Showing posts with label Bangladesh. Show all posts

When failure is victory


TO understand them, there’s just two dates you need to know: 1971 and 1977. In 1971, the Pakistan Army contrived to lose half of Pakistan. In 1977, the Pakistan Army was back running Pakistan. Six years was all it took. And if 1971-1977 happened, what’s 2008-2014? Nawaz didn’t stand a chance. But Nawaz has also helped write his political obituary. Twice now he’s been called a liar. First, it was the Musharraf promise: the boys let it be known that Nawaz had reneged on his government’s promise to indict and then allow Musharraf to leave the country.

Maybe the Musharraf promise had been made or maybe it hadn’t. What was alarming was that the boys were quietly letting it be known that they thought they had a deal and the PM double-crossed them. In essence, the boys were accusing the PM of being a dishonourable man. That’s a perception — correct or incorrect, right or wrong — that you don’t want the boys to have. It explains what came this week. Briefly, Nawaz himself tried to shift perceptions, to collar Imran and Qadri and stick them in next to the boys.

Immediately, the boys hit back. This time there were no leaks, no background chatter, no carefully sown doubts. Sorry, Prime Minister, you’re a liar — it was direct, it was blunt and it’s devastating. You have to wonder if a third time will be necessary. Why would Nawaz do it? Even if he’s right — he hasn’t lied — and they’re wrong, why would he so casually let such poison flow so freely in so vital a relationship?

Take your pick. He doesn’t care. He doesn’t know better. Or he thinks it will work. None of them really make sense. It also doesn’t matter. The mandate was already dead. Now, Nawaz will survive on sufferance — their sufferance. You don’t make them out to be liars and stay in control of your destiny. The other thing you don’t do is call them out on their lies.

Nawaz knows plenty of their lies. As does anyone who’s dealt with the boys and dealt with people who’ve had to suffer the boys. Stories, apocryphal and true, suffice. Just this term, Nawaz has caught them twice. Once, he was told the Taliban were lying, that there were no non-combatant captives. Then the Achakzai line to Karzai was opened to get the real story from the other side. Nawaz knew he was being dissembled with.

How strong are they? Nawaz knows. He once told the story of the other Pakistan, the one they contrived to lose in 1971. Nawaz went there, some years ago, and met all the big guns, the fearsome political rivals and the boys in charge there. Each one of them complained about interference and those three letters: I.S.I.
Isn’t it extraordinary? Bitter rivals they are over there, opposing camps, fiercely divided — and yet all speak about our boys and all say the same thing.

Playing all sides against each other in faraway Bangladesh? You’d think everyone has forgotten about Bangladesh, or would like to forget. But that’s our boys: they never forget. It doesn’t take much to figure out what they can do with home advantage. So many sides, so many angles, so many games, so many Qadris and Imrans — always one bottom line: they stay strong; everyone else stays weak.

But Nawaz keeps quiet. As did Zardari. As do all the civilians. Because to call them out is to invoke a wrath that can bring all your skeletons tumbling out. And you don’t want your skeletons to come tumbling out.
Where to now? The transition has ruptured. If that wasn’t dismal enough, there’s no one on the horizon who can help put it back on track. So now we have to go big, to look at epochs and what makes them. There’s two that matter so far.

The boys and their system were forged in the first decade of this country’s existence. Ayesha Jalal in The State of Martial Rule has explained it more convincingly and eloquently than anyone else: in the shadow of the Cold War and in combination with regional and domestic factors, the structure of the Pakistani state was forged. That’s the edifice, that’s the system, that’s the boys and what makes the boys the boys. But the boys are in denial. There is a second epoch. Fast forward to the late 1970s. Three events in quick succession, the meaning and combined effects of which the country has yet to figure out: Zia and his Islamisation; the Shia-Sunni schism reignited by revolution just when petro-dollars were coming into their own; and the Soviets wading into Afghanistan.

The civilians haven’t been allowed to grow, but events — blessed, cursed, events — have grown. Everything the boys are contending with, the big changes they have been forced into stem from those events. See, one hundred and seventy five thousand troops in Fata fighting Islamist militants. So change is here, we’re already living it and the boys are struggling to cope. Which means, eventually, either they’ll have to make choices or events will make the choice for them. When the rupture does come though — when things break apart — it may not be the civilians who will get to collect the pieces and put Pakistan back together; it could be something far uglier.

But that’s the risk. Because Zardari failed, Nawaz is failing and Imran is a failure. But, most of all, because the boys think failure is victory. That’s what got them from 1971 to 1977. And that’s what’s got them from 2008 to 2014.

By Cyril Almeida

Shahid Afridi in Asia Cup



 Shahid Afridi in Asia Cup










Enhanced by Zemanta

مصباح الیون تیرا شکریہ


سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کو کل 5 سال پورے ہو گئے۔ اس سانحہ کی پانچویں برسی سے ایک دن پہلے پاکستان نے ایشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر پاکستانیوں کو دکھی ہونے سے بچا لیا۔ 5 سال پہلے تین مارچ کو جب لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کی بس پر حملہ کیا گیا تو اس کا مقصد تھا‘ اس ملک سے کرکٹ ختم ہو جائے۔ حملہ کرنے والے اپنے مقصد میں اس حد تک کامیاب ہوئے کہ ملکی میدان ویران ہو گئے۔ یہاں انٹرنیشنل کرکٹ بند ہو گئی۔ ہمارے میدان آج بھی ویران اور خاموش ہیں۔ اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کو ملتی ہے تو کھلاڑیوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے کرکٹر اس سے محروم ہیں لیکن آفرین ہے کہ وہ اس کے باوجود ملک سے باہر جا کر فتح کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ اچھی خبر صرف کرکٹ کے میدانوں سے ہی آتی ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے تحریک طالبان اور حکومت کی طرف سے فائر بندی کے اعلانات بھی اچھی خبر ہوں گے۔ میرے لیے یہ اچھی خبر اس لیے نہیں ہے کہ نجانے یہ فائر بندی کب ٹوٹ جائے اور اگر یہ قائم بھی رہے تو کیا مذاکرات سے اس ملک میں امن آ جائے گا۔

مجھے اس کا یقین نہیں۔ اسلام آباد میں دہشت گردی کی واردات ہو چکی ہے‘ یہ واردات کس نے کی‘ مجھے اس کا علم نہیں ہے البتہ میڈیا میں آیا ہے کہ احرار الہند نامی کسی تنظیم نے اس سانحے کی ذمے داری قبول کر لی ہے‘ ذمے داری کوئی قبول کرے یا نہ کرے‘ دیکھنا تو یہ ہے کہ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں‘ حکمران اس معاملے میں کیا کہتے ہیں‘ یہ میں اور آپ سن رہے ہیں‘ اس لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے مذاکرات‘ سیز فائر سے کوئی اچھی خبر بنتی نظر نہیں آتی۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں سری لنکا سے چند رنز سے ہارنے والی پاکستانی ٹیم افغانستان سے ہارتے ہارتے بچی تھی۔ اتوار کو ڈھاکا میں بھارت کے خلاف میچ بھی اپنی تمام تر سنسنی خیزی لیے ہوئے تھا۔ کبھی جیت کی امید بنتی اور کبھی ہار کے خوف سے دل بیٹھ جاتا۔ اس میچ میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے سو فیصد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان اور بھارت میدان میں اتریں تو ہر کھلاڑی اسے آخری میچ سمجھ کر کھیلتا ہے۔

ان میچوں میں بڑے بڑے ہیرو پل بھر میں زیرو ہو جاتے ہیں۔ انڈیا کی طرف سے تین ففٹیاں بنیں۔ پاکستانی بیٹسمین بھی خوب کھیلے۔ محمد حفیظ پہلے دو میچوں میں فلاپ ہوئے مگر اس اہم میچ میں 75 کی شاندار اننگز کھیل گئے۔ اوپننگ اسٹینڈ بھی شاندار تھا۔ صہیب مقصود نے حفیظ کا خوب ساتھ دیا لیکن میچ ختم ہوا تو قوم کا ایک ہی ہیرو تھا۔ بوم بوم آفریدی۔ آج قدرت نے بھی شاہد آفریدی کی جرات کا ساتھ دیا۔ لالے نے آخری اوور کی تیسری گیند پر پہلا چھکا مارا تو مجھے لگا وہ باؤنڈری پر کیچ ہو جائے گا۔ میں مایوس ہو کر ٹی وی اسکرین کے سامنے سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ کمنٹیٹر کی آواز آئی ’’اٹ از اے سکس‘‘۔ دوسری شاٹ بھی ایسی ہی تھی لیکن وہ بھی باؤنڈری سے باہر جا گری۔ اس کے بعد ڈھاکا کے میدان میں اور پاکستان کے ہر گھر‘ گلی اور سڑک پر صرف جشن ہی جشن تھا۔ میں بھی دفتر سے باہر نکلا تو فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج رہی تھی‘ لاہورئیے سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے‘ ایسے مناظر پاکستان میں کہاں نظر آتے ہیں‘ یہاں تو افسردگی ہی افسردگی پھیلی ہوئی تھی‘ جسے کرکٹ ٹیم نے خوشی میں بدل دیا۔

