Showing posts with label Jamat Islami. Show all posts

The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

محترم نصر اللہ شجیع بھائی کو ان کی عظیم قربانی کے لیے داد شجاعت دیتے ہوئے حکومت پاکستان نے تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے نصر اللہ شجیع بھائی وہ عظیم استاد تھے جنہوں نے اپنے اس نفسا نفسی کے دور میں اپنے ایک طالب علم کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ ہمارے وطن کے حقیقی ہیرو ہیں


The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

Nasrullah Shaji, The unsung Brave Hero



نصراللہ شجیع کو عوامی ریلیوں اور جلسوں کے انتظامات اور کمپیئرنگ کے فن میں خاص کمال اور تجربہ حاصل تھا۔ وہ اپنی منفرد اور پُرجوش کمپیئرنگ سے جلسوں اور جلوسوں کے ہزاروں شرکاء کو منظم اور گرمائے رکھنے کا فن جانتے تھے۔ شجیع نے جماعت اسلامی کے بیشتر تاریخی جلسوں کی کامیاب اور شاندار کمپیئرنگ سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری بڑی اور تاریخی کمپیئرنگ نومنتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کی پہلی بار کراچی آمد کے موقع پر ایئرپورٹ پر اور ادارۂ نور حق کے استقبالیہ اجتماعات میں کی تھی، جس میں ان کا جوش جنون کی صورت میں نمایاں تھا۔ یہاں نصر اللہ خان شجیع کے فن کمپیئرنگ کا مطالعہ مطلوب نہیں ہے (اگرچہ یہ ان کی شخصیت کے مطالعہ کا ایک اہم موضوع ہے) بلکہ دورانِ کمپیئرنگ ان کے وہ نعرے ہیں جن کی معنویت اور شعور سے وہ سرشار تھے۔ جب وہ نعرہ زن ہوتے تھے تو اُن میں ان نعروں کی معنویت اور شعور کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ جلسوں میں بہت سے نعرے لگاتے تھے جو جماعت 
کی فکر اور پیغام کی ترجمانی کرتے تھے، لیکن ان کا یہ نعرہ

اس زندگی کی قیمت کیا؟ لا الہٰ الا اللہ
تیری میری آرزو … شہادت، شہادت

محض نعرہ نہیں تھا بلکہ شجیع کا فلسفۂ زندگی تھا۔ وہ اللہ کی رضا کی سعادت کے لیے جیے اور شہادت کی موت مرے۔ گویا انہوں نے اپنے نعروں کے مصداق اپنی زندگی کا مشن مکمل کرلیا۔
نصراللہ خان شجیع 2 جون کو سید احمد شہید ؒ کی سرزمین بالاکوٹ میںدریائے کنہار میں اپنے ایک شاگرد حافظ سفیان عاصم کی زندگی بچاتے ہوئے ڈوب کر شہید ہوگئے تھے۔ 2 جون سے 17جون تک اُن کے اہلِ خانہ اور تحریکی احباب نے ایک ایک لمحہ شدید کرب اور کشمکش میں گزارا، کیونکہ شجیع اور سفیان کی نعشیں دریا سے بازیاب نہ ہوسکی تھیں۔ بالآخر اُن کے اہلِ خانہ کی اجازت سے 17 جون کو ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کردی گئی، تاہم نعشوں کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔

نصراللہ خان شجیع بھائی کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ان کی بے مثال شخصیت، سیرت اور خدمات کے شایانِ شان ’’دھوم دھام‘‘ سے ادا کی گئی۔ مقررہ وقت سے قبل ہی ان کے چاہنے والے ادارۂ نورِ حق نیو ایم اے جناح روڈ پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں بزرگ، نوجوان، بچے، سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان، علماء کرام اور اساتذہ کرام سمیت تقریباً تمام ہی شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل تھے، جو شجیع کی دلنواز شخصیت کا اعتراف تھا۔ نصراللہ خان شجیع کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اجتماع کراچی کے پُرآشوب حالات میں وحدت و یک جہتی اور اتحاد و برکت کا پیغام بن گیا۔ غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ خاص طور پر لاہور سے تشریف لائے۔ اکابرینِ جماعت اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، محمد حسین محنتی، انجینئرحافظ نعیم الرحمن اور قیم عبدالوہاب سمیت نائب امراء و نائب قیمین اور امرائے اضلاع نے شرکت کی۔

