Showing posts with label Javed Chaudhry. Show all posts

غربت اور بھوک.........


مزدوروں کے چہروں پر غربت تھی‘ بھوک نہیں‘ میں سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا‘ فٹ پاتھ پر ان کے اوزار پڑے تھے‘ ٹول باکس بھی تھے‘ کُھرپے بھی‘ گینتیاں بھی‘ ہتھوڑے بھی اور کسّیاں بھی‘ یہ لوگ سڑک کی تین فٹ اونچی دیوار پر بیٹھے تھے‘ یہ جینز اور شرٹس میں ملبوس تھے‘ وہ قہوہ اور سگریٹ پی رہے تھے اور چند مزدور تاش‘ شطرنج اور کیرم بورڈ کھیل رہے تھے‘ یہ جارجیا کے مزدور تھے اور یہ تبلیسی شہر کی ایک سڑک کا منظر تھا‘ یہ ہمارے مزدوروں کی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں‘ لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں۔

ان کا انٹرویو کرتے ہیں‘ انھیں کام بتاتے ہیں اور پھر گاڑی میں بٹھا کر گھر‘ دفتر یا فیکٹری لے جاتے ہیں‘ ہمارے فٹ پاتھوں پر روزانہ ایسے سیکڑوں ہزاروں مزدور‘ مستری‘ مکینک اور پلمبر آ کر بیٹھتے ہیں‘ لوگ آتے ہیں اور انھیں ساتھ لے جاتے ہیں‘ یہ منظر جارجیا اور پاکستان دونوں ملکوں میں مشترک ہیں لیکن جارجیا کے مزدوروں اور ہمارے مزدوروں میں ایک فرق ہے‘ وہ لوگ صرف غریب دکھائی دیتے ہیں‘ ان کے چہروں پر بھوک نہیں ہوتی جب کہ ہمارے مزدوروں کے چہروں پر بھوک کا لیپ ہوتا ہے‘ ہمارے مزدور دو کلو میٹر سے بھوکے دکھائی دیتے ہیں‘ یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی محض ایک وجہ ہے‘ جارجیا کے لوگ خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہیں‘ یہ صدیوں سے ’’کھاچا پوری‘‘ بنا اور کھا رہے ہیں۔

کھاچا پوری میں پنیر کی آدھ انچ موٹی تہہ ہوتی ہے‘ ایک کھاچا پوری دو سے تین لوگوں کے لیے کافی ہوتی ہے‘ یہ لوگ قہوہ‘ چائے یا کولڈ ڈرنک کے ساتھ کھاچا پوری کھاتے ہیں اور پورا دن گزار لیتے ہیں‘ ملک میں سیکڑوں ہزاروں تنور ہیں‘ ان تنوروں پر کھاچا پوری ملتی ہیں‘ آپ خریدیں اور دن گزار لیں‘ لوگ خاندان کی ضرورت کے مطابق گھروں میں سبزی اور پھل بھی اگاتے ہیں‘ یہ لوگ ایک آدھ گائے بھی رکھ لیتے ہیں اور یوں یہ خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہوتے ہیں‘ میں نے اکثر گھروں میں ایک دو مرلے کا ’’فارم ہاؤس‘‘ دیکھا‘ یہ لوگ اس ’’فارم ہاؤس‘‘ میں سبزیاں بھی اگاتے ہیں‘ پھلوں کے درخت بھی لگاتے ہیں اور مرغیاں بھی پالتے ہیں۔

جارجیا میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں انگور کی بیل نہ ہو یا گھر کے لوگ گھر سے سیب‘ اخروٹ‘ بادام‘ آڑو‘ چیری اور آلو بخارہ حاصل نہ کر رہے ہوں‘ اس ’’ فارم ہاؤس‘‘ میں کاشت کاری کا کام گھر کی خواتین اور بچے سرانجام دیتے ہیں‘ یہ لوگ گھر کی ضرورت کے لیے اچار‘ چٹنیاں‘ مربے‘ جیم اور پنیر خود تیار کرتے ہیں‘ یہ لوگ اگرچھوٹے گھروں میں رہتے ہوں تو کرائے پر زمین لے کر سبزیاں اور پھل اگا لیتے ہیں اور یہ بھی اگر ممکن نہ ہو تو یہ گھر کے باہر یا صحن میں کاشت کاری کر لیتے ہیں جب کہ ہمارے لوگ‘ ہمارے مزدور عمر بھر خوراک کی محتاجی میں مبتلا رہتے ہیں‘ یہ آٹا‘ گھی اور چینی خریدنے کے لیے مزدوری کرتے ہیں اور ہمارے اس رویے نے ہمارے چہرے پر بھوک مل دی ہے‘ ہم سب کی آنکھوں میں بھوک درج ہو چکی ہے۔

ہم ہمیشہ ایسے نہیں تھے‘ ہمارے ملک میں تیس سال قبل بھوک نہیں تھی‘ صرف غربت تھی اور اگر غربت میں بھوک نہ ہو تو غربت قابل برداشت ہو جاتی ہے‘ غریب شخص اس وقت مجرم‘ درندہ اور ظالم بنتا ہے جب اس کی غربت میں بھوک شامل ہو جاتی ہے‘ ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی آج بھی دیہات میں رہتی ہے‘ یہ لوگ 30 سال پہلے تک خوراک کے معاملے میں خود کفیل تھے‘ ہمارے دیہات کے ہر گھر میں بھینس‘ گائے‘ بکری‘ مرغی اور گدھا ہوتا تھا‘ خاندان بھینس اور گائے سے دودھ‘ دہی‘ مکھن‘ لسی‘ بالائی اور گھی کی ضرورت پوری کر لیتا تھا‘ بکری اور مرغی‘ انڈے اور گوشت کا مسئلہ حل کر دیتی تھی‘ گدھا باربرداری کے کام آتا تھا اور رہ گیا اناج تو یہ لوگ سبزیاں اور گندم بھی اپنی اگا تے تھے۔

گاؤں کے ہر گھر میں گندم اسٹور کرنے کا مٹی‘ لوہے یا لکڑی کا ’’پڑہولا‘‘ ہوتا تھا‘ یہ لوگ چولہے میں لکڑیاں اور اُپلے جلاتے تھے‘ واش روم کھیت ہوتے تھے اور نہانے دھونے کا فریضہ ٹیوب ویلوں اور کنوؤں پر ادا ہوتا تھا چنانچہ یہ لوگ خوراک اور رہائش دونوں معاملوں میں خود کفیل تھے‘ گھر کا ایک آدھ فرد چھوٹی بڑی نوکری کر لیتا تھا‘ وہ فوج میں بھرتی ہو جاتا تھا‘ ڈاک خانے‘ فیکٹری یا ریلوے میں ملازم ہو جاتا تھا یا پھر راج مستریوں کے ساتھ لگ جاتا تھا‘ اس شخص کی آمدنی خاندان کی بچت ہوتی تھی‘ بہ بچت شادی بیاہ کے کام آتی تھی یا بیماری اور حادثوں کے اخراجات پورے کر دیتی تھی یا پھر گھر میں نئے کمرے ڈالنے کے کام آتی تھی۔

جارجیا کی کھاچا پوری کی طرح ہمارے دیہات اور شہروں کی بھی کوئی نہ کوئی مخصوص خوراک ہوتی تھی‘ گاؤں کے لوگ تنوری روٹی پر مکھن لگا کر یا پھر اچار رکھ کر دن گزار لیتے تھے‘ لسی پورے گاؤں کا مشروب تھی‘ آپ جہاں جاتے‘ آپ کو وہاں لسی کا پیالہ ضرور ملتا‘ آپ اگر معزز مہمان ہیں تو آپ کو دودھ کا پیالہ عنایت ہو جاتا تھا‘ یہ دودھ مکمل غذا ہوتی تھی‘ شہروں میں کلچے‘ نان اور دال روٹی ملتی تھی‘ پورے شہر میں سیکڑوں تنور ہوتے تھے‘ آپ کسی تنور سے ایک نان اور دال لیتے اور پورا دن گزار لیتے تھے‘ ہم نے اپنی سماجی بے وقوفی سے صدیوں میں بنا یہ سسٹم ختم کر دیا‘ گاؤں میں فلیش سسٹم آیا‘ اس نے پورے گاؤں کا پانی آلودہ کر دیا‘ لوگوں نے بھینس‘ گائے‘ بکری اور مرغی رکھنا بھی بند کر دی۔

گاؤں کے لوگ گندم‘ دالیں اور ترکاری بھی خرید کر استعمال کرنے لگے‘ گڑ اور شکر کی جگہ چینی آ گئی‘ لسی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ چائے‘ کولڈ ڈرنکس اور ڈبے کے جوس آ گئے‘ دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی استعمال ہونے لگا‘ لکڑی اور اُپلوں کی جگہ گیس کے چولہے آ گئے‘ مسواک کی جگہ ٹوتھ برش آیا اور تیل کی جگہ شیمپو استعمال ہونے لگا ‘ یہ تمام چیزیں بازار سے ملتی ہیں اور انسان جب ایک بار بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بازار چلا جائے تو پھر اس کی غربت میں بھوک شامل ہوتے دیر نہیں لگاتی اور ہماری دیہی آبادی کے ساتھ یہی ہوا‘ یہ لوگ تیس برسوں میں غذائی خود مختاری سے بھوک کی محتاجی میں چلے گئے‘ یہ لوگ اب روز ہتھوڑی اور کَسّی لے کر فٹ پاتھوں پر 
بیٹھتے ہیں اور ہر گزرنے والے کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔

ہماری بربادی میں ہماری سماجی روایات کے انتقال نے بھی اہم کردار ادا کیا‘ میں نے بچپن میں گاؤں میں درجنوں شاندار روایات دیکھی تھیں‘ یہ روایات آہستہ آہستہ مر گئیں‘ ان کے انتقال نے عام آدمی کے معاشی بحران میں اضافہ کر دیا مثلاً گاؤں کی ہر بچی کی شادی پورا گاؤں مل کر کیا کرتا تھا‘ پورا گاؤں ایک ایک چیز گفٹ کرتا تھا اور یہ چیزیں مل کر جہیز بن جاتی تھیں‘ بارات کے لیے کھانا پورا گاؤں مل کر بناتا تھا‘ باراتیوں کی رہائش کا بندوبست پورا گاؤں کرتا تھا مثلاً مہمان پورے گاؤں کے مہمان ہوتے تھے۔

یہ رہتے کسی کے گھر میں تھے‘ ناشتہ کسی کے گھر سے آتا تھا‘ لنچ دوسرے گھر اور ڈنر تیسرے گھر میں ہوتا تھا‘ مثلاً کسی کا انتقال پورے گاؤں کی ’’میت‘‘ کہلاتا تھا۔ قل تک کا کھانا لوگ مل کر دیتے تھے‘ مثلاً گندم کی کٹائی پورا گاؤں مل کر کرتا تھا‘ مثلاً لڑائی میں پورا گاؤں اپنے ’’بندے‘‘ کے ساتھ کھڑا ہو تا تھا‘ تھانے کچہری میں پورا گاؤں جاتا تھا‘ مثلاً قتل تک کے جھگڑے پنچایت میں نبٹائے جاتے تھے‘ مثلاً گاؤں میں اجتماعی بیٹھک ہوتی تھی‘ اسے ’’دارا‘‘ کہا جاتا تھا‘ لوگ شام کے وقت اس دارے میں بیٹھ جاتے تھے‘ مثلاً گاؤں کا کوئی شخص بیمار ہو جاتا تھا تو پورا گاؤں اس کے ’’سرہانے‘‘ پیسے رکھ کر جاتا تھا‘ یہ پیسے پوچھ‘ سرعت یا عیادت کہلاتے تھے۔

یہ رقم مریض کے علاج پر خرچ ہوتی تھی‘ مثلاً بچہ پیدا ہوتا تھا تو گاؤں کے لوگ بچے کو پیسے دے کر جاتے تھے‘ یہ پیسے زچہ اور بچہ دونوں کی بحالی پر خرچ ہوتے تھے‘ مثلاً خوراک کا بارٹر سسٹم نافذ تھا‘ آپ گندم دے کر چنے لے لیتے تھے اور مسور دے کر گُڑ حاصل کر لیتے تھے‘ مثلاً آپ نائی کو گندم دے کر حجامت کرا لیتے تھے‘ بکری دے کر موچی سے جوتے لے لیتے تھے اور گنے دے کر درزی سے کپڑے سلا لیتے تھے‘ مثلاً کوئی بچی روٹھ کر میکے آ جاتی تھی تو پورا گاؤں ڈنڈے لے کر سسرالی گاؤں پہنچ جاتا تھا‘ مثلاً لوگ ضرورت کے وقت دوسروں سے برتن‘ کپڑے‘ جوتے‘ زیورات اور جانور ادھار لے لیتے تھے اور مثلاً قدرتی آفتوں یعنی سیلاب‘ زلزلے اور آندھیوں کے بعد پورا گاؤں مل کر گری ہوئی دیواریں اور چھتیں بنا دیتا تھا‘ یہ ’’سوشل ارینج منٹ‘‘ غربت اور بھوک کے درمیان بہت بڑی خلیج تھا۔ یہ بندوبست سیکڑوں ہزاروں سال کے سماجی تجربے کے بعد بنا تھا۔

یہ غریب کو بھوکا نہیں رہنے دیتا تھا لیکن ہم نے یہ سماجی بندوبست بھی ختم کر دیا۔ ہم نے نیا نظام بنائے بغیر پرانا نظام توڑ دیا‘ ہم نے اپنے لوگوں کو لسی‘ نیوندرے‘ دارے‘ پوچھ اور بارٹر سسٹم چھوڑنے سے قبل یہ نہیں بتایا کارپوریٹ نظام میں لوگ اہم نہیں ہوتے‘ لوگوں کا ہنر‘ لوگوں کی پرفارمنس اور لوگوں کی آؤٹ پٹ اہم ہوتی ہے‘ آپ اگر مائیکرو سافٹ کو کما کر دے رہے ہیں تو بل گیٹس آپ کو جھک کر سلام کرے گا لیکن آپ اگر کمپنی کے پرافٹ میں اضافہ نہیں کر رہے تو پھر آپ خواہ بل گیٹس کے والد محترم ہی کیوں نہ ہوں۔

آپ کمپنی کی دیواروں کے سائے تک میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔ آپ کا مقدر بھوک‘ غربت‘ بیماری اور فٹ پاتھ ہوں گے‘ ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ آج اسی کرب سے گزر رہا ہے‘ یہ روز آنکھوں میں بھوک کا سرمہ لگا کر ہر گزرتی گاڑی کو امید اور نفرت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ نفرت اور یہ امید اس وقت تک قائم رہے گی جب تک مزدور آٹے اور روٹی کے لیے کام کرتا رہے گا‘ یہ 
جب تک غربت اور بھوک کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھے گا۔

جاوید چوہدری

 

انصاف کی صورتحال



آمنہ کا تعلق مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے گاؤں لنڈی پتافی سے تھا‘ آمنہ کی عمر 22 سال تھی‘ اس کے تین جرم تھے‘ اس کا پہلا جرم سماجی کمزوری تھا‘ یہ کمزور خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور آپ اگر سماجی لحاظ سے کمزور ہیں تو اس ملک میں آپ کے 75 فیصد انسانی حقوق پیدا ہوتے ہی سلب ہو جاتے ہیں‘ اس کا دوسرا جرم خوبصورتی تھا‘ یہ جسمانی لحاظ سے خوبصورت بچی تھی اور آپ اگر خاتون ہیں اورخوبصورت بھی ہیں تو آپ جان لیں آپ اس ملک میں محفوظ نہیں ہیں‘ آپ بیری کا وہ درخت ہیں جس پر دن رات پتھر پڑیں گے‘ ہمارے ملک میں بچیاں اس وقت زیادہ غیر محفوظ ہو جاتی ہیں جب یہ خوبصورت بھی ہوں اور ان کا خاندان بھی کمزور ہو اور آمنہ میں یہ دونوں خامیاں موجود تھیں اور آمنہ کا تیسرا جرم اس کا پاکستان میں پیدا ہو نا بھی تھا‘ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے‘ نہیں ہے تو انصاف نہیں‘ ہم مانیں یا نہ مانیں ہمارے ملک میں آج بھی حکمران وقت چیف جسٹس ہوتے ہیں‘ فیصلہ بڑا ہو یا چھوٹا یہ فیصلہ بہرحال یہ لوگ ہی کرتے ہیں۔

خدا کی پناہ جس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا جائے کہ یہ عین اس دور میں ملک کے سب سے بڑے لیڈر تھے جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا تھا اور میاں نواز شریف کے پورے خاندان کو اس لیے جیلوں میں پھینک دیا جائے اور ملک سے زبردستی جلا وطن کر دیا جائے کہ تین جرنیلوں نے اقتدار پر قابض ہونے کا فیصلہ کر لیا تھااور یہ جرنیل جب اقتدار پر قابض ہو جائیں تو سپریم کورٹ نہ صرف ان کی انا کی توثیق کر دے بلکہ انھیں ملکی آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دے لہٰذا جس ملک میں انصاف کی صورتحال یہ ہو‘ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگا دیا جاتا ہوں‘ میاں نواز شریف کو خاندان سمیت جدہ پھینک دیا جاتا ہو اور جس میں ماتحت جنرل پرویز مشرف ایوان صدر آئے اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر رفیق احمد تارڑ کو کرائے کی گاڑی میں بٹھا کر لاہور روانہ کر دے اور اپنے آپ کو صدر ڈکلیر کر دے‘ اس ملک میں آمنہ جیسی بچیوں کا پیدا ہونا جرم نہیں تو کیا ہے؟ اور آمنہ اس جرم کی سزا وار بھی تھی‘ مجرم آمنہ علاقے کے بااثر خاندان کے ایک سپوت نادر حسین بھنڈ کوپسند آ گئی‘ اس نے رشتہ مانگا‘ آمنہ کے والدین نے انکار کر دیا‘ ہمارے ملک میں انکار سننے کی روایت موجود نہیں اور یہ انکار اگر کسی نوجوان بچی کے غریب والدین کی طرف سے ہو تو یہ ناقابل معافی جرم بھی ہوتا ہے‘ نادر بھنڈ مائینڈ کر گیا چنانچہ اس نے 5 جنوری 2014ء کو آمنہ کو اٹھا لیا‘ یہ پانچ لوگ تھے‘ ان پانچ لوگوں نے آمنہ کے ساتھ وہ کیا جو یہ لوگ کر سکتے تھے‘ آمنہ کو درندگی کا نشانہ بنا کر باہر پھینک دیا گیا۔

یہ بچی صرف ’’مجرم‘‘ نہیں تھی‘ یہ بے وقوف بھی تھی اور ظالم بھی۔ آپ اس کی بے وقوفی ملاحظہ کیجیے‘ یہ انصاف لینے کے لیے اپنی ماں کے ساتھ تھانے چلی گئی‘ ایسے مقدمے تھانوں کے لیے صرف مقدمے نہیں ہوتے‘ یہ سونے کی کان ہوتے ہیں‘ ایف آئی آر درج ہوتی ہے‘ ملزم گرفتار ہوتے ہیں‘ ملزموں سے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں‘ میڈیکل رپورٹ کے نام پر ڈاکٹروں کو بھی نوازا جاتا ہے‘ کیس عدالتوں میں جاتے ہیں تو وکیلوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے‘ مظلوم کو انصاف تک پہنچنے کے لیے وکیل کرنا پڑتا ہے‘ متاثرہ خاتون کو بار بار عدالت طلب کیا جاتا ہے‘ اس سے درجنوں لوگوں کی موجودگی میں پوچھا جاتا ہے‘ بی بی بتا‘ ان میں سے کون کون تھا‘ کس نے کیا کیا‘ تمہیں اچھا لگا یا برا‘ شروع میں برا لگا‘ پھر اچھا لگا اور آخر میں بہت برا‘ مقدمہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا ہے‘ ڈاکٹر‘ تفتیشی اور وکیل امیر ہوتے جاتے ہیں‘ انصاف کے اندھے عمل کے دوران متاثرہ خاتون عزت‘ توقیر‘ ذہنی توازن اور روحانی قوت تمام اثاثوں سے محروم ہو جاتی ہے‘ یہ کیس بھی تھانہ بیٹ میر ہزار خان کے عملے کے لیے رزق کا ذریعہ بن گیا‘ ملزم گرفتار ہوئے‘ ملزموں سے ستر ہزار روپے وصول کیے گئے‘ ’’جرم‘‘ کے آثار ختم کیے گئے‘ ’’مجرم آمنہ‘‘ کے بیانات میں سے تضادات تلاش کیے گئے اور آخر میں پولیس نے ملزمان کو بے گناہ قرار دے دیا‘ آمنہ اور اس کی ماں کو بلیک میلر کا ٹائیٹل دے دیا گیا۔

پولیس کی نظر میں آمنہ بلیک میلر تھی‘یہ ایک ایسی بلیک میلر بھی جو باعزت خاندانوں کی عزت اچھالنا چاہتی تھی‘ عدالت نے 13 مارچ کو باعزت نادر حسین بھنڈ کو باعزت بری کر دیا‘ نادر بھنڈ کے دوستوں نے عدالت کے سامنے مٹھائی تقسیم کی‘ ڈھول بجائے اور یہ لوگ نعرے لگاتے ہوئے واپس آ گئے‘ آمنہ اس عظیم اور بروقت انصاف کی تاب نہ لا سکی‘ یہ اپنی ماں کے ساتھ تھانے پہنچی‘ ایس ایچ او اور تفتیشی آفیسر کے بارے میں پوچھا‘ یہ دونوں تھانے میں موجود نہیں تھے‘ آمنہ تھانے سے باہر آئی‘ اس نے اپنے اوپر تیل چھڑکا اور خود کو آگ لگا لی‘ لوگوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن آگ اگر صرف باہر ہوتی تو یہ شاید بجھ بھی جاتی‘ آمنہ تو باہر اور اندر دونوں طرف سے جل رہی تھی چنانچہ آگ نہ بجھی‘ یہ بچی اگلے دن نشتر اسپتال ملتان میں انتقال کر گئی۔

میں نے عرض کیا ناں یہ بچی مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ بے وقوف بھی تھی اور ظالم بھی۔ یہ اگر بے وقوف نہ ہوتی تو یہ کبھی تھانے نہ جاتی‘ یہ اس ملک کے نظام کو اسی دن سمجھ جاتی جس دن یہ دن دھاڑے اغوا ہوئی تھی اور اس کے ساتھ جب پانچ لوگوں نے زیادتی کی‘ اسے معلوم ہو جانا چاہیے تھا‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ آمنہ کو چاہیے تھا‘ یہ اس ظلم کو چپ چاپ پی جاتی‘ یہ اپنی بے عزتی کے ساتھ سمجھوتہ کرتی اور چپ چاپ گھر بیٹھ جاتی لیکن یہ کیونکہ بے وقوف تھی اور یہ غباروں کے جوتے پہن کر کانٹوں پر چل پڑی تھی اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ایسے بے وقوفوں کے ساتھ ہوتا ہے‘ یہ بچی صرف بے وقوف ہوتی تو شاید مجھے کوئی پروا نہ ہوتی‘ ملک میں ایسی کروڑوں آمنائیں ہیں جو پیدا ہی دکھ سمیٹنے اور مرنے کے لیے ہوتی ہیں مگر یہ بچی ظالم بھی تھی اور مجھے اس کے ظالم ہونے پر اعتراض ہے۔

آمنہ نے خود کو تھانے کے سامنے آگ لگا کر ملک میں انصاف کا متبادل نظام متعارف کروا دیا‘ اس نے ملک کی تمام آمناؤں کو بتا دیا‘ آپ اگر انصاف چاہتی ہیں تو آپ کو اپنے جسم پر تیل چھڑکنا ہوگا‘ ماچس جلانی ہوگی اور سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے سامنے خود کو آگ لگانی ہو گی‘ تم اگر یہ کر لو گی تو میڈیا بھی تمہارے دروازے پر آ جائے گا‘ چیف جسٹس بھی سوموٹو ایکشن لے لیں گے‘ وزیراعلیٰ بھی تمہارے گھر پہنچے گا‘ آئی جی بھی لوگوں کے سامنے خفت اٹھائے گا‘ آر پی او بھی معطل ہو گا‘ ایس ایچ او اور تفتیشی بھی گرفتار ہو گا‘ ملزمان کو جیل میں بھی ڈالا جائے گا‘ فرانزک لیبارٹری بھی چل پڑے گی‘ گواہ بھی مل جائیں گے‘ ڈاکٹر بھی اصل رپورٹ لے کر حاضر ہو جائے گا‘ ماں کو پانچ لاکھ روپے اور بھائی کو نوکری بھی مل جائے گی اور ملک کے بڑے صحافی اور اینکر بھی تمہارا نام لیں گے‘ آمنہ ظالم تھی‘ یہ ملک کو انصاف کا متبادل نظام دے گئی‘ یہ 18 کروڑ مظلوم پاکستانیوں کو بتا گئی تم اگر انصاف چاہتے ہو‘ شہرت چاہتے ہو‘ ماں کی مالی امداد کرانا چاہتے ہو‘ پولیس کا احتساب کرانا چاہتے ہو‘ ڈاکٹر سے اصل میڈیکل سرٹیفکیٹ لینا چاہتے ہو‘ چیف جسٹس کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہو‘ چیف منسٹر کو مظلوم کے دروازے پر دیکھنا چاہتے ہو‘ بھائی کی نوکری کا بندوبست کرانا چاہتے ہو اور دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہو جتوئی بھی ایک تحصیل ہے اور اس تحصیل میں لنڈی پتافی نام کا ایک گاؤں بھی ہے تو پھر تمہیں ایک موم بتی‘ ایک شمع جلانا ہوگی‘ اپنے بدن کی موم بتی‘اپنے جسم کی شمع جلانا ہوگی‘ تم خود کو مشعل بنا لو‘ تم اپنی مظلومیت کے دھاگے کو آگ لگا ؤ اور انسانیت کی موم کو دنیا کے سامنے پگھل جانے دو‘ پورا ملک تمہاری طرف متوجہ ہو جائے گا‘ تمہارے بدن کی آگ نظام کی نیند اڑا دے گی اور آمنہ‘ ظالم آمنہ نے یہ کیا‘ اس نے سمجھوتوں کے کیچڑ میں لپٹے معاشرے کے ہاتھ میں بدن کی مشعل پکڑا دی اور اب میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اورعمران خان اور الطاف بھائی اور مولانا فضل الرحمن اور چوہدری شجاعت حسین اور جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور پارلیمنٹ شریف تمام ادارے تمام لوگ مشعلیں گننا شروع کردیں‘ ایک آمنہ کے بعد دوسری آمنہ اور دوسری آمنہ کے بعد سیکڑوں ہزاروں آمناؤں کے لیے چیک تیار کر لیں اور ہیلی کاپٹروں میں پٹرول ڈلوا لیں کیونکہ جسموں کی مشعلیں تیل سے تر ہو چکی ہیں‘ ہماری ہر گلی میں ایک آمنہ بیٹھی ہے اور اس آمنہ کے ہاتھ میں جتوئی کی آمنہ نے اپنے جسم کی مشعل پکڑا دی ہے۔

جاوید چوہدری

Enhanced by Zemanta

دی گیونگ پلیج


بل گیٹس اور وارن بفٹ دنیا کی امیر ترین شخصیات ہیں‘ بل گیٹس مائیکرو سافٹ کے بانی ہیں جب کہ وارن بفٹ سرمایہ کاری کی درجنوں کمپنیوں کے مالک ہیں‘ یہ دونوں دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے لوگ بھی ہیں‘ بل گیٹس 95 فیصد جب کہ وارن بفٹ 99 فیصد دولت دنیا کے غریبوں کے لیے وقف کر چکے ہیں‘ بل گیٹس اور وارن بفٹ نے 2010ء میں’’ دی گیونگ پلیج‘‘ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ بنایا‘ یہ ادارہ ’’بلینر کلب‘‘ بھی کہلاتا ہے‘ اس کلب کی ممبر شپ کی صرف دو شرائط ہیں‘ ایک‘ دنیا کے صرف ارب پتی لوگ اس کلب کے رکن بن سکتے ہیں‘ دو‘ یہ کلب صرف ان ارب پتی لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے جو اپنی دولت کا کم از کم آدھا حصہ خیرات کرنے کے لیے تیار ہوں‘ جولائی 2013ء تک دنیا کے 115 ارب پتیوں نے اس کلب کی ممبر شپ حاصل کر لی تھی‘ ان ارب پتیوں میں زنانہ مصنوعات بنانے والی کمپنی (Spanx) کی مالکہ سارا بلیک لی‘ بل گیٹس کے ساتھی اور مائیکرو سافٹ کے بانی رکن پال ایلن (یہ دنیا کے 53 ویں امیر ترین شخص ہیں)‘ فلم ساز سٹیو بینگ‘ امریکی بزنس مین اور سیاستدان مائیکل بلومبرگ (یہ 31 بلین ڈالر کے مالک ہیں)‘ آریکل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر لیری ایلی سن‘ فیشن ڈیزائنر ڈیانی وان فرسٹن برگ‘ آسٹریلین بزنس مین اینڈریو ٹویگی فاریسٹ شامل ہیں‘ ان کے علاوہ امریکا کے بڑے بزنس مین ریڈ ہیسٹنگز‘ ہلٹن ہوٹلز کے مالک بیرن ہلٹن‘ جارج لوکس‘ جیفری اسکول‘سڈنی کیمل‘ ٹیڈ ٹرنر اور مارک ذکر برگ بھی اس فہرست میں شامل ہیں‘ یہ تمام لوگ اپنی دولت کا نصف سے تین چوتھائی حصہ عام لوگوں کے لیے وقف کر چکے ہیں۔ ’’دی گیونگ پلیج‘‘ چیرٹی کے لیے ریسرچ بھی کرتا ہے‘ یہ ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں‘ یہ ماہرین پوری دنیا کا سروے کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ڈونر کو وہ شعبے بتاتے ہیں جن میں یہ اپنی دولت لگا سکتے ہیں مثلاً آپ بل گیٹس کو لے لیجیے‘ یہ پوری دنیا کے بچوں کے لیے ویکسین تیار کرتے ہیں‘ بل گیٹس نے دسمبر 1999ء میں پولیو کے خلاف جہاد شروع کیا‘ پولیو اس وقت 127 ممالک میں موجود تھا‘ بل گیٹس نے اربوں روپے کی پولیو ویکسین تیار کرائی اور عالمی ادارہ صحت کی مدد سے یہ ویکسین بچوں تک پہنچانا شروع کر دی‘ آج بل گیٹس کی وجہ سے پولیو صرف تین ممالک پاکستان‘ افغانستان اور نائیجیریا تک محدود ہے‘ بل گیٹس ان ممالک کو بھی پولیو فری بنانا چاہتے ہیں‘ یہ پاکستان کے ہر وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہیں اور صرف ایک ہی درخواست کرتے ہیں ’’آپ مہربانی کر کے پولیو ورکرز کو تحفظ دیں تا کہ ہم آپ کے ملک سے پولیو ختم کر سکیں‘‘ حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن شکیل آفریدی کی ’’مہربانی‘‘ سے ہمارے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرات کا شکار ہو چکی ہیں‘ شکیل آفریدی این جی او ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کے ملازم تھے‘ انھوں نے پولیو ویکسی نیشن کی جعلی مہم تیار کی‘ ایبٹ آباد کی دو ایل ایچ ڈبلیوز آمنہ بی بی اور بخت بی بی کی خدمات حاصل کیں‘ یہ خواتین اسامہ بن لادن کے گھر میں داخل ہوئیں‘ اسامہ کے بچے کا ڈی این اے لیا‘ یہ ڈی این اے اسامہ کے ڈی این اے سے میچ ہو گیا اور امریکا نے خون کے اس قطرے کی بنیاد پر اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ کر دیا‘ اسامہ بن لادن مارے گئے لیکن پاکستان کے لاکھوں بچوں کی زندگیاں اندیشوں میں گھر گئیں‘ اسامہ بن لادن کو ہیرو ماننے والے آج پولیو ورکرز کو شکیل آفریدی سمجھ کر ان پر حملے کر رہے ہیں ‘ ان حملوں میں پولیو ورکرز اور ان کے محافظ قتل ہوتے ہیں‘ ان کے قتل کی خبریں عالمی میڈیا میں جگہ پاتی ہیں لیکن بل گیٹس اس کے باوجود پولیو کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں‘ یہ ہار نہیں مان رہے ‘پال ایلن نے اپنی دولت سائنسی ریسرچ کے لیے وقف کر دی ‘ یہ سائنس پر ریسرچ کرنے والے مختلف اداروں کو ڈونیشن دیتے ہیں‘ لیری ایلی سن اپنی دولت سے بڑھاپے اور اس کے علاج پر ریسرچ کرا رہے ہیں‘ ڈیانی وان نے اپنی دولت خواتین کے مسائل کے حل کے لیے وقف کر دی ہے جب کہ دوسرے بزنس مین اپنی دولت ماحولیات‘ صاف پانی‘ پرائمری تعلیم‘ میڈیکل اور جانوروں کی بہبود پر خرچ کر رہے ہیں۔

