کلاسیکی ڈراما نگاری کا درخشاں نام - فاطمہ ثریا بجیا

02:12 Unknown 0 Comments


پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا جب بھی ذکر نکلتا ہے، تو ایک بات جس کی طرف فوراً دھیان جاتا ہے،وہ ڈرامے کی تہذیبی تربیت کا پہلو ہے، جو موجودہ دور میںتقریباً عنقا ہوگیا۔ان ڈراموں کے ذریعے معاشرے کو اپنی اقدارکے بارے میں بتایا جاتا تھا،اب تو ڈرامے کے نام پر گھرکی اختلافی سیاست سکھائی جارہی ہے۔ پی ٹی وی کی سنہری تاریخ میں جن لوگوں نے تہذیبی تربیت کی،ان میں سب سے اہم شعبہ ڈرامانگاری تھا۔پی ٹی وی کے اہم ڈرامانگاروں کا ہم جائزہ لیں ،توان میں ایک اہم نام ’’فاطمہ ثریا بجیا‘‘کاہے۔

بجیا نے تھیٹر، ریڈیو اورٹیلی ویژن کے لیے بے شمار ڈرامے لکھے۔ پی ٹی وی کے قیام کے بعد کراچی ،لاہور اوراسلام آباد مراکز کے لیے بہترین ڈراماسیریل تصنیف کیے۔کئی یادگار ڈراما سیریز لکھیں۔خصوصی مواقعے پر مختصر نوعیت کے ڈرامے بھی تخلیق کیے۔ریڈیو کے لیے بھی کرداروں کو کہانیوں میں پرویا۔تاریخی اور نامور ناولوں سے ماخوذ کرکے کئی شاندار کہانیوں کو ڈرامائی تشکیل دی۔جاپان کے کلاسیکی ادب سے کہانیوں کواخذ کر تھیٹر کے ڈراموں میں ڈھالا۔بجیا نے ایک متحرک اور تخلیقی زندگی بسر کی،جس کی کوئی تمنا ہی کرسکتا ہے۔

بجیا ان دنوں علیل ہیں۔گزشتہ مہینے وہ گھر کے غسل خانے میں گریں،جس کی وجہ سے ان کو چوٹیں آئیں اورپھردوران علالت ہی ان پر فالج کا اٹیک بھی ہوگیا،جس سے جسم کاایک حصہ متاثر ہوا ہے۔اسپتال میں کچھ دن رہنے کے بعد انھیں چھٹی دے دی گئی۔اب بات چیت کرنے لگی ہیں،مگر مکمل صحت یاب ہونے میں انھیں وقت لگے گا،ان کے لیے دعائوں کی ضرورت ہے۔بزرگوں کا سایہ سر پرسلامت رہے،تو رحمت بھی اپنا دروازہ بند نہیں کرتی۔بجیا اس وقت 84برس کی ہیں،مگر اس حادثے سے پہلے تک انھوں نے متحرک زندگی گزاری۔ان دنوں وہ اپنے بہن بھائیوں کے پاس ہیں،جہاں ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے ۔بجیا کے خاندان میں انور مقصود، زہرہ نگاہ،زبیدہ آپا جیسے تخلیق کار بہن بھائی شامل ہیں، جنھیں اپنے ہنر میں کمال حاصل ہے۔

بجیا ان سینئر ڈراما نگاروں میں سے ایک ہیں،جن کی تحریروں میں ان کا باطن بھی جھلکتا ہے۔جس طرح انھوںنے زمانے کی نبض کو محسوس کیا،اسی طرح انھوں نے تحریروں کے ذریعے معاشرے کی تربیت کی۔وہ اپنی ذات میں سراپا سادگی ہیں۔ان سے جب بھی کوئی ملاقات کرتا ہے تو وہ اس کانام منصب پوچھے بنا سر پرہاتھ پھیرتی ہیں اور طویل عمرکی دعا دیتی ہیں۔ہمارے ہاں ایسے بزرگ اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔

بجیا کاگھر ان کی تہذیبی زندگی کی مجسم تصویر ہے۔مہمان خانے میں دیواروں پرآویزاں تصویریں ان کے آبائواجداد کا احوال دکھاتی ہیں۔برصغیر کے نامور خاندان کی چشم و چراغ فاطمہ ثریا بجیا کو اپنے تہذیبی پس منظر پر فخر ہے۔مطالعے کے کمرے میں الماریوں میں سجی کتابیں ان کی فکری سطح کا پتہ دیتی ہیں۔چائے اورکھانا کھلائے بغیر کسی کواپنے گھر سے نہیں جانے دیتیں،یہ باتیں کرتے ہوئے ایسامحسوس ہو رہا ہے کہ ہم کسی اور زمانے کی بات کر رہے ہیں،مگر یہ کسی اورکی نہیں عہدِ بجیا کی بات ہو رہی ہے۔

بجیا نے 60کی دہائی سے ڈرامے لکھنے شروع کیے۔بچوں اورخواتین کے لیے بھی لکھا،کئی ایک پروگرام پروڈیوس بھی کیے۔ان خدمات پر بجیا کو حکومت پاکستان نے ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘سے نوازا جب کہ جاپان کی طرف سے انھیں شاہی اعزاز’’دی آرڈر آف دی سیکرڈ ٹریژر‘‘دیا گیا۔اس کے علاوہ لاتعداد اعزازات ملے،مگر سب سے بڑھ کر وہ مقام ہے ،جو بجیا کے مداحوں کے دل میں ہے۔
میری پہلی ملاقات بجیا سے تب ہوئی،جب میں جامعہ کراچی میں طالب علم تھا اور ہم چند دوستوں نے مل کر ایک تھیٹر فیسٹیول میں حصہ لیا،جہاں مختلف جامعات کے ڈرامے پیش کیے گئے، وہاں میرے ہدایت کردہ ڈرامے کو دوسری پوزیشن اور بہترین اداکارکا اعزاز ملا تھا۔یہ اعزاز مجھے اورمیرے دوستوں کو بجیا کے ہاتھوں ملا۔اس کے بعد بجیا سے کافی عرصے تک ملاقات نہ ہوسکی۔اس دوران مجھے قونصل خانہ جاپان کی طرف سے ایک جاپانی کھیل کو اسٹیج پر دکھانے کی پیش کش کی گئی۔

زمانہ، طالب علمی میں جیب میں پیسے نہیں ہوتے اوراس طرح کی سرگرمیوں کے لیے پیسوں اورتعاون کی ضرورت ہوتی ہے،لہٰذا یہ پیشکش میرے لیے رحمت ثابت ہوئی۔مجھے انھوںنے بجیا کا دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں لکھا ہوا ایک ڈرامے’’خالی گود‘‘ کا مسودہ دیا اور بجیا سے ملاقات بھی کروائی ۔یوں جاپان معلوماتی اور ثقافتی مرکز کے لیے میں نے اس ڈرامے کوبجیا کی اجازت سے ایڈیٹ کیا اور اس کی ہدایات بھی دیں۔آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی میں یہ کھیل پیش کیاگیا اور اسے بہت مقبولیت ملی۔

اس کے بعد میری تدوین کی ہوئی ایک کتاب میں پاکستان اورجاپان دونوں ممالک کے مصنفین کی تحریریں شامل تھیں،بالخصوص وہ جاپانی دانشورجنھیں اردو زبان لکھنے اور بولنے پر عبور حاصل تھا، پھر جاپان میں اردو زبان کی ایک صدی سے زیادہ کی روایت ہے،یہ سب کچھ حیران کن تھا۔بجیا نے اس سلسلے میں رہنمائی کی اور ان کا لکھا ہوا ڈراما میرے لیے جاپانی ادب میں دلچسپی کاباعث بن گیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان ،راولپنڈی میں اس وقت کے سفیرجناب’’ہیروشی اوئے‘‘ نے تقریب میں شرکت کی ،جب کہ کراچی میں قائم قونصل خانہ جاپان کے قونصل جنرل جناب’’ آکیرا اُووچی ‘‘نے بھی تقریب کا انعقاد کیا۔