غائبانہ نماز جنازہ سے قبل شہر کی تقریباً تمام نمائندہ دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے وقت کی تنگی کے باعث ایک سے ڈیڑھ منٹ کے مختصر مگر جامع خطاب میں نصراللہ خان شجیع کی شخصیت کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔‘ سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع اقامتِ دین کے جانباز سپاہی اور مولانا مودودیؒ کی فکر و تحریک کے مرجع خلائق تھے، انہوں نے شہر کراچی کو ظالموں اور بھتہ خوروں کے چنگل سے آزاد کرانے اور شہریوں کے حقوق کی جدوجہد کی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ شجیع عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے لیکن کام بہت بڑا کرگئے۔ اسد اللہ بھٹو نے شجیع کو بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے خلاف جرأت کی علامت قرار دیا۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع دھرتی کا سپوت، اتحاد کی علامت اور ظلم و برائی کے خلاف جرأت و شجاعت اور حق کی آواز تھی۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع کی شہادت پر پورا ملک سوگوار ہے، دین و ملت کے لیے ان کی خدمات تاریخ کا روشن باب ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما وقار مہدی نے کہا کہ شجیع کی محبت اور رویہ ہم سب کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ نجمی عالم نے کہا کہ شجیع کی شہادت پر پی پی کا ہر کارکن مغموم ہے، اس شہر میں جہاں سچ کہنا مشکل ہے، وہ ببانگِ دہل حق اور سچ کا پرچار کرتا تھا۔ مزدور رہنما حبیب جنیدی نے شجیع کی شہادت کو پوری قوم و ملک کا نقصان قرار دیا۔

غائبانہ نمازِ جنازہ کے اجتماع سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ طارق نذیر، تحریک انصاف کے آفتاب جہانگیر، جے یو آئی (ف) کے اسلم غوری، جے یو آئی (س) کے قاری عبدالمنان انور، مسلم لیگ کے نواز مروت، جے یو پی کے مفتی غوث صابری اور شجیع کے بھائی وقار خان نے بھی خطاب کیا۔
غائبانہ نمازِ جنازہ کی امامت لیاقت بلوچ نے کی۔ جبکہ آخر میں بابائے کراچی اور سابق ناظم کراچی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے دعا کی۔
نصراللہ خان شجیع جس سج دھج کے ساتھ شہادت کی مراد پانے میں کامیاب ہوئے وہ ہماری بھی آرزو ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ شجیع کے جسدِ خاکی کو بھی بازیاب کرائے، ان کی والدہ، اہلیہ، بچوں، بھائی، بہنوں، اعزہ و اقرباء اور احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے حق میں مغفرت کی دعائوں کو قبول فرمائے۔

آخر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ شجیع کی شہادت بھی شہرِ قائد کے اتحاد کی علامت ہے۔ ان کی غائبانہ نماز جنازہ میں شہر کی نمائندہ دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ شجیع سیاست میں بھی اتحاد، رواداری اور یک جہتی کی علامت تھے۔
محمدشکیل صدیقی

Help and Dua for Waziristan Displaced People





Help and Dua for Waziristan Displaced People

Tribute to Nasrullah Shaji









Tribute to Nasrullah Shaji

Remember Nasrullah Shaji









Remember Nasrullah Shaji

Nasrullah Shaji

 

جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصراللہ خان شجیع 1970میں کراچی کے علاقے حیدرآباد کالونی میں پیدا ہوئے۔ دور طالبعلمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور طلبہ سیاست میں اہم کردار کیا۔اور1996 سے 1998تک اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم مقرر ہوئے۔جامعہ کراچی سے ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی اور تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی سے منسلک ہوکر عملی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا۔نصر اللہ خان شجیع جماعت اسلامی ضلع شرقی کے امیر اور تاحال جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیرتھے۔

سال 2002 کے عام انتخابات میں ایم ایم اےکے پلیٹ فارم سے حصہ لیا کراچی کے حلقے پی ایس 116 سے 30سال کی عمر میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔اور سندھ اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے اسمبلی میں عوام کی آواز بنے۔نصر اللہ شجیع دور طالبعلمی سے ہی جوشیلے مقرر اور لوگوں میں ہر دلعزیز تھے۔طلبہ حقوق کی جدوجہد ہو یا عوامی مسائل پر آواز اٹھانے نصراللہ شجیع نے ہمیشہ اہم کردار اداکیا۔

نصراللہ شجیع شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور عثمان پبلک اسکول سسٹم کیمپس 13کے پرنسپل ہیں۔نصراللہ شجیع کے دو بیٹے اور ایک بیٹی، اہلیہ اور والدہ

Nasrullah Shaji

 

 

