Showing posts with label Islam. Show all posts

Falah-e-Insaniat Foundation load relief supplies to be distributed among flood affected people

Pakistani memebers of the Falah-e-Insaniat Foundation (FIF), a charity Organisation of the banned Islamic hardline group Jamat ud Dawa, load relief supplies to be distributed among residents affected by flooding on to a truck in Karachi on Sunday. At least eleven people including a bridegroom and two children drowned September 14 when a rescue boat carrying a wedding party capsized in flood-hit central Pakistan, officials said, with the death toll feared to rise. — AFP

Muslim groups denounce beheading of US journalist Steven Sotloff


Leading Muslim institutions denounced the killing of Steven Sotloff, the second US journalist to be executed by Islamic State militants and President Barrack Obama vowed to build a coalition to “degrade and destroy” the extremist group. 

“This is obviously a criminal act which we greatly denounce,” Maha Akeel of the Organization of the Islamic Conference told Al Arabiya News, voicing the same condemnation the group issued when IS released a video of the execution of US journalist James Foley. “They claim that they do their acts in the name of Islam but their doing has nothing to do with Islam,” Akeel said.

“We can’t call them an Islamic group, but a criminal one,” she explained, emphasizing Al-Azhar’s online campaign, which urges people and news outlets to stop calling the group Islamic. Al-Azhar is the top Islamic authority in Egypt and it is also highly revered by many Muslims worldwide. Former deputy imam of Al-Azhar Sheikh Mahmoud Ashour told Al Arabiya News that Sotloff’s killing was not only against humanity but “there is no religion that accepts the killing of a human soul.”

The largest Muslim civil rights and advocacy organization in the US, the Council on American-Islamic Relations, said: “No words can describe the horror, disgust and sorrow felt by Muslims in America and worldwide at the unconscionable and un-Islamic violence perpetrated by the IS terror group. The criminal actions of IS are antithetical to the faith of Islam.”

Obama reaffirmed that Washington would not be intimidated by IS militants. “Those who make the mistake of harming Americans will learn that we will not forget and that our reach is long and that justice will be served,” he said. — Al Arabiya News/Agencies

کلاسیکی ڈراما نگاری کا درخشاں نام - فاطمہ ثریا بجیا


پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا جب بھی ذکر نکلتا ہے، تو ایک بات جس کی طرف فوراً دھیان جاتا ہے،وہ ڈرامے کی تہذیبی تربیت کا پہلو ہے، جو موجودہ دور میںتقریباً عنقا ہوگیا۔ان ڈراموں کے ذریعے معاشرے کو اپنی اقدارکے بارے میں بتایا جاتا تھا،اب تو ڈرامے کے نام پر گھرکی اختلافی سیاست سکھائی جارہی ہے۔ پی ٹی وی کی سنہری تاریخ میں جن لوگوں نے تہذیبی تربیت کی،ان میں سب سے اہم شعبہ ڈرامانگاری تھا۔پی ٹی وی کے اہم ڈرامانگاروں کا ہم جائزہ لیں ،توان میں ایک اہم نام ’’فاطمہ ثریا بجیا‘‘کاہے۔

بجیا نے تھیٹر، ریڈیو اورٹیلی ویژن کے لیے بے شمار ڈرامے لکھے۔ پی ٹی وی کے قیام کے بعد کراچی ،لاہور اوراسلام آباد مراکز کے لیے بہترین ڈراماسیریل تصنیف کیے۔کئی یادگار ڈراما سیریز لکھیں۔خصوصی مواقعے پر مختصر نوعیت کے ڈرامے بھی تخلیق کیے۔ریڈیو کے لیے بھی کرداروں کو کہانیوں میں پرویا۔تاریخی اور نامور ناولوں سے ماخوذ کرکے کئی شاندار کہانیوں کو ڈرامائی تشکیل دی۔جاپان کے کلاسیکی ادب سے کہانیوں کواخذ کر تھیٹر کے ڈراموں میں ڈھالا۔بجیا نے ایک متحرک اور تخلیقی زندگی بسر کی،جس کی کوئی تمنا ہی کرسکتا ہے۔

بجیا ان دنوں علیل ہیں۔گزشتہ مہینے وہ گھر کے غسل خانے میں گریں،جس کی وجہ سے ان کو چوٹیں آئیں اورپھردوران علالت ہی ان پر فالج کا اٹیک بھی ہوگیا،جس سے جسم کاایک حصہ متاثر ہوا ہے۔اسپتال میں کچھ دن رہنے کے بعد انھیں چھٹی دے دی گئی۔اب بات چیت کرنے لگی ہیں،مگر مکمل صحت یاب ہونے میں انھیں وقت لگے گا،ان کے لیے دعائوں کی ضرورت ہے۔بزرگوں کا سایہ سر پرسلامت رہے،تو رحمت بھی اپنا دروازہ بند نہیں کرتی۔بجیا اس وقت 84برس کی ہیں،مگر اس حادثے سے پہلے تک انھوں نے متحرک زندگی گزاری۔ان دنوں وہ اپنے بہن بھائیوں کے پاس ہیں،جہاں ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے ۔بجیا کے خاندان میں انور مقصود، زہرہ نگاہ،زبیدہ آپا جیسے تخلیق کار بہن بھائی شامل ہیں، جنھیں اپنے ہنر میں کمال حاصل ہے۔

بجیا ان سینئر ڈراما نگاروں میں سے ایک ہیں،جن کی تحریروں میں ان کا باطن بھی جھلکتا ہے۔جس طرح انھوںنے زمانے کی نبض کو محسوس کیا،اسی طرح انھوں نے تحریروں کے ذریعے معاشرے کی تربیت کی۔وہ اپنی ذات میں سراپا سادگی ہیں۔ان سے جب بھی کوئی ملاقات کرتا ہے تو وہ اس کانام منصب پوچھے بنا سر پرہاتھ پھیرتی ہیں اور طویل عمرکی دعا دیتی ہیں۔ہمارے ہاں ایسے بزرگ اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔

بجیا کاگھر ان کی تہذیبی زندگی کی مجسم تصویر ہے۔مہمان خانے میں دیواروں پرآویزاں تصویریں ان کے آبائواجداد کا احوال دکھاتی ہیں۔برصغیر کے نامور خاندان کی چشم و چراغ فاطمہ ثریا بجیا کو اپنے تہذیبی پس منظر پر فخر ہے۔مطالعے کے کمرے میں الماریوں میں سجی کتابیں ان کی فکری سطح کا پتہ دیتی ہیں۔چائے اورکھانا کھلائے بغیر کسی کواپنے گھر سے نہیں جانے دیتیں،یہ باتیں کرتے ہوئے ایسامحسوس ہو رہا ہے کہ ہم کسی اور زمانے کی بات کر رہے ہیں،مگر یہ کسی اورکی نہیں عہدِ بجیا کی بات ہو رہی ہے۔

بجیا نے 60کی دہائی سے ڈرامے لکھنے شروع کیے۔بچوں اورخواتین کے لیے بھی لکھا،کئی ایک پروگرام پروڈیوس بھی کیے۔ان خدمات پر بجیا کو حکومت پاکستان نے ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘سے نوازا جب کہ جاپان کی طرف سے انھیں شاہی اعزاز’’دی آرڈر آف دی سیکرڈ ٹریژر‘‘دیا گیا۔اس کے علاوہ لاتعداد اعزازات ملے،مگر سب سے بڑھ کر وہ مقام ہے ،جو بجیا کے مداحوں کے دل میں ہے۔
میری پہلی ملاقات بجیا سے تب ہوئی،جب میں جامعہ کراچی میں طالب علم تھا اور ہم چند دوستوں نے مل کر ایک تھیٹر فیسٹیول میں حصہ لیا،جہاں مختلف جامعات کے ڈرامے پیش کیے گئے، وہاں میرے ہدایت کردہ ڈرامے کو دوسری پوزیشن اور بہترین اداکارکا اعزاز ملا تھا۔یہ اعزاز مجھے اورمیرے دوستوں کو بجیا کے ہاتھوں ملا۔اس کے بعد بجیا سے کافی عرصے تک ملاقات نہ ہوسکی۔اس دوران مجھے قونصل خانہ جاپان کی طرف سے ایک جاپانی کھیل کو اسٹیج پر دکھانے کی پیش کش کی گئی۔

زمانہ، طالب علمی میں جیب میں پیسے نہیں ہوتے اوراس طرح کی سرگرمیوں کے لیے پیسوں اورتعاون کی ضرورت ہوتی ہے،لہٰذا یہ پیشکش میرے لیے رحمت ثابت ہوئی۔مجھے انھوںنے بجیا کا دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں لکھا ہوا ایک ڈرامے’’خالی گود‘‘ کا مسودہ دیا اور بجیا سے ملاقات بھی کروائی ۔یوں جاپان معلوماتی اور ثقافتی مرکز کے لیے میں نے اس ڈرامے کوبجیا کی اجازت سے ایڈیٹ کیا اور اس کی ہدایات بھی دیں۔آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی میں یہ کھیل پیش کیاگیا اور اسے بہت مقبولیت ملی۔

اس کے بعد میری تدوین کی ہوئی ایک کتاب میں پاکستان اورجاپان دونوں ممالک کے مصنفین کی تحریریں شامل تھیں،بالخصوص وہ جاپانی دانشورجنھیں اردو زبان لکھنے اور بولنے پر عبور حاصل تھا، پھر جاپان میں اردو زبان کی ایک صدی سے زیادہ کی روایت ہے،یہ سب کچھ حیران کن تھا۔بجیا نے اس سلسلے میں رہنمائی کی اور ان کا لکھا ہوا ڈراما میرے لیے جاپانی ادب میں دلچسپی کاباعث بن گیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان ،راولپنڈی میں اس وقت کے سفیرجناب’’ہیروشی اوئے‘‘ نے تقریب میں شرکت کی ،جب کہ کراچی میں قائم قونصل خانہ جاپان کے قونصل جنرل جناب’’ آکیرا اُووچی ‘‘نے بھی تقریب کا انعقاد کیا۔

یہ سب کچھ بجیا کے ایک ڈرامے کا ثمر تھا ۔بجیا سے محبت اورجاپان سے تعارف نے مجھے اُکسایا کہ میں بجیا کے دیگر ڈراموں پرکام کروں، وہ ڈرامے وقت کی گرد تلے دبے ہوئے تھے۔بجیا نے جاپان کے کلاسیکی ادب سے ان کہانیوں کو ماخوذ کرکے لکھااوریہ تمام ڈرامے جاپان معلوماتی اور ثقافتی مرکز کے محمد عظمت اتاکا کی نگرانی میںاسٹیج بھی کیے گئے تھے۔ان ڈراموں میں اپنے وقت کے بڑے اداکاروں نے کام بھی کیا۔

بجیا کی بیماری سے چند دن پہلے میں جب ان کے گھر گیا، حسب روایت انھوںنے چائے بھی پلائی اورکہنے لگیں ’’میں نے بہت کامیاب زندگی گزاری،مگر بس اب کچھ پتا نہیں کب بلاواآجائے،اسی لیے میں نے اپنی کتابیں غالب لائبریری کو دے دی ہیں۔‘‘بجیا کاخلوص دیکھیں،انھوںنے اپنی کتابیں غالب لائبریری کو دے دیں تاکہ نئی نسل اورعوام ان کتابوں سے مستفید ہوسکیں۔

میں نے جاپانی سفارت کاروں اوربجیا کی اجازت سے ان کے اصلی مسودے حاصل کیے، پھر بجیا کی اجازت سے ان کی تدوین کی۔جاپانی ادیب،جن کی کہانیوں سے یہ ڈرامے ماخوذ کرکے لکھے گئے تھے،ان کے مکمل تعارف پر بھی کام کیا۔اب بجیا کے ان ڈراموں پر مشتمل کتاب تیار ہے اورطباعت کے مراحل میں ہے۔اس پر جاپان اورپاکستان کی ممتاز شخصیات نے اپنے تاثرات بھی رقم کیے ہیں،جس سے قارئین یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی ادبی وسماجی اہمیت کیاہے۔بہت جلد یہ کتاب شایع ہوجائے گی۔پاکستان میں جاپانی ڈراموں کی پہلی کتاب ہوگی اوربجیا کے یہ ڈرامے جو نظروں سے اوجھل تھے،ان تک قارئین کی دوبارہ رسائی ہوجائے گی۔تھیٹر ،ریڈیواور ٹیلی ویژن سے وابستہ ہنرمند بھی ان ڈراموں سے استفادہ کرسکیں گے اورقارئین کو عالمی ادب کے مزاج سے واقف ہونے کا موقع ملے گا۔

فاطمہ ثریا بجیا پاکستان کا فخر ہیں۔ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ایسے لوگ ملے جنہوں نے ہمارے ملک کو دنیا بھر میں متعارف کروایا۔ امید ہے عیدالفطر کے بعد اس کتاب کی تقریب اجرا کے موقع پر بجیا ہمارے ساتھ ہوں گی۔ہم سب مل کر اپنے فخر کو ان پر نچھاور کریں گے۔جاپان کو بھی بجیا پر فخر ہے اور پاکستان کا فخر بجیا ہیں۔دوممالک اوردوتہذیبیں ایک ہی شخصیت کی مداح ہیں،تاریخ اس نام’’فاطمہ ثریابجیا‘‘کو سنہری حروف میں یاد رکھے گی ۔

Fatima Surayya Bajia

Abu Bakr al-Baghdadi

A man purported to be the reclusive leader of the militant Islamic State Abu Bakr al-Baghdadi has made what would be his first public appearance at a mosque in the centre of Iraq's second city, Mosul, according to a video recording posted on the Internet on July 5, 2014, in this still image taken from video. There had previously been reports on social media that Abu Bakr al-Baghdadi would make his first public appearance since his Islamic State in Iraq and the Levant (ISIL) changed its name to the Islamic State and declared him caliph. The Iraqi government denied that the video, which carried Friday's date, was credible. It was also not possible to immediately confirm the authenticity of the recording or the date when it was made.
REUTERS/Social Media Website via Reuters TV

مسلم ممالک اور خود احتسابی........


عراق میں جاری چو طرفہ ہما ہمی اور شورش اگر ایک جانب انتہائی قابل تشویش ہے تو دوسری جانب اس بحران سے کئی پہلو بھی جڑے ہوئے ہیں اور کئی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ بین النہرین (میسوپو ٹیمیا) کہلانے والا یہ خطہ نہ صرف ایک شاندار تہذیب و ثقافت کا گواہ ہے بلکہ اس سے علوم و فنون کا ایک زریں دور بھی وابستہ ہے اور یہ اپنے آپ میں زندگی کی روشنی سمیٹے ہوئے ہے۔ دریائے دجلہ و فرات کا مستقر عراق ہے۔ یہ 'دار الحکمہ' کی سر زمین ہے جہاں سے پھوٹنے والی علم و حکمت کی روشنی پوری دنیا میں پھیلی اور یہی وہ سر زمین ہے جہاں مسلم تہذیب و ثقافت اپنی آن بان اور شان کے ساتھ پورے عروج پر تھی۔

الف لیلوی داستانوں نے یہیں جنم لیا۔ شہر زادے کی کہانیوں کا تعلق بھی اسی ملک سے ہے۔ یہی وہ سر زمین ہے جہاں امام ابو حنیفہ جیسے عالم و فاضل بزرگ کی بابرکت موجودگی سے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے ہزاروں افراد نے فیض حاصل کیا اور اپنی علم کی پیاس بجھائی یہی وہ سر زمین ہے جہاں حق و باطل کے معرکے میں شہید ہونے والے نواسئہِ رسول حضرت امام حسین اور اہل بیت آسودہ خاک ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا المیہ تھا کہ نواسہ رسول اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] کے پیروکاروں ہی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ عراق کو کچھ ایسا ہی معرکہ آج بھی درپیش ہے جب اسلام کے ماننے والے ایک ہی دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ افسوس کہ یہ المیہ کب اور کیسے ختم ہو گا، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

آیت اللہ علی السستانی نے گزشتہ ہفتے دولت اسلامیہ عراق و شام [داعش] کے جنگجوؤں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ جمعہ کے خطاب میں آیت اللہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ یہ نیکی اور بدی کے درمیان جنگ ہے۔ ان کے اس اعلان کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے جگجوؤں کے خلاف لڑائی میں اپنے نام لکھوانا شروع کر دیے جن میں ڈاکٹر اور پیشہ ور افراد کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ وہ اس لڑائی میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں یہ واقعی ایک ایسی جنگ ہے جس کے خطرات پورے عالم اسلام کو اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں.
یہ حق و باطل کے درمیان لڑائی تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حق کے علمبردار کون لوگ ہیں اور باطل کا ساتھ کون لوگ دے رہے ہیں۔؟ اس سوال کا جواب آسانی سے نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک میں دیکھ اور سمجھ رہا ہوں کہ مسلمان بھائی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے ہیں۔ جہاں تک میں دیکھ رہا ہوں تو مجھے مسلمانوں کے خون سے عالم اسلام لہولہاں نظر آ رہا ہے۔ اب اس جنگ میں جیت کسی کی بھی ہو، شکست امت مسلمہ کی ہو گی اور قوی اندیشہ ہے کہ وہ تمام مقاصد بھی تشنہ تکمیل رہ جائیں گے جنہیں پورا کرنا امت کا اولین فریضہ ہے۔ اہل نظر، موجودہ حالات ہی سے محسوس کر سکتے ہیں کہ شکست ہو چکی ہے۔

مسلمان صرف میدان جنگ میں ہی ایک دوسرے کے خلاف نہیں کھڑے ہیں بلکہ عراق میں یہ جنگ اب سوشل میڈیا پر بھی چھڑ گئی ہے اور مسلمانوں کے دو فرقے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی باہمی نفرت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ہفتے عراق کے ہی موضوع پر شائع ہونے والے میرے ایک مضمون پر قارئین نے جو آراء دی ہیں ان میں ستائش بھی ہے اور تنقید بھی جس سے تقسیم و اختلافات کی صورت حال واضح ہے۔ قارئین نے مجھ پر الزام لگایا ہے کہ میں ایک طبقے کی حمایت کر رہا ہوں اور دونوں ہی طبقات ایک دوسرے کو مجرم قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ کیا باہمی نفرت کی زنجیروں نے ہمیں کبھی اتنی سختی سے جکڑا تھا اور ہم ایک دوسرے کے اتنے شدید دشمن کبھی بنے تھے۔!

میں محو حیرت ہوں کہ ایک عقیدہ کے پیروکار اور ایک کتاب نیز ایک رسول کے ماننے والے یہ کس ظلمت میں بھٹک رہے ہیں! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیل اور صہیونی عناصر نے اپنا کھیل کھیلا ہے اور ان سازش کاروں کے منصوبے صرف عراق تک محدود نہیں ہیں بلکہ انہوں نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ ان کا مقصد صرف اسرائیل عظمیٰ کی تشکیل نہیں ہے بلکہ پاس پڑوس کے مسلم ممالک کے علاقوں پر قبضہ کرنا بھی ہے۔ صہیونی اور عیسائی شدت پسند یہ خواب ایک مدت سے دیکھ رہے ہیں اور اسے شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنے سازشی ذہن کے ساتھ ہمہ وقت مصروف ہیں۔ میں سازشی نظریات پر آسانی سے یقین کرنے والا شخص نہیں ہوں لیکن خطہ عرب سے لے کر مشرقی ایشیاء تک مسلمانوں کے درمیان جو فرقہ وارانہ خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے، اس سے یہ سمجھے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ان کے پس پشت یقینا کوئی سازش اور مذموم منصوبہ ہی کار فرما ہے۔ مسلمانوں میں رائج مسلکی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر مغربی طاقتیں اپنے مقاصد کی جانب قدم بڑھا رہی ہیں اور اسلام کے خلاف صف آرا ہیں کیونکہ یہی وہ مذہب ہے جسے وہ اپنی عالمی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔

دوسری جانب اسلام کے نام پر ایسے شدت پسند گروہ بھی پوری طاقت کے ساتھ سرگرم ہو چکے ہیں جو دعویٰ تو اسلام، مسلمان اور مسلم ممالک کے تحفظ کا کرتے ہیں لیکن اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے میں انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ اسرائیل اور صہیونی نواز طاقتیں ہماری کھلی دشمن ہیں لیکن مذکورہ قبیل کے مسلم شدت پسندوں سے تو ہمیں سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مسلم ممالک کے مسائل اور بحران کیلئے صرف اسرائیل اور مغرب کو ذمہ دار نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ کیا یہ سر پیٹنے کا مقام نہیں ہے کہ تیل کے ذخائر اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم ممالک ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں پیچھے ہیں جبکہ انہی وسائل پر عالمی معیشت کا پورا دار ومدار ہے۔

عراق کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو شورش اور بے ہنگم حالات کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ جمہوریت اور انصاف کے نام پر ان ممالک کی حالت کیا سے کیا کر دی گئی ہے اور پھر ظلم و نا انصافی کے خلاف جو جمہوری اور پر امن طریقے سے احتجاج کرتا ہے، اسے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ جب امن و امان کے لیے اٹھنے والی آواز کو دبایا جائے گا اور مظلوموں کو ان کے وقار سے محروم کر دیا جائے گا، تب شدت پسندی کے خدشات کو کیسے مسترد کیا جا سکتا ہے۔
افریقہ سے لے کر عرب تک یہی کچھ ہو رہا ہے اور عراق و شام کی صورتحال ان میں سب سے بدتر ہو چکی ہے۔ یہ سوال ہمیں خود سے کرنا چاہیے کہ ہمنے اب تک ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں اور کیا تیاریاں کی ہیں۔ اگر ہم نے اپنا دہرا معیار ترک نہیں کیا اور منظم کوششیں نہ کیں تو بحران کی ان زنجیروں سے آزاد ہونا ہمارے لئے ممکن نہیں ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ "انقلاب" دہلی

قبا چاھئے اس کو خون عرب سے........


عراق تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، اگر وہاں دوبارہ لڑائی چھڑتی ہے تو اس کے باعث خام تیل کی قیمتوں پر اثر پڑے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

عراق کی صورتحال دن بہ دن دھماکا خیز ہوتی جا رہی ہے۔ شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے عراق کی مغربی سرحد پر قبضہ کے بعد اس خطہ میں حکومت کی عمل داری ایک طرح سے ختم ہو گئی ہے۔ دوسری جانب عراقی حکومت داعش کی پیش قدمی کے باعث بے بس نظر آتی ہے اور اس نے امریکا سے درخواست کی ہے کہ اسے فوری طور پر فضائی امداد فراہم کی جائے۔

عراق میں صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری عراق پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم نوری المالکی سے ملاقات کر کے یہ کہا ہے کہ حکومت میں عراق کے تمام فریقوں کو حصہ داری دی جائے تاکہ سنی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے کسی بڑے ٹکرائو کو روکا جا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف عراقی حکومت امریکا سے براہ راست مداخلت کی درخواست کر رہی ہے، وہیں دوسری جانب ایران کے سب سے بڑے مذہبی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ عراق میں مداخلت کے لیے بہانے تلاش کر رہا ہے۔

امریکا نے عراق پر حملہ کے آٹھ سال بعد 2011ء میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے اپنی فوجیں ہٹا لینے کا اعلان کیا تھا کہ عراق میں اب القاعدہ کی رہنمائی میں سنی ملیشیا کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بڑے تمسخرانہ انداز میں کہا تھا کہ انہوں نے عراق میں موجود القاعدہ تنظیم کی ایک طرح سے کمر توڑ دی ہے، جس کا دوبارہ سر اٹھانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ لیکن ان کو شاید یہ علم نہیں تھا کہ بظاہر طور پر خاموش ہو جانے والے شدت پسند مصلحت کے تحت ضرور خاموش ہو گئے لیکن انہوں نے اندر ہی اندر تیاری کر کے اپنی طاقت کو مجتمع کر لیا ہے۔ ان عناصر کو عراق کے اس طبقہ کی بھی حمایت حاصل رہی جو موجودہ حکومت کے استحصال کا شکار رہا۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے بعض افسران نے صدام حسین کے دور کا انتقام بے گناہ لوگوں سے لیا، جس کی وجہ سے ان لوگوں کے اندر غم و غصہ تھا۔

داعش کے ارکان نے عراق میں جب اپنی کارروائی شروع کی تو ان لوگوں نے اسے اپنے نجات دہندہ کے طور پر دیکھا اور عراقی باشندے اب کھل کر اس تنظیم کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داعش کی جانب سے جب کارروائی شروع کی گئی تو جلد ہی عراق کے کئی شہر اس کے زیر نگیں ہو گئے اور عراقی فوج کسی بھی محاذ پر ان کے سامنے ٹک نہیں پائی اور جس جگہ بھی ٹکراؤ ہوا، میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ عراق فوج کی بے بسی کا اندازہ عراق کے وزیر خارجہ کے اس بیان سے ہو جاتا ہے کہ عراق کے پاس فضائیہ نہیں ہے اور نہ ہی جنگی طیارے ہیں۔ اس کے باوجود کہ حکومت کو داعش سے درپیش خطرے کا پہلے سے ہی علم تھا، لیکن عراقی فوج ان کے سامنے بالکل بے بس نظر آئی۔