یہ سب کچھ بجیا کے ایک ڈرامے کا ثمر تھا ۔بجیا سے محبت اورجاپان سے تعارف نے مجھے اُکسایا کہ میں بجیا کے دیگر ڈراموں پرکام کروں، وہ ڈرامے وقت کی گرد تلے دبے ہوئے تھے۔بجیا نے جاپان کے کلاسیکی ادب سے ان کہانیوں کو ماخوذ کرکے لکھااوریہ تمام ڈرامے جاپان معلوماتی اور ثقافتی مرکز کے محمد عظمت اتاکا کی نگرانی میںاسٹیج بھی کیے گئے تھے۔ان ڈراموں میں اپنے وقت کے بڑے اداکاروں نے کام بھی کیا۔

بجیا کی بیماری سے چند دن پہلے میں جب ان کے گھر گیا، حسب روایت انھوںنے چائے بھی پلائی اورکہنے لگیں ’’میں نے بہت کامیاب زندگی گزاری،مگر بس اب کچھ پتا نہیں کب بلاواآجائے،اسی لیے میں نے اپنی کتابیں غالب لائبریری کو دے دی ہیں۔‘‘بجیا کاخلوص دیکھیں،انھوںنے اپنی کتابیں غالب لائبریری کو دے دیں تاکہ نئی نسل اورعوام ان کتابوں سے مستفید ہوسکیں۔

میں نے جاپانی سفارت کاروں اوربجیا کی اجازت سے ان کے اصلی مسودے حاصل کیے، پھر بجیا کی اجازت سے ان کی تدوین کی۔جاپانی ادیب،جن کی کہانیوں سے یہ ڈرامے ماخوذ کرکے لکھے گئے تھے،ان کے مکمل تعارف پر بھی کام کیا۔اب بجیا کے ان ڈراموں پر مشتمل کتاب تیار ہے اورطباعت کے مراحل میں ہے۔اس پر جاپان اورپاکستان کی ممتاز شخصیات نے اپنے تاثرات بھی رقم کیے ہیں،جس سے قارئین یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی ادبی وسماجی اہمیت کیاہے۔بہت جلد یہ کتاب شایع ہوجائے گی۔پاکستان میں جاپانی ڈراموں کی پہلی کتاب ہوگی اوربجیا کے یہ ڈرامے جو نظروں سے اوجھل تھے،ان تک قارئین کی دوبارہ رسائی ہوجائے گی۔تھیٹر ،ریڈیواور ٹیلی ویژن سے وابستہ ہنرمند بھی ان ڈراموں سے استفادہ کرسکیں گے اورقارئین کو عالمی ادب کے مزاج سے واقف ہونے کا موقع ملے گا۔

فاطمہ ثریا بجیا پاکستان کا فخر ہیں۔ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ایسے لوگ ملے جنہوں نے ہمارے ملک کو دنیا بھر میں متعارف کروایا۔ امید ہے عیدالفطر کے بعد اس کتاب کی تقریب اجرا کے موقع پر بجیا ہمارے ساتھ ہوں گی۔ہم سب مل کر اپنے فخر کو ان پر نچھاور کریں گے۔جاپان کو بھی بجیا پر فخر ہے اور پاکستان کا فخر بجیا ہیں۔دوممالک اوردوتہذیبیں ایک ہی شخصیت کی مداح ہیں،تاریخ اس نام’’فاطمہ ثریابجیا‘‘کو سنہری حروف میں یاد رکھے گی ۔

Fatima Surayya Bajia

0 comments: