Showing posts with label Pakistan Politics. Show all posts

قوم کی تقدیر کی پرواز بھی کسی وی آئی پی کی منتظر ہے؟.......



ار، کیا پاکستان میں نہیں رہتے؟
 
 
ایک صاحب نے اپنا سمارٹ فون ایک کلب کے بیرے کے سامنے لہراتے ہوئے پوچھا۔ جہاز سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا لوگوں نے، فیس بُک پر ویڈیو ڈال دی کِسی نے۔ ذرا شکلیں دیکھو ان بڑوں کی۔

کیا کر دیا سر، کس نے، کہاں؟
یہ دیکھو پہلے رمیش کمار کو گالیاں دے کر جہاز سے نکالا۔
کِس کو سر دلیپ کمار کو؟ وُہ کراچی آیا ہوا ہے؟ ابے نہیں نواز لیگ کا ایم این اے ہے، جہاز لیٹ کروا دیا تھا اُس نے۔ 68 سال سے یہی کر رہے ہیں۔ لوگوں نے دکھا دیا، اب نہیں چلے گا۔

ہاں سر 68 سال سے تو یہی ہو رہا ہے۔
ابے اِدھر آؤ یہ دیکھو۔ یہ چلتا ہوا کون آ رہا ہے۔
سر یہ تو اپنے رحمان ملک صاحب لگتے ہیں، بالکل وہی ہے۔ اب دیکھو کیسے بھاگا، لوگوں کا غصہ دیکھ کر۔ دیکھو ریوائنڈ کرتا ہوں پھِر دیکھو۔ پتہ ہے اندر سے یہ سالے بڑے ڈرپوک ہوتے ہیں۔ ویسے اپنے آپ کو بڑا وی آئی پی سمجھتے ہیں۔ اندر سے ٹھس۔
  
 سر یہ رحمان ملک صاحب چل کہاں رہے ہیں اندر سُرنگ میں؟
جہاز نہیں دیکھا کبھی کراچی ایئرپورٹ پر؟ وہاں جہاز سُرنگ کے ساتھ آ کر لگتا ہے۔ پھِر مسافر سُرنگ میں سے گزر کر جہاز میں بیٹھتے ہیں۔ یہ آیا رحمان ملک پورے دو گھنٹے لیٹ، لوگ بھِنّا گئے۔ ایسی گالیاں دیں کہ بھاگ گیا۔ 68 سال سے لوٹ کر کھا رہے ہیں اِس ملک کو۔ لوگوں نے ایک منٹ میں اوقات یاد کرا دی۔
تو سر رحمان ملک کے پاس اپنا جہاز بھی نہیں ہے؟ ابے تم جیسے لوگوں کی وجہ سے 68 سال سے یہ ملک نہیں سُدھر سکا۔ جہاز میں ہم لوگ بیٹھتے ہیں ٹکٹ خرید کر۔ یہ ٹھہرے مُفتے۔ اور پھر جہاز بھی اِن کی مرضی کے بغیر نہیں اُڑ سکتا۔
یہ تو واقعی زیادتی ہے سر۔
 
ایسی ویسی؟ لیکن لوگوں نے بھی کمال کر دیا۔ ویڈیو بنا کر فیس بُک پر ڈال دی۔ اب تک دو لاکھ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ حیرت ہے تم پہلے آدمی ہو جس نے اب تک نہیں دیکھی۔ اِس ملک میں رہتے بھی ہو یا نہیں؟
سر اِدھر ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں تو اِتنا پتہ ہے کہ کلب کو 11 بجے بند کرنا ہے۔ صبح چھ بجے کھولنا ہے۔ بیچ میں بندہ سوئے یا جہازوں کے آنے جانے کی خبر رکھے۔ ویسے یہ فیس بک کیا ہوتی ہے؟

ابے یار تم جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ ملک 68 سال سے۔۔۔
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے ساتھ پاکستان کے کھاتے پیتے لوگوں کی گہری جذباتی وابستگی ہے۔ کبھی 40 سال پرانے اشتہاروں میں پی آئی اے کے میزبانوں کی ڈیزائنر وردیاں دیکھ کر ہاتھ ملتے ہیں تو کبھی اُن دنوں کا ذکر کر کے آبدیدہ ہوتے ہیں جب پی آئی اے کی بزنس کلاس میں شیمپین مِلا کرتی تھی۔
کبھی اِس ایئر لائن کو ایک فوجی ایئرمارشل نور خان نے بنایا تھا اور سیاست دانوں نے اِس میں اپنے حمایتیوں کی بھرتیاں کر کے تباہ کر دیا۔ کبھی دوبئی یا جدہ جانے والے اُن مزدوروں کو کوستے ہیں جنھیں نہ سیٹ بیلٹ باندھنے کی تمیز ہے، جو نہ امیگریشن فارم بھر سکتے ہیں۔ اور تو اور ایسا لگتا ہے اُنھوں نے کبھی زندگی میں باتھ روم بھی نہیں دیکھا۔
کہاں گئے وُہ دن جب مسافر اور فضائی میزبان سب کے سب خوش مزاج اور خوشبودار ہوا کرتے تھے اور اب آ گئے یہ سیاست دان جو ایک قومی اثاثے کو گھر کی سواری بنا کر رکھتے ہیں۔
خوشحال ماضی کو یاد کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ، بے عزتی کروانا رحمان ملک کے قبیلے کے لوگوں کے پیشے کا لازمی حصہ ہے (اگر رحمان ملک کا مذاق اُڑانے سے پاکستان کا کوئی مسئلہ حل ہو سکتا تو پاکستان اب تک سوئٹزرلینڈ بن چکا ہوتا)۔


لیکن سوچنا چاہیے کہ اِس قوم کی تقدیر کی فلائٹ جو 68 سال سے رن وے پر کھڑی ہے ، اُس کی وجہ واقعی ٹیکنیکل فالٹ ہے یا وُہ بھی کِسی وی آئی پی کی منتظر ہے؟

محمد حنیف

سویلین حکومتیں اور فوج......



۔ فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے بغیر اس ملک کا نظام کو ئی سویلین حکومت بہتر انداز سے نہیں چلا سکتی۔ لہذا نواز شریف کی حکومت کو فوج کے ساتھ کسی بھی وجہ سے طاقت کے کھیل میں پڑنے کے بجائے راولپنڈی کی طرف سے نکتہ نظر کی صورت میں اظہار شدہ خیالات کو اہم پالیسی معاملات پر سنجیدگی سے لینے کا انتظام کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اہم سلامتی اور دفاعی اداروں کے افکار کو تمام حکومتیں اپنی حتمی فیصلہ سازی کا اہم جز قرار دیتی ہیں یا سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے معروضی اور زمینی حقائق کے پیش نظر فوج کی دفاعی اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم رائے بنتی ہے۔

اس رائے کو نظر انداز کرنا بے وقوفی بھی ہے اور بہت سے سیاسی تنازعات کی جڑ بھی۔ آج کے حالات کے تناظر میں ہم چند ایک اور اقدامات بھی تجویز کر سکتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کے سامنے اس وقت سب سے اہم مسئلہ اس نظام کی غیر فعالیت ہے جس کے ذریعے آئینی اور قانونی پیرائے میں رہتے ہوئے فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے۔ چونکہ نواز شریف کی ترجیحات میں ’ذاتی قسم‘ کی میٹنگز ’رسمی اور سرکاری‘ قسم کی ملاقاتوں پر ہمیشہ حاوی رہی ہیں لہذا وہ ابھی بھی اداروں کے ذریعے نظام ریاست اور حکومت کی ذمے داریوں کو سنبھالنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ فوج کے ساتھ باقاعدہ رابطے کو انھوں نے ابھی بھی آرمی چیف یا کچھ عرصہ پہلے تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے ساتھ بند کمروں میں ہونی والی ملاقاتوں تک محدود کیے رکھا ہے۔

ان ملاقاتوں میں کتنی بات ہوتی ہو گی؟ کیسے فیصلے ہوتے ہوں گے؟ کتنا بحث مباحثہ ہوتا ہو گا؟ اس کا نہ تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ملے گا۔ مگر ہم محتاط اندازے کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں ایسی نشستوں میں ’سننے‘ اور ’سنانے‘ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہو۔ اور پھر کچھ عرصے سے فوجی سربراہ اور وزیر اعظم (بشمول پچھلی حکومت کے سربراہان کے) ہمیشہ ایک بحرانی صورت میں ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ عام حالات میں وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز دو ایسے جزیروں کے طور پر نظر آتے ہیں جو اپنے پسند کے پانیوں میں تیرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہوں یا اس کیفیت سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہوں۔ نتیجتاً فوج اور سویلین حکومتیں فائر بریگیڈ کے وہ انجن بن گئی ہیں جو صرف خطر ے کی گھنٹی پر ہی آگ بجھا نے کے لیے ایک سمت کا رخ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ اپنے اپنے خانوں میں کھڑے وقت گزارتے ہیں۔ اس سے نہ تو باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی طویل المدت فیصلے کرنے کے لیے سازگار ماحول بن پاتا ہے۔ اجنبیت قائم رہتی ہے۔ خوف اور خدشات زائل نہیں ہوتے۔ رائی کا پہاڑ بننے میں وقت نہیں لگتا۔ امریکا جیسے ملک میں بھی جہاں صدر انتہائی با اختیار ہے دفاعی، عسکری اور سی آئی اے کے سربراہان دن میں کم از کم ایک مرتبہ بسا اوقات ایک سے کئی زائد مرتبہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہر روز صبح تمام اداروں کے ذرایع ابلاغ، تشہیر کے ادارے ایک ٹیلی فون کانفرنس کے ذریعے دن میں صحافیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے ممکنہ سوالات پر مربوط جوابات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

یہ تک طے کر لیا جاتا ہے کہ کس قسم کے سوال کو کس ادارے نے بہتر یا ردعمل کے لیے دوسروں کے حوالے کر دینا ہے۔ بحران میں یا کسی اہم واقعہ کے ہونے پر صدر اور تمام اداروں کے سربراہان یا سرکردہ نمایندے ایک خاص کمرے میں اکٹھا ہو کر مختلف پہلووں پر رائے کا اظہار کرتے اور اپنی طرف سے اپنے ادارے کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس کمرے میں فیصلہ صرف صدر کرتا ہے مگر بسا اوقات اس کا فیصلہ محض ان مشوروں کی ایک نئی شکل ہوتی ہے جو موثر انداز میں اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ سی آئی اے اور پینٹاگون یا دفاع کے محکمے یا دفتر خارجہ کی طر ف سے پیش کی ہوئی تجاویز میں رتی برابر رد و بدل کیے بغیر جوں کا توں بیان کر دیتا ہے۔
مگر کبھی بھی ایسا کرنے میں امریکی صدر خود کو کٹھ پتلی نہیں سمجھتا۔ اگر اس کے گرد موجود گھاگ اور زیرک نمایندگان اس کو اس کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور بھی کر دیں تو بھی وہ اس اتفاق رائے کی کڑوی گولی کو ہضم کر کے پالیسی کو مکمل طور پر اپنا لیتا ہے۔ وہ باہر نکل کر یہ تصور نہیں دیتا کہ جیسے وہ مجبور اور لاچار ہے۔ اور اس کے مینڈیٹ پر کسی نے شب خون مار دیا ہے۔

ہمارے پاس اس قسم کا رابطہ مفقود ہے۔ حکومتیں یا اس منظم نظام کو استعمال کرنے سے یکسر گھبراتی ہیں یا پھر اس کو اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ باہمی ناچاقی پیدا کرنے کے علاوہ فوج کے ساتھ شفافیت کے ساتھ سنگین حالات کے علاوہ باہم رابطے کے فقدان کا ایک بڑا نقصان ان طاقتوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہے جو ایسے فاصلوں کو بڑھا کر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں۔ مگر پچھلے سالوں میں کئی مرتبہ حامد کرزئی کے الزامات نے فوج اور سویلین حکومتوں کے تعلقات کو محض اس وجہ سے بگاڑ دیا کہ نہ وزیر اعظم اور نہ ہی عسکری قیادت افغانستان کے اس لیڈر سے نپٹنے کے لیے آپس میں متفقہ رائے بنا پائی تھی۔
لہذا جب ترکی میں ایک ملاقات میں کرزئی نے اپنا نام نہاد مقدمہ کھولا تو وزیر اعظم نواز شریف جواب دینے کے بجائے عسکری نمایندگان کی طرف دیکھنے لگے جس پر ’ان کو‘ جواب دینا پڑا۔ اس طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایک میٹنگ میں وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے حوالے سے الزامات لگائے تو تیاری نہ ہونے کے باعث اس کو جواب اس وقت کے آرمی سربراہ نے انتہائی سخت الفاظ میں دیا۔ بعد میں جان کیری نے ایک نجی میٹنگ میں اپنے ان الزامات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی۔ امریکی وزیر خارجہ کے اظہار ندامت کو وزیر اعظم تک پہنچایا تو گیا مگر یہ انفرادی میٹنگ میں کیا گیا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر آج کوئی اس معاملے پر سرکاری ریکارڈ یا خفیہ فائلوں کو کھنگال کر مزید تفصیلات تلاش کرے تو اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے یہاں اداروں کے ذریعے کام ہونے یا کرنے کی روایت نہیں۔ سب سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہوتا ہے۔ فوج کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے نواز شریف حکومت کو فی الفور قومی سلامتی اور دفاعی معاملات سے متعلق ان تمام قواعد، ضوابط، اداروں اور کمیٹیوں کو فعال کرنا ہو گا جہاں پر کھل کر بحث مباحثہ ہو پائے۔ فوج کو فیصلہ سازی کے نظام سے باہر رکھ کر، یا رابطوں کو ذاتی مراسم کی شکل میں پیش کرنے کی روایت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔

اگر اس حکومت یا مستقبل کی کسی سویلین حکومت نے یہ نہ کیا تو فوج کے ساتھ ٹکراؤ کے امکانات اپنے بدترین نتائج کے ساتھ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ مگر کیا سب کچھ کرنے سے فوج اور سیاسی و منتخب حکومتوں کے معاملات درست ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ہاتھ ملانے کے لیے بھی دونوں طرف سے اقدامات کرنے ہوں گے

طلعت حسین

 

زبان کا سرکش گھوڑا.......



الفاظ کا موزوں اور بروقت استعمال ہی انسان کی پہچان ہے ورنہ کھاتے پیتے اور جیتے تو حیوان بھی ہیں ۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو کبھی امیدوں کے چراغ بن کر راستہ دکھاتے اور ٹوٹے دلوں کی ڈھارس بندھاتے ہیں لیکن الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو یہی الفاظ اندیشوں اور خوف کی زنجیریں بن کر پیروں سے چمٹ جاتے ہیں۔ الفاظ کبھی نشتر بن کر دل میں اُتر جاتے ہیں اور کبھی دل میں اُتر کر گھائو مٹاتے ہیں۔ الفاظ ہی ہیں جو رُلاتے ہیں ،ہنساتے ہیں،نیک نامی کا باعث بن جاتے ہیں یا پھر رسوا کر جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو قانون کی گرفت بہت ڈھیلی ہے اور یہ تصور نہیں کہ الفاظ کی پاداش میں کسی شخص کو سزا ہو سکے مگر متمدن معاشروں میں قانون صرف اعمال پر ہی سرکوبی نہیں کرتا بلکہ الفاظ پر بھی حرکت میں آتا ہے۔ چند برس قبل ایک امریکی موسیقار کو نازیبا الفاظ کے استعمال پر 4 لاکھ 30 ہزار ڈالر ہر جانہ ادا کرنا پڑا۔ خاتون موسیقار کورٹنی لو نے ڈیزائنر لیموران سے متعلق اہانت آمیز الفاط استعمال کیئے تو اس نے ہتک عزت کا دعویٰ کردیا۔ جن معاشروں میں قانون کی عملداری ہے وہاں تولنے کے بعد بولنے کا تصور ہے کیونکہ الفاظ گلے کی پھانس بن جاتے ہیں۔ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی سوچ سے متعلق محتاط رہیں کیونکہ آپ کی سوچ الفاظ کا روپ دھار کر سامنے آتی ہے۔

الفاظ کی ادائیگی سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ آپ کے الفاظ آپ کے اعمال کی صورت گری کرتے ہیں۔ اعمال احتیاط کے متقاضی ہیں کیونکہ یہ عادات میں بدل جاتے ہیں، عادات سے اغماض نہ برتیں کیونکہ یہ کردار کی عمارت کا بنیادی ستون ہوا کرتی ہیں اور کردار کی اہمیت اس لیئے مسلمہ ہے کہ اس پر آپ کے مقدر اور قسمت کا انحصار ہوتا ہے۔ یوں تو کسی شخص کی زندگی میں الفاظ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر خارزار سیاست میں قدم رکھنے والوں کو پہلا سبق ہی یہی دیا جاتا ہے کہ زبان کے سرکش گھوڑے کی لگام ڈھیلی نہ ہونے دیں کیونکہ چرچل کے بقول سیاست کا عمل بھی قریباً جنگ جیسا ولولہ انگیز اور خطرناک ہے۔ جنگ میں آپ صرف ایک بار مرتے ہیں اور رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں آپ کو بار بار موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح جنگ میں گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دینے والا سوار عبرتناک شکست کے قریب تر ہو جاتا ہے اسی طرح سیاست کے میدان میں وہ شہسوار منہ کے بل گرتا ہے جو زبان کے گھوڑے کی طنابیں ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔ سیاستدانوں کا وصف یہ ہے کہ وہ کم بولتے ہیں ،جہاں ایک لفظ سے کام چلتا ہو، وہاں جملہ ضائع نہیں کرتے اور جہاں ایک فقرے سے ضرورت پوری ہو جائے وہاں تقریر جھاڑنے کی حماقت نہیں کرتے۔ موجودہ دور میں تو کم گوئی اور سوچ سمجھ کر بولنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرے بیان کو تروڑ مروڑ کا شائع کیا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، ٹی وی چینلز فوراً کلپنگ نکال کر دکھا دیتے ہیں کہ آپ نے چند برس قبل کیا کہا تھا۔

انسان خود تو مرجاتا ہے لیکن اس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں مثلاًذوالفقار علی بھٹو جن کا شمار صف اول کے سیاستدانوں میں ہوتا ہے ،اگرچہ وہ اپنے الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے مگر ان کے چند جملے آج بھی ان کا تعاقب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے پر دھمکی دی کہ جس نے اس میں شرکت کی ،میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اِدھر ہم، اُدھر تم کا جملہ لاکھ وضاحتوں کے باوجود پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جذبات کی روانی میں انہوں نے کہا، اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو ہمالیہ خون کے آنسو روئے گا، مگر یہ جملہ طنز و استہزاء کا استعارہ بن گیا۔ ضیاء الحق نے کسی صحافی کے سوال پر جھنجھلا کر کہہ دیا، آئین ہے کیا شے، چند صفحات کی ایک دستاویز جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ ضیاء الحق خود تو دنیا سے رخصت ہو گیا مگر اس کا یہ جملہ آج بھی سوہان روح بنا ہوا ہے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کی، اسے چارٹر آف ڈیموکریسی کی لحد میں اتار دیا گیا مگر یہ گڑا مردہ پھر بھی باہر نکل کر واویلا کرنے سے باز نہیں آتا۔ پرویز مشرف کے دور میں بلوچوں سے بہت ناانصافیاں ہوئیں ،کئی فوجی آپریشن ہوئے لیکن اس کا ایک جملہ بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ مہلک ثابت ہوا کہ یہ ستر کی دہائی نہیں کہ یہ پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے، ہم انہیں وہاں سے ماریں گے جہاں سے انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔

آصف زرداری کا شمار پاکستان کے کایاں ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زبان بندی کو اپنی طاقت بنایا اور لب کشائی کے معاملے میں بہت محتاط رہے۔ جب سیاسی مخالفین کی کڑوی کسیلی باتوں کا حوالہ دیا جاتا تو وہ کوئی جواب دینے کے بجائے بات کو ہنس کر ٹال دیتے۔ لیکن ججوں کی بحالی سے متعلق ان کے منہ سے ایک جملہ نکل گیا کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور یہ جملہ ان کے ناقدین کا کام آسان کرگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جوش خطابت میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور پھر ان کے بڑے بھائی وضاحتیں دیتے رہ جاتے ہیں۔ یوں تو ان کے بیشمار جملے بدنامی کا باعث بنے لیکن جو زبان انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں منتخب صدر کے حوالے سے استعمال کی ،وہ آج بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ مثلاًوہ ان پر علی بابا چالیس چور کی پھبتی کستے رہے۔ انہوں نے کہا تھا،اگر میں نے آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ بعض اوقات سیاستدانوں سے سہواً ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں کہا تھا، یہ شیدا ٹلی، اس کو تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں ۔ لیکن آج وہی شیخ رشید ان کے سب بڑے مشیر ہیں۔ اس طرح کے معترضہ جملے اور ناپسندیدہ بیانات کم و بیش ہر سیاستدان سے منسوب ہیں اور سب کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے لیکن عمران خان گزشتہ ایک ماہ سے جس فراوانی سے اپنی زبان کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں ،اسے سیاسی نادانی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ اوئے نواز شریف، اوئے افتخار چوہدری تو ان کا طرز تخاطب تھا ہی مگر کبھی وہ آئی جی اسلام آباد کو بندے کا پتر بننے کی نصیحت کرتے ہوئے دھمکی دیتے ہیں کہ میں تمہیں جیل میں ڈال دوں گا۔ ان کے کئی بیانات تو ایسے ہیں کہ نقل بھی نہیں کیئے جا سکتے۔ جس پارٹی کا قائد پنجابی فلموں کے غنڈوں جیسے لہجے میں بات کرتا ہو ،اس کے کارکن مخالفین کو غلیظ گالیاں نہ دیں تو اور کیا کریں۔

کاش ! وہ اس ایک مہینے میں شاہ محمود قریشی سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ کاش  کسی پڑھے لکھے شخص نے چرچل کی بات یاد دلائی ہوتی کہ نازیبا الفاظ نگل لینے سے آج تک کسی کا معدہ خراب نہیں ہوا۔ کاش ! وہ یہ سمجھ سکتے کہ زبان کسی تیز دھار آلہ کی مثل ہے،ماہر سرجن کے پاس ہو تو نشتر اور اگراناڑی کے پاس ہو تو خنجر۔ کاش وہ کبھی فرصت کے لمحات میں غور کریں کہ وہ امیر ہیں یا غریب؟ کیونکہ خود احتسابی کا طریقہ یہ ہے کہ ہراچھے لفظ پر آپ کو دس روپے ملیں اور برے لفظ پر پانچ روپے واپس لے لیئے جائیں تو جمع تفریق کے بعد کیا پوزیشن ہو گی۔ ان کے منہ کے بل گرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے زبان کے سرکش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا تھا۔

محمد بلال غوری
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 
 

باغیوں کی ضرورت ہے.....



پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے وزیر اعظم نواز شریف کو خبردار کیا، کہ انہیں شک ہے کہ جیسے ہی بحران ختم ہوگا، ان کے وزراء واپس خودپسند اور متکبر ہوجائیں گے۔

میں بھی گیلری میں بیٹھا ہوا ان کے خیالات سن رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، کہ حکمران جماعت قومی اسمبلی میں ایک فیصلہ کن اکثریت رکھنے کے باوجود اس بحران میں کیوں آ پھنسی ہے۔ مجھے جواب تب ملا، جب میں نے سیشن کے اختتام پر دیکھا، کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی اعتزاز احسن کو مبارکباد پیش کر رہے تھے، کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ان کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔

یہ لاتعلقی کا وہ مظاہرہ ہے، جو نواز شریف اپنے ممبران سے برتتے ہیں، سوائے ان چند کے، جن کے ساتھ ان کے یا تو خاندانی تعلقات ہیں، یا ان کی ذاتی ترجیحات میں شامل ہیں۔

حالیہ سیاسی بحران جلد یا بدیر حل ہو ہی جائے گا۔ لیکن جو لوگ اقتدار میں موجود ہیں، ان کا رویہ دیر کے بجائے جلد ہی ایک اور بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان میں گورننس کے اسٹائل کو سیاسی اور انتظامی طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری جیسے پارلیمینٹیرین اور مظاہرین سیاسی سائیڈ کو درست کر سکتے ہیں، لیکن میں حیرت میں مبتلا ہوں، کہ آخر انتظامی امور کو کون درست کرے گا۔

شریف برادران کے شاہانہ رویے نے زیادہ تر بیوروکریسی کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اور اس کا اثر ہم پورے ملک میں محسوس کر سکتے ہیں، کیونکہ پنجاب اور مرکز کی حکومت ہی پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ایسی اجنبیت پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کے خواہشمند غنڈوں کے سامنے چھوٹی لگ سکتی ہے، لیکن یہ ایک بہتر گورننس والے پاکستان کے کاز کو زیادہ نقصان پہنچائے گی، کیوںکہ اس کی وجہ سے سسٹم میں خامیاں جنم لیتی ہیں۔

سول سروس میں انتظامی تبدیلیوں کی بات ایک اسی سالہ سابق سول سرونٹ، اور رائیونڈ میں موجود کچھ لوگوں کو نہیں کرنی چاہیے۔ مشیر ضرور ہونے چاہیں، پر ایسے، جو تمام نکات پر گہری سوچ رکھتے ہوں، اور کسی یا کچھ افراد کی طرفداری نا کرتے ہوں۔ ورنہ باقی کی بیوروکریسی اجنبیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

سیکریٹیریٹ کے گروپ افسر سے پوچھیں، گورنمنٹ سروس میں موجود استاد، ڈاکٹر، اور انجینیئر سے پوچھیں کہ آیا وہ سول سروس کے معاملات سے خوش ہے۔ رواں سال کے آغاز میں پنجاب پولیس سروس میں تقریباً بغاوت ہو چکی تھی، کیوںکہ اینٹی ٹیررازم اسکواڈ آئی جی پولیس کے بجائے صوبائی وزارت داخلہ کے ماتحت بنایا گیا تھا۔ 18 مارچ 2011 کو 76 پی سی ایس افسران کو صرف اس لیے گرفتار کر کے ان کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر طرفداری پر مبنی تقرریوں اور ترقیوں کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تھا۔

جب یہی حکومت مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کیس درج کرا سکتی ہے، تو پھر اس کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ماڈل ٹاؤن واقعے کی ایف آئی آر درج نا کرانے پر مقدمہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ پنجاب پولیس کی جانب سے مطالبوں کے لیے مظاہرہ کرتے ڈاکٹروں پر تشدد کی تصاویر بھی ابھی تازہ ہیں۔

پنجاب میں ایک جونیئر افسر کو ایک سینئر پوزیشن پر تعینات کرنا معمول کی بات ہے، کیونکہ ایک ایسا شخص جو کسی کی "مہربانی" کی وجہ سے اپنی قابلیت سے ہٹ کر کسی پوسٹ پر موجود ہے، وہ احکامات کی تعمیل بہتر طور پر بجا لا سکتا ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں، کہ پنجاب کے ڈی پی او اور ڈی سی او ہمہ وقت احکامات کے لیے چیف منسٹر ہاؤس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

صاف الفاظ میں کہیں تو یہ ایک کھلا راز ہے، کہ موجودہ حکومت ان انتہائی قابل سول سرونٹس کو بھی صرف اس لیے ناپسند کرتی ہے، کیونکہ وہ درباریوں کی طرح نیازمندی نہیں دکھاتے۔

وزیر اعظم نواز شریف کا اپنے مشیروں کے مشورے سننا ضروری نہیں کہ اچھی بات ہو، کیوںکہ ان کا مشیروں کا انتخاب بھی بہت کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں ہے۔ سول سروس کے معاملات کو سیاسی وفاداریاں رکھنے والے مشیروں کی مدد سے طے نہیں کرنا چاہیے، کیوںکہ ان کی رائے صرف سیاسی رجحانات کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور فوکس ادارہ سازی سے ہٹ جاتا ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ڈسٹرکٹ مینیجمینٹ گروپ (ن)، یا پولیس سروس آف پاکستان (ن) بنانے کی کوششیں نا رکیں، تو پاکستان ایک بحران سے دوسرے کے درمیان جھولتا رہے گا۔ 
ایک گروپ کے طور پر سول سرونٹس کو سیاسی طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ لیکن اسی وقت ریاست سے ان کی وابستگی بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت سول سرونٹس کو حکومتی معاملات میں مالکیت کا احساس (sense of ownership) دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔

آخر میں، میں وزیر اعظم نواز شریف سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جب جاوید ہاشمی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، تو آپ نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ مخصوص اصول کے لیے کھڑے ہوئے، یا اس لیے، کہ وہ اس اصول کے لیے کھڑے ہوئے جو آپ کے لیے فائدہ مند تھا۔

اس ملک کو جاوید ہاشمی جیسے مزید باغیوں کی ضرورت ہے، نا صرف سیاست میں، بلکہ بیوروکریسی میں بھی۔

سید سعادت

Imran Khan and Tahirul Qadri Long March and Dharna


بات کرنی مجھے مشکل ،کبھی ایسی تونہ ...تھی


مسلح افواج اور پاکستان کی سیاست......