یہی وجہ ہے کہ داعش نے دفاعی لحاظ سے اہم شمالی شہر تل عفر کے ہوائی اڈہ پر آسانی سے قبضہ کر لیا۔ اس طرح داعش کے جنگجوؤں نے عراق کے بڑے حصہ کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا، جس کے آغاز موصل پر قبضہ شے شروع ہوا تھا۔ یہی نہیں داعش کے جنگجوؤں نے انبار صوبہ کے سنی اکثریت والے قصبوں میں اپنے پیر جما لیے۔ اس طرح جنگجوؤوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کا راستہ صاف ہو گیا۔ اردن اور شام کی سرحدی چوکیوں پر تقریباً 90 فیصد علاقہ پر باغیوں کا قبضہ ہے۔ کئی مقامات پر فوج اور پولیس نے اپنی چوکیوں کو چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی، جب باغیوں نے انہیں خون خرابہ سے بچنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کر دیا تھا۔

داعش کے شدت پسندوں نے جس طرح بغداد کی جانب اپنی پیش قدمی جاری رکھی ہے، اس سے بغداد کے اندر لوگوں میں ایک طرح کی سراسیمگی سی پائی جاتی ہے۔ اب جس طرح سے عراقی حکومت بار بار امریکہ سے فضائی حملہ کی درخواست کر رہی ہے، اس سے عراق میں ایک بار پھر بڑے پیمانہ پر قتل و غارت گری کے خدشہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عراق میں تیل کی دولت پر قبضہ جمانے کے لیے امریکہ نے جس طرح بڑے پیمانہ پر تباہی مچائی، اس سے لاکھوں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایک ہنستا مسکراتا ملک آہ و بکا کے لیے مجبور ہو گیا۔ ہولناک بمباری کے باعث آج بھی وہاں ہزاروں افراد جن میں بوڑھے اور بچے بھی شامل ہیں، معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ اگر پھر دوبارہ وہاں بمباری کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی زد میں معصوم شہری آئے بغیر نہیں رہیں گے۔

عراق تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، اگر وہاں دوبارہ لڑائی چھڑتی ہے تو اس کے باعث خام تیل کی قیمتوں پر اثر پڑے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ ہندوستان جس کا تیل کے درآمدات پر بہت بڑا انحصار ہے، تیل کی قیمتوں پر اضافہ سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کا براہ راست اثر پوری معیشت پر پڑے گا۔ جب سے عراق میں زیادہ گڑبڑی پیدا ہوئی ہے، خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونا بھی شروع ہو گیا ہے۔ شدت پسندوں کی جانب سے وہاں کی آئل ریفائنری پر قبضہ کیے جانے کے بعد عراق سے تیل کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت خام تیل کی قیمت 9 مہینے کی سب سے اونچی شرح 115 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے۔ اگر عراق کا بحران فوری طور پر حل نہیں کیا گیا تو ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر جو زبردست بوجھ پڑے گا، اس کا خمیازہ 
عوام ہی کو برداشت کرنا پڑے گا۔

مسلم ایجادات جو ہمیشہ قابل فخر رہیں........


آج کے اس جدید دور میں امریکہ ، برطانیہ ، اٹلی اور اسی طرح دوسرے جدید ترقی یافتہ ممالک کو دنیا میں ایک اعٰلی مقام حاصل ہے۔ لیکن ایسی بہت ساری ایجادات ہیں جن کا براہ راست تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ہزاروں ایسی بہت ساری ایجادات ہیں جو کہ آج کے اس جدید دور میں بھی اپنی نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ مغرب کی تمام تر ایجادات مسلمانوں کی ایجادات کی مرہون منت ہیں ان میں سے چند ایک کا زکر کچھ یوں ہے۔ ******

 ٹوتھ برش (مسواک) 6 ہجری میں ہر دلعزیز ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے مسواک کا استعمال کیا۔ انہوں نے مسواک کو استعمال کرنے پر بہت زور دیا اور اس کے فوائد بھی بتائے۔ اسی طرح آج کے اس جدید دور میں مسواک کی طرز پر ٹوتھ برش استعمال ہو رہا ہے۔ جراحی مشہور و معروف مسلمان سائنس دان ابوالازہروی نے 1500 صفحات پر مشتمل جراحی کے متعلق پوری جامع کتاب شائع کی جس میں جراحی کے متعلق ساری معلومات فراہم کی گئیں۔الازہروی کی اس کے علاوہ ایجادات میں بلی کی آنتوںپہلا آپریشن بھی شاملہے۔ کوفی (کافی) اس جدید دور میں جہاں یورپین ثقافت میں کافی کو بہت اہمیت حاصل ہے ،وہاں پر کافی کے نت نئے نام رکھے گئے ہیں۔ حقیقت میں کافی سب سے پہلے یمن میں نویں صدی میں پہلی بار تیار کی گئی، اس کے بعد تیرہویں صدی میں یہ ترکی آئی اور پھر سولہویں صدی میں یورپ میں آئی۔

 اڑنے والا طیارہ عباس ابن فرناس پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے سب سے پہلا طیارہ تیار کیا اور اس کی کامیاب پرواز کی۔ بعد میں ان کے ڈیزائین کی کاپی کی گئی جو کہ اٹلی کے آرٹسٹ نے کی۔ یونیورسٹی کا قیام 958میں دمشق میں پہلے ڈگری پروگرام کا آغازہوا اور اس یونیورسٹی کو اسلام کی تعلیمات کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔ الجبرہ الجبرہ فارسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے اور نویں صدی میں مسلمان سائنس دان نے کتاب لکھی جس کا نام ‘‘کتاب الجبر ’’ رکھا۔ اور اس کے علاوہ ہندسوں کے متعلق ، تعداد کی پاور دو وغیرہ مسلمان سائنس دانوں کی ایجادات ہیں۔ علم بصریات بہت ساری اہم بصریات کے متعلق ریسرچ مسلم دنیا سے ہوئی۔ ابو علی الحسن اور الحیشم نے ثابت کیا کہ انسان روشنی کے عکس کے زریعے دیکھتا ہے اور اس کے علاوہ بہت ساری معلومات فراہم کیں جو کہ انسانی آنکھ سے متعلق تھیں۔ ہسپتال کا قیام ہسپتال جو آج ہم دیکھتے ہیں کہجن میں مختلف وارڈز ، نرسنگ سٹاف کی ٹریننگ وغیرہ یہ سب سے پہلے 
مصر میں میں شروع ہوا۔

صمد اسلم
Muslim Scientists and  Discovereis

باصلاحیت اذہان کیسے جمع کئے جائیں؟.......محمد بن راشد المکتوم


یہ 1968ء کی بات ہے جب میں برطانیہ کے مونس کیڈٹ اسکول میں زیر تعلیم تھا تو ایک دن مجھے اسپتال جانے کی ضرورت پڑ گئی۔ وہاں پر میری ملاقات ایک ڈاکٹر سے ہوئی جس کو روانی سے عربی بولتے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ جب مجھے پتہ چلا کہ وہ برطانیہ میں نیا نیا آیا ہے تو میں نے اس سے استفسار کیا کہ وہ یہاں عارضی قیام کرے گا یا مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ہے تو اس نے ایک عربی کہاوت بیان کی کہ ’’میرا گھر وہی ہے جہاں مجھے کھانے کو ملے‘‘۔
اس ڈاکٹر کے یہ الفاظ کئی سالوں تک میرے ذہن پر سوار رہے، کیوں کہ ان سے یہ پتہ چلتا تھا کہ ’’اپنے گھر‘‘ کے افسانوی تصور اور زندگی کے تلخ حقائق میں کتنا تفاوت ہے۔ یہی حقیقت باصلاحیت افراد کو اپنا گھر یعنی ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ ڈاکٹر ذہین افراد کے انخلاء جس کو انگریزی میں ’’برین ڈرین‘‘ کہتے ہیں، کی ایک خاص مثال تھا۔ برین ڈرین کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو کئی عشروں سے مسائل درپیش ہیں۔ یہ ممالک اپنے محدود وسائل کو اس امید پر اپنے ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنسدانوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں کہ وہ ان ممالک کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے تاہم انہیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ایسے افراد اپنی صلاحیتوں سمیت مغربی ممالک میں جا کر آباد ہوتے ہیں۔
یقیناً یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنی اچھی زندگی کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک میں جا بسے۔ ہمیں معلوم ہے کہ صلاحیت ایک مقناطیس کی طرح موقع کی طرف لپکتی ہے تاہم جو ممالک پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے لئے یہ ایک نہ ختم ہونے والا مکروہ سلسلہ بن جاتا ہے۔ ان ممالک کو ترقی کے مواقع پیدا کرنے کے لئے باصلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دوسری طرف باصلاحیت افراد ترقی کے کم مواقع ہونے کی وجہ سے خوشحال مغربی زندگی کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ اور معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم ’’او ای سی ڈی‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء کے بعد بیرون ملک کام کے لئے ہجرت کرنے کے رجحان کی شرح میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔ افریقہ میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہر نو میں سے ایک شخص مغرب میں کام کر رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد واپس نہیں آئیں گے۔ ہنرمند افراد کے بیرون ملک قیام کے امکانات چھ گنا زیادہ ہیں تاہم اب ایک زبردست تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چند ممالک میں ذہین افراد کی منتقلی کا عمل الٹ گیا ہے اور اس کی وجوہات دلچسپ ہیں۔ اب یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ ذہین افراد کی منتقلی کا سلسلہ بالآخر رک سکتا ہے جس سے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں میں مواقع اور امید کا توازن بدل سکتا ہے۔

دنیا میں پیشہ ورانہ رابطوں اور ملازمتوں کی فراہمی کے سب سے بڑے آن لائن نیٹ ورک ’’لنکڈ ان‘‘ نے اپنے ممبران کے ذریعے باصلاحیت افراد کی بین الاقوامی نقل و حرکت کو جانچا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق میرا ملک متحدہ عرب امارات ذہین افراد کی پسندیدہ آماجگاہوں میں سر فہرست ہے۔ اس کے مطابق سال 2013ء میں ملک کی افرادی قوت میں باصلاحیت افراد کی شرح میں ایک اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔
باصلاحیت افراد کے پسندیدہ ممالک میں سعودی عرب، نائجیریا، جنوبی افریقہ، بھارت اور برازیل شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں باصلاحیت افراد کی آمد ایک تہائی سے بھی کم رہی۔ درحقیقت ایسے افراد کو دوسرے ممالک بھیجنے والوں میں سر فہرست اسپین، برطانیہ، فرانس، افریقہ، اٹلی اور آئرلینڈ ہیں۔ امیر ممالک جو ماضی قریب تک ہمارے روشن دماغوں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے اب اپنے لوگوں کو ہماری طرف بھیج رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ صرف یہ ایک تحقیق کے نتائج ہیں اور کئی غریب ممالک ابھی تک باصلاحیت افراد کے انخلاء کے قدیمی مسئلے سے دوچار ہیں۔ ’’او ای سی ڈی‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں تعلیم یافتہ افراد کی بیرون ملک منتقلی کی شرح 50 فیصد سے زائد ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ برین ڈرین میں جتنا کردار معاشی مواقع کی دستیابی کا ہے اتنا ہی تحفظ کی خواہش کا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک کے مسائل میں تنازعات اور عدم استحکام بھی شامل ہے۔ اگر قوم کے انتہائی باصلاحیت بیٹے اور بیٹیاں اپنے ملک میں کارکردگی دکھائیں تو وہ مسئلے کا حل بن سکتے ہیں اور ترقی کے ذریعے امن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس امر کی وجہ سے اور بھی ضروری ہو گیا ہے کے ہم ترقی پذیر ممالک کی طرف سے باصلاحیت افراد کے انخلاء کا عمل الٹنے میں کامیابی کا جائزہ لیں۔ مواقع کی دستیابی سب سے اہم چیز ہے۔با صلاحیت افراد خود بخود ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جو معاشی ترقی کا ماحول قائم کریں، کاروبار کو آسان بنائیں اور سرمایہ کاری کو فروغ دیں اور کامیابی کے رجحان کی نشوونما کریں۔
باصلاحیت افراد کامیابی اور چیلنج کے مواقع ڈھونڈتے ہیں۔ اس سطح کے مواقع مغرب میں محدود ہوتے جا رہے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں صورت حال مختلف ہے۔ کم از کم ان ممالک میں جہاں اچھی اور مضبوط گورننس کی لگن موجود ہے اور جو خوب سے خوب تر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ معیار زندگی کی بھی بہت اہمیت ہے۔ گذشتہ نسل کے لوگ مغرب سے باہر کام کرنے کو ایک دقت سمجھتے تھے۔ آج متحدہ عرب امارات کا معیار زندگی دنیا میں بہترین گردانا جاتا ہے۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ باصلاحیت افراد کی منتقلی کے عمل کو الٹا جانا اور اپنے شہریوں کی زندگی کو بہتر بنانا ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔

آخر کار خوشی اور خوشحالی کا فروغ کسی بھی حکومت کا بنیادی کام ہے۔ ہماری کہانی خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے لئے ایک امید کی کرن ہے کیوں کہ اس خطے میں تنازعات اور مایوسیوں نے بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقلی کو فروغ دیا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ اچھی گورننس کے علاوہ عرب دنیا میں اختلافات اور مسائل کا حل بنیادی سطح پر ترقی اور معاشی مواقع کی فراہمی میں مضمر ہے۔ اب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ان عوامل کو روکا جا سکے جنہوں نے ماضی میں ہمارے باصلاحیت افراد کو ہم سے جدا کر دیا تھا۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی جلد ممکن ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چھوٹے ممالک برین ڈرین سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات جیسے چھوٹے ملک اور تنازعات سے بھرپور خطے میں بھی ایک ’’امید کے جزیرے‘‘ کا قیام ممکن ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ برین ڈرین کے الٹنے کا مطلب صرف صلاحیت کے انخلاء کو روکنا ہی نہیں بلکہ ایک مکروہ سلسلے کو ایک خوش آئند سلسلے میں تبدیل کرنا بھی ہے۔
دنیا بھر سے بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو اپنے ہاں لانے سے ہم ایک متحرک اور متفرق معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جس سے جدت اور ترقی حاصل ہو گی اور یہ عمل مزید باصلاحیت افراد کو اپنی طرف کھینچے گا۔ اس کے لئے ہمیں لوگوں پر اعتماد کرنا ہو گا۔ انسان کے خیالات، خواب، تخلیقی صلاحیتیں مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ اس طرح ذہانت کی واپسی بجائے خود ایک بڑی کامیابی نہیں بلکہ یہ ترقی کی ایک علامت ہے کیوں کہ جہاں آج عظیم لوگ موجود ہوں گے وہاں کل عظیم کمالات برپا ہوں گے۔
(مصنف متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران ہیں)  
۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ 'جنگ'


Fashion


Minhaj-ul-Quran


Minhaj-ul-Quran International is an international non-governmental organization (NGO) founded by Muhammad Tahir-ul-Qadri in 1981 in Lahore, Pakistan.[1] It has a long-term strategic vision to promote religious moderation, effective and sound education, inter-faith dialogue and harmony.[2] It has expanded to 100 countries around the globe.[3] Its emphasis is improving the social, cultural and religious condition, enlightening the masses with the knowledge of their rights and duties and presenting a realistic, rational and scientific picture of Islam.

The headquarters of Minhaj-ul-Quran International was inaugurated in 1987 by Tahir Allauddin Al-Qadri Al-Gillani who is regarded as the organization's spiritual founder.[4] The objective of Minhaj-ul-Quran inEurope and the West in general is to create harmony in societies between different cultural, ethnic and religious communities through social interaction, interfaith dialogue and spreading the messages of toleration, respect for others and the benefits of integration. . It is the first organisation of its kind that has initiated interfaith dialogues with religious minorities.[5] Qadri is the Chairman of the Muslim Christian Dialogue Forum, where Christian bishops and Muslim clerics and scholars work side by side.

Ideology 

The ideology of Minahj-ul-Quran International is multidimensional and relates to the spiritual, moral, educational and social progress of human beings in the light of a modern and moderate interpretation of the Quran and the sunnah of the Islamic prophet Muhammad. It promotes religious moderation, peace and interfaith harmony. In the west it has specialised in tackling extremism and radicalism amongst young Muslims in the hope of reducing the evil of terrorism.[12]

Qadri says he felt the need to establish Minhaj-ul-Quran because, after analysing the work and efforts of contemporary Muslim organisations, he concluded that they all were working on very limited level, none of them had a comprehensive global vision and programme and they lacked co-ordination and co-operation. However, the message of the Prophet Muhammad was comprehensive and global and therefore the various outstanding characteristics of Minhaj-ul-Quran International are believed to lead to a revival of the Prophet Muhammad's message.[13] These characteristics include:
Comprehensiveness of the message;
Purity of the message;
Chain of transmission of the message from Prophet Muhammad to its founder;
Modern and scientific interpretation of message;
Emphasis on the revival of spiritual, moral, educational and social values;
Emphasis on revival of the message.

Achievements 

The educational network of Minhaj-ul-Quran is well known in Pakistan. It runs around one thousand educational institutes, including libraries in Pakistan and a university based in Lahore which was chartered in 2005.[14]

It also runs a successful charity, the Minhaj Welfare Foundation (MWF), that has a global network and aims to provide emergency aid, health care, welfare support and education to the poor and those affected by natural disasters.[15] It is a UK registered charity under the Charity Commission.

Minhaj-ul-Quran has continuously aimed to promote the tolerant, inclusive, peaceful and balanced message of Sufism through the modern and scientific interpretation of Islam, and has distributed over 300,000 books of Tahir-ul-Qadri in the last 25 years. It has produced and distributed millions of video cassettes, CDs and DVDs with lectures of its founder on almost every concept of Islam worldwide.[16]

Minhaj-ul-Quran holds one of the largest annual Itikaf gatherings during the month of Ramadan with approximately 37,000 people sitting congregational Itikaf in 2007. It holds the largest Laylat ul Qadr night event on the 27th Ramadan with millions of attendees.[17][18]

Minhaj-ul-Quran also has revived the concept of celebrating the birthday of the Prophet Muhammad in the Ummah. The largest annual International Mawlid an-Nabi (Milad un Nabi) event takes place in the grounds of Minar-e-Pakistan, Lahore, on the 12th of Rabi' al-awwal and attracts people from all over Pakistan and aboard. The highlight of the event is the speech by Tahir-ul-Qadri, live via satellite from Canada where he is in self-imposed exile, followed by recitation of salutations upon the Prophet Muhammad.[19] In 2008, due to the limitation of the space at Minar-e-Pakistan, it plans to decentralise the event and will hold events in 5 different cities and broadcast the speech live to all the cities.

On 3 December 2005 Minhaj-ul-Quran established a full-time institution called Gosha-e-Durood where any individual can apply to sit for reciting salutations on the Prophet Muhammad. In the last two years trillions of salutations have been recited. A building dedicated to this purpose with Mawlana Rumi style minarets is under construction.[20]

It also airs the main lectures of its founder on the private international TV channel QTV (ARY), which enables millions of people abroad to listen.[21]

In the past decade Minhaj-ul-Quran International has successfully established various resources to promote the peaceful and balanced message of Islam using the internet.

Minhaj-ul-Quran International is the first organisation of its kind that has initiated interfaith dialogues with religious minorities in Pakistan. Its founder is the Chairman of the 'Muslim Christian Dialogue Forum' to highlight and promote their citizen rights.[22][23][24]

The United Nations Economic and Social Council (ECOSOC) has formally recognised and granted a 'Special Consultative Status' to Minhaj-ul-Quran International due to its services in promoting peace, tolerance, interfaith harmony and education, tackling extremism and terrorism, engaging with young Muslims for religious moderation, promoting women’s rights, and providing social welfare and promotion of human rights.[25]

In September 2011, Minhaj-ul-Quran organised a major "Peace for Humanity" conference at Wembley Arena in London at which, under the auspices of Tahir-ul-Qadri, its 12,000 attendees announced a global declaration denouncing racism, interfaith intolerance, extremism and terrorism.[26] Minhaj-ul-Quran strategist Joel Hayward[27] wrote the declaration text for Qadri[28] and was its second formal signatory after Qadri himself. Notably, senior Al-Azhar University leaders and dignitaries then signed it before Minhaj-ul-Quran opened it up via the internet for public signing.[29] They aim to get one million signatures within a year.[26] The London Declaration for Global Peace and Resistance against Extremism is intended as an interfaith document which unequivocally condemns all extremism and terrorism, ”because at the heart of all religions is a belief in the sanctity of the lives of the innocent.”[30] The Declaration adds: “The indiscriminate nature of terrorism, which has in recent years killed far more civilians and other non-combatants than it has combatants, is un-Islamic, un-Judaic, un-Christian and it is indeed incompatible with the true teachings of all faiths.”[30] The London Declaration also “unequivocally condemn[s] anti-Semitism (including when sometimes it is disingenuously clothed as anti-Zionism), Islamophobia (including when it is sometimes disingenuously dressed up as patriotism) and all other forms of racism and xenophobia.”[30] Some extremists have already tried to prevent the success of the Declaration via cyber-attacks on the website hosting it.[31]

Minhaj-ul-Quran leader Dr Tahir-ul Qadri announced the largest March in modern times in Pakistan; a march to take place on 14th Jan 2013 at 'Tahrir Square' Islamabad. The agenda of long march is to voice elimination of feudalism, introduction of real democracy, rule of law and implementation of constitution.[32]

Forums and sub-organisations 

Muslim Youth League (MYL)
Minhaj-ul-Quran Women's League
Pakistan Awami Lawyers Movement (PALM)
Muslim Christian Dialogue Forum
Farid-e-Millat Research Institute (FMRi)

Bari Imam

Bari Imam (1617–1705), or Shah Abdul Latif Kazmi, is the patron saint of Islamabad and the greater Pothohar region.

History

Bari Imam (1617–1705), whose real name was Shah Abdul Latif Kazmi, was born in 1026 Hijra (1617 AD) in Jhelum. His father, Syed Mehmood Shah, shifted his family from Jhelum District to Baghan village, presently called Aabpara. At that time, it was a barren land. Soon after the arrival of Bari Imam’s family, his father started farming and also kept some animals. Shah Latif helped his father in grazing the animals, but left his father at 12 and came to Nurpur Shahan. He is the first cousin from his father's side of Shah Chan Charagh.
Nurpur Shahan, the village was initially called churpur Shahan since it was infested by thieves, robbers and people of dubious character in those days. Bari Imam while spreading the message of peace converted them to Islam and convinced them to become law abiding citizens.
From Nurpur Shahan, Bari Imam went to Ghaur Ghashti (now known as Attock) where he stayed for two years for learning fiqh, hadith, logic, mathematics, medicine and other disciplines, because at that time Ghaur Ghashti was a great seat of learning.

To get spiritual knowledge and satiate his love for Islam, Bari Imam visited many places, including Kashmir, Badakhshan, Bukhara, Mashhad, Baghdad and Damascus. He not only received spiritual knowledge in these places but also held discussions with scholars belonging to different schools of thought on various subjects. Later, he went to Saudi Arabia to perform Hajj.
Bari Imam received spiritual knowledge from Hayat-al-Mir (Zinda Pir). His Pir (Sufi Mentor) gave him the title of Bari Imam (The leader of the earth). Bari Imam converted thousands of Hindus into Muslims through the teachings of Islam at Nurpur Shahan. It is stated that once Mughal Emperor Aurangzeb Alamgir himself came there to pay respects to Bari Imam.

The Shrine

Mughal Emperor Aurangzeb, who was devoted to spreading his empire, originally built the silver-mirrored shrine of Bari Imam. It has been renovated since and is now maintained by the Government of Pakistan. Inside the mausoleum, where the great saint rests, only men are permitted, a steady stream of believers enter and exit, most bending to kiss and strew rose petals on the green cloth covering the grave of Bari Imam.
Every year at the Urs (Birth celebration) of the saint, who spread Islam in this part of the world, gains momentum; devotees in their thousands set out for the Margalla foothills and gather at Nurpur Shahan to pay their respect. Although many swarm the shrine all year round, only last year the number exceeded a head count of 1.2 million people.

Terrorist Act

In May 2005, the peaceful village of Noorpur Shahan, hosting the death anniversary (Urs) of Bari Imam was rocked by a vicious terrorist act that left 20 people dead and almost 70 injured.[1]
Enhanced by Zemanta

PEMRA - Pakistan Electronic Media Regulatory Authority


Pakistan Electronic Media Regulatory Authority (reporting name: PEMRA), is an independent and constitutionally established federal institution responsible for regulating and issuing channel licenses for establishment of the mass-media culture, print and electronic media.[1]Codified under the Article 19: Chapter I of the Constitution of Pakistan, it has jurisdiction to impose reasonable restrictions in the interest of the religion, the integrity, national security of Pakistan.[2] Established on March 1, 2002, Pemra's principal objectives are to facilitate and regulate the private electronic mass-media industry and to improve the standards of information, education and entertainment.[2]Its constitutional mandate is to enlarge the choice available to the people of Pakistan including news, current affairs, religious knowledge, art and culture as well as science and technology.[3] As of present, it is currently chaired by Chaudhry Rashid Ahmad as its designated and appointed chairman from the government of Pakistan.[4]

Constitutional status and definition

The constitutional freedom of speech and press are highlighted in the constitution of Pakistan. Under the Article 19 and Article 19A of Fundamental Rights in the Constitution of Pakistan. The Constitution grants PEMRA following powers:
  1. Improve the standards of information, education and entertainment.[3]
  2. Enlarge the choice available to the people of Pakistan in the media for news, current affairs, religious knowledge, art, culture, science, technology, economic development, social sector concerns, music, sports, drama and other subjects of public and national interest.[3]
  3. Facilitate the devolution of responsibility and power to the grass roots by improving the access of the people to mass media at the local and community level.[3]
  4. Ensure accountability, transparency and good governance by optimization in the free flow of information.[3]

Every citizen shall have the right to freedom of speech and expression, and there shall be freedom of the press, subject to any reasonable restrictions imposed by law in the interest of the glory of Islam or the integrity, security or defense of Pakistan or any part thereof, friendly relations with foreign States, public order, decency or morality, or in relation to contempt of court, [commission of] or incitement to an offence. Article 19(A)— Right to information: Every citizen shall have the right to have access to information in all matters of public importance subject to regulation and reasonable restrictions imposed by law.
—Article 19-19(A): Fundamental Rights and Principles of Policy; Part-II, Chapter 1: Fundamental Rights, source: The Constitution of Pakistan[5]

Overview

The Authority is responsible for facilitating and regulating the establishment and operation of all private broadcast media and distribution services in Pakistan established for the purpose of international, national, provincial, district, and local or special target audiences.

History

The Pakistan Electronic Media Regulatory Authority (PEMRA) was promoted by the government as an open media policy reform and was fortified with strong regulatory teeth. The establishment of PEMRA was initiated in 2000, during President Musharraf's term; through the formation of the Regulatory Authority for Media Broadcast Organisations (RAMBO) which was mandated to improve standards of information, education and entertainment; expand the choice available to the people of Pakistan in the media for news, current affairs, religions knowledge, art, culture, science, technology, economic development, social sector concerns, music, sport, drama and other subjects of public and national interest; facilitate the devolution of responsibility and power to grass roots by improving the access to mass media at the local and community level; and lastly, to ensure accountability, transparency and good governance by optimising the free flow of information.

Many pro-democratic campaigners consider this four-point mandate to be a solid foundation supporting democracy processes and comprehensive media liberalisation. However, the general opinion among media practitioners is that PEMRA only acted as a licence issuing office that has implemented regulatory barriers for broadcasters. "It is a Bhatta (money extortion in Urdu) body that collects money from broadcasting operators in a legal way. Nothing more can be expected." notes media law activist and journalist Matiullah Jan. The PEMRA laws were utilized by the Musharraf regime in his attempts to tame the media. Some stations were shut down and some were under severe harassments using these laws. The 12-member authority was dominated by bureaucrats and ex-police officers - a phenomenon that had been partly changed after the assumption of office by the present government. However, media activists are still not comfortable with the composition of the 12-member committee where they highlight the need of a greater representation from the media itself. "Regulation of the TV and Radio should be through the participation and representation of the stake holders. What must happen is the restructuring of the Board of PEMRA with independent eminent people. It is still full of bureaucrats and ex-policemen, so there you find lack of ownership." says Maitullah Jan.

PEMRA's leadership agree to that the institution needs to be more engaged with its stakeholders. "It's a combination of regulator and the stakeholders. Therefore, the chain is - Law/Regulator/Stakeholder," says Dr. Abdul Jabbar, the Executive Member of PEMRA. However, the present government is under pressure to amend or repeal these laws. Many media practitioners confirmed that the harsh use of the PEMRA laws during the Musharraf regime had not occurred during the past years. The PEMRA board has been reconstituted to some extent and includes some media professionals. Furthermore, the government is making some attempts to reintroduce some democratic norms in its media regulation reform. The Code of Conduct made by PEMRA has been subjected to criticism by the industry players, and is now being reviewed by the government. The former Minister of Information has requested Pakistani Broadcasters Association to draft a new Code of Conduct to replace the existing Code of Conduct of PEMRA.

Still, a somewhat top-down approach is taken from PEMRA authorities on this matter. Referring to the issue of Code of Conduct, Dr. Abdul Jabbar said that presently there are many Codes of Conduct, one by PFUJ, one by South Asia Free Media Association (SAFMA) and the broadcasters are in the process of formulating another. "The Government will not agree to any of these, most probably. But taking all these documents into account, the government will come up with a comprehensive document that can be acceptable to all stakeholders. Then everybody has the ownership." He continued: "PEMRA will function - it will not be silenced or nullified. We will be the regulatory body. But the stakeholders will have a say in the Code of Conduct. That's what we call self-regulation."[6]

Chairman of the Authority

  • Mian Javed (Founding Chairman)
  • Mr. Iftikhar Rashid (2nd Chairman)
  • Mr. Mushtaq Malik (3rd Chairman
  • Dr. Abdul Jabbar (Acting Chairman)
  • Mr. Rashid Ahmad (4th Chairman)
Enhanced by Zemanta

Qurtaba Mosque Spain

 
 
 
 
 
 
 
 
 

 
 
 
 

Important Darbars in Pakistan


Important Darbars

  • Darbar Hazrat Data Ganj Bakhsh, Lahore
  • Darbar Hazrat Pir Makki Sahib, Lahore 
  • Darbar Hazrat Baba Bulley Shah, Kasur 
  • Darbar Hazrat Mian Mir Qadri, Lahore 
  • Darbar Hazrat Mian Sher Muhammad, Shariqpur Sharif, District Sheikhupura 
  • Darbar Hazrat Shah Muhammad Ghous, Circular Road, Lahore 
  • Darbar Hazrat Aishan Sahib, Lahore 
  • Darbar Hazrat Madho Lal Hussain, Lahore 
  • Darbar Hazrat Shah Abual Muali, Lahore 
  • Darbar Hazrat Nau Lakh Hazari, Shah Kot 
  • Darbar Hazrat Shah Jamal Qadri, Lahore 
  • Darbar Hazrat Shah Chiragh near High Court, Lahore 
  • Darbar Hazrat Imam Ali-ul-Haq, Shah Sialkot 
  • Darbar Hazrat Nausha Gunj Bakhsh, Ranmal Sharif, Distt. Gujrat 
  • Darbat Hazrat Shah Daula, Gujrat 
  • Darbar Hazrat Bhiri Shah Rehman, Distt. Gujranwala 
  • Darbar Hazrat Jee Baba, Attock 
  • Darbar Hazrat Bibi Pak Daman, Lahore 
  • Darbar Hazrat Sakhi Sarwar, D.G. Khan 
  • Darbar Hazrat Khawaja Ghulam Farid, Kot Mithan Sharif, Distt. Rajanpur 
  • Darbar Hazrat Baba Farid-ud-Din Ganj Shakhar, Pakpattan 
  • Darbar Hazrat Hai Sher Dewan Chawali Mashaikh, Burewala, District Vehari 
  • Darbar Hazrat Dawood Bandgi, Shergarh, Distt. Okarak 
  • Darbar Hazrat Badshahan, Khushab 
  • Darbar Hazrat Kh. Noor Muhammad Moharvi, Chishtian, Distt. Bahawalnagar 
  • Darbar Hazrat Muhammad Panah Kamir, Distt. Sahiwal 
  • Darbar Hazrat Mahboob-e-Subhani, Uch Sharif, Distt. Bahawalpur 
  • Darbar Hazrat Dars Mian Wadda, Lahore 
  • Darbar Hazrat Miran Husain Zanjani, Chah Miran, Lahore 
  • Darbar Hazrat Shah Inayat Qadri, Fatima Jinnah Road, Lahore 
  • Darbar Hazrat Haq Bahoo, Kalar Kahar 
  • Darbar Hazrat Abdul Qadir Jillani, Kot Sadhan District Jhang 
  • Darbar Hazrat Baha-ud-Din Zakriya, Multan
  • Darbar Hazrat Darbar Hazrat Shah Rukn-e-Alam , Multan
  • Darbar Hazrat Musa Pak Shaheed, Multan 36. 
  • Darbar Hazrat Shah Shams Sabzwari, Multan
  • Darbar Hazrat Kh. Khuda Bukhsh, Khairpur Tameali, District Bahawalpur

Enhanced by Zemanta

Awam Ki Lashon Per Yeh Siasat by Ansar Abbasi


Awam Ki Lashon Per Yeh Siasat by Ansar Abbasi
Enhanced by Zemanta

Dusti, Speaker Aur Glass Fellows by Ansar Abbasi


Dusti, Speaker Aur Glass Fellows by Ansar Abbasi    
Enhanced by Zemanta

جیل کے ساتھی…


قیدیوں کو سب سے زیادہ گلہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے ہوتا ہے جو انھیں کڑے وقت میں اکیلا اور حوادث زمانہ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عموماً ایسے ساتھی جیل میں ملاقات کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ اگر ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو انھیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوران ملاقات یا اس کے بعد جس ساتھی کے ملاقات کے لیے وہ آیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اٹھا کر نہ لے جائیں۔

عموماً ایسے قیدی اپنے دوست احباب اور ساتھیوں سے بڑی بڑی توقعات بھی اس لیے وابستہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اثر و رسوخ انھیں مصائب کی دنیا سے جلد نکال سکتا ہے۔ میں نے ایسے لاتعداد قیدی دیکھے ہیں جنھیں اپنے ساتھیوں کی بے وفائی اور بے رخی کا بڑا قلق تھا۔ ایک قیدی نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی عزت و ناموس سب کچھ اپنے ساتھیوں کے لیے قربان کردی، لیکن اس کے ایسے ساتھی بھی تھے جنھوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا اور اب اس کا ساتھ دینا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی شرمندگی پر معافی کے بجائے ایسے طریقے اختیار کرلیے کہ اسے جتنا ممکن ہو جیل میں ہی رکھا جاسکے۔ ایک قیدی نے اپنی داستان میں اپنے کچھ ایسے ساتھیوں کا ذکر کیا جنھوں نے اس سے ملاقات ہی چھوڑ دی۔کورٹ میں آنے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں اپنی مفلوک الحالی میں ان سے امداد نہ مانگ لوں۔ اس قیدی کا یہ کہنا تھا کہ دولت تو آنے جانے والی چیزیں ہیں۔ لیکن اپنے ساتھیوں کا رویہ بڑا دل شکن ہے جس نے تمام اعتماد کی دیوار کو چھلنی چھلنی کردیا ہے۔

ایک سیاست زدہ قیدی سے احوال دریافت کیا تو اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ جو جماعت اس کے چھوٹے مسئلے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی وہ کسی قوم کی تقدیر بدلنے اور انقلاب کے نعرے لگانے سے باز رہے۔ اسے بھی اپنے رشتوں داروں سے زیادہ اپنے احباب کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا اس قیدی کے جذبات میں زمانے سے شکوئوں سے زیادہ اپنی سیاسی جماعت کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا کہ اس نے دل فریب نعروں میں آکر کتنی قربانیاں دیں۔ اپنا سوشل بائیکاٹ کروایا۔ دشمنیاں مول لیں۔ لیکن اس کی جماعت کے بااثر ساتھی، اس کے بجائے منشیات فروشوں کا ساتھ اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ وہ غریب ہے۔ ان کے لیے جرائم کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا اور انھیں ناجائز کاموں سے حصہ نہیں دے سکتا۔

یہاں میری حیرانگی دیدنی تھی کہ اگر وہ یہ عمل نہیں کرسکتا تو پھر وہ جیل میں کیوں ہے تو اس نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ بھی ساتھیوں کا تحفہ ہے۔ ان کی نظر کرم اور بڑے بڑے دعوؤں کا نتیجہ ہے۔

ایک قیدی نے اپنے بال بچوں کے بے سہارا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے دل میں ہل چل پیدا کردی کہ اس کے گھر والے بے سہارا ہوچکے ہیں۔ مالک مکان نے اس کے گھر والوں کو گھر سے اس لیے نکال دیا کہ وہ کرایہ نہیں ادا کرسکے تھے، کیونکہ ان کے گھر کا واحد کفیل مہینوں سے قید ہے۔مالک مکان نے اس کے گھر والوں کا کوئی عذر اس لیے سننے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ ایک سال سے بغیر کرایہ ادا کیے رہ رہے تھے۔ اس قیدی نے بتایا کہ اس کے رشتے دار، بھائی وغیرہ بہت غریب ہیں۔ اس کے حالات بھی کبھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے فلیٹ، مکان، زمین اور اپنی گاڑی تھی بچے اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اچھا کھانا اور اچھا رہن سہن اس کا مقدر تھا۔ لیکن کچھ ساتھیوں کی صحبت نے اسے آہستہ آہستہ ان نعمتوں سے محروم کردیا اور وہ قلاش ہوگیا اور اسکول سے بچے نکال دیے گئے۔

اس قیدی کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے دوست، ساتھی اس کی مدد کریں گے اس کا ساتھ دیں گے۔ اس قیدی نے بتایا کہ ان کا ایک سماجی حیثیت سے وابستہ ایک فورم تھا جس میں صنعت کار، وڈیرے، سرکاری اعلیٰ افسران، سیاسی نمایندے، ایم پی اے، ایم این اے تک اس کے ساتھی تھے۔ لیکن انھوں نے اس تکلیف میں پلٹ کر اس کی خبر تک نہیں لی۔ اس قیدی کا گلہ اپنے ساتھیوں سے اس لیے زیادہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے اپنا سب کچھ ان کی خاطر تباہ کیا ہے اس لیے اگر وہ سب مل کر اس کا ساتھ دیتے تو آج وہ جیل میں نہ ہوتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا۔ اس کے گھر والے در بدر نہ ہوتے۔ فاقے نہ کاٹتے اور انھیں مصائب کا سامنا نہ ہوتا۔

جیل میں ایسے قیدیوں کے احوال بھی سنے جنھوں نے بتایا کہ وہ ایک اچھی زندگی کا خواب سجائے، غلط راستوں پر چلے، لیکن ساتھیوں کی غلط محفل کا انجام بھی غلط ہوا۔ انھوں نے ساتھیوں سے بدلہ لینے کی قسم کھائی۔ کچھ ایسے سیاسی قیدی بھی میری نشست میں گویا ہوئے کہ انھوں نے اپنے لیڈروں کے کہنے پر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا لیکن انھیں بے سہارا بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔کسی نے ان کی وجہ سے دبئی میں کاروبار سجا لیے تو کسی نے ملائیشیا میں اپنے خاندان کو سیٹ کرلیا۔ اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مفروضوں اور نظریوں کے تحت مقید یہ قیدی اپنے لیڈروں سے نالاں نظر آئے کہ انھیں معمولی سی قانونی معاونت بھی فراہم کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ یہاں ان قیدیوں کے ساتھیوں، احباب، رشتے داروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ جیل میں قید اپنے ساتھی، دوست، رشتے داروں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں ان کے لیے کچھ نہ کریں، لیکن انھیں دلاسا تو دے سکتے ہیں۔

جیل میں پڑے یہ قیدی اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سے بڑی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن بڑی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ جب قیدی اپنی داستان میں روتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ اسے یہ تکلیف دہ دن اپنے ساتھی کی بدولت ممکن ہو رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ہزاروں قیدی، لاکھوں داستانیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کا مختصراً تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن مخصوص قیدیوں کی مشترکہ داستانوں میں سب سے زیادہ تذکرہ ان کے ساتھیوں کی بے رخی سے متعلق تھا۔ ایک قیدی نے بطور خاص کہا کہ ’’یہ ضرور لکھنا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ’’بھول مت جانا‘‘دیکھ لو کہ ساتھی آپ سب بھول گئے، گول گپے بھی نہیں کھلائے‘‘۔

غیر مبہم سی فرمائش پر لکھ تو دیا لیکن دل مسوس ہوکر رہ گیا کہ جیسے یہ داستانیں یہ شکوے، شکایتیں کرنے والے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے دوست احباب، رشتے دار سے زیادہ اپنے ساتھی پر بھروسہ کرتے نظر آئے۔ کاش کوئی ساتھی ان کا بھروسہ قائم رکھ دے۔

قادر خان   

Enhanced by Zemanta