر کرکٹ کو سیاست کے ساتھ ملا دینے کا خیال کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے۔ عمران خان کی خود پسندی، ضد، اور حساب کتاب میں گڑبڑ ان کی غلطیاں ثابت ہوئی ہیں۔

وہ مزید چیزیں داؤ پر لگائے جارہے ہیں، جبکہ وہ انتخابی اصلاحات، اور انتخابات کی تحقیقات کی حکومتی پیشکش کو تسلیم کر کے جیت سکتے تھے۔ لیکن اپنے بے منطق کے اقدامات کی وجہ سے وہ اب اپنی اس پارٹی کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈال چکے ہیں، جس نے تعلیم یافتہ شہری مڈل کلاس کو سیاسی قوت میں بدل کر پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔

یہ حقیقت ہے، کہ پاکستان تحریک انصاف کی کرپشن، موروثی سیاست، اور قانون کی خلاف ورزی کے خلاف چلائی جانے والی مہم نے عوام کی اکثریت کو متاثر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی، کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا، کیونکہ لوگوں کے نزدیک یہی جماعت باریاں لینے والی دوسری جماعتوں سے مختلف تھی۔ لیکن ایک جس چیز جس کی کمی ہمیشہ سے رہی ہے، وہ ہے تبدیلی کا وژن، اس تبدیلی کا جس کا وہ بار بار وعدہ کرتے ہیں۔

ان کے تیز طرار بیانات اب صرف کھوکھلی باتوں میں بدل گئے ہیں۔ اہم سیاسی، سماجی، اور اقتصادی معاملات پر ان کے خیالات ان کے تبدیلی کے نظریے سے میل نہیں کھاتے۔ ان کا سیاسی پہلو کافی قدامت پسند ہے، اور وہ ملک کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ عسکریت پسندی اور طالبان پر ان کا مؤقف کافی پریشان کن رہا ہے۔ وہ پر کشش تو ہیں، لیکن ان میں وہ بات نہیں پائی جاتی، جو تبدیلی لانے والے لیڈروں میں ہوتی ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ان کے حالیہ اقدامات ہیں۔
یہ یقینی ہے کہ پی ٹی آئی کے اس دھرنے نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ان کی گہری نیند سے جگا دیا ہے، اور یقین دہانی کرا دی ہے کہ عوام اب اس سسٹم سے تنگ آچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے ایک مہینے سے جاری دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بے مثال باب ہے۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کو بھی سسٹم بچانے کے لیے تمام سیاسی قوتوں سے مدد لینی پڑی ہے۔

لیکن حالیہ دھرنوں نے پی ٹی آئی کی سیاسی ناپختگی، اور موقع پرستی کو ظاہر کردیا ہے۔ پارٹی نے اپنی پوری اسٹریٹیجی صرف یا تو امید پر قائم رکھی، یا کسی تیسری قوت کی جانب سے شریف حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی پر۔ اور جس وقت آرمی چیف ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے منظرنامے میں داخل ہوئے، تو شاید جیت کی امید مضبوط ہوئی تھی، پر یہ امید زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔
پی ٹی آئی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی، کہ اسے لگا کہ وہ لاکھوں لوگوں کو متحرک کر کے اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ لاہور سے اسلام آباد تک کے مارچ، اور اس کے بعد کے دھرنے میں صرف کچھ ہزار لوگ ہی شامل ہوئے۔

دیکھا جائے تو اسلام آباد میں ایک مہینے سے جاری دھرنے کا ملک کے باقی حصے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ عمران خان کی ملک بھر میں احتجاج کی اپیلوں کو کوئی خاص رسپانس نہیں ملا، صرف کراچی اور لاہور کے پوش علاقوں میں کچھ پارٹی کارکنوں کے اجتماع ہوئے اور بس۔ سول نافرمانی، اور ٹیکسوں اور بلوں کی عدم ادائیگی بھی ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ صرف پارٹی کے کچھ وفاداروں نے پشاور-اسلام آباد روڈ پر ٹول ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا، جبکہ کچھ اپر کلاس کے لوگوں کو ریسٹورینٹس کی انتظامیہ سے جی ایس ٹی کاٹنے پر جھگڑتے ہوئے دیکھا گیا۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں (خیبرپختونخواہ کے علاوہ) سے استعفے دینے کے فیصلے نے بھی نا صرف پارٹی کو اندرونی طور پر تقسیم کیا، بلکہ اس کی سیاسی تنہائی میں اضافہ کیا۔ اس وقت پارٹی کے ساتھ کوئی بھی اتحادی موجود نہیں ہے۔ اگر پارٹی پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرتی، تو اس کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوسکتی تھی۔ لیکن اس کے بجائے عمران خان نے پارلیمنٹ کو چوروں کا اڈہ قرار دے ڈالا۔

لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ نے منتخب حکومت کا ساتھ دینے میں بلوغت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ اور تو اور پی ٹی آئی کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کی حمایت کر کے دوسری جماعتوں نے پی ٹی آئی کو بھی زندگی دینے کی کوشش کی۔ اور اگر اب تک پی ٹی آئی کے اسمبلیوں سے استعفے منظور نہیں ہوئے ہیں، تو یہ بھی اس لیے کہ اپوزیشن جماعتوں نے استعفے منظور کرنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اب اس کو زیادہ عرصے تک ٹالا نہیں جا سکے گا۔ اسمبلیوں سے باہر بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کی قانون سازی کرانا پی ٹی آئی کے لیے اور بھی مشکل ہوجائے گا۔

وزیر اعظم کے استعفے کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام مطالبات پر اتفاق رائے موجود ہے۔ پارٹی اس کے لیے کریڈٹ لے کر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتی تھی، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی۔ عمران خان موجودہ بساط لپیٹ کر جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ وہ صرف انارکی کی حالت پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور حکومت کے رٹ کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔

دار الحکومت کی ایک معطل شدہ انتظامیہ نے پہلے ہی مظاہرین کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ اور عمران خان کی جانب سے اپنے گرفتار کارکنوں کو چھڑا لیا جانا اس بات کا ثبوت ہے۔ اس بڑھتے ہوئی سیاسی ہلچل اور طاقت کے خلا میں کسی غیر آئینی مداخلت کو راستہ مل سکتا ہے، اور شاید پی ٹی آئی چاہتی بھی یہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے، جو مکمل تباہی پر بھی ختم ہوسکتا ہے۔ اس بحران کا حل جمہوریت میں موجود ہے، پھر اس میں بھلے ہی کتنی ہی خامیاں ہوں، پر اس بحران کا سسٹم سے باہر کوئی حل نہیں ہے۔

زاہد حسین

کہانی دھرنوں کی: سکرپٹ، کیریکٹرز اور ڈائریکٹرز.......


پاکستان میں جاری سیاسی صورتحال کے پیش نظر ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت اور فریقین کے مابین مزاکرات کسی نتائج پر نہیں پہنچ رہے اور پاکستانیوں کو سکون نصیب نہیں ہورہا؟

اس بلاگ میں کچھ سینئر ترین تجزیہ کاروں کی رائے اور معلومات کو اکٹھا کر کے پیش کیا جارہا ہے اور آخر میں ان تمام تجزیات اور حقائق کی بنا پر پاکستان میں چلنے والی فلم کا سکرپٹ حاضر خدمت ہے۔

مورخہ 14 جنوری 2013 کو دی نیوز میں چھپنے والے محترمہ شیریں مزاری کے آرٹیکل کے مطابقڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں اور محترمہ نے اپنے اس تجزیے کی بنیاد یہ دی ہے کہ چونکہ امریکہ 2014 میں افغانستان سے نکل رہا ہے اور ایسے وقت میں پاکستان میں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کےلئے ایک منتخب حکومت کے برعکس ایک لانگ ٹرم دوستانہ نگراں حکومت چاہتا ہے۔ خاص کر تب جبکہ امریکہ کو نہیں معلوم کے انتخابات کے نتیجے میں کس کی حکومت بنے گی اور اس دفعہ نا تو این آر او ہے اور نا کوئی گارنٹی دینے والے۔

چونکہ محترمہ شیریں مزاری کا یہ آرٹیکل پچھلے سال چھپا تھا تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ اسلام آباد میں آجکل ہورہا ہے وہ بہت پہلے سے طے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب مولانا قادری کے ساتھ محترمہ مزاری کے لیڈر عمران خان بھی اس عالمی سازش کا حصّہ بن گئے ہیں اور محترمہ اس سازش کو جانتے ہوئے بھی اپنے قائد کو اس سازش سے آگاہ نہیں کرسکیں۔ خیر اس منطقی نقطے پر مٹی ڈالیں اور آگے پڑھیں۔

مورخہ 5 ستمبر کو دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر نجم سیٹھی (جن کی مشہور زمانہ 'چڑیا' اندر کی خبریں اُڑا کر لانے کے لئے مشہور ہے) کے مضمون کے مطابق وزیر اعظم نوازشریف سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سازش آشکار ہوگئی ہے۔

سیٹھی صاحب کے مطابق تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی حکومت کے لئے فرشتہ بن کر نازل ہوئے۔ جس کے بعد اس سازش کے نقطوں کو جوڑ کر پوری سازش کو سمجھا جا سکتا ہے۔

سیٹھی صاحب کے مطابق پاک فوج کے سابق سپہ سالار جنرل اشفاق کیانی نواز شریف کی طرف سے تجویز کردہ فارن پالیسیز سے ناخوش تھے۔ جن میں انڈیا، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات اور نان اسٹیٹ ایکٹرز (اثاثوں) اور طالبان کیخلاف آپریشن سے متعلق وزیراعظم نواز شریف موقف شامل تھے۔
ہفتہ وار انگریزی رسالے میں چھپنے والے مضمون کے مطابق چونکہ نواز شریف سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے میں گھسیٹ رہے ہیں اور نواز شریف کا یہ اقدام جنرل کیانی سمیت بہت سارے فوجی افسروں کو بھی شاملِ تفتیش کر رہا ہے، جنہوں نے 1999 میں مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ اس لئے بھی دونوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں تھی۔
جنرل کیانی کے سیاست میں عمل دخل کو دیکھتے ہوئے ہی وزیر اعظم کی جانب سے لائن میں تیسرے قدرے کم سیاسی جنرل راحیل شریف کو سپہ سلار منتخب کیا گیا۔

اس کے علاوہ سیٹھی صاحب کے مطابق اکتوبر 2014 میں کیانی دور کے بہت سارے جنرلز ریٹائر ہونے جارہے ہیں۔ جس کے بعد وزیر اعظم قدرے کم سیاسی جنرل کو آئی ایس آئی کی کرسی سونپ دیں گے۔ جس کے باعث فوج کی نیشنل سیکیورٹی میں مداخلت ضبط کر لی جائیگی۔
مشہور زمانہ چڑیا والے لکھتے ہیں کہ نواز شریف کا یہ خوف غلط بھی نہیں ہے کیونکہ ماضی میں دو مرتبہ ایسا ہوچکا ہے جب نواز شریف کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہان کو تبدیل کیا گیا۔
جیسے 1991 میں نواز شریف نے جنرل اسد درانی کو گھر بھیج کر جنرل جاوید ناصر کو چیف تعینات کردیا اور پھر 1999 جب نواز شریف کی جانب سے جنرل ضیا الدین بٹ کو یہ عہدہ سونپ دیا گیا۔ جنہیں بعد میں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لئے جب نواز شریف نے احکامات دیئے تو مشرف کی طرف سے بغاوت کردی گئی۔

اس مضمون میں مزید لکھا گیا ہے کہ جنرل کیانی کا یہ نظریہ تھا کے سنجیدہ فوجی بغاوت کی دھمکی فوجی بغاوت سے زیادہ کار آمد ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ کمزور معیشت، خودمختار عدلیہ، سرگرم میڈیا، سرگرم سول سوسائٹی ادارے اور غیر ریاستی ایکٹرز ہیں۔
کیانی صاحب کے نظریے کے مطابق بہتر یہ ہے کہ سیاسی منظر نامے کے پیچھے سے فوجی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی کرداروں کو برؤے کار لاتے ہوئے چیزوں کو اس نہج پر پہنچا دیا جائے کہ فوجی بغاوت ناگزیر لگنے لگے۔
اسی نظریے کا استعمال کرتے ہوئے جنرل کیانی نے زرداری صاحب کو بھی فارن پالیسی، دہشت گردی کیخلاف جنگ، اور دیگر ایشوز جیسے انڈیا، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ تعلقات، کیری لوگر بِل اور میمو گیٹ جیسے سکینڈل پر مجبور کردیا۔ بالکل اسی طرح جنرل کیانی کے نمک خوار نواز شریف کیساتھ بھی کرنا چاہتے ہیں۔

اب کی بار بھی بالکل اسی طرح کیانی نظریے کے تسلسل میں اکتوبر میں کچھ جنرلوں کی ریٹائرمنٹ سے قبل نواز حکومت کا بستر گول کرنے کی دھمکی دی گئی۔

ایک طرف سدا بہار آرمی کارندوں شیخ رشید اور چوہدری برادران کے ذریعے عمران خان اور طاہرالقادری کو استعمال کیا گیا جو کسی بھی قیمت پر وزیر اعظم بنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف مضبوط ترین میڈیا ہاؤس جنگ اور جیو کو کمزور کردیا گیا. عدلیہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی اور سابق چیف الیکشن کمشنر پر عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات سے خوف زدہ کردی گئی۔
سیٹھی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی کا ڈھنڈورا اس لئے پیٹا گیا تاکہ تمام اپوزیشن جماعتیں مشہور ترین شخصیات عمران خان اور طاہرالقادری کے ساتھ مل جائیں۔
بد قسمتی سے جیو اور نواز لیگ سازشیوں کے ہاتھوں پھنس گئیں۔ جس کی وجہ سے قوم غصّے میں آگئی۔ جیو نے ملک کی اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسی پر الزام لگادیا اور نواز لیگ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن انجام دیدیا۔
اس مضمون کے مطابق سازشیوں کی تین چیزیں خوش قسمتی سے خلاف توقع ہوگئیں۔