Enhanced by Zemanta

Al-Khidmat Foundation - Service to Humanity






Al-Khidmat Foundation - Service to Humanity

بیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے ’سزائے موت‘

بنگلہ دیش نے جو بیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے اب تک مشرقی پاکستان ہے اس کی حکومت نے اپنے ہاں مقیم کچھ لوگوں کے لیے سزائے موت کا فیصلہ دیا ہے۔ اس سے قبل وہ عبدالقادر ملا کو یہ سزا دے بھی چکے ہیں‘ جرم تھا اور ہے متحدہ پاکستان کی حمایت۔ پاکستانیوں کو یہ سزائیں چونکہ بھارت کے حکم پر دی جا رہی ہیں اس لیے ان پر عمل بھی فوراً کیا جاتا ہے اور واپسی رپورٹ بھیج دی جاتی ہے کہ حکم حاکم کی تعمیل کر دی گئی ہے۔ اطلاعاً عرض ہے‘ بھارت کو جس قدر پاکستان کِھلتا ہے اور اس کے سینے کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ اسی طرح ہر پاکستانی اور پاکستان کا نام لینے والا کہیں بھی ہو وہ گردن زدنی ہے محاورتاً نہیں حقیقتاً۔ بنگلہ دیش کی حد تک بھارت کامیاب ہے کیونکہ یہ ملک بھارت کی قطعاً ناجائز فوجی مداخلت سے قائم ہوا ہے۔ درست کہ اس کا میدان ہم پاکستانیوں نے خود تیار کیا تھا اور اس کے عوض ایک ملک اور وزارت عظمیٰ حاصل کی تھی لیکن اس میدان کو فتح بھارتی فوجوں نے کیا اور شکست کے اوزار بھارتی جرنیلوں نے وصول کیے۔

ایک بے حمیت پاکستانی جرنیل سے اور بے ضمیر پاکستانی حکمرانوں کی ٹولی اور اس کے ساتھی اور کارندے پاکستانی سیاستدانوں سے۔

دنیا نے ہماری اس قومی بے حسی کو تسلیم کیا اور پاکستان کا یہ مشرقی حصہ آج دنیا کا ایک آزاد ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی قوم خود ہی بے حس ہوجائے اور قومی حمیت ترک کر دے تو دنیا کو کیا پڑی کہ اس کو غیرت مند بناتی پھرے اور اسے غیرت مند تسلیم کرے۔ خصوصاً پاکستان کی وراثت کی دعوے دار حکومت جب یہ کہے کہ یہ ’بنگلہ دیش‘ کا اندرونی معاملہ ہے تو اس پر صف ماتم ہی بچھائی جا سکتی ہے۔ ہماری اس تاریخی بے حسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمیں مسلسل ایسے حکمران ملے ہیں جن کی حکومت میں ان کے ملک پر کھلم کھلا فضائی حملے ہوتے ہیں۔ پاکستانی مرتے ہیں اور ہم احتجاج بھی نہیں کرتے کیونکہ جس ملک کو ہم اپنے ہموطنوں سمیت فروخت کر چکے ہوں اس ملک سے ہم کس منہ سے احتجاج کر سکتے ہیں۔ ہماری اسی بے حسی زندگی کا ہی یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے وہ ہمارے گھروں میں گھس آتا ہے اور ہم اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہیں۔

دروازے کھولنے کا اعلان کرتے ہیں اور راستوں پر جھاڑو دے کر اپنے مہمان کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے اسکول کے معائنے کے لیے انسپکٹر صاحب نے آنا تھا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمارے اسکول کے برآمدے کی پیشانی پر ایک فارسی شعر لکھا جس کا مطلب تھا کہ آپ کی آمد ہماری آبادی کا سبب ہے۔ اے آمدنت باعث آبادیٔ ما۔ بھارت کو ہم عام پاکستانیوں کی دلجوئی سے کیا مطلب وہ تو ہماری دل جلانے والی باتیں ہی کرے گا اور ہم تمام پاکستانیوں کو گردن زدنی قرار دے گا۔ جب سے بنگلہ دیش نے بھی کبھی پاکستان کا نام لینے والوں اور اسے متحد رکھنے کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو سزائے موت سے کم کسی سزا کا مستحق نہ سمجھا ہو تو ہم اس کی ان کارروائیوں پر کیا احتجاج کر سکتے ہیں جن کے پس منظر میں ہمارے پاکستان کو متحد رکھنے والا جرم کارفرما ہو۔

