Showing posts with label Syria Crises. Show all posts

محفوظ تر‘‘ دنیا میں بے چینی کیوں؟........


افغانستان سے غیر ملکی بالخصوص امریکی فوجیوں کے انخلا کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے صدر اوباما کی بے چینی میں اتنی ہی شدت آتی جا رہی ہے۔ شاید 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ کرنے کے متعلق پر جوش فیصلہ کے وقت بھی صدر جارج ڈبلیو بش کو اتنی پریشانی نہیں ہوئی ہو گی، جتنی ابھی افغانستان سے نکلنے میں صدر اوباما کو درپیش ہے۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے۔ اس کی واجب وجہ ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ انخلا کے بعد افغانستان کا کیا ہو گا؟ کرزئی یا ان کے جانشینوں کا کیا حشر ہو گا؟ کیونکہ عراق ان کے سامنے ہے۔

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور طالبان کے جنگجوؤں کو ٹھکانے
 لگانے کے بعد حالانکہ امریکہ یہ بلند بانگ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اب دنیا پہلے سے محفوظ ہو گئی ہے لیکن اسے اب خود اپنی باتوں پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ یقین آئے بھی تو کیسے؟ حقائق منھ چڑھا رہے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کو پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد اسی طرح کے حماقت آمیز بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ مغربی رہنمائوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ اب عراق سے تمام برائیوں اور مسائل کا خاتمہ ہو گیا ہے اور امن و امان کا دور شروع ہونے والا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ در حقیقت مسئلہ کی جڑ میں پانی اور کھاد ڈال رہے ہیں اور اسی جڑ سے ایک دن ایک نئے مسئلہ کی کونپل پھوٹے گی اور دھیرے دھیرے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لے گی اور یہ پرانے مسئلہ سے زیادہ خطرناک ہو گا۔

ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے۔ صرف ایک دہائی پہلے کی ہی بات ہے جب بغداد کے ہر چوک پر صدام حسین کے مجسموں کے مسخ وزنی ٹکرے پھیلے پڑے تھے۔ بموں پر ’’فار صدام حسین ود لو‘‘ لکھ کے طیاروں سے گرایا گیا تاکہ ’’فاشسٹ، عراق کے ملبے پر ایک جمہوری، روشن خیال، پر امن اور مہذب عراق تعمیر ہو سکے جس میں شیعہ، سنی اور کرد شانہ بشانہ خوف کے جنگل سے نکل کر حال کی جلی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے چمکتے مستقبل میں چھلانگ لگا سکیں، لیکن اب عراق کی صورتحال کیا ہےَ کیا یہی ہے جمہوری، روشن خیال، پر امن اور مہذب عراق کے خواب کی تعبیر؟

داعش کی شکل میں اب ایک نیا مسئلہ سامنے ہے، پہلے سے زیادہ خطرناک۔ صرف عراق کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے۔ پہلے تو صرف عراق پر حکمرانی اور اقتدار کی جنگ تھی لیکن اب اس میں مسلکی تنازع کا تڑکہ لگ گیا ہے ۔ خود ان کھلاڑیوں کو بھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے جن کے ہاتھوں میں مسند عراق پر بیٹھی کٹھ پتلیوں کی ڈور ہے۔ عراقی حکومت اور خود صدر نوری المالکی بار بار امریکہ سے درخواست کر چکے ہیں کہ ہمیں بچا لو، لیکن امریکہ پس و پیش میں مبتلا ہے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ کبھی عراق میں فوجی مداخلت سے انکار کرتا ہے تو کبھی دیگر حیلے بہانوں سے محدود فوجی اور دیگر حکام عراق بھیجنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ادھر ایران بھی عجیب مخمصے میں ہے۔ در پردہ نوری المالکی کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کھل کر سامنے نہ آنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ برائی کو برائی سے ختم کیا جائے تو برائے شکل بدل کر بھٹکی ہوئی روح بن جاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عراق صرف ایک ملک نہیں بلکہ تیزاب سے بھرا وہ جار ہے جو دھینگا مشتی میں ٹوٹ گیا تو آس پاس کی سب چیزوں کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس حقیقت سے لوگ آگاہ نہیں تھے مگر ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’’ہر برا کام بہترین نیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘

بہت سارے لوگوں کو یاد ہو گا کہ بغداد میں پہلا بم گرنے سے پہلے عرب لیگ کے سکریٹری جنرل امر موسیٰ نے اس حقیقت کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ کیا کرنے والے ہو؟ تم جہنم کا دروازہ کیوں کھونا چاہ رہے ہو، لیکن اس دنیا کے جارج بشوں، ٹونی بلیئروں، ایریل شیرونوں اور ان کے حواریوں کا ایمان کامل تھا کہ پہلے عراق، وہاں کے عوام اور پھر صدام کے ساتھ جو ہوا، اس کے بعد خلیج، مشرق وسطیٰ اور باقی دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔

ہاں، دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔ اس کی گوائی اپریل 2003ء کے بعد سے مارے جانے والے 2 لاکھ عراقیوں، ایک لاکھ 60 ہزار شامیوں، ایک لاکھ سے زائد افغانیوں اور 60 ہزار پاکستانیوں کی لاشیں دے رہی ہیں۔ پانچ کروڑ پناہ گزین، ’’محفوظ تر‘‘ دنیا میں سر چھپانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اتنے پناہ گزین تو دوسری عالمی جنگ نے بھی پیدا نہیں کیے۔ طویل پناہ گزینی کی حالت میں رہنے والوں میں 25 لاکھ افغان باشندے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مہاجر افغان ہی ہیں اور کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے پاکستان میں اس کے سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں جن کی تعداد تقریباً 16 لاکھ ہے۔

دنیا بھر میں ہزاروں مہاجرین نے اپنی زندگیوں کے بہترین اوقات خیمہ بستیوں میں گزارے اور وہ بے گھر ہونے کا باعث بننے والے بحرانوں کو تقریباً بھلا چکے ہیں۔ میانمار کے ساتھ ملحق تھائی لینڈ کی سرحد پر میانمار کے کیرن اقلیت کے ایک لاکھ 20 ہزار افراد 20 برس سے زائد عرصہ سے مہاجر بستیوں میں مقیم ہیں۔ صرف شام ہی میں 65 لاکھ بے گھر افراد موجود ہیں۔ ان کے لیے خوراک، پانی، قیام اور طبی سہولت تک رسائی محدود ہے۔
شام کے بحران کے دوران اردن، لبنان اور ترکی نے اپنی سرحدیں کھلی رکھیں۔ 
اس وقت لبنان میں 10 لاکھ سے زائد مہاجرین ہیں یعنی اس کی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی شامی باشندے ہیں۔ ان کے لیے رہائش گاہوں، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مہاجرین کی دیکھ بھال کا زیادہ تر بوجھ ان ممالک پر ہے جو خود کمزور ہیں۔ ترقی پذیر ممالک دنیا بھر کے مہاجرین کی 86 فیصد تعداد کے میزبان ہیں جبکہ دولت مند ممالک محض 14 فیصد کا خیال رکھ رہے ہیں۔ 10 برس قبل دولت مند ممالک 30 فیصد اور ترقی پذیر ممالک 70 فیصد مہاجرین کے میزبان تھے۔

بہر حال یہ ’’محفوظ تر‘‘ دنیا مفت میں تھوڑے ہی ہاتھ آئی۔ ’’معمار اعظم‘‘ امریکہ کے 6 ٹریلین ڈالر اور ساڑھے 4 ہزار فوجی تابوت تو صرف عراق کو مشرق وسطیٰ کا مینارہ جمہوریت بنانے کے منصوبے پر لگ گئے۔ اس خرچ میں اس جدید عراقی فوج کی تعمیر بھی شامل ہے جس نے پچھلے ایک ماہ میں ثابت کر دیا کہ دشمن سامنے نہ ہو تو اس سے زیادہ جری سپاہ پورے خطے میں نہیں اور اب دنیا اور محفوظ ہوجائے گی جب امریکہ 650 بلین ڈالر کے خرچ سے تعمیر ہونے والے نئے اور جمہوری کرزئی گزیدہ افغانستان کو اگلے برس شکاری اور خرگوش کے ساتھ بیک وقت دوڑنے میں طاق افغان قیادت کے حوالے کر جائے گا۔ اس افغانستان کی بنیادوں میں اب تک ایک لاکھ سے زائد ’بے قیمتی‘ مقامی عوام کے ساتھ ساتھ 3500 امریکی فوجیوں اور سویلین کنٹریکٹروں کا قیمتی خون بھی شامل ہو چکا ہے۔ نجیب اللہ نے سوویت یونین کی رخصتی کے بعد بھی 3 یا ساڑھے 3 برس قبائلی طوفان کے تھپیڑے سہہ گیا تھا۔ موجودہ کابلی ڈھانچہ کا تو اللہ ہی جانے کیا ہو گا

قبا چاھئے اس کو خون عرب سے........


عراق تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، اگر وہاں دوبارہ لڑائی چھڑتی ہے تو اس کے باعث خام تیل کی قیمتوں پر اثر پڑے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

عراق کی صورتحال دن بہ دن دھماکا خیز ہوتی جا رہی ہے۔ شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے عراق کی مغربی سرحد پر قبضہ کے بعد اس خطہ میں حکومت کی عمل داری ایک طرح سے ختم ہو گئی ہے۔ دوسری جانب عراقی حکومت داعش کی پیش قدمی کے باعث بے بس نظر آتی ہے اور اس نے امریکا سے درخواست کی ہے کہ اسے فوری طور پر فضائی امداد فراہم کی جائے۔

عراق میں صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری عراق پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم نوری المالکی سے ملاقات کر کے یہ کہا ہے کہ حکومت میں عراق کے تمام فریقوں کو حصہ داری دی جائے تاکہ سنی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے کسی بڑے ٹکرائو کو روکا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف عراقی حکومت امریکا سے براہ راست مداخلت کی درخواست کر رہی ہے، وہیں دوسری جانب ایران کے سب سے بڑے مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ عراق میں مداخلت کے لیے بہانے تلاش کر رہا ہے۔