دنیا میں مسائل حل کرنے کے تین طریقے ہوتے ہیں‘ حکومت‘ عوام اور حکومت عوام۔ حکومتوں کا کام ملکوں میں نظام بنانا اور اس نظام پر سختی سے عمل کرانا ہوتا ہے لیکن اگر حکومتیں یہ کام نہ کرا سکیں تو پھر تمام تر ذمے داری عوام پر شفٹ ہو جاتی ہے‘ عوام کو آگے بڑھ کر اپنے مسئلے خود حل کرنا پڑتے ہیں لیکن اگر عوام بھی متحرک نہ ہوں تو پھر تیسرا طریقہ حکومت اور عوام کا اشتراک بچ جاتا ہے‘ عوام بالخصوص معاشرے کے بااثر لوگ اگر حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں تو مسائل حل ہونے لگتے ہیں اور یہ بلینر کلب تیسرا طریقہ ہے‘ یہ لوگ دوسرے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘ ہم اگر اپنے ملک کا جائزہ لیں تو ہمیں ماننا پڑے گا‘ ہمارے ملک میں حکومتیں اور عوام دونوں فیل ہو چکے ہیں‘ حکومت ختم ہو چکی ہے جب کہ عوام بے حسی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں چنانچہ اب معاشرے کو متحرک کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ بچتا ہے‘ ملک کے بااثر لوگ ’’دی گیونگ پلیج‘‘ کی طرح آگے آئیں‘ پاکستان میں بلینر کلب بنائیں اور حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں‘ یہ ملک دوبارہ پٹڑی پر آ جائے گا چنانچہ ملک ریاض‘ میاں منشاء اور اقبال زیڈ احمد جیسے لوگوں کو آگے بڑھنا چاہیے‘ یہ ’’ارب پتی کلب‘‘ بنائیں‘ یہ ملک کے بنیادی مسائل کی فہرست بنائیں‘ آپس میں شعبے تقسیم کریں‘ حکومت سے تعاون لیں اور کام شروع کر دیں‘ ان میں سے ایک بنیادی تعلیم کی ذمے داری اٹھالے‘ یہ جدید ترین سلیبس بنوائے‘ سرکاری اسکولوں کو بتدریج ’’اون‘‘ کرنا شروع کرے اور ملک میں تعلیم کا انقلاب برپا کر دے‘ کوئی ایک ارب پتی صحت کی ذمے داری اٹھا لے‘ یہ اسپتال بنوائے‘ میڈیکل کے طالب علموں کو اپنے ساتھ شامل کرے‘ بین الاقوامی ڈونرز کی مدد لے‘ ادویات پر ریسرچ کرائے اور عام اور غریب لوگوں کی طبی ضروریات پوری کر دے‘ کوئی صاف پانی کی ذمے داری اٹھا لے‘ کوئی ماحولیاتی آلودگی پر کام کرے‘ کوئی تھر میں پانی کا بندوبست کر دے‘ کوئی ملک میں سستے گھروں کی ٹیکنالوجی عام کر دے‘ کوئی غریب بچیوں کی شادیوں کا معاملہ سنبھال لے‘ کوئی منشیات کے خلاف بڑے پیمانے پر کام کرے‘ کوئی گھریلو تشدد کے خلاف قوانین بنوائے‘ کوئی یتیم بچوں‘ بیوہ عورتوں اور بوڑھے لوگوں کے سینٹر بنائے‘ کوئی ایمبولینس سروس شروع کر دے اور کوئی صرف قبرستانوں کی ذمے داری اٹھا لے‘ یہ لوگ اگر اکٹھے ہو جائیں‘ یہ کلب بنائیں‘یہ نظام ترتیب دیں اور اگر یہ ایک سسٹم کے تحت لوگوں کی مدد کرنا شروع کردیں توہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں ملک میں انقلاب آ جائے گا۔

پاکستان دنیا میں چیرٹی کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے‘ ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگ چیرٹی کرتے ہیں‘ ہمارے ملک کے بھوکے ترین لوگ بھی مسجد‘ درگاہ اور مدرسے کو چندہ دیتے ہیں یا دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں‘ اس کی وجہ ہماری کوششوں میں تسلسل اور خیراتی اداروں میں کوآرڈی نیشن کی کمی ہے‘ ملک کے مخیر حضرات چیرٹی کی منصوبہ بندی نہیں کرتے‘ یہ بیک وقت تمام مسائل جھولی میں ڈال لیتے ہیں‘ یہ دستر خوان بھی بنا لیتے ہیں‘ اسپتال بھی کھول لیتے ہیں‘ اسکول بھی قائم کر دیتے ہیں اور ایمبولینس سروس بھی شروع کر دیتے ہیں‘ منصوبہ بندی کی اس کمی کی وجہ سے چیرٹی ورکرز تھک جاتے ہیں‘ سرمایہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور مسائل بھی قائم رہتے ہیں‘ یہ لوگ بھی اگر امریکی بزنس مینوں کی طرح آپس میں ایک ایک شعبہ تقسیم کر لیں تو اس سے مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور یہ لوگ اپنے اپنے شعبے کے ایکسپرٹ بھی بن جائیں گے‘ پاکستان میں چیرٹی کا دوسرا بڑا مسئلہ مذہبی تنظیمیں اور ادارے ہیں‘ یہ ادارے اور تنظیمیں انتہائی فعال اور متحرک ہیں‘ یہ عام لوگوں سے رابطے میں بھی ہیں لیکن صرف مساجد‘ درگاہوں اور مدارس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں‘ یہ زندگی کے دوسرے شعبوں کو اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے‘ یہ درست ہے‘ مدارس‘ درگاہیں اور مساجد بھی ضروری ہیں لیکن معاشرہ بھی ہم سب کی ذمے داری ہوتا ہے‘ میں نے آج تک کسی مذہبی تنظیم کو منشیات کے خلاف کام کرتے نہیں دیکھا‘ کاش ملک کی کوئی ایک مذہبی تنظیم ہیروئن کی لت میں مبتلا نوجوانوں کی ذمے داری اٹھا لے‘ یہ ملک بھر میں نشیوں کی بحالی کا ذمے اٹھا لے یا کوئی مذہبی تنظیم بوڑھوں کے لیے اولڈ ہومز بنا لے یا پھر کوئی مذہبی تنظیم پورے ملک کو صاف پانی کی فراہمی شروع کر دے یا پھر کوئی مذہبی جماعت تھر کے قحط زدہ علاقوں میں پانی کے تالاب بنا دے یا پھر کوئی جماعت پورے ملک میں بلڈ بینکس قائم کر دے یا پھر کوئی مذہبی جماعت پولیو ویکسین کی ذمے داری اٹھا لے یا کوئی مذہبی جماعت ملک بھر میں چوکیدار کا نظام بنا دے یا کوئی مذہبی جماعت ٹریفک‘ ٹریفک سگنلز یا صفائی کا نظام سنبھال لے‘ ہماری مذہبی جماعتیں ان مسائل کو اپنی ذمے داری کیوں نہیں سمجھتیں‘ یہ صرف مساجد‘ مدارس اور درگاہوں تک کیوں محدود ہو کر رہ گئی ہیں؟ یہ عام انسانوں کو اپنا فرض کیوں نہیں سمجھتیں؟۔عالم اسلام بالخصوص ہمارے ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی گورے خیرات میں بھی ہم سے آگے نکل گئے‘ ہمارے ملک سے پولیو ختم کرنے کی ذمے داری بھی بل گیٹس نے اپنے سر لے رکھی ہے جب کہ ہم پولیو ورکرز کو قتل کر رہے ہیں‘ کاش ہمارے علما پولیو کے خلاف اکٹھے ہو جائیں اور ارب پتی سرمایہ کار ملک میں ’’دی گیونگ پلیج‘‘ جیسے ادارے بنا لیں‘ یہ نیکی کے کام میں ہی جمع ہو جائیں۔

Enhanced by Zemanta

یہ ہیں اصل مسلمان.........(Saylani Welfare Trust)

سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کراچی کے تاجر طبقے کا ایک حیران کن منصوبہ ہے‘ یہ ٹرسٹ مولانا بشیر فاروقی نے 1999ء میں قائم کیا‘ مولانا میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ مسلک کے لحاظ سے حنفی ہیں‘ کراچی میں باردانے کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھے‘ جوانی میں طبیعت مذہب کی طرف مائل ہوئی‘ دارالعلوم میں داخل ہوئے‘ مذہبی اور روحانی تعلیم حاصل کی‘ استخارے میں مہارت حاصل کی‘ لوگ ان کے دیوانہ وار مرید ہوئے‘ مذہبی چینل پر لائیو استخارہ شروع کیا‘ زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا‘ کراچی کی بزنس مین کمیونٹی میں روحانی رسوخ بنا‘ یہ عملی شخصیت ہیں چنانچہ انھوں نے میمن کمیونٹی کے ساتھ مل کر پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھ دی‘ سیلانی ٹرسٹ کا نام انھیں خانقاہ ڈوگراں میں مدفن خواجہ محکوم الدین سیلانی سے ملا‘یہ بزرگ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہتے تھے‘ یہ اس معمول کی وجہ سے سیلانی کہلاتے تھے‘ یہ سیلانی تھے لیکن سمہ سٹہ ان کا مرکز تھا‘ یہ گھوم پھر کر واپس سمہ سٹہ اور خانقاہ ڈوگراں آجاتے تھے‘ دنیا کے تمام جینوئن بزرگ لنگر ضرور شروع کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ رازق ہے‘ یہ آگ اور پتھر کے کیڑوں کو بھی رزق پہنچاتا ہے چنانچہ یہ ہر اس شخص کو پسند کرتا ہے جو دوسروں کے رزق کا ذریعہ بنتا ہے۔

آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دنیا بھر کی سستی فوڈ چینز کی اسٹڈی کر لیں‘ دنیا کے کسی بھی کونے میں بننے والی سستی فوڈ چین دوسری مصنوعات کے مقابلے میں دس گنا تیزی سے ترقی کرتی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ چین لوگوں کو سستا رزق فراہم کرتی ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کی آمدنی میں برکت ڈال دیتا ہے‘ صوفیاء کرام کیونکہ اللہ کے اس نظام کو سمجھتے ہیں لہٰذا یہ اپنی درگاہ پر لنگر کا اہتمام ضرور کرتے ہیں‘ یہ بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور یوں ان کا آستانہ‘ ان کی درگاہ بادشاہوں کے دربار سے زیادہ اہمیت اختیارکر لیتی ہے‘ دہلی کے تمام مسلمان حکمران دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ان کے دربار اور محلات اجڑ گئے لیکن دہلی کے صوفیاء کرام کے دربار آج بھی قائم ہیں‘ ان درباروں کی رونق کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ ان کا لنگر بھی ہے‘ ان کا دستر خوان قائم ہے چنانچہ ان کی درگاہ بھی سلامت ہے‘ خانقاہ ڈوگراں کے سیلانی بابا بھی بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے‘ آپ کے اس روحانی ذوق کی وجہ سے آپ کے دربار میں بہت رونق تھی‘ یہ رونق آج بھی قائم ہے‘ سیلانی بابا آخری عمر میں سفر کے لیے نکلے‘ بھارت کے علاقے دھراجی میں قیام کیا اور وہاں ان کا وصال ہو گیا‘ دھراجی کے لوگوں نے آپ کو اپنے علاقے میں دفن کردیا‘ سمہ سٹہ کے لوگوں کو علم ہوا تو یہ دھراجی پہنچ گئے اور آپ کی میت کا مطالبہ کردیا۔

دھراجی کے لوگوں نے انکار کر دیا‘ نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی‘ اس دوران خواجہ محکوم الدین سیلانی دھراجی کے راجہ کے خواب میں آئے اور اس کو حکم دیا‘ آپ ان لوگوں کو میری لاش لے جانے دو‘ میں وہاں بھی رہوں گا اور آپ کے پاس بھی‘ راجہ نے اس حکم پر لبیک کہا‘ آپ کے مریدین آپ کا وجود اطہر لے کر سمہ سٹہ آ گئے اور خانقاہ شریف میں آپ کو دفن کر دیا‘ دھراجی کے راجہ نے تجسس سے مغلوب ہو کر ایک دن آپ کی خالی قبر کھول کر دیکھی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ حضرت صاحب قبر میں قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے‘ راجہ نے قبر بند کی اور اس پربھی مزار بنوا دیا‘ یوں دنیا میں خواجہ محکوم الدین سیلانی بابا کے دو مزار ہیں‘ بھارت کے علاقے دھراجی اور پاکستان کے شہر سمہ سٹہ کے مضافات میں ‘ مولانا بشیر فاروقی اور ان کے ساتھیوں نے جب 1999ء میں ویلفیئر ٹرسٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ لوگ نام تلاش کرنے لگے‘ آپ حسن اتفاق دیکھئے‘ یہ لوگ ٹرسٹ قائم کرنے کے لیے کراچی کی جس عمارت میں اکھٹے ہوئے وہ عمارت سیلانی چوک میں واقع تھی اور وہ علاقہ دھراجی کہلاتا تھا‘ ان لوگوں نے اسے قدرت کا اشارہ سمجھا اور اپنے ادارے کا نام سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ رکھ دیا۔

یہ ٹرسٹ پندرہ سال قبل بنا لیکن اس نے کراچی‘ حیدر آباد اور فیصل آباد میں کمال کر دیا‘ کراچی شہر میں اس کے 52 دستر خوان ہیں‘ ان دستر خوانوں پر روزانہ ایک لاکھ لوگ مفت کھانا کھاتے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ روزانہ 500 بکرے ذبح کرتا ہے‘ یہ ان کا سالن پکا کر غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور جو گوشت بچ جاتا ہے‘ یہ لوگ اسے غریبوں کی بستیوں میں بانٹ دیتے ہیں‘ یہ کراچی کے پانچ ہزار گھرانوں کی کفالت بھی کر رہے ہیں‘ یہ انھیں مہینے بھر کا راشن دیتے ہیں‘ ان کے گھروں کا کرایہ ادا کرتے ہیں‘ ان کے یوٹیلٹی بل ادا کرتے ہیں‘ ان کے بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرتے ہیں اور انھیں ادویات بھی فراہم کرتے ہیں‘ یہ پانچ ہزار خاندان وہ ہیں جن کے سربراہ ٹارگٹ کلنگ‘ ایکسیڈنٹ یا فساد میں مارے گئے اور ان کے خاندان کا کوئی کفیل نہیں‘ یہ لوگ اس مد میں ہر مہینے اڑھائی کروڑ روپے خرچ کرتے ہیں‘ یہ انتہائی غریب لوگوں کو گھر اور فلیٹ بھی بنا کر دے رہے ہیں‘ یہ بیروزگاروں کو رکشے بھی خرید کر دیتے ہیں۔

کراچی شہر میں انھوں نے ساڑھے سات سو رکشے دیے‘ رکشہ مالکان سیلانی ٹرسٹ کو روزانہ اڑھائی سو روپے ادا کرتے ہیں اور اٹھارہ ماہ بعد رکشے کے مالک بن جاتے ہیں‘ یہ پاپ کارن اور چائے کی چھوٹی مشینیں بھی دیتے ہیں‘ کراچی میں انھوں نے ایک ڈسکاؤنٹ اسٹور بھی قائم کیا‘ اس اسٹور سے کوئی بھی شخص خریداری کر سکتا ہے‘ خریداروں کو اسٹور میں 30 فیصد رعایت ملتی ہے‘ یہ ہر مہینے ساڑھے چار سو بچیوں کو جہیز بھی دیتے ہیں‘ یہ دس ہزار طالب علموں کو وظائف بھی دے رہے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ نے ایک انتہائی دلچسپ چیز بھی ایجاد کی‘ انھوں نے فائر موٹر سائیکل بنوائے‘ یہ موٹر سائیکل آگ بجھاتے ہیں‘ موٹر سائیکلوں پر پانی کے چھوٹے ٹینک اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے سلینڈر لگے ہیں‘ یہ موٹر سائیکل چند منٹوں میں ان گلیوں میں گھس جاتے ہیں جہاں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں نہیں پہنچ پاتیں‘ یہ وہاں پہنچ کر فوراً آگ بجھا دیتے ہیں‘ میری چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ سے درخواست ہے‘ یہ سیلانی ٹرسٹ کی اس ایجاد سے فائدہ اٹھائیں‘ موٹر سائیکلوں کو بھی فائر بریگیڈ کا حصہ بنائیں‘ اس سے ہزاروں لوگوں کو فائدہ ہو گا‘ یہ لوگ کراچی کے لیے لمبی لمبی سیڑھیاں بھی درآمد کر رہے ہیں‘ یہ ایسے غبارے بھی لا رہے ہیں جو آگ لگنے کی صورت میں عمارتوں کے نیچے بچھا دیے جائیں گے اور لوگ ان پر کود کر جان بچا سکیں گے۔

سیلانی ٹرسٹ نے ڈسپنسریاں بھی بنا رکھی ہیں‘ یہ بنیادی صحت پر بھی کام کر رہے ہیں‘ یہ موبائل کلینک بھی بنا رہے ہیں‘ ان کے چھوٹے اسپتال بھی ہیں‘ یہ کمپیوٹر ٹریننگ کا پروگرام بھی چلا رہے ہیں‘ ان کی کمپیوٹر لیب میں پانچ سو طالب علم مفت ٹریننگ لیتے ہیں اور یہ ٹریننگ کے بعد مہینے میں تیس چالیس ہزار روپے کما لیتے ہیں اور یہ لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے انھیں مختلف قسم کے ہنر بھی سکھاتے ہیں‘ سیلانی ٹرسٹ 63 شعبوں میں کام کر رہاہے‘ یہ ویلفیئر پر سالانہ دو سو 15 کروڑ روپے (سودو ارب) خرچ کرتے ہیں‘ ان کے ڈونرز کراچی کے بڑے بزنس مین ہیں‘ یہ بزنس مین اس ادارے کے ٹرسٹی ہیں‘ یہ ادارے کو وقت بھی دیتے ہیں‘ توانائی بھی اور سرمایہ بھی چنانچہ یہ ادارہ صرف پندرہ برس میں پاکستان کا سب سے بڑا ٹرسٹ بن گیا‘ اس میں اس وقت رضا کاروں کے علاوہ تیرہ سو لوگ کام کرتے ہیں‘ ادارہ ان ملازمین کو دانت صاف کرنے‘ ناخن کانٹے‘ جوتے پالش کرنے‘ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے اور صاف لباس پہننے کا الاؤنس دیتا ہے‘ یہ ملازمین کو کتابیں بھی فراہم کرتا ہے۔

میں سیلانی فاؤنڈیشن کا کام دیکھنے کے لیے ہفتہ اور اتوار دو دن کراچی گیا‘ مجھے ان دو دنوں میں مولانا بشیر فاروقی (جنھیں یہ لوگ حضرت صاحب کہتے ہیں) سے تین ملاقاتوں کا موقع ملا‘ حضرت صاحب نے اپنی زندگی اور وقت سیلانی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دی ہے‘ یہ صبح سے رات تک سیلانی ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر میں رہتے ہیں‘ یہ ادارے کا کام بھی دیکھتے ہیں اور سیکڑوں لوگوں کے لیے استخارہ بھی کرتے ہیں‘ کراچی کے چند بڑے بزنس مینوں نے بھی خود کو سیلانی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دیا ہے‘ یہ لوگ کاروبار اپنے بچوں کو سونپ کر سیلانی ٹرسٹ کے ہو کر رہ گئے ہیں‘ یہ اپنے ہاتھ سے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں‘ انھیں راشن دیتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں‘ یہ لوگ ہڑتالوں اور فسادات کے دنوں میں کراچی کے محصورعلاقوں میں خوراک تقسیم کرتے ہیں‘ اتوار کے دن سیلانی ٹرسٹ نے پی اے ایف میوزیم میں دو ہزار دو سو طالب علموں کا ٹیسٹ لیا‘ یہ نوجوان کمپیوٹر کورس کرنا چاہتے ہیں۔

سیلانی ٹرسٹ نے ان بائیس سو طالب علموں میں سے ساڑھے چار سو طالب علم منتخب کیے‘ ٹرسٹ ان نوجوانوں کو مفت کمپیوٹر کورس کروائے گا‘ یہ کورس انتہائی جدید اور مفید ہے‘ یہ نوجوان اس کورس کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے‘ میں نے زندگی میں پہلی بار ایک وسیع ٹینٹ کے نیچے دو ہزار دو سو نوجوانوں کو ٹیسٹ دیتے دیکھا‘ ان نوجوانوں کے لیے کرسی اور میز دونوں کا بندوبست تھا‘ یہ انتظام بذات خود حیران کن تھا‘ میں ان لوگوں کے اخلاص‘ مستقل مزاجی‘ عاجزی اور خدمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا‘ یہ پانچ وقت نماز بھی پڑھتے ہیں‘ ان کا حلیہ بھی اسلامی ہے‘ یہ مولوی ہیں لیکن ان لوگوں نے یورپ اور امریکا کے ٹرسٹوں سے کہیں بہتر ادارہ بنایا‘ میں نے انھیں دیکھا‘ میں انھیں ملا تو بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہو گیا‘ یہ ہیں اصل مسلمان اور یہ ہے اسلام کی اصلی اور سچی تصویر۔کاش ہم پر اعتراض کرنے والی قومیں ہماری یہ تصویر بھی دیکھ لیں‘ انھیں یقین آ جائے گا اسلام امن اور مسلمان امان ہیں‘ طالبان نہیں ہیں۔

جاوید چوہدری

 یہ ہیں اصل مسلمان.........(Saylani Welfare Trust)  

Enhanced by Zemanta

شریعت کے تین درجے


شریعت کے تین اسٹیپس (درجے) ہیں۔

پہلا اسٹیپ اسلامی اخلاقیات ہے‘ وحی کا آغاز چالیس سال کی عمر میں ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عمر میں آخری نبی ہونے کا پیغام دیا لیکن آپؐ صادق اور امین برسوں پہلے اسٹیبلش ہو چکے تھے‘ مکہ کا ایک ایک شخص گواہی دیتا تھا‘ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘ خیانت نہیں کی‘ بے انصافی نہیں کی‘ کسی کا حق نہیں مارا‘ گواہی نہیں چھپائی‘ وقت ضایع نہیں کیا‘ اونچی آواز میں تکلم نہیں کیا‘ کسی سے نفرت نہیں کی‘ غیر محرم کو نہیں دیکھا‘ غلط فہمی اور افواہ نہیں پھیلائی‘ دوسروں کے عقائد پر تنقید نہیں کی‘ معاشرے کی کوئی روایت‘ کوئی قانون نہیں توڑا‘ وعدہ خلافی نہیں کی‘ منافرت نہیں پھیلائی‘ کسی فساد کا حصہ نہیں بنے‘ کام چوری نہیں کی اور کسی پر ظلم نہیں کیا‘ ہمارے رسولؐ اعلان نبوت سے قبل اخلاقیات کے اس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو چکے تھے جس پر کفار بھی حجر اسود نصب کرنے کے لیے آپؐ کو ثالث مقرر کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے

قریش کے بدترین دشمن بھی امانتیں رکھوانے کے لیے آپؐ کے گھر آتے تھے‘ تجارت کے قافلے روانہ ہوتے تھے تو لوگ اپنا سرمایہ آپؐ کے حوالے کرنا چاہتے تھے‘ آپؐ کی شرافت کا عالم یہ تھا ‘آپؐ مکہ کی متمول ترین خاتون حضرت خدیجہؓ کے لیے کام کرتے تھے‘ وہ آپؐ کی ایمانداری اور شرافت سے اتنا متاثر ہوئیں کہ انھوں نے خود نکاح کا پیغام بھجوا دیا‘ آپؐ کی شرافت کا یہ عالم تھا‘ آپؐ نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں فرمایا‘ جب تک حضرت خدیجہؓ دنیا میں موجود رہیں‘ حضرت خدیجہ ؓ کا انتقال64 سال اور چھ ماہ کی عمر میں ہوا ‘ آپؓ اس وقت تک بہت ضعیف ہو چکی تھیں مگر نبی اکرمؐ نے دوسری شادی نہیں فرمائی اور یہ روایت اس معاشرے میں قائم کی جس میں کثرت ازدواج قانون بھی تھا اور رسم بھی۔ کنیزیں اور لونڈیاں بھی ہوتی تھیں اور آقاؤں کو ان پر پورا اختیار بھی ہوتا تھا‘ آپ ؐ کی اخلاقی برتری کی یہ حالت تھی مکہ اور اس کے قرب و جوار میں کوئی ایک ایسا شخص موجود نہیں تھا جو یہ کہہ سکتا‘ محمدؐ نے میرے ساتھ فلاں زیادتی کی‘ فلاں وعدہ توڑا یا فلاں وقت میرے ساتھ ترشی کے ساتھ پیش آئے‘ پورے مکہ میں کوئی شخص آپؐ پر جھوٹ بولنے تک کا الزام نہیں لگا سکا‘ رسول اللہ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو صحابہ کرام ؓ بھی اخلاقیات کے اعلیٰ معیارات پر متمکن ہو گئے‘ برداشت کیا تو زمین کو دہلا دیا‘ صبر کیا تو آسمان کی پلکیں گیلی ہو گئیں‘ وعدے نبھائے تو کفار کے دل نرم پڑ گئے اور سزائیں بھگتیں تو مشرکوں کو بھی پریشان کر دیا‘ یہ اخلاقیات شریعت کا پہلا اسٹیپ ہے‘ میرا ایمان ہے‘ ہم اس وقت تک سچے مسلمان نہیں ہو سکتے ہم جب تک شریعت کے اخلاقی درجے پر فائز نہیں ہو جاتے‘ ہمارے ہاتھ اور ہماری زبان سے جب تک دوسرے لوگ محفوظ نہیں ہوجاتے۔

شریعت کا دوسرا اسٹیپ (درجہ) عبادات ہیں‘ حضرت جبرائیل امین ؑ نے تیسری وحی کے دوران نبی اکرم ؐ کو وضو کا طریقہ سکھایا تھا‘ معراج کے دوران پانچ نمازیں فرض ہوئیں‘ تیس روزوں کا حکم‘ حج اور زکوٰۃ کا حکم بھی مختلف اوقات میں آیا‘ یہ تمام عبادات مسلمانوں پر فرض ہیں‘ ہم ان میں سے کسی عبادت کا انکار نہیں کر سکتے‘ یہ عبادات بندے اور خدا کے درمیان رابطہ ہیں‘ عبادات کے معاملے میں کوئی تیسرا شخص انسان اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا‘ میری نماز‘ میرا حج‘ میری زکوٰۃ اور میرا روزہ قبول ہوا یا نہیں ہوا؟ یہ فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے‘ میں کتنا بڑا مسلمان ہوں‘ میرے درجات کیا ہیں اور عبادت اور ریاضت کے باوجود میرا ٹھکانہ دوزخ ہو گا یا پھر میں کلین شیو اور بھرپور دنیا داری کے باوجود جنت میں جاؤں گا؟ یہ فیصلہ بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کرے گا‘ میری عقیدت‘ میری نسبت اور رسول اللہ ﷺ کے اصحابؓ کے ساتھ میری محبت، ہو سکتا ہے میری بخشش میں کوئی حصہ ڈال دے لیکن اس کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائیں گے‘ دنیا کا کوئی شخص یہ ذمے داری نہیں اٹھا سکتا۔

انسان کی عبادت اس کا پرائیویٹ یا نجی معاملہ ہوتا ہے‘ یہ پوری پیشانی زمین پر ٹیکتا ہے‘ اس کے پنجے زمین کے ساتھ چپکتے یا پھر ہوا میں معلق رہتے ہیں‘ یہ تین سیکنڈ کا سجدہ کرتا ہے یا پھر ڈیڑھ منٹ کا‘ نماز میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان کتنا فاصلہ ہوتا ہے‘ یہ مسواک استعمال کرتا ہے یا منجن سے دانت صاف کرتا ہے‘ یہ پتلون پہن کر نماز پڑھتا ہے یا پھر شلوار یا تہبند باندھ کر‘ یہ نماز کے دوران کس سورت کی تلاوت کرتا ہے‘ یہ سحری اور افطار میں کیا کھاتا ہے‘ یہ زکوٰۃ کس کو دیتا ہے اور زندگی کے کس حصے میں حج کے لیے روانہ ہوتا ہے‘ یہ تمام معاملے اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہیں اور کوئی شخص اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتا‘ دنیا کے کسی بھی خطے میں اور کسی بھی دور میں عبادت قانون نہیں رہی‘ یہ تعزیرات کی شکل اختیار نہیں کر سکی‘ ریاست یا حکومت کا کام شہری کو عبادت کی سہولت فراہم کرنا ہے‘ اسلامی ریاست کا کام مساجد بنانا‘ رمضان کا اعلان کرنا‘ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے سہولت فراہم کرنا اور حج کے سفر کو آسان بنانا ہے‘ لوگوں کو عبادت پر مجبور کرنا نہیں‘ یہ انسان کا اپنا فیصلہ‘اپنا اختیار ہے‘ ہاں البتہ جو شخص ان عبادات کا منکر ہو جائے یا جو انھیں اسلام سے خارج کرنے کی کوشش کرے اسلامی ریاست پر اس کا احتساب فرض ہو جاتا ہے مگر عبادت کرنا یا نہ کرنا یا کس طریقے سے کرنا یہ انفرادی فعل ہے اور حکومت اور ریاست کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

عبادت فرض ہے‘ یہ اہلیت نہیں ہے‘ ہم کسی شخص کو صرف تقویٰ کی بنیاد پر نیو کلیئر سائنس دان نہیں مان سکتے‘ ہم کسی شخص کو صرف عبادات کی بنیاد پر وزیر خزانہ بھی نہیں بنا سکتے اور ہم صرف نوافل اور روزوں کی کثرت کی بنیاد پر کسی کو چیف جسٹس بھی قرار نہیں دے سکتے‘عہدوں کے لیے اہلیت درکار ہوتی ہے‘ عبادت اہلیت میں اضافے کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن یہ اہلیت نہیں بن سکتی‘ عبادات شریعت کا دوسرا اسٹیپ ہے۔

شریعت کا تیسرا اسٹیپ اسلامی سزائیں ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قاتل کی سزا موت‘ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کی سزا سنگساری طے فرمائی‘ اسلام میں ان تینوں سزاؤں کی کنڈیشنز بھی موجود ہیں‘مثلاً اگر مقتول کے لواحقین اللہ کے نام پر یا خون بہا لے کر معافی پر تیار ہو جائیں تو قاتل کو قتل نہیں کیا جاتا‘ چوری کے پیچھے اگر انتہائی مجبوری ہو اور قاضی اس مجبوری کو مجبوری مان لے تو یہ سزا بھی معاف ہو سکتی ہے‘ معطل ہو سکتی ہے یا پھر تبدیل ہو سکتی ہے‘ آپ نے تاریخ میں پڑھا ہو گا‘ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں حجاز اور شام میں قحط پڑا تو آپؓ نے چوری کی سزا معطل کر دی تھی‘کیوں؟ کیونکہ حضرت عمر فاروقؓ انسانی مجبوریوں سے آگاہ تھے‘ وہ جانتے تھے لوگ قحط میں رشتہ حیات قائم رکھنے کے لیے خوراک کی چوری پر مجبور ہوسکتے ہیں اور مجبوروں کے ہاتھ کاٹنا انصاف نہیں ہو گا‘ حضرت عمرؓ کا دور صحابہ کرامؓ کا زمانہ تھا‘ مستقبل کے دو خلیفہ راشد بھی اس وقت دنیا میں موجود تھے اور قرآن اور احادیث کے گواہ بھی لیکن وہ لوگ جو حضرت عمرؓ کی دوسری چادر کو معاف نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے بھی سزا معطل کرنے کا یہ فیصلہ قبول کر لیا۔

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے‘ بعض حالتوں میں چوری کی سزا بھی معطل ہو سکتی ہے اور رہ گئی زنا کی سزا تو اس میں بھی بے شمار کنڈیشنز ہیں اور یہ کنڈیشنز جب تک پوری نہیں ہوتیں‘ کسی ملزم‘ کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی لیکن اس کے باوجود یہ سزائیں ہماری شریعت کا حصہ ہیں اور ہم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک یہ سزائیں ہمارے ایمان کا حصہ نہ بن جائیں‘ یہ اللہ کے احکامات ہیں اور ہم ان سے سرتابی نہیں کر سکتے‘ یہ حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے قبل چند دوسری حقیقتیں بھی آتی ہیں‘ شریعت کا پہلا اسٹیپ اخلاقیات ہے‘ اسلام شروع ہی اخلاقیات سے ہوتا ہے‘ نبی اکرمؐ پر اترنے والی پہلی دونوں وحی اخلاقیات پر مبنی تھیں‘ علم حاصل کریں‘ اللہ کے کرم کو تسلیم کریں‘ اللہ کی بڑائی بیان کریں‘ صفائی اختیار کریں‘ احسان کریں اور صبر کریں‘ یہ اللہ کے ابتدائی پیغامات تھے‘ عبادات ان پیغامات کے بعد آئیں ‘ اللہ کے رسولؐ نے عبادت کی خطا پر کسی کو سزا نہیں دی تھی اور سزائیں تیسرے اسٹیپ میں اس وقت آئیں جب اسلامی ریاست قائم ہو چکی تھی اور مسلمان پہلے دو درجے طے کر چکے تھے اور اخلاقیات اور عبادات مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں اورکسی مسلمان پر وعدہ خلافی‘ ناانصافی‘ جھوٹ‘ ظلم‘ زیادتی‘ ناشائستگی‘ اکھڑ پن‘ سستی‘ لاقانونیت اور حکم عدولی کا الزام نہیں لگ سکتا تھا اور مدینہ میں کوئی شخص بے نماز اور بے روزہ نہیں رہا تھا اور مدینہ میں کوئی ایسا شخص نہیں بچا تھا جو صاحب نصاب بھی ہو اور زکوٰۃ بھی نہ دے اور کوئی ایسا شخص بھی نہیں تھا جو حج کا فریضہ ادا نہ کرنا چاہتا ہو‘ شریعت کے تیسرے درجے سے قبل شریعت کے پہلے دونوں اسٹیپس پورے ہو چکے ہیں لیکن ہم لوگ اسلام کو تیسرے درجے سے شروع کرنا چاہتے ہیں‘ ہم اسلام کو سزاؤں سے اسٹارٹ کرنا چاہتے ہیں۔

آپ اس کا عملی مظاہرہ لورا لائی میں دیکھ لیجیے‘لورا لائی کے علاقے کلی منزکئی میں چند مقامی علماء کے حکم پرشک کی بنیاد پر لوگوں نے ایک خاتون اور ایک مرد دراز خان کو پتھر مار کر ہلاک کر دیا‘ ہم اس سزا کے خلاف نہیں ہیں‘ یہ قرآن کی سزا ہے لیکن ہم طریقہ کار پر اختلاف کر سکتے ہیں‘ لورا لائی کے جن لوگوں نے یہ سزا سنائی‘ کیا وہ ایمان کے اس اسٹینڈرڈ پر پورے اترتے ہیں جس کی بنیاد اسلام نے رکھی تھی‘ اگر ہاں تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم نے شریعت کے پہلے دو درجے طے کر لیے ہیں‘ کیا دنیا ہماری صداقت اور امانت کی قسم کھا سکتی ہے‘ کیا ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہو چکے ہیں اور کیا ہم نے عبادت کے اس معیار کو چھو لیا ہے جس میں خدا بندے سے خود پوچھتا ہے بتا تیری رضا کیا ہے؟ اگر نہیں توہمیں کس نے دوسرے شخص کو گنہگار ڈکلیئر کرنے اور اسے پتھروں کے ذریعے ہلاک کرنے کا اختیار دیا؟ اسلام صداقت اور امانت سے شروع ہوا تھا‘ خدا کے لیے اسے صداقت اور امانت سے شروع کریں‘ اس کا آغاز پتھروں سے نہ کریں‘ ایمان چاہتے ہو تو پہلے ایماندار بنو‘ اسلام چاہتے ہو تو پہلے سلامتی کے راستے پر چلو‘ تمہیں اسلام بھی ملے گا‘ ایمان بھی اور اللہ بھی۔

جاوید چوہدری  

Enhanced by Zemanta

خلاقیات‘ آپ کی شائستگی آپ کی اصل طاقت ہوتی ہے


وہ ایک بدصورت لڑکی تھی‘ رنگت سیاہ تھی‘ ہونٹ موٹے تھے‘ بال کرلی اور الجھے ہوئے‘ ہاتھ اور پائوں بھرے‘ آواز بیٹھی ہوئی‘ کندھے جھکے ہوئے‘ آنکھیں باہر کی طرف ابلی ہوئیں‘ کمر اندر کی طرف دبی ہوئی اور ناک پکوڑا سی‘ اس کے چہرے کی جلد بھی اللہ معاف کرے گوبر کے اوپلے کی طرح کھردری اور لکیر دار تھی‘ وہ کسی زاویے‘ کسی اینگل سے خوبصورت دکھائی نہیں دیتی تھی لیکن وہ اس کے باوجود کمپنی کی کامیاب ترین سیلز گرل تھی‘ وہ نیویارک کی ایک گروسری چین میں کام کرتی تھی‘ امریکا میں اس چین کے سیکڑوں اسٹور تھے‘ نیویارک میں بڑا اسٹور تھا اور وہ اس بڑے اسٹور کی سیلز گرل تھی‘ کمپنی ہر مہینے عملے کی کارکردگی کا جائزہ لیتی تھی‘ وہ ہر جائزے میں پہلے نمبر پر آتی تھی‘ انتظامیہ اس کی کارکردگی پر حیران تھی‘ کمپنی کے صدر نے ایک دن اس سے کامیابی کا گر پوچھ لیا‘ یہ کمپنی کی سالانہ میٹنگ تھی‘ میٹنگ میں صرف ایگزیکٹوز اور ڈائریکٹرز شریک تھے‘ وہ کمپنی کی تاریخ کی واحد ملازمہ تھی‘ جسے ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹوز نے اس اعلیٰ ترین میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی اور اس سے کمپنی کے پالیسی سازوں کے سامنے کامیابی کا گر پوچھا گیا‘ کمپنی کا صدر میٹنگ کو چیئر کر رہا تھا‘ وہ اس بدصورت لیکن کامیاب ترین سیلز گرل کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔

لڑکی نے مسکرا کر جواب دیا ’’دو گر ہیں‘‘ میٹنگ میں موجود تمام گرو اسے غور سے دیکھنے لگے‘ اس نے جواب دیا ’’ پہلا گر میری جسمانی بدصورتی ہے‘ میرے جسم میں کوئی چیز خوبصورت نہیں تھی‘ میں بچپن ہی میں اپنی اس خامی کو سمجھ گئی چنانچہ میں نے اپنے ذہن‘ اپنی اخلاقیات اور اپنی زبان کو خوبصورت بنا لیا‘ مجھے دیکھنے والے مجھے مسترد کر دیتے ہیں لیکن مجھ سے ملنے والے‘ میرے ساتھ گفتگو کرنے والے اور میرے ساتھ ڈیل کرنے والے مجھے کبھی بھول نہیں پاتے‘ یہ مجھے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں‘‘ اس نے سانس لیا اور اس کے بعد بولی ’’ اور دوسرا گر میرا دوسرا پھیرا ہے‘ میں اپنے کسٹمر کو کائونٹر پر کھڑا کرتی ہوں اور اس کے پاس دو بار آتی ہوں‘‘ میٹنگ میں شریک ڈائریکٹرز کو پہلی بات فوراً سمجھ آگئی‘ یہ جان گئے کمپنی کی بدصورت ترین سیلز گرل اخلاقیات‘ گفتگو اور ڈیل میں خوبصورت ترین ہے چنانچہ یہ اپنے لب ولہجے‘ انداز گفتگو اور مینرز کے ذریعے گاہکوں کو گرفت میں لے لیتی ہے لیکن انھیں دوسرے پھیرے کا گر سمجھ نہ آیا لہٰذا وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگے‘ خاتون مسکرائی اور نرم لہجے میں بولی ’’ فرض کیجیے‘ آپ میرے کسٹمر ہیں‘ آپ میرے کائونٹر پر ایک کلو گرام چینی لینے آتے ہیں میں اسٹور میں جائوں گی‘ کلو گرام کے تھیلے میں ذرا سی چین کم ڈالوں گی‘ یہ تھیلہ گاہک کے سامنے لائوں گی‘ اسے ترازو میں رکھوں گی‘ چینی کم ہوگی‘ میں وہ تھیلہ اور وہ گاہک وہاں چھوڑ کر اسٹور میں جائوں گی اور وہاں سے باقی چینی لے کر دوبارہ واپس آئوں گی‘ میرے دوسری بار اندر جانے‘ واپس آنے اور تھوڑی سی چینی زیادہ ڈالنے سے گاہک کو اپنی اہمیت کا احساس ہو گا‘ وہ مجھ سے متاثر ہو جائے گا چنانچہ وہ ہر بار ہمارے اسٹور سے گروسری خریدے گا‘ وہ ہر بار مجھ سے سودا خریدنے کی کوشش بھی کرے گا‘‘.

بورڈ آف ڈائریکٹرز کے لیے یہ ایک عجیب گر تھا‘ ڈائریکٹرز سیلز نے کرسی پر پہلو بدلا اور اس سے مخاطب ہوا ’’ ملیا لیکن ہمارے اسٹور کی زیادہ تر مصنوعات پیکٹس میں ہوتی ہیں‘ آپ ان کا وزن نہیں کر سکتیں‘‘ ملیا مسکرائی اور پورے یقین سے بولی ’’ سر میں گاہک کی ٹوکری میں سے کوئی پیکٹ اٹھاتی ہوں‘ اس کا وزن کرتی ہوں‘ وہ پیکٹ اگر وزن میں کم ہو تو میں اس کی جگہ پورے وزن والا پیکٹ رکھ دیتی ہوں اور اگر تمام پیکٹس کا وزن کم ہو تو میں ڈبے کھول کر اس پیکٹ کا وزن پورا کر دیتی ہوں‘ گاہک میری اس توجہ سے متاثر ہو جاتا ہے‘‘ ڈائریکٹر سیلز نے پوچھا ’’کیا دوسری سیلز گرلز ایسا نہیں کرتیں‘‘ ملیا نے مسکرا کر جواب دیا ’’ سر وہ خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو تکنیک کی ضرورت نہیں ہوتی۔

خوبصورت لوگ اپنے خوبصورت فگر‘ اپنی خوبصورت آنکھوں‘ اپنے خوبصورت ہونٹوں‘ اپنے گورے رنگ‘ اپنے قد کاٹھ اور اپنے خوبصورت ہاتھوں اور پائوں کو اپنی طاقت سمجھ لیتے ہیں‘ یہ اسے اپنا سیلز پوائنٹ بنا لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں لوگوں کو آپ کی مسکراہٹ اپنی طرف متوجہ تو کر سکتی ہے‘یہ انھیں اپنے پاس ٹھہرا نہیں سکتی‘ مریضوں کو اچھی نرس چاہیے ہوتی ہے‘ خوبصورت نرس نہیں‘ آپ انتہائی خوبصورت نرس ہیں لیکن آپ مریض کے بازو کی غلط جگہ پر انجیکشن لگا دیتی ہیں تو کیا مریض آپ کی خوبصورتی کی وجہ سے خاموش رہے گا‘ ہرگز نہیں‘ وہ طوفان کھڑا کر دے گا‘ لوگ خوبصورت ماڈل کی وجہ سے فریج کا اشتہار تو دیکھ لیتے ہیں لیکن یہ جب بھی فریج خریدیں گے یہ فریج کی کارکردگی کو ذہن میں رکھ کر خریدیں گے‘ یہ ماڈل کے حسن کے جلوئوں کو دیکھ کر نہیں خریدیں گے۔

اخلاقیات‘ بی ہیویئر اور آپ کی شائستگی آپ کی اصل طاقت ہوتی ہے اور آپ کو اس طاقت کا استعمال سیکھنا چاہیے‘‘ وہ رکی اور دوبارہ بولی ’’ اور دوسری بات میری دوسری کولیگز اپنا پھیرا بچانے کے لیے عموماً اسٹور سے لفافے میں زیادہ چینی ڈال کر لاتی ہیں‘ یہ گاہک کے سامنے چینی تولتی ہیں‘ لفافے میں موجود زائد چینی نکالتی ہیں اور ایک کلو گرام کا پیکٹ بنا کر گاہک کو دے دیتی ہیں‘ یہ چینی پوری ہوتی ہے لیکن گاہک کیونکہ لفافے سے چینی نکلتے دیکھتا ہے لہٰذا وہ سمجھتا ہے‘سیلز گرل نے اسے پوری چینی نہیں دی اور یہ غلط سوچ اس سیلز گرل اور اسٹور دونوں کو نقصان پہنچاتی ہے چنانچہ میرا خیال ہے‘ ہم اگر اپنے اسٹور میں دوسرے پھیرے کو لازم قرار دے دیں تو ہماری سیل میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور سیلز مین اور سیلز گرلز کی کارکردگی بھی بہتر ہو سکتی ہے‘‘ اس معمولی سی ٹپ سے بورڈ کے تمام ارکان متاثر ہو گئے‘ وہ اپنی نشستوں سے اٹھے اور ملیا کے لیے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ یہ ملیا بعد ازاں امریکا کی نامور سیلز گرل بنی‘ اس نے نئے سیلزمین اور سیلز گرلز کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع کیا اور امریکا کے ہزاروں سیلزمین کو سیلز کی ٹریننگ دی۔

آپ ملیا کی کامیابی پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا اس نے اپنی بدصورتی کو اپنی طاقت بنا لیا تھا‘ یہ جان گئی تھی‘ اس کے پاس لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے خوبصورت آنکھیں‘ خوبصورت ہونٹ‘ خوبصورت چہرہ‘ خوبصورت گردن اور خوبصورت قد کاٹھ نہیں‘ اس کی چال بھی مستانی نہیں اور اس کا سراپا بھی خوبصورت نہیں چنانچہ اس کے پاس ایک ہی آپشن بچتا ہے‘ یہ اپنے اندر کی ملیا کو اتنا خوبصورت بنا لے کہ اس کی اندرونی اچھائیاں اس کی بیرونی خامیوں پر پردہ ڈال دیں‘ اس کے اندر کی روشنی اس کے باہر کے اندھیرے میں چمک پیدا کر دے‘ ملیا نے اپنے اندر پر توجہ دی اور اس کی پوری کائنات بدل گئی‘ قدرت ہمیں آٹھ ہزار صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے‘ آپ اگر دنیا کے تمام ٹریڈز‘ تمام پیشوں اور تمام کاموں کی فہرست بنائیں تو یہ فہرست 85 کے عدد سے اوپر نہیں جائے گی جب کہ قدرت ہمیں ان 85 پیشوں یا مہارتوں کے لیے آٹھ ہزار صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے‘ ہم اگر ان آٹھ ہزار صلاحیتوں میں صرف دس فیصد کو استعمال کر لیں تو دنیا ہزار سال تک ہمارا نام یاد رکھنے پر مجبور ہو جائے گی‘ دنیا میں ایسے ایسے لوگ گزرے ہیں جو ایک سوئی زمین پر گاڑتے تھے۔دوسری سوئی لے کر تین گز کے فاصلے پر بیٹھ جاتے تھے‘ یہ دوسری سوئی پھینکتے تھے اور یہ سوئی زمین پر گڑھی سوئی کے ناکے سے گزر جاتی تھی‘ یہ ان آٹھ ہزار صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت کا استعمال تھا.

بھارت میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کھائے پیئے بغیر دو‘ دو سال گزار دیتے ہیں‘ جانوروں کی بولیاں سمجھنے اور بولنے والے سیکڑوں لوگ موجود ہیں‘ روس میں دنیا کا سرد ترین گائوں اومیاکون (Oymyakon) موجود ہے‘ اس کا درجہ حرارت منفی پچاس سے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے‘ اس درجہ حرارت میں زندگی ممکن نہیں رہتی مگر اس گائوں میں آج بھی پانچ سو لوگ موجود ہیں‘ یہ لوگ سردی کے موسم میں بھی باہر نکلتے ہیں اور زندگی کے زیادہ تر تقاضے پورے کرتے ہیں‘ مریخ پر زندگی ممکن نہیں مگر انسان مریخ پر جانے کے لیے پرتول رہا ہے‘ سمندر کے اندر میلوں گہرے گڑھے ہیں‘ دنیا کا گہرا ترین گڑھا بحراوقیانوس میں ماریانہ ٹرینچ ہے۔اس کی گہرائی پونے سات میل ہے‘ لوگ اس گڑھے میں اترنے اور اس کی گہرائی تک جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کسی نہ کسی دن چلے بھی جائیں گے اور یہ ان 8 ہزار صلاحیتوں میں سے چند ہیں جو قدرت ہمیں دے کر دنیا میں بھجواتی ہے لیکن ہم اپنی جسمانی کمزوریوں‘ اپنی جسمانی ساخت کی خرابیوں کو رکاوٹ بنا کر پوری زندگی رو دھو کر گزار دیتے ہیں‘ اس دنیا میں جس میں زرافے خوراک کے لیے اپنی گردن لمبی کر لیتے ہیں‘ ہم انسان اس دنیا میں اپنے چہرے کے رنگ سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اپنے قد کاٹھ سے مار کھا جاتے ہیں‘ ہم کس قدر بے وقوف ہیں‘ ہم یہ نہیں جانتے‘ قدرت نے ہمیں آٹھ ہزار صلاحیتیں دیں‘ ان میں سے صرف 36 دوسرے لوگوں کو نظر آتی ہیں‘ باقی سات ہزار 9 سو 64 ہمارے اندر چھپی ہیں لیکن ہم پوری زندگی اپنے ان سات ہزار 9 سو 64 دوستوں کو آواز نہیں دیتے‘ ہم انھیں جگانے‘ انھیں اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے چنانچہ ہم اپنی جسمانی کمزوریوں کا رونا رو کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

جاوید چوہدری    

Enhanced by Zemanta

رول آف لاء


ایڈم پرل مین کو میوزک کا شوق وراثت میں ملا ‘ اس کے والد فل پرل مین یہودی تھے‘ یہ بچپن سے موسیقی کے جنون میں مبتلا تھے‘ ایڈم کے دادا کارل پرل مین کیلیفورنیا کے مشہور یورالوجسٹ تھے‘ یہ متعصب یہودی تھے‘ یہ پوری زندگی اسرائیل کے قیام اور دنیا پر یہودی قبضے کے خواب کاشت کرتے رہے‘ ایڈم کی دادی عیسائی تھی‘ وہ ایک عیسائی میگزین بھی نکالتی تھی‘ ایڈم کے والد کا بچپن اور جوانی کیلیفورنیا میں گزری‘ انھوں نے ایڈم کی والدہ جینیفر کے ساتھ شادی کر لی اور یوں یہ خاندان مزے سے زندگی گزارنے لگا‘ فل پرل مین گانے گاتا تھا اور جینیفر بائبل پڑھتی تھی‘ ایک دن جینیفر نے بائبل میں غدن کا کردار پڑھا تومیاں بیوی دونوں نے اپنے نام کے ساتھ Gideon (عربی میں غدن) لگا لیا‘ یہ خاندان اب غدن ہو گیا‘ ایڈم پرل مین یکم ستمبر 1978ء کو ان کے گھر پیدا ہوا‘ ایڈم کے والدین اس وقت تک پروٹسٹنٹ عیسائی ہو چکے تھے‘ ایڈم کو میوزک‘ عیسائیت اور یہودی خون ورثے میں ملا‘یہ اسکول میں پڑھتا رہا اور موسیقی بجاتا رہا‘ ایڈم پرل مین نے ساڑھے سولہ سال کی عمر میں اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔

یہ 1995ء کا سن تھا‘ یہ اپنے چند مسلمان دوستوں کے ساتھ اورنج کائونٹی کے اسلامک سینٹر میں داخل ہوا‘ اس نے حاتم بنداکی کے الفاظ سنے اور یہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا‘ یہ روزانہ اسلامک سینٹر جاتا رہا‘ یہ اسلام کا مطالعہ کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے سترہ سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا اور اس کا نام ایڈم پرل مین سے ایڈم یحییٰ غدن ہو گیا‘ اس نے موسیقی چھوڑ دی‘ داڑھی رکھی اور نماز روزے کی پابندی شروع کر دی‘ اس نے انٹرنیٹ پر اپنے قبول اسلام کا واقعہ لکھا تو اسے گرفتار کر لیا گیا‘ غدن کو سزا ہوئی اور اس سزا نے اسے پکا مسلمان بنا دیا‘ یہ 1998ء میں پاکستان آیا‘ پاکستان میں اس نے ایک افغان مہاجر لڑکی سے شادی کی‘ یہ 2001ء تک پاکستان میں رہا‘ اس دوران اس کا زیادہ تر وقت کراچی اور پشاور میں گزرا‘ یہ اپنے والدین کو بتاتا تھا ’’میں پاکستان میں صحافت کر رہا ہوں‘‘ لیکن یہ اس دور میں القاعدہ کا رکن تھا اور یہ اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے نہ صرف اسامہ بن لادن کے قریب پہنچ چکا تھا بلکہ یہ ان کے ایڈوائزر میں بھی شامل تھا‘ یہ القاعدہ کا میڈیا ایڈوائزر بھی تھا‘ اس نے القاعدہ کے لیے ٹیلی ویژن پروڈکشن اور سوشل میڈیا ایکٹوٹیز شروع کیں‘ نائین الیون کا واقعہ ہوا۔

القاعدہ نے ایک ویڈیو ٹیپ کے ذریعے اس واقعے کی ذمے داری قبول کی‘ یہ ویڈیو ٹیپ یحییٰ غدن نے تیار کی تھی‘ غدن امریکی نظام کو سمجھتا تھا‘ یہ یورپی میڈیا کا نباض بھی تھا‘ یہ مغربی نظام کی خرابیوں اور کمزوریوں سے بھی واقف تھا چنانچہ اس نے مضامین‘ ویڈیو اور آڈیو ٹیپس کے ذریعے امریکی نظام کو نشانہ بنانا شروع کر دیا‘ امریکی انتظامیہ اس پر تلملا اٹھی‘ نائین الیون کے بعد ایڈم یحییٰ غدن کا اپنے خاندان سے رابطہ کٹ گیا‘ القاعدہ نے بھی اسے ’’ عزام الامریکی‘‘ کا نیا نام دے دیا‘ غدن نے 2004ء میں ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے لاس اینجلس اور میلبورن کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی‘ امریکا نے اسی دور میں اسے موسٹ وانٹیڈ لوگوں کی فہرست میں بھی شامل کر دیا اور اسے پکڑنے والے کے لیے ملین ڈالر انعام کی رقم بھی رکھ دی۔

یہ دوسری طرف اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری کے انتہائی قریب ہو گیا‘ یہ ان کے ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرتا تھا‘ یہ ان کے نام سے پریس ریلیز بھی جاری کرتا تھا اور یہ القاعدہ کے ترجمان کی حیثیت سے امریکی میڈیا کو براہ راست دھمکیاں بھی دیتا تھا‘ 2008ء میں اس کے مرنے کی اطلاعات بھی آئیں اور 2010ء میں اس کی گرفتاری کی خبریں بھی آتی رہیں لیکن یہ زندہ بھی تھا اور متحرک بھی۔ غدن نے اس دوران عربی میں اپنی ٹیب جاری کر کے امریکیوں کو حیران کر دیا‘ یہ اس ٹیپ میں شاندار عربی بول رہا تھا‘ القاعدہ کے ارکان کے مطابق ایڈم یحییٰ غدن انگریزی‘ عربی‘ پشتو اور اردو چاروں زبانوں کا ماہر ہے‘ یہ حلیے کے لحاظ سے مسلمان عالم اور پشتون دکھائی دیتا ہے‘ آپ اسے دیکھ کر‘ اس کے ساتھ گفتگو کر کے ہرگز اندازہ نہیں کر سکتے‘ یہ امریکی ہے اور اس کے ماں باپ امریکی بھی ہیں اور یہودی اور عیسائی بھی۔ یہ آپ کو نسلاً مسلمان دکھائی دے گا۔

ایڈم یحییٰ غدن پچھلے چار برسوں سے افغانستان اور پاکستان میں چھپا بیٹھا ہے‘ یہ خطرے کا شکار ہوتا ہے تو یہ افغانستان چلا جاتا ہے‘ وہاں حالات خراب ہوتے ہیں تو یہ شمالی وزیرستان‘ جنوبی وزیرستان اور بعض اوقات بنوں اور پشاور میں آ جاتا ہے‘ یہ مدارس‘ حجروں اور غاروں میں زندگی گزارتا ہے‘ امریکا اسے گرفتار یا قتل کرنا چاہتا ہے‘ سی آئی اے دس سال کی کوششوں کے بعد ایڈم یحییٰ غدن تک پہنچا‘ یہ پاکستان میں موجود اس کے ٹھکانوں تک بھی پہنچ گیا‘ ایڈم فروری کے ابتدائی دنوں میں ڈرون کے نشانے پر بھی آ گیا مگر امریکی انتظامیہ اس پر میزائل نہیں داغ سکی‘ ایڈم میزائل اور ڈرون حملے سے کیوں بچ گیا؟ اس کی وجہ بہت دلچسپ ہے۔امریکی صدر‘ پینٹا گان اور امریکی سی آئی اے امریکی قوانین کے ہاتھوں بے بس ہیں‘ امریکا کا کوئی ادارہ قانوناً اپنے کسی شہری کو ڈرون حملے میں قتل نہیں کر سکتا‘ سی آئی اے موسٹ وانٹیڈ امریکی شہری پر حملے سے قبل وزارت قانون کی اجازت کی پابند ہے۔

وزارت قانون عدالت کی اجازت کے بغیر یہ اجازت نہیں دے سکتی اور عدالتیں اس وقت تک ایسی اجازت نہیں دیتیں جب تک یہ دوسرے فریق کو نہ سن لیں چنانچہ ایڈم یحییٰ غدن پر قانوناً ڈرون حملہ نہیں ہو سکتا‘ سی آئی اے کے بعد پینٹا گان کے پاس دوسرا آپشن بچتا ہے‘ پینٹا گان فوجی دستے پاکستان بھجوا سکتا ہے‘ امریکا کے فوجی ہیلی کاپٹروں پر پاکستانی علاقے میں آئیں‘ اسامہ بن لادن جیسا آپریشن کریں‘ ایڈم یحییٰ کو فاٹا سے اٹھائیں اور افغانستان چلے جائیں لیکن اس میں دو خطرات ہیں‘ ایک خطرہ ایڈم یحییٰ ہے‘ یہ اگر اس آپریشن کے دوران مارا جا تا ہے اور اس کی ہلاکت کے بعد اگر اس کے والدین امریکا میں پینٹا گان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیتے ہیں تو ڈیفنس سیکریٹری چک ہیگل مشکل میں پھنس جائیں گے‘ دوسرا خطرہ پاکستان ہے‘ ایڈم یحییٰ پاکستانی علاقے میں چھپا بیٹھا ہے‘ اسامہ بن لادن کے آپریشن کے دوران پاکستان کو بہت ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور دنیا نے بھی جی بھر کر ساتویں جوہری طاقت کا مذاق اڑایا لیکن کیونکہ امریکا کا ٹارگٹ بہت بڑا تھا اور امریکا اس ٹارگٹ کو اچیو کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا تھا۔

چنانچہ پاکستان خاموش رہا‘ پینٹا گان کا خیال ہے اگر ہم نے اس بار ایڈم یحییٰ غدن جیسے چھوٹے ٹارگٹ کے لیے سرحد عبور کی تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا اور اگر پاکستان کی طرف سے میزائل داغ دیا گیا یا امریکی ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنا دیا گیا تو امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہو جائیں گے اور یہ وقت اس کے لیے مناسب نہیں کیونکہ امریکا 2014ء میں خطے سے نکلنا چاہتا ہے اور یہ انخلاء پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہوگا چنانچہ پینٹا گان بھی مشکل میں آ گیا ہے تاہم امریکی صدر کے پاس ایسے اختیارات موجود ہیں‘ یہ خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملک کے کسی بھی ادارے کو غدن کے خلاف کارروائی کا حکم دے سکتے ہیں‘ صدر کو یہ اختیارات انور العولقی کے کیس میں حاصل ہوئے تھے‘ انور العولقی یمنی امریکن تھا‘ اس کے والد 1970ء میں یمن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا آئے تھے‘ انور کے والد نصیر العولقی فل برائٹ اسکالر تھے‘ انھوں نے نیو میکسیکو کی اسٹیٹ یونیورسٹی سے ایگریکلچر اکنامکس میں ماسٹر کیا۔

یونیورسٹی آف نبراسکا سے ڈاکٹریٹ کی اور یہ 1975ء سے 1977ء تک یونیورسٹی آف مینی سوٹا میں پڑھاتے رہے‘ یہ بعد ازاں یمن واپس گئے اور یمن کے وزیر زراعت بن گئے‘ انور العولقی 1971ء میں نیو میکسیکو میں پیدا ہوا‘ یہ سات سال کی عمر میں والد کے ساتھ یمن چلا گیا‘یہ گیارہ سال وہاں رہا‘ اس نے وہاں مذہبی تعلیم بھی حاصل کی‘ 1991ء میں واپس امریکا آیا‘ کولوراڈو کالج میں داخلہ لیا‘ کولوراڈو یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں بی ایس سی کی‘ پھرسنیٹیا یونیورسٹی سے ایجوکیشن لیڈر شپ کی ڈگری لی‘ پھر جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کی ڈگری لی اور اس کے بعد امریکا کے مختلف اداروں میں کام کرنے لگا‘ اس نے اس کے ساتھ امریکا میں تبلیغ کا کام بھی شروع کر دیا‘ یہ ڈینور کی اسلامک سوسائٹی سے بطور امام وابستہ ہو گیا‘ اس نے امریکا کی طوائفوں کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش شروع کی‘ پولیس کیس بنا اور یہ چند ماہ جیل میں بھی رہا‘ یہ بعد ازاں نائین الیون کے واقعے کے ذمے داروں میں پایا گیا‘ نائین الیون کے واقعے کا جرمنی کے شہر ہیمبرگ سے بھی تعلق تھا‘ ہیمبرگ کے ایک فلیٹ میں رمزی بن الشبیع مقیم رہا تھا‘اس فلیٹ سے جو ٹیلی فون نمبر ملے ان میں انور العولقی کا نمبر بھی شامل تھا اور یوں سی آئی اے انور کے پیچھے لگ گئی.

انور 2002ء میں امریکا سے فرار ہو کر لندن آگیا‘ یہ 2004ء تک لندن رہا‘ یہ پھر یمن چلا گیا اور یہ یمن کے مختلف شہروں میں چھپتا رہا‘ سی آئی اے اس کا پیچھا کرتی رہی یہاں تک کہ اسے 30 ستمبر 2011ء کو یمن کے صوبے الجوف میں ڈرون حملے میں مار دیا گیا‘ انور العولقی بھی امریکی شہری تھا‘ اس کی ہلاکت کے بعد صدر کو محسوس ہوا‘ میرے پاس انور العولقی جیسے لوگوں کو گرفتار یا مارنے کے لیے خصوصی اختیارات ہونے چاہئیں چنانچہ صدر نے آئین میں ترمیم کے ذریعے یہ خصوصی اختیارات حاصل کر لیے‘ صدر اوبامہ کے پاس اس وقت یہ اختیارات موجود ہیں لیکن یہ ان اختیارات کے استعمال سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ یہ سمجھتے ہیں‘ اس معاملے میں اگرذرا سی غلطی ہو گئی تو ان کا مواخذہ ہو جائے گا‘ یہ عدالتی نظام کے شکنجے میں آ جائیں گے ‘ اوبامہ کے اس خوف کی وجہ سے ایڈم یحییٰ غدن روز امریکی ڈرونز کے نشانے پرآتا ہے لیکن کسی کو اس پر حملے کی جرات نہیں ہوتی۔

آپ فرق ملاحظہ کیجیے‘ امریکا نے پاکستان میں 364 ڈرون حملے کیے‘ ان حملوں میں تین ہزار پاکستانی شہید ہو گئے ‘ امریکا نے کسی ایک ڈرون حملے سے قبل ایک لمحے کے لیے نہیں سوچا لیکن پورا امریکا اپنے ایک باغی شہری کے لیے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر بیٹھا ہے‘ یہ اسے مارنا چاہتے ہیں لیکن مار نہیں رہے‘ یہ ہے رول آف لاء اور اسے کہتے ہیں انصاف کا خوف۔

 

Enhanced by Zemanta

دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کرتی


اللہ کے آخری نبیؐ کا آخری خطبہ اللہ کے آخری دین کا آخری خلاصہ تھا‘ یہ خطبہ دین بھی تھا‘ دنیا بھی ‘ معاشرت بھی ‘ آخرت بھی اور انسانیت بھی ۔ یہ خطبہ بنیادی طور پر انسان‘ انسانیت اور انسانی حقوق کا چارٹر تھا اور یہ آج بھی چارٹر ہے‘ میرا ایمان ہے‘ دنیا کا کوئی انسان اس وقت تک اچھا انسان اور دنیا کا کوئی معاشرہ اس وقت تک اچھا معاشرہ نہیں بن سکتا جب تک یہ اس چارٹر پر عمل نہیں کرتا کیونکہ یہ چارٹر انسان اور انسانیت دونوں کا جوہر ہے‘ یہ دونوں کا ایٹم ‘ دونوں کی روح ہے‘ میں اس خطبے کے چند نقطے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اس کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں اور دین کے دو کروڑ سپہ سالاروں سے ایک سوال کرتا ہوں‘ کیا یہ ملک‘ کیا آپ اور آپ کی تنظیمیں اس چارٹر پر پورا اترتی ہیں‘ اگر ہاں تو میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیار ہوں اور اگر نہیں تو پھر مہربانی کر کے پارسائی کے دعوے بند کر دیجیے کیونکہ آپ اور میں دونوں نبی اکرمؐ کی حکم عدولی کے گناہ گار ہیں۔

میرے رسول ﷺ نے 10 ہجری 9 ذوالحجہ کے دن عرفات کے میدان میں کھڑے ہو کر فرمایا ’’ اے لوگو! تمہارے خون و مال اور عزتیں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئیں‘ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہے جیسی تمہارے اس دن کی اور مبارک مہینہ (ذوالحجہ) کی خاص کر اس شہر میں ہے‘ تم سب اللہ کے حضور پیش ہو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس فرمائے گا‘‘۔ آپ اپنے گریبان میں جھانکیے اور جواب دیجیے‘ کیا ہمارے ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کی جان‘ مال اور عزت محفوظ ہے؟ کیا ہم اپنے محترم مہینوں اور دنوں کا احترام کرتے ہیں‘ اگر ہاں تو پھر مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور قبرستانوں میں بم پھاڑنے والے کون ہیں اور اسکولوں پر خودکش حملے کیوں ہو رہے ہیں؟ اور محرم اور ربیع الاول کے مہینوں میں ڈبل سواری پر پابندی کیوں لگتی ہے اور موبائل سروس کیوں معطل ہوتی ہے؟ فرمایا ’’عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو‘ تم نے انھیں اللہ کی امان کے ساتھ نکاح میں لیا‘ یہ تمہارے پاس اللہ کی امانت ہیں‘ تم رواج کے مطابق ان کے لباس اور خوراک کا بندوبست کرو‘ اچھے سلوک کی تاکید کرو کیونکہ یہ تمہارے زیر دست ہیں‘‘ آپ اپنے گریبانوں میں جھانکیے اور بتایئے‘ کیا خواتین بالخصوص بیگمات کے ساتھ ہمارا رویہ اس معیار پر پورا اترتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر اس معاشرے میں ونی اور سورا کی رسمیں کیوں ہیں؟ عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکنے والے لوگ کون ہیں؟ بیویوں پر انسانیت سوز تشدد کون کر رہا ہے؟ اور اس معاشرے کی عورت کو مومن عورت کا حق کون نہیں دے رہا؟۔

فرمایا ’’ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے‘ کسی کے لیے جائز نہیں‘ یہ اپنے بھائی کے مال سے کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر لے‘ جو کام کرو اللہ کی رضا کے لیے کرو‘ حاکم وقت کو از خیر خواہی نصیحت کرنا‘ مسلمانوں کی جماعت میں شامل رہنا‘ غلام کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو‘ وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو‘ اس سے غلطی ہو جائے تو اسے سزا نہ دینا اور تین بار فرمایا‘ میں تمہیں پڑوسی کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں‘ پھر فرمایا وارث کے لیے جائیداد میں حصہ ہے‘ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ ہی سرخ رنگ والے کو کالے پر اور اللہ کی نظر میں صرف متقی مکرم ہیں‘‘۔ آپ گریبان میں جھانکیے اور بتایئے‘ کیا ہم دوسرے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھ رہے ہیں‘ کیا ہم خود مسلمانوں کی جماعت میں رہتے ہیں اور کیا ہم دوسروں کو بھی رہنے دیتے ہیں؟ کیا ہمارے ماتحت‘ ہمارے ملازمین بھی ہماری طرح خوشحال ہیں؟ کیا ہمارے پڑوسی ہم سے خوش ہیں؟ کیا ہم اپنے تمام وارثوں کو حصہ دے رہے ہیں اور کیا اس معاشرے میں گورا اور کالا برابر ہیں؟ اگر ہاں تو پھر مسلمانوں کو کافر قرار دینے والے مسلمان کون ہیں‘ ہمارے ملازمین ہڑتالیں کیوں کر رہے ہیں؟ عدالتوں میں وراثت کے لاکھوں مقدمے کیوں چل رہے ہیں؟ ہمارے ہمسائے فون کر کے پولیس کو کیوں بلا لیتے ہیں؟ ‘ لوگ رنگ گورا کرنے کی کریمیں کیوں استعمال کرتے ہیں اور ہم اپنے ناموں کے ساتھ اپنے بلند مرتبت قبیلوں‘ خاندانوں اور مکاتب فکر کے حوالے کیوں لکھتے ہیں اور ملک کے علماء کرام اس دوڑ میں عام لوگوں سے آگے کیوں ہیں؟ یہ لوگ تقویٰ کے بجائے نقوی‘ بریلوی‘ نقش بندی‘ قادری‘ مشہدی‘ نجفی اور دیوبندی کو اپنی دستار کیوں بناتے ہیں؟بتائیے جواب دیجیے۔ فرمایا ’’ میرے بعد دشمن بن کر ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا‘ میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں‘ یہ تھامے رکھو گے تو کبھی نہیں بھٹکو گے‘ اللہ کی کتاب اور میری سنت‘‘۔

آپ اپنے گریبانوں میں جھانکیے اور جواب دیجیے‘ کیا ہم ایک دوسرے کے دشمن بن کر ایک دوسرے کو قتل نہیں کر رہے‘ کیا امت آج تک قرآن مجید اور سنت پر متفق ہوئی؟ کیا ہم چودہ سو سال سے قرآن مجید کے مطالب پر نہیں لڑ رہے؟ کیا ہم سنت میں سے فرقے نہیں نکال رہے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں؟ اللہ کے رسولؐ نے ہمارے لیے صرف کتاب اور سنت چھوڑی تھی لیکن ہم نے ان میں سنی‘ شیعہ‘ اہلحدیث اور بریلوی کو بھی شامل کر دیا‘ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی مسجد صرف مسجد تھی لیکن ہم نے اسے سنیوں‘ وہابیوں‘ شیعوں اور بریلویوں کی مسجد بنا دیا‘ ہم تو آج تک اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہؓ دنیا سے رخصتی کے باوجود زندہ ہیں یا مکمل طور پر پردہ فرما چکے ہیں‘ ہمارے نفاق کی حالت تو یہ ہے‘ ہم آج تک داڑھی اور مسواک کا سائز طے کررہے ہیں‘ ہمارے ٹخنے نماز کے دوران ننگے ہونے چاہئیں یا ڈھکے ہوئے اور پردے کے لیے برقعہ لازمی ہے یا اسکارف سے بھی کام چل جائے گا ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے‘ ہم آج تک نماز کے دوران دونوں پاؤں کے فاصلے کا فیصلہ نہیں کر سکے‘ ہم سے شلوار اور پتلون کے مقدر کا فیصلہ نہیں ہو سکا‘ ہم نماز کے دوران آمین کی آواز کی پچ متعین نہیں کر سکے‘ ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکے صرف دینی علم کافی ہے یا پھر اس میں سائنس کی گنجائش بھی موجود ہے۔

اللہ کے رسولؐ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا تھا ’’ قتل نہ کرنا اور قرآن اورسنت کو تھامے رکھنا‘‘ لیکن ہم نے قرآن اور سنت کو اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل کی وجہ بنا لیا‘ کیا یہ اسلام ہے؟ کیا یہ شریعت ہے؟ اگر نہیں تو پھر مساجد کو فرقہ واریت‘ سنت اور قرآن کو اختلافات کا ذریعہ بنانے والے لوگ کون ہیں؟ آپ مسلمان ہیں اور عالم دین ہیں تو پہلے تقویٰ کو فضیلت کی بنیاد بنائیے‘ گورے اور کالے اور عربی اور عجمی کی تفریق ختم کیجیے‘ اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا دوسروں سے منسوب کرنا بند کیجیے‘ وارثوں کو پورا حصہ دیجیے اور وراثت میں اپنے حق سے زیادہ وصول کرنا بند کیجیے‘ مسجدوں اور درگاہوں کو وراثت بنانا بند کیجیے‘ پڑوسی سے وہ حسن سلوک کیجیے جس کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا‘ ملازموں کو معاف کرنا شروع کیجیے‘ اللہ کی رضا کو اپنے اعمال کا مرکز بنائیے‘ مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا بند کیجیے‘ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کیجیے اور اللہ کے رسولؐ نے آخری خطبے میں چار مہینوںکو احترام کے مہینے قرار دیا تھا‘ کم از کم ان مہینوں میں نفاق اور نفرت کا کاروبار بند کیجیے‘ ان مہینوں کو اتنا احترام دے دیجیے کہ ریاست کو موبائل فون بند کرنا پڑیں‘ ایمرجنسی لگانا پڑے‘ پولیس تعینات کرنا پڑے اور نہ ہی ڈبل سواری پر پابندی لگانا پڑے اور مسلمانوں کی جان‘ مال اور عزت کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیجیے اور اس کے بعد میرے جیسے گناہ گاروں کی اصلاح فرمایئے‘ ہم جیسے دنیادار آپ کے سائے میں بیٹھنا عبادت سمجھیں گے۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے‘ اللہ کے آخری نبیؐ کا آخری خطبہ دنیا کا عظیم چارٹر تھا لیکن ہم لوگ اس پورے چارٹر کو اپنی ذات اور اپنے معاشرے پر نافذ کرنے کے بجائے اس میں سے صرف سود کا حصہ اٹھاتے ہیں اور ریاست کو حکم دیتے ہیں ’’آپ فوری طور پر بلاسود بینکاری شروع کردیں‘‘ سود اسلام میں حرام ہے اور ہم جب تک اسے حرام نہیں سمجھتے ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا لیکن کیا عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکنا‘ مزارعوں کو غلام بنا کر رکھنا‘ خواتین کی شادی قرآن مجید سے کر دینا‘ معصوم بچیاں ونی کر دینا‘ نسل اور خاندان کی بنیاد پر انسانوں کو اچھا یا برا سمجھنا‘ مسجد‘ درگاہ اور مزار کو وراثت بنا لینا‘ کلمہ گو مسلمانوں کو کافر قرار دینا‘ عبادت کو اپنی اہلیت سمجھ لینا اور دوسروں کے قتل کے فتوے جاری کر دینا‘ کیا یہ حلال ہے؟ کیا یہ جائز ہے؟ ہمارے رسولؐ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا تھا لیکن ہم پچاس پچاس ہزار مرتبہ انسانیت کے قتل کے بعد بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں‘ اللہ کے رسولؐ نے حضرت ابوسفیانؓ کے گھر میں پناہ لینے والوں کو پناہ دی تھی لیکن ہم مسجدوں میں بیٹھے مسلمانوں کو پناہ نہیں دیتے‘ اللہ کے رسولؐ نے آخری خطبے میں قتل معاف کر دیے تھے اور ان قتلوں میں ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا قتل بھی شامل تھا مگر ہم صرف شناختی کارڈ دیکھ کر دوسروں کو قتل کر دیتے ہیں‘ کیا یہ شریعت ہے اور کیا ہم اس ملک میں یہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں؟ خدا کو مانیں اسلام صرف تلوار‘ کوڑا اور پتھر نہیں تھا‘ یہ صرف داڑھی‘ تسبیح‘ سجدہ اور روزہ بھی نہیں تھا‘ یہ برداشت‘ انکسار‘ حلیمی‘ شائستگی‘ توازن‘ فرائض‘ عدل اور احترام کا مذہب تھا لیکن ہم نے اس سے عدل‘ فرض‘ توازن‘ شائستگی‘ حلم‘ انکسار اور برداشت نکال دی‘ہم نے انسانیت کا چارٹر الماری میں بند کر دیا اور پتھر‘ کوڑے اور تلوار میز پر رکھ دیے اور ساتھ ہی ہم حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ’’ دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کرتی‘‘ ہم کس قدر بے وقوف ہیں‘ ہم یہ تک نہیں جانتے ہم نے جب اپنے رسولؐ کے احکامات کی عزت نہیں کی تو دنیا ہماری عزت کیوں کرے گی؟

 

شریعت پہلے یا اچھی حکومت


ہم مسلمان ہیں اور مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک یہ اللہ‘ اس کے رسولؐ اور قرآن مجید پر ایمان نہ لے آئے اور جب اللہ‘ اس کا رسولؐ اور قرآن مجید تینوں اکٹھے ہوتے ہیں تو شریعت بنتی ہے‘ ہم اگر شریعت سے قرآن مجید کو خارج کر دیں تو یہ شریعت نہیں رہے گی‘ ہم اس میں نبی اکرم ؐ کو سائیڈ پر کر دیں تو بھی شریعت نہیں ہو گی اور ہم اگر اس میں سے اللہ تعالیٰ کو نکال دیں تو بھی شریعت شریعت نہیں رہے گی لیکن اب سوال یہ ہے‘ کیا ریاست کے لیے صرف شریعت کافی ہے یا پھر ریاست کو اچھی حکومت‘ اچھا انتظام بھی چاہیے اور اگر ریاست کو اچھی حکومت چاہیے تو کیا اچھی حکومت پہلے آئے گی یا پھر شریعت۔ ہمارا قومی مستقبل اس سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنایا‘ جنہوں نے ملک میں شراب اور جوئے پر پابندی لگائی‘ جنہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا‘ جنہوں نے اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بنائی‘ جنہوں نے سرکاری اداروں میں نماز کے لیے وقفے رکھوائے اور جنہوں نے مذہبی تہواروں کے لیے چھٹیوں کا نیا نظام وضع کروایا۔ ہم جنرل ضیاء الحق کو اسلامی اقدار کا کریڈٹ دیتے ہیں جب کہ جنرل ضیاء الحق کا اسلام صرف ویسٹ کوٹ اور شیروانی تک محدود تھا‘ اصل کارنامہ ذوالفقار علی بھٹو نے سرانجام دیا تھا‘ بھٹو صاحب نے ملک کو ایک ایسا متفقہ آئین دیا جس پر ملک کے تمام جید علماء نے دستخط بھی کیے اور اسے تسلیم بھی کیا مگر پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا‘ ملک تباہی کے دہانے تک پہنچ گیا‘ وہ ملک جسے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایشیا کا لیڈر کہا جاتا تھا‘ اس کے ادارے اس قدر ڈیفالٹ میں چلے گئے کہ ملک کو فوج ’’ٹیک اوور‘‘ کرنے پر مجبور ہو گئی‘ کیوں؟ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے آئین‘ نفاذ شریعت کے عزائم اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اچھی حکومت کی سپورٹ دینے میں ناکام ہو گئے تھے‘ بھٹو صاحب نے ملک کو متفقہ اور اچھا آئین تو دے دیا لیکن یہ ملک کو متفقہ اور اچھی حکومت نہ دے سکے لہٰذا ملک تمام تر نیک خواہشات کے باوجود اسلامی جمہوریہ نہ بن سکا۔ یہ ناکامی فاتح افغانستان جنرل ضیاء الحق خلدمکانی کے حصے میں بھی آئی‘ یہ بھی اپنی تمام تر دینی خواہشات اور نفاذ شریعت کے عزائم کے باوجود پاکستان کو اسلامی ریاست نہ بنا سکے۔

یہ شہادت سے قبل افغانستان میں نصف درجن امیرا المومنین بنا گئے اور ان امراء المومنین نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی مگر جنرل صاحب پاکستان کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی یا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمران کا بندوبست نہ کر سکے‘ یوں بھٹو بھی ناکام رہا اور جنرل ضیاء الحق بھی اور ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف بھی اور حتیٰ کہ چوہدری شجاعت حسین بھی۔ چوہدری صاحب کی مٹی ختم ہو گئی لیکن پاکستان میں نفاذ شریعت کا پودا سر نہ اٹھا سکا‘ ہم جمہوریہ بن سکے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ!اس کی وجہ وہی تھی‘ ہماری دینی خواہشات کو اچھی اور مضبوط حکومت نہ ملی سکی۔ میں دنیا کے نامور مورخین‘ جید علماء کرام اور پاکستان کے سکہ بند مفتیان سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں ’’کیا نبی اکرمؐ نے مدینہ منورہ میں ریاست پہلے قائم کی تھی یا شریعت پہلے نافذ کی تھی؟‘

‘ آپ کا جواب اگر شریعت ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے‘ قرآن مجید کی آخری آیت 10 ہجری کو نازل ہوئی اور مدینہ منورہ کی ریاست پہلی ہجری میں قائم ہوئی لہٰذا پہلی ہجری سے 10 ہجری تک مدینہ منورہ کا نظام کیا تھا؟ کیا پھر یہ حقیقت نہیں مدینہ منورہ میں اس وقت اچھی حکومت تھی اور اچھی حکومت مدینہ منورہ میں شریعت سے قبل آئی تھی‘ اللہ کے رسولؐ نے سود کے خاتمے کا اعلان میدان عرفات میں حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا ‘ میں دنیا کے اس عظیم سماجی چارٹر میں سے وہ فقرے آپ کے حضور پیش کرتا ہوں‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اور آج سے ہر قسم کا سود ختم کیا جاتا ہے لیکن تم اپنی اصل رقم واپس لے سکتے ہو مگر تم بے انصافی نہیں کرو گے اور نہ تم سے بے انصافی ہو گی‘ اللہ کا فیصلہ ہے سود جائز نہیں اور جو سود سب سے پہلے ختم کیا جاتا ہے‘ وہ عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود ہے‘ یہ سب کا سب کالعدم ہے‘‘ آپ لوگ عالم دین ہیں‘ آپ قرآنی آیات کے نزول کے دن نکال کر دیکھ لیجیے‘ حضرت عباسؓ نے کب اسلام قبول کیا تھا اور ان کے سود کو کب کالعدم قرار دیا گیا تھا؟ شریعت پھر اتنا عرصہ سود کے معاملے میں کیوں خاموش رہی؟ ہم مسلمان ہیں اور کوئی مسلمان سود کی حمایت نہیں کر سکتا کیونکہ اسے ہمارے اللہ اور ہمارے اس رسولؐ نے ناجائز قرار دیا جن کی آن پر ہماری ہزاروں جانیں قربان لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے‘ ریاست میں اچھی اور مضبوط حکومت پہلے آتی ہے اور شریعت بعد میں۔

ہم اب اچھی حکومت کی طرف آتے ہیں‘ ہندوستان کا ایک بادشاہ تھا غیاث الدین بلبن‘ یہ ترک النسل تھا اور سلطان التتمش کا غلام تھا‘ یہ 1266ء میں ہندوستان کا بادشاہ بنا اور 21 سال حکمران رہا‘ یہ سخت مزاج‘ ڈسپلن کا پابند اور امن و امان کا داعی تھا‘ بلبن کے بارے میں کہا جاتا تھا‘ یہ خود ہنستا تھا اور نہ ہی اس کے سامنے کسی کو ہنسنے کی جرأت ہوتی تھی‘ بلبن جوانی میں ہر قسم کے عیب میں مبتلا تھا‘ یہ شراب بھی پیتا تھا‘ یہ رقص و سرود کی محفلیں بھی برپا کرتا تھا اور یہ دولت لٹانے کی عادت بد میں بھی مبتلا تھا لیکن جوں ہی اقتدار سنبھالا ‘ اس نے تمام بری عادتوں سے توبہ کرلی‘ یہ ہمیشہ باوضو رہتا تھا‘ تہجد‘ چاشت اور اشراق تک کی نماز قضا نہیں کرتا تھا‘ علماء کا احترام کرتا تھا‘ راضی برضا رہتا تھا‘ روز قبرستان جاتا تھا‘ قبریں دیکھتا تھا اور ہر حال میں ساتھیوں کے جنازوں میں شریک ہوتا تھا‘ اس کے غلاموں نے اسے کبھی ننگے سر اور ننگے پاؤں نہیں دیکھا تھا لیکن ان تمام مذہبی عادات کے باوجود وہ لاء اینڈ آرڈر پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرتا تھا‘ باغی چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم وہ اسے پوری طاقت سے کچل دیتا تھا.

وہ ایک شخص کی بغاوت یا سرکشی پر پورا شہر اور سارا لشکر قتل کرا دیتا تھا‘ وہ ہر حال میں قانون پر عمل درآمد کراتا تھا اور وہ اس کے لیے کسی بھی شخص کو کسی بھی قسم کا استثنیٰ نہیں دیتا تھا‘ مجرموں کے معاملے میں وہ اس قدر سنگ دل واقع ہوا تھا کہ وہ ان کی گرفتاری کے لیے فوج کو جنگ میں جھونک دیتا تھا‘ اس کا دور ہندوستان کے سنہری ترین ادوار میں شمار ہوتا تھا‘ وہ 1287ء میں انتقال کر گیا لیکن آپ اس کی رٹ ملاحظہ کیجیے‘ غیاث الدین بلبن کے مرنے کے ساٹھ سال بعد تک ہندوستان کی سڑکیں محفوظ رہیں‘ لوگوں کا خیال تھا غیاث الدین بلبن ہمیں قبر میں دیکھ رہا ہے اور ہم نے جوں ہی کسی کو لوٹنے کی کوشش کی‘ وہ قبر سے اٹھے گا‘ ہماری گردن اتارے گا اور دوبارہ قبر میں جا کر سو جائے گا‘ یہ ہوتی ہے ریاست اور یہ ہوتی ہے اچھی حکمرانی۔ آپ آج کے دور میں ڈنمارک کی مثال لیجیے‘ یہ چھوٹا سا ملک ہے‘ ہم اس کو اخلاقی لحاظ سے قطعاً آئیڈیل ملک نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس ملک میں جنسی بے راہ روی بھی ہے‘ سودی کاروبار بھی‘ فحاشی بھی‘ عریانی بھی‘ شراب خانے بھی اور رقص گاہیں بھی مگر آپ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ملاحظہ کیجیے‘ ڈنمارک میں 75 برس میں قتل کی صرف 15 وارداتیں ہوئیں جب کہ ڈاکہ زنی‘ چوری اور زنا کاری کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں‘ ڈنمارک میں پولیس اور عدالتی عملہ فارغ بیٹھا رہتا ہے۔

حکومت جیلیں ختم کر کے انھیں ہاسٹل اور ہوٹلز میں تبدیل کر رہی ہے‘ ہم اس کے مقابلے میں اپنے ملک کو دیکھیں تو صرف کراچی شہر میں روزانہ 15لوگ ناحق مارے جاتے ہیں‘ ہمارے پاس پانچ لاکھ پولیس اہلکار ہیں مگر ہم ان کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں‘ ہمارے ججوں کے پاس روزانہ دو دو‘ تین تین سو مقدموں کی فائلیں آتی ہیں‘ ہماری جیلوں میں قتل کے پانچ ہزار قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں‘ 87 ہزار مجرم جیلوں میں بند ہیں اور ہمیں اگلے دس برسوں میں جیلوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ کرنا پڑے گا‘ ہمارے ملک میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے‘ عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکا جاتا ہے‘ مسجدوں کے دروازے سے جوتے اٹھائے جاتے ہیں‘ مسجدوں کے پنکھے چوری ہوتے ہیں اور قبروں کی سلیں تک اٹھا لی جاتی ہیں‘ بینک بھی لوٹے جاتے ہیں‘ لوگ بھی اغوا ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو مسجدوں میں نماز کے دوران شہید بھی کر دیا جاتا ہے چنانچہ ملک کون سا اچھا ہوا‘ وہ جس میں 75 برسوں سے صرف 15 قتل ہوئے یا پھر وہ جس کے ایک ایک شہر میں روزانہ 15 قتل ہو رہے ہیں‘ آپ کبھی ٹھنڈے دل سے سوچئے گا؟ سعودی عرب ہمارے لیے محترم ترین ملک ہے لیکن لوگ احرام میں ہیروئن چھپا کر جدہ اترتے ہیں‘ لوگوں کو وہاں سنگ سار بھی کیا جاتا ہے‘ ان کی گردنیں بھی اتاری جاتی ہیں اور ان کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جرائم نہیں رک رہے‘ آپ دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی دیکھ لیجیے‘آپ کو وہاں کی صورتحال بھی آئیڈیل نظر نہیں آئے گی‘ کیوں؟ کیونکہ ہم سب مسلمان نبی اکرمؐ کی ترتیب کے مطابق نہیں چل رہے‘ ہم حکومتی نظام اور حکمرانوں کو بہتر بنانے سے قبل شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں‘ ہم اچھی حکومت قائم کرنے کے بجائے ریاست کو شریعت سے اسٹارٹ کرنا چاہتے ہیں اور یوں ہم الجھ جاتے ہیں۔

میرا علماء کرام سے ایک اور سوال بھی ہے ’’شریعت پر عمل کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے‘ حکومت پر یا علماء کرام پر؟ کیا ہمیں شریعت کے نفاذ کے لیے مضبوط اور اچھی حکومت کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر جس ریاست میں گاؤں کے لوگ گیس پائپ لائین کی مرمت نہ کرنے دیں یا شر پسند عناصر پائپ لائین اڑا جائیں اور ریاست انھیں گرفتار نہ کر سکے کیا وہ ریاست ملک میں شریعت نافذ کر سکے گی اور جس میں حکومت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکاء اشرف سے اپنا فیصلہ نہ منوا سکے‘ جس میں حکومت عوام سے بجلی کے بل وصول نہ کر سکے‘ کنڈے نہ اتروا سکے اور جس میں حکومت ٹرین کے وقت ریلوے کے پھاٹک بند نہ کروا سکے‘ کیا آپ سمجھتے ہیں وہ حکومت ملک میں اسلامی قوانین نافذ کر دے گی‘‘ اچھی اور مضبوط حکومت کے بغیر شریعت آ سکے گی اور نہ ہی اسلامی قوانین ‘ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمیں بہرحال تسلیم کرنا ہوگا۔

جاوید چوہدری   

یہ ہے شریعت


والدہ نے سات دن دودھ پِلایا، آٹھویں دن دشمن اسلام ابو لہب کی کنیز ثوبیہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا، ثوبیہ نے دودھ بھی پلایا اور دیکھ بھال بھی کی، یہ چند دن کی دیکھ بھال تھی، یہ چند دن کا دودھ تھا لیکن ہمارے رسولؐ نے اس احسان کو پوری زندگی یاد رکھا، مکہ کا دور تھا تو ثوبیہ کو میری ماں میری ماں کہہ کر پکارتے تھے، ان سے حسن سلوک بھی فرماتے تھے، ان کی مالی معاونت بھی کرتے تھے، مدنی دور آیا تو مدینہ سے ابولہب کی کنیز ثوبیہ کے لیے کپڑے اور رقم بھجواتے تھے، یہ ہے شریعت۔

حضرت حلیمہ سعدیہ رضاعی ماں تھیں، یہ ملاقات کے لیے آئیں، دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے اور میری ماں، میری ماں پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑ پڑے، وہ قریب آئیں تو اپنے سر سے وہ چادر اتار کر زمین پر بچھا دی جسے ہم کائنات کی قیمتی ترین متاع سمجھتے ہیں، اپنی رضاعی ماں کو اس پر بٹھایا، غور سے ان کی بات سنی اور ان کی تمام حاجتیں پوری فرما دیں، یہ بھی ذہن میں رہے، حضرت حلیمہ سعدیہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ اپنے پرانے مذہب پر قائم رہی تھیں، فتح مکہ کے وقت حضرت حلیمہ کی بہن خدمت میں حاضر ہوئی، ماں کے بارے میں پوچھا، بتایا گیا، وہ انتقال فرما چکی ہیں، رسول اللہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، روتے جاتے تھے اور حضرت حلیمہ کو یاد کرتے جاتے تھے، رضاعی خالہ کو لباس، سواری اور ایک سو درہم عنایت کیے، رضاعی بہن شیما غزوہ حنین کے قیدیوں میں شریک تھی، پتہ چلا تو انھیں بلایا، اپنی چادر بچھا کر بٹھایا، اپنے ہاں قیام کی دعوت دی، حضرت شیما نے اپنے قبیلے میں واپس جانے کی خواہش ظاہر کی، رضاعی بہن کو غلام، لونڈی اور بکریاں دے کر رخصت کر دیا، یہ بعد ازاں اسلام لے آئیں، یہ ہے شریعت۔

جنگ بدر کے قیدیوں میں پڑھے لکھے کفار بھی شامل تھے، ان کافروں کو مسلمانوں کو پڑھانے، لکھانے اور سکھانے کے عوض رہا کیا گیا، حضرت زید بن ثابتؓ کو عبرانی سیکھنے کا حکم دیا‘ آپؓ نے عبرانی زبان سیکھی اور یہ اس زبان میں یہودیوں سے خط و کتابت کرتے رہے، کافروں کا ایک شاعر تھا، سہیل بن عمرو۔ یہ رسول اللہ کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں بھی کرتا تھا اور توہین آمیز شعر بھی کہتا تھا، یہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا، سہیل بن عمرو کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا گیا، حضرت عمرؓ نے تجویز دی، میں اس کے دو نچلے دانت نکال دیتا ہوں‘ یہ اس کے بعد شعر نہیں پڑھ سکے گا، تڑپ کر فرمایا ’’ میں اگر اس کے اعضاء بگاڑوں گا تو اللہ میرے اعضاء بگاڑ دے گا‘‘ سہیل بن عمرو نے نرمی کا دریا بہتے دیکھا تو عرض کیا ’’ مجھے فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے گا‘‘ اس سے پوچھا گیا ’’کیوں؟‘‘ سہیل بن عمرو نے جواب دیا ’’ میری پانچ بیٹیاں ہیں، میرے علاوہ ان کا کوئی سہارا نہیں‘‘ رسول اللہ نے سہیل بن عمرو کو اسی وقت رہا کر دیا، یہاں آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے، سہیل بن عمرو شاعر بھی تھا اور گستاخ رسول بھی لیکن رحمت اللعالمینؐ کی غیرت نے گوارہ نہ کیا، یہ پانچ بچیوں کے کفیل کو قید میں رکھیں یا پھر اس کے دو دانت توڑ دیں‘ یہ ہے شریعت۔

غزوہ خندق کا واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ عمرو بن عبدود مشرک بھی تھا، ظالم بھی اور کفار کی طرف سے مدینہ پر حملہ آور بھی ۔ جنگ کے دوران عمرو بن عبدود مارا گیا، اس کی لاش تڑپ کر خندق میں گر گئی، کفار اس کی لاش نکالنا چاہتے تھے لیکن انھیں خطرہ تھا، مسلمان ان پر تیر برسا دیں گے، کفار نے اپنا سفیر بھجوایا، سفیر نے لاش نکالنے کے عوض دس ہزار دینار دینے کی پیش کش کی، رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا ’’میں مردہ فروش نہیں ہوں، ہم لاشوں کا سودا نہیں کرتے، یہ ہمارے لیے جائز نہیں‘‘ کفار کو عمرو بن عبدود کی لاش اٹھانے کی اجازت دے دی، خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تورات کے نسخے پڑے تھے، تورات کے سارے نسخے اکٹھے کروائے اور نہایت ادب کے ساتھ یہ نسخے یہودیوں کو پہنچا دیے اور خیبر سے واپسی پر فجر کی نماز کے لیے جگانے کی ذمے داری حضرت بلالؓ کو سونپی گئی، حضرت بلالؓ کی آنکھ لگ گئی، سورج نکل آیا تو قافلے کی آنکھ کھلی، رسول اللہ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا ’’بلال آپ نے یہ کیا کیا‘‘ حضرت بلالؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ جس ذات نے آپؐ کو سلایا، اس نے مجھے بھی سلا دیا‘‘ تبسم فرمایا اور حکم دیا ’’تم اذان دو‘‘ اذان دی گئی، آپؐ نے نماز ادا کروائی اور پھر فرمایا ’’تم جب نماز بھول جاؤ تو پھر جس وقت یاد آئے اسی وقت پڑھ لو‘‘ یہ ہے شریعت۔

حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سفر کر رہے تھے، کفار جنگ بدر کے لیے مکہ سے نکلے، کفار نے راستے میں حضرت حذیفہؓ کو گرفتار کر لیا، آپ سے پوچھا گیا، آپ کہاں جا رہے ہیں، حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا ’’مدینہ‘‘ کفار نے ان سے کہا ’’ آپ اگر وعدہ کرو، آپ جنگ میں شریک نہیں ہو گے تو ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘ حضرت حذیفہؓ نے وعدہ کر لیا، یہ اس کے بعد سیدھے مسلمانوں کے لشکر میں پہنچ گئے‘ مسلمانوں کو اس وقت مجاہدین کی ضرورت بھی تھی، جانوروں کی بھی اور ہتھیاروں کی بھی لیکن جب حضرت حذیفہ ؓ کے وعدے کے بارے میں علم ہوا تو مدینہ بھجوا دیا گیا اور فرمایا ’’ہم کافروں سے معاہدے پورے کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں صرف اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں‘‘ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا، رسول اللہ نے عیسائی پادریوں کو نہ صرف ان کے روایتی لباس میں قبول فرمایا بلکہ انھیں مسجد نبویؐ میں بھی ٹھہرایا اور انھیں ان کے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی تھی‘ یہ عیسائی وفد جتنا عرصہ مدینہ میں رہا، یہ مسجد نبویؐ میں مقیم رہا اور مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کرتا رہا۔

ایک مسلمان نے کسی اہل کتاب کو قتل کر دیا، آپؐ نے مسلمان کے خلاف فیصلہ دیا اور یہ مسلمان قتل کے جرم میں قتل کر دیا گیا، حضرت سعد بن عبادہؓ نے فتح مکہ کے وقت مدنی ریاست کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا، یہ مکہ میں داخل ہوتے وقت جذباتی ہو گئے اور انھوں نے حضرت ابو سفیانؓ سے فرمایا ’’آج لڑائی کا دن ہے، آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا‘‘ رحمت اللعالمینؐ نے سنا تو ناراض ہو گئے، ان کے ہاتھ سے جھنڈا لیا، ان کے بیٹے قیسؓ کے سپرد کیا اور فرمایا ’’نہیں آج لڑائی نہیں، رحمت اور معاف کرنے کا دن ہے‘‘۔ مدینہ میں تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا، مدینہ سے رقم جمع کی، خوراک اور کپڑے اکٹھے کیے اور یہ سامان مکہ بھجوا دیا اور ساتھ ہی اپنے اتحادی قبائل کو ہدایت کی ’’مکہ کے لوگوں پر برا وقت ہے، آپ لوگ ان سے تجارت ختم نہ کریں‘‘۔ مدینہ کے یہودی اکثر مسلمانوں سے یہ بحث چھیڑ دیتے تھے ’’نبی اکرم فضیلت میں بلند ہیں یا حضرت موسیٰ ؑ ‘‘ یہ معاملہ جب بھی دربار رسالت میں پیش ہوتا، رسول اللہ مسلمانوں سے فرماتے ’’آپ لوگ اس بحث سے پرہیز کیا کریں‘‘۔

ثماثہ بن اثال نے رسول اللہ کو قتل کرنے کا اعلان کر رکھا تھا‘ یہ گرفتار ہو گیا، اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اس نے انکار کر دیا، یہ تین دن قید میں رہا، اسے تین دن دعوت دی جاتی رہی، یہ مذہب بدلنے پر تیار نہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا گیا، اس نے راستے میں غسل کیا، نیا لباس پہنا، واپس آیا اور دست مبارک پر بیعت کر لی۔ ابو العاص بن ربیع رحمت اللعالمین ؐکے داماد تھے، رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ ان کے عقد میں تھیں، یہ کافر تھے، یہ تجارتی قافلے کے ساتھ شام سے واپس مکہ جا رہے تھے، مسلمانوں نے قافلے کا مال چھین لیا، یہ فرار ہو کر مدینہ آگئے اور حضرت زینبؓ کے گھر پناہ لے لی، صاحبزادی مشورے کے لیے بارگاہ رسالت میں پیش ہو گئیں‘ رسول اللہ نے فرمایا ’’ابوالعاص کی رہائش کا اچھا بندوبست کرو مگر وہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ تم اس کے لیے حلال نہیں ہو‘‘ حضرت زینبؓ نے عرض کیا ’’ابوالعاص اپنا مال واپس لینے آیا ہے‘‘ مال چھیننے والوں کو بلایا اور فرمایا گیا ’’یہ مال غنیمت ہے اور تم اس کے حق دار ہو لیکن اگر تم مہربانی کر کے ابوالعاص کا مال واپس کر دو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اجر دے گا‘‘ صحابہؓ نے مال فوراً واپس کر دیا، آپ ملاحظہ کیجیے، حضرت زینبؓ قبول اسلام کی وجہ سے مشرک خاوند کے لیے حلال نہیں تھیں لیکن رسول اللہ نے داماد کو صاحبزادی کے گھر سے نہیں نکالا، یہ ہے شریعت۔

حضرت عائشہ ؓنے ایک دن رسول اللہ سے پوچھا ’’ زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا‘‘ فرمایا، وہ دن جب میں طائف گیا اور عبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے، میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا، عبدیالیل طائف کا سردار تھا، اس نے رسول اللہ پر اتنا ظلم کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی جلال میں آ گئی‘ حضرت جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کیا، اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیں، یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیش کش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا، عبد یالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا، رسول اللہ نے مسجد نبویؐ میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا، رسول اللہ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے‘ اس کا حال احوال پوچھتے، اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کی دل جوئی کرتے۔

عبداللہ بن ابی منافق اعظم تھا، یہ فوت ہوا تو اس کی تدفین کے لیے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا‘ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور یہ بھی فرمایا، میری ستر دعاؤں سے اگر اس کی مغفرت ہوسکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ بار اس کے لیے دعا کرتا‘‘ یہ ہے شریعت۔ مدینہ کی حدود میں آپ کی حیات میں نو مسجدیں تعمیر ہوئیں، آپؐ نے فرمایا ’’تم اگر کہیں مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو‘‘ یہ ہے شریعت۔

ایک صحابیؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں‘‘ جواب دیا ’’غصہ نہ کرو‘‘ وہ بار بار پوچھتا رہا، آپؐ ہر بار جواب دیتے ’’غصہ نہ کرو‘‘ یہ ہے شریعت اور اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا ’’ پیغمبرؐ اللہ کی بڑی رحمت ہیں، آپ لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں، آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے چھٹ جاتے‘‘ اور یہ ہے شریعت لیکن ہم لوگ نہ جانے کون سی شریعت تلاش کر رہے ہیں، ہم کس شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیا کوئی صاحب علم میری رہنمائی کرسکتا ہے؟۔


بشکریہ روزنامہ 'ایکسپریس'