Showing posts with label Islamabad Dharna. Show all posts

اب عمران خان کیا کریں گے؟.......


عمران خان کو اپنا آزادی مارچ اسلام آباد لائے ہوئے ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ شام کے وقت جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہوتی جارہی ہے، جبکہ تقاریر کا سخت ہوتا ہوا لہجہ بڑھتے ہوئے ہیجان کا پتہ دے رہا ہے۔ امیدیں اور وعدے اب بے چینی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اگر طاہر القادری کے حامی شارع دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے نا ہوتے، تو یہ سب ابھی اور بھی پھیکا ہوتا۔ لیکن عمران خان اب بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ لگتا یہ ہے کہ وہ اس لڑائی کو اب تلخ اختتام پر لے جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ رسک زیادہ ہے، اور آپشن کم رہ گئے ہیں۔ تو، اب عمران خان کیا کریں گے؟
کرکٹ کے برعکس سیاست میں کوئی بھی ہار جیت حتمی نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت کے اس کھیل میں ہار جیت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوتی۔ ہر نئے دن جیت کی ایک نئی کشمکش۔ پر کرکٹ کو سیاست کے ساتھ ملا دینے کا خیال کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے۔ عمران خان کی خود پسندی، ضد، اور حساب کتاب میں گڑبڑ ان کی غلطیاں ثابت ہوئی ہیں۔

وہ مزید چیزیں داؤ پر لگائے جارہے ہیں، جبکہ وہ انتخابی اصلاحات، اور انتخابات کی تحقیقات کی حکومتی پیشکش کو تسلیم کر کے جیت سکتے تھے۔ لیکن اپنے بے منطق کے اقدامات کی وجہ سے وہ اب اپنی اس پارٹی کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈال چکے ہیں، جس نے تعلیم یافتہ شہری مڈل کلاس کو سیاسی قوت میں بدل کر پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔

یہ حقیقت ہے، کہ پاکستان تحریک انصاف کی کرپشن، موروثی سیاست، اور قانون کی خلاف ورزی کے خلاف چلائی جانے والی مہم نے عوام کی اکثریت کو متاثر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی، کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا، کیونکہ لوگوں کے نزدیک یہی جماعت باریاں لینے والی دوسری جماعتوں سے مختلف تھی۔ لیکن ایک جس چیز جس کی کمی ہمیشہ سے رہی ہے، وہ ہے تبدیلی کا وژن، اس تبدیلی کا جس کا وہ بار بار وعدہ کرتے ہیں۔

ان کے تیز طرار بیانات اب صرف کھوکھلی باتوں میں بدل گئے ہیں۔ اہم سیاسی، سماجی، اور اقتصادی معاملات پر ان کے خیالات ان کے تبدیلی کے نظریے سے میل نہیں کھاتے۔ ان کا سیاسی پہلو کافی قدامت پسند ہے، اور وہ ملک کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ عسکریت پسندی اور طالبان پر ان کا مؤقف کافی پریشان کن رہا ہے۔ وہ پر کشش تو ہیں، لیکن ان میں وہ بات نہیں پائی جاتی، جو تبدیلی لانے والے لیڈروں میں ہوتی ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ان کے حالیہ اقدامات ہیں۔
یہ یقینی ہے کہ پی ٹی آئی کے اس دھرنے نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ان کی گہری نیند سے جگا دیا ہے، اور یقین دہانی کرا دی ہے کہ عوام اب اس سسٹم سے تنگ آچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے ایک مہینے سے جاری دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بے مثال باب ہے۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کو بھی سسٹم بچانے کے لیے تمام سیاسی قوتوں سے مدد لینی پڑی ہے۔

لیکن حالیہ دھرنوں نے پی ٹی آئی کی سیاسی ناپختگی، اور موقع پرستی کو ظاہر کردیا ہے۔ پارٹی نے اپنی پوری اسٹریٹیجی صرف یا تو امید پر قائم رکھی، یا کسی تیسری قوت کی جانب سے شریف حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی پر۔ اور جس وقت آرمی چیف ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے منظرنامے میں داخل ہوئے، تو شاید جیت کی امید مضبوط ہوئی تھی، پر یہ امید زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔
پی ٹی آئی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی، کہ اسے لگا کہ وہ لاکھوں لوگوں کو متحرک کر کے اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ لاہور سے اسلام آباد تک کے مارچ، اور اس کے بعد کے دھرنے میں صرف کچھ ہزار لوگ ہی شامل ہوئے۔

دیکھا جائے تو اسلام آباد میں ایک مہینے سے جاری دھرنے کا ملک کے باقی حصے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ عمران خان کی ملک بھر میں احتجاج کی اپیلوں کو کوئی خاص رسپانس نہیں ملا، صرف کراچی اور لاہور کے پوش علاقوں میں کچھ پارٹی کارکنوں کے اجتماع ہوئے اور بس۔ سول نافرمانی، اور ٹیکسوں اور بلوں کی عدم ادائیگی بھی ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ صرف پارٹی کے کچھ وفاداروں نے پشاور-اسلام آباد روڈ پر ٹول ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا، جبکہ کچھ اپر کلاس کے لوگوں کو ریسٹورینٹس کی انتظامیہ سے جی ایس ٹی کاٹنے پر جھگڑتے ہوئے دیکھا گیا۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں (خیبرپختونخواہ کے علاوہ) سے استعفے دینے کے فیصلے نے بھی نا صرف پارٹی کو اندرونی طور پر تقسیم کیا، بلکہ اس کی سیاسی تنہائی میں اضافہ کیا۔ اس وقت پارٹی کے ساتھ کوئی بھی اتحادی موجود نہیں ہے۔ اگر پارٹی پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرتی، تو اس کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوسکتی تھی۔ لیکن اس کے بجائے عمران خان نے پارلیمنٹ کو چوروں کا اڈہ قرار دے ڈالا۔

لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ نے منتخب حکومت کا ساتھ دینے میں بلوغت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ اور تو اور پی ٹی آئی کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کی حمایت کر کے دوسری جماعتوں نے پی ٹی آئی کو بھی زندگی دینے کی کوشش کی۔ اور اگر اب تک پی ٹی آئی کے اسمبلیوں سے استعفے منظور نہیں ہوئے ہیں، تو یہ بھی اس لیے کہ اپوزیشن جماعتوں نے استعفے منظور کرنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اب اس کو زیادہ عرصے تک ٹالا نہیں جا سکے گا۔ اسمبلیوں سے باہر بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کی قانون سازی کرانا پی ٹی آئی کے لیے اور بھی مشکل ہوجائے گا۔

وزیر اعظم کے استعفے کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام مطالبات پر اتفاق رائے موجود ہے۔ پارٹی اس کے لیے کریڈٹ لے کر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتی تھی، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی۔ عمران خان موجودہ بساط لپیٹ کر جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ وہ صرف انارکی کی حالت پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور حکومت کے رٹ کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔

دار الحکومت کی ایک معطل شدہ انتظامیہ نے پہلے ہی مظاہرین کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ اور عمران خان کی جانب سے اپنے گرفتار کارکنوں کو چھڑا لیا جانا اس بات کا ثبوت ہے۔ اس بڑھتے ہوئی سیاسی ہلچل اور طاقت کے خلا میں کسی غیر آئینی مداخلت کو راستہ مل سکتا ہے، اور شاید پی ٹی آئی چاہتی بھی یہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے، جو مکمل تباہی پر بھی ختم ہوسکتا ہے۔ اس بحران کا حل جمہوریت میں موجود ہے، پھر اس میں بھلے ہی کتنی ہی خامیاں ہوں، پر اس بحران کا سسٹم سے باہر کوئی حل نہیں ہے۔

زاہد حسین

زبان کا سرکش گھوڑا.......



الفاظ کا موزوں اور بروقت استعمال ہی انسان کی پہچان ہے ورنہ کھاتے پیتے اور جیتے تو حیوان بھی ہیں ۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو کبھی امیدوں کے چراغ بن کر راستہ دکھاتے اور ٹوٹے دلوں کی ڈھارس بندھاتے ہیں لیکن الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو یہی الفاظ اندیشوں اور خوف کی زنجیریں بن کر پیروں سے چمٹ جاتے ہیں۔ الفاظ کبھی نشتر بن کر دل میں اُتر جاتے ہیں اور کبھی دل میں اُتر کر گھائو مٹاتے ہیں۔ الفاظ ہی ہیں جو رُلاتے ہیں ،ہنساتے ہیں،نیک نامی کا باعث بن جاتے ہیں یا پھر رسوا کر جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو قانون کی گرفت بہت ڈھیلی ہے اور یہ تصور نہیں کہ الفاظ کی پاداش میں کسی شخص کو سزا ہو سکے مگر متمدن معاشروں میں قانون صرف اعمال پر ہی سرکوبی نہیں کرتا بلکہ الفاظ پر بھی حرکت میں آتا ہے۔ چند برس قبل ایک امریکی موسیقار کو نازیبا الفاظ کے استعمال پر 4 لاکھ 30 ہزار ڈالر ہر جانہ ادا کرنا پڑا۔ خاتون موسیقار کورٹنی لو نے ڈیزائنر لیموران سے متعلق اہانت آمیز الفاط استعمال کیئے تو اس نے ہتک عزت کا دعویٰ کردیا۔ جن معاشروں میں قانون کی عملداری ہے وہاں تولنے کے بعد بولنے کا تصور ہے کیونکہ الفاظ گلے کی پھانس بن جاتے ہیں۔ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی سوچ سے متعلق محتاط رہیں کیونکہ آپ کی سوچ الفاظ کا روپ دھار کر سامنے آتی ہے۔

الفاظ کی ادائیگی سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ آپ کے الفاظ آپ کے اعمال کی صورت گری کرتے ہیں۔ اعمال احتیاط کے متقاضی ہیں کیونکہ یہ عادات میں بدل جاتے ہیں، عادات سے اغماض نہ برتیں کیونکہ یہ کردار کی عمارت کا بنیادی ستون ہوا کرتی ہیں اور کردار کی اہمیت اس لیئے مسلمہ ہے کہ اس پر آپ کے مقدر اور قسمت کا انحصار ہوتا ہے۔ یوں تو کسی شخص کی زندگی میں الفاظ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر خارزار سیاست میں قدم رکھنے والوں کو پہلا سبق ہی یہی دیا جاتا ہے کہ زبان کے سرکش گھوڑے کی لگام ڈھیلی نہ ہونے دیں کیونکہ چرچل کے بقول سیاست کا عمل بھی قریباً جنگ جیسا ولولہ انگیز اور خطرناک ہے۔ جنگ میں آپ صرف ایک بار مرتے ہیں اور رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں آپ کو بار بار موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح جنگ میں گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دینے والا سوار عبرتناک شکست کے قریب تر ہو جاتا ہے اسی طرح سیاست کے میدان میں وہ شہسوار منہ کے بل گرتا ہے جو زبان کے گھوڑے کی طنابیں ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔ سیاستدانوں کا وصف یہ ہے کہ وہ کم بولتے ہیں ،جہاں ایک لفظ سے کام چلتا ہو، وہاں جملہ ضائع نہیں کرتے اور جہاں ایک فقرے سے ضرورت پوری ہو جائے وہاں تقریر جھاڑنے کی حماقت نہیں کرتے۔ موجودہ دور میں تو کم گوئی اور سوچ سمجھ کر بولنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرے بیان کو تروڑ مروڑ کا شائع کیا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، ٹی وی چینلز فوراً کلپنگ نکال کر دکھا دیتے ہیں کہ آپ نے چند برس قبل کیا کہا تھا۔

