Nasrullah Shaji, The unsung Brave Hero

03:23 Unknown 0 Comments



نصراللہ شجیع کو عوامی ریلیوں اور جلسوں کے انتظامات اور کمپیئرنگ کے فن میں خاص کمال اور تجربہ حاصل تھا۔ وہ اپنی منفرد اور پُرجوش کمپیئرنگ سے جلسوں اور جلوسوں کے ہزاروں شرکاء کو منظم اور گرمائے رکھنے کا فن جانتے تھے۔ شجیع نے جماعت اسلامی کے بیشتر تاریخی جلسوں کی کامیاب اور شاندار کمپیئرنگ سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری بڑی اور تاریخی کمپیئرنگ نومنتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کی پہلی بار کراچی آمد کے موقع پر ایئرپورٹ پر اور ادارۂ نور حق کے استقبالیہ اجتماعات میں کی تھی، جس میں ان کا جوش جنون کی صورت میں نمایاں تھا۔ یہاں نصر اللہ خان شجیع کے فن کمپیئرنگ کا مطالعہ مطلوب نہیں ہے (اگرچہ یہ ان کی شخصیت کے مطالعہ کا ایک اہم موضوع ہے) بلکہ دورانِ کمپیئرنگ ان کے وہ نعرے ہیں جن کی معنویت اور شعور سے وہ سرشار تھے۔ جب وہ نعرہ زن ہوتے تھے تو اُن میں ان نعروں کی معنویت اور شعور کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ جلسوں میں بہت سے نعرے لگاتے تھے جو جماعت 
کی فکر اور پیغام کی ترجمانی کرتے تھے، لیکن ان کا یہ نعرہ

اس زندگی کی قیمت کیا؟ لا الہٰ الا اللہ
تیری میری آرزو … شہادت، شہادت

محض نعرہ نہیں تھا بلکہ شجیع کا فلسفۂ زندگی تھا۔ وہ اللہ کی رضا کی سعادت کے لیے جیے اور شہادت کی موت مرے۔ گویا انہوں نے اپنے نعروں کے مصداق اپنی زندگی کا مشن مکمل کرلیا۔
نصراللہ خان شجیع 2 جون کو سید احمد شہید ؒ کی سرزمین بالاکوٹ میںدریائے کنہار میں اپنے ایک شاگرد حافظ سفیان عاصم کی زندگی بچاتے ہوئے ڈوب کر شہید ہوگئے تھے۔ 2 جون سے 17جون تک اُن کے اہلِ خانہ اور تحریکی احباب نے ایک ایک لمحہ شدید کرب اور کشمکش میں گزارا، کیونکہ شجیع اور سفیان کی نعشیں دریا سے بازیاب نہ ہوسکی تھیں۔ بالآخر اُن کے اہلِ خانہ کی اجازت سے 17 جون کو ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کردی گئی، تاہم نعشوں کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔

نصراللہ خان شجیع بھائی کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ان کی بے مثال شخصیت، سیرت اور خدمات کے شایانِ شان ’’دھوم دھام‘‘ سے ادا کی گئی۔ مقررہ وقت سے قبل ہی ان کے چاہنے والے ادارۂ نورِ حق نیو ایم اے جناح روڈ پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں بزرگ، نوجوان، بچے، سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان، علماء کرام اور اساتذہ کرام سمیت تقریباً تمام ہی شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل تھے، جو شجیع کی دلنواز شخصیت کا اعتراف تھا۔ نصراللہ خان شجیع کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اجتماع کراچی کے پُرآشوب حالات میں وحدت و یک جہتی اور اتحاد و برکت کا پیغام بن گیا۔ غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ خاص طور پر لاہور سے تشریف لائے۔ اکابرینِ جماعت اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، محمد حسین محنتی، انجینئرحافظ نعیم الرحمن اور قیم عبدالوہاب سمیت نائب امراء و نائب قیمین اور امرائے اضلاع نے شرکت کی۔

غائبانہ نماز جنازہ سے قبل شہر کی تقریباً تمام نمائندہ دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے وقت کی تنگی کے باعث ایک سے ڈیڑھ منٹ کے مختصر مگر جامع خطاب میں نصراللہ خان شجیع کی شخصیت کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔‘ سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع اقامتِ دین کے جانباز سپاہی اور مولانا مودودیؒ کی فکر و تحریک کے مرجع خلائق تھے، انہوں نے شہر کراچی کو ظالموں اور بھتہ خوروں کے چنگل سے آزاد کرانے اور شہریوں کے حقوق کی جدوجہد کی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ شجیع عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے لیکن کام بہت بڑا کرگئے۔ اسد اللہ بھٹو نے شجیع کو بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے خلاف جرأت کی علامت قرار دیا۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع دھرتی کا سپوت، اتحاد کی علامت اور ظلم و برائی کے خلاف جرأت و شجاعت اور حق کی آواز تھی۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع کی شہادت پر پورا ملک سوگوار ہے، دین و ملت کے لیے ان کی خدمات تاریخ کا روشن باب ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما وقار مہدی نے کہا کہ شجیع کی محبت اور رویہ ہم سب کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ نجمی عالم نے کہا کہ شجیع کی شہادت پر پی پی کا ہر کارکن مغموم ہے، اس شہر میں جہاں سچ کہنا مشکل ہے، وہ ببانگِ دہل حق اور سچ کا پرچار کرتا تھا۔ مزدور رہنما حبیب جنیدی نے شجیع کی شہادت کو پوری قوم و ملک کا نقصان قرار دیا۔

غائبانہ نمازِ جنازہ کے اجتماع سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ طارق نذیر، تحریک انصاف کے آفتاب جہانگیر، جے یو آئی (ف) کے اسلم غوری، جے یو آئی (س) کے قاری عبدالمنان انور، مسلم لیگ کے نواز مروت، جے یو پی کے مفتی غوث صابری اور شجیع کے بھائی وقار خان نے بھی خطاب کیا۔
غائبانہ نمازِ جنازہ کی امامت لیاقت بلوچ نے کی۔ جبکہ آخر میں بابائے کراچی اور سابق ناظم کراچی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے دعا کی۔
نصراللہ خان شجیع جس سج دھج کے ساتھ شہادت کی مراد پانے میں کامیاب ہوئے وہ ہماری بھی آرزو ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ شجیع کے جسدِ خاکی کو بھی بازیاب کرائے، ان کی والدہ، اہلیہ، بچوں، بھائی، بہنوں، اعزہ و اقرباء اور احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے حق میں مغفرت کی دعائوں کو قبول فرمائے۔

آخر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ شجیع کی شہادت بھی شہرِ قائد کے اتحاد کی علامت ہے۔ ان کی غائبانہ نماز جنازہ میں شہر کی نمائندہ دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ شجیع سیاست میں بھی اتحاد، رواداری اور یک جہتی کی علامت تھے۔
محمدشکیل صدیقی

0 comments: