Showing posts with label Gaza Children. Show all posts

دشمن بچے --- شاہنواز فاروقی....

Killing of innocent children in Gaza by Israeli forces

People of Gaza , you are not Alone



 People of Gaza , you are not Alone

Western Media and the Gaza War by Khaled Al Maeena



اسرائیل کی غزہ پر تباہ کن بمباری، اس کی مکمل تباہی اور اسرائیلی فضائی حملوں میں فلسطینی بچوں کے اہدافی قتل نے دنیا بھر کے عام لوگوں کو صدمے سے دوچار کردیا ہے۔
بمباری میں بچوں کے چیتھڑوں اور مسخ شدہ لاشوں، مساجد اور گرجا گھروں کی تباہی نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی ہے لیکن ایسا مرکزی دھارے کے میڈیا کے ذریعے نہیں ہوا ہے بلکہ یہ تصاویر ٹویٹر اور فیس بُک کے ذریعے منظرعام پر آئی ہیں۔

سوشل میڈیا نے فلسطینی المیے اور انسانی مصائب کو اجاگر کیا ہے، ایسے لوگوں کے ہولوکاسٹ اور مکمل نسل کشی کو منظرعام پر لایا ہے جن کی واحد درخواست یہ ہے کہ انھِیں آزادی، امن اور وقار سے جینے دیا جائے۔
لیکن امریکا کے مرکزی دھارے کے میڈیا نے مکمل طور پر ایک سنگ دلانہ حکمتِ عملی اختیار کی ہے، قریب قریب تمام اخبارات ،سی این این، سی سپین ، فاکس اور ان سے وابستہ ادارے حماس کو اسرائیل پر حملہ آور ہونے کا الزام دے رہے ہیں، اس کو موجودہ صورت حال کا ذمے دار اور اسرائیل کی سکیورٹی اور استحکام کے لیے خطرے کا موجب قرار دے رہے ہیں۔

بعض اینکروں نے تو جھوٹ تراشنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ بعض دوسروں نے فلسطینیوں کو بالکل نظرانداز کردیا اور اپنی توجہ خیالی سرنگوں اور راکٹوں پر مرکوز کیے رکھی ہے۔انھوں نے جان بوجھ کر ہرکسی کی توجہ اس جانب مرکوز نہیں کی ہے کہ امریکا کی جانب سے آزادانہ طور پر مہیا کیے جانے والے ہتھیاروں، بموں اور راکٹوں نے بچوں کو زندہ جلا دیا، اسپتالوں میں بیماروں اور ضعیفوں کو مار دیا اور رمضان المبارک کی مقدس راتوں کے دوران عبادت کرنے والوں کو تہس نہس کردیا ہے، ان کے حُلیے بگاڑ دیے ہیں۔

یہ جنگ نہیں تھی۔ یہ ایک قتل عام تھا جس کو امریکا میں میڈیا نے مہمیز دی۔ ایسا میڈیا جو ننگے ہوکر تعصب کا مظاہرہ کررہا تھا،اس نے بالواسطہ طور پر حملوں کو نظر انداز کرکے اور ان کو نہ دکھا کر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ہسٹریائی کیفیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

میڈیا اس وقت اپنی غیراخلاقی پن کی حدوں کو چھورہا تھا جب اس نے براہ راست نشر کیے جانے والے پروگراموں کو بھی سنسر کرنا شروع کر دیا۔ ماضی میں موقر سمجھے جانے والے ادارے سی سپین نے بھی ایسے ہی کیا۔نسل کشی کے مخالف ماہرین کو نشریات میں بلانے سے گریز کیا گیا یا ان کو بولنے کا وقت ہی نہیں دیا گیا۔

لیکن لاطینی امریکا کے ممالک اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ فلسطینیوں کے ہولوکاسٹ کے خلاف بولے ہیں حالانکہ وہ خود امریکا کی خارجہ پالیسی کا شکار رہے ہیں مگر کسی یورپی یا مغربی لیڈر کو چیخنے،چلانے کی توفیق نہیں ہوئی ہے۔
امریکی حکومت اور اس کے قانون سازوں کا میڈیا سے اتنا تعلق رہا ہے کہ وہ اس کے ذریعے حماس سے یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ وہ اپنی جارحیت کو روکے۔ اس معاملے میں کینیڈا سب سے بڑا مجرم بن کر سامنے آیا ہے اور میں اپنے کاروباری حضرات سے یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ کسی کینیڈین وفد سے ہر قسم کا میل ملاقات بند کردیں بالکل ایسے جس طرح انھوں نے ماضی میں روس کے ساتھ کیا تھا۔ اس تحریک کا یورپی یونین کے رکن ممالک اور امریکا پر بھی اطلاق کیا جانا چاہیے اور امریکا تو سب سے زیادہ جارحیت پسند ثابت ہوا ہے۔
صدر اوباما نے اس دوران اسرائیل کے آئرن ڈوم پروگرام کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری دی ہے اور اسرائیل کے ہتھیاروں کے ذخیروں میں اضافے کے لیے لیزر گائِیڈڈ بموں اور راکٹوں کی بھاری کھیپ روانہ کی ہے۔

ان یورپی ممالک اور امریکا کے نزدیک فلسطینیوں کی زندگیوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے۔ ان کے لیے ہم عرب محض ایک مارکیٹ ہیں، گیس اسٹیشنز ہیں اور ان کے لیے ایسے لوگ ہیں جنھیں ''آپ ہمارے اتحادی اور کاروباری شراکت دار ہیں'' ایسے الفاظ سے بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے پہلے یہی معاملہ رہا ہو لیکن اب عرب عوام اس حقیقت کو جان گئے ہیں اور وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اب اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ برابری کا برتاؤ کیا جائے۔

اب ایسے تجارتی وفود کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جن میں کٹڑ صہیونی شامل ہوں جو اپنی چیزیں بیچنے اور دھوکا دہی سے جیبیں بھرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،ایسے صحافیوں کو بھی خوش آمدید نہیں کیا جانا چاہیے جو یہاں کے داخلی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے آتے ہیں اور ان سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی جانی چاہیے۔
مغرب کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہم بعض پہلوؤں میں اگرچہ ناکام ہوگئَے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ہمیں امن درکار ہے اور آپ انصاف اور فلسطینی عوام کو ان کا حق دیے بغیر امن نہیں دے سکتے ہیں۔

آپ وہاں امن قائم نہیں کرسکتے جہاں عوام کی خواہشات اور امنگوں کو جبری دبا دیا جائے۔اگر مغرب انسانی حقوق کے ایشو کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا اور اپنے اقتصادی مفاد کے لیے مطلق العنان حکومتوں کو مضبوط کرتا ہے تو پھر امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔

ان تمام سازشی کھیلوں کو فوری طور پر بند کرنا ہوگا۔دوسری صورت میں مغرب دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے اس کا خمیازہ بھگتے گا۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ دہشت گردی ان کی ناانصافیوں سے ہی پروان چڑھے گی کیونکہ جن لوگوں کے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں بچے گا تو وہ پھر دہشت گردی کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
مغرب کو ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملہ کرنا چاہیے، ہمیں دوست چاہئیں، آقا نہیں۔

Western Media and the Gaza War by Khaled Al Maeena

In Memory of the 373 Children Killed in Gaza


In Memory of the 373 Children Killed in Gaza

فٹ بالر میسی کا غزہ کے بچوں ساتھ اظہار یکجہتی........

ارجنٹینا کے مقبول عام فٹ بالر لائنیل میسی نے غزہ کے مظلوم فلسطینی بچوں کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' ایک باپ اور یونیسیف کا سفیر ہونے کے ناطے میں غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بعد سامنے آنے والی فلسطینی بچوں کی تصاویردیکھ کر سخت خوف زدہ ہوا ہوں۔ ''
واضح رہے آٹھ جولائی سے اب تک غزہ میں 1900 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی اور لگ بھگ چار سو سے زائد بچے شہید ہوئے ہیں، جبکہ زخمی بچوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
میسی نے فلسطینی بچوں کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار فیس بک پر کیا ہے۔ میسی کے فیس بک فالوورز کی تعداد چھ کروڑ اسی لاکھ تنتالیس ہزار نو سو تیرہ ہے۔
میسی جنہوں نے حال ہی میں بارسلونا کے لیے کھیلا ہے اپنے فیس بک پر مزید لکھا ہے '' اسرائیل اور حماس کا تنازعہ بچوں نے کھڑا نہیں کیا تھا لیکن اس کی سب سے بھاری قیمت بچوں کو ہی ادا کرنا پڑی۔ ''
میسی نے زور دے کر کہا '' یہ احمقانہ تشدد ضرور رکنا چاہیے، ہمیں جنگی مضمرات کے حوالے سے بچوں کے تحفظ کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔''
میسی کے ان انسانی ہمدردی پر مبنی جذبات کا ایک پہلو یہ ہے کہ میسی نے انہیں انگریزی اور عربی دونوں زبانوں میں فیس بک پر دیا ہے۔ جبکہ ایک زخمی فلسطینی بچے کی تصویر بھی ساتھ لگائی گئی ہے جس کی ڈاکٹروں نے مرہم پٹی کر رکھِی ہے۔
میسی کے اس پیغام کو اب تک 63 ہزار سے زائد لوگ پسند کر چکے ہیں اور 12 ہزار سے زائد نے شئیر کیا ہے۔ اس پر بعض نے اعتراض بھی کیا ہے کہ ایک بین الاقوامی سٹار نے فلسطینیوں کی حمایت کی ہے۔ ایک نے لکھا ہے '' آپ عرب دنیا کی دہشت گرد تنظیم کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں
بعض نے اس کی تحریر اور جذبات کے حوالے سے اس کی زبردست تحسین کی ہے۔ میسی نے جولائی کے دوران فلسطینی بچوں کے لیے دس لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔٫

Gaza Under Attack : The Children of Gaza


The UN, Unicef and others have already reported on the dire impact the conflict between Israel and Hamas has had on the children of Gaza. 373 children have died in the conflict and graphic and heartbreaking images of those dead or injured have become a staple of news reports from the area. Save the Children took out full page ads in numerous UK newspapers today listing the names of all the children that have been killed. 


A UN report published yesterday said Israel’s nearly month-long offensive against Hamas had had a “catastrophic and tragic impact” on children in the area. The UN has repeatedly warned that Gaza is on the brink of a full-blown crisis and has warned that it is struggling to cope. The UN relief and works agency says at least 270,000 people are in shelter at around 90 of their centres across Gaza. Israeli shelling has destroyed or damaged 142 schools, 89 of which were UN run. Unicef has estimated that those children who have survived the conflict will be left with severe psychological difficulties and will require immediate psycho-social support. The organisation believes upwards of 373,000 children with have some kind of psychological trauma and many face an “extraordinarily bleak” future. ernille Ironside, head of the field office run by the UN children’s agency in Gaza said: "How do we expect parents and caregivers to care for their children and to raise them in a positive and nurturing way when they themselves are barely functioning as humans?"
"People have lost entire strands of their family in one blow. How can a society cope with this? This is a deep, deep, deep wound,"  

اگر دعاؤں سے فرصت ملے تو۔۔۔.........


تین روز قبل اسرائیل کے بقول سیکنڈ لیفٹننٹ ہادار گولڈن کو حماس کے چھاپہ مار 72 گھنٹے کی جنگ بندی شروع ہونے کے فوراً بعد اغوا کر کے لے گئے۔ لہٰذا اسرائیل کو جنگ بندی کے صرف چار گھنٹے بعد مجبوراً پھر سے بمباری کرنی پڑی اور 100 کے لگ بھگ مزید فلسطینی بادلِ نخواستہ ہلاک ہوگئے۔باقی دنیا نے حماس کی جانب سے اغوا کی پرزور تردید کے باوجود ہادار گولڈن کے دن دہاڑے اغوا کے اسرائیلی دعوے پر آمنا و صدقنا کہتے ہوئے کہا کہ یہ واردات اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس کو جنگ بندی سے کوئی دلچسپی نہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون، امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری اور صدر اوباما نے ہادار گولڈن کی غیر مشروط فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی گھٹیا حرکتوں سے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔غزہ کے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی افسوسناک ہیں لیکن لیفٹننٹ ہادار گولڈن کا اغوا ایک بہیمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
 
ہائے بے چارہ ہادار گولڈن !! ابھی23 برس کا ہی تو سن تھا۔چند ہی ہفتے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔اس کے دادا اور دادی نازیوں کے گیس چیمبر میں دھکیلے جانے سے بال بال بچے اور پھر دونوں نے بطور شکرانہ فلسطین میں آ کر اسرائیل کی جنگِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔

غزہ کے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی افسوسناک ہیں لیکن لیفٹننٹ ہادار گولڈن کا اغوا ایک بہیمانہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے والد سمبا اور والدہ ہیڈوا کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے اور اب پروفیسر سمبا تل ابیب یونیورسٹی میں تاریخ ِ یہود کے استاد ہیں۔ہادار کا جڑواں بھائی زور اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ جبکہ ایک بھائی مینہم اور بہن ایلات زیرِ تعلیم ہیں۔ایسے پڑھے لکھے محبِ وطن امن پسند خاندان کے لیے اپنے جگر گوشے کے اغوا اور پھر اس کی ہلاکت دونوں کی نیتن یاہو حکومت کی جانب سے تصدیق کسی قیامت سے کم نہیں۔

چنانچہ جس طرح اسرائیل کی بری و فضائی افواج نے ہادار کے مبینہ اغوا کے غم میں جنگ بندی کی بے فکری میں ضروریاتِ زندگی خریدنے والے اہلِ غزہ کو نشانہ بنایا اسی طرح ہادار کی ہلاکت کی تصدیق کے سوگ میں ایک اور اسکول پر حملہ کردیا جس میں اقوامِ متحدہ کے تحفظ میں بہت سے فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔

اب آپ کہیں گے کہ مجھے 1700 کے لگ بھگ فلسطینیوں کی لاشیں اور 
9000 زخمی اور پانچ لاکھ دربدر اہلِ غزہ اور اقوامِ متحدہ کے جھنڈے والےدفاتر اور سکولوں میں پناہ گزین ڈیڑھ لاکھ لوگ اور ان عمارتوں پر ہونے والی بمباری کیوں نظر نہیں آتی۔ مجھے غزہ کی مسلسل کئی برس کی بحری ، فضائی اور بری ناکہ بندی کیوں دکھائی نہیں دیتی۔میں صرف لیفٹننٹ ہادار گولڈن کے دکھ میں کیوں مرا جا رہا ہوں۔
 
مجھے ٹی وی چینلز پر اقوامِ متحدہ کا پھوٹ پھوٹ کر رونے والا اہل کار کرس گنیس کیوں نظر نہیں آتا۔میں ان چار بچوں کا ذکر کیوں نہیں کرتا جو ساحل پر کھیلتے ہوئے کسی اسرائیلی جنگی کشتی کے گولے کا نشانہ بن گئے۔میں کریم ابو زید کی بات کیوں نہیں کرتا جو غزہ کی موجودہ جنگ شروع ہونے سے سولہ روز پہلے پیدا ہوا ۔تئیس روز نہ سمجھ میں آنے والے دھماکوں سے ڈر کر ماں کی چھاتی سے چمٹا رہا اور اب سے تین روز پہلے اپنی عمر کے 40 دن پورے کرکے جسم یہیں پے چھوڑ گیا۔

مسلمان دنیا کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ 11000 کلو میٹر پرے جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا نے غزہ کے یتیم اور زخمی فلسطینی بچوں کو گود لینے کی پیش کش کی ہے۔ بھری مساجد میں رقت آمیز دعاؤں سے فرصت ملے تو وینزویلا کو اسلامی کانفرنس کی صدارت پیش کرنے پر غور کیجئے گا۔

وسعت اللہ خان

Gaza Children : Tears of Gaza