انسان خود تو مرجاتا ہے لیکن اس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں مثلاًذوالفقار علی بھٹو جن کا شمار صف اول کے سیاستدانوں میں ہوتا ہے ،اگرچہ وہ اپنے الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے مگر ان کے چند جملے آج بھی ان کا تعاقب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے پر دھمکی دی کہ جس نے اس میں شرکت کی ،میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اِدھر ہم، اُدھر تم کا جملہ لاکھ وضاحتوں کے باوجود پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جذبات کی روانی میں انہوں نے کہا، اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو ہمالیہ خون کے آنسو روئے گا، مگر یہ جملہ طنز و استہزاء کا استعارہ بن گیا۔ ضیاء الحق نے کسی صحافی کے سوال پر جھنجھلا کر کہہ دیا، آئین ہے کیا شے، چند صفحات کی ایک دستاویز جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ ضیاء الحق خود تو دنیا سے رخصت ہو گیا مگر اس کا یہ جملہ آج بھی سوہان روح بنا ہوا ہے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کی، اسے چارٹر آف ڈیموکریسی کی لحد میں اتار دیا گیا مگر یہ گڑا مردہ پھر بھی باہر نکل کر واویلا کرنے سے باز نہیں آتا۔ پرویز مشرف کے دور میں بلوچوں سے بہت ناانصافیاں ہوئیں ،کئی فوجی آپریشن ہوئے لیکن اس کا ایک جملہ بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ مہلک ثابت ہوا کہ یہ ستر کی دہائی نہیں کہ یہ پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے، ہم انہیں وہاں سے ماریں گے جہاں سے انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔

آصف زرداری کا شمار پاکستان کے کایاں ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زبان بندی کو اپنی طاقت بنایا اور لب کشائی کے معاملے میں بہت محتاط رہے۔ جب سیاسی مخالفین کی کڑوی کسیلی باتوں کا حوالہ دیا جاتا تو وہ کوئی جواب دینے کے بجائے بات کو ہنس کر ٹال دیتے۔ لیکن ججوں کی بحالی سے متعلق ان کے منہ سے ایک جملہ نکل گیا کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور یہ جملہ ان کے ناقدین کا کام آسان کرگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جوش خطابت میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور پھر ان کے بڑے بھائی وضاحتیں دیتے رہ جاتے ہیں۔ یوں تو ان کے بیشمار جملے بدنامی کا باعث بنے لیکن جو زبان انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں منتخب صدر کے حوالے سے استعمال کی ،وہ آج بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ مثلاًوہ ان پر علی بابا چالیس چور کی پھبتی کستے رہے۔ انہوں نے کہا تھا،اگر میں نے آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ بعض اوقات سیاستدانوں سے سہواً ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں کہا تھا، یہ شیدا ٹلی، اس کو تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں ۔ لیکن آج وہی شیخ رشید ان کے سب بڑے مشیر ہیں۔ اس طرح کے معترضہ جملے اور ناپسندیدہ بیانات کم و بیش ہر سیاستدان سے منسوب ہیں اور سب کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے لیکن عمران خان گزشتہ ایک ماہ سے جس فراوانی سے اپنی زبان کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں ،اسے سیاسی نادانی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ اوئے نواز شریف، اوئے افتخار چوہدری تو ان کا طرز تخاطب تھا ہی مگر کبھی وہ آئی جی اسلام آباد کو بندے کا پتر بننے کی نصیحت کرتے ہوئے دھمکی دیتے ہیں کہ میں تمہیں جیل میں ڈال دوں گا۔ ان کے کئی بیانات تو ایسے ہیں کہ نقل بھی نہیں کیئے جا سکتے۔ جس پارٹی کا قائد پنجابی فلموں کے غنڈوں جیسے لہجے میں بات کرتا ہو ،اس کے کارکن مخالفین کو غلیظ گالیاں نہ دیں تو اور کیا کریں۔