جمہوریت اور عوامی احتجاج میں بلاوجہ ملک کی مسلح افواج کو فریق بنایا جارہا ہے جبکہ وہ اندرون ملک جاری دہشت گردی سے نپٹ رہی ہے، ساتھ ہی کنٹرول لائن‘ سیالکوٹ کی رواں سرحد پار بھارتی افواج کی شدید گولہ باری کا بھی سدباب کررہی ہے۔ ایسے موقع پراس سے بھرپور تعاون کے بجائے اسے حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی جانب سے الزام تراشی‘ اتہام اور بہتان کا ہدف بنایا جارہا ہے جبکہ سرحد پار بھارت کی جنتا اپنی افواج کی حوصلہ افزائی میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتی۔ لوک گیتوں، کہانیوں اور فلموں میں دشمن یعنی پاکستان پر بھارتی سینا کی برتری کے فرضی کارناموں کے چرچے کیے جاتے ہیں۔

 بھارت تو جمہوری ملک ہے اور وہاں کثیر الجماعتی نظام رائج ہے، ان میں سے کوئی پارٹی ایسی نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ فوج اُس کے ساتھ یا اُس کے خلاف ہے۔ لیکن پاکستان ہی واحد ریاست ہے جس کے اکثر سیاستدان حصولِ اقتدار کے لیے عسکری قیادت کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور برسراقتدار آنے کے بعد اس کی کردارکشی کرنے لگتے ہیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی رہائی کے لیے Peter Galbraith اور Kon Cliburn نے جنرل ضیاء الحق پر کتنا دبائو ڈالاتھا اوران کی وطن واپسی میں امریکہ کا کتنا کردار تھا، لیکن ان کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کے مخالف نوازشریف نے جو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، ان سے محاذ آرائی شروع کردی، حتیٰ کہ ان کے نامزد کردہ پنجاب کے چیف سیکرٹری احمد صادق کو اپنے عہدے کی ذمہ داریاں نہیں سنبھالنے دیں اور پنجاب پولیس کو وفاق کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے تصادم کی شہ دی۔ یہی نہیں بلکہ موصوف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پنجاب کے بینک‘ اس کی ریلوے اور ہر شعبے کو وفاق سے آزاد کردیں گے۔ کیا یہ سب ویسی ہی علیحدگی پسندی کی باتیں نہیں تھیں جیسی مجیب الرحمن کیا کرتے تھے اور جس کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا؟ سنتے ہیں کہ اب پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے جس کا ثبوت 2006ء میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کا میثاق جمہوریت ہے جسے اول الذکر کے شوہر نامدار نے محض ’’سیاسی بیان‘‘ کہہ کر مسترد کردیا۔

 آمریت کے خلاف بطلِ حریت کی داعی پیپلزپارٹی دوسری بار بھی فوجی آمر پرویزمشرف سے این آر او جیسے شرمناک معاہدے کے ذریعے برسراقتدار آئی۔ یہ کیسی جمہوریت تھی جو امریکی استعمار اور اس کے پٹھو فوجی آمر پرویز مشرف کی بخشش کے نتیجے میں بحال ہوئی! جدوجہد تو وہ ہے جو ایران کے عوام نے شہنشاہ سے کی تھی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ کہہ کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جمہوریت کی قلعی کھول دی کہ ان دونوں پارٹیوں میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ پرویزمشرف کے عہدہ صدارت سے دستبردار ہونے کے بعد اسے باعزت طور پر رخصت کیا جائے گا جس طرح بے نظیر بھٹو امریکہ کی چھتر چھائوں میں دوبار پاکستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئیں، اسی طرح نوازشریف سعودی عرب کی سرپرستی میں مدت سے پہلے جلاوطنی ترک کرکے وطن واپس آئے۔

کیا یہ کسی جمہوری قیادت کو زیب دیتا ہے کہ وہ غیر ممالک کی سرپرستی میں ریاست کی باگ ڈور سنبھالے؟کیا یہ کسی عوامی نمائندے کو زیب دیتا ہے کہ حکومت کا کوئی اہلکار مبینہ طور پر دوسرے ملک کو یہ پیغام بھیجے کہ اگر اسے ’’فوجی بغاوت‘‘ کا سامنا ہو تو مذکورہ بیرونی طاقت مداخلت کرکے اسے ناکام بنادے؟ وہ کیسی قیادت ہے جسے اپنی مسلح افواج پر اعتماد نہیں ہے، بلکہ اس کے بجائے غیر ملکی فوج پر انحصار کرے؟

آج کل پارلیمان کے تقدس اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کا بڑا ذکر سننے میں آتا ہے۔ پارلیمان اُس وقت قابلِ احترام ہوتی ہے جب اسے عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہوں، اور انتخابی امیدوار نہ تو نادہندہ ہوں‘ نہ کسی جرم میں ماخوذ، اور نہ ہی بے ضابطگیوں میں ملوث ہوں۔ لیکن اگر انتظامیہ کی جانب سے وسیع پیمانے پر ووٹوں کی چوری ہو اور جعلی ووٹوں سے منتخب ہونے والے امیدوار پارلیمان پر قابض ہوجائیں تو یہ ادارہ اپنی نمائندہ حیثیت اور وقار کھو دیتا ہے۔ اور عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ نادرا یا کسی غیر جانب دار ادارے سے ووٹوں کی تصدیق (Auditing) کروائیں، اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کے مطالبے پر عملدرآمد کرے۔ یہاں تو یہ عالم تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما نے چار نشستوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی چھان بین کا مطالبہ کیا تو موصوف نے اسے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا، جبکہ ان کے مصاحبین اور حوارین نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس پر تکرار بڑھتی گئی اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق تحریک انصاف نے وہی کچھ کیا جو 1977ء میں مسلم لیگ سمیت سات جماعتوں نے پی این اے کے نام سے ملک گیر سطح پر کیا۔

یوں بھی یہ پارلیمان اپنے کردار سے عوام کی نمائندہ نہیں معلوم ہوتی۔ اس نے متفقہ قرارداد میں فیصلہ کیا تھا کہ اگر امریکہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بند نہیں کرتا تو حکومت کو امریکہ کی جانب اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ لیکن ڈرون حملے برابر ہوتے رہے اور پارلیمان کا امریکہ کی جانب پاکستان کی پالیسی پر نظرثانی کے لیے دبائو ڈالنا تو کجا، وہ خاموش بیٹھی رہی۔ البتہ تحریک انصاف نے قزاقانہ حملے رکوانے کے لیے لمبی مارچ کی اور طورخم کے راستے افغانستان پر قابض امریکی فوج کی رسد کی ترسیل کی مزاحمت کی، لیکن پارلیمان کی کسی پارٹی نے اس میں شرکت نہیں کی۔

ایسی پارلیمان کا کیسے احترام کیا جائے جو تحفظِ پاکستان (Protection of Pakistan) جیسا کالا قانون منظور کرکے دستور میں موجود شہریوں کے بنیادی حقوق کی نفی کررہی ہو؟

جہاں تک بعض ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو وہ مسلح افواج پر اس لیے معترض ہیںکہ وہ پُرامن مظاہرین کے خلاف طاقت نہیں استعمال کرتی‘ اور یہی حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنمائوں کو شکایت ہے کہ فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی مخالفت کیوں کی! یہ وہی عناصر تو ہیں جنہوں نے 1971ء میں فوجی قیادت پر دبائو ڈال کر ڈھاکا میں مظاہرین پر گولیاں چلوائیں جس کے بعد سارے بنگال میں آگ لگ گئی۔ اب چونکہ فوج ان کے جھانسے میں نہیں آئی تو انہوں نے اسے بلیک میل کرنا شروع کردیا ہے، لیکن عسکری قیادت ان کے فریب میں نہیں آئے گی اور بقول غالب 

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

عسکری قیادت اگر غیر جانب دار رہے تب بھی مورد الزام ہے کہ غیر جانب دار کیوں ہے؟ آخر فوج کسی غیر مقبول حکومت کو عوام پر کیوں مسلط کرے؟ وہ سیاسی اقتدار کی رسّا کشی میں کیوں فریق بنے؟ اور جب کسی ملک کا وزیراعظم سیاسی تنازعات میں فوج یا عدلیہ کو مداخلت کی دعوت دیتا ہے تو اس کا یہ رویہ غیر جمہوری ہے، جبکہ فوج غیر جانب دار رہ کر ہی ملک کو خانہ جنگی سے بچا سکتی ہے۔ اس سارے تنازعے میں فوج کا کردار بڑا غیر جانب دارانہ، آئینی، منصفانہ اور غیر سیاسی رہا ہے۔ اس پر اتنے رکیک حملے کیے جارہے ہیں لیکن وہ اپنے نظم و ضبط کے باعث میڈیا میں اپنی صفائی نہیں پیش کرسکتی۔ تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے سیاست میں گھسیٹا جائے؟

قارئین ایک بات اور ملاحظہ فرمائیں۔ امریکی دفترخارجہ نے ہدایت کی ہے کہ نوازشریف کی حکومت کو برقرار رہنا چاہیے جبکہ ہندوستان کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی فوج اور مذہبی جماعتیں نواز حکومت کی اس لیے مخالفت کررہی ہیں کہ وہ بھارت سے تعلقات میں بہتری کی خواہاں ہے۔ آخر ان دونوں طاقتوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کیا ضرورت ہے؟
امریکی دفتر خارجہ نے تو یکم ستمبر کوتیسری بار پاکستان کی سیاسی جماعتوں کوانتباہ کیا ہے کہ وہ تشدد اور آئین شکنی سے گریز کریں۔ (ڈان 2 ستمبر 2014ئ)

پہلے تو امریکہ خود اپنے ملک میں پولیس کو ہدایت دے کہ وہ سیاہ فام افراد کو تاک تاک کر قتل کرنے سے باز آجائیں، ساتھ ہی اپنی عدلیہ اور ارکانِ جیوری کو تاکید کرے کہ وہ سیاہ فام امریکی شہریوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ ترک کردیں اور انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ امریکی انتظامیہ کو آتشیں اسلحہ کی خرید و فروخت پر سخت پابندی عائد کرنی چاہیے کیونکہ ہر کس و ناکس اسلحہ کا بے دریغ استعمال کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہر سال تیس ہزار امریکی شہری لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ آخر یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں آئے دن اسکول کے بچے‘ اساتذہ اور بچوں کے والدین بندوق بردار نوجوانوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں! آخر امریکہ میں اس دائمی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوجی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی جبکہ پولیس قتل و غارت گری کو روکنے میں ناکام ہوگئی ہے؟

آخر میں مَیں اُن سیاستدانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادر ی کو افواجِ پاکستان کا آلۂ کار کہتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے 1990ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے یونس حبیب کے بقول ایجنسی سے وافر رقوم لی تھیں۔ وہ کس منہ سے ان افراد پر الزامات لگاتے ہیں جنہوں نے سرکاری ذرائع کے خفیہ فنڈ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا؟
یہ بعض سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کا تکیہ کلام بن گیا ہے کہ ملک کی 
    تاریخ میں فوج نے 33 سال حکومت کی ہے، لہٰذا اسے اقتدار کا چسکا لگ گیا ہے اور وہ زیادہ دیر کسی جمہوری حکومت کو ٹکنے نہیں دیتی۔ یہ آدھا سچ اور آدھا جھوٹ ہے، کیونکہ جب جب فوج نے غیر فوجی (جمہوری نہیں) حکومتوں کو معزول کرکے اقتدار سنبھالا ہے تو اُس وقت سیاستدانوں نے اس سے تعاون کیا ہے۔ اور اگر ہر مارشل لا کے نفاذ پر سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے ردعمل کا جائزہ لیا جائے تو ان کی مبارک سلامت سے اخبارات کے کالم کے کالم سیاہ نظر آئیں گے، اور جب عسکری قیادت نے ملک کی کابینہ یا اسمبلی بنائی تو اس کے اراکین خاکی وردی والے نہیں بلکہ سویلین تھے۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کوئی جنرل یا کرنل تھے، جو فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر قدرتی وسائل اور بعد ازاں وزیر خارجہ بن گئے؟ کیا مشہور قانون دان منظور قادر کوئی فوجی افسر تھے؟ کیا ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان اور منعم خان گورنر مشرقی پاکستان فوجی عہدیدار تھے؟ اسی طرح جنرل یحییٰ خان کے دور میں 1970ء کا مثالی انتخاب کیا مارشل لا حکام نے نہیں کرایا؟ جس سے زیادہ منصفانہ اور شفاف انتخاب آج تک نہیں ہوسکا۔ جبکہ پی پی کی جمہوری حکومت میں 1977ء میں کرایا گیا انتخاب شرمناک حد تک ووٹوں کی چوری پر مبنی تھا۔ کیا یحییٰ خان کی حکومت میں نورالامین نائب صدر نہ تھے؟ اورکیا ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ میں پاکستان کے وفد کے سربراہ نہ تھے؟ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے یا کوئی فوجی جس نے سلامتی کونسل میں بنگلہ دیش کا بحران فرو کرانے کے لیے پولینڈ کا مصالحتی مسودۂ قرارداد اجلاس میں چاک کردیا تھا اور روس کے مندوب جیکب   کو زارِ ملک کہا تھا؟

کیا جنرل ضیاء الحق کو تحریک استقلال کے سربراہ نے خط نہیں لکھا تھا کہ وہ پی پی کی حکومت کا تختہ الٹ دیں؟ تحریک استقلال تو بھٹو مخالف متحدہ محاذ PNA کی اہم رکن تھی۔ کیا ضیاء الحق کی کابینہ میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما وزارتوں پر فائز نہیں تھے؟ اسی طرح نوازشریف کی مسلم لیگ کے ارکان ٹوٹ کر جنرل مشرف کے ساتھ نہیں جا ملے تھے؟ اورکیا قاف لیگ کے اہم رہنما نے ببانگِ دہل یہ نہیں کہا تھا کہ وہ باوردی جنرل مشرف کو دس بار صدر منتخب کرائیں گے؟ کیا جنرل مشرف کو ملک کی بعض سیاسی پارٹیوں کی بھرپور حمایت نہیں حاصل تھی؟ اُس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام یوسف اور ان کی کابینہ کے وزرا فوجی تھے یا سیاسی رہنما؟

اگر فوجی اور سویلین حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو فوجی حکومتوں کی کارکردگی سویلین حکومتوں سے کہیں بہتر تھی۔ ملک میں امن و امان کا دور دورہ تھا اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جاتی تھی… لیکن اب…؟

پروفیسر شمیم اختر

Pakistan Army role in Pakistan Politics

پاکستان کا سیاسی عدم استحکام اور جرنیلوں کا کھیل – - شاہنواز فاروقی......


پاکستان کی سیاست کی حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ قومی تاریخ کے آدھے حصے میں جرنیلوں نے براہِ راست حکومت کی ہے اور باقی عرصے میں وہ پردے کے پیچھے کھڑے ہوکر ڈوریاں ہلاتے رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ڈوریاں ہلانے کا کام کبھی غلام اسحق خان نے انجام دیا ہے، کبھی فاروق احمد خان لغاری نے۔ عام خیال یہ ہے کہ اِن دنوں یہ کام عمران خان اور طاہر القادری نے سنبھالا ہوا ہے۔ لیکن اس دعوے کی شہادت کیا ہے؟

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میاں نوازشریف نے گزشتہ سوا سال میں اس طرح حکومت کی ہے کہ لفظ ’’حکومت‘‘ منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ میاں صاحب کے پاس بھاری مینڈیٹ ہے اور بھاری مینڈیٹ میاں صاحب پر بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے، مگر اس بھاری مینڈیٹ نے میاں صاحب کو ذمے دار بنانے کے بجائے غیر ذمے دار بنادیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ اس طرح معاملات کرنے کی کوشش کی جیسے پاک بھارت تعلقات میاں صاحب کا گھریلو مسئلہ ہو۔ ان کے نزدیک پارلیمنٹ کی یہ قدروقیمت ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس طرح آتے ہیں جیسے نئی نویلی دلہن منہ دکھانے کے لیے حاضر ہو۔ انہوں نے اقتدار میں اپنے عزیزوں، رشتے داروں کو اتنا دخیل کرلیا ہے کہ ملک میں خاندانی حکومت کا تاثر گہرا ہوگیا ہے۔ لوگ شکایت کررہے ہیں کہ اگرچہ میاں صاحب پورے ملک کے وزیراعظم ہیں مگر ان کی توجہ پنجاب پر مرکوز ہے۔ میاں صاحب نے قرضوں سے قوم کی جان چھڑانے کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے ملک و قوم پر قرضوں کا نیا بوجھ لاد دیا ہے۔ کراچی اور بلوچستان کی بدامنی جوں کی توں ہے۔ میاں صاحب نے فوجی آپریشن کی پہلے مزاحمت کی اور پھر اس طرح ہتھیار ڈال دیے جیسے کرنے کا اصل کام فوجی آپریشن ہی تھا۔ انہوں نے عمران خان کے انتخابی دھاندلی سے متعلق اعتراضات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور قیمتی وقت ضائع کرتے چلے گئے۔

 لیکن اس کے باوجود میاں صاحب کی حکومت اور ملک کا جمہوری نظام اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کے خلاف سازش کی جائے اور ملک و قوم کو تماشا بنایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کے سیاسی عدم استحکام کی پشت پر جرنیلوں کا کھیل پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آگیا ہے۔ اس کھیل کی شہادتیں قومی اخبارات کے صفحات پر بکھری پڑی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق عمران خان کے آزادی اور طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کے دوران پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے تین چار ملاقاتیں کی ہیں۔ اگرچہ ملاقاتوں کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن ان ملاقاتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اس بحران میں آرمی چیف اور فوج ایک فریق بن کر ابھرے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو سیاسی معاملات میں جنرل راحیل سے کسی حکومتی اہلکار کی ملاقات کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مگر اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ اگر فوج حکومت سے بڑی قوت کے طور پر موجود نہ ہوتی تو شہبازشریف اور چودھری نثار آرمی چیف سے ملاقات نہ کرتے… اور اگر آرمی چیف غیر سیاسی ہوتے تو وہ خود حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ملاقات سے انکار کردیتے۔ اس سلسلے میں 20 اگست کے روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے جنرل راحیل کے ساتھ ملاقات میں شکایت کی ہے کہ ہم تو پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر یہ دونوں جماعتیں حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہیں۔ میاں نوازشریف کی بات غلط نہیں، مگر اُن کے بیان میں کم ازکم تین نکات ایسے ہیں جنہیں شرمناک کہا جاسکتا ہے۔ میاں صاحب کے بیان سے ایک بات تو یہ ظاہر ہے کہ وہ جنرل راحیل کو خود سے بالاتر تسلیم کررہے ہیں۔

 میاں صاحب کے بیان کا دوسرا شرمناک نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے جنرل راحیل سے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی شکایت اس طرح کی ہے جیسے یہ دونوں جنرل راحیل کی جماعتیں ہوں۔ میاں نوازشریف کے بیان کا تیسرا شرمناک نکتہ یہ ہے کہ ملک کے انتظامی سربراہ یا چیف ایگزیکٹو نے آرمی چیف کے سامنے خود کو غیر مؤثر تسلیم کرلیا اور گویا اس بات کی غیر اعلان شدہ خواہش کی کہ آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں تو کریں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ ہر اعتبار سے ایک شرمناک اعلان ہے اور اس اعلان میں بھاری مینڈیٹ بھاری بوٹوں کو چومتا نظرآرہا ہے۔ 20 اگست کے اخبارات میں وزیرداخلہ چودھری نثار کا بیان بھی شائع ہوا ہے، اس بیان میں چودھری نثار نے یہ کہنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ دھرنوں کے کھیل میں فوج شریک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کھیل کے پیچھے ’’کوئی اور‘‘ تو ہوسکتا ہے مگر فوج نہیں۔ لیکن چودھری نثار نے ’’کوئی اور‘‘ کا تشخص واضح نہیں کیا۔ یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر اس کھیل کی پشت پر فوج نہیں ہے تو چودھری نثار کو یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ لیکن یہ تماشا صرف میاں نوازشریف اور چودھری نثار کے بیانات تک محدود نہیں۔

فوج کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ریڈ زون میں موجود عمارتیں ریاست کی علامت ہیں اور پاک فوج ان کا دفاع کررہی ہے۔ فوج کے ترجمان نے دوسری بات یہ کہی کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مسئلے کے حل کے لیے معنی خیز مذاکرات کریں۔ یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ عمران خان اور طاہرالقاردی کے دھرنے ایک سیاسی معاملہ ہیں اور فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے، مگر اس کے باوجود پاک فوج کے ترجمان نے سیاسی معاملے میں مداخلت کی ہے۔ اس مداخلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ فوج کے ترجمان نے دھرنوں کے شرکا کو یاد دلایا ہے کہ فوج جن عمارتوں کی حفاظت کررہی ہے ان کی طرف آنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں فوج کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا اور اگر فوج کچھ نہیں کرے گی تو اس کا کچھ اور مطلب لیا جائے گا۔ فوج کے ترجمان نے اپنے بیان کے اس نکتے کے ذریعے یہ بھی بتادیا کہ ریاست کی علامتوں کی حفاظت صرف فوج کرسکتی ہے۔ لیکن میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے بیان کا زیادہ قابل اعتراض نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے غیر سیاسی ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تلقین کی ہے۔

 سوال یہ ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ انہیں یہ کہنے کا حق کہاں سے حاصل ہوا؟ ملک کا آئین تو انہیں ہرگز بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ویسے دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ جرنیلوں کے پاس طاقت ہے اور انہیں سیاسی عمل میں مداخلت کے لیے کسی آئینی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے متحارب سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تلقین کردی ہے تو وہ مذاکرات کی شرائط کا اعلان بھی کردیں۔ یہ مذاکرات اگر جی ایچ کیو میں ہوجائیں تو یقینا ان کی قدروقیمت بڑھ جائے گی۔ اتفاق سے 19 اگست کی رات کو جب پاک فوج کے ترجمان کا مذکورہ بیان جاری ہوا تو ایک ٹیلی ویژن چینل کے نمائندے نے طاہرالقادری کے ساتھ گفتگو میں اس بیان کا ذکر کیا۔ طاہرالقادری نے بیان کا پہلا نکتہ سنا تو کہا کہ یہ نکتہ Positiveہے۔ انہیں بیان کے دوسرے نکتے سے مطلع کیا گیا تو اسے بھی قادری صاحب نے Positive قرار دیا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر خیال آیا کہ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ لیکن ملک کے سیاسی عدم استحکام کی پشت پر جرنیلوں کے کھیل کا قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔20 اگست کے روزنامہ جنگ میں سابقہ فوجیوں کی تنظیم ایکس سروس مین کے لیگل فورم کی جانب سے ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ ناکام ہوچکی ہیں چنانچہ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔

 بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے ریڈ زون کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ ایکس سروس مین سوسائٹی سابقہ فوجیوں کی تنظیم ہے اور اسے خود کو ریٹائرڈ فوجیوں کے معاملات تک محدود رکھنا چاہیے، لیکن ایک سیاسی بحران میں سابق فوجیوں کی تنظیم کا قانونی حصہ بھی پوری قوت سے بولا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس نے صرف حکومت کو ناکام قرار نہیں دیا بلکہ پارلیمنٹ کو بھی ناکام باور کرایا ہے۔ عمران خان کے بعد سابقہ فوجیوں کی تنظیم کا لیگل فورم مڈٹرم انتخابات کے حق میں بلند ہونے والی دوسری آواز ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ عمران خان اور ایکس سروس مین سوسائٹی کا لیگل فورم ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جامعہ حفصہ نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو جنرل پرویزمشرف نے جامعہ میں سینکڑوں طلبہ و طالبات کو خون میں نہلا دیا، حالانکہ غازی برادران مذاکرات پر آمادہ تھے۔ وزیرستان میں ریاست کی رٹ چیلنج ہوئی تو طالبان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرایا گیا حالانکہ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔ لیکن لاہور اور اسلام آباد میں دس روز سے ریاست کی رٹ کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور فوج کا ترجمان کہہ رہا ہے کہ ہم اسلام آباد میں عمارتوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم یہ منظر بھی دیکھ رہی ہے کہ ملک کا وزیراعظم آرمی چیف سے شکایت کررہا ہے کہ ہم مذاکرات چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ معلوم نہیں آرمی چیف نے اس کے جواب میں وزیراعظم سے کیا کہا۔

 تاہم فوج کے ترجمان نے سیاسی قوتوں کو مذاکرات کا مشورہ دیا ہے۔ اس صورت حال کا لب لباب عیاں ہے، میاں نوازشریف کی حکومت جاتی ہے تو بھی فوج کی بالادستی یقینی ہے اور اگر ان کی حکومت نہیں جاتی تو بھی فوج کی بالادستی کو دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورت حال نے یقینی بنادیا ہے۔ البتہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو اس سے کوئی ’’اتاترک‘‘ برآمد ہوتا ہے یا نہیں؟

شاہنواز فاروقی

انقلاب سو روپے فی کلو.......


نورِ حق شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون

ڈومینین کا گورنر جنرلی نظام ہو کہ سول ملٹری ٹیکنو کریٹک ماڈل کہ سیدھی سیدھی فوجی آمریت کہ سول ملٹری مشترکہ ڈکٹیٹر شپ کہ فوجی جمہوریت کہ عوامی جمہوریت کہ گائڈڈ ڈیموکریسی کہ اسلامک ملٹری ماڈل کہ خالص اسلامی جمہوریت کہ اسلامی سوشلزم کہ سعودی نیم شرعی ماڈل کہ ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام۔ ہم ہر قسم کے نئے، پرانے، سیکنڈ ہینڈ، تجرباتی، تصوراتی، آدھے، پورے، کچے، پکے، پختہ، نیم پختہ، دم پخت، کنڈیشنڈ، ری کنڈیشنڈ، نظام ہائے زندگی و حکومت اور ہر قسم کا انقلاب ’’جہاں ہے جیسا ہے ’’ کی بنیاد پر مناسب قیمت پر خریدتے ہیں۔ سودا نقد و نقد اور جھٹ پٹ۔ صرف سنجیدہ فروخت کنندگان رجوع کریں۔ دلالوں اور کمیشن ایجنٹوں سے معذرت۔ جلنے والے کا منہ کالا۔
چھیاسٹھ برس سے آپ کے اعتماد و معیار کے ضامن۔
پاکستان اینڈ برادرز ، بالمقابل مزارِ قائد ، نیو ایم اے جناح روڈ ، کراچی پوسٹ کوڈ 014847
( نوٹ۔ ہماری کوئی برانچ نہیں )۔

کیا آپ میں سے کوئی اجمیر شریف گیا ہے۔ تو جوگئے ہیں وہ انھیں احوال بتا دیں جو نہیں گئے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے دربار میں دنیا کی دو سب سے بڑی دیگیں نصب ہیں۔ چھوٹی دیگ اکبر نے اور بڑی جہانگیر نے نذر کی تھی۔دونوں میں کل ملا کے ایک وقت میں سات ہزار دو سو کلو گرام کھانا پک سکتا ہے۔ ان دیگوں کی گہرائی اتنی ہے کہ خادم کو صفائی کے لیے سیڑھی لگا کے اترنا پڑتا ہے۔ ایسی دیگوں میں کھانا پکانے کے لیے بھی مخصوص مہارت والے کاریگر درکار ہیں۔ وہی طے کرتے ہیں کہ کون سی شے کس مقدار میں کب اور کیوں پڑے گی اور پکنے کے بعد ذائقہ کیسا ہوگا۔ یہ دیگیں لنگرِ عام کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں اور پیسے والے عقیدت مند یا وہ اشرافیہ جس کی کوئی من مراد پوری ہوجائے ہے اپنی خوشی سے ان میں کھانا پکوا کے تقسیم کرسکتے ہیں۔
اگر ہم اس ملک کو درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی دیگ کی طرح کی کوئی چیز سمجھ لیں تو یہاں کے معاملات اور ذائقہ سمجھنے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔اس دیگ میں بھی کسی بھی آنچ پر کچھ بھی پک سکتا ہے یا پکوایا جا سکتا ہے۔لنگر لینے والے سلامت۔لنگر بانٹنے والے بہت۔۔۔

ویسٹ منسٹر والے سیکنڈ ہینڈ جمہوریت بیچ گئے۔یہاں اس کی وہ ایسی تیسی ہوئی کہ مار مار کے بنیادی جمہوریت کے بونے میں تبدیل کردیا گیا۔جب جب اس بونے نے قد نکالنے کی کوشش کی تب تب چھتر پے چھتر پڑے۔
اسلام کہ جس کے معنی ہی مذہبِ امن ہے۔مگر یہ معنی بھی یہاں کسی سے ہضم نہ ہو پائے۔اس مفہوم کی قبا کا جوٹکڑا جس کے ہاتھ لگا لے اڑا بلکہ اسلام کو عفو ، درگزر ، وسیع القلبی ، عدم استحصالی ، صلہِ رحمی ، غریب نوازی ، علم کی کھوج ، عمل کی کسوٹی ، کل جہانوں کی رحمت ، نسلی ، سماجی ، اقتصادی پیغامِ مساوات سمجھنے اور اپنانے کے بجائے محض ایک تعزیراتی نظام جان کر ریاکاری و کاروباریت کے بے روح شو روم پر رکھ دیا گیا۔بلالی صلاصل توڑنے والے اس سیدھے سادے سے نظام کو بھانت بھانت کی ایسی وزنی وزنی تشریحی زنجیریں پہنا دی گئیں کہ ان کے بوجھ سے اپنا ہی اگلا قدم اٹھانا خود پے دوبھر ہوگیا۔

اب یہی کچھ ’’انقلاب’’ کے ساتھ بھی ہونے جا رہا ہے۔کسے پڑی کہ لمبے لمبے انقلابی بھاشن جھاڑنے سے پہلے کسی سے انقلاب کے معنی ہی پوچھ لے۔پوچھنے میں عزت گھٹتی ہے تو ڈکشنری میں ہی دیکھ لے۔اب تک دنیا میں انقلابِ مسیح سے انقلابِ ایران تک جتنے بھی سماج منقلب ہوئے ان ہی کا مطالعہ کرلے۔ مگر یہ سب کام محنت طلب ہیں اور آج کے سوشل میڈیائی ایئرکنڈیشنڈ انقلابی کو محنت سے بھلا کیا علاقہ ؟ چی گویرا کے بقول انقلاب کوئی سیب تو نہیں کہ خود ہی پک کے جھولی میں آن گرے گا ، اسے تو درخت سے توڑنا پڑتا ہے۔
کاسترو کے بقول انقلاب ماضی کے تہہ خانے میں بند مستقبل کو آزاد کرانے کا نام ہے۔لینن کے بقول انقلابی نظریے کے بغیر انقلابی تحریک ممکن ہی نہیں۔ماؤزے تنگ کے بقول انقلاب کسی ضیافت کے کھانے، فن ِ مضمون نگاری یا کشیدہ کاری کے ہنر میں طاق ہونے جیسی دلچسپ ، گداز ، نفیس شے نہیں بلکہ ایک طبقے کے ہاتھوں دوسرا طبقہ کلی طور پر الٹائے جانے کا نام ہے اور یہ کام سو فیصد شائستگی و نفاست کے ساتھ ہونا بہت مشکل ہے۔

پھر بھی اگر کسی روسو ، لینن ، ماؤ ، چی گویرا ، کاسترو یا خمینی کو انقلاب بطور غریب کی جورو ریڑھے پر بیٹھا بھیک مانگتے دیکھنے کی چاہ ہو ، اگر کسی کو اپنے کانوں سننا ہو کہ میں چاہوں تو چوبیس گھنٹے میں انقلاب آ سکتا ہے مگر میں نے اپنے کارکنوں کو ملکی مفاد میں بہت مشکل سے روکا ہوا ہے ، یا حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو چودہ اگست کو انقلاب آوے ہی آوے ، یا میں نے ناسازی ِ طبع کے سبب انقلاب دو ہفتے کے لیے ملتوی کردیا ہے ، یا پولیس ایسے ہی تشدد کرتی رہی تو پھر ہم انقلاب کیسے لائیں گے، یا اگر تمہیں انقلاب نہیں چاہیے تو میں واپس جارہا ہوں یا میں انقلاب لائے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا یا ہمیں ہمارا انقلاب شرافت سے دے دو ورنہ ہم چھین لیں گے، یا ضلعی انتظامیہ کے انقلابی اقدامات سے رمضان میں اشیا کے نرخ کنٹرول کرلیے گئے، یا گوادر کاشغر کاریڈور کی تکمیل سے ملک میں انقلاب آجائے گا، یا حکومت بجلی کا بحران حل کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کررہی ہے یا سیکریٹری ایجوکیشن کان کھل کے سن لیں اگر اگلے اڑتالیس گھنٹے میں ایڈہاک ٹیچرز کو مستقل نہ کیا گیا تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا اور اس کے نتیجے میں خدانخواستہ انقلاب آگیا تو ہم ذمے دار نہ ہوں گے، یا ذرا تمیز سے بات کیجیے آپ کسی للو پنجو سے نہیں اصغر انقلابی سے مخاطب ہیں ، یا اظفر تیرے خون سے انقلاب آئے گا، یا حکیم قابل پسوڑی کی صرف ایک گولی گرم دودھ کے ساتھ استعمال کریں اور ایک رات میں انقلابی قوتِ مردانہ حاصل کرکے ازدواجی زندگی میں خوشگوار انقلاب لے آئیں (محدود عرصے کے لیے تعارفی قیمت فی کورس صرف پانچ صد روپے )۔
اگر یہ سب تماشا اور تماش بین اپنی آنکھوں دیکھنے ، کانوں سننے اور پھر کپڑے پھاڑ کے جنگل کی جانب دوڑنے کی تمنا ہو تو ویلکم ٹو پاکستان ٹو تھاؤزنڈ فورٹین۔۔۔۔

بھاڑ میں جائے ٹینیسی ولیمز کہ جس نے بکواس کی کہ انقلاب کو ایسے خواب دیکھنے والے چاہئیں جو انھیں یاد بھی رکھ پائیں۔کیڑے پڑیں ارسلا گوئین جیسی انارکسٹ کی قبر میں کہ جس نے یہ جاہلانہ بات کی کہ تم انقلاب نہ کسی دکان سے خرید سکتے ہو نہ گھر میں بنا سکتے ہو، انقلاب یا تو تمہاری رگوں میں ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔یہ سب انقلابی اور ان کے افکار اور ان کی جدوجہد ، قربانیاں اور اخلاص تمہیں مبارک ۔

ہمیں تو اپنے سونامی انقلابی عمران خان ، ٹیلی فونک انقلابی الطاف حسین، موٹر وے انقلابی شریف برادرز ، ٹویٹری انقلابی بلاول بھٹو زرداری ، کنٹینری انقلابی طاہر القادری، سرخ ( حویلی ) انقلابی شیخ رشید ، مہمل انقلابی چوہدری شجاعت ، آرمڈ چئیر انقلابی حمید گل ، احتیاطی انقلابی سراج الحق اور سہولتی انقلابی فضل الرحمان ہی بہت۔۔۔۔۔۔
اے روحِ ’’ انقلاب ’’ ہمیں ناموں سے نہ پہچان

کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

ریاستی رٹ کو روتے رہیے.......


کیا کسی نے کبھی ریاستی اقتدارِ اعلیٰ  کہ جسے اب اردو میں بھی اسٹیٹ رٹ کہنے کا رواج ہوگیا ہے) ٹھوس شکل میں دیکھا ؟ کس کس کی اسٹیٹ رٹ سے کتنی دیر کی ملاقات رہی؟ آخری دفعہ اسٹیٹ رٹ سے کب کب ہاتھ ملایا؟ بعد میں اپنی انگلیاں بھی گنیں کہ نہیں؟ چلیے آپ کی کسی سبب یا بلا سبب ملاقات نہیں ہوسکی کوئی بات نہیں۔لیکن آپ اس رٹ کے باپ یعنی آئین سے تو کسی نہ کتاب دوکان میں ضرور ملے ہوں گے۔یہی مشکل ہے، آپ سے تو اپنا آئین بھی پورا نہیں پڑھا جاتا ورنہ آدھے نفسیاتی مسئلے تو چٹکی بجاتے حل ہو چکے ہوتے۔۔آپ کے۔

یہ رونا آخر کب تک سنا جائے کہ پاکستان میں اسٹیٹ رٹ باقی نہیں رہی اور
 ریاست ہی چاہے تو اسے بحال کرسکتی ہے اور جب تک بحال نہیں ہوگی تب تک قانون کی حکمرانی ایک خواب رہے گی اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جائیں گے وغیرہ اور وغیرہ اور وغیرہ…کیا آپ کچھ سمے کے لیے اسٹیٹ رٹ کی رٹ لگانا بند کرسکتے ہیں پلیز۔بہت شکریہ۔

عرض یوں ہے کہ خدا کو چھوا تو نہیں جا سکتا لیکن مختلف شکلوں میں محسوس ضرور کیا جاسکتا ہے اور کچھ اتنے راسخ انداز سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات حاضر والدین کے کسی حکم کی بھی غائب خدا کے فرمان کے آگے کوئی حیثیت نہیں۔بالکل اسی طرح ریاستی رٹ نام کی کوئی شے آپ کو کسی ٹھیلے پر نہیں ملے گی۔لیکن اگر اسے سب دل سے مان لیں تو پھر وہی رٹ ہماری اپنی ہی اجتماعی و انفرادی شکل و صورت میں ہر طرف اظہار کرتی دکھائی سنائی دے گی۔

بھلے منہ سے کچھ بھی کہیں مگر ہم میں سے اکثر لوگ شائد ایسے نڈر ہوچکے ہیں کہ خدا سے نہیں ڈرتے تو ریاستی اختیار سے کیا ڈریں گے۔ آئینِ پاکستان کی پہلی شق میں صاف صاف ہے کہ اختیارات کا سرچشمہ خدائے برتر ہے اور ریاست یہ اختیارات امانتاً منتخب نمایندوں کے توسط سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی مجاز ہے۔یعنی خدائی رٹ ہی اسٹیٹ رٹ ہے۔ پھر بھی سب پوچھ رہے ہیں کہ اسٹیٹ رٹ کہاں ہے۔

شائد اس موٹر سائیکل سوار کے پاس ہے جو کسی بھی چوک پہ باوردی کانسٹیبل کی شکل میں کھڑی ریاست کو دھتا بتاتے ہوئے یوں سگنل توڑتا ہے گویا کفر توڑ رہا ہو۔ یا شائد اسٹیٹ رٹ ڈسکہ کے ان چار لوگوں کے پاس ہے جنہوں نے اپنی بیٹی اور ناپسندیدہ داماد کو بیسیوں لوگوں کے سامنے دن دھاڑے کھمبے سے باندھا اور دونوں کے سر اتار کے خبجرلہراتے آرام سے چلے گئے۔
تماشائی یہ بات سوچنے سے ہی عاری ہیں کہ انھوں نے دو انسانوں کی شکل میں دراصل ریاست اور عدالت کا سر اتارے جانے کا منظر دیکھا ہے۔یا پھر اسٹیٹ رٹ اس سادے کی داشتہ ہے جو کسی بھی شہری کو جیپ میں ڈالنے کا خود ساختہ حق رکھتا ہے اور پھر نہ شہری کا پتہ ملتا ہے نہ سادے کا۔رٹ کسی زمانے میں بس ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی اب عرصہ ہوا ریاست نے اس کی بھی نجکاری کردی اور اپنے اختیار کو اٹھارہ کروڑ شئیرز میں بانٹ کے بیچ دیا تاکہ ریاست کو دیگر ضروری کاموں کے لیے وقت مل سکے۔ نتیجہ ؟؟؟
(ملاوٹ) خدا کو ناپسند ہے اور ریاست کو بھی۔لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر کھلا رہے ہیں پلا رہے ہیں اور ریاست بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔

(خیانت) خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری یا ادارہ ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔یا تو خائن ہے یا پھر خیانت گزیدہ۔ پچھلے ایک سال میں کرپشن کے تین ہزار اکتالیس مقدمات میں سے صرف چوبیس کا فیصلہ ہوسکا۔ رشوت لے کے پھنس گیا ہے رشوت دے کے چھوٹ جا۔ (یہ ضرب المثل مغربی نہیں مشرقی ہے اور یہیں کی ہے)۔

(ارتکازِ دولت) خرابی ہے ان لوگوں کے لیے کہ جنہوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔ مملکتِ خداداِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کررہے ہیں۔ ٹیکس دصولی کی شرح کے معاملے میں یہ ریاست دنیا کے ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ان کا ایک دوسرے پر تو بس نہیں چلتا۔چنانچہ تنخواہ دار طبقے اور ماچس و مٹی کے تیل پرگذارہ کرنے والوں پے مالیاتی مردانگی اتاری جاتی ہے۔

خدا کے نام کی تکریم کرنے والے لوگ

خدا کے گھر سے بھی اونچے مکان رکھتے ہیں (جمال احسانی)
  جھوٹ، غلط بیانی اور آدھا سچ) نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی ریاستی کتاب میں اجازت ہے۔لیکن جھونپڑی سے محل تک، ٹھیلے والے سے لے کر پیش امام تک،بچے سے حکمرانِ اعلی تک کوئی ہے جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر رہ گیا ہو۔

(قتلِ عمد) کس مذہب یا قانون میں جائز ہے؟ کیا اس کی خدائی اور ریاستی سزا انتہائی سخت نہیں؟ اس سے زیادہ کوئی اور کیا کہے کہ جس نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ مگر خدا کا نام لینے والی ریاست ہو کہ خدا کا دم بھرنے والے افراد۔ دونوں کے کانوں سے روئی کون نکالے؟

 ریپ) کوئی فاسق و فاجر بھی اس کی وکالت نہیں کرتا۔اس پاکستان میں اینگلو سیکسن لا سے قوانینِ حدود اور جرگہ روایات تک کون سا قانون لاگو نہیں۔ مگر پچھلے پانچ برس میں ریپ کے ایک ملزم کو بھی سزا نہیں مل پائی۔(اس سے اورکچھ ہو نہ ہو انفرادی و اجتماعی پاک بازی، پرہیز گاری اور غیر جانبداری کے معیار کو ضرور اندازہ ہو سکتا ہے ۔

 دہشت گردی) خدائی ڈکشنری میں اسی کو فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور اس کی سزا ایک ہی ہے۔قلع قمع۔ دہشت گردی کسی بھی ریاستی رٹ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں یہ بھول بھال کر کہ دنیا گول ہے۔ جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر کو آئے گی۔
 
انصاف) ریاست کفر پہ تو زندہ رہ سکتی ہے بے انصافی پر نہیں۔اس پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں کوئی ایسا شخص جو کہہ سکے کہ وہ انصاف کے نافذ و جاری نظام سے زیادہ تو نہیں مگر تھوڑا بہت ضرور مطمئن ہے۔ ریاستی رٹ انصاف کے ستون پر کھڑی ہوتی ہے۔کیا کسی کو ستون دکھائی دے رہا ہے؟ بس جتنا دکھائی دے رہا ہے اتنی ہی ریاستی رٹ پر اکتفا کیجیے۔
 
اقلیت) اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔سب اقلیت ہیں۔کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائص واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن اس دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ کوئی فوری امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا راستہ۔اسی کو تو پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ کہتے ہیں۔
 
عقیدہ) عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے،زبردستی، ترغیب و تحریص، دھمکی، خاص اہداف اور مفادات ذہن میں رکھ کے ایسی قانون سازی کی بھی اجازت نہیں جن کی زد میں آ کر ریاست کا کوئی بھی گروہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر درجہ دوم کا شہری بن جائے۔تلوار کی نوک گردن پہ رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے، رنگ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی۔

کیا ریاست اس نفرت پرور کھیل میں فریق ہے یا غیر جانبدار؟ کیا فوجداری و دیوانی قوانین کی نوعیت ایسی ہے کہ ریاست کا ہر شہری دل سے خود کو اس سرزمین کا فرزند سمجھے اور اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔کیا خدا کی جانب سے اس شاخسانے کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔کیا سب لوگ (بلاخصوص صاحب ِ احوال و صاحب الرائے حضرات) واقعی آسمانی احکامات کو ایک بڑی اور مکمل تصویر کے طور پر دیکھنے، پڑھنے اور ان احکامات میں مضمر حکمتی اشارے سمجھنے کے قابل ہیں یا پھر اپنی اپنی پسند کے احکامات کو آدھا پورا بیان کرکے اس تشریح کو شریعتِ خدا کہنے اور منوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

جب تک ان سوالات کا کوئی متفق علیہہ تشفی بخش عقلی جواب نہیں ملتا۔ریاستی 
رٹ کو بیٹھے روتے رہئے۔

Pakistani People are the most Patriotic People in the World

Pakistani People are the most Patriotic People in the World

آئی ایس آئی کے خلاف مغربی استعمار کی پروپیگنڈا مہم.........


19مئی کی شب کو بی بی سی کے سیربین پروگرام میں پاکستان کی قومی خبر ایجنسی آئی ایس آئی خاص موضوع گفتگو بنی رہی جس میں فوج کے سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ لیفٹیننٹ (ر) جنرل اطہر عباس، بریگیڈیئر (ر) سعد، شمالی امریکہ میں کسی فکری ادارے ( تھنک ٹینک نہیں کہہ سکتا کہ اس سے باردو کی بو آتی ہے) کے سربراہ کامران بخاری جو مشرق وسطیٰ جنوبی ایشیا ، امریکی امور اور تزویراتی علوم کے ماہر کی حیثیت سے متنوع موضوعات پر رائے زنی کے لے مدعو کیے جاتے ہیں نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر سے سامعین کو آئی ایس آئی کے کردار کے بارے میں باخبر کیا۔ ان مبصرین کی نظر میں آئی ایس آئی کی سرگرمیاں حد سے تجاوز کرنے کے باعث اندرون و بیرون ملک ریاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں لہٰذا انہیں محدود کرنے کی ضرورت ہے البتہ بریگیڈیر سعد نے سلامتی امور میں آئی ایس آئی کے کردار کو مثبت قرار دیتے ہوئے سراہا جبکہ اطہر عباس کا رویہ معذرت خواہانہ رہا اور انہوں نے فرمایا کہ ماضی میں اس ایجنسی کو آمروں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اس لیے اس کا کردار متنازع ہو گیا۔ آخر میں انہوں نے مشورہ دیا کہ آئی ایس آئی کو اپنے بارے میں منفی تاثر دور کرنے کے لیے ملک کی عسکری تنظیموں کی سرپرستی ترک کر دینی چاہیے جبکہ ایک اور مبصر تو آئی ایس آئی سے اتنے بدظن تھے کہ اسے دوٹوک مشورہ دیا وہ خاموش رہے تو بہتر ہے کیونکہ وہ جتنا ذرائع ابلاغ کو اپنی صفات کے لیے استعمال کرے گی وہ اتنی ہی متنازع ہوتی جائے گی۔ ہم آئی ایس آئی کے سربراہ پر کسی صحافی پر کیے گئے قاتلانہ حملے کا الزام لگانے اور جیو پر اس خبر کو آٹھ گھنٹے چلانے کے پس منظر میں آئی ایس آئی کے احتجاج کو قانونی اقدام سمجھتے ہیں اور اگر کوئی مسخرا یہ کہے کہ اس قومی ایجنسی کو اپنی صفائی میں بھی کچھ کہنے کا بھی حق نہیں ہے اور اسے خاموش رہنا چاہیے تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ مؤقر ریاستی ادارہ اپنے اوپر عائد جھوٹے الزام کو تسلیم کر رہا ہے۔ کیا ادارے کے سربراہ کو جیو پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ آئی ایس آئی سے غلطیاں نہیں سر زد ہوئیں اور دنیا کی کونسی ایجنسی ہے جو ادائیگی فرض کے جوش میں اپنے اور غیر ملکی شہریوں کی حق تلفی نہیں کرتی۔ ایسی صورت میں خود ایجنسی یا فوج یا حکومت اس کی اصلاح یا سرزنش کرنے کا پورا حق رکھتی ہے ۔ اس مذاکرے میں برطانیہ ، امریکہ اور کینیڈا میں بیٹھے مبصرین کو آئی ایس آئی کی آنکھ میں پڑا تنکا تو نظر آ گیا لیکن سی آئی اے کی آنکھ میں دھنستی شہتیر نہیں دکھائی دی۔ مجھے نہیں معلوم کہ سمندر پار بیٹھے تجزیہ نگار اُن ممالک کے شہری ہیں یا دہری شہریت کے حامل ہیں تاہم انہیں یہ مشورہ بارک اوباما کو دینا چاہیے کہ وہ سی آئی اے کو دوسرے ممالک کے شہریوں کو اغوا اور قتل کرنے سے روکے۔ کیا کسی ملک کی ایجنسی کو دوسرے ممالک کے خلاف جنگ کرنے کا اختیار ہ ہے؟ ان معترضین کو اپنے سامعین کو یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ افغانستان میں روسی افواج کی موجودگی پر مراکش ، الجزائر، تیونس، لیبیا، سعودی عرب، یمن، اردن اورپاکستان سے ایک لاکھ مجاہدین بھرتی کیے ،انہیں تربیت دی اور افغانستان میں داخل کیا تاکہ وہ روسی فوج اور اس کی اتحادی ببرک کارمل اور نجیب کی حکومت کے خلاف چھاپہ مارجنگ شروع کر دیں۔

ان مجاہدین کو امریکی صدر ریگن نے امریکہ کی جنگ آزادی کے سپاہیوں کے مثل قرار دیا اور ان میں مذہبی ولولہ (جسے اب انتہا پسندی کہا جا رہا ہے) پیدا کرنے کے لے اوکلا ہوما یونیورسٹی میں اردو، فارسی اور پشتو زبانوں میں جہاد کے فضائل پر پمفلٹ اور کتابچے شائع کر کے انہیں گھر گھر پہنچایا گیا یہی نہیں امریکی ڈالر اور سعودی ریال سے 1980ء تا 1988ء بے شمار مدارس قائم کیے گئے اور انہیں جہاد کے لیے متحرک کیا گیا۔ لیکن ستمبر 2001ء میں جب امریکہ اور ناٹو ٹولہ افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس پر قابض ہو گیا اور سی آئی اے نے بگرام میں عقوبت خانے کھولے جبکہ امریکی فوجیوں نے شہری بستیوں پر شب خون مارنا، مردوں کو قتل کرنا اور عورتوں کی عصمت دری شروع کر دی تو سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ افغان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اعلان جہاد کر دیا تو وہی جنگ آزادی دہشت گردی بن گئی اور وہی مجاہدین دہشت گرد بن گئے :
خرد کا نام رکھ دیا جنون اور جنون کا خرد
جو چاہے آ پ کا حسن کرشمہ سا ز کرے

یورپ اور امریکہ میں مقیم مبصرین مقامی حکومتوں کو مشورہ دیں کہ سی آئی اے کے اڈے کیوں نہیں بند کیے جاتے، سی آئی اے یمن، مالی ، صومالیہ، نائیجیریا اور پاکستان پر ڈرون حملے کیوں کرتی ہے؟ کیا کسی ریاست کی مخبر ایجنسی کو دسرے ممالک کے خلاف جنگ، تخریب کاری اور ان کے شہریوں کے قتل اور اغوا کا اختیار حاصل ہے؟ اگر ہے تو کس قانون یا اخلاقی ضابطے کے تحت؟ ہمیں تو مشرف جنتا سے یہی شکایت ہے کہ اس نے پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو ایک ہمسایہ ملک پر حملہ آور فوج کی کیوں معاونت کی؟ امارات اسلامی افغانستان سے تو پاکستان کے نہ صرف سفارتی بلکہ خوشگوار برادرانہ تعلقات تھے۔ مشرف یا اس کے بعد سیاسی حکومت نے امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کو کیوں ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی؟ امریکی انتظامیہ ہمیشہ افواج پاکستان اور سی آئی اے پر الزام لگاتی رہی کہ وہ طالبان سے ملے ہوئے ہیں۔ کامران بخاری امریکی انتظامیہ سے کہیں ناں کہ وہ سی آئی اے بلیک واٹر کے گماشتوں کو پاکستان میں کیوں داخل کرتی ہے؟ جبکہ ہم آئی ایس آئی سے پوچھیں گے کہ وہ انہیں ملک سے نکال باہر کیوں نہیں کرتی کیونکہ وہ سلامتی کے لیے ایک مہیب خطرہ بن گئے ہیں؟

وکی لیکس اور سنوڈن کے انکشافات سے یہ بات منظر عام پر آ گئی ہے کہ امریکہ نے اندرون و بیرون ملک جاسوسی کا ایسا جال بچھا رکھا ہے کہ نہ تو امریکہ کے کسی شہری کو نجی آزادی (Privacy) حاصل ہے، نہ چہار دیواری کا تقدس نہ مراسلے کے ارسال و حصول کا حق نہ ہی ذاتی بینک کھاتوں ، بیمہ پالیسیوں، جائیداد کی ملکیت کے دستاویزات کی ضمانت، حد تو یہ ہے کہ امریکہ کے وفادار نیٹو حلیف بھی ایجنسیوں کے دست برد سے محفوظ نہیں رہے۔ جرمنی کی چانسلر برازیل کی صدر کے نجی ٹیلیفون تک ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔ اسے امریکہ اپنی سلامتی کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اور انسداد دہشت گردی کے نام پر پے در پے جو قوانین پارلیمان منظور کرتی ہے ، اس میں ریاست کی ایجنسیوں کو بھی وہ سب کچھ کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے جو امریکہ نے سی آئی اے اور دیگر کو دے رکھا ہے۔ شہریوں کو راستے یا گھروں سے اٹھا کر لے جانا اور انہیں نامعلوم حراستی مراکز میں 90 دن تک قیدی رکھنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ اگر ایجنسیاں ان اختیارات کو استعمال کرتی ہیں تو بدنام ہو جاتی ہیں جبکہ اس کی ذمہ دار وہ پارلیمان ہے جو ایسے کالے قوانین منظور کرتی ہے لیکن اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی بلکہ خود بیشتر سیاسی پارٹیاں ایجنسی کی کردار 
کشی کی امریکی اور بھارت کی مہم کی حمایت کرنے لگتی ہیں۔

پروفیسر شمیم اختر
بہ شکریہ روزنامہ ’’نئی بات‘‘

Enhanced by Zemanta

نظام خطرہ میں یا پاکستان؟؟.......


کیا کسی نے مسلم لیگ ق کو چابی دی یا اپنے تئیں ہی اس پارٹی کے تقریباً تمام رہنما (جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے) لندن پہنچ گئے؟ کیاکسی نے واقعی اپنے آپ کو مولانا کہلوانے سے گریز کرنے والے کینیڈین شہری ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی ڈوری ہلائی یا وہ خود ہی پاکستان کی ’’محبت‘‘ میں دوڑے دوڑے لندن پہنچ گئے؟ کیا کسی کے ایجنڈے پر ان دونوں جماعتوں کے درمیان چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر موجودہ نظام کے خاتمہ کا ایک معاہدہ کرا دیا گیا یا واقعی یہ مسلم لیگ قادری گروپ کا اپنا فیصلہ ہے ؟ کوئی کیا حقیقتاً اتنی جلدی میں ہے کہ کینیڈین علامہ کو جون میں ہی پاکستان بلوا لیا تا کہ پاکستان کی جلد از جلد ’’خدمت‘‘ کی جائے اور اُسے اس موجودہ ’’ناپاک‘‘ نظام سے پاک کیا جا سکے یا کہ واقعتا پاکستان کے حالات بہت خراب ہو چکے اور اب مزید ایک دن کا انتظار نہیں کیا جا سکتا؟ اگر یہ کام کسی کے اشاروں پر ہو رہا ہے جس اندیشہ کا اظہار بہت سے لوگ کر بھی رہے ہیں تو پھر آفرین ہے اُن پر جنہوں نے ’’ناپاک‘‘ نظام کو پاک کرنے اور اس ملک میں ’’اصل جمہوریت‘‘ لانے کے لیے علامہ طاہر القادری اور گجرات کے چوہدریوں کا چناو کیا۔

گزشتہ ایک سال میں ایسا کیا ظلم ہوا کہ نظام کو بدلنے کے لیے کام شروع کروایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں کتنے کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے کہ اب اس نظام کو مزید برداشت کرنا ممکن نہیں؟ پاکستان کی معیشت کی تباہ حالی میں موجودہ حکومت نے کیا اور برا کیا کہ اب ان کو باہر پھینکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں؟ پاکستان میں دہشتگردی میں خاطر خواہ کمی اور ڈرون حملوں کا رکنا بھی کیا کچھ لوگوں کو یہاں پسند نہیں؟ موجودہ حکومت کے گورننس کے کچھ سنجیدہ مسائل ضرور ہیں مگر گزشتہ کئی سالوں سے شدید مسائل کا شکار پاکستان کی معیشت کے جو بہتری کے آثار سامنے آ رہے ہیں تو وہ کیا پاکستان کے مفاد میں نہیں؟

حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان پر بہت کچھ نہ کرنے کی بنا پر پریشر بھی ڈالا جانا چاہیے مگر یہ کہنا کہ آج پاکستان کے حالات بہت بگڑ گئے، درست نہیں۔ ورلڈ بنک ہو یا آئی ایم ایف، ملکی میڈیا ہو یا غیر ملکی میڈیا عمومی طور پر یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ پاکستان کے حالات گزشتہ ایک سال میں بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ایک دم سے ایسا کیا ہوا کہ حکومت اور نظام کے ہی خاتمہ کی بات کر دی جائے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا احتجاج تو ایک اچھے مقصد (الیکشن نظام میں اصلاحات) کے لیے ہے مگر جو لوگ لندن میں جمع ہوئے وہ تو ہمیشہ مشکوک کھیل کا ہی حصہ رہے اور جمہوریت مخالف قوتوں کے آلہ کار رہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود پارٹیوں پر مشتمل ایک مشرکہ کمیٹی عمران خان کی سربراہی میںبنائیں جس کا مقصد الیکشن نظام میں اصلاحات کا پیکچ تیار کرنا ہو تاکہ پاکستان میں انتخابات کو ہر قسم کی دھاندلی سے پاک کیا جا سکے۔ کچھ ن لیگی رہنماوں کی کوشش ہے کہ عمران خان کو مسلم لیگ قادری کی طرف دھکیل دیا جائے جو میری نظر میں پاکستان کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔ اچھا ہوا عمران خان نے لند ن میں جیو کے مایہ ناز صحافی مرتضی علی شاہ سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ وہ مسلم لیگ قادری کی مہم جوئی کا حصہ بننے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

میری تو میاں نواز شریف اور عمران خان سے گزارش ہو گی کہ مل کر ملک کی تعمیر و ترقی اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری احتسابی عمل پر معترض ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پاکستان میں احتساب کے نظام کی شفافیت اور با اثر بنانے کے لیے بھی پارلیمنٹ میں سب پارٹیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک ایسا سسٹم بنائے جس پر سب کا اعتبار ہو اور جوہر قسم کے بیرونی اثر اور سیاسی دباو سے پاک ہو۔ نظام بچانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا ریاست کے اندر کوئی ایسی ریاست تو نہیں جو جمہوریت، آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی جیسے اصولوں کو یہاں پنپنے نہیں دے رہی۔ یہ حکومت و پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد، چاہے ان کا کسی بھی ادارے سے تعلق ہو، کو بے نقاب کرے جو قومی اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو غداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کا کاروبار کر رہے ہیں اور جو میڈیا کی کالی بھیڑوں اور اشارہ پر کام کرنے والی پارٹیوں کو اپنے پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کر رہے ہیں؟

آخر یہ تو پتا لگنا چاہیے کہ کس نے جیو کا کیس سننے پر سپریم کورٹ اوراُس کے انتہائی معزز جج محترم جسٹس جواد خواجہ کے خلاف مہم جوئی کی اور انہیں بدنام کرنے کے لیے اسلام آباد کے ریڈ زون تک میں بڑے بڑے بینر لگوادیے؟ وہ کون ہے جو جیو کے معاملہ پر حکومت کے مثبت رویے کی وجہ سے حکومت کے خلاف ہی سازشوں پر اتر آیا ہے؟ وہ کون ہے جس نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا اور پیمرا کو اپنے اشاروں پر ناچنے پر مجبور کیا؟ وہ کون ہے جس نے کیبل آپریٹرز کو جیو بند کرنے پر مجبور کیا؟ وہ کون ہے جس کے سامنے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں؟ کس کے کہنے پر جنگ اور دی نیوز کی ہزاروں کاپیوں کو جلا دیا؟ وہ کون ہے جس کے اشارہ پر ایسا عمل کرنے والوں کو اتنی شرم نہیں آئی کہ ان اخبارات میں لکھی قرآنی آیات کی حرمت کا ہی خیال کر لیتے؟ وہ کون تھے اور کس کی طرف سے بھیجے گئے تھے، جنہوں نے جنگ ملتان کے ایڈیٹر ظفر آہیر پر بزدلانہ حملہ کیا اور اُنہیں شدید زخمی کر دیا؟ وہ کون ہے جو پاکستان کو افراتفری کی طرف دھکیلنے کا کا م کر رہا ہے؟ وہ کون ہے جو قانون سے بالاتر ہے؟ وہ کون ہے جن پر قانون نافذ کرنے والے ہاتھ نہیں ڈال سکتے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈنا حکومت اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نظام تو بچ نہیں سکتا نجانے پاکستان کا کیا ہو گا۔ اللہ اسلام کے نام پر بننے والے ہمارے اس ملک کو ہمیشہ سلامت رکھے اور ہم سب کو اپنے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اس کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

پاکستان کا حکمران طبقہ: نااہلی اور بد عنوانی کا برا عظم


اقتدار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کو بدعنوان بناتا ہے اور مطلق اقتدار مطلق بدعنوانی کو جنم دیتا ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے کا معاملہ ہی عجب ہے۔یہاں کے حکمران طبقے کو مطلق اقتدار ہی نہیں جزوی اقتدار بھی مطلق بدعنوان بناتا ہے۔ لیکن اقتدار حکمرانوں کو صرف بدعنوان ہی نہیں بناتا بلکہ اُن کی نااہلی کو بھی طشت ازبام کرتا ہے۔ دنیا بھر میں حکمرانوں کو نااہلی اور بدعنوانی کا جزیرہ سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ نااہلی اور بدعنوانی کا براعظم ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کی نااہلی اور بدعنوانی کی تازہ ترین گواہی سپریم کورٹ نے دی ہے۔ نرم لہجے میں نہیں، تقریباً چیختے ہوئے۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 13 مئی کو ازخود نوٹس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ آئین زندگی کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ تین رکنی بینچ نے کہا کہ بھوک سے مرنے والوں کی قربانیاں ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ بینچ نے کہا کہ جب راولپنڈی میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 1150 روپے میں فروخت ہوگا تو بلوچستان جیسے دور دراز علاقوں کا کیا حال ہوگا! بینچ نے کہا کہ حکمران اشیاء کی قلت پیدا کرکے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ کیا یہ طے کرلیا گیا ہے کہ خواہ چوہے گندم کھا جائیں یا عوام بھوکے مر جائیں لوگوں کو سستا آٹا نہیں ملے گا؟ لوگ بھوک سے تنگ آکر اپنے بچے نہروں میں پھینک رہے ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ انگریز نے بھی تو لوگوں کے لیے غذا کا بندوبست کیا تھا۔ فوڈ سیکرٹری نے اس موقع پر تسلیم کیا کہ انگریزوں کے دور میں اگر ایک خاص تاریخ تک بارش نہیں ہوتی تھی تو ضلعی انتظامیہ انسانوں کے لیے خوراک اور پانی اور جانوروں کے لیے چارے کا بندوبست کرتی تھی۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہم نے کئی غذائی اجناس میں خودکفالت حاصل کرلی ہے، چنانچہ پاکستان میں غذا کی قلت اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن نہ صرف یہ کہ ایک بار پھر یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے بلکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ازخود کارروائی کے تحت اس کا نوٹس لینے پر مجبور ہوگئی ہے۔


تین رکنی بینچ کے ریمارکس سے ظاہر ہے کہ ملک میں گندم کی گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی بدترین تاجرانہ نفسیات کا نتیجہ ہے۔ عالمی سطح پر کہا جاتا ہے کہ غذائی اجناس پر اجارہ داری رکھنے والے بڑے ملک گندم سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ عالمی منڈی میں گندم کے نرخوں کو ایک حد سے کم نہیں ہونے دیتے۔ یہی صورت پاکستان میں ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہورہا کہ گندم کے نرخ بڑھ رہے ہیں اور عام آدمی کی قوتِ خرید جواب دے رہی ہے۔ میاں نوازشریف کے پچھلے دورِ حکومت میں آٹے کا کال پڑ گیا تھا اور لوگ کہتے پھرتے تھے کہ شیر آیا اور آٹا کھا گیا۔ لیکن بعدازاں معلوم ہوا کہ یہ صورت حال گراں فروشی کی نفسیات کا شاخسانہ تھی اور ملک کے بعض حصوں میں آٹے کی بدترین قلت پیدا کرنے والوں میں نواز لیگ کے لوگ بھی شامل تھے۔ پاکستان گنا پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہے مگر ہمارے یہاں چینی بھی سو روپے کلو تک فروخت ہوئی ہے۔ تو کیا ملک میں ایک بار پھر گندم اور آٹے کا بحران پیدا ہونے والا ہے؟ اس سلسلے میں وثوق سے کچھ کہنا دشوار ہے مگر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس سے ظاہر ہے کہ حالات سنگین ہیں اور گندم کی گراں فروشی نے کروڑوں لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کو بھی ’’عیاشی‘‘ بنادیا ہے۔ اس مسئلے کا شرمناک ترین پہلو یہ ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران انگریزوں کے دورِ غلامی کا ذکر ہوا اور اس امر پہ اتفاقِ رائے پایا گیا کہ غذا کی فراہمی کے حوالے سے دورِ غلامی بہتر تھا۔ ظاہر ہے کہ انگریز آقا تھے اور انہیں غلاموں کی فلاح و بہبود سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، لیکن یہ تو انگریزوں کے لیے بھی قابلِ قبول بات نہ تھی کہ ان کی عمل داری میں لوگ گراں فروشی اور بھوک کے ہاتھوں مارے جائیں۔ ایسا ہوتا تو تاریخ میں انگریزوں کی بھد اڑ کر رہ جاتی۔ تاریخ کہتی کہ انگریزوں کو نوآبادیات کا تو شوق تھا مگر وہ اپنی نوآبادیات کے لیے غذا کا بندوبست کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہم آج غذا کے معاملے میں نوآبادیات کے تجربے سے نیچے کھڑے ہیں۔ آخر پاکستان کے حکمران طبقے کی اس سے بڑی تنقید کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے طرزِ حکمرانی سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو عہدِ غلامی یاد آجائے اور وہ خوراک کی فراہمی کے حوالے سے عہدِ غلامی کو عہدِ آزادی سے بہتر باور کرائے؟ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔

جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت حکومت کا بنیادی فرض ہے، لیکن گزشتہ دس سال کے دوران دہشت گردی کی وارداتوں میں ہم نے 35 ہزار عام شہریوں اور 5 ہزار فوجیوں کو لقمۂ اجل بنوا دیا ہے، لیکن دہشت گردی کی لہر کو نہ جنرل پرویزمشرف روک سکے، نہ پیپلزپارٹی کی سول حکومت اس کا تدارک کر سکی اور نہ میاں نوازشریف کی موجودہ حکومت اس سلسلے میں مؤثر نظر آرہی ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی نااہلی کا حال یہ ہے کہ وہ دس سال میں اس امر کا اعتراف تک نہیں کر سکا ہے کہ ہم نے امریکہ کی جنگ کو گود لے کر غلطی کی اور اب ہم اس غلطی کے ازالے کے لیے امریکہ کی جنگ سے باہر آرہے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو اس سلسلے میں ہمارے حکمران 21 ویں صدی میں قبائلی ذہنیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ قبائلی ذہنیت یہ ہے کہ اگر غلطی سے جنگ شروع ہوگئی ہے تو قبیلے کی واہ واہ کے لیے جنگ کو جاری رکھا جائے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب سلالہ بیس پر حملہ ہوتا ہے اور امریکی پاکستان میں گھس کر اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو ہماری فضائیہ کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہوتا، لیکن جب طالبان سے مذاکرات ہورہے ہوتے ہیں تو پاک فضائیہ کا سربراہ قوم کو بتانا ضروری سمجھتا ہے کہ پاک فضائیہ وزیرستان پر حملوں کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