اپنے وطن عزیز کی خود اپنی ذات کے بارے میں اس کی بے بسی کو دیکھ کر مجھے بھارت کے ان چھوٹے پڑوسیوں کی بات یاد آتی ہے کہ جب کسی دورے میں ہم سری لنکا نیپال وغیرہ جاتے اور وہاں کے شہریوں سے گپ شپ ہوتی تو وہ باتوں باتوں میں ایک بات بلا تکلف کہہ دیتے کہ ہم اپنے تحفظ کے لیے پاکستان سے امید رکھتے ہیں کیونکہ وہ بھارت کا دوست نہیں ہے اور اس سے ٹکرانے کی ہمت بھی رکھتا ہے۔ اس لیے جب بھارت ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرے گا تو پاکستان ہماری مدد کرے گا۔ تب ان دنوں ہم پاکستانی یہ سن کر بہت خوش ہوتے اور اس خطے میں اپنے آپ کو ایک طاقت سمجھتے۔ ایک موقع آیا کہ ہم نے بھارت کی تخریب کاری کے خلاف سری لنکا کی مدد کی۔ وہاں تامل باغیوں نے تباہی مچا رکھی تھی لیکن بودھ مت کے پیرو کار سری لنکا والوں کے پاس ایک برائے نام سی فوج تھی۔

انھی دنوں صدر ضیاء الحق کے ہمراہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور صدر صاحب نے ہمیں بتایا کہ میں نے سری لنکا والوں کی فوج کو اسلحہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی فوجی تربیت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ بڑی مشکل سے انھیں فوج کے قیام پر آمادہ کیا ہے چنانچہ پاکستان کے تعاون سے سری لنکا کو ان بھارتی تامل باغیوں سے نجات مل گئی۔ برصغیر کے اس خوبصورت جزیرے والوں کو پاکستان کی مہربانی یاد ہے۔ مشرقی پاکستان میں جنگ کے دوران جب بھارت کے اوپر سے ہمارے جہاز پرواز نہیں کرسکتے تھے تو وہ ایک لمبا چکر لگا کر سری لنکا کے راستے سے جایا کرتے تھے۔ سری لنکا نے بھارت کی پروا نہیں کی تھی کیونکہ پاکستان اس کے ساتھ تھا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ برصغیر کے ان چھوٹے بھارتی پڑوسیوں کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ ایسی کوئی بات اب نہیں کریں گے کیونکہ جو ملک اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اور بھارت کی خوشنودی میں لگا ہوا ہے وہ بھارت کے کسی ستم رسیدہ چھوٹے ملک کی کیا مدد کرے گا۔


میں نے طالبان سے مذاکرات کے لیے راستہ کھلا چھوڑ کر اپنی چار رکنی کمیٹی کے لیے آسانیاں پیدا کرنی شروع کر دی ہیں اور اب یہ موضوع فی الحال ترک کر دیا ہے لیکن ایک میں کس باغ کی مولی ہوں یہ کام تو ہمارے اونچے درجے کے کالم نویسوں کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے کہ وہ طالبان پر ذرا ہاتھ ہولا رکھیں اور کوشش کریں کہ ہماری یہ کمیٹی اگر بذات خود بھی وہاں جائے تو خیریت سے واپس آ جائے۔ طالبان نے ایک جواب تو اب دیا ہے کہ مذاکرات کریں یا جنگ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کر دیں لیکن مذاکرات اگر ہوتے ہیں تو خدا کرے ان میں سے امن کا کوئی راستہ نکل آئے بہر کیف اب یہ موضوع میری قلم فرسانی سے خارج ہے ایسے جب میں نے دوسرے موضوعات پر سوچا تو اندازہ ہوا کہ اصل موضوعات تو ہمارے اندرونی ہیں۔ بے روز گاری بد امنی اور گرانی وغیرہ اصل موضوعات ہیں کہ ان کے نتائج ہم عوام بھگت رہے ہیں۔ اب یہ باتیں ہوتی ہی رہیں گی فی الحال مذاکراتی کمیٹی کے حق میں دعائے خیر۔ اور ہاں ایک بات پس تحریر کہ ایک بچی کے بارے میں علاج کے لیے مالی امداد کی اپیل کی تھی ۔مشرق وسطیٰ سے تین چار پاکستانیوں نے تمام اخراجات اٹھانے کی پیش کی ہے اور جزوی طور پر تو لاتعداد لوگوں نے امداد کی خواہش کی ہے لیکن فون نہیں مل رہے جو نمبر دیے ہیں وہ شاید ناکافی ہیں۔ آیندہ بھی فون نمبر ایسے دیا کریں جو جواب دیا کریں۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Enhanced by Zemanta