کاش ! وہ اس ایک مہینے میں شاہ محمود قریشی سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ کاش  کسی پڑھے لکھے شخص نے چرچل کی بات یاد دلائی ہوتی کہ نازیبا الفاظ نگل لینے سے آج تک کسی کا معدہ خراب نہیں ہوا۔ کاش ! وہ یہ سمجھ سکتے کہ زبان کسی تیز دھار آلہ کی مثل ہے،ماہر سرجن کے پاس ہو تو نشتر اور اگراناڑی کے پاس ہو تو خنجر۔ کاش وہ کبھی فرصت کے لمحات میں غور کریں کہ وہ امیر ہیں یا غریب؟ کیونکہ خود احتسابی کا طریقہ یہ ہے کہ ہراچھے لفظ پر آپ کو دس روپے ملیں اور برے لفظ پر پانچ روپے واپس لے لیئے جائیں تو جمع تفریق کے بعد کیا پوزیشن ہو گی۔ ان کے منہ کے بل گرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے زبان کے سرکش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا تھا۔

محمد بلال غوری
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 
 

باغیوں کی ضرورت ہے.....



پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے وزیر اعظم نواز شریف کو خبردار کیا، کہ انہیں شک ہے کہ جیسے ہی بحران ختم ہوگا، ان کے وزراء واپس خودپسند اور متکبر ہوجائیں گے۔

میں بھی گیلری میں بیٹھا ہوا ان کے خیالات سن رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، کہ حکمران جماعت قومی اسمبلی میں ایک فیصلہ کن اکثریت رکھنے کے باوجود اس بحران میں کیوں آ پھنسی ہے۔ مجھے جواب تب ملا، جب میں نے سیشن کے اختتام پر دیکھا، کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی اعتزاز احسن کو مبارکباد پیش کر رہے تھے، کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ان کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔

یہ لاتعلقی کا وہ مظاہرہ ہے، جو نواز شریف اپنے ممبران سے برتتے ہیں، سوائے ان چند کے، جن کے ساتھ ان کے یا تو خاندانی تعلقات ہیں، یا ان کی ذاتی ترجیحات میں شامل ہیں۔

حالیہ سیاسی بحران جلد یا بدیر حل ہو ہی جائے گا۔ لیکن جو لوگ اقتدار میں موجود ہیں، ان کا رویہ دیر کے بجائے جلد ہی ایک اور بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان میں گورننس کے اسٹائل کو سیاسی اور انتظامی طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری جیسے پارلیمینٹیرین اور مظاہرین سیاسی سائیڈ کو درست کر سکتے ہیں، لیکن میں حیرت میں مبتلا ہوں، کہ آخر انتظامی امور کو کون درست کرے گا۔

شریف برادران کے شاہانہ رویے نے زیادہ تر بیوروکریسی کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اور اس کا اثر ہم پورے ملک میں محسوس کر سکتے ہیں، کیونکہ پنجاب اور مرکز کی حکومت ہی پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ایسی اجنبیت پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کے خواہشمند غنڈوں کے سامنے چھوٹی لگ سکتی ہے، لیکن یہ ایک بہتر گورننس والے پاکستان کے کاز کو زیادہ نقصان پہنچائے گی، کیوںکہ اس کی وجہ سے سسٹم میں خامیاں جنم لیتی ہیں۔

سول سروس میں انتظامی تبدیلیوں کی بات ایک اسی سالہ سابق سول سرونٹ، اور رائیونڈ میں موجود کچھ لوگوں کو نہیں کرنی چاہیے۔ مشیر ضرور ہونے چاہیں، پر ایسے، جو تمام نکات پر گہری سوچ رکھتے ہوں، اور کسی یا کچھ افراد کی طرفداری نا کرتے ہوں۔ ورنہ باقی کی بیوروکریسی اجنبیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

سیکریٹیریٹ کے گروپ افسر سے پوچھیں، گورنمنٹ سروس میں موجود استاد، ڈاکٹر، اور انجینیئر سے پوچھیں کہ آیا وہ سول سروس کے معاملات سے خوش ہے۔ رواں سال کے آغاز میں پنجاب پولیس سروس میں تقریباً بغاوت ہو چکی تھی، کیوںکہ اینٹی ٹیررازم اسکواڈ آئی جی پولیس کے بجائے صوبائی وزارت داخلہ کے ماتحت بنایا گیا تھا۔ 18 مارچ 2011 کو 76 پی سی ایس افسران کو صرف اس لیے گرفتار کر کے ان کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر طرفداری پر مبنی تقرریوں اور ترقیوں کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تھا۔

جب یہی حکومت مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کیس درج کرا سکتی ہے، تو پھر اس کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ماڈل ٹاؤن واقعے کی ایف آئی آر درج نا کرانے پر مقدمہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ پنجاب پولیس کی جانب سے مطالبوں کے لیے مظاہرہ کرتے ڈاکٹروں پر تشدد کی تصاویر بھی ابھی تازہ ہیں۔

پنجاب میں ایک جونیئر افسر کو ایک سینئر پوزیشن پر تعینات کرنا معمول کی بات ہے، کیونکہ ایک ایسا شخص جو کسی کی "مہربانی" کی وجہ سے اپنی قابلیت سے ہٹ کر کسی پوسٹ پر موجود ہے، وہ احکامات کی تعمیل بہتر طور پر بجا لا سکتا ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں، کہ پنجاب کے ڈی پی او اور ڈی سی او ہمہ وقت احکامات کے لیے چیف منسٹر ہاؤس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

صاف الفاظ میں کہیں تو یہ ایک کھلا راز ہے، کہ موجودہ حکومت ان انتہائی قابل سول سرونٹس کو بھی صرف اس لیے ناپسند کرتی ہے، کیونکہ وہ درباریوں کی طرح نیازمندی نہیں دکھاتے۔

وزیر اعظم نواز شریف کا اپنے مشیروں کے مشورے سننا ضروری نہیں کہ اچھی بات ہو، کیوںکہ ان کا مشیروں کا انتخاب بھی بہت کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں ہے۔ سول سروس کے معاملات کو سیاسی وفاداریاں رکھنے والے مشیروں کی مدد سے طے نہیں کرنا چاہیے، کیوںکہ ان کی رائے صرف سیاسی رجحانات کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور فوکس ادارہ سازی سے ہٹ جاتا ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ڈسٹرکٹ مینیجمینٹ گروپ (ن)، یا پولیس سروس آف پاکستان (ن) بنانے کی کوششیں نا رکیں، تو پاکستان ایک بحران سے دوسرے کے درمیان جھولتا رہے گا۔ 
ایک گروپ کے طور پر سول سرونٹس کو سیاسی طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ لیکن اسی وقت ریاست سے ان کی وابستگی بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت سول سرونٹس کو حکومتی معاملات میں مالکیت کا احساس (sense of ownership) دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔

آخر میں، میں وزیر اعظم نواز شریف سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جب جاوید ہاشمی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، تو آپ نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ مخصوص اصول کے لیے کھڑے ہوئے، یا اس لیے، کہ وہ اس اصول کے لیے کھڑے ہوئے جو آپ کے لیے فائدہ مند تھا۔

اس ملک کو جاوید ہاشمی جیسے مزید باغیوں کی ضرورت ہے، نا صرف سیاست میں، بلکہ بیوروکریسی میں بھی۔

سید سعادت

Imran Khan and Tahirul Qadri Long March and Dharna