Showing posts with label Portable Document Format. Show all posts

Women's Day and Dr. Aafia Siddqui


دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے خواتین کے حقوق کی جد و جہد تیز کرنے، ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے، انھیں سماجی انصاف فراہم کرنے، سیاسی سماجی طور پر مستحکم بنانے، اہم ملکی امور میں شامل کرانے کی جد و جہد عزم کا اظہار کیا گیا۔ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں، امتیازی سلوک، عدم مساوات اور استحصال کو ختم کرنے اور ان کے حقوق و مسائل کو اجاگر کرنے کی باتیں اور وعدے ہوئے۔ ان سے متعلق گیت، رقص، ٹیبلو اور ڈرامے پیش کیے گئے۔ ان تقریبات میں دہشت گردی کا شکار ہونے والی خاتون وکیل کی ہلاکت پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ کائنات سومرو، ملالہ یوسف زئی اور پروین بی بی کی زندگی کی مشکلات اور داستانیں سنائی گئیں۔ لیکن خواتین کے عالمی دن کے اس موقعے پر قومی اہمیت کے حامل سب سے اہم مسئلے کو پس پشت رکھا گیا۔ البتہ پاسبان خواتین کے سیمینار میں عافیہ صدیقی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ پریس کلب کے سامنے عافیہ کی رہائی کے لیے مظاہرے کے دوران علامتی طور پر ہتھکڑیوں میں جکڑی عافیہ اور امریکی صدر کو دکھایا گیا۔ خواتین اور بچوں کی کچھ تعداد اس مظاہرے میں شریک تھی۔

خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر انسانی حقوق کے سرگرم علمبردار معروف امریکی وکیل، شاعر اور اسکالر ‘ بھی پاکستان میں موجود تھے جو عالمی سطح پر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جد و جہد کررہے ہیں جن کا کہناہے کہ عالمی امن کے لیے عافیہ کی رہائی ضروری ہے۔ موری سلا ،ترکی، ملائیشیا، ساؤتھ افریقہ، مصر، برطانیہ، زیمبیا، فرانس، جرمنی سمیت درجنوں ممالک کا دورہ کرچکے ہیں جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں، طلبا، وکلا اور صحافیوں نے عافیہ کی رہائی کے لیے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انھوں نے اس موقع پر دنیا بھر کی 40 سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مشترکہ طور پر پاکستانی قوم کی بیٹی عافیہ کی رہائی کے لیے عالمگیر جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے پاکستانی حکومت کو کہا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرے اور عافیہ کی رہائی کے لیے اپنا بنیادی کردار ادا کرے۔ عافیہ کے خلاف فیصلہ سیاسی بنیادوں پر دیا گیا ہے۔ گرفتاری اور امریکی عدالت سے 86 سال کی سزا انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے جب کہ تمام ثبوت عافیہ کے حق میں تھے۔ ٹرائل کے موقع پر وہ خود کمرہ ٔ عدالت میں موجود تھے۔ عدالت نے جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے انکشاف کیا ہے کہ کونسل آف یورپ کی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے عافیہ رہائی کیس جنوری 2014 میں واپس لے لیا ہے ایک طرف حکومتی اراکین عافیہ کی واپسی کی تسلیاں دے رہے ہیں، دوسری جانب عافیہ رہائی موومنٹ ختم کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ وہ عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں تمام اکابرین کے دروازے کھٹکھٹا چکی ہیں سب جانب سے صرف تسلیاں دی جاتی ہیں۔ لیکن عمل نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ نگراں حکومت کو شامل کرلیا جائے تو 7 حکومتیں تبدیل ہوچکی ہیں تمام وزرائے اعظم نے وعدے کیے لیکن کسی جانب سے وعدوں پر عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ 11 سال سے امریکی قید میں پابند سلاسل ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ پچھلے ایک عشرے سے اپنی بہن کے ساتھ انصاف اور اس کی رہائی کے لیے جس طرح ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھوم رہی ہیں اقتدار کے ایوانوں، بار کونسلوں، پریس کلبوں میں انصاف کے لیے دہائی دے رہی ہیں۔ مختلف فورم اور عوامی اجتماعات سے خطاب کررہی ہیں۔ سیاسی و سماجی مذہبی اور انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور قومی اکابرین اور قوم کی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی اور ان کے خاندان کی استقامت اور قومی غیرت و حمیت کا جو رویہ سامنے آیا ہے وہ بلاشبہ انتہائی قابل رشک اور قابل تحسین ہے۔ دوسری جانب ارباب اقتدار و اختیار نے اس سلسلے میں بے حسی کا جو رویہ اختیار کیا ہوا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ اس سلسلے میں ملکی، انسانی اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں اور شخصیات کا رویہ بھی بڑا افسوس ناک اور دہرے معیار کا حامل نظر آتاہے۔

دنیا کے سامنے جوں جوں عافیہ صدیقی کے کیس کی حقیقت سامنے آتی جارہی ہے وہ اس کی رہائی کے لیے سرگرم اور منظم ہوتے جارہے ہیں، اس سلسلے میں دنیا کی انسانی حقوق سے متعلق 40 سے زائد تنظیموں نے عافیہ کی رہائی کے لیے بین الاقوامی طور پر جد وجہد کا اعلان کیا ہے۔ عافیہ کا قیدی نمبر 650 کا انکشاف کرکے اس کی رہائی کی جد وجہد کا آغاز کرنے والی ایوان مریم ریڈلے بھی ایک برطانوی صحافی ہیں۔ امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک اور سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلرک بھی اسے غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ رمزے کلرک تو باقاعدہ جدوجہد کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت اور عوام کی توجہ اس انسانی مسئلے پر مرکوز کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حکومت اور عدلیہ کے ارکان سے ملاقاتیں اور بارکونسلز سے خطاب کرکے حکومتی سطح پر کوششیں کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلے پاکستان کے ایک لیڈر (بھٹو) کو بچانے پاکستان آئے تھے۔ اس مرتبہ پاکستان کی بیٹی (عافیہ) کو بچانے پاکستان آئے ہیں۔ ان کے علاوہ امریکی سینیٹر اور صدارتی امیدوار مائیک گرپول بھی عافیہ کو معصوم شہری اور اس کو دی جانے والی ذہنی و جسمانی سزا اور قید کو غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر بھی عافیہ کو بے گناہ تسلیم کرکے اس کی رہائی کے لیے کوششوں کا آغاز کرچکی ہیں۔

انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق کی علمبردار تنظیموں، شخصیات اور ارباب اقتدار و اختیار، روشن خیالی اور لبرل ازم کے دعویداروں کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے 3 بچوں کے ساتھ ریاستی ظلم و جبر پر سرد مہری بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں ایک عورت بچوں سمیت اغوا کرکے بین الاقوامی زندانوں میں قید کرکے بد نیتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر 86 سال قید کی سزا وار قرار دے دی جاتی ہے، اس وقت ان لوگوں کی زبانیں قوت گویائی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ عافیہ کے معاملے میں بھی معاملہ فہمی کے بعد عافیہ کی رہائی کے لیے بھی عوامی دباؤ بڑھتا نظر آرہا ہے جس کے لیے باقاعدہ مہم شروع ہوچکی ہے جس میں سابقہ امریکی عہدیدار بھی شامل ہیں۔ اگر یہ سلسلہ پاکستانی حکومت اور عوام کی طرف سے بروقت شروع کردیا جاتا تو حالات اس نہج تک نہ پہنچ پاتے۔ عوامی و سیاسی رد عمل سامنے نہ آنے کی وجہ سے حکومتیں عافیہ کے معاملے میں غفلت، مصلحت و منافقت کا شکار یا خود اس میں ملوث رہی ہیں۔ عافیہ کی رہائی کی واحد صورت یہی نظر آتی ہے کہ حکومت پر عوامی دباؤ بڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں مختلف تنظیمیں، فورم، بار کونسلز، ملکی و بین الاقوامی اداروں، حکومتوں کو یاد داشتیں ارسال کریں، قرار دادیں پاس کریں تاکہ حکومت اس بات پر مجبور ہوجائے اور مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر دو ٹوک موقف اختیار کرے اور مسئلے کے حل کی مخلصانہ کوششیں کرے اور خاص طورپر امریکا یہ بات محسوس کرلے کہ اب ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس عالمی اہمیت کے حامل انسانی مسئلے سے فرار ممکن نہیں ہے یہی خواتین کے عالمی دن کا تقاضا بھی ہے۔

  Women's Day and Dr. Aafia Siddqui

Enhanced by Zemanta

Pakistanis set new world records

پاکستان میں ان دنوں عالمی ریکارڈ بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ علوم و فنون کو تو چونکہ یہاں سے عرصہ ہوا دیس نکالا مل چکا ہے، اس لیے اب ایسے میدان میں ریکارڈ ز بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جن کی جانب دنیا کی توجہ ہی نہیں، نہ ان کے پاس اس دردِ سر کے لیے کوئی وقت ہے۔ دنیا کا سب سے طویل انسانی پرچم بنانے کا ریکارڈ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے پاس تھا۔ ایک اور بھوکا ننگا ملک جس نے قوم پرستی کے نام پر علیحدگی اختیار کی لیکن آج بھی اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ہندوستان ہو، بنگلہ دیش یا پاکستان، اس خطے میں ان کا مقابلہ حب الوطنی کے میدان میں ہوتا ہے، جو ہمہ وقت خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ ان ملکوں نے کبھی علم کے میدان میں ریکارڈ بنانے کی کوشش نہ کی۔ اب آپ یہ مت بتائیے کہ پاکستانی طالب علموں نے آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے اداروں سے او لیول میں سب سے زیادہ اے پلس لینے کا ریکارڈ بھی بنا رکھا ہے، یا دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر بچی بھی یہیں پائی گئی تھی۔ بلاشبہ ایسے بیسیوں واقعات یہاں بکھرے پکڑے ہیں، کئی ایسے بھی ہوں گے جو ابھی تک میڈیا کی نظروں میں نہ آئے ہوں، لیکن یہ مت بھولیے کہ یہ سب انفرادی کاوشیں ہیں، ان میں کہیں بھی ریاست کی پشت پناہی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ اپنے میدانِ عمل میں نام کرنے والے یہ وہ گنے چنے افراد ہوں گے جنہوں نے موجودہ نظام سے ہٹ کر اپنی راہ چنی ہو گی۔ ورنہ ریاست نے جس طرح کا تعلیمی، معاشی اور سماجی نظام ترتیب دے رکھا ہے، وہاں صرف حب الوطنی کے نام پر خالی دماغ لوگ ہی پیدا ہو سکتے ہیں، عالی دماغ جوان نہیں۔

گنیز بک آف ریکارڈ کی ٹیم اگر ذرا بھی غیر جانبدار ہوتی تو پاکستان کو دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم بنانے والے ملک کا ریکارڈ قائم کرنے والے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ اس کا یہ اعزاز بھی اپنی ریکارڈ بک میں لکھ لیتی کہ دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم بنانے والے ملک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسی ملک کے ایک حصے میں یہی سبز ہلالی پرچم لہرانا جرم بن چکا ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک میں کہیں بھی یہ پرچم نہیں لہرایا جا سکتا۔ ساتھ ہی قومی ترانہ پڑھنے کا ریکارڈ بنانے والوں کو یہ بھی بتا دیجیے کہ اسی ملک کے ایک حصے میں جہاں دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم لہرایا نہیں جا سکتا، وہاں یہ قومی ترانہ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔ اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروا لیجیے۔ پاکستان کے نام ایک اور عالمی ریکارڈ میں اضافہ ہو جائے گا ۔

اور جب صرف گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اپنے نام کا اضافہ ہی مقصود ہے تو پھر لاپتہ افراد کے لواحقین کے لانگ مارچ کو بھی یاد رکھیے۔ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک پیدل چلنے والا چند افراد کا یہ لانگ مارچ اب دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ بن چکا ہے۔ فاصلے کے لحاظ سے اس نے چیئرمین ماؤ کے مشہورِ زمانہ لانگ مارچ کو بھی مات دے دی ہے۔ کیوں نہ لگے ہاتھوں اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرا لیں۔ ساتھ ہی ملک کے آزاد میڈیا نے جس طرح اس سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی ہے، وہ بھی کسی ورلڈ ریکارڈ سے کم نہیں۔ ملکی سلامتی کو درپیش ایک انتہائی حساس مسئلے پر جس طرح میڈیا نے خاموشی اختیار کی، اور چار ماہ تک ایک منٹ کی یا سنگل کالم خبر نہ چھاپی ہو، ایسا شاید ہی دنیا میں کہیں ہوا ہو۔ یہ اپنے تئیں ایک بہت بڑا ریکارڈ ہے ۔ بالخصوص ایک ایسے ملک میں جہاں میڈیا ہمہ وقت اپنی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہے۔ اور جب دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ پنجاب جیسی گنجان آبادی سے ہو کر گزرا ہو۔ اس ریکارڈ میں سیاسی جماعتوں کی خاموشی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ وہ جماعتیں جو آزادیِ اظہار کے لیے ہر وقت چیختی چلاتی رہتی ہیں، لیکن اس طویل ترین لانگ مارچ میں نہ صرف یہ کہ شامل نہ ہوئیں ، بلکہ بڑی مہارت سے کنی کترا گئیں اور خود کو اس سے دور رکھا۔

اسی طرح عالمی ریکارڈ کے خانے میں لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستان کے نام ایک اور اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے مطابق پچھلی ایک دہائی کے دوران بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے افراد کی تعداد سولہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں لاپتہ ہونے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کسی بھی ایمسرجینسی میں اتنی بڑی تعداد میں افراد لاپتہ نہیں ہوئے یا نہیں کیے گئے۔ گو کہ کہ حکومتی ذرایع اور خفیہ اداروں کے حکام اس تعداد کو ہمیشہ مسترد کرتے رہے ہیں، تاہم بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی یہ وہ تعداد ہے، جن کے تمام کوائف اور حقائق ان کے پاس موجود ہیں۔ جن تک وہ اب تک نہیں پہنچ پائے، ان کا قصہ الگ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے خود بلوچستان سے نو سو ایسے افراد کی گمشدگی تسلیم کی جنھیں خفیہ ادارے شک کی بنیاد پر لے گئے، اور پھر ان کا کوئی اتہ پتہ نہ رہا۔ جب کہ معاملہ تعداد کا نہیں، اس عمل کا ہے جو بنیادی طور پر غیرقانونی اور غیرآئینی ہے۔ ابھی حال ہی میں خضدار کے علاقے توتک سے مسخ شدہ لاشوں کی اجتماعی قبروں کی نشاندہی ہوئی، تو ایک بار پھر ہمیں اس بحث میں ڈال دیا گیا کہ برآمد ہونے والی لاشوں کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ تھی، سرکار نے اصل تعداد چھپا دی۔ حالانکہ سوال یہ نہیں کہ کتنے لوگ لاپتہ ہوئے یا کتنوں کی لاش مسخ کی گئی، سوال یہ ہے کہ اگر ایک بھی شہری غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، لاپتہ کیا گیا یا ماورائے عدالت قتل کیا گیا، تو ریاست مکمل طور پر اس کی ذمے دار ہے ۔ اس کا فرض بنتا ہے کہ ان اداروں اور اہلکاروں کو تلاش کرے، ان تک پہنچے اور ان سے باز پرس کرے۔ باقی کوئی شخص اگر ریاست کا باغی ہے، تو آئین میں اس سے نمٹنے کا طریقہ کار درج ہے۔ ایسے افراد کو گرفتار کر کے اعلیٰ عدالتوں میں پیش کیا جائے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ جیسے اگر ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں کوئی مارا جاتا ہے، تو اس کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا۔ لیکن محض شک کی بنیاد پر (یا خواہ ثبوت کی موجودگی میں بھی) کسی بھی شہری کو غیرآئینی و غیر قانونی طور پر لاپتہ کر دینا، ماورائے عدالت قتل کر کے اس کی لاش کو مسخ کر کے پھینکنا اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا کہ ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کا جرم ۔

اور اگر ان واقعات میں ملوث افراد کو سزا دینا ممکن نہیں تو پھر ذرا سی ہمت کر کے اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں لکھوا لیجیے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے، جہاں آئین و قانون کے ہوتے ہوئے محض شک کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو اٹھایا، لاپتہ کیا ، اور مار کے پھینکا جا سکتا ہے۔ جنگ تو ختم ہو نہیں رہی، ملک کے نام ایک اور عالمی ریکارڈ میں اضافہ سہی۔

عابد میر

Pakistanis set new world records

Enhanced by Zemanta

جیل کے ساتھی…


قیدیوں کو سب سے زیادہ گلہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے ہوتا ہے جو انھیں کڑے وقت میں اکیلا اور حوادث زمانہ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عموماً ایسے ساتھی جیل میں ملاقات کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ اگر ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو انھیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوران ملاقات یا اس کے بعد جس ساتھی کے ملاقات کے لیے وہ آیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اٹھا کر نہ لے جائیں۔

عموماً ایسے قیدی اپنے دوست احباب اور ساتھیوں سے بڑی بڑی توقعات بھی اس لیے وابستہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اثر و رسوخ انھیں مصائب کی دنیا سے جلد نکال سکتا ہے۔ میں نے ایسے لاتعداد قیدی دیکھے ہیں جنھیں اپنے ساتھیوں کی بے وفائی اور بے رخی کا بڑا قلق تھا۔ ایک قیدی نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی عزت و ناموس سب کچھ اپنے ساتھیوں کے لیے قربان کردی، لیکن اس کے ایسے ساتھی بھی تھے جنھوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا اور اب اس کا ساتھ دینا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی شرمندگی پر معافی کے بجائے ایسے طریقے اختیار کرلیے کہ اسے جتنا ممکن ہو جیل میں ہی رکھا جاسکے۔ ایک قیدی نے اپنی داستان میں اپنے کچھ ایسے ساتھیوں کا ذکر کیا جنھوں نے اس سے ملاقات ہی چھوڑ دی۔کورٹ میں آنے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں اپنی مفلوک الحالی میں ان سے امداد نہ مانگ لوں۔ اس قیدی کا یہ کہنا تھا کہ دولت تو آنے جانے والی چیزیں ہیں۔ لیکن اپنے ساتھیوں کا رویہ بڑا دل شکن ہے جس نے تمام اعتماد کی دیوار کو چھلنی چھلنی کردیا ہے۔

ایک سیاست زدہ قیدی سے احوال دریافت کیا تو اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ جو جماعت اس کے چھوٹے مسئلے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی وہ کسی قوم کی تقدیر بدلنے اور انقلاب کے نعرے لگانے سے باز رہے۔ اسے بھی اپنے رشتوں داروں سے زیادہ اپنے احباب کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا اس قیدی کے جذبات میں زمانے سے شکوئوں سے زیادہ اپنی سیاسی جماعت کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا کہ اس نے دل فریب نعروں میں آکر کتنی قربانیاں دیں۔ اپنا سوشل بائیکاٹ کروایا۔ دشمنیاں مول لیں۔ لیکن اس کی جماعت کے بااثر ساتھی، اس کے بجائے منشیات فروشوں کا ساتھ اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ وہ غریب ہے۔ ان کے لیے جرائم کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا اور انھیں ناجائز کاموں سے حصہ نہیں دے سکتا۔

یہاں میری حیرانگی دیدنی تھی کہ اگر وہ یہ عمل نہیں کرسکتا تو پھر وہ جیل میں کیوں ہے تو اس نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ بھی ساتھیوں کا تحفہ ہے۔ ان کی نظر کرم اور بڑے بڑے دعوؤں کا نتیجہ ہے۔

ایک قیدی نے اپنے بال بچوں کے بے سہارا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے دل میں ہل چل پیدا کردی کہ اس کے گھر والے بے سہارا ہوچکے ہیں۔ مالک مکان نے اس کے گھر والوں کو گھر سے اس لیے نکال دیا کہ وہ کرایہ نہیں ادا کرسکے تھے، کیونکہ ان کے گھر کا واحد کفیل مہینوں سے قید ہے۔مالک مکان نے اس کے گھر والوں کا کوئی عذر اس لیے سننے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ ایک سال سے بغیر کرایہ ادا کیے رہ رہے تھے۔ اس قیدی نے بتایا کہ اس کے رشتے دار، بھائی وغیرہ بہت غریب ہیں۔ اس کے حالات بھی کبھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے فلیٹ، مکان، زمین اور اپنی گاڑی تھی بچے اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اچھا کھانا اور اچھا رہن سہن اس کا مقدر تھا۔ لیکن کچھ ساتھیوں کی صحبت نے اسے آہستہ آہستہ ان نعمتوں سے محروم کردیا اور وہ قلاش ہوگیا اور اسکول سے بچے نکال دیے گئے۔

اس قیدی کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے دوست، ساتھی اس کی مدد کریں گے اس کا ساتھ دیں گے۔ اس قیدی نے بتایا کہ ان کا ایک سماجی حیثیت سے وابستہ ایک فورم تھا جس میں صنعت کار، وڈیرے، سرکاری اعلیٰ افسران، سیاسی نمایندے، ایم پی اے، ایم این اے تک اس کے ساتھی تھے۔ لیکن انھوں نے اس تکلیف میں پلٹ کر اس کی خبر تک نہیں لی۔ اس قیدی کا گلہ اپنے ساتھیوں سے اس لیے زیادہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے اپنا سب کچھ ان کی خاطر تباہ کیا ہے اس لیے اگر وہ سب مل کر اس کا ساتھ دیتے تو آج وہ جیل میں نہ ہوتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا۔ اس کے گھر والے در بدر نہ ہوتے۔ فاقے نہ کاٹتے اور انھیں مصائب کا سامنا نہ ہوتا۔

جیل میں ایسے قیدیوں کے احوال بھی سنے جنھوں نے بتایا کہ وہ ایک اچھی زندگی کا خواب سجائے، غلط راستوں پر چلے، لیکن ساتھیوں کی غلط محفل کا انجام بھی غلط ہوا۔ انھوں نے ساتھیوں سے بدلہ لینے کی قسم کھائی۔ کچھ ایسے سیاسی قیدی بھی میری نشست میں گویا ہوئے کہ انھوں نے اپنے لیڈروں کے کہنے پر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا لیکن انھیں بے سہارا بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔کسی نے ان کی وجہ سے دبئی میں کاروبار سجا لیے تو کسی نے ملائیشیا میں اپنے خاندان کو سیٹ کرلیا۔ اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مفروضوں اور نظریوں کے تحت مقید یہ قیدی اپنے لیڈروں سے نالاں نظر آئے کہ انھیں معمولی سی قانونی معاونت بھی فراہم کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ یہاں ان قیدیوں کے ساتھیوں، احباب، رشتے داروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ جیل میں قید اپنے ساتھی، دوست، رشتے داروں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں ان کے لیے کچھ نہ کریں، لیکن انھیں دلاسا تو دے سکتے ہیں۔

جیل میں پڑے یہ قیدی اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سے بڑی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن بڑی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ جب قیدی اپنی داستان میں روتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ اسے یہ تکلیف دہ دن اپنے ساتھی کی بدولت ممکن ہو رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ہزاروں قیدی، لاکھوں داستانیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کا مختصراً تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن مخصوص قیدیوں کی مشترکہ داستانوں میں سب سے زیادہ تذکرہ ان کے ساتھیوں کی بے رخی سے متعلق تھا۔ ایک قیدی نے بطور خاص کہا کہ ’’یہ ضرور لکھنا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ’’بھول مت جانا‘‘دیکھ لو کہ ساتھی آپ سب بھول گئے، گول گپے بھی نہیں کھلائے‘‘۔

غیر مبہم سی فرمائش پر لکھ تو دیا لیکن دل مسوس ہوکر رہ گیا کہ جیسے یہ داستانیں یہ شکوے، شکایتیں کرنے والے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے دوست احباب، رشتے دار سے زیادہ اپنے ساتھی پر بھروسہ کرتے نظر آئے۔ کاش کوئی ساتھی ان کا بھروسہ قائم رکھ دے۔

قادر خان   

Enhanced by Zemanta