پہلی: 10 لاکھ لوگ لانے کا دعوی پورا نہیں ہوا۔
دوسری: حکومت نے مارچ کے شرکا کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کیا۔

تیسری: جب چیزیں حکومت کے ہاتھ سے نکل رہیں تھیں تو جاوید ہاشمی نے بگل بجا دیا اور پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کو وزیر اعظم کے پیچھے کھڑا ہونے کا پیغام دیدیا۔

مضمون کے آخر میں لکھاری لکھتا ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے کچھ فیصلے اور پالیسیاں غلط بنائیں گئیں جنھوں نے وزیر اعظم کو کمزور کردیا۔ عمران خان میچ فکسر کے طور پر آشکار ہوگئے اور سازشی سامنے آگئے۔ سارے معاملے میں صرف جنرل راحیل ایک اچھا رول ادا کرتے نظر آئے۔
نجم سیٹھی کے ہی 15 اگست کو فرائیڈے ٹائمز میں چھپنے والا مضمون بھی کچھ ایسے ہی حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔

مثلاً، پیپلز پارٹی کی حکومت کیانی دور میں آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو کے آگے نیشنل سیکیورٹی کے ایشوز پر ڈھیر ہوگئیٌ تھی۔
جنرل کیانی نواز شریف کو بھی نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر قابو میں کرنا چاہتے تھے اور مشرف کیخلاف ٹرائل کی وجہ سے بھی جنرل کیانی اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بڑھ گئے تھے۔

اس مضمون کے اختتامیہ میں فرائیڈے ٹائمز کے مدیر لکھتے ہیں کہ اسلام آباد کا حال بگاڑنے کے بعد دھرنے والوں کو واپس بلا لیا جائیگا اور نواز شریف شکست مان کر سپریم کورٹ کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کروائیں گے، عمران خان کی آمادگی سے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہوگی، مشرف کو چھوڑ دیا جائیگا، علاقائی فارن پالیسی سے نواز شریف پیچھے ہٹ جائیں گے اور اگر سپریم کورٹ یہ تعین کرتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پارلیمنٹ توڑ دی جائیگی اور دوبارہ انتخابات کرواۓ جائیں گے۔

اوپر پیش کئے گئے تمام تجزیات، ان صحافیوں کی آشکار کردہ معلومات اور مجھ جیسے جونیئر ترین تجزیہ کار کے تجزیات کی روشنی میں جمہوریت کے خلاف کی جانے والی اس سازش کا سکرپٹ کچھ اس طرح بنتا ہے۔
وجہِ سازش

بیرونی
امریکہ افغانستان سے اس سال انخلا کا ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لئے پاکستان میں ایک دوستانہ نگران حکومت چاہتا ہے۔ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کے ساتھ انخلا سے متعلق معاملات طے کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان میں ایک دوستانہ نگران حکومت ہی امریکہ کے لئے سازگار ثابت ہوسکتی ہے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے برطانیہ کے ذریعے طاہرالقادری (جس کا ذکر محترمہ شیریں مزاری کے مضمون میں کیا گیا ہے) اور طاہرالقادری کے ذریعے عمران خان کو استعمال کیا۔

مشرف ٹرائل
فوج اور نواز شریف کے مابین اختلافات کی ایک بڑی وجہ سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف بغاوت کا مقدمہ ہے۔ جس پر فوج نواز حکومت سے نالاں ہے۔

سازشی آلہ کار
عمران خان: 2013 کے انتخابات کے بعد عمران خان ہی دھاندلی کے الزامات لگا رہے تھے اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی سپورٹ بھی انھیں حاصل ہے۔
ڈاکٹر مولانا طاہر القادری: 2013 میں اسلام آباد میں ہی ہونے والے دھرنے میں اپنی سٹریٹ پاور دکھا چکے تھے۔

جاوید ہاشمی کے بقول عمران خان اور طاہر القادری کے مابین ملاقات جون کے پہلے ہفتے میں لندن میں ہوئی۔ جس کے بعد عمران خان کی طرف سے اعلان کیا گیا کے وہ طاہرالقادری کیساتھ کسی الائنس کا حصّہ نہیں بنے گے۔

اعجاز حسین: مورخہ 7 ستمبر کو نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام آپس کی بات میں اس سازش میں شریک ایک اور کردار متعارف کروایا جو نیشنل ڈیفینس کالج میں لیکچر دیتا رہا ہے اور جس نے چوہدریوں اور طاہرالقادری کے مابین رابطہ کروایا۔

سدا بہار فوجی کارندوں کا استعمال
چوہدری برادران اور شیخ رشید کو ان دونوں انقلابی رہنماؤں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور ان دونوں فوجی کارندوں کی دھرنوں میں موجودگی فوج کی سازش کو آشکار کرتی ہے۔

سازش کی ناکامی کی وجوہات
سیٹھی صاحب کے مضمون کیمطابق تین وجوہات کی بنا پر جمہوریت کیخلاف یہ سازش کامیاب نا ہوسکی۔
ایک: عمران خان دس لاکھ لوگ اسلام آباد نا لاسکے۔ جس کی وجہ سے مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔
دو: حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح دھرنوں کے شرکا پر طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے اتنی ہلاکتیں نا ہو سکیں جو عمران خان اور طاہرالقادری چاہتے تھے۔
تین: جاوید ہاشمی نے باغی ہوتے ہوئے عمران خان کے پیچھے مبینہ ہاتھوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔

بد قسمتی
بدقسمتی سے نواز حکومت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سرزد ہوگیا اور جیو نے آئی ایس آئی پر حامد میر پر قاتلانہ حملے کے الزامات لگا دیئے۔ جس کے بعد سازشیوں کے ہاتھ دونوں کیخلاف سازش کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔

پیارے افضل کی اینٹری
نواز حکومت کیخلاف سازش کو ناکام ہوتا دیکھ کر پاکستان کے سب سے صادق اور امین اینکر کے ذریعے الیکشن کمیشن کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری محمد افضل کی اینٹری کروائی گئی جنہوں نے طے شدہ سکرپٹ کیمطابق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے علاوہ جیو پر انتخابات میں دھاندلی کروانے کے الزامات لگائے۔
محمد افضل کی مشکوک اینٹری نے سازش میں اس متنازعہ اینکر کا کردار بھی آشکار کردیا اور دیکھنے والوں پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس اینکر کو خفیہ مواد کون فراہم کرتا ہے۔

