Showing posts with label Syria. Show all posts

انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے.........


بارہ ستمبر کو جب ایشیائی تارکین وطن سے بھری ہو ئی کشتی بحیرہ ٴروم میں مالٹا کے قریب ڈوب گئی تو یہ بحیرہٴ روم میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے ایک مختلف واقع تھا۔

اس بار اس کشتی کو مصر سے تعلق رکھنے والے انسانی سمگلروں نے اس وقت جان بوجھ کر تباہ کر دیا جب اس بڑی کشتی میں سوار مسافروں نے چھوٹی کشتیوں میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقع میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 300 تارکین ڈوب گئے۔

اس واقعے میں بچ جانے والے تین افراد نےمالٹا ٹائمز کو بتایا کہ’ یہ قتل عام تھا  اور جب سمگلروں نے مسافروں کی طرف سے چھوٹی کشتیوں میں سوار ہونے سے انکار کیا تو انھوں نے جان بوجھ کر دوسری کشتیوں کو اس بڑی کشتی میں مار مار کر اسے ڈبو دیا۔ جب تارکین وطن سے بھری ہوئی کشتی ڈوب رہی تھی اور لوگ مر رہے تھے تو انسانی سمگلر انھیں دیکھ کر ہنس رہے تھے اور اسی طرح ان کو ڈوبتا ہوا چھوڑ کر وہاں سے چلےگئے۔

فلسطین سے تعلق رکھنے والے تیئس سالہ محمد علی آمدلا نے مالٹا ٹائمزکو بتایا  ’سارے راستے ہمارے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیاگیا، لیکن مصری سمگلر سب سے بدترین تھے۔ 
ایک اور بچ جانے والے شخص نے تارکین وطن کی عالمی تنظیم آئی آو ایم کو بتایا کہ جب کشتی ڈوب رہی تھی تو انسانی سمگلر ڈوبتے ہوئے مسافروں کا تمسخر اڑا رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہماری کشتی کو ٹکر مارنے کے بعد وہ اس وقت تک وہاں موجود رہے جب تک کشتی پوری طرح ڈوب نہیں گئی۔‘

تارکین وطن کی اکثریت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھتی ہے

اس سانحے میں بچ جانے والے تیرہ اشخاص نے اپنی شہادتوں میں بتایا ہے کہ بڑی کشتی میں سوار آدھے لوگ تو فوراً ڈوب گئے لیکن جو وقتی طور پر بچ گئے تو وہ دو تین دن تک کھلے سمندر میں تیرتے رہے او جب ان کے لیے امداد پہنچی تو اس وقت بہت سارے سمندر کی نذر ہو چکے تھے۔

بچ جانے لوگوں نے جو کہانیاں بیان کی ہیں وہ دل دہلانے والی ہیں۔ستائس سالہ مامون دوگموش بتاتے ہیں: ’میں نے ایک پورے شامی خاندان کو ڈوبتے دیکھا۔ پہلے باپ ڈوبا، پھر ماں ڈوبی اور پھر میں ان کے ایک سالہ بچے کا حفاظت کرنے والا رہ گیا۔ ایک سالہ بچے نے میری باہوں میں دم توڑ دیا۔‘

ماموں دوگموش نے بتایا کہ کس طرح انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے۔’جب ایک شخص زندگی بچانے کےلیے انسانی سمگلروں کی کشتی کے ساتھ لٹک گیا تو انھوں نے اس کے بازو کاٹ دیئے۔ 

بہتر زندگی کی امید میں یورپ کے طرف سفر کرنے والوں نے بتایا کہ ہر شخص نے انسانی سمگلروں کو چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے اور وہ انھیں تاریک راستوں سے مصری علاقے دیمتا لائے جہاں سے انھیں ایک کشتی میں بٹھایاگیا۔
تارکین وطن کی تنظیم آئی آو ایم کے مطابق سنہ 2014 میں بحیرہٴ روم میں 2900 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

مالٹا نے یورپ کی طرف سفر کرنے والے تارکین وطن کی رہائش کے لیے کنٹینر ہاؤس تیار کیے ہیں

مالٹا کے وزیر اعظم جوزف موس کیٹ نے بتایا کہ یورپ کی طرف بڑھنے والے تارکین وطن کی تمام ذمہ داری جنوبی یورپ کے دو ملکوں، مالٹا اور اٹلی پر آن پڑی ہے۔
مالٹا اور اٹلی کی کوششوں کے باوجود یورپ آنے کے خواہشمند تارکین وطن بحیرہٴ روم میں ڈوب کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تارکین وطن کا مسئلہ ایک ایسا انسانی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس سے کوئی بھی نظریں نہیں چرا سکتا۔’رات دیر سے جب مجھے سینکڑوں افراد کےسمندر میں ڈوبنے کی اطلاع ملتی ہے تو مجھے دھچکا لگتا ہے۔‘
مالٹا کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی منصوبے بنائےگئے لیکن ان پر عمل نہیں ہو پاتا۔ لیبیا میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور اس کے ساحل سے یورپ کے ساحلوں کی طرف خطرناک سفر کرنے والوں کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم انٹیگرا فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والی ماریا پسانی کا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائیوں نے لوگوں کو بہتر زندگی کے لیے خطرناک راستوں کے ذریعے یورپ کی طرف سفر کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یورپ اپنے دروازے پر ہونے والی اموات سے پر بےحس ہوتا جا رہا ہے ۔

illegal immigration by sea

اسلامک ا سٹیٹ آف عراق اینڈ شام.....(Islamic State of Iraq and ash Sham)


آئی ایس آئی ایس کے نام سے انتہا پسند تنظیم نے عراق کے شہر موصل اور شام کے صوبہ عمر علی کے قرب و جوار کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسلامی مملکت کے نام سے حکومت بنا رکھی ہے۔ یہ تنظیم شام کے بعض بجلی گھروں پر قبضے کر کے وہاں بجلی کی تقسیم اور بلوں کی وصولی کر رہی ہے ۔اس کے زیر قبضہ علاقوں سے تیل کی فروخت بھی اس کا ذریعہ آمدنی ہے۔ علاوہ یہ نوادرات کی کھدائی کروا رہی ہے جس پر یہ دریافت کنند گان سے خمس وصول کرتی ہے۔ خمس کی شرح بھی نوادرات اور علاقوں کے حساب سے مختلف ہے ۔ خمس 20 سے %60 تک وصول کیا جا رہا ہے جس کے تعین کا اختیار تنظیم مقامی کمانڈروں کے پاس ہے۔ مشرق وسطیٰ قدیم ترین تہذیبوں کی آماجگاہ ہے، یہاں میسوپوٹیمیائی، اشوری، رومی اور اسلامی ادوار کی قدیم ترین تحریروں اور قیمتی نوادرات کے مدفن ہیں اور عمارتوں کی شکل میں بھی قدیم ترین تاریخی آثار موجودہ ہیں۔ دریائے فرات کے کنارے اور قرب و جوار میں قیمتی نوادرات، سونے چاندی کے زیورات کے بھاری خزانوں کے دفینے بھی موجودہ ہیں ۔ ان علاقوں میں کھدائی کیلئے یہ لوگ عراق کے پیشہ ور افراد کو جن کے پاس تجربہ اور بھاری مشینری ہوتی ہے کو ٹھیکہ دیتے اور لائسنس جاری کرتے ہیں اور خمس کے علاوہ بھی بھاری حصہ وصول کرتے ہیں۔

یوں نوادرات کی اسمگلنگ ترکی کے راستے دنیا بھر میں پھیلائی جا رہی ہے ۔ بشار الاسدکے خلاف یہ جنگ کرنے کے بہانے یہ شام میں داخل ہوئے، پہلے انہیں القائدہ سمجھا گیا مگر انہوں نے القائدہ سے اپنی شناخت الگ رکھی ،ان کی اس الگ شناخت کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان پر توجہ دی اور سالوں یہی تاثر رہا کہ یہ امریکہ کے اسپانسرڈ ہیں۔ ایک سال قبل انہوں نے شام کے صوبے عمر علی اور قرب و جوار کے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ظلم کی نئی شناخت کے ساتھ نمودار ہوئے۔2 امریکی صحافیوں کو گرفتار کر لیا۔ امریکہ نے کچھ دن قبل ان پر ڈرون حملے کئے تو انہوں نے دونوں صحافیوں کے گلے کاٹ کر ویڈیو اپ لوڈ کر دی جس کے حقیقی ہونے کی تصدیق امریکی ایجنسیوں نے کر دی ہے۔ صدر اوباما نے دہشت گردوں سے نمٹنے کا اعلان کر دیا ہے وہ یوکرائن اور ملحقہ ریاستوں کے دورے پر تھے جہاں روسی مداخلت سے حالات بدلے بدلے سے ہیں، یوکرائن نے نیٹو میں شمولیت کی درخواست دیدی ہے۔ اوباما آئی ایس آئی ایس سے نمٹنے سے پہلے یوکرائن کے بحران کا حل چاہتے تھے مگر مذکورہ واقعےسے ان پر دبائو بہت زیادہ آ گیا ہے اب انکی ترجیح آئی ایس آئی ایس کا خاتمہ ہے۔

مگر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کیا القائدہ کا خاتمہ ہو چکا۔ اس کا جواب نفی میں ہے اور یہی سوال اوباما کے سامنے ہے۔اکثر تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی آئی ایس آئی ایس تو شاید ختم ہو جائے مگر دہشت گرد ادھر ادھر بکھر جائیں گے، پھر انہیں ڈھونڈھنا مشکل ہو گا ۔ القائدہ اور آئی ایس آئی خود کو فاصلے پہ رکھے ہوئے ہیں مگر کہیں ٹکرائو بھی نہیں، نظریاتی اتحاد بھی نظر آتا ہے۔ بھارت میں القائدہ 20 سال سے گھسنے کی کوشش میں تھی مگر وہاں اس کے تشخّص کی وجہ سے جگہ نہیں بن رہی تھی جبکہ آئی ایس آئی ایس 4 ماہ قبل بھارت سے ہائرنگ میں کامیاب رہی ہے ۔ القاعدہ نے بھارت برما اور دیگر ملحقہ ممالک کیلئے پانچویں ونگ کی لانچنگ کا اعلان کیا ہے ممکن ہے اس لانچنگ میں آئی ایس آئی ایس کی نئی ہائرنگ معاون ہو۔ آئی ایس آئی ایس والوں کا رویہ بہت زیادہ پُر تشدد ہے گو دونوں کی قیادت اور شناخت الگ الگ ہے مگر نظریاتی اختلاف نظر نہیں آتا۔

آئی ایس آئی ایس کا ذریعہ آمدنی بین الاقوامی تہذیبی ورثے کی لوٹ کھسوٹ ہے ۔کچھ بین الاقوامی تنظیمیں اقوام متحدہ سے ان قیمتی نوادرات کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنے کی درخواستیں کر رہی ہیں ،مہذب معاشروں میں ان کی خرید نہیں ہو گی جس سے کھدائی کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔ نوادرات کی کھدائی اور عمارتوں کی توڑ پھوڑ سے نہ صرف بین الاقوامی قیمتی تاریخی ورثہ تباہ ہو گا خصوصا شامیوں کی زندگیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو نگے ۔یہ نوادرات شامی معاشرے میں تصادم کو روکنے اور مصالحتی رویوں کی افزائش میں بھی معاون ہیں۔ شامی صدیوں سے تاریخ میں رہ رہے ہیں وہ پرانی تہذیبوں کے امین ہیں۔ وہ پرانے شہروں اور حق ہمسائیگی کے حامل خاندانی نظام میں رہنے کے عادی ہیں۔ تاریخی مسجدوں اور گرجا گھروں میں عبادت کرتے ہیں ، صدیوں پرانے بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد تہذیبی ورثے کی عدم موجودگی میں انہیں مصالحت سے رہنے میں دقت ہو گی۔ یہ ورثہ شامیوں کو سیاست ،مذہبی تشخص اور فرقہ پرستی سے بالا بنا تا ہے جس سے مصالحت کے رویئے پنپتے ہیں۔ یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور تہذیبی ورثے کو بچائے جو انتہا پسندوں کا ذریعہ آمدنی بھی ہے۔

مغرب کا رویہ بھی سمجھ سے بالا تر نظر آتا ہے۔ احتیاط کے پردے میں دیر جس سے فیصلے اپنی اہمیت کھو جاتے ہیں۔ ابتداء میں یہ پندرہ بیس ہزار لوگ تھے اب ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے اگر القائدہ اور آئی ایس آئی ایس کو مشترک فرض کر لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب اور اس کے اتحادی حقیقی کنٹرول میں کامیاب ہو جائیں گے۔ صدر اوباما نے نیٹو سے خطاب میں کہا یہ قتل و غارت ہمیں تقسیم نہیں کر سکتی ،ہم متحد ہیں اور ہمارے اتحادی ہماری پشت پر ہیں۔ ملتے جلتے الفاظ وزیر خارجہ جان کیری نے دہرائے ہیں مگر سوال اپنی جگہ تشنہ ہے، کیا کامیابی ہو گی۔ ابتداء میں خبریں اڑائی گئیں داعش، مملکت اسلامیہ کی پشت پر ایک عرب ملک ہے مگریہ افواہ ہی نکلی مشرق وسطٰی میں غیر جمہوری صدارتوں کے خلاف لہر سے سکوت تو ٹوٹ گیا مگر کیا امن قائم ہوا۔ تیونس اوریمن میں افرا تفری برقرار ہے، شام عراق لیبیا جنگوں کی زد میں ہیں۔ القاعدہ کو شکست نہیں ہوئی تو پھر کیا پایا کیا کھویا۔ مغرب سب کچھ امن کے نام پر کر رہا ہے مگر امن کوسوں دور ہٹتا جا رہا ہے، مغرب انسانیت کا علمبردار ہے اور انسانت کے تحفظ کا دعویدار ہے مگر انسانیت غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے ۔ایسا کیوں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ افراتفری سے بھرپور یہ منظر نامہ ہی مغرب کا مطمح نظر ہو۔


نذیر احمد سندھو
بہ شکریہ روزنامہ "جنگ 

Islamic State of Iraq and ash Sham

If you forget Gaza...














If you forget Gaza...

مغربی طاقتیں، عراق اور ہم........


امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے بہت عمدہ بات کہی تھی کہ "اخبارات میں حقائق اگر کہیں ملتے ہیں تو صرف اشتہارات میں۔" یہ قابل حیرت ہے کہ ایک ایسے شخص نے جو ہمارے زمانے سے تقریبا دو صدی قبل اس دنیا میں رہا ہو، صحافت اور ’’پیڈ نیوز‘‘ کی حقیقت کو اتنی گہرائی سے سمجھ لیا تھا۔ آج ہمارے سامنے خبروں اور معلومات کا ایک سیلاب ہے اور ہم اطلاعات کی ترسیل کے انتہائی اہم اور جدید دور میں جی رہے ہیں۔ کمپیوٹر، ٹیبلٹ اور نت نئے قسم کے موبائل فون کی شکل میں ہمارے سامنے اطلاعات کا گویا دھماکا ہو چکا ہے۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر کسی کے بھی تعلق سے اعداد و شمار اور حقائق تک پہنچنا اب انگلیوں کا کھیل ہو گیا ہے۔ اسکے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اب بھی کئی حقیقتوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ نیویارک ٹائمز سے وابستہ مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے نامور صحافی اور کالم نگار تھامس ایل فریڈ مین، جارج بش کے مشرقی وسطیٰ کی آزادی کے مشن کے بڑے حامی رہے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بس جنگ کے میدان میں اترے نہیں، اس کے علاوہ اس جنگ کی حمایت میں انہوں نے سب کچھ کیا اور عراق پر فوج کشی کیلئے امریکا اور اسکے اتحادیوں کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کی۔ عراق پر حملے کرنے کیلئے فریڈمین نے ہی اپنی تحریروں کے ذریعے امریکا اور اسکے اتحادیوں کو اکسایا حتیٰ کہ اس مقصد کیلئے مغربی ممالک کے صحافیوں کی قیادت کا بھی بیڑا اٹھایا۔ انہی کی سربراہی میں مغرب نواز صحافیوں نے اپنے مضامین کے ذریعے مغربی طاقتوں کو عراق کی تاراجی کی داستان لکھنے کی ترغیب دی۔
عام تباہی کے ہتھیار رکھنے سے لے کر نائن الیون کی سازش میں ملوث ہونے تک صدام حسین کو مغربی طاقتوں نے ہر ہر جرم کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کی۔ اسکے بعد عراقیوں کی آزادی کا بہانہ بنایا گیا اور وہاں لوگوں کو جمہوریت کے قیام کے خواب دکھائے گئے۔ یعنی کہ حالات یک بہ یک پیدا نہیں ہو گئے بلکہ انہیں پورے منصوبہ بند طریقے سے پیدا کیا گیا اور قابل ذکر ہے کہ ان حالات کے پیدا کرنے میں تھامس فریڈمین اور ان جیسے دیگر مغرب نواز صحافیوں کا ہی عمل دخل تھا۔ پھر اس کے جو نتائج برآمد ہوئے وہ آج کسی سے بھی پوشیدہ 
نہیں ہیں۔

عراق کبھی دنیا کے امیر ترین اور قدیم ترین ممالک میں سے ایک تھا لیکن آج
 اسے پوری طرح برباد کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں سیاسی اور معاشی سطح پر بھی اس ملک کو ایسا زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے جو فی الحال تو ناقابل تلافی نظر آتا ہے۔ انتہا پسندی سر ابھار رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد عروج پر ہے۔ نیز اس ملک کے دگرگوں حالات پورے مشرق وسطیٰ کے استحکام کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ عراق جنگ کو 11 سال ہو گئے ہیں۔ یہ امریکا کا نئی صدی کا ایک منصوبہ تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے یہ سب کچھ کیا۔ بہرحال عراق جنگ کے نتائج نے امریکا کے تمام دعوئوں اور وعدوں کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ سب کچھ جھوٹ نکلا، بالکل سفید جھوٹ۔

اس کے باوجود حد درجہ افسوس کا مقام ہے کہ امریکا کے سابق صدر جارج بش، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور تھامس فریڈ مین جیسے ان حامیوں نے کبھی پچھتاوے یا معافی کے طور پر ایک لفظ تک نہیں کہا۔ مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ عراق کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس پر پچھتانے یا معافی مانگنے کی بجائے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے دریدہ دہنی کا ثبوت دیتے ہوئے عراق کی طرز پر دیگر مسلم ممالک کے خلاف جنگ چھیڑنے کی حمایت ظاہر کی ہے جبکہ تھامس فریڈمین نے نیویارک ٹائمز میں 10 جون کو شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون بعنوان 'دی رئیل وار آف آئیڈیاز' میں جو باتیں کہی ہیں ان سے ایک اشارہ ملتا ہے کہ عراق کی موجودہ صورتحال پر انہیں کچھ افسوس ہوا ہے۔

تھامس فریڈمین کو عراق جنگ سے تباہ ہونے والے کھیت کھلیانوں اور زرخیز علاقوں پر افسوس ہے۔ انہیں افسوس ہے کہ اس جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات نے کردستان کے جنگلاتی خطے کو بڑی حد تک متاثر کیا نیز یہاں کی حیوانی اور نباتی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ مختصراً یہ کہ اپنے اس مضمون میں انہوں نے مذہبی شدت پسندوں اور کارکنان تحفظ ماحولیات کے درمیان جنگ کو نظریات کی اصل جنگ قرار دیا ہے اور عراق کی ماحولیاتی تباہی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

فریڈمین کے مطابق 'عراق میں اگر شدت پسندوں کو جیت حاصل ہوتی ہے (حالات بتا رہے ہیں وہ جیتنے کے قریب ہیں) تو یہ خطہ انسانی اور ماحولیاتی تباہی کا خطہ بن جائے گا۔ اگر ماحولیات کے تحفظ کیلئے سرگرم گروپ فاتح رہتے ہیں تو اسکا سبب یہ ہو گا کہ کافی لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر انہوں نے ماحول اور اپنی زمینوں کی حفاظر کرنا نہیں سیکھا تو وہ یا تو خود ایک دوسرے کو تباہ کر دیں گے یا قدرت کا قہر انہیں برباد کر دے گا۔ عراق اور اس کے ماحول کے تئیں فریڈمین کی یہ تشویش کچھ کچھ دل کو چھونے والی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دریائے دجلہ اور فرات سے سیراب ہونے والی اس سر زمین کا خاتمہ یہی ہے؟ کیا ہزاروں سال پرانی عراقق تہذیب وثقافت کا انجام یہی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ عراق صرف ماحولیاتی سطح پر برباد نہیں ہوا ہے بلکہ تمام پہلوٗوں سے یہ تباہی کی طرف گامزن ہے۔ ہلاکتوں کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو عراق کیلئے 2014ء سب سے زیادہ درد ناک ثابت ہوا۔ عراق دن بہ دن خون آلود ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں تھامس فریڈمین کا صرف ماحولیاتی تباہی پر اظہار افسوس کرنا اس منافقت کا غماز ہے جو ہمیشہ سے ہی مغرب اور مغرب کے حامیوں کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ان کا یہ خیال منافقت سے کچھ زیادہ اپنے اندر مجرمانہ پہلو بھی لئے ہوئے ہے۔ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ عراق کی اس صورتحال کیلئے جو طاقتیں ذمہ دار ہیں وہ اس طرز کے مزید منصوبوں کی وکالت کر رہی ہیں؟َ مشرق وسطیٰ کے موضوع پر اپریل میں ٹونی بلئیر نے اپنے ایک خطاب میں واضح طور پر اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔
انہوں نے مسلم دنیا کے ہنگاموں کو ناقابل فہم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لوگ ہماری حمایت کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ٹونی بلئیر کا یہ خطاب اشتعال انگیز اور سخت تھا اور کہا جاسکتا ہے کہ کافی طویل وقت کے بعد کسی مغربی لیڈر نے اس طرح کی تقریر کی تھی۔ بہرحال اس خطاب کے ذریعے جنہیں نشانہ بنایا گیا تھا یعنی مسلم ممالک، انہوں نے اس پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی۔ ٹونی بلئیر نے اپنی منفی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اکسویں صدی میں عالمی سلامتی کیلئے اسلامی شدت پسندی ایک بڑا خطرہ ہے۔ یہ خطرہ کم نہیں ہو رہا ہے بلکہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس خطرے سے طبقات بلکہ قومیں تک متزلزل ہو رہی ہیں۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں یہ خطرہ باہمی امن و امان کے ساتھ رہنے کے امکان کو بھی کم کر رہا ہے اور ہم اس کا سامنہ کرنے کیلئے کمزور پڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔'

یہ ہے اس لیڈر کی تقریر جسے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں کیلئے متعین کیا ہے۔ کوئی مسلم لیڈر اگر اس طرح عیسائیت اور صہیونیت کے خلاف بیان دے تو ہنگامہ مچ جائے۔ مختلف جنگوں کے ذریعہ انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان کس نے پہنچایا، مسلمانوں نے یا مغربی طاقتوں نے؟ کچھ صدیوں پہلے تک دنیا پر استعماری اور استبدادی نظام کے ذریعے حکمرانی کس نے کی، مسلمانوں نے یا مغربی طاقتوں نے؟ دنیا کے مختلف حصوں میں کن طاقتوں نے فوجی اڈے اور اسلحہ کے کارخانے بنا رکھے ہیں؟ افسوس کہ ہم مسلامان بھی خاموش ہیں۔ کیا ہم ٹونی بلئیر جیسے لیڈروں کو مذید جارحیت کا موقع نہیں دے رہے ہیں؟

اعجاز ذکاء سید
بشکریہ روزنامہ ’’انقلاب 

عراقی وزیر اعظم اور داعش کی کامیابیاں.........

عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی فرقہ واریت پر مبنی داخلی پالیسی رواں ہفتے اس وقت بری طرح ناکام ہوئی جب مسلکی بنیادوں پر منظم کردہ عراقی فوج دولت عراق و شام 'داعش' کے جنگجووں کا سامنے ایک ہی آن میں ڈھیر ہو گئی۔

عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل، صدام حسین کے آبائی علاقے تکریت اور تیل کی دولت سے مالا مال کرکوک میں عراقی فوجی یونٹوں کے سقوط نے سنہ 2003ء میں بغداد کے صدر دروازے پر صدام حسین فوج کے سقوط کی یاد تازہ کر دی۔

سنہ 2003ء میں عراقی فوج روس کے زنگ آلود اسلحہ سے لیس تھی اور چند ہی سال قبل ہمسایہ ملک ایران اور کویت سے دو بڑی جنگیں لڑنے کی وجہ سے بے حال تھی۔ صدام حسین کی فوج کا مقابلہ دنیا کی طاقتور ترین فوج کے ساتھ تھا، اس لئے اس کی شکست پر بہت سوں کو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔

نوری المالکی کی فوج صدام حسین کی فوج سے مختلف ہے۔ اس کے پاس امریکی ساختہ اپاچی ہیلی کاپٹرز، گن شپ، ایف سولہ لڑاکا جہاز، ابرم اور ہمویز ٹینکوں سمیت جدید امریکی اسلحہ کی بھرمار ہے۔ قابض امریکی حکام نے عراقی فوج کی تعمیر نو پر تقریباً سولہ ارب ڈالر جھونک دیئے۔ واشنگٹن کو یہ امید تھی کہ یہ فوج جدید عراق کا مضبوط سہارا بنے گی۔

خطیر رقم خرچ کر کے تیار کی جانے والی نوری المالکی کی فوج مسلح جہادیوں کا ذرا بھی مقابلہ نہیں کر سکی کیونکہ داعش کے جنگجووں نے بہت کم ہی عرصے میں ایک کے بعد دوسرے اہم عراقی شہروں پر قبضہ کر لیا۔

منگل کی صبح سرکاری فوجیوں نے شمالی عراق کا شہر موصل چھوڑ دیا۔ جاتے ہوئے وہ اپنی گاڑیاں، گولہ بارود حتی کہ وردیاں تک چھوڑ گئے۔ فوج کے متعدد سرکردہ کمانڈر مبینہ طور پر کردوں کے زیر کنڑول علاقوں کی جانب فرار ہوتے دیکھے گئے۔

ویڈیو فوٹیج میں داعش کے جنگجو عراقی فوج کی متروکہ گاڑیوں میں موصل کی سڑکوں پر گشت کرتے نظر آئے۔

نوری المالکی نے اپنی فوجی یونٹوں کی شکست کو 'سازش' کا نتیجہ قرار دیا حالانکہ عراقی فوج انہی کے ہم مسلک شیعہ اہلکاروں پر مشتمل تھی۔ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ نوری المالکی متاثرہ شہروں میں فوجی سقوط کے خود ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے فوج کو کسی نظم و ضبط اور ٹھوس فوجی نظریئے کی بنیاد پر استوار کرنے کے بجائے اس میں مسلکی بنیادوں پر بھرتی میں عافیت جانی۔

حواس باختہ نوری المالکی نے بدھ کے روز ملک میں ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "القاعدہ اور داعش کی افرادی قوت سرکاری فوج اور پولیس کے مقابلے میں انتہائی کم تھی، لیکن پھر کیا ہوا اور کیونکر ہوا؟ کیسے کچھ فوجی یونٹ آنا فانا ہتھیار ڈالتے گئے؟ مجھے اس کی وجہ معلوم ہے، تاہم آج ہم اس اقدام کرنے والوں کو ذمہ دار نہیں ٹھرائیں گے۔"

وزیر اعظم نوری المالکی نے دوسرا سانس لئے بغیر کہا کہ "فوج، پولیس اور سیکیورٹی فورسز ان کے [داعش] کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہیں، تاہم وہ ایک دھوکے اور سازش کا شکار ہوئے۔ ان شاء اللہ، ہم اپنی طاقت، عوامی عزم اور عراقی قوم کے ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے داعش کا خاتمہ کریں گے۔"

ناکام ریاست

بغداد میں مقیم سیاسی تجریہ کار عدنان حسین قدہم نے 'العربیہ' کو بتایا کہ فوجی ناکامی اس کمزور سیاسی عمل کا نتیجہ تھی جسے نوری المالکی نے سنہ 2006ء سے اختیار کر رکھا تھا۔

عدنان حسین کے بقول: "مسلکی بنیادوں پر اختیارات کی تقسیم نے معاشرے کے مختلف شعبوں کے درمیان رسہ کشی کی صورتحال پیدا کر دی تھی۔" انہوں نے مزید کہا کہ مسلکی بنیادوں پرکھڑی کی گئی فوج میں کرپشن بہت زیادہ سرایت کر چکی تھی۔ فوجی کمانڈروں کا تعین صلاحیت کے بجائے ان کی مسلکی وابستگی کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا تھا۔ اس طرح تشکیل پانے والے ادارے سے آپ موثر کارکردگی کی توقع کیونکر رکھ سکتے ہیں۔"

شیعہ رہنما مقتدا الصدر کی سیاسی تحریک کے قریب سمجھے جانے والے تجزیہ کار حیدر موسوی نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "زیادہ تر فوج اہل تشیع پر مشتمل تھی جس سے دنیا کو یہی تاثر ملتا تھا کہ ایک عرب ملک میں یہی مسلک اکثریت کا حامل ہے۔"

حیدر موسوی کے مطابق فوج میں زیادہ تر افراد مادی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر بھرتی جاتے تھے، یہ افراد امریکی قیادت میں عراق پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی معاشی بدحالی سے بری طرح متاثر تھے۔ معاشی آسودگی فراہم کرنے کے لئے انہیں فوج میں بھرتی کیا جاتا۔"

نوری المالکی نے اپنی نشری تقریر میں اعلان کیا تھا کہ جن علاقوں کو داعش کے جنگجووں نے اپنے کنڑول میں لے لیا ہے وہاں وہ باقاعدہ فوج کے مدد کے لئے 'رضاکاروں' کی فوج بھی تیار کریں گے۔

موسوی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح نوری المالکی شیعہ مسلکی مذہبی رضاکاروں پر مشتمل ایک متوازی فوج بنا لیں گے جو ان کی دانست میں القاعدہ نواز دولت اسلامی عراق و شام 'داعش' کے جنگجووں کی بیخ کنی کر سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر اگلے چند ہفتے یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو شیعہ مسلک دینی جماعتیں سنی مسلک داعش جنگجووں کے زیر قبضہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لئے اپنی ملیشیا بھیج سکتے ہیں۔

خانہ جنگی؟

اردن میں مقیم سیاسی تجزبہ کار احمد العبیاد نے خبردار کیا ہے کہ عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کسی بھی قسم کی موبلائزیشن سے ملک کئی برسوں تک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی میں الجھ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں اگر مقامی عناصر ان کے ہمنوا بن گئے تو اس کے بعد مرکزی حکومت کو وہاں اپنی رٹ نافذ کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال عراق کی 'نرم تقسیم' کے اس امریکی خواب کی تکمیل ہے کہ جس کا تانا بانا امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے سنہ 2007 میں بنا تھا۔

یہ منصوبہ سنہ 1995ء میں بوسینیا کی تقسیم کے منصوبے سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے جس کا مقصد عراق کو خود مختار کرد، سنی اور شیعہ علاقوں میں تقسیم کرنا ہے، جنہیں بغداد کی مرکزی حکومت یکجا رکھے۔

بشار الاسد اپنے آخری خطرناک ہتھیار حوالے نہیں کریں گے........


آیندہ چند ہفتے اور مہینے شام کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلفی کے ضمن میں فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔ان خطرناک ہتھیاروں میں سے ایک چوتھائی ابھی تک بشارالاسد کے پاس ہیں اور ان کی حکومت دنیا کو ڈرانے دھمکانے کے لیے انھیں اپنے پاس ہی رکھنا چاہتی ہے۔

شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے منگل کو اطلاع دی ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے کام کی نگرانی کرنے والے بین الاقوامی مبصرین کو اغوا اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ واقعہ شاید اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ شامی حکومت مبصرمشن میں سے جو باقی لوگ رہ گئے ہیں،ان کے کام میں رکاوٹیں حائل کرنے کی تیاری کررہی ہے۔

شامی صدر بشارالاسد کے گوداموں میں مہلک کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی بھاری مقدار موجود ہے۔ان میں عالمی جنگ کی باقیات میں سے مسٹرڈ گیس ہے۔حال ہی میں تیار شدہ سیرن اور بوٹولینم ٹاکسن ایسی خطرناک گیسیں ہیں۔پورے پورے شہر کو زہرآلود کرنے کے لیے ان کے چند ایک قطرے ہی کافی ہیں۔شامی رجیم کے پاس انتھراکس جیسے حیاتیاتی ہتھیار ہیں۔اس نے ایسا بیکٹریا تیار کررکھا ہے جس سے طاعون سے ہیضے تک وبائی امراض پھیلائے جاسکتے ہیں۔ان کے علاوہ ایبولا نامی وائرس بھی ہے۔

گذشتہ سال اس وقت تک کسی نے بھی شامی رجیم سے درپیش اس خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا،جب تک اس نے دمشق کے نواحی علاقے الغوطہ میں سیرن گیس کا استعمال نہیں کیا تھا۔اس حملے کے نتیجے میں پندرہ سو کے لگ بھگ افراد کی حالت غیر ہوگئی تھی اور ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔

مشکل اور خطرناک مشن

گذشتہ سال اکتوبر سے بین الاقوامی مبصرین شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی بیرون ملک منتقلی کے ایک مشکل اور خطرناک مشن پر عمل پیرا ہیں۔ان مبصرین کا خیال ہے کہ انھوں نے بشارالاسد کے گوداموں سے ان کیمیائی ہتھیاروں کی بھاری مقدار کو منتقل کردیا ہے لیکن ان کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں حالیہ مہینوں سے قبل کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔

تاہم اگر ان ہتھیاروں کی تھوڑی بہت مقدار ملک میں رہ گئی ہے تو اس کو تھوڑا نہیں سمجھںا چاہیے کیونکہ یہ تھوڑی مقدار بھی ہزاروں افراد کے قتل عام کے لیے کافی ہے۔مزید برآں ہم ان ہتھیاروں کے صرف اس ذخیرے کی بات کررہے ہیں جس کے بارے میں بتایا گیا ہے یا جو دریافت ہوا ہے۔

شامی حکومت یقینی طور پر تزویراتی ذخیرہ گاہوں میں دوسرے ہتھیاروں کو چھپا رہی ہے تاکہ انھیں فیصلہ کن کامیابی کے لیے وقتِ ضرورت بروئے کار لایا جاسکے۔وہ ان ہتھیاروں کو استعمال کرسکتی ہے اور پھر القاعدہ یا دولت اسلامی عراق وشام (داعش) یااس طرح کے کسی بھی اور فریق پر ان کا الزام عاید کرسکتی ہے۔

امریکی وزیردفاع چَک ہیگل نے منگل کے روز بزعم خویش یہ کہا ہے کہ امریکا نے اپنا اثرورسوخ اور اہمیت کھوئی نہیں ہے۔لیکن کیسے؟ انھوں نے کہا کہ شامی حکومت نے امریکی دھمکیوں کے خوف سے بڑے محکومانہ انداز میں اپنے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔یہ درست ہے کہ شامی حکومت کو امریکی طاقت کا خطرہ تھا لیکن کیا یہ طاقت استعمال بھی کی جائے گی،وہ ایسا خیال نہیں کرتی ہے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے معاہدے پر گذشتہ سال ستمبر میں دستخط کیے تھے لیکن وہ تب سے اس پر عمل درآمد میں پس وپیش سے کام لے رہی ہے اور تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔غالباً ہیگل یہ بات نہیں جانتے ہیں کہ شامی رجیم نے غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے جرم سے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے فائدہ اٹھایا ہے۔وہ اس طرح کہ وہ اپنے اتحادیوں سے افرادی قوت اور ہتھیاروں کے حصول کے لیے وقت گزاری میں کامیاب رہا ہے۔

اسد رجیم نے کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کے لیے معاہدے پر دستخط کے باوجود کلورین اور مسٹرڈ گیس کے استعمال کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ان کی کم مقدار استعمال کی جارہی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس معاہدے کی مدد سے دوسرے تباہ کن طریقوں کو استعمال میں لانے میں کامیاب رہا ہے۔انہی کی بندولت اس نے غوطہ اور حمص وغیرہ میں اپنی شکستوں کو فتوحات میں تبدیل کر لیا ہے۔

کیا چک ہیگل یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اسد رجیم نے کیمیائی ہتھیاروں سے فائدہ اٹھایا ہے،وہ اپنی حکمرانی کو طول دینے میں کامیاب رہا ہے اور اس کو کسی بین الاقوامی جوابی کارروائی سے بھی تحفظ مل گیا ہے۔اب ہم سب یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اسد رجیم بڑے پیمانے پر جنگ کے بغیر اپنے حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کو حوالے نہیں کرے گا۔





 

یہ یرموک کیمپ ہے،مکین کو یاد نہیں آخری کھانا کب کھایا تھا

 


شامی صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع فلسطینی مہاجرین کے کیمپ یرموک تک انسانی امداد بہہنچانے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں جس کے نتیجے میں وہاں بھوک اور ننگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور اس کیمپ کے ایک مکین کو تو یہ تک یاد نہیں رہا کہ اس نے آخری مرتبہ کب کھانا کھایا تھا۔

شامی فورسز کے محاصرے کا شکار یرموک کیمپ میں بھوک سے متاثرہ ایک شخص کی ویڈیو اسی ہفتے منظرعام پر آئی ہے۔مسلسل بھوک کی وجہ سے اس کی ہڈیاں نکل آئی ہیں۔یہ فوٹیج صرف ستائیس سیکنڈز کی ہے لیکن اس سے فلسطینی مہاجر کیمپ کے مکینوں کو درپیش مصائب اور مشکلات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اس شخص سے کیمرے والا سوال کرتا ہے کہ اس نے آخری مرتبہ کب کھانا کھایا تھا تو وہ مختصر جواب دیتا ہے:''وہ اس کو یاد نہیں کرسکتا''۔بھوک کا شکار فلسطینیوں کی تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آنے کے بعد دنیا حیرت زدہ رہ گئی ہے کہ کس طرح شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران فلسطینی مہاجرین کو جیتے جی بھوک سے مارا جارہا ہے۔خواتین اور بچے خاص طور پر کم خوراکی کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

شامی کارکنان نے جنیوا میں جاری امن مذاکرات میں شریک حزب اختلاف کے وفد سے کہا ہے کہ وہ اس ویڈیو کو دوسری تصاویر کے ساتھ عالمی رہ نماؤں کو دکھائے۔واضح رہے کہ صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز نے گذشتہ کئی ماہ سے یرموک کیمپ کا محاصرہ کررکھا ہے۔اس کیمپ میں قریباً پینتالیس ہزار افراد رہ رہے ہیں لیکن انھیں خوراک اور ادویہ تک رسائی نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے امدادی کارکنان نے اسی ہفتے یرموک کے مکینوں تک خوراک کے چار سو کارٹن پہنچانے کے لیے فوج سے مذاکرات کیے تھے لیکن وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہے تھے۔ان امدادی کارکنان کے مطابق شامی فوجیوں نے کیمپ کے اندر امدادی سامان لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ یہ سامان باغی جنگجوؤں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔


Yarmouk camp resident 'can't remember' last time he ate

Enhanced by Zemanta