پاکستان نے انڈیا کے خلاف جس قسم کی پرفارمنس دی ہے اس کی بنیاد پر میں یہ پیش گوئی کرنے کی جرات کر رہا ہوں کہ 8 مارچ کے فائنل میں پاکستان فاتح ہو گا۔ انڈیا کا ایشیا کپ ختم ہو گیا۔ بنگلہ دیش اور افغانستان پہلے ہی فائنل کی دوڑ سے باہر ہیں۔ سری لنکن ٹیم فائنل میں پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کی انڈیا کے خلاف جیت پر میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اب پاکستان فائنل میں جا کر ہار بھی جائے تو دکھ نہیں ہو گا۔ ایشیا کپ میں بگ تھری کا چوہدری انڈیا سری لنکا کے اور پاکستان سے بھی ہار گیا۔ مجھے خدشہ ہے کہیں افغانستان بھی اسے مار نہ گرائے۔ یہاں آئی سی سی انڈر 19 کے فائنل میں پہنچنے والے پاکستانی ٹیم کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہمارے نوجوان کرکٹر کیا عمدہ کھیلے ہیں۔ فائنل میں وہ جنوبی افریقہ سے ہار گئے مگر ان کا وہاں تک پہنچنا ہی بڑی بات تھی۔ جس ملک میں کرکٹ کا کوئی انفراسٹرکچر ہی نہ ہو وہاں کے بچوں کا فائنل میں پہنچنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ویل ڈن پاکستان انڈر19 کرکٹ ٹیم۔ بگ تھری کے ساتھ انڈر 19 ورلڈ کپ میں بھی بری ہوئی۔

انڈیا کے خلاف میچ میں بنگلہ دیش کے کراؤڈ نے جس طرح پاکستان کو سپورٹ کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کی پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ بنگالیوں کے دل میں آج بھی پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ بنگلہ دیش کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان مخالف عناصر پر مشتمل ہے۔ مجھے دکھ ہے ہمارے کرکٹ کے میدان ویران ہیں۔ پاکستان میں امن جنگ بندی سے آئے یا جنگ سے‘ امن آنا چاہیے۔ اس ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونی چاہیے۔ ہمارے بچوں سے یہ حق نہ چھینا جائے کہ وہ اپنے ہیروز کو اپنے میدانوں میں کھیلتے نہ دیکھ سکیں۔ مصباح الیون تیرا شکریہ۔ شاہد آفریدی تھینک یو ویری میچ۔ قوم کے چہرے پر مسکراہٹ لانے والے صرف کرکٹرز ہی ہیں۔ باقی کہیں سے اچھی خبر کیوں نہیں آتی؟

ایاز خان

Enhanced by Zemanta

وہی ڈھاکا


اس کالم کی پوری سرخی یوں ہے ’’وہی ڈھاکا وہی ہندوستان اور وہی پاکستان‘‘ فرق 1971ء اور 2014ء کا ہے یعنی 43سال کا۔ ان برسوں میں ہم اس قدر بدل گئے کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان میں غداروں کا غلبہ تھا، آج پاک بھارت جنگ میں وفاداروں کا غلبہ ہے۔ تب یہ جنگ فوجوں کی تھی اب یہ جنگ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی ہے لیکن دونوں جنگوں میں اس خطے کے لوگوں کے جذبات کا جوش ایک جیسا رہا۔ غداروں والی جنگ میں ہمیں عبرت ناک شکست ہوئی پہلے تو 90 ہزار پاکستانی بھارت کی قید میں دے دیے پھر ان کو بھارت سے رہا کرانے کے بعد ہیرو بھی بن گئے لیکن پاکستان کے عوام بھارت سے اپنی شکست اور رسوائی کا بدلہ لینے کے لیے انتقام کی آگ میں جلتے رہے۔ فوجی جنگ کا میدان تو جب سجے گا دیکھا جائے گا فی الحال کرکٹ کے میدان میں ہم نے بھارت کو رسوا کر دیا۔ یہ میدان بھی ڈھاکا میں تھا، اب یہ پلٹن میدان نہیں شیر بنگلہ اسٹیڈیم تھا۔ اس میدان کا فاتح بھی ایک پاکستانی پٹھان تھا آفریدی اور پہلے والے میدان کا شکست خوردہ بھی ایک پٹھان تھا نیازی۔ بس ان دونوں پٹھانوں کی پاکستانیت میں فرق تھا۔ برصغیر میں آباد ہندو اور مسلمان قوموں میں یہی فرق کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ رہا۔ کبھی اس نے تاریخ کی فتح حاصل کی اور زمین کے نقشے پر ایک نیا ملک بنا دیا اور کبھی اس نے اپنے اس ملک کی عزت اس ملک کے شہر میں لٹا دی۔ دنیا کی ہر قوم کی طرح یہ قوم بھی اپنے لائق کسی قیادت کی منتظر رہی۔ ایک قیادت نے اس سے ایک ملک بنوا لیا اور ایک قیادت نے اس ملک کو رسوا کر دیا اور وہ بھی ان دشمن ہاتھوں سے جن کو توڑ کر یہ ملک بنایا گیا تھا۔