پاکستان میں طرزِ حکمرانی کے جتنے تجربات ہوئے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنرل ایوب نے ملک میں پہلا مارشل لا لگا کر یہ ظاہر کیا تھا کہ سول حکومت کا تجربہ ناکام ہوگیا ہے اور جو کام سول حکومتیں نہیں کرسکی ہیںوہ اب فوجی حکومت کرے گی۔ لیکن اپنے تمام فوجی جاہ و جلال کے باوجود صرف دس سال میں جنرل ایوب کی شخصیت کی قلعی اتر گئی اور وہ ایک ایسی فضا میں اقتدار سے رخصت ہوئے کہ ملک کئی طرح کے بحرانوں میں مبتلا تھا۔ جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ نے لی اور اُن کے دور میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ فوجی حکمرانی کا تجربہ ناکام ہوگیا ہے، مگر اس کے باوجود جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف نے ایک بار پھر فوجی حکمرانی کا تجربہ قوم پر مسلط کردیا، لیکن ان تجربوں کو بھی اچھے الفاظ سے یاد کرنے والا کوئی نہیں۔ ملک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کے تجربات بھی دوہرائے گئے ہیں اور ان دونوں نظاموں سے بھی قوم کے دکھوں کا مداوا نہیں ہوسکا۔ نظریات کے اعتبار سے بھی پاکستان میں طرح طرح کے تجربات ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب امریکہ پرست تھے مگر سیکولر تھے، لیکن ان کا سیکولرازم ملک و قوم کے کسی کام نہ آیا البتہ اس نے ملک کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا ضرور کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سوشلسٹ تھے مگر انہوں نے سوشلزم کے ساتھ اسلام لگا کر اسلام اور سوشلزم دونوں کے ساتھ زیادتی کی، اور ان کا یہ تجربہ بتاتا ہے کہ انہیں نہ اسلام عزیز تھا، نہ سوشلزم۔ انہیں صرف اپنا اقتدار عزیز تھا اور انہوں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ایجاد کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں نظام مصطفی کا نعرہ لگایا۔ جنرل ضیاء الحق اپنی ذاتی زندگی میں مذہبی انسان تھے اور ان کے اقتدار سے ملک میں اسلامی خیالات بھی پروان چڑھے، مگر اسلام کو بحیثیت ایک نظام نقصان پہنچا، اس لیے کہ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں نظام صلوٰۃ متعارف کرایا اور اسے مذاق بنا دیا۔ انہوں نے ملک میں اسلامی بینکاری شروع کی اور کچھ عرصے بعد قوم کو معلوم ہوا کہ اسلامی بینکاری کی آڑ میں سودی بینکاری ہی چل رہی ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے منتخب نمائندوں کے لیے بی اے کی ڈگری کی شرط رکھی تو ہمارے منتخب ایوان بی اے کی جعلی ڈگری رکھنے والوں سے بھر گئے۔

لیکن مسئلہ محض ہمارے حکمران طبقے کی نااہلی کا نہیں ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈار نے حال ہی میں ’’انکشاف‘‘ کیا ہے کہ پاکستان کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ حکومت پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گی۔ 200 ارب ڈالر اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے پاکستان کا تمام قرض اتر سکتا ہے اور پاکستان کے تمام ایسے مسائل حل ہوسکتے ہیں جن کے لیے سرمایہ درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم دو چار برسوں میں جمع نہیں ہوئی۔ چنانچہ اتنی بڑی رقم کی لوٹ مار کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ملک و قوم کو کئی دہائیوں سے لوٹ رہا ہے۔ مطلب یہ کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے بدعنوانی کو اپنا ’’طرزِ حیات‘‘ بنایا ہوا ہے، یہاں تک کہ لوٹ مار کی روک تھام بھی ’’سیاست‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ میاں نوازشریف تین بار اقتدار میں آچکے ہیں اور وہ لوٹی ہوئی رقم کا اعشاریہ ایک فیصد بھی واپس نہیں لا سکے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے قومی وسائل کی لوٹ مار پر گفتگو کا باب بھی بند کیا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بدعنوانی کے سلسلے میں میاں نوازشریف بھی ’’مجرم‘‘ بنے کھڑے ہیں۔ عمران خان احتساب کا نعرہ لگاتے ہوئے میدانِ سیاست میں آئے تھے مگر اب احتساب کا نعرہ ان کے حوالے سے ’’ماضی کی یادگار‘‘ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہمارا حکمران طبقہ نااہلی اور بدعنوانی کا براعظم بنا ہوا ہے تو اس کا علاج کیا ہے؟

بلاشبہ دنیا میں نظام بھی معاشروں میں خوبیاں اور خرابیاں پیدا کرتے ہیں، مگر پاکستان کا بنیادی مسئلہ نظام نہیں بلکہ نظام چلانے والے ہیں، اور نظام چلانے کے لیے دو چیزیں ناگزیر ہیں، ایک تقویٰ یا نیکی اور دوسرا علم۔ اسلامی تاریخ کے جس دور میں کمال نظر آتا ہے انہی دو خوبیوں کی وجہ سے نظر آتا ہے، اور جہاں زوال نظر آتا ہے وہ بھی انہی دو خوبیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اراکین کی اکثریت کو ان دونوں چیزوں کی ہوا بھی نہیں لگی۔ فوجی ہوں یا سول حکمران… تقوے اور علم سے دونوں عاری ہیں۔ پاکستان کے آئین میں دفعہ 62 اور 63 موجود ہیں جو منتخب اراکین کے لیے امین اور صادق ہونے کی شرط عائد کرتی ہیں، مگر ہمارے حکمران کیا ذرائع ابلاغ بھی آئین آئین تو بہت کرتے ہیں مگر انہیں آئین کی یہ دو دفعات نظر نہیں آتیں، اور آتی بھی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ بھلا امانت اور صداقت کا تعین کون کرے گا؟ لیکن یہ ایک خلطِ مبحث ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ اپنے مثالیوں یا Ideals کا تعین کرلیتا ہے تو وہ ان کے مطابق انسان بھی پیدا کر ہی لیتا ہے۔

شاہنواز فاروقی

عجیب النسا کا حرامی......


حسن سپروائزر کا یہ ایس ایم ایس پڑھتے ہی میرے دل سے گویا ایک بھاری پتھر ہٹ گیا کہ تمہاری عجیب النسا آج فجر کے بعد چل بسیں۔

یو نو وٹ۔۔۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ وہ کونسا پروجیکٹ ہے جس میں کسی بھی دوسرے پروجیکٹ سے زیادہ وقت، وسائل، محنت، توانائی اور تربیت کے باوجود منافع کا امکان سب سے کم اور خسارے کا امکان سب سے زیادہ ہے۔اس کے باوجود سب سے زیادہ لوگ اسی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ؟ اولاد۔۔۔۔۔۔۔۔

عجیب النسا کی تدفین کے بعد میں اور حسن سپروائزر آمنے سامنے کی دو پرانی قبروں سے گاؤ تکیے کی طرح ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔میری سوالوں بھری آنکھوں سے ٹپکتے تجسس کو حسن سپروائزر کی خفیف سی ٹیڑھی بائیں آنکھ نے لپک لیا۔

’’ بیٹا بس کیا بتاؤں ؟ جائے نماز سے اٹھتے ہی کہنے لگیں، نیند آرہی ہ ےکوئی ڈسٹرب نہ کرے۔آدھے گھنٹے بعد اٹھا دینا۔ میں نے آہستہ سے ان کے کمرے کے کواڑ بھیڑ دیے۔ پینتیس چالیس منٹ بعد یاد آیا تواندر جھانکا۔ تب تک بڑی بی نکل چکی تھیں۔ برس ہا برس دن رات دیکھنے کی وجہ سے مجھے شائد ان کی عادت ہو گئی تھی اس لیے ابھی خالی خالی سا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘

کل ہی کی تو بات ہے کہ گیارہ مئی انیس سو ستاسی کو عجیب النسا کا اکلوتا بیٹا خالد انھیں یہاں جمع کرا گیا تھا۔ (میں نے آج تک خالد کا صرف نام ہی سنا ہے)۔ بقول حسن سپروائزر عجیب النسا کو یہاں داخل کرانے کے بعد خالد پہلی اور آخری دفعہ ٹھیک ایک سال بعد گیارہ مئی انیس سو اٹھاسی کو ماں سے ملنے آیا تو اس نے دور سے تمہیں (یعنی مجھے ) عجیب النسا کی گود میں دیکھا اور پھر وہ اپنی ماں کے لیے جو تین جوڑے لایا تھا میرے ( یعنی حسن سپروائزر) حوالے کرکے بنا ملے ہی چلا گیا اور پھر نہیں پلٹا۔

لگ بھگ چھ سال بعد بس ایک مرتبہ خالد کا خط ڈاک سے آیا۔ جب حسن سپروائزر نے وہ خط عجیب النسا کو لا کر دیا تومیں انھی کی گود میں سر رکھے بخار میں پھک رہا تھا۔مجھے عجیب النسا کی آنکھیں کبھی نہیں بھول سکتیں جو لفافے پر لکھائی دیکھتے ہی لہلہلا اٹھی تھیں۔پر جیسے جیسے وہ سطر در سطر خط میں اترتی گئیں ، چہرہ بھی پیاسی زمین سا چٹختا چلا گیا۔

اب جب کہ عجیب النسا مرچکی ہیں تو بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ اس دن جب وہ کمرے سے باہر آرام کرسی پر بیٹھی دھوپ سینک رہی تھیں تو میں نے وہ خط ان کے تکیے کے نیچے سے نکال کر بڑی مشکل سے ہجے کر کر کے اتنا ضرور سمجھ لیا جتنا ایک چھ ساڑھے چھ سال کا چوری پکڑے جانے کے خوف سے گھبرایا بچہ سمجھ سکتا ہے۔اسلام آباد ، اسکیل اٹھارہ، نوشین، شادی، بابا، فیکٹری، عمرہ، بہت مصروف ہوں ، بچہ کس کا ہے ؟؟ بس خط کی یہی کچھ باتیں مجھے یاد ہیں۔اگلے دن جب عجیب النسا کمرے سے باہر بیٹھی حسبِ معمول دھوپ سینک رہی تھیں تو میں نے پورا خط تسلی سے پڑھنے کے لیے دوبارہ ان کے تکیے کے نیچے ہاتھ مارا مگر وہ وہاں نہیں تھا۔

ارے کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ عجیب النسا سے میرا کوئی براہ راست رشتہ ہے ؟؟؟ نہیں نئیں نئیں۔۔۔حسن سپروائزر کو بھی بس اتنا معلوم ہے کہ مجھے کوئی باہر رکھے پنگھوڑے میں منہ اندھیرے ڈال گیا تھا اور عجیب النسا نے یہ کہہ کر میرا چھوٹا سا بستر اپنے کمرے میں لگوا لیا کہ دل بہلا رہے گا۔

وہ بتاتی رہتی تھیں کہ جب میں بولنے کے قابل ہوا تو اپنے ننھے ننھے پیروں سے سے ان کا چہرہ ٹٹولتے ہوئے کہتا تھا ادیب ان نت آ۔۔۔۔ اور وہ مجھ سے بار بار کہلواتی تھیں ادیب ان نت آ۔۔۔۔انھیں یہ اتنا اچھا لگا کہ جب تک زندہ رہیں ان کا پورا نام لیتا رہا۔ ایک میں ہی تو تھا ان کا پورا نام لینے والا۔۔۔۔۔

ہوش سنبھالنے کے بعد کی جو چند یادیں کچھ کچھ ذہن میں اٹکی ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دو تین مہینے بعد عجیب النسا صبح ہی صبح کمرے کی الماری میں سے کچھ کاغذ نکالتیں اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کے کہتیں چل سرٹیفکیٹ تڑوا لیں۔ پھر ہم دونوں رکشے میں بیٹھ کر ایک دفتر میں جاتے اور ان سرٹیفکیٹوں کے بدلے نوٹوں کی ایک گڈی مل جاتی۔( نہ انھوں نے کبھی بتایا نہ میں نے پوچھا کہ ان سرٹیفکیٹوں کا پس منظر کیا ہے )۔

ہر دفعہ عجیب النسا کو سرٹیفکیٹ والے دفتر میں کوئی نہ کوئی جاننے والی مل ہی جاتی اور وہ اس کے کسی بھی غیر متوقع سوال سے پہلے ہی احتیاطاً شروع ہوجاتیں کہ یہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے ذوالفقار احمد خان۔ذہانت میں ماشاللہ بالکل اپنے نانا مولوی صاحب ذوالفقار احمد خان سری کوٹی پر گیا ہے۔اس دفتر سے ہم دونوں سیدھے میری نرسری جاتے اور نرسری کا کلرک نوٹوں کی تقریباً آدھی گڈی الگ کرکے رسید کاٹ دیتا۔

میں نے عجیب النسا کے پاس رہتے رہتے ایک روز ایم ایس کمپیوٹر سائنس بھی ( اول پوزیشن ) کرلیا اور آج ایک ملٹی نیشنل میں سادرن ریجن کا ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈویژن ہوں۔جس دن نوکری ملی عجیب النسا نے تقریباً دھکے ہی دے کر اپنے کمرے سے نکال دیا۔

’’ اب تو یہاں سے جا اور اس گھر میں جا کے رہ جو کمپنی نے تجھے دیا ہے‘‘۔

مگر آپ ؟

’’خبردار جو آگے ایک لفظ بھی کہا۔بس یہی میرا آخری گھر ہے اور مٹی بھی یہیں سے اٹھے گی‘‘۔

مگر میں نے عجیب النسا کو بڑی مشکل سے موبائل فون رکھنے پر آمادہ کر لیا۔ ماتھا چومتے وقت پتلیاں گھماتے ہوئے کہنے لگیں تجھے میری اتنی فکر کیوں رہتی ہے ؟ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔کل کو تیرے جورو بچے بھی ہوں گے، ان کی فکر کرنا سیکھ۔

دفتر سے گھر واپسی پر جب بھی ان کے پاس سے ہو کر جاتا تو کہتیں تیرے پاس دنیا میں اور کوئی کام نہیں کیا جو روزانہ مجھے دیکھنے چلا آتا ہے۔ یہ بھانڈا تو بہت بعدمیں حسن سپروائزر نے پھوڑا کہ عجیب النسا تمہارے لائے کپڑے جوتے تمہارے جاتے ہی الماری سے نکال فوراً ساتھ کی عورتوں میں تقسیم کر دیتی ہیں مگر تازہ انگریزی ناول اور پھول اپنے کنے ہی رکھتی ہیں۔

یہ سب اپنی جگہ مگر میں بہرحال مطمئن ہوں کہ عجیب النسا بنا محتاج ہوئے مرگئیں۔ اب اس دنیا میں کوئی نہیں جو جائے نماز کا کونہ موڑتے موڑتے میرے گال کھینچتا ہوا یہ دعائیہ طعنہ دے سکے کہ ،

خدایا ! حلالیوں کی ستائی ہر ماں کو ایسا حرامی بھی عطا فرما۔آمین۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"