سول نافرمانی ملکی مفاد میں نہیں......

00:36 Unknown 0 Comments


اسلام آباد میں نواز حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان نے ہر محب وطن پاکستانی کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ اپنی زندگی کے اہم ترین خطاب میں عمران خان نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی مہم شروع کریں اور جب تک وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دے دیتے، وہ نہ ہی ٹیکس دیں اور نہ ہی بجلی اور گیس کے بل ادا کریں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں وزیر اعظم کے مستعفی نہ ہونے کی صورت میں لانگ مارچ کے شرکاء کے ہمراہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہونے کی دھمکی بھی دی ہے۔

عمران خان کے مذکورہ بیان اور دھمکیوں نے ملکی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے جبکہ محب وطن شہریوں، تاجروں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشنز اور کئی چیمبرز نے سول نافرمانی کے اعلان کو ملکی مفادات کے خلاف قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کے صدر زکریا عثمان نے عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کے اعلان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاجر برادری ٹیکس نہ دینے کی عمران خان کی اپیل مسترد کرتی ہے۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ تحریک انصاف جس میں اسد عمر جیسے معاشی ماہرین بھی شامل ہیں، نے عمران خان کو سول نافرمانی کی تجویز کس طرح دی جبکہ اس سے بڑھ کر حیرانگی اس بات پر ہے کہ عمران خان نے سول نافرمانی کو تحریک انصاف کی پالیسی کا حصہ بناکر اس کا اعلان کر ڈالا۔

پاکستان جہاں پہلے ہی لوگوں کا انکم ٹیکس کی ادائیگی کے معاملے میں ریکارڈ کچھ بہتر نہیں، ایسے میں عمران خان کا ٹیکس کی ادائیگی سے روکنا ملکی معیشت کی تباہی کے مترادف ہے۔ ملک کی 18 کروڑ کی آبادی میں تقریباً 17 لاکھ افراد انکم ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں جو خطے میں سب سے کم اور آبادی کا تقریباً ایک فیصد ہے۔ عید کی چھٹیوں، لانگ مارچ اور دھرنوں کی سیاست کے دوران ملکی معیشت کو اب تک 500 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال حالیہ مہینوں میں ملکی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث ایک ہفتے کے دوران حصص کی قیمتوں میں نمایاں کمی سے اسٹاک مارکیٹ کو تقریباً 350 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے، حکومت جو یورو بانڈز کی کامیاب لانچنگ کے بعد ستمبر میں عالمی مارکیٹ میں ایک ارب ڈالر کے اسلامک سکوک بانڈز کا اجراء کرنا چاہتی تھی، موجودہ صورتحال میں ایسا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے جبکہ قرضوں کی واپس ادائیگی سے عمران خان کے انکار کے بیان کے بعد آئی ایم ایف نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا ہے۔ عمران خان نے اگر سول نافرمانی کی تحریک چلائی تو اس سے خیبر پختونخوا جہاں عمران خان کی جماعت برسراقتدار ہے، سب سے زیادہ متاثر ہو گا کیونکہ صوبوں کے یومیہ اور سالانہ ترقیاتی اخراجات کا 90 فیصد وفاق سے آتا ہے جبکہ دوسرے صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا حکومت کا انحصار بھی وفاقی حکومت کے دیئے گئے فنڈز پر ہے۔
سول نافرمانی کی تحریک حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ریاست کے خلاف تصور کی جاتی ہے۔ یہ تحریک عموماً غیر ملکی قابضین کے خلاف چلائی جاتی ہے جبکہ پاکستان کسی ملک کی نوآبادیاتی نہیں بلکہ ایک آزاد و خود مختار ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے، اس طرح موجودہ صورتحال میں پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

پاکستان کی تاریخ میں 4 مرتبہ مارشل لا لگ چکا ہے مگر اُس دور میں بھی کسی سیاستدان نے عوام کو سول نافرمانی پر نہیں اکسایا۔ برصغیر کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ تقسیم ہند سے قبل 1930ء میں گاندھی نے برطانوی راج کے خلاف احمد آباد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کیا تھا جس میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی رائے شامل نہ تھی جبکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سول نافرمانی کی تحریک اُس وقت چلائی گئی جب 70ء کے الیکشن میں حکومت نے شیخ مجیب الرحمٰن کے ملکی مفادات کے خلاف پیش کئے گئے نکات ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے عوام کو سول نافرمانی پر اکسایا اور بالآخر پاکستان اپنے مشرقی بازو سے محروم ہو گیا۔

دور حاضر میں کسی ملک کو تباہ کرنے کے لئے جنگ کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر کسی ملک کی معیشت تباہ کردی جائے تو دشمن کو اپنے اہداف حاصل ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض بین الاقوامی قوتیں مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیاء میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پاکستان میں سیاسی انتشار کو ہوا دینا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم اور معاشی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ ان حالات میں ہم دھرنے اور سول نافرمانی کی سیاست کرکے کہیں ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں تو نہیں کھیل رہے؟ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ہم دنیا کو غلط پیغام دے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر حکومت و مخالفین کو چاہئے کہ وہ اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں، حکومت مخالفین کو غیر جمہوری طریقہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے ان کے جائز مطالبات جن میں کچھ حلقوں میں دوبارہ گنتی، انتخابی عمل میں اصلاحات، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور نادرا میں غیر جانبدار شخص کی تقرری شامل ہیں، پر سنجیدگی سے غور اور اُن سے گفت و شنید کرے جبکہ عمران خان اور طاہر القادری کو بھی چاہئے کہ وہ وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنانے، وزیراعظم سے مستعفی ہونے اور اسمبلیاں ختم کرنے جیسے غیر جمہوری مطالبے واپس لیں کیونکہ اگر دھرنوں اور سول نافرمانی کی سیاست شروع ہوگئی تو کل کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت چند ہزار افراد کے ساتھ وفاقی دارالحکومت کا گھیرائو کر کے صدر، وزیراعظم یا آرمی چیف سے استعفے کا مطالبہ کر سکتی ہے جو کسی بھی صورت ملکی مفاد میں نہیں ہو گا۔

پاکستان اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن موجودہ سیاسی صورتحال کے باعث ہماری توجہ دہشت گردوں کے خلاف شروع کئے گئے آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ سے ہٹ گئی ہے اور آپریشن میں کامیابی کی خبریں لانگ مارچ تلے دب کر رہ گئی ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں اگر حکومت پسپائی اختیار کرتی ہے تو یہ ایک غلط روایت ہوگی لیکن اگر حکومت نے مخالفین کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا تو ریڈ زون میں خون خرابہ ہو سکتا ہے جس سے جمہوری نظام کے لپیٹے جانے کا شدید خطرہ ہے اور اس کا تمام تر فائدہ غیر جمہوری قوتوں اور ملک دشمن عناصر کو پہنچے گا لہٰذا ملک کے عظیم تر مفاد میں بہتر یہی ہے کہ حکومت، مخالفین کو ’’فیس سیونگ‘‘ فراہم کرے تاکہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہوسکے کیونکہ تشدد کی سیاست سے پاکستان کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملے گا اور اس میں حکومت کا نقصان کم جبکہ پاکستان کا زیادہ ہوگا۔

اشتیاق بیگ
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

0 comments: