Showing posts with label Social Media in Pakistan. Show all posts

سوشل میڈیا کی طاقت.......Power of Social Media


  سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر کی اہمیت سے انکار اگر پہلے تھا تو اب بلا شک و شبہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستانی سوشل میڈیا پر ’ٹرولز، تنخواہ دار اور تربیت یافتہ ٹرینڈنگ مشینری‘ کے زیرِ اثر اہم مواقع ہر عوام کے حقیقی مزاج کی عکاسی نہ کرنے کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے وہ گذشتہ چند دنوں سے جاری پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی کے دوران زائل ہوا۔

اس سارے عمل کے دوران سوشل میڈیا کے مزاج، سوچ اور رجحانات میں تبدیلی نظر آئی وہیں حقائق اور سچائی کو توڑنے مروڑنے کی کوششیں بھی نظر آئیں اور فوری طور اس کی تردید اور حقائق سامنے لانے کے لیے لوگوں کا ڈٹ جانا بھی دیکھا گیا۔

جب پاکستان کے بعض نیوز چینلز نے مظاہرین کے پولیس سے تصادم کے دوران سات ہلاکتوں کی خبریں نشر کیں تو سوشل میڈیا پر ہی حقائق سامنے لانے اور دلائل سے ان خبروں کو مسترد کرنے کا عمل ہوا۔

اسی طرح جب پارلیمان کا مشترکہ اجلاس شروع ہوتا ہے تو ساتھ ہی پاکستانی ٹوئٹر جاگتا ہے اور پارلیمان میں خطابات کی ہر اہم بات اور نکتہ ٹویٹ کیا جاتا ہے اور مقررین کا نام فوری ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر جاتا ہے۔

پاکستانی سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پاکستانی عوام کو ایک نئی طاقت، ایک نئی قوت اور ایک نیا ہتھیار فراہم کر رہا ہے
ایک اور بڑی تبدیلی اس رجحان کی صورت میں ہے جس میں لوگوں کا روایتی میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا پر اعتبار کا بڑھنا ہے اور اس میں سب سے اہم بات دسترس کے حوالے سے ہے کہ یہاں آپ کسی سے کسی بھی وقت سوال کر سکتے ہیں، ثبوت مانگ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ بات کرنے والا کس قدر معتبر ہے اور اس کی بات میں کس قدر وزن ہے۔

دھرنے والوں کے خلاف جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی شروع کی تو جہاں ٹی وی چینلز اور متعلقہ سیاسی جماعتوں کے چند رہنما حقائق کے برعکس باتیں کر رہے تھے سوشل میڈیا کا حوالہ دے کر ان حقائق کی درستگی اسی ٹی وی چینل اور اسی رہنما کو کروائی گئی۔

دوسری جانب پاکستان کے اہم سیاسی رہنماؤں، پولیس اور فوج کے اہلکاروں نے بھی اس بات کی اہمیت سمجھی کہ ٹوئٹر اور فیس بُک کے ذریعے ان کی بات تیزی سے دور تک جا سکتی ہے۔
اس کی مثال فوج کو دعوت دینے یا سہولت کار بننے کا معاملہ ہو یا فوج کی جانب سے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کی بات کرنے والے ٹی وی چینل کی بات کا انکار یا جنرل راحیل شریف کو ایک عدد بی ایم ڈبلیو کار کے تحفے کی عمران خان کی بات آئی ایس پی آر کی جانب سے فوری ٹویٹس کی گئیں اور تصدیق یا تردید کی گئی۔

پارلیمان میں خطابات کی ہر اہم بات اور نکتہ ٹویٹ کیا گیا اور مقررین کا نام ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرتا رہا
بات تصدیق یا تردید تک ہی نہیں رہی بلکہ جب وزیراعظم کی جانب سے سہولت کار بننے کی بات آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹویٹ کی گئی تو فوری حکومت کے خلاف باتوں کا ایک طوفان اٹھا۔

مگر وہاں بھی سابق سفیر حسین حقانی کی اس ٹویٹ کے بعد توازن پیدا ہونے لگا کہ ’کوئی تو ہے جو جھوٹ بول رہا ہے اور ہمیں یہ پتا چلانا ہے کہ وہ کون ہے مگر لوگوں ایسے کیوں ظاہر کرتے ہو جیسے آئی ایس پی آر نے کبھی جھوٹ نہیں بولا؟‘

دلچسپ صورتحال تب سامنے آئی جب آئی ایس پی آر کی جانب سے معمول کی ای میل میں لکھا ہوا آیا ’آئی ایس پی آر کے جواب کے لیے ہمارے ٹوئٹر ہینڈ کو فالو کریں۔

جیسے پاکستان میں جمہوریت ارتقا کی منزلیں طے کر رہی ہے، سیاستدان میچور ہو رہے ہیں، سیاست میں توازن اور پختگی کی داغ بیل ڈل رہی ہے، میڈیا میں مفاد کی خاطر کوریج کرنے والوں کے احتساب کی بات کی جا رہی ہے وہیں پاکستانی سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پاکستانی عوام کی اس اقلیت کو جو اس فورم پر موجود ہے ایک نئی طاقت، ایک نئی قوت اور ایک نیا ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔

اس آزادی میں خود احتسابی بھی پنہاں ہے جو سچ اور جھوٹ کو الگ کرنے کی قابلیت بھی ساتھ ہی دیتی ہے۔

سوشل میڈیا پاکستانی معاشرے کا آئینہ بن گیا



پاکستانی معاشر ے میں سوشل میڈیا کی جڑیں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ اس کے استعمال کرنے والوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سر فہرست ہیں۔ یہ نوجوان کیسے نظر آنا چاہتے ہیں، ان کے شب و روز کا معمول کیا ہے، وہ کب اٹھتے اور کب سوتے ہیں۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا کے آئینے میں صاف نظر آتا ہے۔

پاکستان ایڈورٹائزرز سوسائٹی نے ’زی سوشل پرائیوٹ لمیٹڈ‘ کی مرتب کردہ ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا نے دنیا بھر کے لوگوں کے درمیان آپسی رابطوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اب سوشل میڈیا کی بدولت لوگ ہر وقت ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں۔

انتہائی پاور فل سوشل میڈیا نے پرنٹ، آن لائن اوریہاں تک کہ الیکٹرونک میڈیا کو بھی بعض حوالوں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ متذکرہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس ’فیس بک‘، ’ٹوئیٹر‘ اور ’لنکڈ ان‘ سے بچہ بچہ واقف ہے۔ ان سائٹس پر آکر پاکستانی عوام کیا کچھ تلاش کرتی ہے اور اس کا رجحان کس طرف ہے اسے نہایت دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق پچھلے مہینے یعنی جنوری 2014ء میں 10لاکھ لوگوں نے فیس بک جوائن کی۔ مجموعی جائزہ لیں تو پاکستان میں ہر مہینے ایک کروڑ چھبیس لاکھ افراد فیس بک پر کوئی نہ کوئی سرگرمی ضرور دکھاتے ہیں۔ ان میں پچاس 50فیصد سے زائد افراد کی عمریں 18سے 34سال کے درمیان ہیں جبکہ باقی افراد میں اکثریت 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کی ہے۔

سب سے مقبول کون ؟

اگر یہ معلوم کیا جائے کہ ’ٹوئیٹر‘ فینز کے درمیان پاکستان میں فی الوقت سب سے زیادہ مقبول شخصیت کون سی ہے تو بلاشبہ جواب ملے گا ’عمران خان‘۔ ان کے بعد بالترتیب جیو ٹی وی کے میزبان حامد میر پھر کرکٹر وسیم اکرم، سنگر اور ایکٹر علی ظفر اور آخر میں ایک اور ٹی وی اینکر مبشر لقمان کا نمبر آتا ہے۔

اسی ویب سائٹ پر پانچ سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے برانڈز میں موبائل فون کمپنی ’موبی لنک‘ اور بعد ازاں ’وارد‘ کا نمبر آتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برانڈ کی تشہیر کے لئے فیس بک ایک ایسا طاقتور میڈیم بن گیا ہے جو فینز کو ’کنزیومرز‘ میں تبدیل کردیتا ہے۔ جیسے ’ایف ایم سی جی‘ کے پاکستان میں سب سے زیادہ تقریباً 1 کروڑ 70 لاکھ فینز ہیں۔

سوشل میڈیا کے جائزے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی فیشن کے دلدادہ ہیں اور ہر گھڑی فیشن سے متعلق اپ ڈیٹ رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ فیشن پیجز پسند کرنے والوں میں پاکستان کا نمبر دوسرا ہے جہاں 1کروڑ 40لاکھ پاکستانی فیشن پیجز لوگوں کی خاص توجہ کاباعث ہیں۔

فیشن کے بعد ٹیلی کام کو لائیک کرنے والوں کی تعداد 1 کروڑ ہے۔ پاکستانیوں کی پسند کے لحاظ سے پانچواں نمبر بیوٹی پیجز کا ہے۔ ایڈوانس ٹیلی کام کے فینز کی تعداد 97,000 تک پہنچ گئی ہے ۔ ’تھریڈز اینڈ موٹفس‘ فیشن کا دوسرا اور ’جابز ان دبئی‘ یعنی ’دبئی میں آسامیوں‘ کا نمبر تیسرا ہے۔

سوشل میڈیا کی تجزیاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی نظر میں دبئی دنیا کے باقی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ’گلیمرس اور مالدار لائف اسٹائل‘ رکھتا ہے ۔ اکثریت کسی بھی یورپی ملک کے مقابلے میں دبئی میں سب سے آسان رسائی کا خیال رکھتی ہے۔

وسیم صدیقی

Social Media in Pakistan 

Enhanced by Zemanta