چوہدری شجاعت کا کیانی پر الزام
جب جاوید ہاشمی نے سازش کو بے نقاب کردیا تو چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے جنرل کیانی پر الزام لگایا گیا کہ جنرل کیانی انتخابات میں دھاندلی میں ملوّث تھے۔
چوہدری صاحب کی طرف یہ الزام شاید سازش کے فیل ہونے پر جزبات کی رو میں بہتے ہوئے لگایا گیا اور شاید چوہدری صاحب کی سوچ کے مطابق اس بیان کے بعد ہی سوئی ہوئی ٹھنڈی فوج جاگ جائے اور موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے مداخلت کا فیصلہ کرلے۔

فوج کا مارشل لا نا لگانے کی وجہ
فوج کیانی نظریئے کی روشنی میں یہ سمجھتی ہے کہ مارشل لا کا خوف مارشل لا سے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ کہ فوج کمزور معیشت، خود مختار عدلیہ، سر گرم میڈیا، سرگرم سول سوسائٹی اور غیر ریاستی ایکٹرز کی وجہ سے مارشل لا نہیں لگا سکتی اور اگر لگاتی ہے تو خود پھنس جائیگی۔

جنرل راحیل شریف کا کردار
جنرل راحیل شریف نے اس سازش کو ناکام کرنے میں سب سے کلیدی رول ادا کیا اور اس کا سہرا وزیر اعظم نواز شریف کو بھی جاتا ہے جنہوں نے لائن میں سے تیسرے جنرل کو سپہ سلار کے طور پر چُنا۔

یہ جنرل راحیل کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ ایسے نازک حالات میں جب ایک طرف فوج آپریشن ضرب عزب میں مصروف ہے اور دوسری طرف سیلاب میں اپنا فریضہ سر انجام دے رہی ہے، جنرل راحیل پاکستان میں جمہوریت کا علم بلند رکھنے کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔

جنرل ظہیر الاسلام کی ریٹائرمنٹ
کچھ دوسرے جنرلز کے علاوہ اکتوبر میں آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ جنرل ظہیر الاسلام بھی اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں اور نئے آنے والے ممکنہ سربراہ کے لئے جنرل نصیر جنجوعہ کا نام سامنےآرہا ہے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ کا چناؤ تو چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر مدت ملازمت میں توسیع وزیر اعظم کی صوابدید ہوتی ہے اور موجودہ حالات کی روشنی میں نہیں لگتا کہ وزیر اعظم ایسا کوئی اقدام کریں گے۔
آخر میں پیش ہے 2013 کا ایک ویڈیو کلپ جس میں ایک بے باک نڈر صحافی نے موجودہ حالات کے بارے میں اپنے پروگرام میں بتا دیا تھا اور اس کے مطابق بھی پرویز مشرف کو بچانے کے لئے کچھ لوگ 2014 میں اسلام آباد میں دھرنے دیں گے۔

ان تمام تجزیات اور حقائق سے موجودہ سیاسی بحران کے پیچھے کار فرما سازشیوں کا تو پتہ چل جاتا ہے جو ابھی تک اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکے مگر ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ 
وہ اپنی پالیسیوں سے ان شر پسند سازشیوں کو بے نقاب کرتے رہیں۔

Open Letter to PTI Chairman Imran Khan



جناب عمران خان

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف
اسلام آباد۔

میری بیٹی منزہ کی عمر 14 برس ہے۔ اپنے دس سالہ تعلیمی دور میں وہ صرف ایک بار مسلسل پانچ دن سکول نہیں جا سکی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔

خاندانی تقریبات ہوں یا سیر و تفریح کے مواقع، منزہ سکول پر کسی چیز کو فوقیت نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے، جناب خان صاحب کہ جب کل اسے پیغام ملا کہ اس کا سکول مزید ایک ہفتہ نہیں کھل سکے گا، تو وہ بجھ سی گئی۔

خان صاحب میری بیٹی کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سکول نہ جا سکنا ہے۔ ایک اور وجہ ہے جس کا تعلق بھی براہ راست آپ ہی سے ہے، اس لیے وہ بھی میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔

گذشتہ برس مئی میں جب انتخابات قریب آئے تو میں نے آپ کی جماعت کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر ہمارے گھر میں خاصی گرما گرم سیاسی بحث چھڑ گئی۔ منزہ میرے اس فیصلے کے سخت خلاف تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 11 مئی کی صبح جب میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلا تو منزہ نے مجھ سے کہا ’بابا ایک بار پھر سوچ لیں۔‘
مزید شرمندگی

میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔
میں نے سوچا کہاں میرا 20 سالہ صحافت کا تجربہ اور کہاں یہ کل کی بچی اور اس کی سیاسی سمجھ بوجھ۔ میں پولنگ بوتھ میں گیا اور آپ کے امیدوار کے نام پر مہر لگائی۔

اگلے چند ماہ میں منزہ کو آپ کے نظریات اور نئے پاکستان کے فائدے گنواتا رہا۔ مجھے کبھی شک نہیں ہوا کہ وہ ان باتوں سے مرعوب ہو رہی ہے لیکن میں اسے اچھے مستقبل کی خوشخبری سناتا رہا۔

گذشتہ چند روز سے منزہ کنفیوژن کا شکار ہے۔ میں جب رات کو گھر جاتا ہوں تو اس کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتا۔ جو مناظر اس نے گذشتہ چند دنوں میں ٹیلی وژن پر دیکھے ہیں، اس کے بعد میں اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا۔
تحریک انصاف کا آزادی مارچ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب اسلام آباد پہنچا تھا اور اس کے بعد شہر کے کئی حصوں میں نظام زندگی متاثر ہوا ہے
میں یقین نہیں کر پا رہا کہ 13 برس کی منزہ نے آپ کے نظریات کے بارے میں جو خدشات ایک برس پہلے ظاہر کیے تھے، وہ سچ ثابت ہو رہے ہیں۔
عمران خان صاحب، میں اپنی بیٹی کے سامنے شرمندہ ہو گیا ہوں۔

میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے مزید شرمندگی سے بچا لیں۔ میری منزہ کو سکول جانے دیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے سامنے آپ کی سیاسی جدوجہد اور نظریات کا دفاع کرنے کی ایک بار پھر کوشش کروں گا۔ لیکن اس کے بند سکول اور سڑکوں پر لڑائی جھگڑے کے درمیان ایسا کرنا ممکن ہے۔
پلیز میری اور اپنی عزت کا پاس رکھیں۔ منزہ کو سکول جانے دیں۔
آپ کے نام یہ خط منزہ بھی پڑھے گی، اس لیے میں یہ بات یہاں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں تحریر کردہ ایک ایک لفظ سچ ہے۔ امید ہے آپ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور کریں گے۔

آپ کا ووٹر

Open Letter to PTI Chairman Imran Khan

Economic Cost of of Imran Khan Azadi March and Inqilab March




کیسا انقلاب؟......