امریکا نے عراق پر حملہ کے آٹھ سال بعد 2011ء میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے اپنی فوجیں ہٹا لینے کا اعلان کیا تھا کہ عراق میں اب القاعدہ کی رہنمائی میں سنی ملیشیا کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بڑے تمسخرانہ انداز میں کہا تھا کہ انہوں نے عراق میں موجود القاعدہ تنظیم کی ایک طرح سے کمر توڑ دی ہے، جس کا دوبارہ سر اٹھانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لیکن ان کو شاید یہ علم نہیں تھا کہ بظاہر طور پر خاموش ہو جانے والے شدت پسند مصلحت کے تحت ضرور خاموش ہو گئے لیکن انہوں نے اندر ہی اندر تیاری کر کے اپنی طاقت کو مجتمع کر لیا ہے۔ ان عناصر کو عراق کے اس طبقہ کی بھی حمایت حاصل رہی جو موجودہ حکومت کے استحصال کا شکار رہا۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے بعض افسران نے صدام حسین کے دور کا انتقام بے گناہ لوگوں سے لیا، جس کی وجہ سے ان لوگوں کے اندر غم و غصہ تھا۔

داعش کے ارکان نے عراق میں جب اپنی کارروائی شروع کی تو ان لوگوں نے اسے اپنے نجات دہندہ کے طور پر دیکھا اور عراقی باشندے اب کھل کر اس تنظیم کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کی جانب سے جب کارروائی شروع کی گئی تو جلد ہی عراق کے کئی شہر اس کے زیر نگیں ہو گئے اور عراقی فوج کسی بھی محاذ پر ان کے سامنے ٹک نہیں پائی اور جس جگہ بھی ٹکراؤ ہوا، میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ عراق فوج کی بے بسی کا اندازہ عراق کے وزیر خارجہ کے اس بیان سے ہو جاتا ہے کہ عراق کے پاس فضائیہ نہیں ہے اور نہ ہی جنگی طیارے ہیں۔ اس کے باوجود کہ حکومت کو داعش سے درپیش خطرے کا پہلے سے ہی علم تھا، لیکن عراقی فوج ان کے سامنے بالکل بے بس نظر آئی۔

یہی وجہ ہے کہ داعش نے دفاعی لحاظ سے اہم شمالی شہر تل عفر کے ہوائی اڈہ پر آسانی سے قبضہ کر لیا۔ اس طرح داعش کے جنگجوؤں نے عراق کے بڑے حصہ کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا، جس کے آغاز موصل پر قبضہ شے شروع ہوا تھا۔ یہی نہیں داعش کے جنگجوؤں نے انبار صوبہ کے سنی اکثریت والے قصبوں میں اپنے پیر جما لیے۔ اس طرح جنگجوؤوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کا راستہ صاف ہو گیا۔ اردن اور شام کی سرحدی چوکیوں پر تقریباً 90 فیصد علاقہ پر باغیوں کا قبضہ ہے۔ کئی مقامات پر فوج اور پولیس نے اپنی چوکیوں کو چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی، جب باغیوں نے انہیں خون خرابہ سے بچنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کر دیا تھا۔

داعش کے شدت پسندوں نے جس طرح بغداد کی جانب اپنی پیش قدمی جاری رکھی ہے، اس سے بغداد کے اندر لوگوں میں ایک طرح کی سراسیمگی سی پائی جاتی ہے۔ اب جس طرح سے عراقی حکومت بار بار امریکہ سے فضائی حملہ کی درخواست کر رہی ہے، اس سے عراق میں ایک بار پھر بڑے پیمانہ پر قتل و غارت گری کے خدشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عراق میں تیل کی دولت پر قبضہ جمانے کے لیے امریکہ نے جس طرح بڑے پیمانہ پر تباہی مچائی، اس سے لاکھوں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایک ہنستا مسکراتا ملک آہ و بکا کے لیے مجبور ہو گیا۔ ہولناک بمباری کے باعث آج بھی وہاں ہزاروں افراد جن میں بوڑھے اور بچے بھی شامل ہیں، معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ اگر پھر دوبارہ وہاں بمباری کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی زد میں معصوم شہری آئے بغیر نہیں رہیں گے۔

عراق تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، اگر وہاں دوبارہ لڑائی چھڑتی ہے تو اس کے باعث خام تیل کی قیمتوں پر اثر پڑے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ ہندوستان جس کا تیل کے درآمدات پر بہت بڑا انحصار ہے، تیل کی قیمتوں پر اضافہ سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کا براہ راست اثر پوری معیشت پر پڑے گا۔ جب سے عراق میں زیادہ گڑبڑی پیدا ہوئی ہے، خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونا بھی شروع ہو گیا ہے۔ شدت پسندوں کی جانب سے وہاں کی آئل ریفائنری پر قبضہ کیے جانے کے بعد عراق سے تیل کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت خام تیل کی قیمت 9 مہینے کی سب سے اونچی شرح 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے۔ اگر عراق کا بحران فوری طور پر حل نہیں کیا گیا تو ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر جو زبردست بوجھ پڑے گا، اس کا خمیازہ 
عوام ہی کو برداشت کرنا پڑے گا۔