Showing posts with label Afghanistan. Show all posts

What are major problems in Pakistan



The survey by the Pew Research Centre, which was partly released earlier this week, also shows that the price-hike has replaced energy shortage as the country’s number one problem. As many as 97 per cent of Pakistanis see rising prices as their number one problem while 90pc people still say it is the shortage of electricity.
The public opinion poll, taken in April and May this year, found that the United States and India, while wildly unpopular in Pakistan, earned higher favourability ratings than either Al Qaeda or the Taliban. Just 12pc of Pakistanis view Al Qaeda favourably while only 8pc say the same thing about the Taliban. Fourteen per cent Pakistani view the United States favourably and 13pc like India. The favourable view of the United States, although low, marks a 3pce increase from 2013, when only 11pc held a favourable view of the US.

The surveyors also discovered that unfavourable view of the United States had declined sharply in recent years, from a high of 80pc in 2012 to 59pc this year. This was 72pc in 2013. India too remains unpopular in Pakistan, with 71pc of respondents expressing an unfavourable view of it compared with 13pc holding a positive view. While extremely low, this 13pc rating still ranks India higher than either Al Qaeda or the Taliban. Still, Pakistanis continue to view India as a greater threat to their nation than either the Taliban or Al Qaeda. When asked which of the three groups posed the greatest threat to Pakistan, a slight majority (51pc) said that India did, compared with 25pc who answered with the Taliban and 2pc who said Al Qaeda.

In a separate survey of national priorities in Pakistan, 90pc also identified lack of jobs as the problem number one confronting Pakistan while 87pc saw the rising crime rate as their major concern. An overwhelming majority – 76pc – described the increasing rich-poor gap as the country’s number one problem. For 62pc, it is lack of health facilities and for 59pc it is the country’s corrupt leadership. Public debt is the most pressing problem for 58pc and for 57pc; it’s poor quality schooling.

Food safety comes after schooling with 52pc, followed by bad traffic, 52pc. Air pollution is a major problem for 40pc and water pollution is for 39pc. Thirty-nine per cent Pakistanis are concerned about Shia-Sunni tensions and 28pc about the situation in Afghanistan. The Indian influence in Afghanistan is a concern for 26pc.

Published in Dawn, August 30th, 2014

Pakistan's future policy towards Afghanistan by Manzoor Ijaz


 Pakistan's future policy towards Afghanistan by Manzoor Ijaz

Iraq, Afghanistan and Pakistan by Hamid Mir



 
 Iraq, Afghanistan and Pakistan by Hamid Mir

Iraq, Afghanistan and Pakistan by Ansar Abbasi


Iraq, Afghanistan and Pakistan by Ansar Abbasi

میڈیا کی بے توقیری......



Degrading media by Saleem Safi
Enhanced by Zemanta

طالبان نے کس کے ہاتھ مضبوط کیے؟؟؟


طالبان آئین کو نہیں مانتے اس لیے ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ بہت اچھا ہے۔ مگر اُن کے بارے میں کیا خیال ہے جو آئین کی اسلامی شقوں کو نہیں مانتے۔ جو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوے کھلے عام پاکستان کی نظریاتی اساس کے خلاف بات کرتے ہیں۔ جو پاکستان کے آئین میں اسلامی شقوں کو اٹھارویں ترمیم میں قائم رکھنے پر پارلیمنٹ کے ممبران کو ’’الو کے پٹھے‘‘ کہتے ہیں۔ جو پاکستان کے آئین کا نام تو لیتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔ جو فراڈ اور دھوکہ کے لیے آئین کی اسلامی شقوں کو اپنے نعروں اور تقریروں میں استعمال کرتے ہیں۔ جو آئین کی پاسداری کی قسم تو اُٹھاتے ہیں مگر اس پر یقین نہیں رکھتے۔ جو قرارداد مقاصد اور اسلامی نظریہ پاکستان کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں۔ یہ لوگ انگریزی بولتے ہیں، سوٹ ٹائی پہنتے ہیں، اپنے آپ کو سیکولر کہلواتے ہیں، امریکا و یورپ سے بڑے بڑے ایوارڈ لیتے ہیں۔

ان کی درسگاہوں میں پڑھتے ہیں، ہندوستان میں بھنگڑے ڈالتے ہیں، ہندوستان میں جا کر پاکستان کے قیام پر نوحہ پڑھتے ہیں، حتی کہ پاکستان کے خلاف ہتھیار بھی اٹھاتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے لیے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے دروازے بھی کھلے ہیں، ان کو وزیر، مشیر بھی بنایا جاتا ہے، ان کو گورنر اوروزیر اعلیٰ کے عہدے بھی دیے جاتے ہیں۔ ان کو بڑے بڑے سرکاری دفاتر میں بھی بٹھایا جاتا ہے۔ ان کو لیڈر مانا جاتا ہے۔ ان کو بڑے عزت و احترام کے ساتھ ٹی وی چینلز پر بٹھا کر ان کے وعظ اور نصیحتوں سے سننے والوں کو گمراہ بھی کیا جاتا ہے۔ طالبان چھریاں، گولیاں اور خودکش بم چلاتے ہیں تو یہ لوگ پاکستان کی بنیادوں کو اپنے زہریلے پراپیگنڈہ اور اسلام مخالف سوچ سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔

ایک طرف طالبان کا اسلام کے بارے میں تصور اُس اسلام سے بلکل جدا ہے جس کا نمونہ ہمیں رسول پاکﷺ کے اسوہ حسنہ کی صورت میں ملتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کو سیکولر بنانے کی خواہش رکھنے والوں کا ایک ٹولہ اسلام کی ایسی تشریح پیش کر رہا ہے جس کا ریاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو جہاں شراب کی ممانعت نہ ہو، جہاں بدکاری جائز ہو، جہاں سود کی اجازت ہو اور ہر قسم کا گانا بجانا تفریح کے بہانے جاری و ساری ہو۔ طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ایک بھی شق اسلامی نہیں مگر پاکستان پر مسلط ’’طالبان‘‘ کی یہ دوسری قسم آئین پاکستان کی کسی ایک بھی اسلامی شق پر عملدرآمد کے خلاف ہیں۔ انہی کے ڈر سے میاں نواز شریف جیسے لیڈر بھی آئین کی اسلامی شقوں کے نفاذ سے گھبراتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے نیک، صالح اور با عمل مسلمانوں کی بجائے چوروں، ڈاکوئوں، جعلی ڈگری والوں اور ایسے افراد کے لیے پارلیمنٹ کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ آئین تو کہتا ہے کہ مسلمان ممبران پارلیمنٹ کو اسلامی تعلیمات کاکافی علم ہونا چاہیے مگر یہاں تو ایسوں ایسوں کو اسمبلیوں میں بٹھا دیا جاتا ہے جن کو سورۃ اخلاص تک نہیں آتی، جو پانچ وقت کی نماز کیا نماز جمعہ تک ادا نہیں کرتے، جوعام محفلوں میں شراب پیتے ہیں، جن کے ناجائز تعلقات کے قصے عام ہوتے ہیں، جو جھوٹ بولنے کی شہرت رکھتے ہیں، جن کے لیے فراڈ اور دھوکہ معمول کی بات ہے، جو سودی نظام کا دفاع کرتے ہیں،کرپشن کرتے ہیں، جو اسمبلی میں کھڑے ہو کر اور اخباروں میں لکھ کر شراب نوشی کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ان کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتا۔

اس صورت حال کی بڑی ذمہ داری طالبان کے سر پر ہے کیوں کہ طالبان کی پر تشدد کاروائیوں اور حال میں 23 ایف سی جوانوں کو شہید کرنے کے اعلان نے پاکستان میں موجود سیکولر شدت پسندوں کے ہاتھوں کو خوب مضبوط کیا۔ طالبان نے سیکولر شدت پسندوں کو شریعت پر سوال اُٹھانے کا خوب موقع دیا۔ طالبان کی وجہ سے ہی ’’کون سی شریعت‘‘ اور ’’گلے کاٹنے والا اسلام‘‘ جیسے جملے تو اب عام بولے جا رہے ہیں۔ اب کوئی اسلام کے نفاذ کی بات کرے تو یہ شدت پسند اُسے گدھوں کی طرح نوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے اپنی کارروائیوں سے ان شدت پسندوں کو اس قدر تقویت دے دی ہے کہ وہ اب سینہ تان کر پاکستان کے اسلامی تشخص کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں اور اسلام پسندوں اور اسلامی جماعتوں اور تنظیموں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔طالبان کی کارروائیوں نے اس ملک کے بڑے بڑے علمائے کرام کو بھی پریشان کر دیا ہے۔

حرف آخر: ایف سی جوانوں کی شہادت پروفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جس طرح طالبان نے ہمارے ایف سی سپاہیوں کے گلے کاٹے، اس طرح تو ہندوستان نے بھی ہمارے ساتھ نہیں کیا۔ پرویز رشید صاحب کے اس بیان پر مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں کچھ اس طرح لکھا تھا: پرویز رشید صاحب انڈیا نے پاکستان کے ہی جسم اور شہہ رگ (کشمیر ) کو کاٹ دیا مگر آپ پھر بھی ان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور تجارت بھی کر رہے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ ' جنگ '

رابرٹ گیٹس کے چشم کشا انکشافات


آٹھ امریکی صدور کے تحت کام کرنے والے ممتاز رہنما ***** اکیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں بھگتانے والے تیزفہم سابق وزیر دفاع کی متنازع آپ بیتی سے اقتباسات جس نے امریکہ میں ہلچل مچا دی


’’بزدل جب محفوظ ہو جائے ،تب ہی کُھل کر سامنے آتا ہے‘‘(جرمن مفکر‘گوئٹے) ٭٭ پچھلے دنوں امریکہ کے 70سالہ سابق وزیر دفاع،رابرٹ گیٹس کی آپ بیتی ’’ڈیوٹی:سیکرٹری دفاع کی یادداشتیں‘‘( Duty: Memoirs of a Secretary at War ) شائع ہوئی۔یہ کتاب ان ساڑھے چار برسوں( دسمبر 2006ء تا جولائی 2011ء)کی یادداشتوں پر مشتمل ہے جو انہوں نے بہ حیثیت وزیر دفاع گزارے۔ ڈاکٹر رابرٹ مائیکل گیٹس معمولی شخصیت نہیں،وہ دنیا کی سب سے بڑی فوج کے سربراہ رہے۔نیز ان کے دور میں اکیسویں صدی کی پہلی دو بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔1974ء میں روسی تاریخ پر مقالہ لکھ کر جارج ٹائون یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری پائی۔اس سے قبل 1966ء میں سی آئی اے سے وابستہ ہوئے اور رفتہ رفتہ ترقی کرتے رہے۔1986ء میں امریکی خفیہ ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور 1991ء میں ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔سیاسی طور پر قدامت پسند ریپبلکن پارٹی کے قریب ہیں۔ اسی لیے 2009ء میں سابق صدر،جارج بش نے آپ کو وزیر دفاع بنا دیا۔

دفاعی امور کا وسیع تجربہ رکھنے کے باعث نئے صدر،بارک اوباما نے بھی انہیں تین سال تک اپنے عہدے پر برقرار رکھا،حالانکہ گیٹس کا مخالف ریپبلکن پارٹی سے تعلق تھا۔ اوباما عہد حکومت کا اپنا دور رابرٹ گیٹس نے بظاہر خوشگوار انداز میں گزارا۔ وہ ہر ایک کے ساتھ تہذیب و خوش مزاجی سے پیش آتے۔مہذب انداز میں گفتگو کرتے اور کبھی آپے سے باہر نہ ہوتے۔چہرے پر عام طور پرسکون و اطمینان چھایا رہتا۔اسی لیے عام و خاص میں اعتدال پسند رہنما کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

مگر ان کی یادداشتوں نے یہ راز افشا کر ڈالا کہ گیٹس نے چہرے پر ماسک اوڑھ رکھا تھا۔ حقیقت میں وہ صدر اوباما اور ان کے وزراء و مشیروں سے لے کر ارکانِ کانگریس کی خامیوں و غلطیوں پر جلتے کڑھتے رہتے۔ہر لمحہ ان کا یہی جی چاہتا کہ وزارت دفاع چھوڑ کر گھر جا بیٹھیں۔وہ دل ہی دل میں ساتھیوں کی باتوں یا اقدامات پر ناراض ہوتے اور غصہ کرتے ۔لکھتے ہیں ’’ہر شام میرا جی چاہتا کہ دفتر کو خیر باد کہہ کر گھر چلا جائوں۔وہاں آرام سے چسکی لگائوں اور ڈنر کروں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ جب رابرٹ گیٹس اوباما حکومت میں نا موزوں اور ساتھیوں سے انتہائی نالاں تھے، تو وہ تین سال اقتدار سے کیوں چپکے رہے؟اس کا جواب خود انہوں نے یوں دیا:’’میرے ہزاروں ہم وطن جوانوں نے بیرون ملک ملکی سلامتی کی خاطر اپنی زندگیاں دائو پر لگا دی تھیں۔سو میری یہ ذمے داری تھی کہ میں اپنا فرض ادا کروں۔‘‘سو وہ اپنے فرض کے بوجھ تلے دبے طوعاً کراہاً اوباما حکومت میں بھی ٹکے رہے۔اور اسی لیے انہوں نے یادداشتوں پر مبنی اپنی دوسری کتاب کا نام صرف ’’ڈیوٹی ‘‘ رکھا۔(موصوف کی پہلی آپ بیتی 1996ء میں بہ عنوان From the Shadows: The Ultimate Insider's Story of Five Presidents and How They Won the Cold War شائع ہوئی تھی۔ اس میں انھوں نے پانچ صدو ر کے ماتحت گذرا اپنا زمانہ بیان کیا۔) تاہم ان کی تشریح بہت سے امریکیوں کو مطمئن نہ کر سکی۔ان کا کہنا ہے کہ سابق وزیر دفاع اقتدار میں تھے ،تو اوباما حکومت کی کوتاہیوں اور غلطیوں پہ خاموش رہے۔ لیکن جب حکومتی ایوان سے باہر آ گئے ،تو اپنے ہی ساتھیوں پر الزامات اور تہمتیں لگانے لگے۔یہ سراسر بزدلی اور منافقت ہے۔

گو انھوں نے صدر اوباما اور دیگر ساتھیوں کے متعلق تعریفی جملے بھی لکھے، مگر قدرتاً لوگوں کی توجہ تنقید ہی پر مرکوز رہتی ہے۔ مزید برآں کئی امریکی دانشور واضح کرتے ہیں کہ پہلے کبھی کسی وزیر مشیر نے حاضر صدر پر تنقید نہیں کی کیونکہ یوں حکومت کو ضعف پہنچتا ہے۔لیکن سابق وزیر دفاع نے اس اہم امر کو مدنظر نہیں رکھا،صدر اوباما کے جانے کا انتظار نہ کیا اور اپنے تلخ انکشافات منظر عام پر لے آئے۔کیا اس بات کے پیچھے کوئی ایجنڈا پوشیدہ ہے؟ امریکی ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ امریکہ میں رابرٹ گیٹس محب وطن رہنما،ذہین لیڈر اور دل پسند شخصیت کے طور پر مشہورتھے۔ اسی لیے دوست و مخالفین ،سبھی ان کا احترام کرتے تھے۔لیکن اب ان کی کتاب پڑھ کر یہ سچائی سامنے آئی کہ وہ تو کئی لوگوں سے نفرت کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔یوں اپنا اصلی روپ سامنے لا کر انہوں نے اپنا اجلا دامن داغدار کر ڈالا۔ 

امریکہ کا مشہور صحافی،فلپ ایونگ لکھتا ہے: ’’رابرٹ گیٹس کی کتاب کا تعلق سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ایسی آپ بیتیوں سے ہے جن میں مصنف خود کو بڑا پاک باز ،دیانت دار اور متقی دکھاتا ہے اور جو دغا بازوں ،لالچی لوگوں اور نا اہلوں میں گھرا ہوا ہے۔‘‘ رابرٹ گیٹس کا شمار ان گنے چنے امریکی رہنمائوں میں ہوتا تھا جو غیبت اور دوسروں کی چغلیاں کھانے سے پرہیز کرتے تھے۔مگر اپنی آپ بیتی لکھ کر یقیناً عوام کی نظروں میں انہوں نے اپنا قد کاٹھ پست کر دیا۔اس مثال سے دوسرے سیاست دانوں و حکمرانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے،جو اقتدار سے نکل کر خود کو ’’پوتّر‘‘ ثابت کرنے کی کوشش میں آپ بیتیاں لکھتے اور اپنی ساری غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔

Robert Gates Book   

اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے؟


حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں بہت سی مشکلات ہیں لیکن ان مشکلات کے باوجود اتوار کی صبح اس خاکسار کو ایک اچھی خبر ملی۔ خبر یہ تھی کہ آٹھ فروری کو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ پشاور سے میران شاہ پہنچنے والی طالبان کمیٹی کے ارکان کو طالبان کے سینئر رہنمائوں نے یقین دلایا کہ شریعت کے نام پر مذاکرات کو ناکام نہیں ہونے دیا جائے گا۔ طالبان کی کمیٹی کے ارکان پروفیسر ابراہیم خان اور مولانا یوسف شاہ کے ساتھ ملاقات کرنے والے طالبان رہنمائوں میں وہ بھی شامل تھے جن کے بارے میں یہ کہا جارہا تھا کہ وہ پچھلے دنوں میر علی میں ہونے والی بمباری میں مارے گئے تھے۔ طالبان کے سینئر رہنمائوں نے اپنی مذاکراتی ٹیم کے ارکان پر واضح کیا کہ یقیناً نفاذ شریعت ان کا اہم ترین مقصد ہے لیکن مقصد کے حصول کے لئے سازگار ماحول کی ضرورت ہے اور سازگار ماحول امن کے بغیر قائم نہیں ہوگا اس لئے پہلے مرحلے میں ان کی ترجیح قیام امن ہے۔ شمالی وزیرستان میں موجود طالبان کے سینئر رہنما آئین پاکستان کا تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس آئین میں اسلامی دفعات موجود ہیں اور اسی لئے مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق سے لے کر پروفیسر غفور احمد تک اور مولانا غلام غوث ہزاروی سے لے کر مولانا شاہ احمد نورانی تک کئی جید علماء نے1973ء کے آئین پر دستخط کئے تھے لیکن اس آئین پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا اور آئین میں مزید بہتری کی گنجائش بھی موجود ہے، تاہم طالبان اس پیچیدہ معاملے میں فی الحال نہیں الجھنا چاہتے۔ فی الحال ان کی ترجیح جنگ بندی ہے۔جنگ بندی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کچھ قیدیوں کی رہائی بھی چاہتے ہیں اور قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں وہ سیکورٹی فورسز کے قیدیوں کو رہا کردیں گے۔ سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کے علاوہ پروفیسر اجمل کی بازیابی بھی اہم ہے لیکن ان معاملات پر آگے چل کر بات ہوگی۔

طالبان کا ایک اہم مطالبہ قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی ہوگی لیکن انہیں ایف سی کی موجودگی قبول کرنا ہوگی کیونکہ جنگ بندی کے باوجود جرائم پیشہ اور سازشی عناصر کا راستہ روکنے کے لئے قبائلی علاقوں میں ریاست کی طاقت کو موجود رہنا چاہئے۔ طالبان کا تیسرا اہم مطالبہ یہ ہوگا کہ پچھلے بارہ سال میں جو فوجی آپریشن ہوئے ان میں قبائلی عوام کا جو جانی و مالی نقصان ہوا وہ پورا کیا جائے۔ اس نقصان کا تخمینہ لگانا اور پھر تخمینے کی رقوم کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کرنا ایک لمبا عمل ہوگا۔ دوسری طرف حکومتی کمیٹی کی ایک ترجیح یہ ہوگی کہ مذاکرات آئین کے اندر رہ کر کئے جائیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث ملزمان کی رہائی آئین کے مطابق ہوگی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے حکومت کو آئینی ماہرین کے مشورے کی ضرورت ہوگی لیکن کچھ زمینی حقائق یہ ہیں کہ طالبان اپنے جن قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں ان میں سے اکثر کو عدالتوں میں پیش ہی نہیں کیا گیااور جن کو پیش کیا گیا ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جاسکے۔ یہ پہلو نظر انداز نہ کیا جائے کہ قبائلی علاقوں میں پہلا فوجی آپریشن2002ء میں درہ اکاخیل میں ہوا تھا۔ پچھلے 12سال میں 15 سے ز ائد بڑے فوجی آپریشن کئے جاچکے ہیں۔ کسی آپریشن کو’’راہ نجات‘‘ اورکسی آپریشن کو’’راہ راست‘‘ قرار دیا گیا۔ قبائلی علاقوں میں ٹینکوں اور ائیر فورس کے ذریعہ بمباری کا سلسلہ2004 ء سے جاری ہے لیکن امن قائم نہ ہوا۔ یہ بھی درست ہے کہ امن قائم کرنے کے لئے فوج نے2004ء سے 2009ء کے درمیان19 مرتبہ طالبان سے مذاکرات کئے اور 13 مرتبہ امن معاہدے کئے لیکن کئی مرتبہ یہ امن معاہدے طالبان نے توڑ دئیے اور کچھ مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ فوج نے طالبان کے رہنمائوں کو گرفتار کرنے یا مارنے کے لئے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا۔12سال سے جاری بدامنی کو12 دنوں یا 12 ہفتوں کے مذاکرات میں ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے وزیر اعظم نواز شریف واقعی مذاکرات کے ذریعے امن چاہتے ہیں لیکن ماضی میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کھیل کھیلنے والے اس مرتبہ ایک بڑا آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف طالبان یہ ثابت کرنا چاہتےہیں کہ ماضی میں فوج کے ساتھ ان کے مذاکرات ناکام ہوئے لیکن سیاسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مذاکرات کامیاب بنانے کے لئے طالبان کو اپنی کارروائیاں بند کرنا ہونگی تاکہ رائے عامہ مذاکرات کی حمایت کرے۔ طالبان کو یہ ماننا ہوگا کہ مذاکرات کے اعلان کے بعد پشاور کے قصہ خوانی بازار میں خود کش حملے نے مذاکرات کو نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف جس دن طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کو ہیلی کاپٹر میں میران شاہ روانہ ہونا تھا اسی دن متنی اور یونیورسٹی ٹائون کے علاقوں میں طالبان کے دو قیدیوں محمد زیب اور اسد کی لاشیں پھینکی گئیں۔ ان دونوں کو پچھلے ماہ پشاور کے علاقے حیات آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کی مرکزی قیادت کو بھی اپنے اندر سے کچھ مزاحمت کا سامنا ہے اور حکومت کے اندر بھی کچھ ادارے وزیر اعظم نواز شریف کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ حکومت تو یہی دعویٰ کریگی کہ سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کا نکتہ نظر ایک ہے لیکن کیا کریں کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر حکومتی کوشش کے باوجود عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور پرویز مشرف کئی ہفتوں سے عدالت میں پیش ہونے کی بجائے ایک فوجی ہسپتال میں پناہ گزین ہیں۔ یہ صورتحال بہت سے سوالات پیدا کررہی ہے اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ جو لوگ اور ادارے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات آئین کے اندر رہ کر کئے جائیں وہ خود آئین کا اور عدالتوں کا احترام کب شروع کریں گے؟ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ خدا نخواستہ مذاکرات کامیاب نہ ہوئے اور شمالی وزیرستان میں ایک بڑا فوجی آپریشن کیا گیا تو سب جانتے ہیں کہ طالبان کا جواب شمالی وزیرستان میں نہیں آئے گا بلکہ اس مرتبہ وہ اپنا جواب لاہور سے شروع کرکے کراچی تک لے جائیں گے۔ تو کیا پنجاب اور سندھ کو فوج کے حوالے کیا جائے گا؟ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں فوجی آپریشن ہوا تو ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ شمالی وزیرستان سے ہجرت پر مجبور ہوجائیں گے۔ کچھ تو خیبر پختونخوا، پنجاب اور کراچی کی طرف جائیں گے لیکن بہت سے افغانستان بھی چلے جائیں جہاں تحریک طالبان پاکستان کے کئی رہنما پہلے سے موجود ہیں۔

2014ء میں امریکی فوج کا افغانستان میں اثر بہت کم رہ جائے گا اور افغان حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ مل کر کچھ بھی کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ افغان طالبان کے ذریعہ پاکستانی طالبان کو کنٹرول کرلیں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ہمارا اہم ترین مقصد پاکستان میں قیام امن ہونا چاہئے اور امن کے لئے پرامن مذاکرات کا راستہ بہترین ہے، مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پھر جنگ ہوگی لیکن جنگ ہو یا امن حکومت کے سب اداروں میں ہم آہنگی ضروری ہے مجھے یہ ہم آہنگی نظر نہیں آرہی۔


بشکریہ روزنامہ ' جنگ

Pakistan Peace Talks with Taliban by Hamid Mir

Enhanced by Zemanta

تشدد کی فضا، رائے عامہ اور لائحہ عمل


آج پاکستان میں یہ بحث عروج پر ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کیے جائیں یا فوجی آپریشن کا راستہ اختیار کیا جائے؟ کیا مذاکرات کامیاب ہوں گے یا ناکام؟ہم یہاں پر ائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

گیلپ نے ۰۸۹۱ء سے ۰۱۰۲ء تک کا ۰۳ برس کا ایک جائزہ پاکستان میں جرائم اور خصوصیت سے دہشت گردی کے بارے میں پیش کیا ہے۔


جس میں عوام کی نگاہ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی ذمہ داری بھارتی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں پر ہے، یعنی ۲۳ فی صد اور ۱۳ فی صد۔ گویا ۳۶فی صد کی نگاہ میں اس بدامنی، تشدد اور دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ سب سے بڑا محرک ہے۔ دہشت گردوں کو براہِ راست ذمہ دار ٹھیرانے والے ۶۲ فی صد ہیں۔ ۹۰۰۲ء میں طالبان کا نام لینے والے صرف ایک فی صد تھے۔ بعد کے متعدد جائزوں میں ’گیلپ‘ اور ’پیو‘ (PEW) دونوں ہی کے جائزوں میں طالبان کی تائید میں نمایاں کمی آئی ہے اور طالبان کی کارروائیوں کی مذمت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ’پیو‘ کے ۱۱۰۲ء کے سروے میں ۳۲ فی صد نے طالبان سے خطرہ محسوس کیا اور اور گیلپ کے ایک سروے کے مطابق دسمبر ۹۰۰۲ء میں طالبان کے حوالے سے منفی تصور ۲۷ فی صد تک بڑھ گیا۔ عام انسانوں کی ہلاکت اور مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں، اسکولوں اور مدرسوں پر حملوں کے ردعمل میں طالبان کے بارے میں منفی رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ گیلپ کے سروے کی روشنی میں دہشت گردی کے متعین واقعات کے بارے میں، طالبان یا ان کے نام پر ذمہ داری قبول کیے جانے کے اعلانات کے باوجو د عوام کا تصور بڑا حیران کن ہے۔ مثلاً پشاور/بنوں کے ۹۰۰۲ء کے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری کے سلسلے میں عوام کا ردعمل یہ تھا:

۱۔ یہ واقعات انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کا ردعمل ہیں ۴۴ فی صد

۲۔ ان واقعات میں غیرملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۲۴ فی صد

۳۔ معلوم نہیں۴۱ فی صد

واضح رہے یہ دونوں واقعات خودکش حملوں کا نتیجہ تھے۔

اسی طرح ۹۰۰۲ء میں راولپنڈی جی ایچ کیو (پاکستانی مسلح افواج کے مرکز) پر کیے جانے والے حملے کے بارے میں کہ: ’’ذمہ دار کون ہے؟‘‘ عوامی راے یہ تھی:

بھارت: ۹۱ فی صد طالبان: ۵۲ فی صد امریکا: ۶۱ فی صد

فارن ایجنسی: ۷۲ فی صد لوکل ایجنسی: ۲ فی صد سیاسی جماعتیں: ایک فی صد

ہم نے یہ چند مثالیں عوامی جذبات، احساسات اور ان کی سوچ کے رُخ کو سمجھنے کے لیے دی ہیں۔ عوام کے ذہن کو سمجھنے کے لیے ایک سروے کی طرف مزید اشارہ کرنا ضروری ہے۔ یہ گیلپ کا سروے دسمبر ۳۱۰۲ء میں امیرجماعت سیّدمنور حسن صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب کی جانب سے بیت اللہ محسود کے امریکی ڈرون کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے پر ردعمل سے متعلق تھا۔

سوال: ’’حال ہی میں سیّدمنورحسن اور مولانا فضل الرحمن نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا ہے۔ آپ اس بیان کی کس حد تک حمایت یا مخالفت کرتے ہیں؟‘‘

بہت زیادہ حمایت: ۴۱ فی صد بہت زیادہ مخالفت: ۹۲ فی صد

کسی حد تک حمایت: ۵۲’’کسی حد تک مخالفت: ۹۲‘‘

مجموعی حمایت: ۹۳ ’’مجموعی مخالفت: ۸۵ ‘‘

معلوم نہیں: ۰۱

قابلِ غور بات یہ ہے کہ مئی ۳۱۰۲ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام (ف) کو مجموعی طور پر ۵ فی صد ووٹ ملے اور دونوں قا ئدین کے بیانات کے بعد میڈیا پر ان کی مخالفت میں ایک طوفان برپا تھا، لیکن آبادی کے تقریباً ۰۴ فی صد نے ان کی راے سے اتفاق کا اظہار کیا۔ (گیلپ انٹرنیشنل، ۹دسمبر ۳۱۰۲ء)

یہاں پر ہمارا مقصد کسی قانونی، فقہی یا سیاسی پہلو کو زیربحث لانا نہیں ہے، صرف توجہ کو اس طرف مبذول کرانا ہے کہ ملک کے عوام طالبان اور طالبان کے نام پر جو کچھ کیا یا کہا جارہا ہے اسے اس کے ظاہری خدوخال پر نہیں لیتے، بلکہ پورے مسئلے، یعنی دہشت گردی اور اس میں امریکا کے کردار کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان دو عالمی جائزوں سے مختلف پہلوؤں کو سامنے لانے سے ہمارا مقصد اصل مسئلے کے جملہ پہلوؤں کی طرف توجہ کو مبذول کرانا ہے۔ ان معروضات کی روشنی میں، پالیسی سازی کے لیے چند نہایت اہم پہلو سامنے آتے ہیں، جن کی ہم نشان دہی کرنا چاہتے ہیں:

۱۔ پالیسی سازی میں اصل اہمیت ملک اور قوم کے مقاصد، اس کے مفادات اور اس کے عوام کی سوچ، خواہش اور عزائم کی ہونی چاہیے۔ جو پالیسی بیرونی دباؤ، عصبیت یا جذبات کی روشنی میں بنائی جائے گی، وہ مفید اور مناسب نہیں ہوگی۔

۲۔ اصل مسئلہ امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ‘ ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ بلاشبہہ دوسری انواع کی دہشت گردیاں بھی ہیں اور ان کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اور پروگرام درکار ہیں، لیکن مرکزی اہمیت بہرحال امریکا کی اس جنگ اور اس میں ہمارے کردار سے منسوب ہے۔

پاکستانی عوام، پاکستان کو امریکا کی اس جنگ سے نکالنے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے کے حق میں ہیں۔ مئی ۳۱۰۲ء کے انتخابات میں انھوں نے اُن جماعتوں پر اعتماد نہیں کیا، جو اس جنگ میں پاکستان کی شرکت کی ذمہ دار تھیں اور ان جماعتوں کو اعتماد کا ووٹ دیا جو آزاد خارجہ پالیسی کی داعی اور اس جنگ سے نکلنے اور سیاسی حل کی خواہش مند تھیں۔ عوام کا یہ موقف ۱۰۰۲ء سے واضح تسلسل رکھتا ہے۔ اصل مسئلہ پالیسی کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں ابہام کا نہیں ہے، حکومت اور اس کے اداروں کی طرف سے قومی پالیسی پر عمل نہ کرنے کا ہے۔

۳۔ پاکستان میں پائی جانے والی دہشت گردی کی کم از کم پانچ بڑی شکلیں ہیں جن میں ہر ایک کی نوعیت، اسباب اور اہداف کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی بنانا ضروری ہے:

پہلی اور سب سے اہم شکل وہ ہے جس کا تعلق امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘، افغانستان پر فوج کشی، افغانستان میں امریکی استعمار کی مزاحمت، اور پاکستان کے اس جنگ میں امریکا کے حلیف اور مددگار بننے سے رُونما ہوئی ہے۔ لیکن جب ہماری فوج کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا، تو افسوس ناک ردعمل بھی رُونما ہوا، جو بڑھتے بڑھتے خود ایک فتنہ بن گیا۔ باجوڑ اور اسلام آباد میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ بھی اس خونیں سلسلے کے سنگ میل بن گئے۔ پھر مسجد اور مدرسہ، سرکاری دفاتر اور افواج کے مورچے، حتیٰ کہ بازار اور گھربار سب نشانہ بننے لگے اور معصوم انسانوں کا لہو ارزاں ہوکر بہنے لگا۔ بچے، عورتیں، مسافر، مریض، کوئی بھی اس خون آشامی کی زد سے نہ بچ سکا۔

شریعت، قانون، اخلاق، روایات کون سی حد ہے جو اس میں پامال نہیں کی گئی اور بدقسمتی سے ہرفریق کی طرف سے یہ ظلم روا رکھا گیا۔ معصوم انسانوں کی ہلاکت اور قومی وسائل کی تباہی، جس کے ہاتھوں بھی ہوئی، قابلِ مذمت ہے۔ لیکن انتقام در انتقام مسئلے کا حل نہیں، بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش ہی اس عذاب سے نکلنے کا راستہ ہے۔ امریکا خود افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی راہیں تلاش کررہا ہے اور اب تو اسی کے مقرر کردہ افغان صدر حامد کرزئی تک نے کہہ دیا ہے کہ: ’’امریکا طالبان سے مذاکرات کرے اور پاکستان اس کی معاونت کرے، اس کے بغیر افغانستان میں امن نہیں آسکتا‘‘، یعنی اس سلسلے میں سطحی جذباتیت حالات کو بگاڑ تو سکتی ہے، اصلاح کی طرف نہیں لاسکتی۔ (جاری ہے)


بشکریہ روزنامہ 'نئی بات'

Enhanced by Zemanta

Peace Talks with Taliban by Saleem Safi


 Peace Talks with Taliban by Saleem Safi

Enhanced by Zemanta

Rustam Shah Mohmand


Rustam Shah Mohmand is senior Pakistani diplomat, political scientist and a politician who specialises in Afghanistan and Central Asian affairs. He has served as Pakistan's Ambassador to Afghanistan, Interior Secretary of Pakistan and has held position of Chief Commissioner Refugees for around ten years. He is also the central leader of Pakistan Tehreek-e-Insaf and member of the Khyber Pakhtunkhwa Advisory committee headed by Imran Khan which advises the provincial government on development and planning.[1] [2] He graduated in civil engineering and humanities and then joined the civil service of Pakistan.[3][4][5]
Enhanced by Zemanta

خاموشی جرم ہے


پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر پاکستانی عوام کی جانب سے کسی قسم کے ردِعمل کا اظہار نہ کرنا (اگرچہ چند ایک حلقوں کی جانب سے ردِعمل کا اظہار کیا گیا لیکن یہ ردِعمل پاکستانی قوم کے شایانِ شان نہ تھا) میرے لئے ناقابل فہم ہے۔

میں گزشتہ بائیس سال سے ترکی میں قیام پذیر ہوں اور اس دوران ترکی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور ان واقعات پر ترک عوام کے شدید ردِعمل کو اپنی نگاہوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ترکی میں ایک دور وہ بھی تھا جب روزانہ ہی فوج اور پولیس کے اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ تقریباً چالیس سال جاری رہنے والی دہشت گردی جس میں چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں آخر کار قابو پا لیا گیا۔ ترکی میں طویل عرصے جاری دہشت گردی کی وجہ سے کئی ایک سیاسی جماعتیں اقتدار سے محروم ہو گئیں اور کئی ایک سیاسی جماعتیں اس پرقابو پانے کی وجہ سےعوام کی آنکھوں کا تارا بن کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس کی ایک مثال مرحوم وزیراعظم بلنت ایجوت حکومت کی ہے۔ بلنت ایجوت حکومت ایک دور میں جب عوام میں اپنی ساکھ کھونے کے قریب تھی تو اس دوران ترکی کی دہشت گرد تنظم PKK کے سرغنہ عبداللہ اوجالان کو گرفتار کئے جانے پر مرحوم بلنت ایجوت کو عوام میں زبردست پذیرائی حاصل ہو گئی اور ان کی جماعت اگلے الیکشن میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ برسراقتدار آ گئی۔ اسی طرح جسٹس اینڈڈیولپمنٹ پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس جماعت کو بھی ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک موقع پر دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بننے والے فوجیوں کی نمازِ جنازہ ادا کی جا رہی تھی تو عوام اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکےاور انہوں نے نماز ِجنازہ کی ادائیگی کے فوراً بعد اس جنازے میں شریک کئی ایک وزراء اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کا گھیراؤ کرلیا جس پر ان وزراء اور اسپیکر اسمبلی کو مسجد میں پناہ لینا پڑی۔ عوام کے اس شدید ردِعمل نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور حکومت نے اپنی تمام تر توجہ دہشت گردی پرقابو پانے کی جانب مرکوز کردی اور آخر کار دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیابی بھی حاصل کی۔ میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستانی عوام دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے اس ردِعمل کا اظہار کیوں نہیں کر پا رہے ہیں جس کا اظہار وقت کا اور وطن کا تقاضا ہے۔

پاکستانی عوام دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے صرف حکومت، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوں پر ہی کیوں نگاہیں لگائے ہوئے ہیں؟ کیا یہ ان کی اپنی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ خود آگے بڑھیں اور سیاسی رہنماوں کو دہشت گردی کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور کریں؟ آج اگر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو اس کی سب سے بڑی وجہ عوام کی جانب سے ان واقعات پر خاموشی اختیار کیا جانا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں کے عوام اپنی اپنی حکومت اور ریاست کا کھل کر ساتھ دیتے ہیں۔ ترکی کے علاوہ اسپین جہاں پر طویل عرصے دہشت گردی جاری رہی اس دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں عوام نے سڑکوں پر نکل کر دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ کیا اور حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن لینے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں کافی حد تک دہشت گردی پر قابو پالیا گیا۔ اب اسی قسم کا فیصلہ پاکستان کے عوام کو اپنے مستقبل کے لئے کرنا ہے۔وہ کب تک روز جیتے اور روز مرتے رہیں گے؟ ان کے خوف نے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند کررکھے ہیں اور دہشت گردوں نے اب تک پچاس ہزار سے زائد افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ ان دہشت گردوں نے کسی عبادت گاہ، مسجد ، اسکول اورحتیٰ کہ جنازہ گاہ تک کو نہیں چھوڑا ہے ۔ عوام انہی حملوں کی وجہ سے شدید خوف میں مبتلا ہوچکے ہیں لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ "گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے"۔ اگر انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف اٹھتے ہوئے ریاست کے ہاتھ مضبوط نہ کئے اور حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور نہ کیا تو پھر وہ اپنی اور ملک کی بقا کو خطرے میں ڈالنے کا براہ راست حصہ بن جائیں گے۔

حکومت جو اس وقت دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے( وزیرستان میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے اور جس سے دہشت گردوں کو شدید نقصان بھی پہنچا ہے اور اسی وجہ سے طالبان حکومت سے مذاکرات شروع کرنے پر مجبور بھی ہوئے ہیں) اس آپریشن کو متعدد سیاستدانوں کے بیانات اور عوام کو خوف میں مبتلا کرنے کی پروا کئے بغیر جاری رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کے عوام کی بھاری اکثریت بھی اس فوجی کارروائی کے حق میں اور اب جبکہ ان کے حوصلے بلند ہیں اور فوج کی پشت پناہی کرنے کے لئے تیار ہیں کو پست قدمی پر مجبور نہ کریں۔طالبان جو پاکستان پر امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کو یا پھر براہ راست امریکہ اور مغربی ممالک کو اپنا نشانہ کیوں نہیں بناتے ہیں؟ کیا ان کا زور صرف نہتے پاکستانی مسلمانوں پر ہی چلتا ہے؟ اگر ان کو امریکہ اور مغربی ممالک سے اتنی نفرت ہے تو وہ خود کیوں امریکی اسلحہ اور مغربی ممالک کے تیار کردہ ٹیلی فون، کمپیوٹر اور دیگر سازو سامان استعمال کرتے ہیں؟ ان کو سب سے پہلے ان ہتھیاروں کو اپنے اوپر استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنے قول و فعل میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہ ہونے سے آگاہ کر دینا چاہئے۔

آخر میں عمران خان سے ایک سوال۔ کیا آپ کبھی میچ کھیلے بغیر مخالف ٹیم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ تو پھر ان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات پر اصرار کیوں؟ اگر آپ نے ان کو ایک دفعہ گھر کےاندر آنے کا موقع دے دیا تو پھر آپ اپنے گھر سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ میرا اگلا سوال ان تمام مذہبی جماعتوں کے رہنماوں سے ہے جو شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کر رہی ہیں اور وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے فوجیوں کی شہادت پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہیں۔ کیا آپ دنیا میں ایسے کسی اسلامی ملک کا نام بتاسکتے ہیں جہاں پر دہشت گردوں کو شہید کا رتبہ دیا جاتا ہو؟ خانہ کعبہ کے امام تک خودکش حملہ کرنے والوں کو "حرام کی موت مرنے" (کیونکہ اسلام میں خودکشی کرنا یا کسی کو خودکشی پراکسانا حرام ہے) کا فتویٰ دے چکے ہیں تو پھر یہ کیوں دہشت گردوں کو شہید قرار دیتے ہوئے ان کے حوصلے بلند کرتے ہیں؟وزیراعظم نوازشریف سے درخواست ہے کہ وہ بھی ترک وزیراعظم ایردوان کی طرح ملک میں مکمل طور پر دہشت گردی کا صفایا کرتے ہوئے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے دہشت گردوں کے خلاف جس طرح اب کھل کر بیان دینا شروع کردیئے ہیں اس سے ان کے قد کاٹھ میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔کاش کہ ان کی پارٹی اپنے دور اقتدار میں ان کی طرح بہادری کا مظاہرہ کرتی۔ایم کیو ایم جو بڑے بڑے جلسے کرنے میں بڑی ایکسپرٹ ہے ایک بار صرف پاکستان کے لئے پورے پاکستان (خیبر سے کراچی تک) میں صرف پاکستانی پرچموں ( کسی بھی پارٹی کو اپنا پرچم اٹھانے یا نمائش کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے) پر مشتمل ملین مارچ کا بندوبست کرے تاکہ دہشت گردوں کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا سکے اور عوام کے کس قدر بہادر ہونے کا ثبوت فراہم کیا جا سکے۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta

Pakistan Only Retaliates Fire After Aattacks by Terrorists’ From Safe Havens in Afghanistan

Major General Ishfaq Nadeem Ahmad has informed the visiting Afghan National Army Director General Military Operations (DGMO) Major General Afzal Aman has been informed that Pakistan Only Retaliates Fire After after its villages and border posts come under attack by Terrorists’ From Safe Havens in in Afghan provinces of Kuner and Nuristan.

ISI chief Lt-Gen Zaheer-ul-Islam leaves for Washington

ISI chief Lt-Gen Zaheer-ul-Islam has left for Washington to hold talks with his CIA counterpart David Petraeus, the first meeting between the spy chiefs amidst persisting tension between the two countries.

Lieutenant General Zaheer-ul-Islam would hold talks in Washington on August 1-3 with his CIA counterpart

He is expected to "strongly articulate" the viewpoint of ISI to the US lawmakers, who, of late, have been strongly critical of the spy agency's role in the war against terror.

Pakistan opens NATO supply lines after apology

Ending a bitter seven-month standoff, Secretary of State Hillary Rodham Clinton apologized to Pakistan on Tuesday for the killing of 24 Pakistani troops last fall and won in return the reopening of critical NATO supply lines into Afghanistan. The agreement could save the U.S. hundreds of millions of dollars in war costs.

 The first trucks carrying NATO goods should move across the border on Wednesday, U.S. officials said. It could take days to ramp up supplies to pre-attack levels, but around two dozen impatient truck drivers celebrated the news in a parking lot in the southern city of Karachi by singing, dancing and drumming on empty fuel cans.

 “We are sorry for the losses suffered by the Pakistani military,” Clinton said, recounting a telephone conversation she had with Pakistani Foreign Minister Hina Rabbani Khar concerning the deaths that led Pakistan to close the supply routes. “I offered our sincere condolences to the families of the Pakistani soldiers who lost their lives. Foreign Minister Khar and I acknowledged the mistakes that resulted in the loss of Pakistani military lives.” 

 “I am pleased that Foreign Minister Khar has informed me that the ground supply lines into Afghanistan are opening,” Clinton added in her statement. It marked the first time any U.S. official formally apologized for the deaths, a step hotly debated within the Obama administration and one demanded by Pakistan before it would reopen the supply routes. 

Pakistani lawmakers also wanted Washington to halt all air strikes in the country and stop shipping weapons and ammunition to Afghanistan through Pakistani airspace, demands the U.S. has ignored. Negotiations stumbled at one point over transit fees Pakistan sought to charge.

US Fighter Jets Violate Pakistani Airspace

Fighter Jets of the United States Air Force (USAF) violated the Pakistani airspace when they crossed international border and stayed flew over the Federally Administered Tribal Areas (FATA) of Pakistan for over 15 minutes.

US jets crossed teh International border at around 4:15pm near the tribal area of Loda Mandi, North Waziristan Agency. 


Pak Army, ANA and ISAF Held Meeting at Border Coordination Centre (BCC)

Officials of the Pakistan Army has held meeting with the representatives of the Afghan National Army (ANA) and  , ANA and International Security Assistance Force (ISAF) at Border Coordination Centre (BCC) in Torkham area. 
Click here to Read More

Pakistani Soldiers Defends An Attack By Over 300 Taliban Militants

Pakistani soldiers were able to foil an attack by over 300 Taliban militants on a security check post in the Kurram agency in the Federally Administered Tribal Areas (FATA) of Pakistan.

This bloody clash has resulted in the death of around 43 which included eight Pakistani soldiers while 35 militants were also shot down by the security forces of Pakistan. It is reported that dozens of other were injured. 
Click here to Read More

Pakistan Army Destroys Militant's Hideouts and Weapons

Large caliber weapons captured from the militants including RPG (rocket-propelled grenade), artillery and mortar rounds at display.
Militant hideouts in caves discovered by the Pakistan Army in the Federally Administered Tribal Areas (FATA) of Pakistan.