گزشتہ کچھ ہی عرصے میں پاکستانی قوم نے ’’انقلاب‘‘ کا لفظ اتنی بار سنا کہ اب تو سوتے میں خواب میں بھی انقلاب ہی آتا ہے اور سناٹے و خامشی میں بھی کانوں میں انقلاب انقلاب کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ ہر روز کئی کئی بار انقلاب آنے کی خوشخبری قوم کو یوں سنائی جاتی ہے، جیسے گرمیوں میں چار پانچ گھنٹوں کے بعد لائٹ آنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہو۔

ہزاروں بار انقلاب کا لفظ سن کر لگتا ہے کہ انقلاب کے خوف سے ہر سماجی برائی اپنی موت آپ مر جائے گی اور دھرتی پر نفرت کی بجائے محبت اور ظلم و بربریت کی بجائے امن و سکون اور انصاف کا راج ہوگا۔ غربت کا خاتمہ ہوجائیگا اور ملک کا ہر شہری دولت میں کھیلے گا۔ یوں تو انسانی زندگی ازل سے مسلسل انقلابات کی زد میں ہے اور دنیا میں ان گنت انقلابات رونما بھی ہو چکے ہیں لیکن یہ ’’انقلاب میاں‘‘ ہیں کیا، یہ بات شاید ’’انقلابی قوم‘‘ کو معلوم نہ ہو لہٰذا اس حوالے سے اگر کچھ بات ہو جائے تو بہتر ہے۔ انقلاب کا لفظ انگریزی کے لفظ “Revolution” اور عربی کے لفظ ’’ثورہ‘‘ کے ہم معنی ہے۔ لغت میں ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونے، تہہ و بالا ہونے اور پلٹنے کو انقلاب کہا جاتاہے۔

محققین کے مطابق شروع میں ستاروں کی حرکت کو انقلاب کہا جاتا تھا لیکن بعد میں رفتہ رفتہ مروجہ اصطلاح کے لیے استعمال ہونے لگا۔ موجودہ دور میں حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی بنیادی تبدیلی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر انقلاب کسی تبدیلی کی خواہش سے جنم لیتا ہے اور اس خواہش کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں:1۔ انسان فطری طور پر تبدیلی کا دلدادہ ہے، چنانچہ وہ ایک مدت کے بعدکسی بھی مروجہ نظام سے اکتا کر اسے تبدیل کرنا چاہتا ہے، 2۔ کوئی بھی مروّجہ نظام جب انسان کی مادی و معنوی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو انسان اس کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کی فکر کرنے لگتاہے۔

چوتھی صدی قبل مسیح میں قدیم یونانی مفکر بابائے سیاست ارسطو کی کتاب ’’سیا ست‘‘ دنیا بھر میں سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک آدرش کا درجہ رکھتی ہے۔384 قبل مسیح میں پیدا ہونے والا ارسطو یونان کا وہ ممتاز فلسفی، مفکر اور ماہر منطق تھا، جس نے افلاطون جیسے استاد کی صحبت پائی اور سکندر اعظم جیسے شاگرد سے دنیا کو متعارف کروایا۔ 18 سال کی عمر میں اس وقت علم و حکمت کے مرکز ایتھنز چلا آیا۔ یہاں 37 سال کی عمر تک افلاطون کے مکتب سے وابستہ رہا۔ 53 سال کی عمر میں ارسطو نے اپنے مدینہ الحکمت کی بنیاد ڈالی، جہاں اس نے نظری و کلاسیکی طریقہ علم کی بجائے عملی اور عقلی مکتب فکر کو فروغ دیا۔ ارسطو پہلا عالم تھا جس نے سیاست و معاشرت کے لیے باضابطہ اصول ترتیب دیے۔

لہٰذا سیاست کے پہلے عالم ارسطو کے نزدیک انقلاب کے دو معنی ہیں: 1۔ ریاست کے مروّجہ آئین میں تبدیلی،2 ۔اقتدار کی منتقلی۔ اسی طرح ارسطو نے انقلاب کی دو بنیادی قسمیں بھی بیان کی ہیں: 1۔ مکمل انقلاب،جس میں معاشرے کے عمومی سماجی ڈھانچے، سیاسی نظام کے ڈھانچے اور سیاسی اصولوں میں تبدیلی کا وقوع ہو، 2۔ نامکمل انقلاب، جس میں مذکورہ تین نکات میں سے صرف کسی ایک نکتے میں تبدیلی آئے۔

ارسطو کے مطابق انقلاب کے عمومی طور پر تین اسباب ہوتے ہیں:1۔ مادی سبب: لوگوں کا ایک گروہ اپنے حقوق کا استحصال ہوتے دیکھتا ہے تو وہ حکومت سے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے،2۔ سبب فاعلہ: کچھ لوگ اپنے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں،3۔ سبب غائی: حکومتی ادروں کی من مانی، لوگوں کی بے حرمتی،لوگوں کے احساس عدم تحفظ کی وجہ سے رد عمل۔
ثابت ہوا کہ انقلاب کا لفظ حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی بنیادی تبدیلی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ماضی بتاتا ہے کہ تبدیلی و انقلاب دو طرح کے ہوتے ہیں۔پہلی قسم وہ جو کم عرصے میں واقع ہو، لیکن اس کے فوائد سے زیادہ نقصانات ظاہر ہوئے، جب کہ دوسری قسم وہ جس کے وقوع میں کافی عرصہ لگے، لیکن عوام کو صرف اس کے ثمرات و فوائد حاصل ہوئے۔ پہلی قسم کے انقلاب کی مثالیں یہ ہیں۔ فرانسیسی انقلاب جس میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ قتل کیے گئے۔

روس کا انقلاب جس میں پورے شاہی خاندان کو ان کے ملازموں سمیت تہہ خانے میں لے جا کر فائرنگ کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ’’زار‘‘ بادشاہوں کی قبروں کو کھود کر ہڈیاں تک جلا دی گئی تھیں۔ ایرانی انقلاب جس میں خانہ جنگی پر قابو پانے میں تین برس صرف ہوئے اور یہ تین برس ہزاروں انسانوں کا لہو چاٹ گئے تھے۔

مشرق وسطیٰ میں یکے بعد دیگرے آنے والے انقلابات، جن کا آغاز تیونس سے ایک نوجوان کی خودکشی سے ہوا اور اس کے بعد مختصر مدت میں تیونس، لیبیا، مصر میں حکمرانوں کی بجائے قتل و قتال اور خونریزی کی حکومت قائم ہوگئی۔ شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف انقلابی تحریک شروع ہوئی، جو اب تک دو لاکھ افراد کا خون پی چکی۔ مذکورہ انقلابات کی بدولت ابھی تک یہ ممالک خانہ جنگی کی بھٹی میں دہک رہے ہیں۔ان ممالک کی معیشت تباہ اور سکون غارت ہوچکا ہے۔ آج بھی عوام اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ مختصر مدت میں آنے والی یہ تبدیلی کہنے کو تو انقلاب اور عوام کی فتح تھی، لیکن حقیقت میں بربادی اور عوام کی شکست ثابت ہوئی۔

انقلاب کی دوسری قسم وہ ہے، جس میں عوام کو صرف فوائد حاصل ہوئے اور اس کے اثرات دیر تک عوام کے لیے خوش کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ملایشیا ہے۔ 1980 میںملایشیا میں غربت، افلاس اور بیروز گاری کا راج تھا۔ صرف ٹن، ربڑ اور پام آئل جیسا خام مال باہر بھیج کر ملک کی معیشت کو چلایا جاتا تھا۔ سیاست، معیشت، تعلیم اور ملک کے تمام شعبے دن بدن دم توڑ رہے تھے۔ دوردور تک ملایشیا کے حالات سنبھلتے دکھائی بھی نہ دے رہے تھے، لیکن قوم نے انقلاب لانے کی ٹھانی، مسلسل محنت کی، اپنے ملک کو اہم صنعتی اور ترقی یافتہ قوم میں بدلنے کا ایجنڈا پیش کیا، ریاست، آئین اور قانون کی پاسداری اپنے اوپر لازم کی۔ نظم و ضبط ہر ایک پر لازم قرار دیا گیا۔ اس ملک کا حال دیکھتے دیکھتے بدلنے لگا۔

ملایشین قوم نے مسلسل 22سال محنت کی۔ 2003 میں جو ملک صرف خام مال پر اپنا گزارا کرتا تھا ، وہی ملایشیا ٹیکنالوجی اور سروس انڈسٹری کے باعث ایک سو بلین ڈالر کی برآمدات کرنے لگا۔ 2300 ڈالر فی کس آمدنی کمانے والا ملایشیا 9ہزار ڈالر کمانے لگا۔ غربت کا نام و نشان مٹ گیا۔ تعلیم سے محروم 92فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے۔

ملایشیا کی سیاست مستحکم اور معیشت مضبوط ہوگئی۔ اسی انقلاب کی ایک مثال ترکی بھی ہے، جو 2001تک اقتصادی بحران میں اس بری طرح سے پھنسا ہوا تھا کہ کھلے بازار میں ترکی کرنسی لیرا کی فروخت بڑھ گئی۔

جس کے باعث حکومت کو لیرا کی قیمت میں 40 فیصد تک کمی کرنا پڑی، ساتھ ہی شرح سود اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور روزگار کے مواقع کم ہونے لگے، ملک غیر ملکی قرضوں پر چلنے لگا، لیکن ترک قوم نے انقلاب لانے کی ٹھانی اور 2002کے بعد شروع ہونے والے انقلابی سفر کی بدولت ترکی آج دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔ انقلاب کی ان دو قسم کی مثالوں کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ کی طرز پر سول نافرمانی اور مار کٹائی والا انقلاب چاہیے یا ملایشیا اور ترکی کی مثل پر امن اور فائدہ مند انقلاب چاہیے۔

عابد محمود عزام

Heroes Of Pakistan Police?



Heroes Of Pakistan Police?

یہ محمد علی جناح کا پاکستان ہے؟














Muhammad Ali Jinnah

حکومت کے پاس کیا بچا ہے؟.....


پاکستانی فوج کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کور کمانڈرز کانفرنس نے اتوار کی شام ایک ہنگامی اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’طاقت کا استعمال مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر عدم تشدد کے ساتھ بحران کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔‘
مبصرین اس بیان کا مطلب یہ لے رہے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ملک میں جاری سیاسی بحران میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اپنا وزن بظاہر حکومت مخالف جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

پاکستانی فوج کے اس بیان کے بعد بھی فریقین ابھی تک اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کی جانب سے یہ بیان جاری ہونے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم کے استعفٰے پر کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
عرفان صدیقی وزیراعظم کے ان چند معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جن سے وزیراعظم مسلسل رابطے اور مشورے میں رہتے ہیں۔ عرفان صدیقی اتوار کے روز وزیر اعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اس اجلاس میں بھی شامل تھے جس میں اس بحران پر غور کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

عرفان صدیقی نے بتایا کہ حکومت نے ابھی تک کسی بھی فورم یا موقع پر وزیراعظم کے مستعفیٰ ہونے کے امکان پر غور نہیں کیا اور نہ ہی اس موضوع پر کسی بھی جماعت سے مذاکرات کا ارادہ ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے نائب سربراہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو اتوار کی شام بتایا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات فی الحال خارج از امکان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے کے علاوہ کوئی اور تجویز ان کی جماعت کو احتجاج سے نہیں روک سکے گی۔
اگر حکومت احتجاجی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر نہ لا سکے اور اس کے پاس مظاہرین کو وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بولنے سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا آپشن بھی موجود نہ ہو تو اس کے پاس کیا امکانات باقی رہ جاتے ہیں؟

یا تو مظاہرین کے ہاتھوں حکومت کی رٹ کا بالکل خاتمہ، یعنی ملک میں حکمرانی کا سنگین بحران اور دوسرا نواز شریف کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے پر بات چیت۔
حکومت اب ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں سے اپنے لیے کامیابی کا کوئی راستہ نکالنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔

آصف فاروقی

 

اسلام آباد میدان جنگ بن گیا

 



 







Clashes as PTI 'Azadi' March Advances on Islamabad ...

Pakistani opposition supporters carry a wounded protester following clashes with security forces near the prime minister's residence in Islamabad. Police in Pakistan's capital Islamabad fired tear gas on anti-government protesters attempting to storm Prime Minister Nawaz Sharif's official residence in a bid to force his resignation. — AFP PHOTO



۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں.......


دھرنے پر رفتہ رفتہ یکسانیت نے دھرنا دے دیا ہے۔ہز ماسٹر وائس کے گھومنے والے ریکارڈجیسی تقاریر سن سن کے میری ٹی وی اسکرین تو جمائیاں لے رہی ہے۔ یہ حال ہوگیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بس کہتا ہوں دھرنا اور ٹی وی مجھے گھورتے ہوئے آن ہوجاتا ہے۔مجھے سب سے زیادہ فکر ان سیکڑوں دھرنا بچوں کی ہے جن کے اسکول کھل گئے ہیں مگر وہ پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھے ع سے عمران ، ط سے طاہر ، ن سے نواز ، گ سے گو اور د سے دھرنا پڑھ رہے ہیں۔سب منتظر ہیں کب نو من تیل جمع ہوگا کب رادھا ناچے گی۔

ہمارے دوست سلمان آصف کے فیس بک پیج پر لگی ایک تضمین کے مطابق ،

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
ریڈ زون میں دھرنا ہے اور ناچ کے جانا ہے

جو دھرنے سے باہر ہیں انھوں نے بیانات کے چھولوں، ٹاک شوز کے چپس، موقع پرستی کے کھلونوں ، بڑھکوں کے دہی بڑے ، مصالحانہ لہجوں کے جھمکوں ، دھمکیوں کے بن کباب اورگالم گلوچ کی کڑاہی کے اسٹال لگا لیے ہیں۔شاہراہوں پر جو کنٹینرز اب تک پکڑے نہیں جاسکے وہ پولیس سے ایسے چھپ رہے ہیں جیسے بلیک اینڈ وائٹ دور کی پنجابی فلموں کی مٹیار ولن سے بھاگتی ہے۔

اگر زندگی دھرنا فری ہوتی تو بہت سی ایسی خبریں بھی ریڈار پر چمک سکتی تھیں جن پر دھرنا پورے وزن کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔جیسے شمالی وزیرستان کا آپریشن اور اس سے متاثر ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی نہ ختم ہونے والی مصیبتیں میڈیا اور ناظرین و قارئین کے ذہن سے دم دبا کر بھاگ نکلی ہیں۔اب تو آئی ایس پی آر نے بھی فوجی آپریشن پر روزانہ کا مختصر سا پریس ریلیز جاری کرنا بند کردیا ہے۔جب نشر اور شایع ہی نہیں ہونا تو خامخواہ کاغذ ضایع کرنے کا فائدہ۔

بلوچستان کے ضلع خضدار میں نامعلوم افراد کی اجتماعی قبروں کی جانچ کرنے والے کمیشن کی رپورٹ میںذمے داروں کے تعین میں ناکامی کی خبر اگر عام دنوں میں سامنے آتی تو کم ازکم دو تین روز ضرور نشریاتی اور چائے خانی چہ میگوئیاں ہوتیں لیکن یہ خبر بھی ریٹنگ کی اجتماعی قبر میں دفن ہو کے رہ گئی۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور سیکیورٹی دستوں کے درمیان جھڑپیں اور آپریشن پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرچکے ہیں۔کوئٹہ ایئرپورٹ پر ناکام حملہ ہوچکا ہے۔لیکن ان میں سے کوئی خبر دھرنے سے بڑی نہیں۔

بھارت کی نریندر مودی حکومت نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی پاکستانی سفارت کاروں سے معمول کی ملاقات کو جواز بنا کر خارجہ سیکریٹریوں کا مجوزہ اجلاس یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا۔خود بھارت کے اندر مودی حکومت کے اس اقدام پر حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جب کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔

کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ حکمتِ عملی پر کام کررہی ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی تحفظات ختم کرکے کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں کی طرح ایک ریاست بنانے کی بھی تیاری جاری ہے۔عام دنوں میں یقیناً پاکستان میں سرکاری و نجی سطح پر اس پیش رفت کی بابت کچھ نہ کچھ بحث و مباحثہ ضرور ہوتا مگر دھرنا۔۔۔۔۔

انھی دنوں میں ہونے والے مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کے طے شدہ دورے بھی آگے بڑھا دیے گئے۔ چین کے اعلی سطح کے وفد نے بھی پہلے بستر بند باندھا پھر یہ کہتے ہوئے دوبارہ کھول دیا کہ تسی دھرنیاں تو نبڑ لوو ساڈی خیر اے۔

صرف ایک جماعتِ اسلامی ہے جو دھرنوں کے رعب میں آئے بغیرغزہ کے فلسطینوں کے حق میں کسی نہ کسی شہر میں احتجاجی ریلیاں نکالتی رہتی ہے۔لیکن کراچی میں ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی غزہ ریلی کو بھی دھرنا چبا گیا۔کیونکہ کراچی کے بیشتر کیمرے بھی ان دنوں ڈی چوک میں ہی فلمیا رہے ہیں۔
لگتا ہے ڈی چوک کے باہر پورے پاکستان میں خیریت ہے۔کراچی میں مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ دو سطری خبر ہوگئی ہے۔جرائم کا گراف بری طرح منہ کے بل گرا ہے۔پولیو کی ٹیمیں ہنستے گاتے ویکسین بانٹ رہی ہیں۔طالبان چھٹی لے کر کسی پرفضا مقام پر آرام کررہے ہیں۔اسپتالوں کے خالی بستر مریضوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اسکولوں میں مسلسل چھ گھنٹے کلاسیں ہورہی ہیں۔ سڑک کے حادثات ماضی بن چکے ہیں۔تمام سرکاری ملازمین نو سے پانچ تک اپنی اپنی میزوں پر فائلوں میں گم ہیں۔دھاڑی مزدوروں کے پاس اچانک سے اتنا کام آگیا ہے کہ ان کے نخرے ہی نہیں سما رہے۔سچ ہے تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔

مجھے یہ اندازہ تو نہیں کہ حالات پکی سڑک کی جانب جارہے ہیں کہ کسی ایسی پگڈنڈی پر چڑھ چکے ہیں جو گھنے جنگل میں جا کر کہیں گم ہوجائے گی۔مگر اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب تک جو بھی کچھ ہوا اس میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہے۔گولیاں اگر چل بھی رہی ہیں تو منہ سے۔سینے چھلنی بھی ہو رہے ہیں تو طعنوں سے۔تصادم ہو بھی رہا ہے تو فیس بک اور ٹویٹر کے ہتھیاروں سے۔
سیاسی جماعتوں کی اکثریت پرائی آگ پر ہاتھ تاپنے اور کیک میں سے اپنا حصہ لینے سے زیادہ کیک بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔چیخنے والے بھی مارشل لا کے خلاف ہیں اور ان کے منہ پر ہاتھ رکھنے والے بھی مارشل لا نہیں چاہتے۔خود مارشل لا والے بھی مارشل لا کی نوبت سے بچنا چاہتے ہیں۔مخالفین ایک دوسرے کو زخمی ضرور کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی کسی کو مارنا نہیں چاہتا۔دل میں البتہ یہ خواہش ہے کہ سامنے والے کو پھانسی لگ جائے لیکن رسے سے نہیں بلکہ خودکشی کے دوپٹے سے۔

اس سے بھی زیادہ مثبت پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی موجودہ پاکستان نہیں چاہتا۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں۔اگر بن گیا تو سینتالیس کے جناحی، اٹھاون کے ایوبی، اکہتر کے ذوالفقاری، ستتر کے ضیائی اور ننانوے کے مشرفی پاکستان کے بعد یہ چھٹا نیا پاکستان ہوگا۔لیکن اگر چھٹے پاکستان میں بھی گذشتہ پاکستانوں کی طرح بیڈ روم فوج ، ڈرائنگ روم پنجاب ، باورچی خانہ سندھ ، دالان خیبر پختون خواہ ، واش روم بلوچستان اور چھت گلگت بلتستان اور فاٹا کو الاٹ ہوئی تو پھر ساتویں پاکستان کا نقشہ بھی ابھی سے تیار رکھیں۔۔۔

وسعت اللہ خان

 

سول نافرمانی ملکی مفاد میں نہیں......


اسلام آباد میں نواز حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان نے ہر محب وطن پاکستانی کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ اپنی زندگی کے اہم ترین خطاب میں عمران خان نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی مہم شروع کریں اور جب تک وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دے دیتے، وہ نہ ہی ٹیکس دیں اور نہ ہی بجلی اور گیس کے بل ادا کریں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں وزیر اعظم کے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں لانگ مارچ کے شرکاء کے ہمراہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہونے کی دھمکی بھی دی ہے۔

عمران خان کے مذکورہ بیان اور دھمکیوں نے ملکی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے جبکہ محب وطن شہریوں، تاجروں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشنز اور کئی چیمبرز نے سول نافرمانی کے اعلان کو ملکی مفادات کے خلاف قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کے صدر زکریا عثمان نے عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاجر برادری ٹیکس نہ دینے کی عمران خان کی اپیل مسترد کرتی ہے۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ تحریک انصاف جس میں اسد عمر جیسے معاشی ماہرین بھی شامل ہیں، نے عمران خان کو سول نافرمانی کی تجویز کس طرح دی جبکہ اس سے بڑھ کر حیرانگی اس بات پر ہے کہ عمران خان نے سول نافرمانی کو تحریک انصاف کی پالیسی کا حصہ بناکر اس کا اعلان کر ڈالا۔

پاکستان جہاں پہلے ہی لوگوں کا انکم ٹیکس کی ادائیگی کے معاملے میں ریکارڈ کچھ بہتر نہیں، ایسے میں عمران خان کا ٹیکس کی ادائیگی سے روکنا ملکی معیشت کی تباہی کے مترادف ہے۔ ملک کی 18 کروڑ کی آبادی میں تقریباً 17 لاکھ افراد انکم ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں جو خطے میں سب سے کم اور آبادی کا تقریباً ایک فیصد ہے۔ عید کی چھٹیوں، لانگ مارچ اور دھرنوں کی سیاست کے دوران ملکی معیشت کو اب تک 500 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال حالیہ مہینوں میں ملکی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث ایک ہفتے کے دوران حصص کی قیمتوں میں نمایاں کمی سے اسٹاک مارکیٹ کو تقریباً 350 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے، حکومت جو یورو بانڈز کی کامیاب لانچنگ کے بعد ستمبر میں عالمی مارکیٹ میں ایک ارب ڈالر کے اسلامک سکوک بانڈز کا اجراء کرنا چاہتی تھی، موجودہ صورتحال میں ایسا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے جبکہ قرضوں کی واپس ادائیگی سے عمران خان کے انکار کے بیان کے بعد آئی ایم ایف نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا ہے۔ عمران خان نے اگر سول نافرمانی کی تحریک چلائی تو اس سے خیبر پختونخوا جہاں عمران خان کی جماعت برسراقتدار ہے، سب سے زیادہ متاثر ہو گا کیونکہ صوبوں کے یومیہ اور سالانہ ترقیاتی اخراجات کا 90 فیصد وفاق سے آتا ہے جبکہ دوسرے صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا حکومت کا انحصار بھی وفاقی حکومت کے دیئے گئے فنڈز پر ہے۔
سول نافرمانی کی تحریک حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ریاست کے خلاف تصور کی جاتی ہے۔ یہ تحریک عموماً غیر ملکی قابضین کے خلاف چلائی جاتی ہے جبکہ پاکستان کسی ملک کی نوآبادیاتی نہیں بلکہ ایک آزاد و خود مختار ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے، اس طرح موجودہ صورتحال میں پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

پاکستان کی تاریخ میں 4 مرتبہ مارشل لا لگ چکا ہے مگر اُس دور میں بھی کسی سیاستدان نے عوام کو سول نافرمانی پر نہیں اکسایا۔ برصغیر کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تقسیم ہند سے قبل 1930ء میں گاندھی نے برطانوی راج کے خلاف احمد آباد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کیا تھا جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی رائے شامل نہ تھی جبکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سول نافرمانی کی تحریک اُس وقت چلائی گئی جب 70ء کے الیکشن میں حکومت نے شیخ مجیب الرحمٰن کے ملکی مفادات کے خلاف پیش کئے گئے نکات ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے عوام کو سول نافرمانی پر اکسایا اور بالآخر پاکستان اپنے مشرقی بازو سے محروم ہو گیا۔

دور حاضر میں کسی ملک کو تباہ کرنے کے لئے جنگ کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر کسی ملک کی معیشت تباہ کردی جائے تو دشمن کو اپنے اہداف حاصل ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض بین الاقوامی قوتیں مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیاء میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پاکستان میں سیاسی انتشار کو ہوا دینا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم اور معاشی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ ان حالات میں ہم دھرنے اور سول نافرمانی کی سیاست کرکے کہیں ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں تو نہیں کھیل رہے؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ہم دنیا کو غلط پیغام دے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر حکومت و مخالفین کو چاہئے کہ وہ اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں، حکومت مخالفین کو غیر جمہوری طریقہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے ان کے جائز مطالبات جن میں کچھ حلقوں میں دوبارہ گنتی، انتخابی عمل میں اصلاحات، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور نادرا میں غیر جانبدار شخص کی تقرری شامل ہیں، پر سنجیدگی سے غور اور اُن سے گفت و شنید کرے جبکہ عمران خان اور طاہر القادری کو بھی چاہئے کہ وہ وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنانے، وزیراعظم سے مستعفی ہونے اور اسمبلیاں ختم کرنے جیسے غیر جمہوری مطالبے واپس لیں کیونکہ اگر دھرنوں اور سول نافرمانی کی سیاست شروع ہوگئی تو کل کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت چند ہزار افراد کے ساتھ وفاقی دارالحکومت کا گھیرائو کر کے صدر، وزیراعظم یا آرمی چیف سے استعفے کا مطالبہ کر سکتی ہے جو کسی بھی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہو گا۔

پاکستان اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن موجودہ سیاسی صورتحال کے باعث ہماری توجہ دہشت گردوں کے خلاف شروع کئے گئے آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ سے ہٹ گئی ہے اور آپریشن میں کامیابی کی خبریں لانگ مارچ تلے دب کر رہ گئی ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں اگر حکومت پسپائی اختیار کرتی ہے تو یہ ایک غلط روایت ہوگی لیکن اگر حکومت نے مخالفین کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا تو ریڈ زون میں خون خرابہ ہو سکتا ہے جس سے جمہوری نظام کے لپیٹے جانے کا شدید خطرہ ہے اور اس کا تمام تر فائدہ غیر جمہوری قوتوں اور ملک دشمن عناصر کو پہنچے گا لہٰذا ملک کے عظیم تر مفاد میں بہتر یہی ہے کہ حکومت، مخالفین کو ’’فیس سیونگ‘‘ فراہم کرے تاکہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہوسکے کیونکہ تشدد کی سیاست سے پاکستان کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملے گا اور اس میں حکومت کا نقصان کم جبکہ پاکستان کا زیادہ ہوگا۔

اشتیاق بیگ
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