برصغیر کی ان دونوں قوموں کے درمیان کبھی گولہ و بارود کی اور کبھی گیند اور بلے کی جنگ ہوتی ہی رہے گی۔ ان کی دشمنی رنگ و نسل کی نہیں نظریات کی ہے، اسلام اور بت پرستی کی ہے جب تک یہ دونوں قومیں نظریاتی اتحاد اختیار نہیں کر لیتیں جو نا ممکن ہے تب تک ان کے درمیان جنگ جاری رہے گی، اس کے میدان بدلتے رہیں گے، اس کے ہتھیار بدلتے رہیں گے لیکن ان کے مابین دشمنی نہیں بدلے گی۔ ان دنوں پاکستان میں ایک سیکولر طبقہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ یہ دشمنی اگر ختم نہیں ہوتی تو اس میں سے زہریلے کانٹے نکال دیے جائیں۔ اس کوشش میں صرف برصغیر کی دو قومیں ہی نہیں بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں جو یہاں اپنے اپنے مفاد میں ہندو مسلم دوستی قائم کرنا چاہتی ہیں، فی الحال انھیں اس کا بظاہر ایک غیر متنازعہ میدان مل گیا ہے یعنی دونوں ملکوں میں تجارت کی بحالی۔ ہندو مسلم کے درمیان تجارت تو پہلے دن سے ہی بحال تھی جب پاکستان بنایا گیا تب بھی ان دنوں ہندو مسلم کے درمیان تجارت چل رہی تھی لیکن پاکستان بن جانے کے بعد دونوں ملکوں کی سرحدیں جدا ہو گئیں۔

دو مخالف ملکوں کے درمیان کی سرحدیں ویزا ضروری دیگر لوازمات بھی لاگو اور تجارت بالکل بند۔ کسی پاکستانی حکمران میں یہ جرات پیدا نہیں ہوئی کہ وہ تجارت کھول سکے، اب پہلی بار جب امریکا نے بھارت کی علانیہ سرپرستی شروع کی اور بھارت کی طلب پر تجارت کا مسئلہ پیدا ہوا تو کمزور پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کے لیے بھارت کے ساتھ تجارت کی سلسلہ جنبانی شروع کر دی۔ سرحدیں کھولنے کی بات ہوئی ویزا وغیرہ ختم یا نرم کرنے کی بات ہوئی اور نہ جانے کتنے پرانے گم شدہ رشتے تلاش کر لیے گئے۔ ایک طرف امریکا کی سپر پاور جو ہمارے ہاں حکومتیں بناتی اور بگاڑتی ہے دوسری طرف ملک کے اندر امریکا کے مفاد پرست حامی اور بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی غرض سے سیکولرازم کے علمبردار جمع ہو گئے۔ ان سیکولر عناصر کو میڈیا میں مضبوط رسائی حاصل ہے اس طرح امریکا کی سرپرستی اور بھارت کی انتھک کوششوں سے پاکستان کے اندر ایک لابی بن رہی ہے جو بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور بعد میں برادرانہ تعلقات کی خواہاں ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے عوام اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت کے خلاف پاکستان کی کرکٹ کے میدان میں فتح نے ایک بار پھر بتایا ہے کہ پاکستانی بھارت کو کیا سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں رات کے شروع میں ہی جب آفریدی نے یکے بعد دیگرے دو چھکے مارے جن کے بغیر فتح ممکن نہیں تھی تو پورا پاکستان جو سانس روک کر کرکٹ میچ کے آخری لمحے دیکھ رہا تھا فتح کا اعلان ہوتے ہی ناقابل بیان حد تک پرجوش ہو کر اپنے آپ سے باہر نکل آیا۔ کرکٹ کے میچ میں فتح و شکست بارہا دیکھی ہے لیکن ایسی فتح بہت زیادہ نہیں ملتی جب پوری قوم بے قرار ہو کر جھوم اٹھے اور رقص کناں بازاروں میں نکل آئے۔ ڈھاکا میں ہونے والی اس فتح کے بہت معنی تھے۔ ایک تو ہم اپنے کھوئے ہوئے جگر کے ٹکڑے ڈھاکا کو بہت یاد کرتے رہے پھر ہم نے دیکھا کہ نہ صرف ڈھاکا بلکہ پورا مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) پاکستان کی فتح کو اپنی ذاتی فتح سمجھ کر جشن منانے لگا جیسے متحدہ پاکستان کی یادوں میں گم ہو گیا ہے جب ہمارے غدار لیڈروں نے اسے بھارت کے حوالے کر دیا۔ حسینہ واجد قسم کے لیڈر کچھ بھی کرتے رہیں، برصغیر میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں اور یہ دو ہی رہیں گی۔ ویزوں میں نرمی تو کیا سرحدیں بھی ختم کر دیں لیکن دلوں میں استوار ان سرحدوں کا کیا کریں گے جو 1947ء میں ایک بار پھر استوار کر دی گئی ہیں اور اس خطے کے جغرافیائی حکمران انھیں گرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں کے عوام ان نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ ہندو اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انھیں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم بدقسمتی سے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ موجود سرحدوں کو ہی قائم رکھ سکیں تو بڑی بات ہے۔ ان سرحدوں کے محافظ ڈھاکا اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ کوئی نہ کوئی آفریدی نوجوان ہمیں پاک بھارت دونوں کو یاد دلاتا ہے اور اس فرق کو ظاہر کرتا ہے جو نظریات نے دونوں کے درمیان استوار کر رکھا ہے۔ نہ مٹنے والا فرق۔

عبدالقادر حسن

Enhanced by Zemanta

بیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے ’سزائے موت‘

بنگلہ دیش نے جو بیس کروڑ پاکستانیوں کے لیے اب تک مشرقی پاکستان ہے اس کی حکومت نے اپنے ہاں مقیم کچھ لوگوں کے لیے سزائے موت کا فیصلہ دیا ہے۔ اس سے قبل وہ عبدالقادر ملا کو یہ سزا دے بھی چکے ہیں‘ جرم تھا اور ہے متحدہ پاکستان کی حمایت۔ پاکستانیوں کو یہ سزائیں چونکہ بھارت کے حکم پر دی جا رہی ہیں اس لیے ان پر عمل بھی فوراً کیا جاتا ہے اور واپسی رپورٹ بھیج دی جاتی ہے کہ حکم حاکم کی تعمیل کر دی گئی ہے۔ اطلاعاً عرض ہے‘ بھارت کو جس قدر پاکستان کِھلتا ہے اور اس کے سینے کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ اسی طرح ہر پاکستانی اور پاکستان کا نام لینے والا کہیں بھی ہو وہ گردن زدنی ہے محاورتاً نہیں حقیقتاً۔ بنگلہ دیش کی حد تک بھارت کامیاب ہے کیونکہ یہ ملک بھارت کی قطعاً ناجائز فوجی مداخلت سے قائم ہوا ہے۔ درست کہ اس کا میدان ہم پاکستانیوں نے خود تیار کیا تھا اور اس کے عوض ایک ملک اور وزارت عظمیٰ حاصل کی تھی لیکن اس میدان کو فتح بھارتی فوجوں نے کیا اور شکست کے اوزار بھارتی جرنیلوں نے وصول کیے۔

ایک بے حمیت پاکستانی جرنیل سے اور بے ضمیر پاکستانی حکمرانوں کی ٹولی اور اس کے ساتھی اور کارندے پاکستانی سیاستدانوں سے۔

دنیا نے ہماری اس قومی بے حسی کو تسلیم کیا اور پاکستان کا یہ مشرقی حصہ آج دنیا کا ایک آزاد ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی قوم خود ہی بے حس ہوجائے اور قومی حمیت ترک کر دے تو دنیا کو کیا پڑی کہ اس کو غیرت مند بناتی پھرے اور اسے غیرت مند تسلیم کرے۔ خصوصاً پاکستان کی وراثت کی دعوے دار حکومت جب یہ کہے کہ یہ ’بنگلہ دیش‘ کا اندرونی معاملہ ہے تو اس پر صف ماتم ہی بچھائی جا سکتی ہے۔ ہماری اس تاریخی بے حسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمیں مسلسل ایسے حکمران ملے ہیں جن کی حکومت میں ان کے ملک پر کھلم کھلا فضائی حملے ہوتے ہیں۔ پاکستانی مرتے ہیں اور ہم احتجاج بھی نہیں کرتے کیونکہ جس ملک کو ہم اپنے ہموطنوں سمیت فروخت کر چکے ہوں اس ملک سے ہم کس منہ سے احتجاج کر سکتے ہیں۔ ہماری اسی بے حسی زندگی کا ہی یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے وہ ہمارے گھروں میں گھس آتا ہے اور ہم اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہیں۔

دروازے کھولنے کا اعلان کرتے ہیں اور راستوں پر جھاڑو دے کر اپنے مہمان کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے اسکول کے معائنے کے لیے انسپکٹر صاحب نے آنا تھا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمارے اسکول کے برآمدے کی پیشانی پر ایک فارسی شعر لکھا جس کا مطلب تھا کہ آپ کی آمد ہماری آبادی کا سبب ہے۔ اے آمدنت باعث آبادیٔ ما۔ بھارت کو ہم عام پاکستانیوں کی دلجوئی سے کیا مطلب وہ تو ہماری دل جلانے والی باتیں ہی کرے گا اور ہم تمام پاکستانیوں کو گردن زدنی قرار دے گا۔ جب سے بنگلہ دیش نے بھی کبھی پاکستان کا نام لینے والوں اور اسے متحد رکھنے کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو سزائے موت سے کم کسی سزا کا مستحق نہ سمجھا ہو تو ہم اس کی ان کارروائیوں پر کیا احتجاج کر سکتے ہیں جن کے پس منظر میں ہمارے پاکستان کو متحد رکھنے والا جرم کارفرما ہو۔

اپنے وطن عزیز کی خود اپنی ذات کے بارے میں اس کی بے بسی کو دیکھ کر مجھے بھارت کے ان چھوٹے پڑوسیوں کی بات یاد آتی ہے کہ جب کسی دورے میں ہم سری لنکا نیپال وغیرہ جاتے اور وہاں کے شہریوں سے گپ شپ ہوتی تو وہ باتوں باتوں میں ایک بات بلا تکلف کہہ دیتے کہ ہم اپنے تحفظ کے لیے پاکستان سے امید رکھتے ہیں کیونکہ وہ بھارت کا دوست نہیں ہے اور اس سے ٹکرانے کی ہمت بھی رکھتا ہے۔ اس لیے جب بھارت ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرے گا تو پاکستان ہماری مدد کرے گا۔ تب ان دنوں ہم پاکستانی یہ سن کر بہت خوش ہوتے اور اس خطے میں اپنے آپ کو ایک طاقت سمجھتے۔ ایک موقع آیا کہ ہم نے بھارت کی تخریب کاری کے خلاف سری لنکا کی مدد کی۔ وہاں تامل باغیوں نے تباہی مچا رکھی تھی لیکن بودھ مت کے پیرو کار سری لنکا والوں کے پاس ایک برائے نام سی فوج تھی۔

انھی دنوں صدر ضیاء الحق کے ہمراہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا اور صدر صاحب نے ہمیں بتایا کہ میں نے سری لنکا والوں کی فوج کو اسلحہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کی فوجی تربیت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ بڑی مشکل سے انھیں فوج کے قیام پر آمادہ کیا ہے چنانچہ پاکستان کے تعاون سے سری لنکا کو ان بھارتی تامل باغیوں سے نجات مل گئی۔ برصغیر کے اس خوبصورت جزیرے والوں کو پاکستان کی مہربانی یاد ہے۔ مشرقی پاکستان میں جنگ کے دوران جب بھارت کے اوپر سے ہمارے جہاز پرواز نہیں کرسکتے تھے تو وہ ایک لمبا چکر لگا کر سری لنکا کے راستے سے جایا کرتے تھے۔ سری لنکا نے بھارت کی پروا نہیں کی تھی کیونکہ پاکستان اس کے ساتھ تھا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ برصغیر کے ان چھوٹے بھارتی پڑوسیوں کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ ایسی کوئی بات اب نہیں کریں گے کیونکہ جو ملک اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اور بھارت کی خوشنودی میں لگا ہوا ہے وہ بھارت کے کسی ستم رسیدہ چھوٹے ملک کی کیا مدد کرے گا۔


میں نے طالبان سے مذاکرات کے لیے راستہ کھلا چھوڑ کر اپنی چار رکنی کمیٹی کے لیے آسانیاں پیدا کرنی شروع کر دی ہیں اور اب یہ موضوع فی الحال ترک کر دیا ہے لیکن ایک میں کس باغ کی مولی ہوں یہ کام تو ہمارے اونچے درجے کے کالم نویسوں کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے کہ وہ طالبان پر ذرا ہاتھ ہولا رکھیں اور کوشش کریں کہ ہماری یہ کمیٹی اگر بذات خود بھی وہاں جائے تو خیریت سے واپس آ جائے۔ طالبان نے ایک جواب تو اب دیا ہے کہ مذاکرات کریں یا جنگ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کر دیں لیکن مذاکرات اگر ہوتے ہیں تو خدا کرے ان میں سے امن کا کوئی راستہ نکل آئے بہر کیف اب یہ موضوع میری قلم فرسانی سے خارج ہے ایسے جب میں نے دوسرے موضوعات پر سوچا تو اندازہ ہوا کہ اصل موضوعات تو ہمارے اندرونی ہیں۔ بے روز گاری بد امنی اور گرانی وغیرہ اصل موضوعات ہیں کہ ان کے نتائج ہم عوام بھگت رہے ہیں۔ اب یہ باتیں ہوتی ہی رہیں گی فی الحال مذاکراتی کمیٹی کے حق میں دعائے خیر۔ اور ہاں ایک بات پس تحریر کہ ایک بچی کے بارے میں علاج کے لیے مالی امداد کی اپیل کی تھی ۔مشرق وسطیٰ سے تین چار پاکستانیوں نے تمام اخراجات اٹھانے کی پیش کی ہے اور جزوی طور پر تو لاتعداد لوگوں نے امداد کی خواہش کی ہے لیکن فون نہیں مل رہے جو نمبر دیے ہیں وہ شاید ناکافی ہیں۔ آیندہ بھی فون نمبر ایسے دیا کریں جو جواب دیا کریں۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Enhanced by Zemanta

Kabaddi


 Kabaddi is a wrestling sport from India. Two teams occupy opposite halves of a small swimming pool or field and take turns sending a "raider" into the other half, to win points by tackling members of the opposing team; then the raider tries to return to his own half. The raider must not cross the lobby unless he touches any of his opponents. If he does so then he will be declared as "out". There is also a bonus line which ensure extra points for the raider if he manages to touch it and return to his side of the field successfully.



 The word Kabaddi is derived from a Tamil word meaning "holding of hand", which is indeed the crucial aspect of play. It is the national game of Bangladesh, and the state game of Tamil Nadu, Karnataka, Punjab and Andhra Pradesh in India.
 In the international team version of kabaddi, two teams of seven members each occupy opposite halves of a field of 10 m × 13 m in case of men and 8 m × 12 m in case of women.[1] Each has three supplementary players held in reserve. The game is played with 20-minute halves and a five-minute halftime break during which the teams exchange sides. Teams take turns sending a "raider" to the opposite team's half, where the goal is to tag or wrestle ("confine") members of the opposite team before returning to the home half. Tagged members are "out" and temporarily sent off the field. The goal of the defenders is to stop the raider from returning to the home side before taking a breath. If any of the seven players cross the lobby without touching the raider he will be declared as "out".

The raider is sent off the field if:
  • the raider crosses a boundary line.
  • a part of the raider's body touches the ground outside the boundary (except during a struggle with an opposing team member).
Each time when a player is "out", the opposing team earns a point. A team scores a bonus of two points, called a "lona", if the entire opposing team is declared "out". At the end of the game, the team with the most points wins. Matches are categorised based on age and weight. Six officials supervise a match: one referee, two umpires, a scorer and two assistant scorers.
Enhanced by Zemanta

برما کے واقعات کی تحقیق ضروری ہے


برما (میانمار) میں ایک عرصے سے بدھوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان خونریز فسادات کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس سلسلے کے فسادات کا نیا سلسلہ جنوری کے تیسرے ہفتے میں شروع ہوا ہے۔ برما کی ریاست رخائین میں دونوں گروہوں کے درمیان فسادات میں 30 مسلمان شہید ہونے کی خبریں شایع ہوئی ہیں، ان ہی تازہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ برما کی ریاست رخائین میں پولیس اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی، یہ جھڑپ اس وقت ہوئی جب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، اس جھڑپ کے بعد بدھ شدت پسندوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کیے، جن میں 30 مسلمانوں کے قتل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم کے مطابق پچھلے دو سال میں بدھ انتہا پسندوں نے 25 ہزار روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا، بے شمار خواتین کی عصمت برباد کی اور عبادت گاہوں کو نذرآتش کیا۔ رپورٹ کے مطابق 50 ہزار سے زیادہ مسلمان برما سے، بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور انڈونیشیا ہجرت کر چکے ہیں۔ اس خبر میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا ملکوں نے ان روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

ہمارے قدامت پسند اکابرین کو یہ شکایت رہی ہے کہ روشن خیال لکھاری پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہونیوالے مظالم پر تو قلم اٹھاتے ہیں لیکن برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم انھیں نظر نہیں آتے۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری دائیں بازوں کی قیادت کو جن لکھاریوں سے شکایت ہے ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بلا امتیاز مذہب و ملت ہر اس مظلوم کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں جو زیادتیوں کا شکار ہوتا ہے، وہ مظلوم کو صرف اس کے عقائد کے حوالے سے ہی نہیں دیکھتے بلکہ اسے اشرف المخلوقات یعنی انسان ہونے کے حوالے سے بھی دیکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی مظلوم کو اگر محض اس کے عقائد کے حوالے سے دیکھ کر اس کی حمایت یا مخالفت کی جائے تو اس سے دانستہ یا نادانستہ طور پر نفرتوں اور تعصبات میں اضافہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے اور روشن خیال لکھاری اپنی فطرت میں نفرتوں، تعصبات کا دشمن محبت اور بھائی چارے کا دوست اور پرچارک ہوتا ہے، یہی اس کی پہچان اور خصوصیت ہے۔ برما میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات اگرچہ لگاتار ہو رہے ہیں لیکن اس حوالے سے اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا انکشاف جس امریکی تنظیم نے کیا ہے ہو سکتا ہے وہ اپنی رپورٹ میں حق بجانب ہو لیکن اسے ایک وسیع تر تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ امریکی سامراج کے معروف خفیہ ادارے جب بھی ضرورت سمجھتے ہیں تشدد پسندوں کی خدمات اپنے مکروہ مقاصد کے لیے حاصل کر لیتے ہیں اور ان خدمات کے حصول کے لیے ڈالروں کو پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ عراق میں جب تک صدام حسین کی حکومت قائم تھی عراق فرقہ وارانہ قتل و غارت گری سے محفوظ تھا، جب امریکا نے عراق پر قبضہ کیا تو عراق فرقہ وارانہ قتل و غارت کا مرکز بن گیا۔ آج پورا عراق قتل و غارت میں گردن تک دھنسا ہوا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت امریکا اور اس کے حواریوں کو پسند نہ تھی کیونکہ شام ایران کا ایک قریبی اور قابل اعتماد دوست تھا، اس لیے شام میں جھگڑوں کو ہوا دی گئی۔ اب جب امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں تو شام میں بھی حالات کچھ بہتر ہو رہے ہیں۔

ان حقائق کے پس منظر میں برما میں ہونے والے فسادات کا تحقیقی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر بدھ جیسی امن پسند قوم تشدد پر کیوں اتر آئی ہے؟ بدھا کی تعلیمات امن اور بھائی چارے پر مشتمل ہیں، بدھ بھکشو گھر گھر امن و آشتی کا پیغام پھیلانے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، گھر گھر بھیک مانگ کر گزارہ کرنے والی یہ قوم آخر اس قدر متشدد کیوں ہو گئی ہے؟ایسا لگتا ہے کہ یہاں بھی امریکا کا کار فرما ہے اور اس نے بودھوں میں اپنے ایجنٹ شامل کر دیے ہیں۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ برما کے بعض علاقے سخت تشدد کی زد میں ہیں اور تشدد کے یہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف خونریز لڑائیاں بھی لڑتے ہیں اور روایت کے مطابق کمزور فریق کو زیادہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے، لیکن اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اس تشدد کے محرکات کیا ہیں؟ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم محض اس خوف سے کہ کسی فریق کی حمایت سے تشدد کی آگ اور بھڑکے گی سچ اور مظلوم کی حمایت سے دست کش ہو جائیں۔

بات صرف نیت کی ہے، اگر ہم ان متحارب فریقین میں اعتماد کی بحالی، نفرتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمارا رویہ غیر جانبدارانہ اور آگ بجھانے والا ہونا چاہیے۔ اس کے برخلاف اگر ہم آنکھ بند کر کے ظالموں کے خلاف لڑائی کی تلقین کرتے ہیں تو پھر خون خرابے میں اضافہ تو ہو سکتا ہے کمی نہیں ہو سکتی۔ رجعت پسندی اور ترقی پسندی میں یہی بنیادی فرق ہے کہ رجعت پسندی دانستہ یا نادانستہ آگ بھڑکانے کا سبب بنتی ہے اور ترقی پسندی آگ بجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہندوستان میں بدھ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں، اگر برما کے واقعات کو نمک مرچ لگا کر ہندوستان میں پھیلایا جاتا ہے تو کیا اس امکان کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں اور بدھوں کے درمیان محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو جائے؟ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو جو کچھ برما میں ہو رہا ہے ہندوستان میں اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا؟

یہ ایسی نازک اور حساس باتیں ہیں جن پر غور کرنے کی عموماً ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی لیکن یہ چنگاریاں عموماً شعلوں میں بدل جاتی ہیں اور ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔امریکا میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی جس تنظیم نے فسادات کے حوالے سے جو اعداد و شمار میڈیا کو فراہم کیے ہیں کیا یہ اعداد و شمار نہ صرف علاقائی مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پھیلانے کا سبب نہیں بن سکتے۔ حقائق کو نہ جھٹلایا جا سکتا ہے نہ انھیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن بعض حقائق اس قدر نازک اور حساس ہوتے ہیں کہ انھیں طشت ازبام کرنے کا مطلب آگ کو ہوا دینا ہوتا ہے۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش وغیرہ مسلم ملک ہیں۔ اسی انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ان مسلم ملکوں نے روہنگیا برمی مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کیا ہے۔ ظاہر ہے اس خبر کو پڑھنے کے بعد افسوس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان مسلم ملکوں نے ان مظلوم مسلمانوں کو پناہ دینے سے کیوں انکار کیا ہے؟ سوال یہ نہیں ہے کہ مظلوم کی حمایت صرف اس لیے ترک کی جائے کہ اس سے فساد خلق کا اندیشہ ہے بلکہ سوال حقیقت حال کے پوری طرح ادراک کا ہے کہ آخر بدھوں اور مسلمانوں میں اس خونریزی کا اصل سبب کیا ہے؟ او آئی سی اور اقوام متحدہ کو ایک مشترکہ وفد برما بھیج کر حقیقت حال کی پوری تخلیق کرانا چاہیے اور اگر ان واقعات میں صرف بدھ قصور وار ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ یہی ایک بہتر اور مثبت راستہ ہے۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Reality of Jamat-e-Islami


 
Reality of Jamat-e-Islami
Enhanced by Zemanta